صحیح بخاری شریف

كتاب العلم

احادیث ۷۶

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


علم کی فضیلت کے بیان میں

جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہٰ  میں فرمایا کہ یوں دعا کیا کرو:

وَقُل رَّبِّ زِدۡنِى عِلۡمً۬ا (۲۰:۱۱۴)

اور کہہ، پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔

اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو

پس ( ادب کا تقاضا ہے کہ ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے

حدیث نمبر ۵۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔

 بعض لوگ جو مجلس میں تھےکہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا؟

 اس دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ! میں موجود ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت ایمانداری دنیا سے اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔

اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حکومت کے کاروبار نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔

اس کے بارے میں جس نے علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا

حدیث نمبر ۶۰

راوی:عبداللہ بن عمرو ؓ

ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس وقت ملے جب عصر کی نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم جلدی جلدی وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ یہ حال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ہی بلند آواز سےفرمایا۔

محدث کا لفظ حدثنا أو ، أخبرنا وأنبأنا استعمال کرنا صحیح ہے

جیسا کہ امام حمیدی نے کہا کہ ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ حدثنا اور اخبرنا اور انبانا اور سمعت ایک ہی تھے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی یوں ہی کہا حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم درحالیکہ آپ سچوں کے سچے تھے۔

اور شقیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اور حذیفہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں اور ابوالعالیہ نے روایت کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے اور انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تمہارے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔

حدیث نمبر ۶۱

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟

 یہ سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔

 عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی کم سنی کی شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔

 استاد اپنے شاگردوں کا علم آزمانے کے لیے ان سے کوئی سوال کرے

حدیث نمبر ۶۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟

یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں میں چلے گئے۔

عبداللہ نے کہا کہ میرے دل میں آیا کہ بتلا دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن (وہاں بہت سے بزرگ موجود تھے اس لیے) مجھ کو شرم آئی۔

آخر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی بیان فرما دیجیئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

 شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا

اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔

تو یہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انہوں نے اس کو جائز رکھا۔

اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔

 اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔

 اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔

حدیث نمبر ۶۳

راوی:انس بن مالکؓ

 ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا تم لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کون سے ہیں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔

 وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔

تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ!

پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ!

پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ!

پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ!

تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا :

 ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! )ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔

پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔

 پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔

پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔

پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔

پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔

 پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔

پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔

پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟

 آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔

 پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔

 نوٹ:

صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے۔

 حدیث نمبر ۶۴

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ شاہ ایران کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا

ذیلی راوی کہتے ہیں) ابن مسیب نے (اس کے بعد) مجھ سے کہا کہ (اس واقعہ کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ بھی چاک شدہ خط کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔

 حدیث نمبر ۶۵

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے (یعنی بے مہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ جس میں محمد رسول الله‏ کندہ تھا۔ گویا میں (آج بھی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔

وہ شخص جو مجلس کے آخر میں بیٹھ جائے اور وہ شخص جو درمیان میں جہاں جگہ دیکھے بیٹھ جائے

) بشرطیکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو (

حدیث نمبر ۶۶

راوی: ابوواقد اللیثی

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے ان میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے (جب مجلس میں ایک جگہ کچھ گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔

تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟تو سنو

- ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی

- اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا کہ اسے بھی بخش دیا

- اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ

 بسا اوقات وہ شخص جسے حدیث پہنچائی جائے سننے والے سے زیادہ حدیث کو یاد رکھ لیتا ہے

حدیث نمبر ۶۷

راوی: عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ  ( انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی (

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟

ہم خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن کا آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟

ہم نے عرض کیا، بیشک۔

اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ کون سا مہینہ ہے؟

 ہم اس پر بھی خاموش رہے اور یہ ہی سمجھے کہ اس مہینے کا بھی آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟

 ہم نے عرض کیا، بیشک۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تو یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ بات پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے، جو اس سے زیادہ حدیث کا یاد رکھنے والا ہو۔

اس بیان میں کہ علم ( کا درجہ ) قول و عمل سے پہلے ہے

اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَٱعۡلَمۡ أَنَّهُ ۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ (۴۷:۱۹)

آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے

 تو گویا اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی اور حدیث میں ہے:

علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

اور پیغمبروں نے علم ہی کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے دولت کی بہت بڑی مقدار حاصل کر لی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔

 اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

إِنَّمَا يَخۡشَى ٱللَّهَ مِنۡ عِبَادِهِ ٱلۡعُلَمَـٰٓؤُاْۗ (۳۵:۲۸)

اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔

اور دوسری جگہ فرمایا :

وَمَا يَعۡقِلُهَآ إِلَّا ٱلۡعَـٰلِمُونَ  (۲۹:۴۳)

اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔

اور فرمایا:

وَقَالُواْ لَوۡ كُنَّا نَسۡمَعُ أَوۡ نَعۡقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ أَصۡحَـٰبِ ٱلسَّعِيرِ (۶۷:۱۰)

اور ان لوگوں (کافروں)نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے۔

 اور فرمایا:

هَلۡ يَسۡتَوِى ٱلَّذِينَ يَعۡلَمُونَ وَٱلَّذِينَ لَا يَعۡلَمُونَ‌ۗ (۳۹:۹)

کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔

 اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔

 اور ابوذر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کر سکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات)غائب کو پہنچا دے۔

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت  كُونُواْ رَبَّـٰنِيِّـۧنَ ‏(۳:۷۹) سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔

اور رباني اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی علمی تربیت کرے۔

< p class="justify1aah"> حدیث نمبر ۶۸

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کر دیئے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں۔

 حدیث نمبر ۶۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص اہل علم کے لیے کچھ دن مقرر کر دے ( تو یہ جائز ہے )

یعنی استاد اپنے شاگردوں کے لیے اوقات مقرر کر سکتا ہے

 حدیث نمبر ۷۰

راوی: ابووائل ؓ

عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔

انہوں نے فرمایا، تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہو جاؤ اور میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے۔

 اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے

حدیث نمبر ۷۱

راوی: معاویہؓ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

 جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے ۔

 علم میں سمجھداری سے کام لینے کے بیان میں

حدیث نمبر ۷۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔

ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کرمیں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔

 علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں

اور عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھدار بنو(یعنی دین کا علم حاصل کرو)

اور امام بخاری رحمہ اللہفرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔

حدیث نمبر ۷۳

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔

- ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو

- اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت کی دولت سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور لوگوں کو اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں

اور اللہ تعالیٰ کا ارشادجو موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے:

هَلۡ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰٓ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدً۬ا (۱۸:۶۶)

کہے تو تیرے ساتھ رہوں، اس پر کہ مجھ کو سکھا دے کچھ، جو تجھ کو سکھائی ہے بھلی راہ۔

 حدیث نمبر ۷۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہ

 وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحثے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔

 انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

 ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں)کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟

موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔

 اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے)

موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟

 اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو (واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔

 تب موسیٰ چلے اور دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔

موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر باتیں کرتے ہوئے لوٹے وہاں انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ” اللہ اسے قرآن کا علم عطا فرمائیو ! “

حدیث نمبر ۷۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہ

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےسینے سےلگا لیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ ” اے اللہ اسے علم کتاب قرآن عطا فرمائیو “۔

 اس بارے میں کہ بچے کا ( حدیث ) سننا کس عمر میں صحیح ہے ؟

حدیث نمبر ۷۶

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 میں ایک مرتبہ گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار کی آڑ نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہو گیا (مگر) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔

 حدیث نمبر ۷۷

راوی: محمود بن الربیع ؓ

انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔

 علم کی تلاش میں نکلنے کے بارے میں

جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔

حدیث نمبر ۷۸

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

ابن عباس اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ اس دوران میں ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے یہ ساتھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟

 ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔

آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔

موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں۔

 تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔

تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی،

 اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے)مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے۔

موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں وہاں مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔

 موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی مقام کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے قدموں کےنشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ وہاں خضر علیہ السلام کو انہوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

پڑھنے اور پڑھانے والے کی فضیلت کے بیان میں

 حدیث نمبر ۷۹

راوی: ابوموسیٰ ؓ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پرخوب برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔

تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا یعنی توجہ نہیں کی اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔

علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں

اور ربیعہ کا قول ہے کہ جس کے پاس کچھ علم ہو، اسے یہ جائز نہیں کہ دوسرے کام میں لگ کر علم کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو ضائع کر دے۔  

حدیث ۸۰

راوی: انس ؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی)علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا۔ اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔

 حدیث نمبر ۸۱

راوی: انس ؓ

انہوں نے فرمایا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میرے بعد تم سے کوئی نہیں بیان کرے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علامات قیامت میں سے یہ ہے :

 علم (دین)کم ہو جائے گا۔ جہل ظاہر ہو جائے گا۔ زنا بکثرت ہو گا۔ عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہو جائیں گے۔ حتیٰ کہ 50 عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا۔

علم کی فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر ۸۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔

 صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم۔

جانور وغیرہ پر سوار ہو کر فتویٰ دینا جائز ہے

حدیث نمبر ۸۳

راوی: عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ

حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب ذبح کر لے اور کچھ حرج نہیں۔

پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب رمی کر لے۔ کچھ حرج نہیں۔

 ابن عمرو کہتے ہیں اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا بھی سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کر لی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لے اور کچھ حرج نہیں۔

اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے

حدیث نمبر ۸۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے آخری حج میں کسی نے پوچھا کہ میں نے رمی کرنےسے پہلے ذبح کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا کچھ حرج نہیں۔ کسی نے کہا کہ میں نے ذبح سے پہلے حلق کرا ( سر منڈوا) لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ فرما دیا کہ کچھ حرج نہیں۔

 حدیث ۸۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔

آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قتل مراد لیا۔

 حدیث نمبر ۸۶

راوی: اسماء ؓ

 میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی سورج کو گہن لگا ہے)

 اتنے میں لوگ (نماز کے لیے)کھڑے ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، اللہ پاک ہے۔

 میں نے کہا کیا یہ گہن کوئی خاص نشانی ہے؟

 انہوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں!

پھر میں بھی نماز کے لیےکھڑی ہو گئی۔ حتیٰ کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔

پھر نماز کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر یہ وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے،

مثل یا قرب کا کون سا لفظ اسماء نے فرمایا، میں نہیں جانتی، ذیلی راوی فاطمہ کہتی ہیں

 تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا، (کون سا لفظ فرمایا اسماء رضی اللہ عنہا نے، مجھے یاد نہیں)  وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کر لیا اور ان کی پیروی کی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

 تین بار اسی طرح کہے گاپھر اس سےکہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بیشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا تھا۔

 اور بہرحال منافق یا شکی آدمی،(ذیلی راوی کا کہنا ہے کہ  میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا) تو وہ منافق یا شکی آدمی کہے گا کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نےبھی وہی کہہ دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ عبدالقیس کے وفد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ ایمان لائیں

اور علم کی باتیں یاد رکھیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی خبر کر دیں

اور مالک بن الحویرث نے فرمایا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر انہیں دین کا علم سکھاؤ۔

حدیث نمبر ۸۷

راوی: ابوجمرہ ؓ

میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا ایک مرتبہابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟

 انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو آنایا مبارک ہو اس وفد کو جو کبھی نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو

اس کے بعدانہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ پڑتاہے اس کے خوف کی وجہ سےہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ اوراس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔

اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔

پھرفرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟

 انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم (اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو

 اور چار چیزوں سے منع فرمایا:

 دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔

 اور چوتھی چیز کے بارے میں شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات نقير کہتے تھے اور بسا اوقات مقير۔

اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان باتوں کویاد رکھو اور اپنے پیچھے رہ جانےوالوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔

جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے لیے سفر کرنا ( کیسا ہے ؟(

حدیث نمبر ۸۸

راوی: عبداللہ بن ابی ملیکہؓ

عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ یہ سن کرعقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔

عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ یہ سن کرعقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔

 تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس طرح تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) حالانکہ (اس کے متعلق یہ کہا گیا ہے ۔تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔

اس بارے میں کہ ( طلباء کا) علم کے لیے ( استاد کی خدمت میں ) اپنی اپنی باری مقرر کرنا درست ہے

 حدیث نمبر ۸۹

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

 میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے پورب کی طرف بلند گاؤں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔

 تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا جب واپس آیاتو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور میرے بارے میں پوچھا کہکیا عمر یہاں ہیں؟

میں گھبرا کر اس کے پاس آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے۔ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے)

پھر میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟

 وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی۔

 پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ یہ افواہ غلط ہے

تب میں نے تعجب سےکہا الله اكبراللہ بہت بڑا ہے۔

استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے

حدیث نمبر ۹۰

راوی: ابومسعود انصاری ؓ

ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کرعرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل)لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا

 ابومسعود راوی کہتے ہیں کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اے لوگو! تم ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سےنفرت دلانے لگے ہو۔ سن لوجو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے سب ہی قسم کے لوگہوتے ہیں۔

 حدیث نمبر ۹۱

راوی: زید بن خالد الجہنی ؓ

ایک شخص (عمیر یا بلال) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی پہچان لےپھر ایک سال تک اس کا اعلان کراؤ پھر اس کا مالک نہ ملے تواس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔

 اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ کے بارے میں کیا حکم ہے؟

 آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے پاؤں کےسم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔

اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی (غذا) ہے۔

استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے

حدیث نمبر ۹۲

راوی: ابوموسیٰ ؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب اس قسم کے سوالات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا اچھا اب مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔

 پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔

آخر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم ان باتوں کے دریافت کرنے سے اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔

اس شخص کے بارے میں جو امام یا محدث کے سامنے دو زانو ( ہو کر ادب کے ساتھ ) بیٹھے

حدیث نمبر ۹۳

راوی: انس بن مالک ؓ

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ،

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں  اور یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا

یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے ( ایک ) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے  چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے  ألا وقول الزور  اس کو تین بار دہراتے رہے  اس کو تین بار دہراتے رہے

اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرایا۔

حدیث نمبر ۹۴

راوی: انس رضی اللہ عنہ

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔

 حدیث نمبر ۹۵

راوی:انس بن مالک رضی اللہ عنہ

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے۔

 حدیث نمبر ۹۶

راوی:عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما

ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب پہنچے۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا یا تنگ ہو گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا :

 آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔

یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔

اس بارے میں کہ مرد کا اپنی باندی اور گھر والوں کو تعلیم دینا

حدیث نمبر ۹۷

راوی:ابوبردہ نے اپنے باپ کے واسطے سے نقل کیا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔

- ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے

-  اور دوسرےوہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ دونوںکا حق ادا کرے

-  اور تیسرےوہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔

اس بارے میں کہ امام کا عورتوں کو بھی نصیحت کرنا اور تعلیم دینا   

حدیث نمبر ۹۸

راوی:ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سےنکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو خطبہ اچھی طرح نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا

یہ وعظ سن کرکوئی عورت بالی اور کوئی عورت انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے دامن میں (یہ چیزیں) لینے لگے۔

علم حدیث حاصل کرنے کی حرص کے بارے میں

حدیث نمبر ۹۹

راوی:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 ابوہریرہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔

 سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے لا إله إلا الله کہے گا۔

اس بیان میں کہ علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا ؟

خلیفہ خامس عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی حدیثیں ہوں، ان پر نظر کرو اور انہیں لکھ لو، کیونکہ مجھے علم دین کے مٹنے اور علماء دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی حدیث قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور ایک جگہ جم کربیٹھیں تاکہ جاہل بھی جان لے اور علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۱۰۰

راوی: عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ پختہ کارعلماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

اس بیان میں کہ کیا عورتوں کی تعلیم کے لیے کوئی خاص دن مقرر کیا جا سکتا ہے ؟

حدیث نمبر ۱۰۱

راوی:ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ اٹھانے میں مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے وعظ کےلیے بھی کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔

اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اوراحکام سنائے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بات بھی تھی:

 جو کوئی عورت تم میں سے اپنےتین لڑکےآگے بھیج دے گی تو وہ اس کے لیے دوزخ سے پناہ بن جائیں گے۔

 اس پر ایک عورت نے کہا، اگر دو بچے بھیج دے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اور دو کا بھی یہ حکم ہے۔

حدیث نمبر ۱۰۲

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔

 اور دوسری سند میں عبدالرحمٰن الاصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحازم سے سنا، وہ ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ایسے تین بچےجو ابھی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں۔

اس بارے میں کہ ایک شخص کوئی بات سنے اور نہ سمجھے تو دوبارہ دریافت کر لے تاکہ وہ اسے سمجھ لے ، یہ جائز ہے

حدیث نمبر ۱۰۳

راوی:ابن ابی ملیکہ ؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا جب کوئی ایسی باتیں سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ اس کو معلوم کرتیں تاکہ سمجھ لیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے حساب لیا گیا اسے عذاب کیا جائے گا۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صرف اللہ کے دربار  میں پیشی کا ذکر ہے۔ لیکن جس کے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی (سمجھو) وہ غارت ہو گیا۔

اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں

 حدیث نمبر ۱۰۴

راوی: سعید بن ابی سعیدؓ

ابوشریح سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن سعید والی مدینہسے جب وہ مکہ میں ابن زبیر سے لڑنے کے لیےفوجیں بھیج رہے تھے کہا کہ اے امیر! مجھے آپ اجازت دیں تو میں وہ حدیث آپ سے بیان کر دوں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیثکو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلےاللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا:

 مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو سن لوکہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول کے لڑنےکی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی۔ آج اس کی حرمت لوٹ آئی، جیسی کل تھی۔ اور حاضر غائب کو یہ بات پہنچا دے۔

یہ حدیث سننے کے بعد راوی حدیث ابوشریح سے پوچھا گیا کہ آپ کی یہ بات سن کرعمرو نے کیا جواب دیا؟

 کہا یوں کہ اے ابوشریح! حدیث کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مگر حرم (مکہ)کسی خطاکار کو یا خون کر کے اور فتنہ پھیلا کر بھاگ آنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔

حدیث نمبر ۱۰۵

راوی:  ابن ابی بکرہ ؓ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 تمہارے خون اور تمہارے مال، ذیلی راوی محمد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وأعراضكم کا لفظ بھی فرمایا۔

یعنی اور تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہیں۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں۔ سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے۔

 اور محمد راوی حدیث کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔

 پھردوبارہ فرمایا کہ کیا میں نے اللہ کا یہ حکم تمہیں نہیں پہنچا دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے

حدیث نمبر ۱۰۶

راوی: حضرت علی رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو۔

 حدیث نمبر ۱۰۷

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

 انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں،

کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

 حدیث نمبر ۱۰۸

راوی: انس رضی اللہ عنہ

مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

 حدیث نمبر ۱۰۹

راوی: سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

 حدیث نمبر ۱۱۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

- اپنی اولادکا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو

- اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا

- اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔

) دینی (علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں

حدیث نمبر ۱۱۱

راوی: شعبی رحمہ اللہ

ابوحجیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی اور بھی کتاب ہے؟

انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔

 میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟

 انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

 حدیث نمبر ۱۱۲

راوی؛ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

قبیلہ خزاعہ کے کسی شخصنے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا :

اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا۔

 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے القتل اور الفيل کہا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ الفيل کہتے ہیں۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمان کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ( مکہ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس چیز کا تعارف کرا دے گا۔

تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو اس کے عزیزوں کواختیار ہے دو باتوں کا، یا دیت لیں یا بدلہ۔

اتنے میں ایک یمنی آدمی (ابوشاہ نامی) آیا اور کہنے لگا یہ مسائل میرے لیے لکھوا دیجیئے۔

تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے یہ مسائل لکھ دو۔

 تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے)کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں۔ یا مٹی ملا کر اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں

یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں مگر اذخر، مگر اذخر۔

 حدیث نمبر ۱۱۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔ مگر وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔

 حدیث نمبر ۱۱۴

راوی: عبیداللہ بن عبداللہ

ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو،

 اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔

اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں،

اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔

اس بیان میں کہ رات کو تعلیم دینا اور وعظ کرنا جائز ہے

 حدیث نمبر ۱۱۵

راوی:  ام سلمہ رضی اللہ عنہا

ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیدار ہوتے ہی فرمایا :

 سبحان اللہ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں جودنیا میں( باریک) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔

اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے

حدیث نمبر ۱۱۶

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

آخر عمر میں ایک دفعہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا :

تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

 حدیث نمبر ۱۱۷

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت نماز نفل پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے،

پھر اٹھے اور فرمایا کہ ابھی تک یہ لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔

پھر آپ (نماز پڑھنے)کھڑے ہو گئے اور میں بھی وضو کر کےآپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا)کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے باہرتشریف لے آئے۔

 حدیث نمبر ۱۱۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے

لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اورمیں کہتا ہوںکہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھی:

إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلۡنَا مِنَ ٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَٱلۡهُدَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنَّـٰهُ لِلنَّاسِ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ‌ۙ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ يَلۡعَنُہُمُ ٱللَّهُ وَيَلۡعَنُہُمُ ٱللَّـٰعِنُونَ   

إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُواْ وَأَصۡلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَتُوبُ عَلَيۡہِمۡ‌ۚ وَأَنَا ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (۲:۱۵۹،۱۶۰)

جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ ہم نے اتارا صاف حکم اور راہ کے نشان، بعد اسکے کہ ہم انکو کھول چکے لوگوں کے واسطے کتاب میں، ان کو لعنت دیتا ہے اﷲ، اور لعنت دیتے ہیں سب لعنت دینے والے۔ 

مگر جنہوں نے توبہ کی اور سنوارا اور بیان کر دیا تو ان کو معاف کرتا ہوں ، اور میں ہوں معاف کرنے والا مہربان۔

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جی بھر کر رہتا تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بےفکری رہے اور (ان مجلسوں میں)حاضر رہتا جن (مجلسوں) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ (باتیں) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔

علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں

حدیث نمبر ۱۱۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور  میری چادر میں ڈال دی  فرمایا کہ  چادر کو  لپیٹ لو۔

 میں نے چادر کو اپنے بدن پرلپیٹ لیا، پھر اس کے بعدمیں کوئی چیز نہیں بھولا۔

 حدیث نمبر ۱۲۰

راوی:  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کےدو برتن(kinds of knowledge) یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔

اس بارے میں کہ عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے

حدیث نمبر ۱۲۱

راوی: جریر رضی اللہ عنہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو تاکہ وہ خوب سن لیں ۔

پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔

اس بیان میں کہ جب کسی عالم سے یہ پوچھا جائے کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ علم رکھتا ہے ؟  تو بہتر یہ ہے کہ اللہ کے حوالے کر دے

یعنی یہ کہہ دے کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے یا یہ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون سب سے بڑا عالم ہے

 حدیث نمبر ۱۲۲

راوی: سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ

میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، یہ سن کرابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔

ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ ایک روزموسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟

 انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔

 اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے،

موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟

حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں وہیں ملے گا۔

 تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب ایک پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں جتنا وقت باقی تھاچلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے کافی تکلیف اٹھائی ہے

 اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، یہ سن کرموسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے،

 جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے موجود ہےموسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟

 پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ علیہ السلام ہوں،

 خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟

 انہوں نے جواب دیا کہ ہاں!

پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔

 خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔

اس پرموسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر علیہ السلام کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں اسے دیکھ کرخضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر کے پانی سے

 پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر مفت میں سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی کی لکڑی اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں،

خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟

اس پرموسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔

 موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔پھر دونوں چلے کشتی سے اتر کر

ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔

موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا غضب ہو گیا

خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے

پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔

موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو گاؤں والوں سےاس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔

 خضر نے کہا کہ بس ابہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔

جناب محبوب کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا۔

کھڑے ہو کر کسی عالم سے سوال کرنا جو بیٹھا ہوا ہو

حدیث نمبر ۱۲۳

راوی: ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتاہے۔

رمی جمار ( یعنی حج میں پتھر پھینکنے ) کے وقت بھی مسئلہ پوچھنا جائز ہے

حدیث نمبر ۱۲۴

راوی: عبداللہ بن عمرو ؓ

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔

دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔

اس وقت جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی جواب دیا ابکر لو کچھ حرج نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے

حدیث نمبر ۱۲۵

راوی: عبداللہ بن مسعود ؓ

ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا ادھر سےگزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو مگران میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے،

پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی،

میں نے دل میں کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ کیفیتدور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی تلاوت فرمائی :

وَيَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلرُّوحِ‌ۖ قُلِ ٱلرُّوحُ مِنۡ أَمۡرِ رَبِّى وَمَآ أُوتِيتُم مِّنَ ٱلۡعِلۡمِ إِلَّا قَلِيلاً۬ (۱۷:۸۵)

اے نبی! تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔

اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے ۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص بعض باتوں کو اس خوف سے چھوڑ دے کہ کہیں لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس سے زیادہ سخت باتوں میں مبتلا نہ ہو جائیں

حدیث نمبر ۱۲۶

راوی: اسودؓ

مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا،

میں نے کہا ہاںمجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا :

 اے عائشہ! اگر تیری قوم دور جاہلیت کے ساتھ نہ ہوتی بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے،

بعد میں ابن زبیر نے یہ کام کیا۔

اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا اس خیال سے کہ ان کی سمجھ میں نہ آئیں گی

علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :

لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟

حدیث نمبر ۱۲۷

راوی:  ابوالطفیل

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟

 حدیث نمبر ۱۲۸

راوی:انس بن مالک ؓ

ایک مرتبہ معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ!

میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا، اے معاذ!

میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہ بارہ فرمایا، اے معاذ!

میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔

 اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔

میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اگر تم یہ خبر سناؤ گےتو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے اور عمل چھوڑ دیں گے

معاذ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔

 حدیث نمبر ۱۲۹

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

 جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ یقیناًجنت میں داخل ہو گا،

معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔

اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے !

مجاہد کہتے ہیں کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔

 ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انہیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔

حدیث نمبر ۱۳۰

راوی: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا

ام سلیم نامی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جب عورت پانی دیکھ لے۔ (یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو)

 تو یہ سن کرام سلمہ رضی اللہ عنہا نے شرم کی وجہ سےاپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے (یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے)۔

 حدیث نمبر ۱۳۱

راوی: عبداللہ بن عمر ؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا :

درختوں میں سے ایک درخت ایساہے۔ جس کے پتے کبھی نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا درخت ہے؟  

تو لوگ جنگلی درختوں کی سوچ میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا کہ میں بتلا دوں کہ وہ کھجور کا پیڑ  ہے،

 عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی اور میں چپ ہی رہا

تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی خوداس کے بارے میں بتلائیے،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔

 عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ کو بتلائی،

وہ کہنے لگے کہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا۔

اس بیان میں کہ مسائل شرعیہ معلوم کرنے میں جو شخص شرمائے وہ کسی دوسرے آدمی کے ذریعے سے مسئلہ معلوم کر لے

حدیث نمبر ۱۳۲

راوی: علی رضی اللہ عنہ

میں ایسا شخص تھا جسے جریان مذی کی شکایت تھی، تو میں نے اپنے شاگردمقداد کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔ تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اس مرض میں غسل نہیں ہے ہاں وضو فرض ہے۔

مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتوی دینا جائز ہے

حدیث نمبر ۱۳۳

راوی:نافع انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا

 ایک مرتبہ ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔

 اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ آخری جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد نہیں۔

سائل کو اس کے سوال سے زیادہ جواب دینا ،  ( تاکہ اسے تفصیلی معلومات ہو جائیں )

حدیث نمبر ۱۳۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 نہ قمیص پہنے نہ صافہ باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں اس طرح کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔


© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Email: cmaj37@gmail.com

Visits wef 2019


website hit counter