صحیح بخاری شریف

پیدائش کیونکر شروع ہوئی

احادیث ۱۳۶

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی

اور اللہ پاک نے فرمایا :

وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ

اللہ ہی ہے جس نے مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا ، اور وہی پھر دوبارہ ( موت کے بعد ) زندہ کرے گا اور یہ ( دوبارہ زندہ کرنا ) تو اس پر اور بھی آسان ہے (۳۰:۲۷)

اور ربیع بن خشیم اور امام حسن بصریٰ نے کہا کہ یوں تو دونوں یعنی (پہلی مرتبہ پیدا کرنا پھر دوبارہ زندہ کر دینا) اس کے لیے بالکل آسان ہے

لیکن ایک کو یعنی پیدائش کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو زیادہ آسان ظاہر کے اعتبار سے کہا (مشدد اور مخفف) دونوں طرح پڑھنا جائز ہے

اور سورۃ قٓ میں (۵۰:۱۵) جو لفظ أَفَعَيِينَا آیا ہے، اس کے معنی ہیں کہ کیا ہمیں پہلی بار پیدا کرنے نے عاجز کر دیا تھا۔

 جب اس اللہ نے تم کو پیدا کر دیا تھا اور تمہارے مادے کو پیدا کیا اور اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں لُغُوبٌ (۳۵:۳۵)کے معنی تھکن کے ہیں

اور سورۃ نوح میں (۷۱:۱۴) جو فرمایا أَطْوَارًا اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف صورتوں میں تمہیں پیدا کیا۔ کبھی نطفہ ایسے خون کی پھٹکی پھر گوشت پھر ہڈی پوست۔ عرب لوگ بولا کرتے ہیں اعَدَا طَوْرَهُ  یعنی فلاں اپنے مرتبہ سے بڑھ گیا۔ یہاں أَطْوَارًا کے معنی رتبے کے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۱۹۰

راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما

بنی تمیم کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اے بنی تمیم کے لوگو! تمہیں بشارت ہو۔

 وہ کہنے لگے کہ بشارت جب آپ نے ہم کو دی ہے تو اب ہمیں کچھ مال بھی دیجئیے۔

 اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا،

پھر آپ کی خدمت میں یمن کے لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی فرمایا کہ اے یمن والو! بنو تمیم کے لوگوں نے تو خوشخبری کو قبول نہیں کیا، اب تم اسے قبول کر لو۔

 انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے قبول کیا۔

پھر آپ مخلوق اور عرش الٰہی کی ابتداء کے بارے میں گفتگو فرمانے لگے۔

 اتنے میں ایک (نامعلوم) شخص آیا اور کہا کہ عمران! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی۔ (عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) کاش، میں آپ کی مجلس سے نہ اٹھتا تو بہتر ہوتا۔

حدیث نمبر ۳۱۹۱

راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اپنے اونٹ کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا۔ اس کے بعد بنی تمیم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ”اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو۔“

انہوں نے دوبار کہا کہ جب آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے تو اب مال بھی دیجئیے۔

پھر یمن کے چند لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ خوشخبری قبول کر لو اے

یمن والو! بنو تمیم والوں نے تو نہیں قبول کی۔ وہ بولے: یا رسول اللہ! خوشخبری ہم نے قبول کی۔

 پھر وہ کہنے لگے ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس (عالم کی پیدائش) کا حال پوچھیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔“

(ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ ابن الحصین! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی۔ میں اس کے پیچھے دوڑا۔ دیکھا تو وہ سراب کی آڑ میں ہے (میرے اور اس کے بیچ میں سراب حائل ہے یعنی وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے) اللہ تعالیٰ کی قسم، میرا دل بہت پچھتایا کہ کاش، میں نے اسے چھوڑ دیا ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہوتی)۔

حدیث نمبر ۳۱۹۲

راوی: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

آپ نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔

حدیث نمبر ۳۱۹۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اس کے لیے مناسب نہ تھا کہ وہ مجھے گالی دیتا۔ اس نے مجھے جھٹلایا اور اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ تھا۔ اس کی گالی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، میرا بیٹا ہے اور اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جس طرح اللہ نے مجھے پہلی بار پیدا کیا، دوبارہ (موت کے بعد) وہ مجھے زندہ نہیں کر سکے گا۔

حدیث نمبر ۳۱۹۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں، جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے۔

سات زمینوں کا بیان

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ الطلاق میں فرمایا :

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الأَرْضِ ... وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا

اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں۔

یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے۔ (۶۵:۱۲)

اور سورۃ الطور (۵۲:۵) میں وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ  سے مراد آسمان ہے

اور سورۃ والنازعات (۷۹:۲۸) میں جو رَفَعَ سَمْكَهَا  ہے سَمْكَهَا کے معنی بِنَاءَهَا عمارت کے ہیں۔

 اور سورۃ والذاریات (۵۱:۷) میں جو الْحُبُكِ  کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا۔

سورۃ اذا السماء انشقت (۸۴:۲) میں جو لفظ وَأَذِنَتْ  ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا، اور لفظ وَأَلْقَتْ  (۸۴:۴) کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا، خالی ہو گئی۔

 اور سورۃ والیل (۹۰:۶)میں جو لفظ طَحَاهَا  ہے اس کے معنی بچھایا۔

 اور سورۃ والنازعات (۷۹:۱۴) میں جو بِالسَّاهِرَةِ  کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۱۹۵

راوی: ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن

ان کا ایک دوسرے صاحب سے ایک زمین کے بارے میں جھگڑا تھا۔ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے واقعہ بیان کیا۔

انہوں نے (جواب میں) فرمایا: ابوسلمہ! کسی کی زمین (کے ناحق لینے) سے بچو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر ایک بالشت کے برابر بھی کسی نے (زمین کے بارے میں) ظلم کیا تو (قیامت کے دن) ساتھ زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا۔

حدیث نمبر ۳۱۹۶

راوی: عبداللہ بن عمر ؓ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔

حدیث نمبر ۳۱۹۷

راوی: ابوبکرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۱۹۸

راوی: عید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ

ارویٰ بنت ابی اوس سے ان کا ایک (زمین کے) بارے میں جھگڑا ہوا۔ جس کے متعلق ارویٰ کہتی تھی کہ سعید نے میری زمین چھین لی۔ یہ مقدمہ مروان خلیفہ کے یہاں فیصلہ کے لیے گیا جو مدینہ کا حاکم تھا۔

سعید رضی اللہ عنہ نے کہا بھلا کیا میں ان کا حق دبا لوں گا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے کسی کی دبا لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔

 سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے (تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی)۔

ستاروں کا بیان

قتادہ نے قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ   کہ ہم نے زینت دی آسمان دنیا کو (تاروں کے) چراغوں سے۔ (۶۷:۵)  کہا کہ

 اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین فائدوں کے لیے پیدا کیا ہے۔

- انہیں آسمان کی زینت بنایا، شیاطین پر مارنے کے لیے بنایا۔

-  اور (رات کی اندھیریوں میں) انہیں صحیح راستہ پر چلتے رہنے کے لیے نشانات قرار دیا۔

-  پس جس شخص نے ان کے سوا دوسری باتیں کہیں، اس نے غلطی کی، اپنا حصہ تباہ کیا (اپنا وقت ضائع کیا یا اپنا ایمان کھو دیا) اور جو بات غیب کی معلوم نہیں ہو سکتی اس کو اس نے معلوم کرنا چاہا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سورۃ الکہف میں لفظ هَشِيمًا ہے اس کا معنی بدلا ہوا۔

وَالْأَبُّ کے معنی مویشیوں کا چارہ۔ یہ لفظ سورۃ عبس میں ہے

اور سورۃ الرحمٰن میں لفظ وَالْأَنَامُ بمعنی مخلوق ہے

 اور لفظ بَرْزَخٌ  (۲۳:۱۰۰)بمعنی پردہ ہے۔

اور مجاہد تابعی نے کہا کہ لفظ أَلْفَافًا  (۷۸:۱۶) بمعنی مُلْتَفَّةً ہے۔ اس کے معنی گہرے لپٹے ہوئے۔

وَالْغُلْبُ بھی بمعنی الْمُلْتَفَّةُ اور لفظ فِرَاشًا  (۲:۲۲) بمعنی مِهَادًا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا كَقَوْلِهِ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ (۲:۳۶)  ( «مستقر‏» بھی بمعنی «مهاد» ہے)

اور سورۃ الاعراف میں جو لفظ نَكِدًا (۷:۵۸)ہے اس کا معنی تھوڑا ہے۔

سورۃ الرحمٰن کی اس آیت کی تفسیر کہ

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ

سورج اور چاند دونوں حساب سے چلتے ہیں (۵۵:۵)

مجاہد نے کہا یعنی چکی کی طرح گھومتے ہیں

اور دوسرے لوگوں نے یوں کہا یعنی حساب سے مقررہ منزلوں میں پھرتے ہیں، زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔

لفظ بِحُسْبَانٍ حِسَابٍ کی جمع ہے۔ جیسے لفظ شِهَابٍ  کی جمع وَشُهْبَانٍ  ہے

اور سورۃ والشمس (۹۱:۱) اور سورۃ النازیات (۷۹:۲۹) میں جو لفظ ضُحَاهَا  آیا ہے۔ ضحى روشنی کو کہتے ہیں

اور سورۃ یٰسٓ (۳۶:۴۰)میں جو آیا ہے کہ أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ سورج چاند کو نہیں پا سکا، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کر سکتی نہ ان کو یہ بات سزاوار ہے

 اور اسی سورۃ میں جو الفاظ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ (۳۶:۴۰) ہیں ان کا مطلب یہ کہ دن اور رات ہر ایک دوسرے کے طالب ہو کر لپکے جا رہے ہیں اور اسی سورۃ میں لفظ نَسْلَخُ  کا معنی یہ ہے کہ دن کو رات سے اور رات کو دن سے ہم نکال لیتے ہیں

اور سورۃ الحاقہ میں جو وَاهِيَةٌ (۶۹:۱۶) کا لفظ ہے۔  وهي  کے معنی پھٹ جانا اور اسی سورۃ میں جو یہ ہے أَرْجَائِهَا  یعنی فرشتے آسمانوں کے کناروں پر ہوں گے جب تک وہ پھٹے گا نہیں۔ جیسے کہتے ہیں وہ کنویں کے کنارے پر

اور سورۃ والنازعات میں جو لفظ وَأَغْطَشَ  (۷۹:۲۹) اور سورۃ الانعام (۷۶:۷۶) میں لفظ جَنَّ  ہے ان کے معنی اندھیری کے ہیں۔ یعنی اندھیاری کی اندھیاری ہوئی

اور امام حسن بصریٰ نے کہا کہ سورۃ التکویر (۸۱:۱) میں كُوِّرَتْ  کا جو لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے جب لپیٹ کر تاریک کر دیا جائے گا اور سورۃ انشقت (۸۴:۱۷) میں جو وَمَا وَسَقَ  کا لفظ ہے اس کے معنی جو اکٹھا کرے۔ اسی سورۃ میں اتَّسَقَ  (۸۴:۱۷) کا معنی سیدھا ہوا،

اور سورۃ الحجر (۱۶:۱۵) میں بُرُوجًا  کا لفظ  بروج‏ سورج اور چاند کی منزلوں کو کہتے ہیں

اور سورۃ فاطر میں جو الْحَرُورُ  کا لفظ ہے اس کے معنی دھوپ کی گرمی کے ہیں۔

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، الْحَرُورُ  رات کی گرمی اور وَالسَّمُومُ  دن کی گرمی۔

اور سورۃ فاطر میں جو يُولِجُ  کا لفظ ہے اس کے معنی لپیٹتا ہے اندر داخل کرتا ہے

اور سورۃ التوبہ میں جو التوبة (۹:۱۶) کا لفظ ہے اس کے معنی اندر گھسا ہوا یعنی راز دار دوست۔

حدیث نمبر ۳۱۹۹

راوی: ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟

میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے۔ پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے

اور وہ دن بھی قریب ہے، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ  (۳۶:۳۸)  میں اسی طرف اشارہ ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۰۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

قیامت کے دن سورج اور چاند دونوں تاریک (بے نور) ہو جائیں گے۔

حدیث نمبر ۳۲۰۱

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ اس لیے جب تم ان کو دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔

حدیث نمبر ۳۲۰۲

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کی یاد میں لگ جایا کرو۔“

حدیث نمبر ۳۲۰۳

راوی: عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

جس دن سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مصلے پر) کھڑے ہوئے۔ الله اكبر کہا اور بڑی دیر تک قرآت کرتے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، ایک بہت لمبا رکوع، پھر سر اٹھا کر سمع الله لمن حمده کہا اور پہلے کی طرح کھڑے ہو گئے۔

 اس قیام میں بھی لمبی قرآت کی۔ اگرچہ پہلی قرآت سے کم تھی اور پھر رکوع میں چلے گئے اور دیر تک رکوع میں رہے، اگرچہ پہلے رکوع سے یہ کم تھا۔ اس کے بعد سجدہ کیا، ایک لمبا سجدہ، دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا اور اس کے بعد سلام پھیرا تو سورج صاف ہو چکا تھا۔

 اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا اور سورج اور چاند گرہن کے متعلق بتلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں اور ان میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا، اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو فوراً نماز کی طرف لپک جاؤ۔

حدیث نمبر ۳۲۰۴

راوی:ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سورج اور چاند میں کسی کی موت یا حیات پر گرہن نہیں لگتا۔ بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں اس لیے جب تم ان میں گرہن دیکھو تو نماز پڑھو۔“

اللہ تعالیٰ کا سورۃ الفرقان میں یہ ارشاد کہ

وَهْوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ نُشُرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ

وہ اللہ ہی ہے جو اپنی رحمت ( بارش ) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے (۲۵:۴۸)

سورۃ بنی اسرائیل میں قَاصِفًا  کا جو لفظ ہے اس کے معنی سخت ہوا جو ہر چیز کو روند ڈالے۔

سورۃ الحج میں جو لفظ لَوَاقِحَ  ہے اس کے معنی مَلَاقِحَ  جو مُلْقِحَةً کی جمع ہے یعنی حاملہ کر دینے والی۔

سورۃ البقرہ میں جو إِعْصَارٌ  کا لفظ ہے تو یہ  بگولے کو کہتے ہیں جو زمین سے آسمان تک ایک ستون کی طرح ہے، اس میں آگ ہو۔

سورۃ آل عمران میں جو صِرٌّ  کا لفظ ہے اس کا معنی پالا (سردی)

نُشُرًا  کے معنی جدا جدا۔

حدیث نمبر ۳۲۰۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ بالصبا باد صبا (مشرقی ہوا) کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور قوم عاد  دبور (مغربی ہوا) سے ہلاک کر دی گئی تھی۔

حدیث نمبر ۳۲۰۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابر کا کوئی ایسا ٹکڑا دیکھتے جس سے بارش کی امید ہوتی تو آپ کبھی آگے آتے، کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر تشریف لاتے، کبھی باہر آ جاتے اور چہرہ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔ لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔

 ایک مرتبہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کے متعلق آپ سے پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نہیں جانتا ممکن ہے یہ بادل بھی ویسا ہی ہو جس کے بارے میں قوم عاد نے کہا تھا، جب انہوں نے بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تھا۔ آخر آیت تک (کہ ان کے لیے رحمت کا بادل آیا ہے، حالانکہ وہ عذاب کا بادل تھا)۔

فرشتوں کا بیان

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جبریل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ الصافات (۳۷:۱۶۵) میں بیان کہ لَنَحْنُ الصَّافُّونَ  میں مراد ملائکہ ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۰۷

راوی: مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی۔ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا۔

جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟

 انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔

 پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟

 انہوں نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )

پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں،

 پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی۔

 اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟

 کہا جبرائیل،

سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟

 کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،

 سوال ہوا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟

 کہا کہ ہاں۔

 اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔

 اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ علیہ السلام سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔

 پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟

جواب ملا جبرائیل،

سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟

 کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟

 انہوں نے بتایا کہ ہاں،

 اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں،

یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی،

 یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب، جواب دیا کہ جبرائیل

، سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا، جواب دیا کہ ہاں،

پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں۔

یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا، انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور نبی۔

یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟

 جواب دیا کہ جبرائیل،

 پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،

 پوچھا گیا، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں،

 آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔

یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک میرے بھائی اور نبی، تم اچھی کشادہ جگہ آئے،

یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل،

 پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

 پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا کہا ہاں،

 کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔

 یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔

اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟

جواب دیا کہ جبرائیل،

سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟

جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

پوچھا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔

یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو،

 اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔

 اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان، اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں،

 اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟

میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، بنی اسرائیل کا مجھے برا تجربہ ہو چکا ہے۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو، اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو،

 میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کر دیں۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے۔ اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں۔

پھر انہوں نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا۔ میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا۔ اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کر دیں۔

 اب موسیٰ علیہ السلام سے ملا، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟

میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ کے سپرد کر چکا۔

پھر آواز آئی۔ میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کر دیا۔ اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المعمور کے بارے میں الگ روایت کی ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۰۸

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

ہم سے صادق المصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔

 اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے۔ اب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے

(یاد رکھ) ایک شخص (زندگی بھر نیک) عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آ جاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص (زندگی بھر برے) کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور جنت والوں کے کام شروع کر دیتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۰۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو، چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔

پھر جبرائیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۱۰

راوی: عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

فرشتے عنان میں اترتے ہیں۔ اور عنان سے مراد بادل ہیں۔ یہاں فرشتے ان کاموں کا ذکر کرتے ہیں جن کا فیصلہ آسمان میں ہو چکا ہوتا ہے۔ اور یہیں سے شیاطین کچھ چوری چھپے باتیں اڑا لیتے ہیں۔ پھر کاہنوں کو اس کی خبر کر دیتے ہیں اور یہ کاہن سو جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر اسے بیان کرتے ہیں۔“

حدیث نمبر ۳۲۱۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والے اور پھر اس کے بعد آنے والوں کو نمبر وار لکھتے جاتے ہیں۔ پھر جب امام (خطبے کے لیے منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر سننے لگ جاتے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۱۲

راوی: سعید بن مسیب

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس وقت یہاں شعر پڑھا کرتا تھا جب آپ سے بہتر شخص (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) یہاں تشریف رکھتے تھے۔

پھر حسان رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے تم نے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! (کفار مکہ کو) میری طرف سے جواب دے۔ اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد کر۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں بیشک (میں نے سنا تھا)۔

حدیث نمبر ۳۲۱۳

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

مشرکین مکہ کی تم بھی ہجو کو یا (یہ فرمایا کہ) ان کی ہجو کا جواب دو، جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۱۴

راوی: حمید بن ہلال

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جیسے وہ غبار میری نظروں کے سامنے ہے۔

 موسیٰ نے روایت میں یوں زیادتی کی کہ جبرائیل علیہ السلام کے (ساتھ آنے والے) سوار فرشتوں کی وجہ سے۔ جو غبار خاندان بنو غنم کی گلی سے اٹھا تھا۔

حدیث نمبر ۳۲۱۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وحی آپ کے پاس کس طرح آتی ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کئی طرح سے آتی ہے۔

- کبھی فرشتہ کے ذریعہ آتی ہے تو وہ گھنٹی بجنے کی آواز کی طرح نازل ہوتی ہے۔ جب وحی ختم ہو جاتی ہے تو جو کچھ فرشتے نے نازل کیا ہوتا ہے، میں اسے پوری طرح یاد کر چکا ہوتا ہوں۔ وحی اترنے کی یہ صورت میرے لیے بہت دشوار ہوتی ہے۔

-  کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آ جاتا ہے وہ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور جو کچھ کہہ جاتا ہے میں اسے پوری طرح یاد کر لیتا ہوں۔

حدیث نمبر ۳۲۱۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اللہ کے راستے میں جو شخص کسی چیز کا بھی جوڑا دے، تو جنت کے چوکیدار فرشتے اسے بلائیں گے کہ فلاں اس دروازے سے اندر آ جا۔

 ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ تو وہ شخص ہو گا جسے کوئی نقصان نہ ہو گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو گا۔

حدیث نمبر ۳۲۱۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ”اے عائشہ! یہ جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔“

عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا، کہ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

 آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں میں نہیں دیکھ سکتی،

عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔

حدیث نمبر ۳۲۱۸

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے ایک مرتبہ فرمایا ”ہم سے ملاقات کے لیے جتنی مرتبہ آپ آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے؟“

بیان کیا کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا

اور ہم نہیں اترتے لیکن تیرے رب کے حکم سے، اسی کا ہے جو کچھ کہ ہمارے سامنے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے۔ (۱۹:۶۴)

حدیث نمبر ۳۲۱۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جبرائیل علیہ السلام نے قرآن مجید مجھے (عرب کے) ایک ہی محاورے کے مطابق پڑھ کر سکھایا تھا، لیکن میں اس میں برابر اضافہ کی خواہش کا اظہار کرتا رہا، تاآنکہ عرب کے سات محاوروں پر اس کا نزول ہوا۔

حدیث نمبر ۳۲۲۰

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان شریف کے مہینے میں اور بڑھ جاتی، جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کے لیے ہر روز آنے لگتے۔ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کے لیے آتے اور آپ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً اس دور میں جب جبرائیل علیہ السلام روزانہ آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ خیرات و برکات میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے

اور عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے، ان سے معمر نے اسی اسناد کے ساتھ اسی طرح بیان کیا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۳۲۲۱

راوی: ابن شہاب

عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن عصر کی نماز کچھ دیر کر کے پڑھائی۔ اس پر عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے ان سے کہا۔ لیکن جبرائیل علیہ السلام (نماز کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے) نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر آپ کو نماز پڑھائی۔

 عمر بن عبدالعزیز نے کہا، عروہ! آپ کو معلوم بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟

عروہ نے کہا کہ (اور سن لو) میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا اور انہوں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر (دوسرے وقت کی) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، اپنی انگلیوں پر آپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا۔

حدیث نمبر ۳۲۲۲

راوی: ابوذر رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جبرائیل علیہ السلام کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو آدمی اس حالت میں مرے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا ہو گا، تو وہ جنت میں داخل ہو گا یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ خواہ اس نے اپنی زندگی میں زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ہو، اور خواہ زنا اور چوری کرتا ہو۔

حدیث نمبر ۳۲۲۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے یہاں رات میں رہے۔ اللہ کے حضور میں جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے .... حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے .... کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ اور اسی طرح جب ہم ان کے یہاں گئے تھے، جب بھی وہ (عصر) کی نماز پڑھ رہے تھے۔

اس حدیث کے بیان میں کہ

جب ایک تمہارا ( جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند ) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر ( زور سے ) آمین کہتے ہیں اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ (با آواز بلند ) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں

حدیث نمبر ۳۲۲۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک تکیہ بھرا، جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایسا ہو گیا جیسے نقشی تکیہ ہوتا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔

میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تکیہ کیسا ہے؟

میں نے عرض کیا، یہ تو میں نے آپ کے لیے بنایا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا سکیں۔

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہوتی ہے اور یہ کہ جو شخص بھی تصویر بنائے گا، قیامت کے دن اسے اس پر عذاب دیا جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ جس کی مورت تو نے بنائی، اب اسے زندہ بھی کر کے دکھا۔

حدیث نمبر ۳۲۲۵

راوی: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتے ہوں اور اس میں بھی نہیں جس میں جاندار کی تصویر ہو۔“

حدیث نمبر ۳۲۲۶

راوی: بوطلحہ رضی اللہ عنہ

بسر بن سعید نے بیان کیا اور ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور (راوی حدیث) بسر بن سعید کے ساتھ عبیداللہ خولانی بھی روایت حدیث میں شریک ہیں، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں تھے۔ ان دونوں سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے انے بیان کیا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فرشتے اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں (جاندار کی) تصویر ہو۔“

 ذیلی راوی بسر نے بیان کیا کہ پھر (ذیلی راوی) زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیمار پڑے اور ہم ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئے۔ گھر میں ایک پردہ پڑا ہوا تھا اور اس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ میں نے عبیداللہ خولانی (ذیلی راوی) سے کہا، کیا انہوں نے ہم سے تصویروں کے متعلق ایک حدیث نہیں بیان کی تھی؟

 انہوں نے بتایا کہ زید رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا تھا کہ کپڑے پر اگر نقش و نگار ہوں (جاندار کی تصویر نہ ہو) تو وہ اس حکم سے الگ ہے۔ کیا آپ نے حدیث کا یہ حصہ نہیں سنا تھا؟

میں نے کہا کہ نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جی ہاں! زید رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا تھا۔

حدیث نمبر ۳۲۲۷

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام نے آنے کا وعدہ کیا تھا (لیکن نہیں آئے) پھر جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وجہ پوچھی، انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یا کتا موجود ہو۔

حدیث نمبر ۳۲۲۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب (نماز میں) امام کہے کہ سمع الله لمن حمده تو تم کہا کرو  اللهم ربنا لك الحمد  کیونکہ جس کا ذکر ملائکہ کے ساتھ موافق ہو جاتا ہے اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔“

حدیث نمبر ۳۲۲۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کوئی شخص نماز کی وجہ سے جب تک کہیں ٹھہرا رہے گا اس کا یہ سارا وقت نماز میں شمار ہو گا اور ملائکہ اس کے لیے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اور اس پر اپنی رحمت نازل کر (اس وقت تک) جب تک وہ نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ نہ جائے یا بات نہ کرے۔

حدیث نمبر ۳۲۳۰

راوی: یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر سورۃ الزخرف کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے  وَنَادَوْا يَا مَالِكُ اور وہ دوزخی پکاریں گی اے مالک! (۴۳:۷۷) (یہ داروغہ جہنم کا نام ہے) اور سفیان نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی رات میں یوں ہے   وَنَادَوْا يَا مَالِ‏ ۔

حدیث نمبر ۳۲۳۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔

پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔

 آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔

 اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔

حدیث نمبر ۳۲۳۲

راوی: ابواسحاق شیبانی

میں نے زر بن حبیش سے اللہ تعالیٰ کے سورۃ النجم میں ارشاد فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ‏‏‏‏ - ‏‏‏‏ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى  (۵۳:۹،۱۰)کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (اپنی اصلی صورت میں) دیکھا، تو ان کے چھ سو بازو تھے۔

حدیث نمبر ۳۲۳۳

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى  (۵۳:۱۸) کے متعلق بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز رنگ کا بچھونا دیکھا تھا جو آسمان میں سارے کناروں کو گھیرے ہوئے تھا۔

حدیث نمبر ۳۲۳۴

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (معراج کی رات میں) ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا۔ ان کے وجود نے آسمان کا کنارہ ڈھانپ لیا تھا۔

حدیث نمبر ۳۲۳۵

راوی: مسروق

میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا (ان کے اس کہنے پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں تھا) پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى ‏‏‏‏ - ‏‏‏‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ‏‏‏‏ (۵۳:۸،۹) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

 انہوں نے کہا کہ یہ آیت تو جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں ہے، وہ انسانی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور اس مرتبہ اپنی اس شکل میں آئے جو اصلی تھی اور انہوں نے تمام آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔

حدیث نمبر ۳۲۳۶

راوی: سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں نے آج رات (خواب میں) دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے۔ ان دونوں نے مجھے بتایا کہ وہ جو آگ جلا رہا ہے۔ وہ جہنم کا داروغہ مالک نامی فرشتہ ہے۔ میں جبرائیل ہوں اور یہ میکائیل ہیں۔“

حدیث نمبر ۳۲۳۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔“

اس روایت کی متابعت، ابوحمزہ، ابن داود اور ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے کی ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۳۸

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (پہلے غار حراء میں جو جبرائیل علیہ السلام مجھ کو سورۃ اقراء پڑھا کر گئے تھے اس کے بعد) مجھ پر وحی کا نزول (تین سال) بند رہا۔

ایک بار میں کہیں جا رہا تھا کہ میں نے آسمان میں سے ایک آواز سنی اور نظر آسمان کی طرف اٹھائی، میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا (یعنی جبرائیل علیہ السلام) آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں انہیں دیکھ کر اتنا ڈر گیا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنے گھر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کچھ اوڑھا دو، مجھے کچھ اوڑھا دو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ  اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ  تک۔ (۷۴:۱۔۵)

ابوسلمہ نے کہا کہ آیت میں وَالرُّجْزَ  سے بت مراد ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۳۹

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

شب معراج میں، میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تھا، گندمی رنگ، قد لمبا اور بال گھونگھریالے تھے، ایسے لگتے تھے جیسے قبیلہ شنوہ کا کوئی شخص ہو

اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا تھا۔ درمیانہ قد، میانہ جسم، رنگ سرخی اور سفیدی لیے ہوئے اور سر کے بال سیدھے تھے (یعنی گھونگھریالے نہیں تھے)

اور میں نے جہنم کے داروغہ کو بھی دیکھا اور دجال کو بھی،

 منجملہ ان آیات کے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دکھائی تھیں (سورۃ السجدہ میں اسی کا ذکر ہے کہ) پس (اے نبی!) ان سے ملاقات کے بارے میں آپ کسی قسم کا شک و شبہ نہ کریں، یعنی موسیٰ علیہ السلام سے ملنے میں،

 انس اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں بیان کیا کہ جب دجال نکلے گا تو فرشتے دجال سے مدینہ کی حفاظت کریں گے۔

جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے

ابوالعالیہ نے کہا سورۃ البقرہ میں جو لفظ مُطَهَّرَةٌ  (۲:۲۵) آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کی حوریں حیض اور پیشاب اور تھوک اور سب گندگیوں سے پاک صاف ہوں گی

اور جو یہ آیا ہے كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا (۲:۲۵) آخر آیت تک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان کے پاس ایک میوہ لایا جائے گا پھر دوسرا میوہ تو جنتی کہیں گے یہ تو وہی میوہ ہے جو ہم کو پہلے مل چکا ہے۔ مُتَشَابِهًا  کے معنی صورت اور رنگ میں ملے جلے ہوں گے لیکن مزے میں جدا جدا ہوں گے

سورۃ الحاقہ میں جو لفظ قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ  (۶۹:۲۳) آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بہشت کے میوے ایسے نزدیک ہوں گے کہ بہشتی لوگ کھڑے بیٹھے جس طرح چاہیں ان کو توڑ سکیں گے۔ دَانِيَةٌ کا معنی نزدیک کے ہیں،

الْأَرَائِكِ  (۱۸:۳۱) کے معنی تخت کے ہیں،

 امام حسن بصریٰ نے کہا لفظ النَّضْرَةُ منہ  کی تازگی کو اور وَالسُّرُورُ دل کی خوشی کو کہتے ہیں۔

اور مجاہد نے کہا سَلْسَبِيلا  (۷۶:۱۸) کے معنی تیز بہنے والی، اور لفظ غَوْلٌ  (۳۷:۴۷) کے معنی پیٹ کے درد کے ہیں۔ يُنْزَفُونَ  (۳۷:۴۷)کے معنی یہ کہ ان کی عقل میں فتور نہیں آئے گا۔ جیسا کہ دنیاوی شراب سے آ جاتا ہے)

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سورۃ نبا میں جو دِهَاقًا  (۷۸:۳۴) کا لفظ آیا ہے اس کے معنی لبالب بھرے ہوئے کہ ہیں۔ لفظ وَكَوَاعِبَ  (۷۸:۳۳) کے معنی پستان اٹھے ہوئے کے ہیں، لفظ الرَّحِيقُ  (۸۳:۲۵) کے معنی جنت کی شراب، التَّسْنِيمُ  (۸۳:۲۷) وہ عرق جو بہشتیوں کی شراب کے اوپر ڈالا جائے گا۔ بہشتی اس کو پئیں گے اور لفظ خِتَامُهُ  (۸۳:۲۶) کے معنی مہر کی مٹی (جس سے وہاں کی شراب کی بوتلوں پر مہر لگی ہوئی ہو گی۔ نَضَّاخَتَانِ  (۵۵:۶۶) دو جوش مارتے ہوئے چشمے،

لفظ مَوْضُونَةٌ  (۵۶:۱۵) کا معنی جڑاو بنا ہوا، اسی سے لفظ وَضِينُ النَّاقَةِ  نکلا ہے۔ یعنی اونٹنی کی جھول وہ بھی بنی ہوئی ہوتی ہے

اور لفظ الْكُوبُ أَكْوَابٍ کی جمع کا معنی (۵۶:۳۷) ہے، کوزہ جس میں نہ کان ہو نہ کنڈا (۵۶:۱۸)

 اور لفظ وَالْأَبَارِيقُ  ابريق کی جمع وہ کوزہ جو کان اور کنڈہ رکھتا ہو۔ (۵۶:۱۸)

 اور لفظ عُرُبًا  (۵۶:۳۷)  عروب کی جمع ہے جیسے صَبُورٍ  کی جمع َصُبُرٍ  آتی ہے۔ مکہ والے عَرُوبٌ  کو الْعَرِبَةَ  اور مدینہ والے الْغَنِجَةَ  اور عراق والے الشَّكِلَةَ کہتے ہیں۔ ان سب سے وہ عورت مراد ہے جو اپنے خاوند کی عاشق ہو۔

 اور مجاہد نے کہا لفظ رَوْحِ  (۱۲:۸۷) کا معنی بہشت اور فراخی رزق کے ہیں۔ وَالرَّيْحَانُ  کا معنی (۵۵:۱۲) رزق کے ہیں اور لفظ وَالْمَنْضُودُ  (سورۃ الواقعہ) کا معنی کیلے کے ہیں۔ وَالْمَخْضُودُ  وہ بیر جس میں کانٹا نہ ہو۔ میوے کے بوجھ سے لٹکا ہوا ہے

بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ وَالْعُرُبُ (جو سورۃ الواقعہ میں ہے) اس کے معنی وہ عورتیں جو اپنے خاوند کی محبوبہ ہوں،

 مَسْكُوبٌ  کا معنی (جو اسی سورۃ میں ہے) بہتا ہوا پانی۔

اور لفظ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ  (۵۶:۳۴) کا معنی بچھونے اونچے یعنی اوپر تلے بچھے ہوئے،

لفظ لَغْوًا  (۱۹:۶۲) اس کے معنی غلط جھوٹ کے ہیں۔

لفظ تَأْثِيمًا  (۵۶:۲۵)اس کا معنی بھی جھوٹ کے ہیں۔

لفظ أَفْنَانٌ (۵۵:۵۴) کے معنی شاخیں ڈالیاں اور وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ (۵۵:۵۴)کا معنی بہت تازگی اور شاداب کی وجہ سے وہ کالے ہو رہے ہوں گے۔

حدیث نمبر ۳۲۴۰

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب کوئی شخص مرتا ہے تو (روزانہ) صبح و شام دونوں وقت اس کا ٹھکانا (جہاں وہ آخرت میں رہے گا) اسے دکھلایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ میں۔

حدیث نمبر ۳۲۴۱

راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو جنتیوں میں زیادتی غریبوں کی نظر آئی اور میں نے دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو دوزخیوں میں کثرت عورتوں کی نظر آئی۔

حدیث نمبر ۳۲۴۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی، میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جو ایک محل کے کنارے وضو کر رہی تھی۔

میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا محل ہے۔ مجھے ان کی غیرت یاد آئی اور میں وہاں سے فوراً لوٹ آیا۔

یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ رو دئیے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے ساتھ بھی غیرت کروں گا؟

جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے

حدیث نمبر ۳۲۴۳

راوی: عبداللہ بن قیس اشعری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(جنتیوں کا) خیمہ کیا ہے، ایک موتی ہے خولدار جس کی بلندی اوپر کو تیس میل تک ہے۔ اس کے ہر کنارے پر مؤمن کی ایک بیوی ہو گی جسے دوسرے نہ دیکھ سکیں گے۔

ابوعبدالصمد اور حارث بن عبید نے ابوعمران سے (بجائے تیس میل کے) ساٹھ میل بیان کیا۔

حدیث نمبر ۳۲۴۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے۔

 اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ

پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ (۳۲:۱۷)

حدیث نمبر ۳۲۴۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند روشن ہوتا ہے۔ نہ اس میں تھوکیں گے نہ ان کی ناک سے کوئی آلائش آئے گی اور نہ پیشاب، پاخانہ کریں گے۔

 ان کے برتن سونے کے ہوں گے۔ کنگھے سونے چاندی کے ہوں گے۔

انگیٹھیوں کا ایندھن عود کا ہو گا۔

 پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہو گا

اور ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی۔ جن کا حسن ایسا ہو گا کہ پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا۔

نہ جنتیوں میں آپس میں کوئی اختلاف ہو گا اور نہ بغض و عناد، ان کے دل ایک ہوں گے اور وہ صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہا کریں گے۔

حدیث نمبر ۳۲۴۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند ہوتا ہے۔ جو گروہ اس کے بعد داخل ہو گا ان کے چہرے سب سے زیادہ چمکدار ستارے جیسے روشن ہوں گے۔ ان کے دل ایک ہوں گے کہ کوئی بھی اختلاف ان میں آپس میں نہ ہو گا اور نہ ایک دوسرے سے بغض و حسد ہو گا۔

 ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی خوبصورتی ایسی ہو گی کہ ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا۔

وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں گے نہ ان کو کوئی بیماری ہو گی، نہ ان کی ناک میں کوئی آلائش آئے گی اور نہ تھوک آئے گا۔

 ان کے برتن سونے اور چاندی کے اور کنگھے سونے کے ہوں گے اور ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن  ألوة  کا ہو گا، ا

بوالیمان نے بیان کیا کہ ألوة  سے عود ہندی مراد ہے۔

اور ان کا پسینہ مشک جیسا ہو گا۔

 مجاہد نے کہا کہ  إبكار  سے مراد اول فجر ہے۔ اور  العشي  سے مراد سورج کا اتنا ڈھل جانا کہ وہ غروب ہوتا نظر آنے لگے۔

حدیث نمبر ۳۲۴۷

راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میری امت میں سے ستر ہزار یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) سات لاکھ کی ایک جماعت جنت میں ایک ہی وقت میں داخل ہوں گی اور ان سب کے چہرے ایسے چمکیں گے جیسے چودہویں کا چاند چمکتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۴۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سندس (ایک خاص قسم کا ریشم) کا ایک جبہ تحفہ میں پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مردوں کے لیے) ریشم کے استعمال سے پہلے ہی منع فرما چکے تھے۔ لوگوں نے اس جبے کو بہت ہی پسند کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بہتر ہوں گے۔

حدیث نمبر ۳۲۴۹

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ریشم کا ایک کپڑا پیش کیا گیا اس کی خوبصورتی اور نزاکت نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بہتر اور افضل ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۵۰

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے، سب سے بہتر ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۵۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک چل سکتا ہے اور پھر بھی اس کو طے نہ کر سکے گا۔

حدیث نمبر ۳۲۵۲

راوی: بوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک چل سکے گا اور اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو

وَظِلٍّ مَمْدُو

اور لمبا سایہ۔ (۵۶:۳۰)

حدیث نمبر ۳۲۵۳

اور کسی شخص کے لیے ایک کمان کے برابر جنت میں جگہ اس پوری دنیا سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۵۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ جو گروہ اس کے بعد داخل ہو گا ان کے چہرے آسمان پر موتی کی طرح چمکنے والے ستاروں میں جو سب سے زیادہ روشن ستارہ ہوتا ہے اس جیسے روشن ہوں گے، سب کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ ان میں بغض و فساد ہو گا اور نہ حسد، ہر جنتی کی دو حورعین بیویاں ہوں گی، اتنی حسین کہ ان کی پنڈلی کی ہڈی اور گوشت کے اندر کا گودا بھی دیکھا جا سکے گا۔

حدیث نمبر ۳۲۵۵

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں اسے ایک دودھ پلانے والی انا کے حوالہ کر دیا گیا ہے (جو ان کو دودھ پلاتی ہے)۔

حدیث نمبر ۳۲۵۶

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنتی لوگ اپنے سے بلند کمرے والوں کو اوپر اسی طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ستارے کو جو صبح کے وقت رہ گیا ہو، آسمان کے کنارے پورب یا پچھم میں دیکھتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے سے افضل ہو گا۔

 لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو انبیاء کے محل ہوں گے جنہیں ان کے سوار اور کوئی نہ پا سکے گا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انبیاء کی تصدیق کی۔

جنت کے دروازوں کا بیان

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے (اللہ کے راستے میں کسی چیز کا) ایک جوڑا خرچ کیا، اسے جنت کے دروازے سے بلایا جائے گا

اس باب میں عبادہ بن صامت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۵۷

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں ایک دروازے کا نام ریان ہے۔ جس سے داخل ہونے والے صرف روزے دار ہوں گے۔

دوزخ کا بیان اور یہ بیان کہ دوزخ بن چکی ہے ، وہ موجود ہے

سورۃ النباء میں جو لفظ غَسَّاقًا  (۷۸:۲۵) آیا ہے اس کا معنی پیپ لہو، عرب لوگ کہتے ہیں غَسَقَتْ عَيْنُه اس کی آنکھ بہہ رہی ہے۔ يَغْسِقُ الْجُرْحُ  زخم بہہ رہا ہے۔ الْغَسَاقَ  اور وَالْغَسْقَ  دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ غِسْلِينٍ  (۶۹:۳۶) کا لفظ جو سورۃ الحاقہ میں ہے اس کا معنی  دهوون  یعنی کسی چیز کے دھونے میں جیسے آدمی کا زخم ہو یا اونٹ کا جو نکلے فِعْلِينُ  کے وزن پر الْغَسْلِ سے مشتق ہے۔

 عکرمہ نے کہا حَصَبُ  (۲۱:۹۸) کا لفظ جو سورۃ انبیاء میں ہے معنی  حَطَبُ  یعنی ایندھن کے ہیں۔ یہ لفظ حبشی زبان کا ہے۔

دوسروں نے کہا، حَاصِبًا (۱۷:۶۸) کا معنی جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے تند ہوا، آندھی اور الْحَاصِبُ  اس کو بھی کہتے ہیں جو ہوا اڑا کر لائے۔ اسی سے لفظ  حَصَبُ جَهَنَّمَ  نکلا ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ یعنی دوزخ میں جھونکے جائیں گے وہ اس کے ایندھن بنیں گے۔

عرب لوگ کہتے ہیں حَصَبَ فِي الْأَرْضِ  یعنی وہ زمین میں چلا گیا۔ وَالْحَصَبُ  حَصْبَاءِ سے نکلا ہے۔ یعنی پتھریلی کنکریاں۔

 صَدِيدٍ  (۱۴:۱۶) کا لفظ جو سورۃ ابراہیم میں ہے اس کا معنی پیپ اور لہو کے ہیں۔

خَبَتْ  (۱۷:۹۷) کا لفظ جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اس کا معنی بجھ جائے گی۔

تُورُونَ  (۵۶:۷۱) کا لفظ جو سورۃ الواقعہ میں ہے اس کا معنی آگ سلگاتے ہو، کہتے ہیں أَوْرَيْتُ  یعنی میں نے آگ سلگائی۔

لِلْمُقْوِينَ  (۵۶:۷۳) کا لفظ جو سورۃ الواقعہ میں ہے یہ لفظ قِيُّ سے نکلا ہے۔ قِيُّ اجاڑ زمین کو کہتے ہیں

اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سَوَاءُ الْجَحِيمِ  (۳۷:۶۷) کی تفسیر میں کہا جو سورۃ الصافات میں ہے دوزخ کا بیچوں بیچ کا حصہ، لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ (جو اسی سورۃ میں ہے) اس کا معنی یہ ہے کہ دوزخیوں کے کھانے میں گرم کھولتا ہوا پانی ملایا جائے گا۔

 الفاظ زَفِيرٌ  اور شَهِيقٌ  (۱۱:۱۰۶) جو سورۃ ہود میں ہیں ان کے معنی آواز سے رونا اور آہستہ سے رونا،

لفظ وِرْدًا  (۱۹:۸۶) جو سورۃ مریم میں ہے یعنی پیاسے، لفظ غَيًّا  (۱۹:۵۹) جو اسی سورۃ میں ہے۔ یعنی ٹوٹا نقصان،

 اور مجاہد نے کہا لفظ يُسْجَرُونَ  (۴۰:۷۲) جو سورۃ مؤمن میں ہے، یعنی آگ کا ایندھن بنیں گے۔ لفظ نُحَاسٌ (۵۵:۳۵) اس کا معنی تانبا جو پگھلا کر ان کے سروں پر ڈالا جائے گا۔

لفظ ذُوقُوا  (۳:۱۸۱) جو کئی سورتوں میں آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ عذاب کو دیکھو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔

لفظ مَارِجٌ  جو سورۃ الرحمٰن میں ہے یعنی خالص آگ۔ عرب لوگ کہتے ہیں، مَرَجَ الْأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ یعنی بادشاہ اپنی رعیت کو چھوڑ بیٹھا، وہ ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں۔

لفظ مَرِيجٍ  (۵۰:۵) جو سورۃ ق میں ہے، یعنی ملا ہوا، مشتبہ۔ کہتے ہیں مَرِجَ أَمْرُ النَّاسِ اخْتَلَطَ یعنی لوگوں کا معاملہ سب خلط ملط ہو گیا۔

لفظ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ  (۲۵:۵۳) جو سورۃ الفرقان میں ہے مَرَجْتَ دَابَّتَكَ  سے نکلا ہے، یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۵۸

راوی:  ابوذر رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے (جب بلال رضی اللہ عنہ ظہر کی اذان دینے اٹھے تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت ذرا ٹھنڈا ہو لینے دو، پھر دوبارہ (جب وہ اذان کے لیے اٹھے تو پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی حکم دیا کہ وقت اور ٹھنڈا ہو لینے دو، یہاں تک کہ ٹیلوں کے نیچے سے سایہ ڈھل گیا،

 اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز ٹھنڈے وقت اوقات میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۵۹

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۶۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۶۱

راوی: ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی

 میں مکہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہاں مجھے بخار آنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس بخار کو زمزم کے پانی سے ٹھنڈا کر، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم کی بھاپ کے اثر سے آتا ہے، اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو

یا یہ فرمایا کہ زمزم کے پانی سے۔

 یہ شک ہمام ذیلی راوی کو ہوا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۶۲

راوی:  رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بخار جہنم کے جوش مارنے کے اثر سے ہوتا ہے اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔

حدیث نمبر ۳۲۶۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے ہوتا ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے ہوتا ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔“

حدیث نمبر ۳۲۶۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے ہوتا ہے اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔“

حدیث نمبر ۳۲۶۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں حصہ ہے۔

 کسی نے پوچھا، یا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۶۶

راوی: یعلیٰ

صفوان بن سے خبر دی۔ انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے

انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اس طرح آیت پڑھتے سنا وَنَادَوْا يَا مَالِكُ  (۴۳:۷۷) (اور وہ دوزخی پکاریں گے، اے مالک!)۔

حدیث نمبر ۳۲۶۷

راوی: ابووائل

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ اگر آپ فلاں صاحب (عثمان رضی اللہ عنہ) کے یہاں جا کر ان سے گفتگو کرو تو اچھا ہے (تاکہ وہ یہ فساد دبانے کی تدبیر کریں)

انہوں نے کہا کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے تم کو سنا کر (تمہارے سامنے ہی) بات کرتا ہوں، میں تنہائی میں ان سے گفتگو کرتا ہوں اس طرح پر کہ فساد کا دروازہ نہیں کھولتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ سب سے پہلے میں فساد کا دروازہ کھولوں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سننے کے بعد یہ بھی نہیں کہتا کہ جو شخص میرے اوپر سردار ہو وہ سب لوگوں میں بہتر ہے۔

 لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث سنی ہے وہ کیا ہے؟

 اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے سنا تھا کہ

قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ شخص اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا اپنی چکی پر گردش کیا کرتا ہے۔ جہنم میں ڈالے جانے والے اس کے قریب آ کر جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے، اے فلاں! آج یہ تمہاری کیا حالت ہے؟

 کیا تم ہمیں اچھے کام کرنے کے لیے نہیں کہتے تھے، اور کیا تم برے کاموں سے ہمیں منع نہیں کیا کرتے تھے؟

 وہ شخص کہے گا جی ہاں، میں تمہیں تو اچھے کاموں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا۔ برے کاموں سے تمہیں منع بھی کرتا تھا، لیکن میں اسے خود کیا کرتا تھا۔

 اس حدیث کو غندر نے بھی شعبہ سے، انہوں نے اعمش سے روایت کیا ہے۔

 ابلیس اور اس کی فوج کا بیان

اور مجاہد نے کہا سورۃ والصافات میں لفظ وَيُقْذَفُونَ  (۳۷:۸)  کا معنی پھینکے جاتے ہیں  اسی سورۃ میں  دُحُورًا(۳۷:۹) کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں۔ اسی سورۃ میں لفظ وَاصِبٌ   (۳۷:۹) کا معنی ہمیشہ کا ہے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سورۃ الاعراف  آیت ۱۸ میں لفظ مَدْحُورًا  کا معنی دھتکارا ہوا، مردود اور سورۃ نساء  آیت ۱۱۷ میں مَرِيدًا کا معنی مُتَمَرِّدًا و شریر کے ہیں۔

سورۃ بنی اسرائیل آیت ۶۴ میں وَاسْتَفْزِزْ کا معنی ان کو ہلکا کر دے۔ اسی سورۃ  آیت ۶۴ میں بِخَيْلِكَ  کا معنی سوار اور وَالرَّجْلُ  یعنی پیادے۔ یعنی الرَّجَّالَةُ  اس کا مفرد رَاجِلٌ  جیسے صَحْبٍ کا مفرد صَاحِبٍ  اور تَجْرٍ  کا مفرد تَاجِرٍ اسی سورۃ میں لفظ لَأَسْتَأْصِلَنَّ کا معنی جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔ سورۃ والصافات  آیت ۵۱ میں لفظ قَرِينٌ  کے معنی شیطان کے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۶۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹے تھے) جادو ہوا تھا۔

 آپ کے ذہن میں بات ہوتی تھی کہ فلاں کام میں کر رہا ہوں حالانکہ آپ اسے نہ کر رہے ہوتے۔ آخر ایک دن آپ نے دعا کی پھر دعا کی کہ اللہ پاک اس جادو کا اثر دفع کرے۔

 اس کے بعد آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہوا اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ تدبیر بتا دی ہے جس میں میری شفا مقدر ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک تو میرے سر کی طرف بیٹھ گئے اور دوسرا پاؤں کی طرف۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا، انہیں بیماری کیا ہے؟

دوسرے آدمی نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔

انہوں نے پوچھا، جادو ان پر کس نے کیا ہے؟

جواب دیا کہ لبید بن اعصم یہودی نے،

پوچھا کہ وہ جادو (ٹونا) رکھا کس چیز میں ہے؟

کہا کہ کنگھے میں، کتان میں اور کھجور کے خشک خوشے کے غلاف میں۔

پوچھا، اور یہ چیزیں ہیں کہاں؟

 کہا بئر دوران میں۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور واپس آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، وہاں کے کھجور کے درخت ایسے ہیں جیسے شیطان کی کھوپڑی۔

میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، وہ ٹونا آپ نے نکلوایا بھی؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خود شفا دی اور میں نے اسے اس خیال سے نہیں نکلوایا کہ کہیں اس کی وجہ سے لوگوں میں کوئی جھگڑا کھڑا کر دوں۔ اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔

حدیث نمبر ۳۲۶۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب کوئی تم میں سے سویا ہوا ہوتا ہے، تو شیطان اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے خوب اچھی طرح سے اور ہر گرہ پر یہ افسون پھونک دیتا ہے کہ ابھی بہت رات باقی ہے۔ پڑا سوتا رہ۔ لیکن اگر وہ شخص جاگ کر اللہ کا ذکر شروع کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز فجر پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور صبح کو خوش مزاج خوش دل رہتا ہے۔ ورنہ بدمزاج سست رہ کر وہ دن گزارتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۷۰

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

میں حاضر خدمت تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا، جو رات بھر دن چڑھے تک پڑا سوتا رہا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسا شخص ہے جس کے کان یا دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۷۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آتا ہے اور یہ دعا پڑتا ہے

بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے اللہ! ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو کچھ ہمیں تو دے (اولاد) اس سے بھی شیطان کو دور رکھ۔

پھر اگر ان کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

حدیث نمبر ۳۲۷۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آئے تو نماز نہ پڑھو جب تک وہ پوری طرح ظاہر نہ ہو جائے

اور جب غروب ہونے لگے تب بھی اس وقت تک کے لیے نماز چھوڑ دو جب تک بالکل غروب نہ ہو جائے۔

حدیث نمبر ۳۲۷۳

اور نماز سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھو، کیونکہ سورج شیطان کے سر کے یا شیطانوں کے سر کے دونوں کونوں کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔

عبدہ نے کہا میں نہیں جانتا ہشام نے شیطان کا سر کہا یا شیطانوں کا۔

حدیث نمبر ۳۲۷۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اگر تم میں سے نماز پڑھنے میں کسی شخص کے سامنے سے کوئی گزرے تو اسے گزرنے سے روکے، اگر وہ نہ رکے تو پھر روکے اور اگر اب بھی نہ رکے تو اس سے لڑے وہ شیطان ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۷۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صدقہ فطر کے غلہ کی حفاظت پر مجھے مقرر کیا، ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے غلہ لپ بھربھر کر لینے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے آخر تک حدیث بیان کی،

 اس (چور) نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹنے لگو تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ایک نگہبان مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے قریب صبح تک نہ آ سکے گا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات تو اس نے سچی کہی ہے اگرچہ وہ خود جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔

حدیث نمبر ۳۲۷۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔

حدیث نمبر ۳۲۷۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں کس دیا جاتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۷۸

راوی: سعید بن جبیر

میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا (نوف بکالی کہتا ہے کہ خضر کے پاس جو موسیٰ گئے تھے وہ دوسرے موسیٰ تھے)

انہوں نے کہا کہ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر (یوشع بن نون) سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لا، اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے جب ہم نے چٹان پر پڑاؤ ڈالا تھا تو میں مچھلی وہیں بھول گیا (اور اپنے ساتھ نہ لا سکا) اور مجھے اسے یاد رکھنے سے صرف شیطان نے غافل رکھا اور موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکن معلوم نہیں کی جب تک اس حد سے نہ گزر لیے، جہاں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔

حدیث نمبر ۳۲۷۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے تھے کہ ہاں! فتنہ اسی طرف سے نکلے گا جہاں سے شیطان کے سر کا کونا نکلتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۸۰

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

رات کا اندھیرا شروع ہونے پر یا رات شروع ہونے پر اپنے بچوں کو اپنے پاس (گھر میں) روک لو، کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلنا شروع کرتے ہیں۔ پھر جب عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو (چلیں پھریں)

پھر اللہ کا نام لے کر اپنا دروازہ بند کرو، اللہ کا نام لے کر اپنا چراغ بجھا دو، پانی کے برتن اللہ کا نام لے کر ڈھک دو، اور دوسرے برتن بھی اللہ کا نام لے کر ڈھک دو (اور اگر ڈھکن نہ ہو) تو درمیان میں ہی کوئی چیز رکھ دو۔

حدیث نمبر ۳۲۸۱

راوی: صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے (مسجد میں) آئی، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتی رہی، پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے چھوڑ آنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے مکان ہی میں تھا۔

اسی وقت دو انصاری صحابہ (اسید بن حضیر، عبادہ بن بشیر) گزرے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیز چلنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، ذرا ٹھہر جاؤ یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔

ان دونوں صحابہ نے عرض کیا، سبحان اللہ: یا رسول اللہ! (کیا ہم بھی آپ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی وسوسہ نہ ڈال دے،

یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ سُوءًا کی جگہ لفظ شَيْئًا فرمایا، معنی ایک ہی ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۸۲

راوی: سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اور (قریب ہی) دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے کہ ایک شخص کا منہ سرخ ہو گیا اور گردن کی رگیں پھول گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔

 فرمایا  تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ   ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان سے۔“ تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔

لوگوں نے اس پر اس سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ تمہیں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے، اس نے کہا، کیا میں کوئی دیوانہ ہوں۔

حدیث نمبر ۳۲۸۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص جب اپنی بیوی کے پاس جائے اور یہ دعا پڑھ لے۔

اللَّهُمَّ جَنِّبْنِي الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنِي

اے اللہ! مجھے شیطان سے دور رکھ اور جو میری اولاد پیدا ہو، اسے بھی شیطان سے دو رکھ۔

پھر اس صحبت سے اگر کوئی بچہ پیدا ہو تو شیطان اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور نہ اس پر تسلط قائم کر سکے گا۔

شعبہ نے بیان کیا اور ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے سالم نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسی ہی روایت کی۔

حدیث نمبر ۳۲۸۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ شیطان میرے سامنے آ گیا تھا اور نماز تڑوانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غالب کر دیا۔

پھر حدیث کو تفصیل کے ساتھ آخر تک بیان کیا۔

حدیث نمبر ۳۲۸۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان اپنی پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے۔

 پھر جب تکبیر ہونے لگتی ہے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے اور آدمی کے دل میں وساوس ڈالنے لگتا ہے کہ فلاں بات یاد کر اور فلاں بات یاد کر، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ تین رکعت نماز پڑھی تھی یا چار رکعت، جب یہ یاد نہ رہے تو سہو کے دو سجدے کرے۔

حدیث نمبر ۳۲۸۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

شیطان ہر انسان کی پیدائش کے وقت اپنی انگلی سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے سوائے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے جب انہیں وہ کچوکے لگانے گیا تو پردے پر لگا آیا تھا (جس کے اندر بچہ رہتا ہے۔ اس کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی، اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی اس حرکت سے محفوظ رکھا)۔

حدیث نمبر ۳۲۸۷

راوی: علقمہ

میں شام پہنچا تو لوگوں نے کہا، ابودرداء آئے انہوں نے کہا، کیا تم لوگوں میں وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان پر (یعنی آپ کے زمانے سے) شیطان سے بچا رکھا ہے۔

 ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے یہی حدیث، اس میں یہ ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا، آپ کی مراد عمار رضی اللہ عنہ سے تھی۔

حدیث نمبر ۳۲۸۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے بادل میں آپس میں کسی امر میں جو زمین میں ہونے والا ہوتا ہے باتیں کرتے ہیں۔

الْعَنَانِ سے مراد بادل ہے۔

 تو شیاطین اس میں سے کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور وہی کاہنوں کے کان میں اس طرح لا کر ڈالتے ہیں جیسے شیشے کا منہ ملا کر اس میں کچھ چھوڑتے ہیں اور وہ کاہن اس میں سو جھوٹ اپنی طرف سے ملاتے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۸۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ پس جب کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے۔ کیونکہ جب کوئی (جمائی لیتے ہوئے) ”ہاہا“ کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۹۰

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

احد کی لڑائی میں جب مشرکین کو شکست ہو گئی تو ابلیس نے چلا کر کہا کہ اے اللہ کے بندو! (یعنی مسلمانو) اپنے پیچھے والوں سے بچو، چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے کی طرف پل پڑے اور پیچھے والوں کو (جو مسلمان ہی تھے) انہوں نے مارنا شروع کر دیا۔

حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے والد یمان رضی اللہ عنہ بھی پیچھے تھے۔ انہوں نے بہتیرا کہا کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں۔ لیکن اللہ گواہ ہے کہ لوگوں نے جب تک انہیں قتل نہ کر لیا نہ چھوڑا۔

بعد میں حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا کہ خیر۔ اللہ تمہیں معاف کرے (کہ تم نے غلط فہمی سے ایک مسلمان کو مار ڈالا)

عروہ نے بیان کیا کہ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے قاتلوں کے لیے برابر مغفرت کی دعا کرتے رہے۔ تاآنکہ اللہ سے جا ملے۔

حدیث نمبر ۳۲۹۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شیطان کی ایک اچک ہے جو وہ تم میں سے ایک کی نماز سے کچھ اچک لیتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۹۲

راوی: عبداللہ بن ابی قتادہ

ن سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مثل روایت سابقہ کی حدیث بیان کی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ اس لیے اگر کوئی برا اور ڈراونا خواب دیکھے تو بائیں طرف تھوتھو کر کے شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اس عمل سے شیطان اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔

حدیث نمبر ۳۲۹۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جو شخص دن بھر میں سو مرتبہ یہ دعا پڑھے گا

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ،

نہیں ہے کوئی معبود، سوا اللہ تعالیٰ کے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے۔ اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تو اسے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹا دی جائیں گی۔ اس روز دن بھر یہ دعا شیطان سے اس کی حفاظت کرتی رہے گی۔ تاآنکہ شام ہو جائے اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل لے کر نہ آئے گا، مگر جو اس سے بھی زیادہ یہ کلمہ پڑھ لے۔

حدیث نمبر ۳۲۹۴

راوی: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

 ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت چند قریشی عورتیں (خود آپ کی بیویاں) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے (خرچ میں) بڑھانے کا سوال کر رہی تھیں۔ خوب آواز بلند کر کے۔ لیکن جونہی عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، وہ خواتین جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو ہنساتا رکھے۔ یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا ابھی ابھی میرے پاس تھیں، لیکن جب تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ گئیں۔

عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، لیکن آپ یا رسول اللہ! زیادہ اس کے مستحق تھے کہ آپ سے یہ ڈرتیں،

پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں کے دشمنو! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔

 ازواج مطہرات بولیں کہ واقعہ یہی ہے کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف مزاج میں بہت سخت ہیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے، تو جھٹ وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۲۹۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب کوئی شخص سو کر اٹھے اور پھر وضو کرے تو تین مرتبہ ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان رات بھر اس کی ناک کے نتھنے پر بیٹھا رہتا ہے (جس سے آدمی پر سستی غالب آ جاتی ہے۔ پس ناک جھاڑنے سے وہ سستی دور ہو جائے گی)۔

جنوں کا بیان اور ان کو ثواب اور عذاب کا ہونا

کیوں کہ اللہ نے سورۃ الانعام میں فرمایا

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ .... عَمَّا يَعْمَلُونَ

اے جنوں اور آدمیو! کیا تمہارے پاس تمہارے ہی میں سے رسول نہیں آئے؟ جو میری آیتیں تم کو سناتے رہے۔ (۶:۱۳۰۔۱۳۲) اور تیرا رب بے خبر نہیں ان کے کام سے تک۔

قرآن مجید میں سورۃ الجن  آیت ۱۳ میں بَخْسًا  بمعنی نقصان کے ہے۔

مجاہد نے کہا سورۃ الصافات  آیت ۱۵۸ میں جو یہ ہے کہ  وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا (کافروں نے پروردگار اور جنات میں ناتا ٹھہرایا ہے)، قریش کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیاں ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا، وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ   (جن جانتے ہیں کہ ان کافروں کو حساب کتاب دینے کے لیے حاضر ہونا پڑے گا ) (۳۷:۱۵۸)

سورۃ یسین میں آیت ۷۵ جو یہ ہے جُنْدٌ مُحْضَرُونَ   یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے۔

حدیث نمبر ۳۲۹۶

راوی: عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ انصاری نے اور انہیں ان کے والد نے خبر دی

کہ ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تم کو جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے۔ اس لیے جب کبھی اپنی بکریوں کے ساتھ تم کسی بیابان میں موجود ہو اور (وقت ہونے پر) نماز کے لیے اذان دو تو اذان دیتے ہوئے اپنی آواز خوب بلند کرو، کیونکہ مؤذن کی آواز اذان کو جہاں تک بھی کوئی انسان، جن یا کوئی چیز بھی سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔

ابلیس اور اس کی فوج کا بیان

اور اللہ تعالیٰ کا  سورۃ الاحکاف  میں فرمانا :

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ .... أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ  

اور جب متوجہ کر دیئے ہم نے تیری طرف کتنے لوگ جِنّوں میں سے، سننے لگے قرآن۔.....وہ لوگ بھٹکتے ہیں صریح۔ (۴۶:۲۹۔۳۲)

سورۃ الکہف میں لفظ مَصْرِفًا بمعنی لوٹنے کی جگہ کے ہے۔

سورۃ الجن میں لفظ صَرَفْنَا کا معنی متوجہ کیا، بھیج دیا۔

اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں ارشاد

وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ

اور ہم نے زمین پر ہر طرح کے جانور پھیلا دئے (۲:۱۶۴)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قرآن مجید میں لفظ الثُّعْبَانُ  نر سانپ کے لیے آیا ہے

بعض نے کہا، سانپوں کی کئی قسمیں ہوتی ہے۔ الْجَانُّ  جو سفید باریک ہو،

الأَفَاعِي ، زہر دار سانپ اور الأَسَاوِدُ کالا ناگ (وغیرہ)

سورۃ ھود میں آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا‏‏‏‏ سے مراد یہ ہے کہ ہر جانور کی پیشانی تھامے ہوئے ہے۔ یعنی ہر جانور اس کی ملک اور اس کی حکومت میں ہے۔

لفظ  صَافَّاتٍ جو سورۃ الملک میں ہے، اس کے معنی اپنے پر پھیلائے ہوئے اور اسی سورۃ میں لفظ يَقْبِضْنَ بمعنی اپنے بازوؤں کو سمیٹے ہوئے کے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۹۷

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ سانپوں کو مار ڈالا کرو (خصوصاً) ان کو جن کے سروں پر دو نقطے ہوتے ہیں اور دم بریدہ سانپ کو بھی، کیونکہ دونوں آنکھ کی روشنی تک ختم کر دیتے ہیں اور حمل تک گرا دیتے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۲۹۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

ایک مرتبہ میں ایک سانپ کو مارنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھ سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا کہ اسے نہ مارو،

میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سانپوں کے مارنے کا حکم دیا تھا۔

 انہوں نے بتایا کہ بعد میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو جو جِن ہوتے ہیں دفعتاً مار ڈالنے سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر ۳۲۹۹

اور عبدالرزاق نے بھی اس حدیث کو معمر سے روایت کیا، اس میں یوں ہے کہ مجھ کو ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا یا میرے چچا زید بن خطاب نے اور معمر کے ساتھ اس حدیث کو یونس اور ابن عیینہ اور اسحاق کلبی اور زبیدہ نے بھی زہری سے روایت کیا اور صالح اور سالم سے، انہوں نے ابن ابی حفصہ اور ابن مجمع نے بھی زہری سے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس میں یوں ہے کہ مجھ کو ابولبابہ اور زید بن خطاب (دونوں) نے دیکھا۔

مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہیں جن کو چرانے کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھرتا رہے

حدیث نمبر ۳۳۰۰

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ایک زمانہ آئے گا جب مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس کی وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی وادیوں میں لے کر چلا جائے گا تاکہ اس طرح اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا لے۔

حدیث نمبر ۳۳۰۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کفر کی چوٹی مشرق میں ہے

 اور فخر اور تکبر کرنا گھوڑے والوں، اونٹ والوں اور زمینداروں میں ہوتا ہے جو (عموماً) گاؤں کے رہنے والے ہوتے ہیں

اور بکری والوں میں دل جمعی ہوتی ہے۔

حدیث نمبر ۳۳۰۲

راوی: عقبہ بن عمرو ابومسعود رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے یمن میں! ہاں، اور قساوت اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں کی دمیں پکڑے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں سے شیطان کی چوٹیاں نمودار ہوں گی، یعنی ربیعہ اور مضر کی قوموں میں۔

حدیث نمبر ۳۳۰۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے

اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔

حدیث نمبر ۳۳۰۴

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب رات کا اندھیرا شروع ہو یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) جب شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو اپنے پاس روک لیا کرو، کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلتے ہیں۔ البتہ جب ایک گھڑی رات گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو، اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کر لو، کیوں کے شیطان کسی بند دروازے کو نہیں کھول سکتا،

 ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بالکل اسی طرح حدیث سنی تھی جس طرح مجھے عطاء نے خبر دی تھی، البتہ انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ ”اللہ کا نام لو۔“

حدیث نمبر ۳۳۰۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بنی اسرائیل میں کچھ لوگ غائب ہو گئے۔ (ان کی صورتیں مسخ ہو گئیں) میرا تو یہ خیال ہے کہ انہیں چوہے کی صورت میں مسخ کر دیا گیا۔ کیونکہ چوہوں کے سامنے جب اونٹ کا دودھ رکھا جاتا ہے تو وہ اسے نہیں پیتے (کیونکہ بنی اسرائیل کے دین میں اونٹ کا گوشت حرام تھا) اور اگر بکری کا دودھ رکھا جائے تو پی جاتے ہیں۔

پھر میں نے یہ حدیث کعب احبار سے بیان کی تو انہوں نے (حیرت سے) پوچھا، کیا واقعی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث سنی ہے؟

کئی مرتبہ انہوں نے یہ سوال کیا۔ اس پر میں نے کہا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تو پھر کس سے) کیا میں توراۃ پڑھا کرتا ہوں؟ (کہ اس سے نقل کر کے بیان کرتا ہوں)۔

حدیث نمبر ۳۳۰۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ (چھپکلی) کے متعلق فرمایا کہ وہ موذی جانور ہے لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے مار ڈالنے کا حکم نہیں سنا تھا

اور سعد بن ابی وقاص بتاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔

حدیث نمبر ۳۳۰۷

 ام شریک رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔

حدیث نمبر ۳۳۰۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس سانپ کے سر پر دو نقطے ہوتے ہیں، انہیں مار ڈالا کرو، کیونکہ وہ اندھا بنا دیتے ہیں اور حمل کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

ابواسامہ کے ساتھ اس کو حماد بن سلمہ نے بھی روایت کیا۔

حدیث نمبر ۳۳۰۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم بریدہ سانپ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ آنکھوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور حمل کو ساقط کر دیتا ہے۔

حدیث نمبر ۳۳۱۰

راوی: ابن ابی ملیکہ

ابن عمر رضی اللہ عنہما سانپوں کو پہلے مار ڈالا کرتے تھے لیکن بعد میں انہیں مارنے سے خود ہی منع کرنے لگے۔

انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک دیوار گروائی تو اس میں سے ایک سانپ کی کینچلی نکلی، آپ نے فرمایا کہ دیکھو، وہ سانپ کہاں ہے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے تلاش کیا (اور وہ مل گیا تو)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مار ڈالو، میں بھی اسی وجہ سے سانپوں کو مار ڈالا کرتا تھا۔

حدیث نمبر ۳۳۱۱

پھر میری ملاقات ایک دن ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے مجھے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

پتلے یا سفید سانپوں کو نہ مارا کرو۔ البتہ دم کٹے ہوئے سانپ کو جس پر دو سفید دھاریاں ہوتی ہیں اس کو مار ڈالو، کیونکہ یہ اتنا زہریلا ہے کہ حاملہ کے حمل کو گرا دیتا ہے اور آدمی کو اندھا بنا دیتا ہے۔“

مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہیں جن کو چرانے کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھرتا رہے

حدیث نمبر ۳۳۱۲

نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سانپوں کو مار ڈالا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۳۳۱۳

پھر ان سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں کے پتلے یا سفید سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے تو انہوں نے مارنا چھوڑ دیا۔

پانچ بہت ہی برے ( انسان کو تکلیف دینے والے ) جانور ہیں ، جن کو حرم میں بھی مار ڈالنا درست ہے

حدیث نمبر ۳۳۱۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پانچ جانور موذی ہیں، انہیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے

- چوہا،

- بچھو،

- چیل،

-  کوا

- اور کاٹ لینے والا کتا

حدیث نمبر ۳۳۱۵

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی شخص حالت احرام میں بھی مار ڈالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بچھو، چوہا، کاٹ لینے والا کتا، کوا اور چیل۔“

حدیث نمبر ۳۳۱۶

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں (کے منہ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات (روئے زمین پر) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔

ابن جریج اور حبیب نے بھی اس کو عطاء سے روایت کیا، اس میں جنات کے بدل شیاطین مذکور ہیں۔

حدیث نمبر ۳۳۱۷

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

(مقام منیٰ میں) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آیت وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا   (۷۷:۱) نازل ہوئی، ابھی ہم آپ کی زبان مبارک سے اسے سن ہی رہے تھے کہ ایک بل میں سے ایک سانپ نکلا۔ ہم اسے مارنے کے لیے جھپٹے، لیکن وہ بھاگ گیا اور اپنے بل میں داخل ہو گیا،

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس پر فرمایا ”تمہارے ہاتھ سے وہ اسی طرح بچ نکلا جیسے تم اس کے شر سے بچ گئے“

اور یحییٰ نے اسرائیل سے روایت کیا ہے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح روایت کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس سورۃ کو تازہ بتازہ سن رہے تھے

اور اسرائیل کے ساتھ اس حدیث کو ابوعوانہ نے مغیرہ سے روایت کیا اور حفص بن غیاث اور ابومعاویہ اور سلیمان بن قرم نے بھی اعمش سے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے۔

حدیث نمبر ۳۳۱۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ”ایک عورت ایک بلی کے سبب سے دوزخ میں گئی، اس نے بلی کو باندھ کر رکھا نہ تو اسے کھانا دیا اور نہ ہی چھوڑا کہ وہ کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی جان بچا لیتی۔“

عبدالاعلیٰ نے کہا اور ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا۔

حدیث نمبر ۳۳۱۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

گروہ انبیاء میں سے ایک نبی ایک درخت کے سائے میں اترے، وہاں انہیں کسی ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ تو انہوں نے حکم دیا، ان کا سارا سامان درخت کے تلے سے اٹھا لیا گیا۔ پھر چیونٹیوں کا سارا چھتہ جلوا دیا۔

 اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم کو تو ایک ہی چیونٹی نے کاٹا تھا، فقط اسی کو جلانا تھا۔

اس حدیث کا بیان جب مکھی پانی یا کھانے میں گر جائے تو اس کو ڈبو دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے

حدیث نمبر ۳۳۲۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب مکھی کسی کے پینے (یا کھانے کی چیز) میں پڑ جائے تو اسے ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور اس کے دوسرے (پر) میں شفاء ہوتی ہے۔“

حدیث نمبر ۳۳۲۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی، جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا، تو اس کی بخشش اسی (نیکی) کی وجہ سے ہو گئی۔

حدیث نمبر ۳۳۲۲

راوی: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(رحمت کے) فرشتے ان گھروں میں نہیں داخل ہوتے جن میں کتا یا (جاندار کی) تصویر ہو۔“

حدیث نمبر ۳۳۲۳

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا ہے۔

حدیث نمبر ۳۳۲۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جو شخص کتا پالے، اس کے عمل نیک میں سے روزانہ ایک قیراط (ثواب) کم کر دیا جاتا ہے،

 کھیت کے لیے یا مویشی کے لیے جو کتے پالے جائیں وہ اس سے الگ ہیں۔

حدیث نمبر ۳۳۲۵

راوی: سفیان بن ابی زہیر شنوی رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس نے کوئی کتا پالا، نہ تو پالنے والے کا مقصد کھیت کی حفاظت ہے اور نہ مویشیوں کی، تو روزانہ اس کے نیک عمل میں سے ایک قیراط (ثواب) کی کمی ہو جاتی ہے۔

سائب  (ذیلی راوی) نے پوچھا، کیا تم نے خود یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟

انہوں نے کہا، ہاں! اس قبلہ کے رب کی قسم (میں نے خود اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے)۔


© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Email: cmaj37@gmail.com

Visits wef 2019


website hit counter