صحیح بخاری شریف

تیمم کے احکام و مسائل

احادیث۱۵

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت :

فَلَمۡ تَجِدُواْ مَآءً۬ فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدً۬ا طَيِّبً۬ا فَٱمۡسَحُواْ بِوُجُوهِڪُمۡ وَأَيۡدِيكُم مِّنۡهُ‌ (۵:۶)

پس نہ پاؤ تم پانی تو ارادہ کرو پاک مٹی کا ، پس مل لو منہ اور ہاتھ اس سے

حدیث نمبر ۳۳۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر (غزوہ بنی المصطلق) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا ”عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔“

پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ والد ماجد مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انہوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔

 اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا ”اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔

حدیث نمبر ۳۳۵

راوی جابر بن عبداللہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔

-   ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے

- اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو جہاں بھی پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے۔

- اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔

- اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔

- اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

اس بارے میں کہ جب نہ پانی ملے اور نہ مٹی تو کیا کرے ؟

حدیث نمبر ۳۳۶

راوی ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :

عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار مانگ کر پہن لیا تھا، وہ گم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا، جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت آ پہنچا اور لوگوں کے پاس جو ہار کی تلاش میں گئے تھےپانی نہیں تھا۔ لوگوں نے نماز پڑھ لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق شکایت کی۔

پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری جسے سن کر اسید بن حضیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا آپ کو اللہ بہترین بدلہ دے۔ واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فرما دی۔

اقامت کی حالت میں بھی تیمم کرنا جائز ہے

جب پانی نہ پائے اور نماز فوت ہونے کا خوف ہو۔

 عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے

اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی بیمار کے نزدیک پانی ہو جسے وہ اٹھا نہ سکے اور کوئی ایسا شخص بھی وہاں نہ ہو جو اسے وہ پانی دے سکے تو وہ تیمم کر لے۔اور عبداللہ بن عمر جرف کی اپنی زمین سے واپس آ رہے تھے کہ عصر کا وقت مقام مربدالنعم میں آ گیا۔ آپ نے تیمم سےعصر کی نماز پڑھ لی اور مدینہ پہنچے تو سورج ابھی بلند تھا مگر آپ نے وہ نماز نہیں لوٹائی۔

حدیث نمبر ۳۳۷

راوی: ابوجہیم بن حارث بن صمہ:

 ابوجہیم  ایک انصاری صحابی کے پاس آئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ”بئر جمل“ کی طرف سے تشریف لا رہے تھے، راستے میں ایک شخص نے آپ کو سلام کیا (یعنی خود اسی ابوجہیم نے) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ پھر آپ دیوار کے قریب آئے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر ان کے سلام کا جواب دیا۔

کیا مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں کو پھونک کر ان کو چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر مل لینا کافی ہے ؟

حدیث نمبر ۳۳۸

راوی: سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

 ایک شخص عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا تو میں اب کیا کروں

اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔

 پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 تجھے بس اتنا ہی کافی تھا

 اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔

اس بارے میں کہ تیمم میں صرف منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرنا کافی ہے

حدیث نمبر ۳۳۹

راوی: سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

عمار نے یہ واقعہ بیان کیا (جو پہلے گزر چکا) اور شعبہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا۔ پھر انہیں اپنے منہ کے قریب کر لیا (اور پھونکا) پھر ان سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا ۔

 حدیث نمبر ۳۴۰

راوی: سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

وہ عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے اور عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ہم ایک لشکر میں گئے ہوئے تھے۔ پس ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ اور اس میں ہے کہ بجائے  نفخ فيهما‏ کےانہوں نے تفل فيهماکہا۔

 حدیث نمبر ۳۴۱

سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے،

 انہوں نے بیان کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں تو زمین میں لوٹ پوٹ ہو گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے لیے صرف چہرے اور پہنچوں پر مسح کرنا کافی تھا (زمین پر لیٹنے کی ضرورت نہ تھی)۔

 حدیث نمبر ۳۴۲

راوی: سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا۔ پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی۔

 حدیث نمبر ۳۴۳

عمار نے بیان کیا :

پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور اس سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔

پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے پانی کے بدل وہ اس کو کافی ہے

اور حسن بصری نے کہا کہ جب تک اس کو حدث نہ ہو (یعنی وضو توڑنے والی چیزیں نہ پائی جائیں) تیمم کافی ہے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تیمم سے امامت کی

اور یحییٰ بن سعید انصاری نے فرمایا کہ کھاری زمین پر نماز پڑھنے اور اس سے تیمم کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

 حدیث نمبر ۳۴۴

راوی: عمرانؓ

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئےکہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے

اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔

جب عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔

تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہمااور علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔

یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟

 تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔

انہوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔

اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟

انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔

اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔

 انہوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔

 آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔

پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا اور سب سیر ہو گئےآخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔

وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور اللہ کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے کھانے کی چیزجمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور عجوہ آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔

 پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟

 اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، اللہ کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔

 اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔

 یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟

 قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔

 امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صباکے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا

اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو اصبکا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی املکے ہیں۔

جب جنبی کو غسل کی وجہ سے مرض بڑھ جانے کا یا پانی کے کم ہونے کی وجہ سے پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی

وَلَا تَقۡتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمۡ‌ۚإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِيمً۬ (۴:۲۹)

اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔

پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔

حدیث نمبر ۳۴۵

راوی: ابووائل :

 ابوموسیٰ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ اگر غسل کی حاجت ہو اورپانی نہ ملے تو کیا نماز نہ پڑھی جائے۔

 عبداللہ نے فرمایا، ہاں!

اگر مجھے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو میں نماز نہ پڑھوں گا۔ اگر اس میں لوگوں کو اجازت دے دی جائے تو سردی معلوم کر کے بھی لوگ تیمم سے نماز پڑھ لیں گے۔

 ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا کیا جواب ہو گا۔

بولے کہ مجھے تو نہیں معلوم ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن ہو گئے تھے۔

 حدیث نمبر ۳۴۶

راوی: شقیق بن سلمہ

میں عبداللہ بن مسعوداور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔

 عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔

ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف ہاتھ اور منہ کا تیمم کافی تھا۔

 ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔

پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔

اعمش کہتے ہیں کہ میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔

 تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔

تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے

حدیث نمبر ۳۴۷

راوی: اعمش

شقیق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟

 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے اور نماز موقوف رکھے

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا

 ”اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو“ ۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔

 اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔انہوں نے کہا ہاں۔

پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔

عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی۔

اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطےسے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے

انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور آپ کو بھیجا۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔

 حدیث نمبر ۳۴۸

راوی: عمران بن حصین خزاعی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ الگ کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا۔

 اس نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی اور پانی نہیں ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم کو پاک مٹی سے تیمم کرنا ضروری تھا، بس وہ تمہارے لیے کافی ہوتا۔


© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Email: cmaj37@gmail.com

Visits wef 2019


website hit counter