صحیح بخاری شریف

قرآن پاک کی تفسیرکا بیان

Ahadith 4474-4977

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


سورۃ فاتحہ کی تفسیر

أُمَّ ، ماں کو کہتے ہیں۔ أُمَّ الْكِتَابِ اس سورۃ کا نام اس لئے  رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اسی سے کتابت کی ابتداء ہوتی ہے اور نماز میں بھی قرأت اسی سے شروع کی جاتی ہے۔

 اور ‏‏‏‏‏‏الدِّينُ بدلہ کے معنی میں ہے۔ خواہ اچھائی میں ہو یا برائی میں جیسا کہ بولتے ہیں كَمَا تَدِينُ تُدَانُ   جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ مجاہد نے کہا کہ الدِّينُ حساب کے معنیٰ میں ہے جبکہ مَدِينِينَ بمعنی مُحَاسَبِينَ ہے یعنی حساب کئے گئے۔

حدیث نمبر  ۴۴۷۴

راوی: ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ

 میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی حالت میں بلایا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا پھر بعد میں، میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا ہے اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (۸:۲۴) اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوں گا جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ آپ نے مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔

غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ

نہ وہ جن پر غصّہ ہوا، اور بہکنے والے۔(۱:۷)

حدیث نمبر  ۴۴۷۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (۱:۷)کہے تو تم آمِينَ کہو کیونکہ جس کا یہ کہنا ملائکہ کے کہنے کے ساتھ ہو جائے اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔

سورۃ البقرہ کی تفسیر

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا

اور سکھائے آدم کو نام سارے (۲:۳۱)

حدیث نمبر  ۴۴۷۶

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  مؤمنین  قیامت  کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور آپس میں کہیں گے، بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لئے  فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لئے  اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے میرے بعد زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔

سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرأت نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔

 چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔

میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہو گی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لئے  ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا۔

 چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لئے  جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔

 ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ قرآن کی رُو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جنکے لئے کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

مجاہد نے کہا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ سے ان کے دوست منافق اور مشرک مراد ہیں۔ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ کے معنی اللہ کافروں کو اکٹھا کرنے والا ہے۔ عَلَى الْخَاشِعِينَ میں خَاشِعِينَ سے مراد پکے ایماندار ہیں۔    بِقُوَّةٍ  یعنی اس پر عمل کر کے قوت سے یہی مراد ہے۔

 ابوالعالیہ نے کہا   مَرَضٌ سے شك مراد ہے۔ صبغة سے دین مراد ہے۔ خَلْفَهَا یعنی پچھلے لوگوں کے لئے  عبرت جو باقی رہی۔ وَمَا خَلْفَهَا  کا معنی اس میں سفیدی نہیں

اور ابوالعالیہ کے سوا نے کہا   يَسُومُونَكُمْ  کا معنی تم پر اٹھاتے تھے یا تم کو ہمیشہ تکلیف پہنچاتے تھے۔ اور سورۃ الکہف میں الْوَلَايَةُ  بفتح واؤ ہے جس کے معنی الرُّبُوبِيَّةُ یعنی خدائی کے ہیں۔ اور بکسر واؤ اس کے معنی سرداری کے ہیں۔

 بعض لوگوں نے کہا جن جن اناجوں کو لوگ کھاتے ہیں ان کو فُومٌ کہتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو ثوم پڑھا ہے یعنی لہسن کے معنی میں لیا ہے۔ فادارأتم  کا معنی تم نے آپس میں جھگڑا کیا۔ قتادہ نے کہا فَبَاءُوا یعنی لوٹ گئے اور قتادہ کے سوا دوسرے شخص ابو عبیدہ نے کہا   يَسْتَفْتِحُونَ  کا معنی مدد مانگتے تھے۔ شَرَوْا کے معنی بیجا۔ لفظ رَاعِنَا ، الرُّعُونَةِ  سے نکلا ہے۔ عرب لوگ جب کسی کو احمق بناتے تو اس کو لفظ رَاعِنًا سے پکارتے۔  

لَا يَجْزِي  کچھ کام نہ آئے گی۔ ابْتَلَى کے معنی آزمایا جانچا۔ خُطُوَاتِ  لفظ خَطْوِ  بمعنی قدم کی جمع ہے۔

فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

سو نہ ٹھہراؤ اﷲ کے برابر کوئی، اور تم جانتے ہو۔(۲:۲۲)

حدیث نمبر  ۴۴۷۷

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟

فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے،

پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟

فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔

میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى ... وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

اور تم پر ہم نے بادل کا سایہ کیا ، اور تم پر ہم نے من و سلویٰ اتارا اور کہا کہ کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں ،

ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے نے خود اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔ (۲:۵۷)

آیت مذکورہ کی تفسیر میں مجاہد نے کہا کہ الْمَنُّ ایک درخت کا گوند تھا اور ‏‏‏‏‏‏وَالسَّلْوَى پرندے تھے۔

حدیث نمبر  ۴۴۷۸

راوی: سعید بن زید رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   الْكَمْأَةُ  یعنی کھنبی بھی الْمَنُّ کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ ... وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور پوری کشادگی کے ساتھ جہاں چاہو اپنا رزق کھاؤ اور دروازے سے جھکتے ہوئے داخل ہونا ،

یوں کہتے ہوئے کہ اے اللہ ! ہمارے گناہ معاف کر دے تو ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور خلوص کے ساتھ عمل کرنے والوں کے ثواب میں ہم زیادتی کریں گے ۔(۲:۵۸)

لفظ رَغَدًا کے معنی بہت فراخ کے ہیں ۔

حدیث نمبر  ۴۴۷۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھکتے ہوئے داخل ہوں اور حِطَّةٌ  کہتے ہوئے یعنی اے اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے۔ لیکن وہ الٹے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ حِطَّةٌ  کو بھی بدل دیا اور کہا کہ حِطَّةٌ حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ یعنی دل لگی کے طور پر کہنے لگے کہ دانہ بال کے اندر ہونا چاہیے۔

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ

جو کوئی ہو گا دشمن جبریل کا، سو اس نے تو اُتارا ہے یہ کلام، تیرے دل پر اﷲ کے حکم سے، (۲:۹۷)

عکرمہ نے کہا کہ الفاظ جَبْرَ ، وَمِيكَ، وَسَرَافِ تینوں کے معنی بندہ کے ہیں اور لفظ   إِيلِ عبرانی زبان میں الله‏ کے معنی میں ہے۔

حدیث نمبر  ۴۴۸۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 جب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو یہود کے بڑے عالم تھے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے۔ وہ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے ایسی تین چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بتلائیے!

قیامت  کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟

اہل جنت کی دعوت کے لئے  سب سے پہلے کیا چیز پیش کی جائے گی؟

بچہ کب اپنے باپ کی صورت میں ہو گا اور کب اپنی ماں کی صورت پر؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ابھی جبرائیل نے آ کر ان کے متعلق بتایا ہے۔ عبداللہ بن سلام بولے جبرائیل علیہ السلام نے! فرمایا ہاں، عبداللہ بن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ  (۲:۹۷)

اور ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا،

- قیامت  کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہو گی جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر لائے گی۔

- اہل جنت کی دعوت میں جو کھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہو گا

- اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غلبہ کر جاتا ہے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ کر جاتا ہے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے۔

 عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔

پھر عرض کی یا رسول اللہ! یہودی بڑی بہتان باز قوم ہے، اگر اس سے پہلے کہ آپ میرے متعلق ان سے کچھ پوچھیں، انہیں میرے اسلام کا پتہ چل گیا تو مجھ پر بہتان تراشیاں شروع کر دیں گے۔

 بعد میں جب یہودی آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ عبداللہ تمہارے یہاں کیسے آدمی سمجھے جاتے ہیں؟

وہ کہنے لگے، ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے! ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟

کہنے لگے، اللہ تعالیٰ اس سے انہیں پناہ میں رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ظاہر ہو کر کہا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔

اب وہی یہودی ان کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ ہم میں سب سے بدتر ہے اور سب سے بدتر شخص کا بیٹا ہے اور ان کی توہین شروع کر دی۔

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ! یہی وہ چیز تھی جس سے میں ڈرتا تھا۔

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا

جو موقوف منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو پہنچاتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر (۲:۱۰۶)

حدیث نمبر  ۴۴۸۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم میں سب سے بہتر قاری قرآن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں اور ہم میں سب سے زیادہ علی رضی اللہ عنہ میں قضاء یعنی فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے باوجود ہم ابی رضی اللہ عنہ کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے جو ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن آیات کی بھی تلاوت سنی ہے، میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے  مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا  کہ ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ  

اور کہتے ہیں، اﷲ رکھتا ہے اولاد، وہ سب سے نرالا (۲:۱۱۶)

حدیث نمبر  ۴۴۸۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے  یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ اس کے لئے  یہ مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میرے لئے  اولاد بتاتا ہے، میری ذات اس سے پاک ہے کہ میں اپنے لئے  بیوی یا اولاد بناؤں۔

وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

اور کر رکھو، جہاں کھڑا ہوا ابراہیم، نماز  (۲:۱۲۵)

حدیث نمبر  ۴۴۸۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

عمر رضی اللہ عنہ فرمایا، تین مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے حکم سے میری رائے نے پہلے ہی موافقت کی یا میرے رب نے تین مواقع پر میری رائے کے موافق حکم نازل فرمایا۔

میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! کیا اچھا ہوتا کہ آپ مقام ابراہیم کو طواف کے بعد نماز پڑھنے کی جگہ بناتے تو بعد میں یہی آیت نازل ہوئی۔

اور میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ کے گھر میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ آپ امہات المؤمنین کو پردہ کا حکم دے دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب پردہ کی آیت نازل فرمائی۔

 اور مجھے بعض ازواج مطہرات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی خبر ملی۔ میں نے ان کے یہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے  بدل دے گا۔ بعد میں ازواج مطہرات میں سے ایک کے ہاں گیا تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی ازواج کو اتنی نصیحتیں نہیں کرتے جتنی تم انہیں کرتے رہتے ہو۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ  

کوئی تعجب نہ ہونا چاہئیے اگر اس نبی کا رب تمہیں طلاق دلا دے اور دوسری مسلمان بیویاں تم سے بہتر بدل دے۔ آخر آیت تک۔ (۶۶:۵)

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اور جب اٹھانے لگا ابراہیم بنیادیں اس گھر کی اور اسمٰعیل۔ تو دعا کرتے جاتے تھے اے رب قبول کر ہم سے۔ تو ہی ہے اصل سنتا جانتا۔ (۲:۱۲۷)

قَوَاعِد کا واحد قَاعِدَةٌ، آتا ہے اور عورتوں کے بارے میں جب لفظ قَوَاعِد بولتے ہیں تو اس کا واحد قاعد‏ آتا ہے۔

حدیث نمبر  ۴۴۸۴

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھتی نہیں ہو کہ جب تمہاری قوم قریش نے کعبہ کی تعمیر کی تو ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے اسے کم کر دیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر آپ ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں کے مطابق پھر سے کعبہ کی تعمیر کیوں نہیں کروا دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری قوم ابھی نئی نئی کفر سے نکلی نہ ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا ۔

 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا، عائشہ رضی اللہ عنہا نےجو  کہا کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکنوں کا جو حطیم کے قریب ہیں طواف کے وقت چھونا اسی لئے  چھوڑا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کے مطابق مکمل نہیں تھی۔

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا  

تم کہو، ہم نے یقین کیا اﷲ کو اور جو اترا ہم پر (۲:۱۳۶)

حدیث نمبر  ۴۴۸۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 اہل کتاب یہودی توراۃ کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کیلئے  اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو

 قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا

ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے۔(۲:۱۳۶)

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَنْ ... مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

بہت جلد بیوقوف لوگ کہنے لگیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا ،

آپ کہہ دیں کہ اللہ ہی کے لئے  سب مشرق و مغرب ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کر دیتا ہے ۔ (۲:۱۴۲)

حدیث نمبر  ۴۴۸۶

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی لیکن آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کعبہ ہو جائے آخر ایک دن اللہ کے حکم سے آپ نے عصر کی نماز بیت اللہ کی طرف رخ کر کے پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی پڑھی۔ جن صحابہ نے یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی تھی، ان میں سے ایک صحابی مدینہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے۔ اس مسجد میں لوگ رکوع میں تھے، انہوں نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔

 اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ جو لوگ کعبہ کے قبلہ ہونے سے پہلے انتقال کر گئے، ان کے متعلق ہم کیا کہیں۔ ان کی نمازیں قبول ہوئیں یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئ

 وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ  

اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری عبادات کو ضائع کرے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے۔(۲:۱۴۲)

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

اور اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط یعنی اُمت عادل بنایا ، تاکہ تم لوگوں پرگواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔ (۲:۱۴۳)

حدیث نمبر  ۴۴۸۷

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت  کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا۔ وہ عرض کریں گے  اللہ رب العزت فرمائے گا، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا، پھر ان کی اُمت سے پوچھا جائے گا، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا نوح علیہ السلام سے کہ آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت میری گواہ ہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور رسول یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے حق میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے سچی گواہی دی ہے یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشاد سے

 وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

اور اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں کے لئے  گواہی دو اور رسول تمہارے لئے  گواہی دیں۔ (۲:۱۴۳)

آیت میں لفظ   وَسَط کے معنی عادل، منصف، بہتر کے ہیں۔

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ ...  إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ

اور جس قبلہ پر آپ اب تک تھے ، اسے تو ہم نے اسی لئے  رکھا تھا کہ ہم جان لیں رسول کی اتباع کرنے والے کو ، الٹے پاؤں واپس چلے جانے والوں میں سے ،

یہ حکم بہت بھاری ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جنہیں اللہ نے راہ دکھا دی ہے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہو جانے دے ، تمہارے ایمان یعنی پہلی نمازوں کو اور اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان ہے ۔(۲:۱۴۳)

حدیث نمبر ۴۴۸۸

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، لہٰذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کر لیں۔ سب نمازی اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔

 قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ  …وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

ہم دیکھتے ہیں پھر جانا تیرا منہ آسمان میں۔سو البتہ پھیر دیں گے تجھ کو جس قبلے کی طرف تُو راضی ہے۔ اب پھیر منہ اپنا طرف مسجد الحرام کے۔ اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منہ اسی طرف۔

اور جن کو ملی ہے کتاب، البتہ جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے انکے رب کی طرف سے۔ اور اﷲ بےخبر نہیں ان کاموں سے جو کرتے ہیں۔(۲:۱۴۴)

حدیث نمبر ۴۴۸۹

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میرے سوا ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی اور کوئی اب زندہ نہیں رہا۔

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ …إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ

اور اگر تُو لائے کتاب والوں پاس ساری نشانیاں، نہ چلیں گے تیرے قبلے پر۔اور تُو نہ مانے ان کا قبلہ۔اور نہ ان میں ایک مانتا ہے دوسرے کا قبلہ۔

اور کبھی تُو چلا ان کی پسند پر، بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا۔تو بیشک تُو بھی ہے بے انصافوں میں۔(۲:۱۴۵)

حدیث نمبر ۴۴۹۰

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب وہاں آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے کہ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، پس آپ لوگ بھی اب کعبہ کی طرف رخ کر لیں۔ لوگوں کا منہ اس وقت شام بیت المقدس کی طرف تھا، اسی وقت لوگ کعبہ کی طرف پھر گئے۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ ...  فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

جن کو ہم نے دی ہے کتاب، پہچانتے ہیں یہ بات، جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو۔

اور ایک فرقہ ان میں چھپاتے ہیں حق کو جان کر۔حق وہی جو تیرا رب کہے، پھر تُو نہ ہو شک لانے والا۔ (۲:۱۴۶،۷)

حدیث نمبر ۴۴۹۱

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب مدینہ سے آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم ہوا ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کر لیں۔ اس لئے  آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف پھر جائیں۔ اس وقت ان کا منہ شام کی طرف تھا۔ چنانچہ سب نمازی کعبہ کی طرف پھر گئے۔

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اور ہر کسی کو ایک طرف ہے، کہ منہ کرتا ہے اس طرف، سو تم سبقت چاہو نیکیوں میں۔ جس جگہ تم ہو گے، کر لائے گا اﷲ اکٹھا۔ بیشک اﷲ ہر چیز کر سکتا ہے۔ (۲:۱۴۸)

حدیث نمبر ۴۴۹۲

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

باباور آپ جس جگہ سے بھی باہر نکلیں نماز میں اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیا کریں اور یہ حکم آپ کے پروردگار کی طرف سے بالکل حق ہے اور اللہ اس سے بےخبر نہیں ، جو تم کر رہے ہو ۔( ۲:۱۴۹)

لفظ   شطره  کے معنی قبلہ کی طرف کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۴۹۳

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف منہ کر لینے کا حکم ہوا ہے۔ اس لئے  آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف منہ کر لیں اور جس حالت میں ہیں، اسی طرح اس کی طرف متوجہ ہو جائیں یہ سنتے ہی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔

 اس وقت لوگوں کا منہ شام کی طرف تھا۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ …وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

اور جہاں سے تُو نکلے منہ کر طرف مسجد الحرام کے۔اور جس جگہ تم ہوا کرو منہ کرو اُسی کی طرف، کہ نہ رہے لوگوں کو تم سے جھگڑنے کی جگہ۔

مگر جو ان میں بے انصاف ہیں سو اُن سے مت ڈرو، اور مجھ سے ڈرو۔اور اس واسطے کہ پُورا کروں تم پر فضل اپنا، اور شاید تم راہ پاؤ۔(۲:۱۵۰)

حدیث نمبر ۴۴۹۴

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 ابھی لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے صاحب آئے اور کہا کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اس لئے  آپ لوگ بھی اسی طرف منہ کر لیں۔ وہ لوگ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے لیکن اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ  ... فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں ، پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے

 اور جو کوئی خوشی سے اور کوئی نیکی زیادہ کرے سو اللہ تو بڑا قدر دان ، بڑا ہی علم رکھنے والا ہے۔ (۲:۱۵۸)

شَعَائِرِ کے معنی علامات کے ہیں۔ اس کا واحد شَعِيرَةٌ‏‏‏‏ ہے۔

حدیث نمبر ۴۴۹۵

راوی: عروہ

 میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ان دنوں میں نوعمر تھ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے

 إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت یعنی سعی کرے۔  (۲:۱۵۸)

میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہئیے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہرگز نہیں جیسا کہ تمہارا خیال ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی اسلام سے پہلے انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہوا تھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے:

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت یعنی سعی کرے۔ (۲:۱۵۸)

حدیث نمبر ۴۴۹۶

راوی: عاصم بن سلیمان

انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ہم جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت یعنی سعی کرے۔ (۲:۱۵۸)

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو بھی اس کا شریک بنائے ہوئے ہیں (۲:۱۶۵)

لفظ أَنْدَادًا بمعنی أضدادا جس کا واحد ند ہے۔

حدیث نمبر ۴۴۹۷

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور میں نے ایک اور بات کہی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے اور میں نے یوں کہا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا تو وہ جنت میں جاتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ … فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اے ایمان والو! حکم ہوا تم پر بدلا برابر مارے گیؤں میں۔صاحب کے بدلے صاحب، اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔

یہ آسانی ہوئی تمہارے رب کی طرف سے، اور مہربانی۔پھر جو کوئی زیادتی کرے بعد اسکے تو اس کو دُکھ کی مار ہے۔ (۲:۱۷۸ )

اور عُفِيَ بمعنی ترك ( چھوڑنا) ہے۔

حدیث نمبر ۴۴۹۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

بنی اسرائیل میں قصاص یعنی بدلہ تھا لیکن دیت نہیں تھی۔ اس لئے  اللہ تعالیٰ نے اس اُمت سے کہا کہ تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کیا گیا، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام اور عورت کے بدلے میں عورت، ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقتول کی طرف سے کچھ معافی مل جائے۔ تو معافی سے مراد یہی دیت قبول کرنا ہے۔ سو مطالبہ معقول اور نرم طریقہ سے ہو اور مطالبہ کو اس فریق کے پاس خوبی سے پہنچایا جائے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ یعنی اس کے مقابلہ میں جو تم سے پہلی امتوں پر فرض تھا۔ سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لئے  آخرت میں درد ناک عذاب ہو گا۔ زیادتی سے مراد یہ ہے کہ دیت بھی لے لی اور پھر اس کے بعد قتل بھی کر دیا۔

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ربیع رضی اللہ عنہا کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔

 پھر لڑکی والے راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

اے ایمان والوں ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔(۲:۱۸۳)

حدیث نمبر ۴۵۰۱

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

عاشوراء کے دن جاہلیت میں ہم روزہ رکھتے تھے لیکن جب رمضان کے روزے نازل ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۳

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

 اشعث ان کے یہاں آئے، وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، اشعث نے کہا کہ آج تو عاشوراء کا دن ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دنوں میں عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے نازل ہونے سے پہلے رکھا جاتا تھا لیکن جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو یہ روزہ چھوڑ دیا گیا۔ آؤ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ۔

حدیث نمبر ۴۵۰۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزہ کی فرضیت باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا ... خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

یہ روزے گنتی کے چند دنوں میں رکھنے ہیں ، پھر تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو اس پر دوسرے دنوں کا گن رکھنا ہے اور جو لوگ اسے مشکل سے برداشت کر سکیں

ان کے ذمہ فدیہ ہے جو ایک مسکین کا کھانا ہے اور جو کوئی خوشی خوشی نیکی کرے اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر تم علم رکھتے ہو تو بہتر تمہارے حق میں یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ (۲:۱۸۴)

عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ہر بیماری میں روزہ نہ رکھنا درست ہے۔ جیسا کہ عام طور پر اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔

 اور امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ دودھ پلانے والی یا حاملہ کو اگر اپنی یا اپنے بیٹے کی جان کا خوف ہو تو وہ افطار کر لیں اور پھر اس کی قضاء کر لیں لیکن بوڑھا ضعیف شخص جب روزہ نہ رکھ سکے تو وہ فدیہ دے۔

 انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی جب بوڑھے ہو گئے تھے تو وہ ایک سال یا دو سال رمضان میں روزانہ ایک مسکین کو روٹی اور گوشت دیا کرتے تھے اور روزہ چھوڑ دیا تھا۔

 اکثر لوگوں نے اس آیت میں   يطيقونه  پڑھا ہے جو  اطاق يطيق  سے ہے ۔

حدیث نمبر ۴۵۰۵

راوی: عطاء

انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ یوں قرأت کر رہے تھے   وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ تفعیل سے فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے۔ جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہئیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے اسے چاہئیے کہ وہ مہینے بھر روزے رکھے ۔ (۲:۱۸۵)

حدیث نمبر ۴۵۰۶

راوی: نافع

 ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انھوں نے یوں قرأت کی فِدْيَةٌ بغیر تنوین طَعَامُ مَسَاكِينَ۔ بتلایا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۷

راوی: سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ

 جب یہ آیت نازل ہوئی وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ‏ تو جس کا جی چاہتا تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا۔

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ  ... وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ

جائز کر دیا گیا ہے تمہارے لئے  روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے مشغول ہونا ، وہ تمہارے لئے  لباس ہیں اور تم ان کے لئے  لباس ہو ،

 اللہ کو خبر ہو گئی کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے ، پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم کو معاف کر دیا ،

سو اب تم ان سے ملو ملاؤ اور اسے تلاش کرو ، جو اللہ نے تمہارے لئے  لکھ دیا ہے ۔ (۲:۱۸۷)

حدیث نمبر ۴۵۰۸

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو مسلمان پورے رمضان میں اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے تھے اور کچھ لوگوں نے اپنے کو خیانت میں مبتلا کر لیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

 عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ

اللہ نے جان لیا کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے۔ پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم کو معاف کر دیا۔(۲:۱۸۷)

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى ... لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

کھاؤ اور پیو جب تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے ممتاز نہ ہو جائے ، پھر روزے کو رات ہونے تک پورا کرو

 اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں۔

یہ حدیں باندھی ہیں اﷲ کی، سو ان کے نزدیک نہ جاؤ۔  اس طرح بیان کرتا ہے اﷲ اپنی آیتیں لوگوں کو، شاید وہ بچتے رہیں۔(۲:۱۸۷)

حدیث نمبر ۴۵۰۹

راوی: عامر شعبی

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لیا اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لی ۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو انہوں نے اسے دیکھا، وہ دونوں میں تمیز نہیں ہوئی۔ جب صبح ہوئی تو عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنے تکئے کے نیچے سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے اور کچھ نہیں ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بطور مذاق کے فرمایا کہ پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہو گا کہ صبح کا سفیدی خط اور سیاہ خط اس کے نیچے آ گیا تھا۔

حدیث نمبر ۴۵۱۰

راوی: عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ

 میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آیت میں الْخَيْطُ الأَبْيَضُ اور الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سے کیا مراد ہے؟ کیا ان سے مراد دو دھاگے ہیں؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کھوپڑی پھر تو بڑی لمبی چوڑی ہو گی۔ اگر تم نے رات کو دو دھاگے دیکھے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان سے مراد رات کی سیاہی اور صبح کی سفیدی ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۱۱

راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ

جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ  اور مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ ابھی نازل نہیں ہوئے تھے تو کئی لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور پھر جب تک وہ دونوں دھاگے صاف دکھائی دینے نہ لگ جاتے برابر کھاتے پیتے رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ اتارے تب ان کو معلوم ہوا کہ کالے دھاگے سے رات اور سفید دھاگے سے دن مراد ہے۔

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا  ... وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اور یہ تو کوئی بھی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پچھلی دیوار کی طرف سے آؤ ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے

 اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ ۔(۲:۱۸۹)

حدیث نمبر ۴۵۱۲

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 جب لوگ جاہلیت میں احرام باندھ لیتے تو گھروں میں پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر داخل ہوتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا  

اور یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پیچھے کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔(۲:۱۸۹)

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ

ان کافروں سے لڑو ، یہاں تک کہ فتنہ شرک باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ ہی کے لئے  رہ جائے ، سو اگر وہ باز آ جائیں تو سختی کسی پر بھی نہیں بجز اپنے حق میں ظلم کرنے والوں کے ۔ (۲:۱۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۱۳

راوی: نافع

 ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فتنے کے زمانہ میں جب ان پر حجاج ظالم نے حملہ کیا اور مکہ کا محاصرہ کی دو آدمی علاء بن عرار اور حبان سلمی آئے اور کہا کہ لوگ آپس میں لڑ کر تباہ ہو رہے ہیں۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں پھر آپ کیوں خاموش ہیں؟ اس فساد کو رفع کیوں نہیں کرتے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میری خاموشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کسی بھی بھائی مسلمان کا خون مجھ پر حرام قرار دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا  کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ہے

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ  

اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم قرآن کے حکم کے مطابق لڑے ہیں، یہاں تک کہ فتنہ یعنی شرک و کفر باقی نہیں رہا اور دین خالص اللہ کے لئے  ہو گیا، لیکن تم لوگ چاہتے ہو کہ تم اس لئے  لڑو کہ فتنہ اور فساد پیدا ہو اور دین اسلام ضعیف ہو، کافروں کو جیت ہو اور اللہ کے برخلاف دوسروں کا حکم سنا جائے۔

حدیث نمبر ۴۵۱۴

راوی: نافع

 ایک شخص حکیم ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم ایک سال حج کرتے ہو اور ایک سال عمرہ اور اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد میں شریک نہیں ہوتے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف کتنی رغبت دلائی ہے۔

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔

- اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا،

- پانچ وقت کی نماز پڑھنا،

- رمضان کے روزے رکھنا،

- زکٰوۃ دینا اور

- حج کرنا۔

انہوں نے کہا اے ابا عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کیا آپ کو وہ معلوم نہیں ہے

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ  

مسلمانوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جنگ کریں تو ان میں صلح کراؤ۔ پھر اگر چڑھا جائے ایک ان میں دوسرے پر تو لڑو اس چڑھائی والے سے، جب تک پھر آوے رجوع لائے اﷲ کے حکم پر،(۴۹:۹)

 اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ  کہ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔

 ابن عمر رضی اللہ عنہما بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم یہ فرض انجام دے چکے ہیں اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے، کافروں کا ہجوم تھا تو کافر لوگ مسلمانوں کا دین خراب کرتے تھے، کہیں مسلمانوں کو مار ڈالتے، کہیں تکلیف دیتے یہاں تک کہ مسلمان بہت ہو گئے فتنہ جاتا رہا۔

حدیث نمبر ۴۵۱۵

پھر اس شخص نے پوچھا اچھا یہ تو کہو کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے۔

انہوں نے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کا قصور اللہ نے معاف کر دیا لیکن تم اس معافی کو اچھا نہیں سمجھتے ہو۔

اب رہے علی رضی اللہ عنہ تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ یہ دیکھو ان کا گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہے۔

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو اور اچھے کام کرتے رہو ، اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ (۲:۱۹۵)

حدیث نمبر ۴۵۱۶

راوی: ابووائل

 حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آیت

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔

اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ

لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو ، اس پر ایک مسکین کا کھلانا بطور فدیہ ضروری ہے ۔ (۲:۱۹۶)

حدیث نمبر ۴۵۱۷

راوی: عبداللہ بن معقل

میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس مسجد میں حاضر ہوا، ان کی مراد کوفہ کی مسجد سے تھی اور ان سے روزے کے فدیہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے احرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ لے گئے اور جوئیں سر سے میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا خیال یہ نہیں تھا کہ تم اس حد تک تکلیف میں مبتلا ہو گئے ہو تم کوئی بکری نہیں مہیا کر سکتے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا، پھر تین دن کے روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو، ہر مسکین کو آدھا صاع کھانا کھلانا اور اپنا سر منڈوا لو۔

 کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تو یہ آیت خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اس کا حکم تم سب کے لئے  عام ہے۔

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ

تو پھر جو شخص حج کو عمرہ کے ساتھ ملا کر فائدہ اٹھائے ۔ (۲:۱۹۶)

حدیث نمبر ۴۵۱۸

راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما

حج میں تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کے ساتھ حج کیا، پھر اس کے بعد قرآن نے اس سے نہیں روکا اور نہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی لہٰذا تمتع اب بھی جائز ہے ۔ یہ تو ایک صاحب نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا ہے۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ

کچھ گناہ نہیں تم پر کہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا۔(۲:۱۹۸)

حدیث نمبر ۴۵۱۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار میلے تھے، اس لئے اسلام کے بعد موسم حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ کہ تمہیں اس بارے میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے یہاں سے تلاش معاش کرو۔ یعنی موسم حج میں تجارت کے لئے  مذکورہ منڈیوں میں جاؤ۔

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ

پھر تم بھی وہاں جا کر لوٹ آؤ جہاں سے لوگ لوٹ آتے ہیں۔ (۲:۱۹۹)

حدیث نمبر ۴۵۲۰

راوی: عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

قریش اور ان کے طریقے کی پیروی کرنے والے عرب حج کے لئے مزدلفہ میں ہی وقوف کیا کرتے تھے، اس کا نام انہوں الحمس رکھا تھا اور باقی عرب عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ عرفات میں آئیں اور وہیں وقوف کریں اور پھر وہاں سے مزدلفہ آئیں۔ آیت ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سے یہی مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۲۱

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 جو کوئی تمتع کرے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے وہ جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو حج کے بعد جو قربانی ہو سکے وہ کرے، اونٹ ہو یا گائے یا بکری۔ ان تینوں میں سے جو ہو سکے اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آ جائے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ شہر مکہ سے چل کر عرفات کو جائے وہاں عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے، پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اور اللہ کی یاد، تکبیر اور تہلیل بہت کرتا رہے صبح ہونے تک۔ صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹے جیسے اللہ نے فرمایا ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ  یعنی کنکریاں مارنے تک اسی طرح اللہ کی یاد اور تکبیر و تہلیل کرتے رہو۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اور کچھ ان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم کو دنیا میں بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔ (۲:۲۰۱)

حدیث نمبر ۴۵۲۲

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے:

اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اے پروردگار! ہمارے! ہم کو دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔

وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ

حالانکہ وہ بہت ہی سخت قسم کا جھگڑالو ہے ۔ (۲:۲۰۴)

حدیث نمبر ۴۵۲۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ ... أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ۬  

کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی تم کو ان لوگوں جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ،

 انہیں تنگی اور سختی پیش آئی ۔ یہاں تک کہ کہنے لگا رسول، اور جو اسکے ساتھ ایمان لائے، کب آئے گی مدد اﷲ کی؟ سُن رکھو! مدد اﷲ کی نزدیک ہے۔(۲:۲۱۴)

حدیث نمبر ۴۵۲۴

راوی: ابن ابی ملیکہ

بیان کرتے ہیں  کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۃ یوسف کی آیت حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا (۱۲:۱۱۰) میں كُذِبُوا  کو ذال کی تخفیف کے ساتھ قرأت کیا کرتے تھے۔ آیت کا جو مفہوم وہ مراد لے سکتے تھے لیا، اس کے بعد یوں تلاوت کرتے

حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ ۔  

پھر میری ملاقات عروہ بن زبیر سے ہوئی، تو میں نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا ذکر کیا۔

حدیث نمبر ۴۵۲۵

انھوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو کہتی تھیں اللہ کی پناہ! پیغمبر، تو جو وعدہ اللہ نے ان سے کیا ہے اس کو سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے سے پہلے ضرور پورا ہو گا۔ بات یہ کہ ہے پیغمبروں کی آزمائش برابر ہوتی رہی ہے۔ مدد آنے میں اتنی دیر ہوئی کہ پیغمبر ڈر گئے۔ ایسا نہ ہو ان کی اُمت کے لوگ ان کو جھوٹا سمجھ لیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت سورۃ یوسف کو یوں پڑھتی توَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا  (۱۲:۱۱۰) ذال کی تشدید کے ساتھ ۔

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ …وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّڪُم مُّلَـٰقُوهُ‌ۗ وَبَشِّرِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ  

تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں ، سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح سے چاہو اور اپنے حق میں آخرت کے لئے  کچھ نیکیاں کرتے رہو  

اور ڈرتے رہو اﷲ سے، اور جان رکھو کہ تم کو اس سے ملنا ہے۔ اور خوشخبری سُنا ایمان والوں کو۔ (۲:۲۲۳)

حدیث نمبر ۴۵۲۶

راوی: نافع

جب ابن عمر رضی اللہ عنہما قرآن پڑھتے تو اور کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے یہاں تک کہ تلاوت سے فارغ ہو جاتے۔ ایک دن میں قرآن مجید لے کر ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انہوں نے سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ  پر پہنچے تو فرمایا، معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں،

فرمایا کہ فلاں فلاں چیز یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔

حدیث نمبر ۴۵۲۷

راوی: نافع

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آیت فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ پیچھے سے بھی آ سکتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۲۸

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

 یہودی کہتے تھے کہ اگر عورت سے ہمبستری کے لئے  کوئی پیچھے سے آئے گا تو بچہ بھینگا پیدا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ  

تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور پھر وہ اپنی مدت کو پہنچ چکیں تو تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے پھر نکاح کر لیں۔ (۲:۲۳۲)

حدیث نمبر ۴۵۲۹

راوی: حسن

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری ایک بہن تھیں۔ ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی لیکن جب عدت گزر گئی اور طلاق بائن ہو گئی تو انہوں نے پھر ان کے لئے  پیغام نکاح بھیجا۔ معقل رضی اللہ عنہ نے اس پر انکار کیا، مگر عورت چاہتی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی

فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ

تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کریں۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ ... وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬  

اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں۔

 پھر جب پہنچ چکیں اپنی عدّت کو، تو تم پر نہیں گناہ، جو وہ اپنے حق میں کریں موافق دستور کے۔اور اﷲ کو تمہارے کام کی خبر ہے۔ (۲:۲۳۴)

يَعْفُونَ بمعنی يَهَبْنَ یعنی ہبہ کر دیں، بخش دیں۔

حدیث نمبر ۴۵۳۰

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

میں نے آیت وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا  یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس لئے  آپ اسے مصحف میں نہ لکھیں یا یہ کہا کہ نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے! میں قرآن ک کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔

حدیث نمبر ۴۵۳۱

راوی: مجاہد

 فرمایا آیت وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے بارے میں زمانہ جاہلیت کی طرح کہ عدت یعنی چار مہینے دس دن کی تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً ... فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ

اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت کر جائیں کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی جائیں،

لیکن اگر وہ خود نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اگر وہ دستور کے موافق اپنے لئے  کوئی کام کریں۔ (۲:۲۴۰)

فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے  سات مہینے اور بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لئے  وصیت کے مطابق شوہر کے گھر میں ہی ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو تمہارے حق میں کوئی گناہ نہیں۔ پس عدت کے ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر ضروری ہے یعنی چار مہینے دس دن ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کر دیا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار ملا جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول غَيْرَ إِخْرَاجٍ  کا یہی مطلب ہے۔

 عطا نے کہا، عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ اگر وہ نکل جائیں تو دستور کے موافق اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہو گا۔

عطاء نے کہا کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جو سورۃ نساء میں ہے اور اس نے عورت کے لئے گھر میں رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اسے مکان کا خرچہ دینا ضروری نہیں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت نے صرف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد غَيْرَ إِخْرَاجٍ  وغیرہ سے ثابت ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۳۲

راوی: محمد بن سیرین

 میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر ہوا۔ بڑے بڑے انصاری وہاں موجود تھے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی موجود تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت حارث کے باب سے متعلق عبداللہ بن عتبہ کی حدیث کا ذکر کیا۔ عبدالرحمٰن نے کہا لیکن عبداللہ بن عتبہ کے چچا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایسا نہیں کہتے تھے۔ میں نے کہا کہ پھر تو میں نے ایک ایسے بزرگ عبداللہ بن عتبہ کے متعلق جھوٹ بولنے میں دلیری کی ہے کہ جو کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔

میری آواز بلند ہو گئی تھی۔ پھر جب میں باہر نکلا تو راستے میں مالک بن عامر یا مالک بن عوف سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی عدت کے متعلق کیا فتویٰ دیتے تھے؟

انہوں نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ تم لوگ اس حاملہ پر سختی کے متعلق کیوں سوچتے ہو اس پر آسانی نہیں کرتے اس کو لمبی عدت کا حکم دیتے ہو۔ چھوٹی سورۃ الطلاق لمبی سورۃ نساء کے بعد نازل ہوئی ہے۔

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى

سب ہی نمازوں کی حفاظت رکھو اور درمیانی نماز کی پابندی خاص طور پر لازم پکڑو ۔(۲:۲۳۸)

حدیث نمبر ۴۵۳۳

راوی: علی رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا تھا، ان کفار نے ہمیں درمیانی نماز نہیں پڑھنے دی، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا، اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو یا ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔

وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

اور کھڑے رہو اﷲ کے آگے ادب سے۔(۲:۲۳۸)

قَانِتِينَ بمعنی مُطِيعِينَ یعنی فرمانبردار

حدیث نمبر ۴۵۳۴

راوی: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ

پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لئے  بات کر لیتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے فرماں برداروں کی طرح کھڑے ہوا کرو۔

اس آیت کے ذریعہ ہمیں نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔

فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

پھر اگر تم کو ڈر ہو، تو پیادہ پڑھ لو یا سوار۔ پھر جس وقت چین پاؤ تو یاد کرو اﷲ کو، جیسا تم کو سکھایا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔(۲:۲۳۹)

حدیث نمبر ۴۵۳۵

راوی: نافع

جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے۔ یہ لوگ نماز میں ابھی شریک نہ ہوں،

پھر جب امام ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھا چکے جو پہلے اس کے ساتھ تھے تو اب یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں اور ان کی جگہ لے لیں، جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن یہ لوگ سلام نہ پھیریں۔

اب وہ لوگ آگے بڑھیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے اور امام انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائے، اب امام دو رکعت پڑھ چکنے کے بعد نماز سے فارغ ہو چکا۔ پھر دونوں جماعتیں جنہوں نے الگ الگ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی تھی اپنی باقی ایک ایک رکعت ادا کر لیں۔ جبکہ امام اپنی نماز سے فارغ ہو چکا ہے۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی دو دو رکعت پوری ہو جائیں گی۔

 لیکن اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہے تو ہر شخص تنہا نماز پڑھ لے، پیدل ہو یا سوار، قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو۔

 نافع نے بیان کیا، کہ مجھ کو یقین ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی بیان کی ہیں۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا

اور جو لوگ تم میں مر جائیں اور چھوڑ جائیں عورتیں۔(۲:۲۴۰)

حدیث نمبر ۴۵۳۶

راوی: ابن زبیر رضی اللہ عنہما

میں  نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ سورۃ البقرہ کی آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ

اور جو لوگ تم میں مر جائیں اور چھوڑ جائیں عورتیں۔وصیحت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس، نہ نکال دینا۔

اس کو آپ نے مصحف میں کیوں لکھوایا، چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! میں کسی آیت کو اس کے ٹھکانے سے بدلنے والا نہیں۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى

اس وقت کو یاد کرو ، جب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو مُردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ۔(۲:۲۶۰)

حدیث نمبر ۴۵۳۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شک کرنے کا ہمیں ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ حق ہے، جب انہوں نے عرض کیا تھا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا، اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا، کیا تجھ کو یقین نہیں ہے؟ عرض کی یقین ضرور ہے، لیکن میں نے یہ درخواست اس لئے  کی ہے کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو جائے۔

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ …كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ ہوئے اس کا ایک باغ کھجور اور انگور کا،نیچے اس کے بہتی ہیں ندیاں، اس کو وہاں حاصل سب طرح کا میوہ،

 اور اس پر بڑھاپا پڑا، اور اس کے اولاد ہیں ضعیف ناتواں ،تب پڑا اس باغ پر بگولا، جس میں آگ تھی، تو وہ جل گیا۔ یُوں سمجھاتا ہے اﷲ تم کو آیتیں، شاید تم دھیان کرو۔ (۲:۲۶۶)

حدیث نمبر ۴۵۳۸

راوی: عبید بن عمیر

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ

کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔

سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا امیرالمؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹے! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیسے عمل کی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی۔

 عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں۔

لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے ۔ (۲:۲۷۳)

عرب لوگ أَلْحَفَ , وَأَلَحَّ اور أَحْفَانِي بِالْمَسْأَلَةِ  جب کہتے ہیں کہ کوئی گڑگڑا کر پیچھے لگ کر سوال کرے۔

  فَيُحْفِكُمْ کے معنی تمہیں مشقت میں ڈال دے، نہ تھکا دے۔

حدیث نمبر ۴۵۳۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجور، ایک یا دو لقمے در بدر لئے  پھریں، بلکہ مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے اور اگر تم دلیل چاہو تو قرآن سے اس آیت کو پڑھ ل

و لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا

اور اﷲ نے حلال کیا سودا اور حرام کیا سُود ۔(۲:۲۷۵)

حدیث نمبر ۴۵۴۰

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 جب سود کے سلسلے میں سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پڑھ کر لوگوں کو سنایا اور اس کے بعد شراب کی تجارت بھی حرام قرار پائی۔

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا

اللہ سود کو مٹاتا ہے ۔  (۲:۲۷۶)

لفظ يَمْحَقُ بمعنی يُذْهِبُهُ کے ہے یعنی مٹا دیتا ہے اور دور کر دیتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۴۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مسجد میں انہیں پڑھ کر سنایا اس کے بعد شراب کی تجارت حرام ہو گئی۔

فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ

تو خبردار ہو جاؤ لڑنے کو ۔ (۲:۲۷۹)

 لفظ فَأْذَنُوا بمعنی فَاعْلَمُوا ہے یعنی جان لو ، آگاہ ہو جاؤ

حدیث نمبر ۴۵۴۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں پڑھ کر سنایا اور شراب کی تجارت حرام قرار دی گئی۔

وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ  وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

اگر مقروض تنگ دست ہے تو اس کے لئے  آسانی مہیا ہونے تک مہلت دینا بہتر ہے اور اگر تم اس کا قرض معاف ہی کر دو تو تمہارے حق میں یہ اور بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو ۔ (۲:۲۸۰)

حدیث نمبر ۴۵۴۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں پڑھ کر سنایا پھر شراب کی تجارت حرام کر دی۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ

اور اس دن سے ڈرتے رہو جس دن تم سب کو اللہ کی طرف واپس جانا ہے ۔ (۲:۲۸۱)

حدیث نمبر ۴۵۴۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آخری آیت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ سود کی آیت تھی۔

وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ ... وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اور جو خیال تمہارے دلوں کے اندر چھپا ہوا ہے اگر تم اس کو ظاہر کر دو یا اسے چھپائے رکھو ہر حال میں اللہ اس کا حساب تم سے لے گا ،

پھر جسے چاہے بخش دے گا اور جسے چاہے عذاب کرے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔(۲:۲۸۴)

حدیث نمبر ۴۵۴۵

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 آیت وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ  اورجو کچھ تمہارے نفسوں کے اندر ہے اگر تم ان کو ظاہر کر ویا چھپائے رکھو۔ آخر تک منسوخ ہو گئی تھی۔

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ

پیغمبر ایمان لائے اس پر جو ان پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا ۔(۲:۲۸۵)

حدیث نمبر ۴۵۴۶

راوی: مروان اصفر

انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے، کہا کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ انہوں نے آیت وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ (۲:۲۸۴ )کے متعلق بتلایا کہ اس آیت کو اس کے بعد کی آیت لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا  (۲:۲۸۶) نے منسوخ کر دیا ہے۔

سورۃ آل عمران کی تفسیر

الفاظ تُقَاةٌ ، وَتَقِيَّةٌ  دونوں کا معنی ایک ہے یعنی بچاؤ کرنا۔

صِرٌّ  کا معنی بَرْدٌ  یعنی سرد ٹھنڈک۔

شَفَا حُفْرَةٍ‏‏‏‏ کا معنی گڑھے کا کنارہ، جیسے کچے کنویں کا کنارہ ہوتا ہے۔

تُبَوِّئُ یعنی تو لشکر کے مقامات، پڑاؤ تجویز کرتا تھا، مورچے بنانا مراد ہیں۔

مسومين، مسوم اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی نشانی ہو، مثلاً پشم یا اور کوئی نشانی۔

رِبِّيُّونَ جمع ہے اس کا واحد رِبِّيٌّ ہے یعنی اللہ والا۔

تَحُسُّونَهُمْ  ان کو قتل کر کے جڑ پیڑ سے اکھاڑتے ہو۔

غُزًّا لفظ   غَازٍ کی جمع ہے یعنی جہاد کرنے والا۔   نَكْتُبُ کا معنی ہم کو یاد رہے گا۔

نُزُلًا کا معنی ثواب کے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لفظ نُزُلًا اسم مفعول کے معنی میں ہو یعنی اللہ کی طرف سے اتارا گیا جیسے کہتے ہیں أَنْزَلْتُهُ میں نے اس کو اتارا۔

مجاہد نے کہا وَالْخَيْلُ الْمُسَوَّمَةُ  کا معنی موٹے موٹے اچھے اچھے گھوڑے ۔

 سعید بن جبیر نے کہا  وَحَصُورًا اس شخص کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف مطلق مائل نہ ہو۔

 عکرمہ نے کہا  مِنْ فَوْرِهِمْ  کا معنی بدر کے دن غصے اور جوش سے۔

 مجاہد نے کہا يُخْرِجُ الْحَيَّ  یعنی نطفہ بے جان ہوتا ہے اس سے جاندار پیدا ہوتا ہے۔

الْإِبْكَارُ ‏‏‏‏ صبح سویرے۔ وَالْعَشِيُّ کے معنی سورج ڈھلے سے ڈوبنے تک جو وقت ہوتا ہے اسے عشي کہتے ہیں۔

مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ

بعض اس میں محکم آیتیں ہیں اور بعض متشابہ ہیں۔ (۳:۷)

مجاہد نے کہا  مُحْكَمَاتٌ سے حلال و حرام کی آیتیں مراد ہیں۔ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ  کا مطلب یہ ہے کہ دوسری آیتیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں۔ ایک کی ایک تصدیق کرتی ہے،  جیسے یہ آیات ہیں

وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ  (۲:۲۶)  

 وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ (۱۰:۱۰۰)

 وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ  (۴۷:۱۷)  

ان تینوں آیتوں میں کسی حلال و حرام کا بیان نہیں ہے تو متشابہ ٹھہریں۔

زَيْغٌ  کا معنی شک۔ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ میں فتنہ سے مراد متشابہات کی پیروی کرنا، ان کے مطلب کا کھوج کرنا ہے۔

وَالرَّاسِخُونَ  یعنی جو لوگ پختہ علم والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۵۴۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی:

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ  ...  وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب، اس میں بعضی آیتیں پکی محکمات ہیں،سو جڑ بنیاد ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں کئی طرف ملتی متشابہات ،

سو جن کے دل پھرے ہوئے ہیں، وہ لگتے پیچھے پڑے ہیں ان کی ڈھب والیوں سے متشابہ کے ، تلاش کرتے ہیں گمراہی، اور تلاش کرتے ہیں

انکی کُل بیٹھانی حقیقت و ماہیّت ، اور ان کی کُل حقیقت و ماہیّت کوئی نہیں جانتا سوا اﷲ کے، اور جو مضبوط علم والے ہیں،

سو کہتے ہیں، ہم اس پر یقین لائے، سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ اور سمجھائے وہی، سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے۔ (۳:۷)

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے آیت بالا میں ذکر فرمایا ہے۔ اس لئے  ان سے بچتے رہو۔

وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

مریم علیہا السلام کی ماں نے کہا اے رب ! میں اس مریم کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔ (۳:۳۶)

حدیث نمبر ۴۵۴۸

راوی: سعید بن مسیب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کے۔

 پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (۳:۳۶) یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔

‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًاوَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ...

جو لوگ خرید کرتے ہیں اﷲ کے اقرار پر، اور اپنی قسموں پر تھوڑا مول، اور ان کو کچھ حصہ نہیں آخرت میں،

 اور نہ بات کریگا اُن سے اﷲ، اور نہ نگاہ کرے گا انکی طرف قیامت کے دن، اور نہ سنوارے پاک کرے گا ان کو، اور ان کو دکھ کی مار دردناک عذاب ہے۔(۳:۷۷)

حدیث نمبر ۴۵۴۹ - ۴۵۵۰

راوی: ابووائل

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس لئے  قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال جھوٹ بول کر وہ  مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی: ‏

‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًاوَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ...

جو لوگ خرید کرتے ہیں اﷲ کے اقرار پر، اور اپنی قسموں پر تھوڑا مول، اور ان کو کچھ حصہ نہیں آخرت میں،

 اور نہ بات کریگا اُن سے اﷲ، اور نہ نگاہ کرے گا انکی طرف قیامت کے دن، اور نہ سنوارے پاک کرے گا ان کو، اور ان کو دکھ کی مار دردناک عذاب ہے۔(۳:۷۷)

ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔

اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ جھوٹی قسم کھا لے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لئے  کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔

حدیث نمبر ۴۵۵۱

راوی: عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ

ایک شخص نے بازار میں سامان بیچتے ہوئے قسم کھائی کہ فلاں شخص اس سامان کا اتنا روپیہ دے رہا تھا، حالانکہ کسی نے اتنی قیمت نہیں لگائی تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو وہ دھوکا دے کر اسے ٹھگ لے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًاوَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ...

جو لوگ خرید کرتے ہیں اﷲ کے اقرار پر، اور اپنی قسموں پر تھوڑا مول، اور ان کو کچھ حصہ نہیں آخرت میں،

 اور نہ بات کریگا اُن سے اﷲ، اور نہ نگاہ کرے گا انکی طرف قیامت کے دن، اور نہ سنوارے پاک کرے گا ان کو، اور ان کو دکھ کی مار دردناک عذاب ہے۔(۳:۷۷)

حدیث نمبر ۴۵۵۲

راوی: ابن ابی ملیکہ

دو عورتیں کسی گھر یا حجرہ میں بیٹھ کر موزے بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی اس کے ہاتھ میں موزے سینے کا سوا چبھو دیا گیا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا۔ یہ مقدمہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا۔

جب گواہ نہیں ہے تو دوسری عورت کو جس پر یہ الزام ہے، اللہ سے ڈراؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ  چنانچہ جب لوگوں نے اسے اللہ سے ڈرایا تو اس نے اقرار کر لیا۔(۳:۷۷)

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو اس کو اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو آیت میں بیان کی گئی ہے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ

آپ کہہ دیں کہ اے کتاب والو ! ایسے قول کی طرف آ جاؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ (۳:۶۴)

سَوَاءٍ  کے معنی ایسی بات ہے جسے ہم اور تم دونوں تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۵۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا  کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق تھی، میں سفر تجارت پر شام میں گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔

ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔

 ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔

 ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں زیادہ ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔

پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔

 ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمٰن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا کے کفر کا بار بھی سب تم پر ہو گا اور   تُو کہہ، اے کتاب والو! آؤ ایک سیدھی بات پر جو یکساں ہے ہمارے تمہارے درمیان کی، کہ بندگی نہ کریں گے مگر اﷲ کو، اور شریک نہ ٹھہرائیں اس کی کوئی چیز، اور نہ پکڑیں آپس میں ایک ایک کو رب، سوا اﷲ کے۔ پھر اگر وہ قبول نہ رکھیں تو کہہ، شاہد رہو، کہ ہم تو صرف اﷲ کے حکم کے تابع ہیں۔ (۳:۶۴)

جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر ہرقل بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ذیلی راوی  زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو! کیا تم ہمیشہ کے لئے  اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے۔

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ہر گز نہ پہنچو گے نیکی کی حد کو، جب تک نہ خرچ کرو کچھ ایک، جس سے محبت رکھتے ہو۔ اور جو چیز خرچ کرو گے، سو اﷲ کو معلوم ہے۔(۳:۹۲)

حدیث نمبر ۴۵۵۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

مدینہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے، پھر جب آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے (۳:۹۲) ۔ نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب و اجر کی توقع رکھتا ہوں، پس یا رسول اللہ! جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوب یہ فانی ہی دولت تھی، یہ فانی ہی دولت تھی۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز و اقرباء کو اسے دے دو۔

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا، یا رسول اللہ! چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہٰ والوں میں بانٹ دیا۔

حدیث نمبر ۴۵۵۵

پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ حسان اور ابی رضی اللہ عنہما کو دے دیا تھا۔ میں ان دونوں سے ان کا زیادہ قریبی تھا لیکن مجھے نہیں دیا۔

قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

تو آپ کہہ دیں کہ توریت لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔ (۳:۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۵۶

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 کچھ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا منہ کالا کر کے اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا توریت میں رجم کا حکم نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے توریت میں رجم کا حکم نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، توریت لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔

 جب توریت لائی گئی تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے جو انہیں توریت کا درس دیا کرتا تھا، آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے، رجم کر دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس عورت کا ساتھی عورت کو پتھر سے بچانے کے لئے  اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

تم لوگ بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے  پیدا کی گئی ہو تم نیک کاموں کا حکم کرتے ہو ، برے کاموں سے روکتے ہو ۔ (۳:۱۱۰)

حدیث نمبر ۴۵۵۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 آیت كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم لوگ لوگوں کے لئے  سب لوگوں سے بہتر ہو اور کہا ان کو گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لڑائی میں گرفتار کر کے لاتے ہو پھر وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔

إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ

جب تم میں سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ وہ بزدل ہو کر ہمت ہار بیٹھیں۔(۳:۱۲۲)

حدیث نمبر ۴۵۵۸

راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما

 یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی، جب ہم سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں، درآں حالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا۔ہم دو جماعتیں بنو حارثہ اور بنو سلمہ تھے۔ حالانکہ اس آیت میں ہمارے بودے پن کا ذکر ہے، مگر ہم کو یہ پسند نہیں کہ یہ آیت نہ اترتی کیونکہ اس میں یہ مذکور ہے کہ اللہ ان دونوں گروہوں کا مددگار سر پرست ہے۔

لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ

تیرا اختیار کچھ نہیں،   کہ یہ ہدایت کیوں نہیں قبول کرتے اللہ جسے چاہے اسے ہدایت ملتی ہے ۔ (۳:۱۲۸ )

حدیث نمبر ۴۵۵۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھا کر یہ بددعا کی۔ اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر۔ یہ بددعا آپ نے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ‏‏‏‏‏‏ اور رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کے بعد کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری

 لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ

تیرا اختیار کچھ نہیں، سارا اختیار اﷲ پاس ہے یا اُن کو توبہ دے یا ا نکو عذاب کرے، کہ وہ نا حق پر ظالم ہیں۔ (۳:۱۲۸ )

حدیث نمبر ۴۵۶۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا کرنا چاہتے یا کسی کے لئے  دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد کرتے،‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ککے بعد۔

بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی کی

اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! مضر والوں کو سختی کے ساتھ پکڑ لے اور ان میں ایسی قحط سالی لا، جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی تھی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے یہ دعا کرتے اور آپ نماز فجر کی بعض رکعت میں یہ دعا کرتے۔

اے اللہ، فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ عرب کے چند خاص قبائل کے حق میں آپ یہ بددعا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی

لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ

آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں۔(۳:۱۲۸ )

وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ

اور رسول تم کو پکارتے تھے تمہارے پیچھے سے ۔ (۳:۱۵۳)

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دو سعادتوں میں سے ایک سعادت فتح اور دوسری شہادت ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۶۱

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

احد کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کے پیدل دستے پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو افسر مقرر کیا تھا، پھر بہت سے مسلمانوں نے پیٹھ پھیر لی، آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابیوں کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔

وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ

اور رسول تم کو پکار رہے تھے تمہارے پیچھے سے (۳:۱۵۳) ۔

ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا

پھر تم پر اتاری تنگی کے بعد اُونگھ، (۳:۱۵۴)

حدیث نمبر ۴۵۶۲

راوی: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ

احد کی لڑائی میں جب ہم صف باندھے کھڑے تھے تو ہم پر غنودگی طاری ہو گئی ۔ کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ نیند سے میری تلوار ہاتھ سے باربار گرتی اور میں اسے اٹھاتا۔

الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ

جن لوگوں نے اللہ اور اسکے رسول کی دعوت کو قبول کر لیا بعد اسکے کہ انہیں زخم پہنچ چکا تھا ، ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں انکے لئے  بہت بڑا ثواب ہے ۔ (۳:۱۷۲)

الْقَرْحُ یعنی الْجِرَاحُ، زخم۔ اسْتَجَابُوا یعنی أَجَابُوا، انہوں نے قبول کیا۔

إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ} الَّذِينَ ... وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

جن کو کہا لوگوں نے کہ انہوں نے جمع کی بہت اسباب تمہارے مقابلے کو، سو تم ان سے ڈر کرو، پھر ان کو زیادہ آیا ایمان۔اور بولے بس ہے ہم کو اﷲ اور کیا خوب کار ساز ہے۔ (۳:۱۷۳)

حدیث نمبر ۴۵۶۳

 کلمہ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (۳:۱۷۳) ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا، اس وقت جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے  کہا تھا کہ لوگوں یعنی قریش نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈرو لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا جوش ایمان اور بڑھا دیا اور یہ مسلمان بولے کہ ہمارے لئے  اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۶۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا ‏‏‏‏‏‏ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ  تھا یعنی میری مدد کے لئے  اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔

وَلاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ… وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے رہتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے ، وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں اچھا ہے ، نہیں ، بلکہ ان کے حق میں بہت برا ہے ،

یقیناً قیامت کے دن انہیں اس کا طوق بنا کر پہنایا جائے گا ، جس میں انہوں نے بخل کیا تھا اور آسمانوں اور زمین کا اللہ ہی مالک ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے ۔ (۳:۱۸۰)

حدیث نمبر ۴۵۶۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکٰوۃ نہیں ادا کی تو آخرت میں اس کا مال نہایت زہریلے سانپ بن کر جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے۔ اس کی گردن میں طوق کی طرح پہنا دیا جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا کہ میں ہی تیرا مال ہوں، میں ہی تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی

وَلاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ

اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں بہتر ہے(۳:۱۸۰) …

وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا

اور یقیناً تم لوگ بہت سی دل دکھانے والی باتیں ان سے سنو گے جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی سنو گے جو مشرک ہیں۔ (۳:۱۸۶)

حدیث نمبر ۴۵۶۶

راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم  کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لئے  تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق بھی موجود تھا، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔

مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے، انہیں میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سواری کی ٹاپوں سے گرد اڑی اور مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک بند کر لی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنایا ہے، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، اپنے گھر بیٹھیں، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں۔ یہ سن کر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، ضرور یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں۔

اس کے بعد مسلمان، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کر دیا اور آخر سب لوگ خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا ذکر کیا کہ سعد! تم نے نہیں سنا، ابوحباب، آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی، کیا کہہ رہا تھا؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگزر کر دیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجا ہے جو اس نے آپ پر نازل کیا ہے۔ اس شہر مدینہ کے لوگ پہلے اس پر متفق ہو چکے تھے کہ اس عبداللہ بن ابی کو تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا کیا ہے، اس باطل کو روک دیا تو اب وہ چڑ گیا ہے اور اس وجہ سے وہ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا جو آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ آپ نے اسے معاف کر دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی

اور یقیناً تم بہت سی دل آزاری کی باتیں ان سے بھی سنو گے، جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے ۳:۱۸۶  

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان لے آنے کے بعد پھر سے کافر بنا لیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔ آخر آیت تک ۲:۱۰۹ ۔

 جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کفار کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی اور جب آپ نے غزوہ بدر کیا تو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قریش کے کافر سردار اس میں مارے گئے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے دوسرے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کر لی اور ظاہراً اسلام میں داخل ہو گئے۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ…وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

تو نہ سمجھ کہ جو لوگ خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پراور تعریف چاہتے ہیں بن کئے پر، سو نہ جان کہ وہ خلاص ہیں عذاب سے۔ اور ان کو دُکھ کی مار ہے۔(۳:۱۸۸)

حدیث نمبر ۴۵۶۷

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے  تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چیڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت  اتاری ۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُ وا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔

حدیث نمبر ۴۵۶۸

راوی: علقمہ بن وقاص

مروان بن حکم نے جب وہ مدینہ کے امیر تھے اپنے دربان سے کہا کہ رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہما کے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیئے کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔

 ابورافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر پوچھا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تم مسلمانوں سے اس آیت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تلاوت کی

 وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ

اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ کتاب کو پوری ظاہر کر دینا لوگوں پر،  

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُ وا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا

جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام نہیں کئے ہیں، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے۔(۳:۱۸۷،۸۸)

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف ہونے میں عقلمندوں کے لئے  بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۳:۱۹۰)

اخْتِلَافِ سے رات و دن کا گھٹنا بڑھنا مراد ہے ، جو موسمی اثرات سے ہوتا رہتا ہے ، یہ سب قدرت الٰہی کے نمونے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۵۶۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

میں ایک رات اپنی خالہ اُم المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گیا۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی میمونہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف ہونے میں عقلمندوں کے لئے  بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۳:۱۹۰)

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں تہجد اور وتر پڑھیں۔ جب بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی تو آپ نے دو رکعت فجر کی سنت پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی۔

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ … سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

وہ جو یاد کرتے ہیں اﷲ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے،اور دھیان کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں

اے رب ہمارے! تُو نے یہ عبث نہیں بنایا۔ تُو پاک ہے عیب سے، سو ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے۔(۳:۱۹۱)

حدیث نمبر ۴۵۷۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سو گیا، ارادہ یہ تھا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھوں گا۔ میری خالہ نے آپ کے لئے  گدا بچھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے طول میں لیٹ گئے پھر جب آخری رات میں بیدار ہوئے تو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار دور کئے۔

 پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں، اس کے بعد آپ ایک مشکیزے کے پاس آئے اور اس سے پانی لے کر وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لئے  کھڑے ہو گئے۔ میں بھی کھڑا ہو گیا اور جو کچھ آپ نے کیا تھا وہی سب کچھ میں نے بھی کیا اور آپ کے پاس آ کر آپ کے بازو میں میں بھی کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھا اور میرے کان کو شفقت سے پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت تہجد کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر وتر کی نماز پڑھی۔

رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ

اے ہمارے رب ! تو نے جسے دوزخ میں داخل کر دیا ، اسے تو نے واقعی ذلیل و رسوا کر دیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے ۔ (۳:۱۹۲)

حدیث نمبر ۴۵۷۱

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

ایک رات وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہ گئے جو ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی طول میں لیٹے، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں آپ بیدار ہوئے اور چہرہ پر ہاتھ پھیر کر نیند کو دور کیا۔ پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت کی۔اس کے بعد آپ اٹھ کر مشکیزے کے قریب گئے جو لٹکا ہوا تھا۔ اس کے پانی سے آپ نے وضو بہت ہی اچھی طرح سے پورے آداب کے ساتھ کیا اور نماز پڑھنے کے لئے  کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی آپ ہی کی طرح وضو وغیرہ کیا اور نماز کے لئے  آپ کے بازو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور اسی ہاتھ سے بطور شفقت میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں وتر کی نماز پڑھی۔ اس سے فارغ ہو کر آپ لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی فجر کی سنت رکعتیں پڑھیں اور نماز فرض کے لئے  باہر تشریف مسجد میں لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلإِيمَانِ… وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ

اے رب ہمارے ہم نے سنا کہ پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کو، کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر، سو ہم ایمان لائے،

اے رب ہمارے اب بخش گناہ ہمارے اور اتار ہماری برائیاں اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ۔(۳:۱۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۷۲

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

آپ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گئے۔ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی طول میں لیٹے، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا تھوڑی دیر بعد آپ جاگے اور بیٹھ کر چہرہ پر نیند کے آثار دور کرنے کے لئے  ہاتھ پھیرنے لگے اور سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں۔اس کے بعد آپ مشکیزہ کے پاس گئے جو لٹکا ہوا تھا، اس سے تمام آداب کے ساتھ آپ نے وضو کیا، پھر نماز کے لئے  کھڑے ہوئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں بھی اٹھا اور میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو وغیرہ کیا اور جا کر آپ کے بازو میں کھڑا ہو گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور شفقت سے میرے داہنے کان کو پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں انہیں وتر بنایا، پھر آپ لیٹ گئے اور جب مؤذن آپ کے پاس آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر مسجد میں تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

سورۃ نساء کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قرآن مجید کی آیت يَسْتَنْكِفُ، يَسْتَكْبِرُ کے معنی میں ہے۔ قِوَامًا یعنی جس پر تمہارے گزران کی بنیاد قائم ہے۔ ‏‏‏‏‏‏ لَهُنَّ سَبِيلًا یعنی شادی شدہ کے لئے  رجم اور کنوارے کے لئے  کوڑے کی سزا ہے جب وہ زنا کریں ۔

اور دوسرے لوگوں نے کہا آیت میں مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ سے مراد دو دو تین تین اور چار چار ہیں۔ اہل عرب رُبَاعَ  سے آگے اس وزن سے تجاوز نہیں کرتے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى

باب: اور اگر ڈرو کہ انصاف نہ کرو گے یتیم لڑکیوں کے حق میں، (۴:۳)

حدیث نمبر ۴۵۷۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، پھر اس نے اس سے نکاح کر لیا، اس یتیم لڑکی کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ اسی باغ کی وجہ سے یہ شخص اس کی پرورش کرتا رہا حالانکہ دل میں اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت اتری

 وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى

اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے۔(۴:۳)

ذیلی راوی ہشام بن یوسف نے کہا میں سمجھتا ہوں، ابن جریج ذیلی راوی نے یوں کہا یہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔

حدیث نمبر ۴۵۷۴

راوی: عروہ بن زبیر

انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى  کا مطلب پوچھا۔ انہوں نے کہا میرے بھانجے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور اس کی جائیداد کی حصہ دار ہو ترکے کی رو سے اس کا حصہ ہو اب اس ولی کو اس کی مالداری خوبصورتی پسند آئے۔ اس سے نکاح کرنا چاہے پر انصاف کے ساتھ پورا مہر جتنا مہر اس کو دوسرے لوگ دیں، نہ دینا چاہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں کے ساتھ جب تک ان کا پورا مہر انصاف کے ساتھ نہ دیں، نکاح کرنے سے منع فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ تم دوسری عورتوں سے جو تم کو بھلی لگیں نکاح کر لو۔ یتیم لڑکی کا نقصان نہ کرو ۔

عروہ نے کہا عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، اس آیت کے اترنے کے بعد لوگوں نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا، اس وقت اللہ نے یہ آیت وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ  (۴:۱۲۷) اتاری۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا دوسری آیت میں یہ جو فرمایا وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ  (۴:۱۲۷) یعنی وہ یتیم لڑکیاں جن کا مال و جمال کم ہو اور تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ان یتیم لڑکیوں سے جن کا مال و جمال کم ہو نکاح کرنا نہیں چاہتے تو مال اور جمال والی یتیم لڑکیوں سے بھی جن سے تم کو نکاح کرنے کی رغبت ہے نکاح نہ کرو، مگر جب انصاف کے ساتھ ان کا مہر پورا ادا کرو۔

وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا

اور جو کوئی محتاج ہے، تو کھائے موافق دستور کے، پھر جب ان کو حوالے کرو اُن کے مال، تو  گواہ کر لو اس پر اور اﷲ بس کافی ہے حساب سمجھنے لینے والا۔(۴:۶)

حدیث نمبر ۴۵۷۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ بلکہ جو شخص خوشحال ہو وہ اپنے کو بالکل روکے رکھے۔ البتہ جو شخص نادار ہو وہ واجبی طور پر کھا سکتا ہے (۴:۶) ۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر ولی نادار ہو تو یتیم کی پرورش اور دیکھ بھال کی اجرت میں وہ واجبی طور پر یتیم کے مال میں سے کچھ کھا سکتا ہے بشرطیکہ نیت میں فساد نہ ہو ۔

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُوَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا

اور جب تقسیم ورثہ کے وقت کچھ عزیز قرابت دار اور بچے اور یتیم اور مسکین لوگ موجود ہوں تو ان کو بھی کچھ دے دیا کرو اور کہو ان کو بات معقول۔(۴:۸)

حدیث نمبر ۴۵۷۶

راوی: عکرمہ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب اور یتیم اور مسکین موجود ہوں (۴:۸) ۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں وصیت کرتا ہے ، (۴:۱۱)

حدیث نمبر ۴۵۷۷

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو سلمہ تک پیدل چل کر میری عیادت کے لئے  تشریف لائے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہے، اس لئے  آپ نے پانی منگوایا اور وضو کر کے اس کا پانی مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آ گیا، پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کا کیا حکم ہے، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ  

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں حکم دیتا ہے۔(۴:۱۱)

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ

اور تمہارے لئے  اس مال کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں جبکہ ان کے اولاد نہ ہو۔ (۴:۱۲)

حدیث نمبر ۴۵۷۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 ابتداء اسلام میں میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا، البتہ والدین کو وہ ملتا جو میت ان کے لئے  وصیت کر جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے جیسا مناسب سمجھا اس میں نسخ کر دیا۔ چنانچہ اب مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے اور میت کے والدین یعنی ان دونوں میں ہر ایک کے لئے  اس مال کا چھٹا حصہ ہے۔ بشرطیکہ میت کے کوئی اولاد ہو، لیکن اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو، بلکہ اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا اور بیوی کا آٹھواں حصہ ہو گا، جبکہ اولاد ہو، لیکن اگر اولاد نہ ہو تو چوتھائی ہو گا اور شوہر کا آدھا حصہ ہو گا، جبکہ اولاد نہ ہو لیکن اگر اولاد ہو تو چوتھائی ہو گا۔

لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا…  وَيَجۡعَلَ ٱللَّهُ فِيهِ خَيۡرً۬ا ڪَثِيرً۬ا

اے ایمان والو! حلال نہیں تم کو کہ میراث میں لے لو عورتوں کو زبردستی۔ اور نہ اُن پر دباؤ ڈالوکہ لے لو اُن سے کچھ اپنا دیا، مگر کہ وہ کریں بے حیائی صریح۔

اور گذران برتاؤ کرو عورتوں کے ساتھ معقول۔ پھر اگر وہ تم کو نہ بھائیں نا پسند ہو ، تو شاید تم کو نہ بھائے نا پسند ہو ایک چیز اور اﷲ اس میں رکھے بہت خوبی۔(۴:۱۹)

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لَا تَعْضُلُوهُنَّ کے معنی یہ ہیں کہ ان پر جبر و قہر نہ کرو، ‏‏‏‏‏‏حُوبًا یعنی گناہ۔ ‏‏‏‏‏‏تَعُولُوا یعنی تَمِيلُوا، جھکو تم۔ لفظ النِّحْلَةُ مہر کے لئے  آیا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۷۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 ‏‏‏‏‏‏يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ

 اے ایمان والو! تمہارے لئے  جائز نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی مالک ہو جاؤ اور نہ انہیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کا کچھ حصہ وصول کر لو، (۴:۱۹)

انہوں نے بیان کیا کہ جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے رشتہ دار اس عورت کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے۔ اگر انہیں میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا، یا پھر وہ جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرتے اور چاہتے تو نہ بھی کرتے، اس طرح عورت کے گھر والوں کے مقابلہ میں بھی شوہر کے رشتہ دار اسکے زیادہ مستحق سمجھے جاتے، اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ

اور جو مال والدین اور قرابت دار چھوڑ جائیں اس کے لئے  ہم نے وارث ٹھہرا دیئے ہیں۔ (۴:۳۳)

معمر نے کہا کہ مَوَالِيَ سے مراد اس کے اولیاء اور وارث ہیں۔ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو قسم کھا کر اپنا وارث بناتے تھے یعنی حلیف۔ اور مَوْلَى  کے کئی معانی آئے ہیں، چچا کا بیٹا، غلام، لونڈی کا مالک، جو اس پر احسان کرے، اس کو آزاد کرے، خود غلام، جو آزاد کیا جائے، مالک، دین کا پیشوا۔

حدیث نمبر ۴۵۸۰

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 بیان کیا کہ آیت میں وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سے مراد وارث ہیں اور   وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ  کی تفسیر یہ ہے کہ شروع میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ  تو پہلا طریقہ منسوخ ہو گیا۔

 پھر بیان کیا کہ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سے وہ لوگ مراد ہیں، جن سے دوستی اور مدد اور خیر خواہی کی قسم کھا کر عہد کیا جائے۔ لیکن اب ان کے لئے  میراث کا حکم منسوخ ہو گیا مگر وصیت کا حکم رہ گیا۔

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ

بیشک اللہ ایک ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا ،  (۴:۴۰)

مِثْقَالَ ذَرَّةٍ سے ذرہ برابر مراد ہے

حدیث نمبر ۴۵۸۱

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا قیامت  کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔

قیامت  کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر اُمت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہو جائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا گنہگار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ، تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم اللہ کے سو کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیر ابن اللہ کی، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا لیکن تم جھوٹے تھے، اللہ نے نہ کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے، ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ کیا ادھر نہیں چلتے۔ چنانچہ سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ وہاں چمکتی ریت پانی کی طرح نظر آئے گی، بعض بعض کے ٹکڑے کئے دے رہی ہو گی۔ پھر سب کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

 پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو؟ اور ان کے ساتھ یہودیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔

یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار، تو ان کے پاس ان کا رب ایک صورت میں جلوہ گر ہو گا، جو پہلی صورت سے جس کو وہ دیکھ چکے ہوں گے، ملتی جلتی ہو گی یہ وہ صورت نہ ہو گی اب ان سے کہا جائے گا۔ اب تمہیں کس کا انتظار ہے؟ ہر اُمت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی، وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں جب لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا تھ جدا ہوئے تو ہم ان میں سب سے زیادہ محتاج تھے، پھر بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اب ہمیں اپنے سچے رب کا انتظار ہے جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں۔ اس پر تمام مسلمان بول اٹھیں گے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں ہیں۔

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا

سو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر اُمت سے ایک ایک گواہ حاضر کریں گے اور ان لوگوں پر تجھ کو بطور گواہ پیش کریں گے۔ (۴:۴۱)

حدیث نمبر ۴۵۸۲

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں پڑھ کے سناؤں؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی نازل ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے آپکو سورۃ نساء سنانی شروع کی، جب میں فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا   (۴:۴۱) پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ … فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ

اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں، یا آیا ہے کوئی شخص تم میں جائے ضرور سے، یا لگے مباشرت کی  ہو عورتوں سے،  

پھر نہ پایا پانی تو ارادہ کر زمین پاک تیمُّم کا، پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو۔(۴:۴۳)

حدیث نمبر ۴۵۸۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

مجھ سے اسماء رضی اللہ عنہا کا ایک ہار گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسے تلاش کرنے کے لئے  بھیجا۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا، نہ لوگ وضو سے تھے اور نہ پانی موجود تھا۔ اس لئے  وضو کے بغیر نماز پڑھی گئی اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ

ے ایمان والو! حکم مانو اﷲ کا، اور حکم مانو رسول کا، اور جو اختیار والے ہیں تم میں، (۴:۵۹)

حدیث نمبر ۴۵۸۴

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ

اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اپنے میں سے حاکموں کی۔(۴:۵۹)

عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مہم پر بطور افسر کے روانہ کیا تھا۔

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ …قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسۡلِيمً۬ا

تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ ہرگز ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں ، تجھ کو اپنا حکم نہ بنا لیں ،

پھر تیرے فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم نہ کر لیں۔ (۴:۶۵)

حدیث نمبر ۴۵۸۵

راوی: عروہ بن زبیر

زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک انصاری صحابی سے مقام حرہ کی ایک نالی کے بارے میں جھگڑا ہو گیا کہ اس سے کون اپنے باغ کو پہلے سینچنے کا حق رکھتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! پہلے تم اپنے باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو جلد پانی دے دینا۔ اس پر اس انصاری صحابی نے کہا یا رسول اللہ! اس لئے  کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  زبیر! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لئے  اسے چھوڑو۔ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کے ساتھ اپنے فیصلے میں رعایت رکھی تھی لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو صاف طور پر ان کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی جس سے آپ کا غصہ ہونا قدرتی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے فیصلہ میں دونوں کے لئے  رعایت رکھی تھی۔

 زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے، یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھیں

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ ۔۔۔قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسۡلِيمً۬ا

تیرے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنا لیں

 اور آپ کے فیصلے کو کھلے دل کے ساتھ برضا و رغبت تسلیم کرنے کے لئے  تیار نہ ہوں۔(۴:۶۵)

فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ

سو ان کے ساتھ ہیں جن کو اﷲ نے نوازا  یعنی نبی اور صدّیق اور شہید اور نیک بخت۔ (۴:۶۹)

حدیث نمبر ۴۵۸۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے

مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ

ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ (۴:۶۹)  

اس لئے  میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے ۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ

اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے اور ان لوگوں کی مدد کے لئے  نہیں لڑتے جو کمزور ہیں ، مردوں ، عورتوں اور لڑکوں میں سے ۔ (۴:۷۵)

حدیث نمبر ۴۵۸۷

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے کہا کہ میں اور میری والدہ الْمُسْتَضْعَفِينَ کمزوروں میں سے تھے۔

حدیث نمبر ۴۵۸۸

راوی: ابن ابی ملیکہ

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ   (۴:۷۵) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا تھا۔

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا

تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے کرتوتوں کے باعث انہیں الٹا پھیر دیا۔ (۴:۸۸)

حدیث نمبر ۴۵۸۹

راوی: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آیت فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِاور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو فریق ہو گئے ہو۔ (۴:۸۸) کے بارے میں فرمایا کہ کچھ لوگ منافقین جو اوپر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جنگ احد میں آپ چھوڑ کر واپس چلے آئے تو ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہو گئیں۔ ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ یا رسول اللہ! ان منافقین سے قتال کیجئے اور ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیجئے۔ اس پر یہ آیت اتری

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مدینہ طيبة ہے۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ

اور انہیں جب کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔(۴:۸۳)

أَذَاعُوا  کا معنی مشہور کر دیتے ہیں۔

يَسْتَنْبِطُونَهُ  نکال لیتے ہیں۔

  حَسِيبًا کا معنی کافی ہے۔

   ‏‏‏‏‏‏إِلَّا إِنَاثًا سے بے جان چیزیں مراد ہیں پتھر مٹی وغیرہ۔

  مَرِيدًا کا معنی شریر۔

  ‏‏‏‏‏‏فَلَيُبَتِّكُنَّ ، بَتَّكَهُ ، سے نکلا ہے یعنی اس کو کاٹ ڈالو۔

  قِيلًا اور قَوْلًا دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ طَبَعَ  کا معنی مہر کر دی۔

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے ۔(۴:۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۹۰

راوی: سعید بن جبیر

 انہوں نے بیان کیا کہ علماء کوفہ کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں اس کے لئے  سفر کر کے گیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے۔ (۴:۹۳) نازل ہوئی اور اس باب کی یہ سب سے آخری آیت ہے اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔

وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا

اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہہ دیا کرو کہ تو تو مسلمان ہی نہیں۔ (۴:۹۴)

السِّلْمُ وَالسَّلَمُ وَالسَّلَامُ سب کا ایک ہی معنی ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۹۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آیت وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا اور جو تمہیں سلام کرتا ہو اسے یہ مت کہہ دیا کرو کہ تو تو مؤمن ہی نہیں ہے۔(۴:۹۴) کے بارے میں فرمایا کہ ایک صاحب مرداس نامی اپنی بکریاں چرا رہے تھے، ایک مہم پر جاتے ہوئے کچھ مسلمان انہیں ملے تو انہوں نے کہا السلام علیکم لیکن مسلمانوں نے بہانہ خور جان کر انہیں قتل کر دیا اور ان کی بکریوں پر قبضہ کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تھی ۔

عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا اس سے اشارہ انہیں بکریوں کی طرف تھا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے السلام‏ قرأت کی ہے، مشہور قرأت بھی یہی ہے۔

لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

ایمان والوں میں سے بلا عذر گھروں میں بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے ۔ (۴:۹۵)

حدیث نمبر ۴۵۹۲

راوی: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ آیت لکھوائی

لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

مسلمانوں میں سے گھر بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔(۴:۹۵)

ابھی آپ یہ آیت لکھوا ہی رہے تھے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کیا اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اگر میں جہاد میں شرکت کر سکتا تو یقیناً جہاد کرتا۔ وہ اندھے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر وحی اتاری۔ آپ کی ران میری ران پر تھی شدت وحی کی وجہ سے اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہو گیا۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ کے الفاظ اور نازل کئے۔

حدیث نمبر ۴۵۹۳

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب آیت لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ  نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کتابت کے لئے  بلایا اور انہوں نے وہ آیت لکھ دی۔ پھر عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا، تو اللہ تعالیٰ نے غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ کے الفاظ اور نازل کئے۔

حدیث نمبر ۴۵۹۴

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب آیت لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ فلاں یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلاؤ۔ وہ اپنے ساتھ دوات اور تختی یا شانہ کی ہڈی لے کر حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو  لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ  ۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے موجود تھے، عرض کیا یا رسول اللہ! میں نابینا ہوں۔ چنانچہ وہیں اس طرح آیت نازل ہوئ

ی لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔(۴:۹۵)

حدیث نمبر ۴۵۹۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے خبر دی کہ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سے اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو بدر میں شریک تھے اور جنہوں نے بلا کسی عذر کے بدر کی لڑائی میں شرکت نہیں کی تھی، وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ … قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا

بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے ۔ جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ تم کس کام میں تھے ،

وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بے بس کمزور تھے ، فرشتے کہیں گے کہ کیا اللہ کی سر زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ۔ (۴:۹۷)

حدیث نمبر ۴۵۹۶

راوی: محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسود

اہل مدینہ کو جب مکہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا دور تھ شام والوں کے خلاف ایک فوج نکالنے کا حکم دیا گیا۔ اس فوج میں میرا نام بھی لکھا گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ سے میں ملا اور انہیں اس صورت حال کی اطلاع کی۔ انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس سے منع کیا اور فرمایا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی تھی کہ کچھ مسلمان مشرکین کے ساتھ رہتے تھے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کی زیادتی کا سبب بنتے، پھر تیر آتا اور وہ سامنے پڑ جاتے تو انہیں لگ جاتا اور اس طرح ان کی جان جاتی یا تلوار سے غلطی میں انہیں قتل کر دیا جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلاَ يَهْتَدُونَ سَبِيلاً

سوائے ان لوگوں کے جو مردوں اور عورتوں بچوں میں سے کمزور ہیں کہ نہ کوئی تدبیر ہی کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں کہ ہجرت کر سکیں۔(۴:۹۸)

حدیث نمبر ۴۵۹۷

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ کے متعلق فرمایا کہ میری ماں بھی ان ہی لوگوں میں تھیں جنہیں اللہ نے معذور رکھا تھا۔

فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا

تو یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے گا اور اللہ تو بڑا ہی معاف کرنے والا اور بخش دینے والا ہے ۔ (۴:۹۹)

حدیث نمبر ۴۵۹۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع الله لمن حمده‏‏‏.‏ کہا اور پھر سجدہ میں جانے سے پہلے یہ دعا کی

اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ کمزور مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ! کفار مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔

وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ

اور تمہارے لئے  اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر تمہیں بارش سے تکلیف ہو رہی ہو یا تم بیمار ہو تو اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو ۔ (۴:۱۰۲)

حدیث نمبر ۴۵۹۹

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے آیت إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى  کے متعلق  بتلایا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے ان سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ

لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ معلوم کرتے ہیں ،

آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں عورتوں کی بابت حکم دیتا ہے اور وہ حکم وہی ہے جو تم کو قرآن مجید میں ان یتیم لڑکیوں کے حق میں سنایا جاتا ہے جن کو تم پورا حق نہیں دیتے ۔ (۴:۱۲۷)

حدیث نمبر ۴۶۰۰

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ اگر اس کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور وہ اس کا ولی اور وارث بھی ہو اور لڑکی اس کے مال میں بھی حصہ دار ہو۔ یہاں تک کہ کھجور کے درخت میں بھی۔ اب وہ شخص خود اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہے، کیونکہ اسے یہ پسند نہیں کہ کسی دوسرے سے اس کا نکاح کر دے کہ وہ اس کے اس مال میں حصہ دار بن جائے، جس میں لڑکی حصہ دار تھی، اس وجہ سے اس لڑکی کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہونے دے تو ایسے شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا

اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو تو ان کو باہمی صلح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہتر ہے ۔ (۴:۱۲۸)

حدیث نمبر ۴۶۰۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًااور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے، لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں، بلکہ وہ اسے جدا کر دینا چاہتا ہے، اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا نان نفقہ معاف کر دیتی ہوں تم مجھے طلاق نہ دو تو ایسی صورت کے متعلق یہ آیت اسی باب میں اتری۔

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرَكِ الأَسْفَلِ

بلا شک منافقین دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے ۔ (۴:۱۴۵)

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الدَّرَكِ الأَسْفَلِ سے مراد جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہے اور سورۃ الانعام میں نَفَقًا بمعنی سَرَبًا یعنی سرنگ مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۰۲

راوی: اسود

 ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر سلام کیا۔ پھر کہا نفاق میں وہ جماعت مبتلا ہو گئی جو تم سے بہتر تھی۔ اس پر اسود بولے، سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرَكِ الأَسْفَلِ کہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسکرانے لگے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ مسجد کے کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔

اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی اِدھر اُدھر چلے گئے۔ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ پر کنکری پھینکی یعنی مجھ کو بلای میں حاضر ہو گیا تو کہا کہ مجھے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہنسی پر حیرت ہوئی حالانکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے۔ یقیناً نفاق میں ایک جماعت کو مبتلا کیا گیا تھا جو تم سے بہتر تھی، اس لئے  کہ پھر انہوں نے توبہ کر لی اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کر لی۔

إِنَّآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ كَمَآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَىٰ نُوحٍ۬ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ مِنۢ بَعۡدِهِۦ‌ۚ وَأَوۡحَيۡنَآ إِلَىٰٓ إِبۡرَٲهِيمَ وَإِسۡمَـٰعِيلَ وَإِسۡحَـٰقَ وَيَعۡقُوبَ وَٱلۡأَسۡبَاطِ

یقیناً ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ایسی ہی وحی جیسی ہم نے نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف بھیجی تھی اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر ۔ (۴:۱۶۳)

حدیث نمبر ۴۶۰۳

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کسی کے لئے  مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر کہے۔

حدیث نمبر ۴۶۰۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا۔

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ … وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ

لوگ آپ سے کلالہ کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں خود کلالہ کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے کہ اسکے کوئی اولاد نہ ہو

اور اس کے ایک بہن ہو تو اس سے بہن کو اس کے ترکہ کا آدھا ملے گا اور وہ مرد وارث ہو گا اس بہن کے کل ترکہ کا اگر اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو ۔ (۴:۱۷۶)

حدیث نمبر ۴۶۰۵

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 سب سے آخر میں جو سورت نازل ہوئی وہ سورۃ برأت  ہے اور احکام میراث کے سلسلے میں سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی وہ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ ہے۔

سورۃ المائدہ کی تفسیر

حُرُمٌ ، حَرَامٌ ‏‏‏‏ کی جمع ہے یعنی احرام باندھے ہوئے ہو ۔

فَبِمَا نَقْضِهِمْ ، سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے جو حکم ان کو دیا تھا کہ بیت المقدس میں داخل ہو جاؤ وہ نہیں بجا لائے۔

تَبُوءُ یعنی تو میرا گناہ اٹھا لے گا۔   دَائِرَةٌ کے معنی زمانہ کی گردش۔

الْإِغْرَاءُ  کا معنی مسلط کرنا، ڈال دینا۔ أُجُورَهُنَّ  یعنی ان کے مہر۔

المهيمن کا معنی امانتدار نگہبان قرآن گویا اگلی آسمانی کتابوں کا محافظ ہے۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ

آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا۔ (۵:۳)

حدیث نمبر ۴۶۰۶

راوی: طارق بن شہاب

یہودیوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگ ایک ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں کہ اگر ہمارے یہاں وہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم جس دن وہ نازل ہوئی ہوتی اس دن عید منایا کرتے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کہاں اور کب نازل ہوئی تھی اور جب عرفات کے دن نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف رکھتے تھے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے۔

 سفیان ثوری ذیلی راوی نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا اور کوئی دوسرا دن۔

فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا

پھر اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ۔(۵:۶)

تَيَمَّمُوا یعنی تَعَمَّدُوا اسی لئے  آتا ہے یعنی قصد کرو۔ آمِّينَ  یعنی عَامِدِينَ  قصد کرنے والے۔

أَمَّمْتُ ‏‏‏‏ اور تَيَمَّمْتُ ‏‏‏‏ ایک ہی معنی میں ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لَمَسْتُمْ وَتَمَسُّوهُنَّ وَاللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ ‏‏‏‏ اور وَالْإِفْضَاءُ سب کے معنی عورت سے ہمبستری کرنے کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۰۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا۔ اس لئے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کروانے کے لئے  وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا۔ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے، ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں ٹھہرا لیا اور ہمیں بھی، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے یہاں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میری ران پر رکھ کر سو گئے تھے اور کہنے لگے تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب کو روک لیا، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا، سنا اور ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور صبح تک کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو اسید بن حضیر نے کہا کہ آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔

حدیث نمبر ۴۶۰۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 میرا ہار مقام بیداء میں گم ہو گیا تھا۔ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنی سواری روک دی اور اتر گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میری گود میں رکھ کر سو رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آ گئے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ مار کر فرمایا کہ ایک ہار کے لئے  تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے خیال سے میں بےحس و حرکت بیٹھی رہی حالانکہ مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور صبح کا وقت ہوا اور پانی کی تلاش ہوئی لیکن کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ اسی وقت یہ آیت اتری يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ (۵:۶)…

 اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا اے آل ابی بکر! تمہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے  باعث برکت بنایا ہے۔ یقیناً تم لوگوں کے لئے  باعث برکت ہو۔ تمہارا ہار گم ہوا اللہ نے اس کی وجہ سے تیمم کی آیت نازل فرما دی جو قیامت  تک مسلمانوں کے لئے  آسانی اور برکت ہے۔

فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

سو آپ خود اور آپ کا رب جہاد کرنے چلے جاؤ اور آپ دونوں ہی لڑو بھڑو ، ہم تو اس جگہ بیٹھے رہیں گے ۔ (۵:۲۴)

حدیث نمبر ۴۶۰۹

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 جنگ بدر کے موقع پر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا یا رسول اللہ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی

فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

آپ خود اور آپ کے خدا چلے جائیں اور آپ دونوں لڑ بھڑ لیں (۵:۲۴) ۔

ہم تو یہاں سے ٹلنے کے نہیں۔ نہیں! آپ چلئے، ہم آپ کے ساتھ جان دینے کو حاضر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس بات سے خوشی ہوئی۔

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ …وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ

یہی سزا ہے انکی جو لڑائی کرتے ہیں اﷲ سے اور اس کے رسول سے، اور دوڑتے ہیں ملک میں، فساد کرنے کو،

کہ اُن کو قتل کریئے یا سولی چڑھایئے، یا کاٹیئے اُن کے ہاتھ اور پاؤں مقابل کا، یا دُور کریے نکال دیئے جائیں اُس ملک سے۔(۵:۳۳)

يُحَارِبُونَ سے کفر کرنا مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۱۰

راوی: ابوقلابہ

وہ امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے مجلس میں قسامت کا ذکر آ گی لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا پھر اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو مرتد ہو گیا ہو ۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔

بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیؤ کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھ چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہو گئی۔

اس کے بعد انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کرنا چاہا۔

 عنبسہ نے اس پر کہا سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔

وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ

اور زخموں میں قصاص ہے ۔ (۵:۴۵)

حدیث نمبر ۴۶۱۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ربیع نے جو انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں، انصار کی ایک لڑکی کے آگے کے دانت توڑ دیئے۔ لڑکی والوں نے قصاص چاہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصاص کا حکم دیا۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں اللہ کی قسم! ان کا دانت نہ توڑ ا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! لیکن کتاب اللہ کا حکم قصاص ہی کا ہے۔ پھر لڑکی والے معافی پر راضی ہو گئے اور دیت لینا منظور کر لیا۔

 اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم سچی کر دیتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ

اے رسول! پہنچا جو تجھ کو اُترا تیرے رب سے۔(۵:۶۷)

حدیث نمبر ۴۶۱۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جو شخص بھی تم سے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل کیا تھا، اس میں سے آپ نے کچھ چھپا لیا تھا، تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ

اے پیغمبر! جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ آپ لوگوں تک پہنچا دیں۔ (۵:۶۷)

لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ

اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا۔ (۵:۸۹)

حدیث نمبر ۴۶۱۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

آیت لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا۔ کسی کے اس طرح قسم کھانے کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ نہیں، اللہ کی قسم، ہاں اللہ کی قسم!۔

حدیث نمبر ۴۶۱۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

ان کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی قسم کے خلاف کبھی نہیں کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارہ کا حکم نازل کر دیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب اگر اس کے یعنی جس کے لئے  قسم کھا رکھی تھی سوا دوسری چیز مجھے اس سے بہتر معلوم ہوتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتا ہوں اور وہی کام کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔

لاَ تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ

اے ایمان والو ! اپنے اوپر ان پاک چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لئے  حلال کی ہیں از خود حرام نہ کر لو ۔ (۵:۸۷)

حدیث نمبر ۴۶۱۵

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور اس کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے یا کسی بھی چیز کے بدلے میں نکاح کر سکتے ہیں۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی

لاَ تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ

اے ایمان والو! اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لئے  جائز کی ہیں۔(۵:۸۷)

إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ

شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی چیزیں ہیں بلکہ یہ شیطانی کام ہیں۔ (۵:۹۰)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الأَزْلاَمُ سے مراد وہ تیر ہیں جن سے وہ اپنے کاموں میں فال نکالتے تھے۔ کافر ان سے اپنی قسمت کا حال دریافت کیا کرتے تھے۔ ‏‏‏‏‏‏النُّصُبُ بیت اللہ کے چاروں طرف بت ۳۶۰ کی تعداد میں کھڑے کئے ہوئے تھے جن پر وہ قربانی کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۴۶۱۶

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مدینہ میں اس وقت پانچ قسم کی شراب استعمال ہوتی تھی لیکن انگوری شراب کا استعمال نہیں ہوتا تھا وہ بھی حرام قرار پائی ۔

حدیث نمبر ۴۶۱۷

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ہم لوگ تمہاری فَضِيخَ  کھجور سے بنائی ہوئی شراب کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے، یہی جس کا نام تم نے فَضِيخَ  رکھ رکھا ہے میں کھڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہاانس رضی اللہ عنہ اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو۔

انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔

حدیث نمبر ۴۶۱۸

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

غزوہ احد میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے صبح صبح شراب پی تھی اور اسی دن وہ سب شہید کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لئے  وہ گنہگار نہیں ٹھہرے ۔

حدیث نمبر ۴۶۱۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے فرما رہے تھے۔ امابعد!

اے لوگو! جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو وہ پانچ چیزوں سے تیار کی جاتی تھی۔ انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جَو سے اور شراب ہر وہ پینے کی چیز ہے جو عقل کو زائل کر دے۔

لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ …وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

جو لوگ ایمان لائے اور کام نیک کئے، ان پر نہیں گناہ جو کچھ پہلے کھا چکے، جب آگے ڈرے اور ایمان لائے اور عمل نیک کئے، پھر ڈرے اور یقین کیا، پھر ڈرے اور نیکی کی، اور اﷲ چاہتا ہے نیکی والوں کو۔(۵:۹۳)

حدیث نمبر ۴۶۲۰

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 میں صحابہ کی ایک جماعت کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر شراب پلا رہا تھا کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کو حکم دیا اور انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا  باہر جا کے دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔ بیان کیا کہ میں باہر آیا اور کہا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے کہ خبردار ہو جاؤ، شراب حرام ہو گئی ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھ کو کہا کہ جاؤ اور شراب بہا دو۔  

راوی نے بیان کیا، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ ان دنوں فَضِيخَ  شراب استعمال ہوتی تھی۔ بعض لوگوں نے شراب کو جو اس طرح بہتے دیکھا تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے شراب سے اپنا پیٹ بھر رکھا تھا اور اسی حالت میں انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا

جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں، ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے کھا لیا۔

لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ

اے لوگو ! ایسی باتیں نبی سے مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں وہ باتیں ناگوار گزریں۔(۵:۱۰۱)

حدیث نمبر ۴۶۲۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لئے ، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔

حدیث نمبر ۴۶۲۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاقاً سوالات کیا کرتے تھے۔ کوئی شخص یوں پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے؟ کسی کی اگر اونٹنی گم ہو جاتی تو وہ یہ پوچھتے کہ میری اونٹنی کہاں ہو گی؟ ایسے ہی لوگوں کے لئے  اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔

 یہاں تک کہ پوری آیت پڑھ کر سنائی۔

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ

اللہ نے نہ بحیرہ کو مقرر کیا ہے ، نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو ۔ (۵:۱۰۳)

حدیث نمبر ۴۶۲۳

راوی: سعید بن مسیب

بَحِيرَةٍ  اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ بتوں کے لئے  روک دیا جاتا اور کوئی شخص اس کے دودھ کو دوہنے کا مجاز نہ سمجھا جاتا اور سَائِبَةٍ اس اونٹنی کو کہتے تھے جسے وہ اپنے دیوتاؤں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے باربرداری و سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔

سعید راوی نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو جہنم میں گھسیٹ رہا تھا، اس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔

 اور وَصِيلَةٍ اس جوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور پھر دوسری مرتبہ بھی مادہ ہی جنتی، اسے بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے لیکن اسی صورت میں جبکہ وہ برابر دو مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور اس درمیان میں کوئی نر بچہ نہ ہوتا۔ اور حَامٍ وہ نر اونٹ جو مادہ پر شمار سے کئی دفعہ چڑھتا اس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے جب وہ اتنی صحبتیں کر چکتا تو اس کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور بوجھ لادنے سے معاف کر دیتے نہ سواری کرتے اس کا نام حَامٍ رکھتے ۔

حدیث نمبر ۴۶۲۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کو کھائے جا رہے ہیں اور میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں اس میں گھسیٹا پھر رہا تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔

وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا ، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا جب سے تو ہی ان پر نگراں ہے اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔ (۵:۱۱۷)

حدیث نمبر ۴۶۲۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے، ننگے پاؤں ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی

كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ

جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتداء کی تھی، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، ہمارے ذمہ وعدہ ہے، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے۔ آخر آیت تک۔(۲۱:۱۰۴)

 پھر فرمایا قیامت  کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا۔

 ہاں اور میری اُمت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ میں عرض کروں گا، میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں؟ مجھ سے کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہو گا

 وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ  

میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا جب سے تو ہی ان پر نگراں ہے۔

 مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے۔(۵:۱۱۷)

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

تو اگر انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بھی تو زبردست حکمت والا ہے ۔ (۵:۱۱۸)

حدیث نمبر ۴۶۲۶

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قیامت  کے دن جمع کیا جائے گا اور کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو نیک بندے نے کہا ہو گا

وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ … أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا …  تُو ہی ہے زبردست حکمت والا۔ (۵:۱۱۷،۸)

سورۃ انعام

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ   پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہو گا۔

مَعْرُوشَاتٍ  کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ جن کی بیل ہوتی ہے ۔

حَمُولَةً  کا معنی بوجھ لادنے کے جانور۔

وَلَلَبَسْنَا کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے۔

يَنْأَوْنَ کا معنی دور ہو جاتے ہیں۔

تُبْسَلُ کا معنی رسوا کیا جائے۔ أُبْسِلُوا رسوا کئے گئے۔

بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ میں الْبَسْطُ کے معنی مارنا۔

اسْتَكْثَرْتُمْ یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا۔

‏‏‏‏ جَعَلُوا لِلَّهِ مِنْ ثَمَرَاتِهِمْ وَمَالِهِمْ نَصِيبًا یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا۔

أَ أَكِنَّةً ، كِنَانٌ کی جمع ہے یعنی پردہ۔

أَمَّا اشْتَمَلَتْ یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو۔

مَسْفُوحًا یعنی بہایا گیا خون۔

صَدَفَ کا معنی منہ پھیرا۔

أُبْلِسُوا کا معنی ناامید ہوئے۔ فاذاهم مبلسون میں اور أبسلوا‏ بما كسبوا میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لئے  سپرد کئے گئے۔

سَرْمَدًا کا معنی ہمیشہ۔

اسْتَهْوَتْهُ کا معنی گمراہ کیا۔

تَمْتَرُونَ کا معنی شک کرتے ہو۔

وَقْرٌ کا معنی بوجھ جس سے کان بہرا ہو ۔ اور الْوِقْرُ بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے۔

أَسَاطِيرُ ، أُسْطُورَةٌ اور إِسْطَارَةٌ کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں۔

ا الْبَأْسَاءُ ، بَأْسِ سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز بُؤْسِ سے بھی آتا ہے اور محتاج۔

جَهْرَةً کھلم کھلا۔

مَلَكُوتٌ  سے ملك یعنی سلطنت مراد ہے۔ جیسے رَهَبُوتٍ اور رَحَمُوتٍ مثل ہے رَهَبُوتٍ یعنی ڈر۔ رَحَمُوتٍ مہربانی سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے۔

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ

اور اس ہی کے پاس ہیں غیب کے خزانے ، انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ (۶:۵۹)

حدیث نمبر ۴۶۲۷

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کے خزانے پانچ ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔  

إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ... إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

بیشک اللہ ہی کو قیامت  کی خبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا

اور نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی علم والا ہے، خبر رکھنے والا ہے۔(۳۱:۳۴)

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ…انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ

تُو کہہ، اسی کو قدرت ہے کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے،یا ٹھہرائے تم کو کئی فرقے کر کر اور چکھائے ایک کو لڑائی ایک کی۔ دیکھ! کس پھیر گھماؤ سے ہم کہتے ہیں باتیں شاید وہ سمجھیں۔(۶:۶۵)

يَلْبِسَكُمْ کا معنی ملا دے خلط ملط کر دے، یہ الِالْتِبَاسِ، سے نکلا ہے۔ ‏‏‏‏‏‏شِيَعًا یعنی فِرَقًا گروہ گروہ فرقے فرقے۔

حدیث نمبر ۴۶۲۸

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

پھر یہ اترا أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

پھر یہ اترا أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پہلے عذابوں سے ہلکا یا آسان ہے۔

وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے خلط ملط نہیں کیا۔  (۶:۸۲)

یہاں ظلم سے شرک مراد ہے

حدیث نمبر ۴۶۲۹

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

جب آیت وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا، ہم میں کون ہو گا جس کا دامن ظلم سے پاک ہو۔ اس یہ آیت اتری

 إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ  

 بیشک شرک ظلم عظیم ہے۔(۳۱:۱۳)

وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ

اور یونس اور لوط علیہما السلام کو اور ان میں سے سب کو ہم نے جہاں والوں پر فضیلت دی تھی۔ (۶:۸۶)

حدیث نمبر ۴۶۳۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لئے  مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر بتائے۔

حدیث نمبر ۴۶۳۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے لئے  جائز نہیں کہ مجھے یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر بتائے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ

یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی ، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی پیروی کریں۔(۶:۹۰)

حدیث نمبر ۴۶۳۲

راوی: مجاہد

میں  نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے؟

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا، ہاں۔ پھر آپ نے آیت وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ سے فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ  (۶:۸۴،۹۰) تک پڑھی اور کہا کہ داؤد علیہ السلام بھی ان انبیاء میں شامل ہیں جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے ۔

مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، تو انہوں نے کہا تمہارے نبی بھی ان میں سے ہیں جنہیں اگلے انبیاء کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے۔

وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ …وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

اور یہود پر ہم نے حرام کیا تھا ہر ناخن والا، اور گائے اور بکری میں سے حرام کی اُنکی چربی،مگر جو لگی ہو پشت پر یا آنت میں، یا ملی ہو ہڈی کے ساتھ۔

یہ ہم نے اُن کو سزا دی تھی انکی شرارت پر، اور ہم سچ کہتے ہیں۔(۶:۱۴۶)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ كُلَّ ذِي ظُفُرٍ سے مراد اونٹ اور شتر مرغ ہیں۔ لفظ الْحَوَايَا  بمعنی اوجھڑی کے ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۳۳

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ یہودیوں کو غارت کرے، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر مردہ جانوروں کی چربی حرام کر دی تو اس کا تیل نکال کر اسے بیچنے اور کھانے لگے۔

وَلاَ تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

اور نزدیک نہ ہو بے حیائی کے کام سے، جو کھلا ہو اس میں اور جو چھپا۔(۶:۱۵۱)

حدیث نمبر ۴۶۳۴

راوی: ابووائل

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا

اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خود مدح کی ہے۔

عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا آپ نے یہ حدیث خود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنی تھی انہوں نے بیان کیا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے حدیث بیان کی تھی؟ کہا کہ ہاں۔

وَكِيلٌ سے مراد حفیظ اور اس پر نگران یا اس کو گھیرنے والا۔

قُبُلًا ، قَبِيلٍکی جمع ہے یعنی عذاب کی قسمیں۔ قَبِيلٍ  ایک ایک قسم۔

زُخْرُفَ  لغو اور بیکار چیز یا بات جس کو ظاہر میں آراستہ پیراستہ کریں۔ زُخْرُفَ ‏ الْقَوْل چکنی چپڑی باتیں ۔

حَرْثٌ حِجْرٌ یعنی روکی گئی۔

حِجْرٌ کہتے ہیں حرام اور ممنوع کو۔ اسی سے ہے حِجْرٌ مَحْجُورٌ اور حِجْرٌ عمارت کو بھی کہتے ہیں اور مادہ گھوڑیوں کو بھی اور عقل کو بھی حِجْرٌ اور حِجًى کہتے ہیں اور أَمَّا الْحِجْرُ میں ثمود کی بستی والے مراد ہیں اور جس زمین کو تو روک دے اس میں کوئی آنے اور جانور چرانے نہ پائے اس کو بھی حِجْرٌ  کہتے ہیں۔ اسی سے خانہ کعبہ کے حَطِيمُ  کو حِجْرٌ کہتے ہیں۔ حَطِيمُ ، مَحْطُومٍ کے معنوں میں ہے جیسے قَتِيلٍ ، مَقْتُولٍ کے معنی میں اب رہا یمامہ کا حِجْرٌ تو وہ ایک مقام کا نام ہے۔

هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ،هَلُمَّ اہل حجاز کی بولی میں واحد تثنیہ اور جمع سب کے لئے  بولا جاتا ہے۔(۶:۱۵۰)

لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا

کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا ۔ (۶:۱۵۸)

حدیث نمبر ۴۶۳۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت  قائم نہ ہو گی، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو لے۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایمان لائیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کوئی نفع نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ رکھتا ہو۔

حدیث نمبر ۴۶۳۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت  اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک سورج مغرب سے نہ طلوع ہو لے۔ جب مغرب سے سورج طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لائیں گے لیکن یہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔

سورۃ اعراف

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:

  رِيَاشًا سے مال اسباب مراد ہے۔

لَا يُحِبُّ، ‏‏‏‏‏‏الْمُعْتَدِينَ میں معتدي سے دعا میں حد سے بڑھ جانے والے مراد ہیں۔

عَفَوْا کا معنی بہت ہو گئے ان کے مال زیادہ ہوئے۔

الْفَتَّاحُ کہتے ہیں فیصلہ کرنے والے کو۔ افْتَحْ بَيْنَنَا ہمارا فیصلہ کر۔

نَتَقْنَا اٹھایا۔ انْبَجَسَتْ پھوٹ نکلے۔

مُتَبَّرٌ تباہی نقصان۔

آسَى غم کھاؤں۔ تَأْسَ غم نہ کھا۔

 اوروں نے کہا:

مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَسْجُدَ میں لَا زائد ہے۔ یعنی تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا

يَخْصِفَانِ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ اانہوں نے بہشت کے پتوں کا دونا بنا لیا یعنی بہشت کے پتے اپنے اوپر جوڑ لئے تاکہ ستر نظر نہ آئے ۔

سَوْآتِهِمَا سے شرمگاہ مراد ہے۔

وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ میں حِينٍ سے قیامت  مراد ہے۔ عرب کے محاورے میں حِينٍ ایک ساعت سے لے کے بے انتہا مدت کو کہہ سکتے ہیں۔

الرِّيَاشُ اور الرِّيشُ کے معنی ایک ہیں یعنی ظاہری لباس۔

قَبِيلُهُ اس کی ذات والے شیطان جن میں سے وہ خود بھی ہے۔ ادَّارَكُوا اکٹھا ہو جائیں گے

 آدمی اور جانور سب کے سوراخ یا مساموں کو سُمُومً کہتے ہیں اس کا مفرد سَمٌّ یعنی آنکھ کے سوراخ، نتھنے، منہ، کان، پاخانہ کا مقام، پیشاب کا مقام۔

غَوَاشٍ غلاف جس سے ڈھانپے جائیں گے۔

نُشُرًا متفرق، نَكِدًا تھوڑا۔

يَغْنَوْا جیئے یا بسے۔ حَقِيقٌ حق واجب۔

اسْتَرْهَبُوهُمْ ، الرَّهْبَةِ سے نکلا ہے یعنی ڈرایا۔ تَلَقَّفُ لقمہ کرنے لگا نگلنے لگ ۔

طَائِرُهُمْ ان کا نصیبہ حصہ طوفان سیلاب، کبھی موت کی کثرت کو بھی طوفان کہتے ہیں۔

الْقُمَّلُ چچڑیاں چھوٹی جوؤں کی طرح۔

عُرُوشٌ اور عَرِيشٌ عمارت،

سُقِطَ جب کوئی شرمندہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں سُقِطَ فِي يَدِهِ ۔

الْأَسْبَاطُ بنی اسرائیل کے خاندان قبیلے

يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ ہفتہ کے دن حد سے بڑھ جاتے تھے اسی سے ہے تَعْدُ یعنی حد سے بڑھ جائے۔

شُرَّعًا پانی کے اوپر تیرتے ہوئے۔

بَئِيسٍ سخت۔ أَخْلَدَ بیٹھ رہا، پیچھے ہٹ گیا۔

سَنَسْتَدْرِجُهُمْ یعنی جہاں سے ان کو ڈر نہ ہو گا ادھر سے ہم آئیں گے جیسے اس آیت میں ہے فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا یعنی اللہ کا عذاب ادھر سے آ پہنچا جدھر سے گمان نہ تھا۔

مِنْ جِنَّةٍ یعنی جنون دیوانگی

فَمَرَّتْ بِهِ برابر پیٹ رہا، اس نے پیٹ کی مدت پوری کی

يَنْزَغَنَّكَ گدگدائے پھسلائے۔

طَيْفٌ ‏‏‏‏ اور طَائِفٌ شیطان کی طرف سے جو اترے یعنی وسوسہ آئے۔ دونوں کا معنی ایک ہے

يَمُدُّونَهُمْ ان کو اچھا کر دکھلاتے ہیں

وَخِيفَةً کا معنی خوف، ڈر خِيفَةً ، الْإِخْفَاءِ ‏‏‏‏ سے ہے یعنی چپکے چپکے

وَالْآصَالُ ، أَصِيلٌ ‏‏‏‏ کی جمع ہے وہ وقت جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے بُكْرَةً وَأَصِيلًا ۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے ، ان میں سے جو ظاہر ہوں ان کو بھی اور جو چھپے ہوئے ہوں ان کو بھی ۔ (۷:۳۳)

حدیث نمبر ۴۶۳۷

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لئے  اس نے بےحیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ اور اللہ سے زیادہ اپنی مدح کو پسند کرنے والا اور کوئی نہیں، اسی لئے  اس نے اپنے نفس کی خود تعریف کی ہے۔

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ … قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ

اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر کوہ طور پر آ گئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا ، موسیٰ بولے ، اے میرے رب ! مجھے تو اپنا دیدار کرا دے کہ میں تجھ کو ایک نظر دیکھ لوں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے ، البتہ تم اس پہاڑ کی طرف دیکھو ، سو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تم مجھ کو بھی دیکھ سکو گے ،

پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو تجلی نے پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے ،

پھر جب انہیں ہوش آیا تو بولے اے رب ! تو پاک ہے ، میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں ۔(۷:۱۴۳)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا أَرِنِي ، أَعْطِنِي کے معنی میں ہے کہ دے تو مجھ کو، یعنی اپنا دیدار عطا کر۔

حدیث نمبر ۴۶۳۸

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! آپ کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ لوگوں نے انہیں بلایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں یہودیوں کی طرف سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی۔ میں نے کہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آ گیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت  کے دن تمام لوگ بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا لیکن میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا ایک پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا طور کی بے ہوشی کا انہیں بدلہ دیا گیا۔

ہم نے تمہارے کھانے کے لئے الْمَنَّ وَالسَّلْوَى  اتارا

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا …  وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

تُو کہہ، لوگو! میں رسول ہوں اﷲ کا، تم سب کی طرف،جسکی حکومت ہے آسمان اور زمین میں۔ کسی کی بندگی نہیں سوائے اسکے ،جِلاتا زندگی دیتا ہے اور مارتا ہے،

سو مانو اﷲ کو، اور اس کے بھیجے نبی اُمّی کو، جو خود بھی یقین کرتا ہے اﷲ پر، اور اس کے سب کلام پر ، اوراسکے تابع ہو پیروی کرو ، شاید تم راہ ہدایت پاؤ۔(۷:۱۵۸)

حدیث نمبر ۴۶۳۹

راوی: سعید بن زید رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کھنبی الْمَنِّ، میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے  شفاء ہے۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا … وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

اے نبی ! آپ کہہ دیں کہ اے انسانو ! بیشک میں اللہ کا سچا رسول ہوں ، تم سب کی طرف اسی اللہ کا جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی جلاتا اور وہی مارتا ہے ،

سو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے امی رسول و نبی پر جو خود ایمان رکھتا ہے اللہ اور اس کی باتوں پر اور اس کی پیروی کرتے رہو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ ۔ (۷:۱۶۱)

حدیث نمبر ۴۶۴۰

راوی: ابودرداء رضی اللہ عنہ

 ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ بحث سی ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر غصہ ہو گئے اور ان کے پاس سے آنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو گئے، معافی مانگتے ہوئے۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معاف نہیں کیا اور گھر پہنچ کر اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

ہم لوگ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے یہ صاحب یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ لڑ آئے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے طرز عمل پر نادم ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور سلام کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ بہت ناراض ہوئے۔

ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار یہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! واقعی میری ہی زیادتی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے میرے ساتھی سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم لوگ میرے ساتھی کو مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ جب میں نے کہا تھا کہ اے انسانو! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کی طرف، تو تم لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، اس وقت ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں۔

ابوعبداللہ نے کہا غَامَرَ کے معنی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھلائی میں سبقت کی ہے۔

وَقُولُوا حِطَّةٌ

اور کہتے جاؤ کہ یا اللہ ! گناہوں سے ہماری توبہ ہے

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

خوب کر معاف درگزر کرنا، اور کہہ نیک کام کو اور کنارہ کر جاہلوں سے۔۷:۱۹۹

حدیث نمبر ۴۶۴۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ

دروازے میں عاجزی سے جھکتے ہوئے داخل ہو اور کہتے جاؤ کہ توبہ ہے، تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے،(۲:۵۸)

لیکن انہوں نے حکم بدل ڈالا۔ چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہا کہ حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ یعنی ہم کو بالیوں میں دانہ چاہیئے۔(۲:۵۸)

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

اے نبی ! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو۔  (۷:۱۹۹)

الْعُرْفِ، الْمَعْرُوفُ کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۴۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آ کر قیام کیا۔ حر، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہت قریب رکھتے تھے ۔ جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔

 عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لئے  بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لئے  بھی اجازت مانگوں گا۔ چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لئے  بھی اجازت مانگی اور عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔

عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا یا امیرالمؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جایا کیجئے۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ (۷:۱۹۹)

اللہ کی قسم! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ بالکل ٹھنڈے پڑ گئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سامنے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔

حدیث نمبر ۴۶۴۳

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

آیت خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ معافی اختیار کیجئے اور نیک کام کا حکم دیتے رہئیے۔ لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کے لئے  ہی نازل ہوئی ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۴۴

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک کرنے کے لئے  درگزر اختیار کریں یا کچھ ایسا ہی کہا۔

سورۃ الانفال

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ

یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیں کہ غنیمتیں اللہ کی ملک ہیں پھر رسول کی ، پس اللہ سے ڈرتے رہو اور آپس کی اصلاح کرو ۔ (۸:۱)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الأَنْفَالِ کے معنی غنیمتیں ہیں۔

 قتادہ نے کہا کہ لفظ   ريحكم سے لڑائی مراد ہے یعنی اگر تم آپس میں نزاع کرو گے تو لڑائی میں تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ لفظ نافلة عطیہ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۴۵

راوی: سعید بن جبیر

میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الانفال کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتلایا کہ غزوہ بدر میں نازل ہوئی تھی۔

الشوكة کا معنی دھار نوک۔ مردفين‏ کے معنی فوج در فوج۔

کہتے ہیں ردفني وأردفني یعنی میرے بعد آیا۔

  ذلكم فذوقوه ذوقوا‏ کا معنی یہ ہے کہ یہ عذاب اٹھاؤ اس کا تجربہ کرو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔

  فيركمه‏ کا معنی اس کا جمع کرے۔ شرد‏ کا معنی جدا کر دے یا سخت سزا دے ۔

  جنحوا‏ کے معنی طلب کریں۔ يثخن‏ کا معنی غالب ہوا

اور مجاہد نے کہا مكاء‏ کا معنی انگلیاں منہ پر رکھنا۔ تصدية‏ سیٹی بجانا۔ يثبتوك‏ تاکہ تجھ کو قید کر لیں۔

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ

باب: آیت کی تفسیر بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے ، گونگے لوگ ہیں جو ذرا بھی عقل نہیں رکھتے ۔ ۸:۲۲

حدیث نمبر ۴۶۴۶

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 آیت إن شر الدواب عند الله الصم البكم الذين لا يعقلون‏ بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔ بنو عبدالدار کے کچھ لوگوں کے بارے میں اتری تھی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ ... بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو جبکہ وہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخشنے والی چیز کی طرف بلائیں

اور جان لو کہ اللہ حائل ہو جاتا ہے انسان اور اس کے دل کے درمیان اور یہ کہ تم سب کو اسی کے پاس اکٹھا ہونا ہے ۔ (۸:۲۴)

استجيبوا‏ ، أجيبوا ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ یعنی قبول کرو، جواب دو۔

، لما يحييكم‏ ، لما يصلحكمیعنی اس چیز کے لئے  جو تمہاری اصلاح کرتی ہے تم کو درست کرتی ہے۔ جس کے ذریعہ تم کو دائمی زندگی ملے گی۔

حدیث نمبر ۴۶۴۷

راوی: ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ

میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آنے میں دیر کیوں ہوئی؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم کہ اے 2ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جبکہ وہ یعنی رسول تم کو بلائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں قرآن کی عظیم ترین سورۃ سکھاؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔

انہوں نے بیان کیا وہ سورۃ فاتحہ الحمد لله رب العالمين ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہیں۔

وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

"اے نبی ! ان کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ان کافروں نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی برحق ہے ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے

یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ" (۸:۳۲)

ابن عیینہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ مطرا بارش کا استعمال قرآن میں عذاب ہی کے لئے  کیا ہے، عرب اسے غيث کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ينزل الغيث من بعد ما قنطوا میں ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۴۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ! تو اس پر یہ آیات اتریں۔

وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم ... وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُونَ  

حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔

ان لوگوں کے لئے  کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب ہی سرے سے نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں اور اسکو اختیار والے نہیں۔اسکے اختیار والے وہی ہیں جو پرہیزگار ہیں، لیکن وہ اکثر خبر نہیں رکھتے۔(۸:۳۳،۳۴)

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

ور اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب کرے اس حال میں کہ اے نبی ! آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں(۸:۳۳)

حدیث نمبر ۴۶۴۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب لے آ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم ... وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُونَ  

حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔

ان لوگوں کے لئے  کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب ہی سرے سے نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں اور اسکو اختیار والے نہیں۔اسکے اختیار والے وہی ہیں جو پرہیزگار ہیں، لیکن وہ اکثر خبر نہیں رکھتے۔(۸:۳۳،۳۴)

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ

اور ان سے لڑو ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے (۸:۳۹)

حدیث نمبر ۴۶۵۰

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

ایک شخص حبان یا علاء بن عرار نامی نے پوچھا ابوعبدالرحمٰن! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا‏ کہ جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں الخ، اس آیت کے بموجب تم علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا فقاتلوا التي تبغيإ ۔ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا‏ کی تاویل کروں۔ وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کرو گے جس میں مذکور ہے وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة‏ کہ ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا واہ، واہ یہ لڑائی تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کر چکے، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی۔ قتل کرتے، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ مسلمان بہت ہو گئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا۔

 جب اس شخص نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟

انہوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو، علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا جو قصور تم بیان کرتے ہو کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کر دیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو اور علی رضی اللہ عنہ تو سبحان اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو۔

حدیث نمبر ۴۶۵۱

راوی: سعید بن جبیر

ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، تو ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ مسلمانوں کے باہمی فتنہ اور جنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تمہیں معلوم بھی ہے فتنہ کیا چیز ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے جنگ کرتے تھے اور ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ... الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَ يَفْقَهُونَ

اے نبی ! مومنوں کو قتال پر آمادہ کیجئے ، اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے

اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے اس لئے  کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے (۸:۶۵)

حدیث نمبر ۴۶۵۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جب یہ آیت نازل ہوئی إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين‏ ‏ کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں کے لئے  فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے اور کئی مرتبہ سفیان ثوری ذیلی راوی نے یہ بھی کہا کہ بیس دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری الآن خفف الله عنكم‏ اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی۔ اس کے بعد یہ فرض قرار دیا کہ ایک سو، دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔

سفیان ثوری ذیلی راوی نے ایک مرتبہ اس زیادتی کے ساتھ روایت بیان کی کہ آیت نازل ہوئی

حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون‏

اے نبی مومنوں کو قتال پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے ہوں گے۔

سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن شبرمہ کوفہ کے قاضی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی حکم ہے۔

الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضُعْفًا۔۔۔وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں کمزوری آ گئی ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد والله مع الصابرين تک (۸:۶۶)

حدیث نمبر ۴۶۵۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جب یہ آیت اتری إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين‏ کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں پر سخت گزرا کیونکہ اس آیت میں ان پر یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے۔ اس لئے  اس کے بعد تخفیف کی گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

الآن خفف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين‏

اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں جوش کی کمی ہے۔ سو اب اگر تم میں صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تعداد کی اس کمی سے اتنی ہی مسلمانوں کے صبر میں کمی ہو گئی۔

سورۃ برأت  کی تفسیر

وليجة‏ وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے اندر داخل کی جائے یہاں مراد بھیدی ہے ۔

الشقة‏ سفر یا دور دراز راستہ۔

خبال کے معنی فساد اور خبال موت کو بھی کہتے ہیں۔

ولا تفتني‏ یعنی مجھ کو مت جھڑک، مجھ پر خفا مت ہو۔

  كَرها‏ اور كُرها‏ دونوں کا معنی ایک ہے یعنی زبردستی ناخوشی سے۔

مدخلا‏ گھس بیٹھنے کا مقام مثلا سرنگ وغیرہ ۔

يجمحون‏ دوڑتے جائیں۔

  مؤتفكات‏ یہ ائتفكت انقلبت بها الأرض‏.‏ سے نکلا ہے یعنی اس کی زمین الٹ دی گئی۔

  أهوى‏ یعنی اس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا۔

عدن‏ کا معنی ہمیشگی کے ہیں۔ عرب لوگ بولتے ہیں عدنت بأرض یعنی میں اس سر زمین میں رہ گیا۔ اس سے معدن کا لفظ نکلا ہے۔ جس کا معنی سونے یا چاندی یا کسی اور دھات کی کان کے ہیں ۔ معدن صدق‏.‏ یعنی اس سر زمین میں جہاں سچائی اگتی ہے۔

  الخوالف ، خالف کی جمع ہے۔ خالف وہ جو مجھ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہا۔ اسی سے ہے یہ حدیث يخلفه في الغابرين یعنی جو لوگ میت کے بعد باقی رہ گئے تو ان میں اس کا قائم مقام بن یعنی ان کا محافظ اور نگہبان ہو ۔ اور الخوالف سے عورتیں مراد ہیں اس صورت میں یہ يخلفه کی جمع ہو گی جیسے فاعلة کی جمع فواعل آتی ہے ۔ اگر خالف مذکر کی جمع ہو تو یہ شاذ ہو گی ایسے مذکر کی زبان عرب میں دو ہی جمعه آتی ہیں جیسے فارس اور فوارس اور هالك اور هوالك‏ ۔

الخيرات‏ ، خيرة کی جمع ہے۔ یعنی نیکیاں بھلائیاں۔

مرجئون‏ ڈھیل میں دیئے گئے۔

  الشفا کہتے ہیں شفير کو یعنی کنارہ۔

 الجرف وہ زمین جو ندی نالوں کے بہاؤ سے کھد جاتی ہے۔

هار‏ گرنے والی اسی سے ہے تهورت البئر یعنی کنواں گر گیا۔

  لأواه‏ یعنی خدا کے خوف سے اور ڈر سے آہ و زاری کرنے والا جیسے شاعر مشقب عبدى کہتا ہے۔

بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

اعلان بیزاری ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین سے جن سے تم نے عہد کر رکھا ہے اور اب عہد کو انہوں نے توڑ دیا ہے (۹:۱)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ أذن اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر بات سن لے اس پر یقین کر لے۔

  تطهرهم اور تزكيهم بها کے ایک معنی ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مترادف الفاظ بہت ہیں۔

الزكاة کے معنی بندگی اور اخلاص کے ہیں۔

  لا يؤتون الزكاة کے معنی یہ کہ کلمہ لا إله إلا الله کی گواہی نہیں دیتے۔

يضاهون ای يشبهون یعنی اگلے کافروں کی سی بات کرتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۵۴

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

سب سے آخر میں یہ آیت نازل ہوئی تھی يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة‏ اور سب سے آخر میں سورۃ برأت  نازل ہوئی۔

فَسِيحُوا فِي الأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ

اے مشرکو ! زمین میں چار ماہ چل پھر لو اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے ، بلکہ اللہ ہی کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔(۹:۲ )

سِيحُوا یعنی سِيرُوا یعنی چلو پھرو

حدیث نمبر ۴۶۵۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر بنایا تھ مجھے بھی اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم نحر میں اس لئے  بھیجا تھا کہ اعلان کر دیں کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر نہ کرے۔

حمید بن عبدالرحمٰن ذیلی راوی نے کہا کہ پھر اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے سے بھیجا اور انہیں سورۃ برأت  کے احکام کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چنانچہ ہمارے ساتھ علی رضی اللہ عنہ نے بھی یوم نحر ہی میں سورۃ برأت  کا اعلان کیا اور اس کا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگے ہو کر طواف کرے۔

وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الأَكْبَرِ ... وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اور اعلان کیا جاتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کے سامنے بڑے حج کے دن کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں ، پھر بھی اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے

اور اگر تم منہ پھیرتے ہی رہے تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور کافروں کو عذاب درد ناک کی خوشخبری سنا دیجئیے۔ (۹:۳ )

آذَنَهُمْ أَعْلَمَهُمْ یعنی ان کو آگاہ کیا ۔

حدیث نمبر ۴۶۵۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر بنایا تھ مجھ کو ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں آپ نے یوم نحر میں بھیجا تھا۔ منیٰ میں یہ اعلان کرنے کے لئے  کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔

 حمید بن عبدالرحمٰن ذیلی راوی نے کہا کہ پھر پیچھے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ سورۃ برأت  کا اعلان کر دیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ منیٰ کے میدان میں دسویں تاریخ میں سورۃ برأت  کا اعلان کیا اور یہ کہ کوئی مشرک آئندہ سال سے حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔

إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ  

مگر جن مشرکوں سے تم کو عہد تھا،(۹:۴ )

حدیث نمبر ۴۶۵۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر جس کا انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنایا تھا۔ حجۃ الوداع سے ایک سال پہلے ۹ ھ میں انہیں بھی ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں لوگوں میں آپ نے یہ اعلان کرنے کے لئے  بھیجا تھا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔

 حمید بن عبدالرحمٰن ذیلی راوی نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم نحر بڑے حج کا دن ہے۔

فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لاَ أَيْمَانَ لَهُمْ

کفر کے سرداروں سے جہاد کرو عہد توڑ دینے کی صورت میں اب ان کی قسمیں باطل ہو چکی ہیں۔(۹:۱۲)

حدیث نمبر ۴۶۵۸

راوی: زید بن وہب

ہم حذیفہ بن یمان کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا یہ آیت جن لوگوں کے بارے میں اتری ان میں سے اب صرف تین شخص باقی ہیں، اسی طرح منافقوں میں سے بھی اب چار شخص باقی ہیں۔

اتنے میں ایک دیہاتی کہنے لگا آپ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، ہمیں ان لوگوں کے متعلق بتائیے کہ ان کا کیا حشر ہو گا جو ہمارے گھروں میں چھید کر کے اچھی چیزیں چرا کر لے جاتے ہیں؟ ا

نہوں نے کہا کہ یہ لوگ فاسق بدکار ہیں۔ ہاں ان منافقوں میں چار کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا ہے اور ایک تو اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اس کی ٹھنڈ کا بھی اسے پتہ نہیں چلتا۔

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اے نبی اور جو لوگ سونا اور چاندی زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ! آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ (۹:۳۴)

حدیث نمبر ۴۶۵۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

بیان کیا کہ  انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمہارا خزانہ جس میں زکوٰۃ نہ دی گئی ہو قیامت  کے دن گنجے ناگ کی شکل اختیار کرے گا۔

حدیث نمبر ۴۶۶۰

راوی: زید بن وہب

میں مقام ربذہ میں ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس جنگل میں آپ نے کیوں قیام کو پسند کیا؟

 فرمایا کہ ہم شام میں تھے۔ مجھ میں اور وہاں کے حاکم معاویہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہو گیا میں نے یہ آیت پڑھی

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اے نبی اور جو لوگ سونا اور چاندی زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ! آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ (۹:۳۴)

تو معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے جب وہ زکوٰۃ دیتے رہیں بلکہ اہل کتاب کے بارے میں ہے۔

فرمایا کہ میں نے اس پر کہا کہ یہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے۔

يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ ... فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ

اس دن کو یاد کرو جس دن سونے چاندی کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا ، پھر اس سے جنہوں نے اس خزانے کی زکوٰۃ نہیں ادا کی ان کی پیشانیوں کو اور انکے پہلوؤں کو اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا ۔

اور ان سے کہا جائے گا یہی ہے وہ مال جسے تم نے اپنے واسطے جمع کر رکھا تھا سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو ۔(۹:۳۵ )

حدیث نمبر ۴۶۶۱

راوی: خالد بن اسلم

ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نکلے تو انہوں نے کہا کہ یہ مذکورہ بالا آیت زکوٰۃ کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ کا حکم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ سے مالوں کو پاک کر دیا۔

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ

بیشک مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک کتاب الٰہی میں بارہ ہی مہینے ہیں ، جس روز سے کہ اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ (۹:۳۶)

قیم بمعنی القائم جس کے معنی درست اور سیدھے کے ہیں ۔

حدیث نمبر ۴۶۶۲

راوی: ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا کہ دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔

ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ

جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے ۔(۹:۴۰)

معنا یعنی ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔

سكينة ، فعيلة کے وزن پر سكون سے نکلا ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۶۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 مجھ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور بولے یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہم کو دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو کوئی نقصان پہنچا سکے گ جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔

حدیث نمبر ۴۶۶۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 جب میرا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اختلاف ہو گیا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، ان کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا تھیں، ان کی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی دادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

حدیث نمبر ۴۶۶۵

راوی: بن ابی ملیکہ

مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ

 ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہو گیا تھا۔ میں صبح کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہو گی؟

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا معاذاللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں۔ اللہ کی قسم! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لئے  تیار نہیں ہوں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کر لو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری تھے، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی۔ ان کے نانا صاحب غار تھے، اشارہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں، مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ان کی پھوپھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں، مراد خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔

ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ان کی دادی ہیں، اشارہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہئے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو تویت، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد، بنو تویت، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۶۶

راوی: ابن ابی ملیکہ

 ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لئے  کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ ان کے لئے  محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لئے  بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے بیٹے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں اپنے دل میں کہ مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ

نیز ان نومسلموں کا بھی حق ہے جن کی دلجوئی منظور ہے۔ (۹:۶۰)

مجاہد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان نو مسلم لوگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۴۶۶۷

راوی: ابو سعید خدریؓ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ جو نو مسلم تھے اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر بنو تمیم ک ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔

ٱلَّذِينَ يَلۡمِزُونَ ٱلۡمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ فِى ٱلصَّدَقَـٰتِ

 وہ جو طعن کرتے ہیں دل کھول کر، خیرات کرنے والے مسلمانوں کو، (۹:۷۹)

يَلْمِزُونَ کا معنی عیب لگاتے ہیں، طعنہ مارتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۶۸

راوی: ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ

جب ہمیں خیرات کرنے کا حکم ہ&