صحیح بخاری شریف

کھانوں کا بیان

احادیث ۹۴

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


روزی کا بیان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ڪُ لُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقۡنَـٰكُمۡ

مسلمانو! کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے۔ (۲:۱۷۲)

اور فرمایا  :

أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا ڪَسَبۡتُمۡ

اور خرچ کرو ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم نے کمائی ہیں۔  (۲:۲۶۷)

اور اللہ تعالیٰ نے   (سورۃ مؤمنون)میں فرمایا  :

 كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

کھاؤ پاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک عمل کرو، بیشک تم جو کچھ بھی کرتے ہو ان کو میں جانتا ہوں۔ (۵۱:۲۳)

حدیث نمبر:   ۵۳۷۳

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھوکے کو کھلاؤ پلاؤ، بیمار کی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔

سفیان ثوری نے کہا کہ   (حدیث میں) لفظ  عاني سے مراد قیدی ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۷۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ کچھ دن برابر انہوں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا ہو

حدیث نمبر:   ۵۳۷۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

میں سخت مشقت میں مبتلا تھا، پھر میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ان سے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی اور پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد میں بہت دور تک چلتا رہا۔ آخر مشقت اور بھوک کی وجہ سے میں منہ کے بل گر پڑا۔

اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سر کے پاس کھڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! میں نے کہا حاضر ہوں، یا رسول اللہ! تیار ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا ایک بڑا پیالہ منگوایا۔ میں نے اس میں دودھ پیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوبارہ پیو   (ابوہریرہ!)میں نے دوبارہ پیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور پیو۔ میں نے اور پیا۔ یہاں تک کہ میرا پیٹ بھی پیالہ کی طرح بھرپور ہو گیا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اپنا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ اے عمر! اللہ تعالیٰ نے اسے اس ذات کے ذریعہ پورا کرا دیا، جو آپ سے زیادہ مستحق تھی۔ اللہ کی قسم! میں نے تم سے آیت پوچھی تھی حالانکہ میں اسے تم سے بھی زیادہ بہتر طریقہ پر پڑھ سکتا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا  اللہ کی قسم! اگر میں نے تم کو اپنے گھر میں داخل کر لیا ہوتا اور تم کو کھانا کھلا دیتا تو لال لال   (عمدہ)اونٹ ملنے سے بھی زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی۔

کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا اور دائیں ہاتھ سے کھانا

حدیث نمبر:   ۵۳۷۶

راوی: عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ

میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور   (کھاتے وقت)میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! بسم اللہ پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔ چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا۔

برتن میں سامنے سے کھانا

اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا    (کھانے سے پہلے)اللہ کا نام لیا کرو اور ہر شخص اپنے نزدیک سے کھائے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۷۷

راوی: عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ

آپ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے   (ابوسلمہ سے)بیٹے ہیں۔ بیان کیا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھایا اور برتن کے چاروں طرف سے کھانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اپنے نزدیک سے کھا۔

حدیث نمبر:   ۵۳۷۸

راوی: ابونعیم وہب بن کیسان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا گیا، آپ کے ساتھ آپ کے ربیب عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھ اور اپنے سامنے سے کھا۔

جس نے اپنے ساتھی کے ساتھ کھاتے وقت پیالے میں چاروں طرف ہاتھ بڑھائے

 بشرطیکہ ساتھی کی طرف سے معلوم ہو کہ اسے کراہیت نہیں ہو گی

حدیث نمبر:   ۵۳۷۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے کی دعوت کی جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی گیا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیالہ میں چاروں طرف کدو تلاش کرتے تھے   (کھانے کے لیے) بیان کیا کہ اسی دن سے کدو مجھ کو بھی بہت بھانے لگا۔

کھانے پینے میں داہنے ہاتھ کا استعمال کرنا

عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے کھا۔

حدیث نمبر:   ۵۳۸۰

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تک ممکن ہوتا پاکی حاصل کرنے میں، جوتا پہننے اور کنگھا کرنے میں داہنی طرف سے ابتداء کرتے۔

اشعث اس حدیث کا راوی جب واسط شہر میں تھا تو اس نے اس حدیث میں یوں کہا تھا کہ ہر ایک کام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داہنی طرف سے ابتداء کرتے۔

پیٹ بھر کر کھانا کھانا درست ہے

حدیث نمبر:   ۵۳۸۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں ضعف و نقاہت کو محسوس کیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقہ سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے   (یعنی انس رضی اللہ عنہ کے)کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور ایک حصہ مجھے چادر کی طرح اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ صحابہ تھے۔ میں ان سب حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے انس! تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہو گا۔ میں نے عرض کی جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا  کھانے کے ساتھ؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ آپ روانہ ہوئے۔ میں سب کے آگے آگے چلتا رہا۔ جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچا تو انہوں نے کہا  ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا سامان نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا اس پر بولیں کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ   (استقبال کے لیے)نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی طرف متوجہ ہوئے اور گھر میں داخل ہو گئے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ یہاں لاؤ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا روٹی لائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا چورا کر لیا گیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے اپنے گھی کے ڈبہ میں سے گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنا لیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دعا کرانی چاہی، اس کے بعد فرمایا کہ ان دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ چنانچہ دس صحابہ کو بلایا۔ سب نے کھایا اور شکم سیر ہو کر باہر چلے گئے۔ پھر فرمایا کہ دس کو اور بلا لو، انہیں بلایا گیا اور سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دس صحابہ کو اور بلا لو، پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اور ان لوگوں نے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا اور باہر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اس طرح تمام صحابہ نے پیٹ بھر کر کھایا، اس وقت اسی   (۸۰)صحابہ کی جماعت وہاں موجود تھی۔

حدیث نمبر:   ۵۳۸۲

راوی: عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما

ہم ایک سو تیس آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کسی کے پاس کھانا ہے۔ ایک صاحب نے اپنے پاس سے ایک صاع کے قریب آٹا نکالا، اسے گوندھ لیا گیا، پھر ایک مشرک لمبا تڑنگا اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ بیچنے کی ہیں یا عطیہ ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے   (عطیہ کے بجائے)ہبہ فرمایا۔ اس شخص نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچنے کی ہیں۔

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی پھر ذبح کی گئی اور آپ نے اس کی کلیجی بھونے جانے کا حکم دیا اور قسم اللہ کی ایک سو تیس لوگوں کی جماعت میں کوئی شخص ایسا نہیں رہا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کی کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو مگر وہ موجود تھا تو اسے وہیں دے دیا اور اگر وہ موجود نہیں تھا تو اس کا حصہ محفوظ رکھا، پھر اس بکری کے گوشت کو پکا کر دو بڑے کونڈوں میں رکھا اور ہم سب نے ان میں سے پیٹ بھر کر کھایا پھر بھی دونوں کونڈوں میں کھانا بچ گیا تو میں نے اسے اونٹ پر لاد لیا۔

حدیث نمبر:   ۵۳۸۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، ان دنوں ہم پانی اور کھجور سے سیر ہو جانے لگے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، ان دنوں ہم پانی اور کھجور سے سیر ہو جانے لگے تھے۔

اللہ تعالیٰ کا  سورۃ النور میں فرمانا :

لَّيۡسَ عَلَى ٱلۡأَعۡمَىٰ حَرَجٌ۬ وَلَا عَلَى ٱلۡأَعۡرَجِ حَرَجٌ۬ ... ڪَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَڪُمُ ٱلۡأَيَـٰتِ لَعَلَّڪُمۡ تَعۡقِلُونَ 

اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ... اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو ‏ ۔ (۲۴:۶۱)

حدیث نمبر:   ۵۳۸۴

راوی: سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف   (سنہ ۷ ھ میں)نکلے جب ہم مقام صہباء پر پہنچے۔ تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی، پھر ہم نے اسی کو سوکھا پھانک لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور کلی کی، ہم نے بھی کلی کی۔ اس کے بعد آپ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا   (مغرب کے لیے کیونکہ پہلے سے باوضو تھے)۔

میدہ کی چپاتیاں کھانا اور خوان (دبیز)اور دستر خوان پر کھانا

حدیث نمبر:   ۵۳۸۵

راوی: قتادہ

ہم انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت ان کا روٹی پکانے والا خادم بھی موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چپاتی   (میدہ کی روٹی)نہیں کھائی اور نہ ساری دم پختہ بکری کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۸۶

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تشتری رکھ کر   (ایک وقت مختلف قسم کا)کھانا کھایا ہو اور نہ کبھی آپ نے پتلی روٹیاں  (چپاتیاں)کھائیں اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میز پر کھایا۔

 قتادہ سے پوچھا گیا کہ پھر کس چیز پر آپ کھاتے تھے؟ کہا کہ آپ سفرہ (عام دستر خوان)پر کھانا کھایا کرتے تھے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۸۷

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ان کے ساتھ راستے میں قیام کیا اور میں نے مسلمانوں کو آپ کے ولیمہ کی دعوت میں بلایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور وہ بچھایا گیا، پھر آپ نے اس پر کھجور، پنیر اور گھی ڈال دیا اور انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ صحبت کی، پھر ایک چمڑے کے دستر خوان پر   (کھجور، گھی، پنیر ملا کر بنا ہوا)حلوہ رکھا۔

حدیث نمبر:   ۵۳۸۸

راوی: وہب بن کیسان

اہل شام   (حجاج بن یوسف کے فوجی)شام کے لوگ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو عار دلانے کے لیے کہنے لگے  یا ابن ذات النطاقین  اے دو کمر بند والی کے بیٹے اور ان کی والدہ، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا، اے بیٹے! یہ تمہیں دو کمر بند والی کی عار دلاتے ہیں، تمہیں معلوم ہے وہ کمر بند کیا تھے؟ وہ میرا کمر بند تھا جس کے میں نے دو ٹکڑے کر دیئے تھے اور ایک ٹکڑے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن کا منہ باندھا تھا اور دوسرے سے دستر خوان بنایا   (اس میں توشہ لپیٹا)۔

 وہب نے بیان کیا کہ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اہل شام دو کمر بند والی کی عار دلاتے تھے، تو وہ کہتے ہاں۔ اللہ کی قسم! یہ بیشک سچ ہے اور وہ یہ مصرعہ پڑھتے  

 تلك شكاة ظاهر عنك عارها‏

یہ تو ویسا طعنہ ہے جس میں کچھ عیب نہیں ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۸۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ ام حفید بنت حارث بن حزن رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی، پنیر اور ساہنہ ہدیہ کے طور پر بھیجی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بلایا اور انہوں نے آپ کے دستر خوان پر ساہنہ کو کھایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن اگر ساہنہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر کھایا نہ جاتا اور نہ آپ انہیں کھانے کے لیے فرماتے۔

ستو کھانے کے بیان میں

حدیث نمبر:   ۵۳۹۰

راوی: سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ

آپ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام صہبا میں تھے۔ وہ خیبر سے ایک منزل پر ہے۔ نماز کا وقت قریب تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھانک لیا اور ہم نے بھی پھانکا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور کلی کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ نے   (اس نماز کے لیے نیا)وضو نہیں کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کھانا  نہ کھاتے جب تک لوگ بتلا نہ دیتے کہ فلانا کھانا ہے

 اور آپ کو جب تک معلوم نہ ہو جاتا نہ کھاتے تھے

حدیث نمبر:   ۵۳۹۱

راوی: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے۔ ام المؤمنین ان کی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ ہیں۔ ان کے یہاں بھنا ہوا ساہنہ موجود تھا جو ان کی بہن حفیدہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا نجد سے لائی تھیں۔ انہوں نے وہ بھنا ہوا ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کے لیے اس وقت تک ہاتھ بڑھائیں جب تک آپ کو اس کے متعلق بتا نہ دیا جائے کہ یہ فلاں کھانا ہے لیکن اس دن آپ نے بھنے ہوئے ساہنے کے گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اتنے میں وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا کیوں نہیں دیتیں کہ اس وقت آپ کے سامنے جو تم نے پیش کیا ہے وہ ساہنہ ہے، یا رسول اللہ!   (یہ سن کر)آپ نے اپنا ہاتھ ساہنہ سے ہٹا لیا۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! کیا ساہنہ حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن یہ میرے ملک میں چونکہ نہیں پایا جاتا، اس لیے طبیعت پسند نہیں کرتی۔

خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھایا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ رہے تھے۔

ایک آدمی کا پورا کھانا دو کے لیے کافی ہو سکتا ہے

حدیث نمبر:   ۵۳۹۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہے اور تین کا چار کے لیے کافی ہے۔

مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے   (اور کافر سات آنتوں میں)

اس باب میں ایک حدیث مرفوع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۹۳

راوی: نافع

ابن عمر رضی اللہ عنہما اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے، جب تک ان کے ساتھ کھانے کے لیے کوئی مسکین نہ لایا جاتا۔ ایک مرتبہ میں ان کے ساتھ کھانے کے لیے ایک شخص کو لایا کہ اس نے بہت زیادہ کھانا کھایا۔ بعد میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آئندہ اس شخص کو میرے ساتھ کھانے کے لیے نہ لانا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مؤمن ایک آنت میں کھاتا اور کافر دو آنتیں بھر لیتا ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۹۴

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر یا منافق ساتوں آنتیں بھر لیتا ہے ۔

حدیث نمبر:   ۵۳۹۵

راوی: عمرو بن دینار

ابونہیک بڑے کھانے والے تھے۔ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔

ابونہیک نے اس پر عرض کیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔

حدیث نمبر:   ۵۳۹۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۳۹۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ایک صاحب بہت زیادہ کھانا کھایا کرتے تھے، پھر وہ اسلام لائے تو کم کھانے لگے۔ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔

تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟

حدیث نمبر:   ۵۳۹۸

راوی: ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔

حدیث نمبر:   ۵۳۹۹

راوی: ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے جو آپ کے پاس موجود تھے فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔

بھنا ہوا گوشت کھانا

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان  أن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ  (۱۱:۶۹) پھر وہ بھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے ۔

 لفظ   حَنِيذٍ  کے معنی بھنا ہوا ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۰۰

راوی: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا تو آپ اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے۔ اسی وقت آپ کو بتایا گیا کہ یہ ساہنہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روک لیا۔

خالد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے طبیعت اسے گوارا نہیں کرتی۔

 پھر خالد رضی اللہ عنہ نے اسے کھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔

خزیرہ کا بیان

نضر بن شمیل نے کہا کہ خزيرة بھوسی سے بنتا ہے اور  حريرة دودھ سے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۰۱

راوی: عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ

آپ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے اور قبیلہ انصار کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔

آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری بصارت کمزور ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں۔ برسات میں وادی جو میرے اور ان کے درمیان حائل ہے۔ بہنے لگتی ہے اور میرے لیے ان کی مسجد میں جانا اور ان میں نماز پڑھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے یا رسول اللہ! میری یہ خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور میرے گھر میں آپ نماز پڑھیں تاکہ میں اسی جگہ کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شاءاللہ میں جلد ہی ایسا کروں گا۔

 عتبان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہو گیا تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ گھر میں داخل ہو گئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے گھر میں کس جگہ تم پسند کرتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور   (نماز کے لیے)تکبیر کہی۔ ہم نے بھی   (آپ کے پیچھے)صف بنا لی۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خزیرہ (حریرہ کی ایک قسم)کے لیے جو آپ کے لیے ہم نے بنایا تھا روک لیا۔ گھر میں قبیلہ کے بہت سے لوگ آ آ کر جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا مالک بن دخشن کہاں ہیں؟ اس پر کسی نے کہا کہ وہ تو منافق ہے اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ   لا إله إلا الله یعنی اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ ان صحابی نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔

 عرض کیا   (یا رسول اللہ!)لیکن ہم ان کی توجہ اور ان کا لگاؤ منافقین کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  لیکن اللہ نے دوزخ کی آگ کو اس شخص پر حرام کر دیا ہے جس نے کلمہ   لا إله إلا الله کا اقرار کر لیا ہو اور اس سے اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو۔

پنیر کا بیان

حمید نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو   (دعوت ولیمہ میں)کھجور، پنیر اور گھی رکھا اور

عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھجور، پنیر اور گھی کا)ملیدہ بنایا تھا۔

حدیث نمبر:   ۵۴۰۲

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

میری خالہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ساہنہ کا گوشت، پنیر اور دودھ ہدیتاً پیش کیا تو ساہنہ کا گوشت آپ کے دستر خوان پر رکھا گیا اور اگر ساہنہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہیں رکھا جا سکتا تھا لیکن آپ نے دودھ پیا اور پنیر کھایا۔

چقندر اور جَو کھانے کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۰۳

راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ

ہمیں جمعہ کے دن بڑی خوشی رہتی تھی۔ ہماری ایک بوڑھی خاتون تھیں وہ چقندر کی جڑیں لے کر اپنی ہانڈی میں پکاتی تھیں، اوپر سے کچھ دانے جَو کے اس میں ڈال دیتی تھیں۔ ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر ان کی ملاقات کو جاتے تو وہ ہمارے سامنے یہ کھانا رکھتی تھیں۔ جمعہ کے دن ہمیں بڑی خوشی اسی وجہ سے رہتی تھی۔ ہم نماز جمعہ کے بعد ہی کھانا کھایا کرتے تھے۔ اللہ کی قسم! نہ اس میں چربی ہوتی تھی نہ گھی اور جب بھی ہم مزے سے اس کو کھاتے۔

گوشت کے پکنے سے پہلے اسے ہانڈی سے نکال کر کھانا اور منہ سے نوچنا

حدیث نمبر:   ۵۴۰۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شانے کی ہڈی کا گوشت کھایا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز کے لیے نیا)وضو نہیں کیا ۔

حدیث نمبر:   ۵۴۰۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پکتی ہوئی ہنڈیا میں سے ادھ کچی بوٹی نکالی اور اسے کھایا پھر نماز پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا۔

دستی  کا گوشت نوچ کر کھانا درست ہے

حدیث نمبر:   ۵۴۰۶

راوی: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے   (صلح حدیبیہ کے موقع پر)۔

حدیث نمبر:   ۵۴۰۷

راوی: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ

میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کے ساتھ مکہ کے راستہ میں ایک منزل پر بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے آگے پڑاؤ کیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم احرام کی حالت میں تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا۔ لوگوں نے ایک گورخر (زیبرا) کو دیکھا۔ میں اس وقت اپنا جوتا ٹانکنے میں مصروف تھا۔ ان لوگوں نے مجھے اس گورخر کے متعلق بتایا کچھ نہیں لیکن چاہتے تھے کہ میں کسی طرح دیکھ لوں۔ چنانچہ میں متوجہ ہوا اور میں نے اسے دیکھ لیا، پھر میں گھوڑے کے پاس گیا اور اسے زین پہنا کر اس پر سوار ہو گیا لیکن کوڑا اور نیزہ بھول گیا تھا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کوڑا اور نیزہ مجھے دے دو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! ہم تمہاری شکار کے معاملہ میں کوئی مدد نہیں کریں گے۔   (کیونکہ ہم محرم ہیں)میں غصہ ہو گیا اور میں نے اتر کر خود یہ دونوں چیزیں اٹھائیں پھر سوار ہو کر اس پر حملہ کیا اور ذبح کر لیا۔

 جب وہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں اسے ساتھ لایا پھر پکا کر میں نے اور سب نے کھایا لیکن بعد میں انہیں شبہ ہوا کہ احرام کی حالت میں اس   (شکار کا گوشت)کھانا کیسا ہے؟ پھر ہم روانہ ہوئے اور میں نے اس کا گوشت چھپا کر رکھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، تمہارے پاس کچھ بچا ہوا بھی ہے؟ میں نے وہی دست پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے کھایا۔ یہاں تک کہ اس کا گوشت آپ نے اپنے دانتوں سے کھینچ کھینچ کر کھایا اور آپ احرام میں تھے۔

گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا

حدیث نمبر:   ۵۴۰۸

رای: عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ

آپ  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے ہاتھ سے بکری کے شانے کا گوشت کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے گوشت اور وہ چھری جس سے گوشت کی بوٹی کاٹ رہے تھے، ڈال دی اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور آپ نے نیا وضو نہیں کیا   (کیونکہ آپ پہلے ہی وضو کئے ہوئے تھے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی قسم کے کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا

حدیث نمبر:   ۵۴۰۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوا تو کھا لیا اور اگر ناپسند ہوا تو چھوڑ دیا۔

جَو کو پیس کر منہ سے پھونک کر اس کا بھوسہ اڑا دینا درست ہے

حدیث نمبر:   ۵۴۱۰

راوی: ابوحازم سلمہ بن دینار

انہوں نے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں میدہ دیکھا تھا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں،

میں نے پوچھا کیا تم جَو کے آٹے کو چھانتے تھے؟ کہا نہیں، بلکہ ہم اسے صرف پھونک لیا کرتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۱۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کھجوریں تقسیم کی اور ہر شخص کو سات کھجوریں دیں۔ مجھے بھی سات کھجوریں عنایت فرمائیں۔ ان میں ایک خراب تھی   (اور سخت تھی)لیکن مجھے وہی سب سے زیادہ اچھی معلوم ہوئی کیونکہ اس کا چبانا مجھ کو مشکل ہو گیا۔

حدیث نمبر:   ۵۴۱۲

راوی: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

میں نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سات آدمیوں میں سے ساتواں پایا   (جنہوں نے اسلام سب سے پہلے قبول کیا تھا)اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لیے یہی کیکر کے پھل یا پتے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کھاتے کھاتے ہم لوگوں کا پاخانہ بھی بکری کی مینگنیوں کی طرح ہو گیا تھا یا اب یہ زمانہ ہے کہ بنی اسد قبیلے کے لوگ مجھ کو شریعت کے احکام سکھلاتے ہیں۔ اگر میں ابھی تک اس حال میں ہوں کہ بنی اسد کے لوگ مجھ کو شریعت کے احکام سکھلائیں تب تو میں تباہ ہی ہو گیا میری محنت برباد ہو گئی۔

حدیث نمبر:   ۵۴۱۳

راوی: ابوحازم

 میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میدہ کھایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنایا اس وقت سے وفات تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ دیکھا بھی نہیں تھا۔

 میں نے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے پاس چھلنیاں تھیں۔ کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنایا اس وقت سے آپ کی وفات تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھلنی دیکھی بھی نہیں۔

 میں نے پوچھا آپ لوگ پھر بغیر چھنا ہوا جَو کس طرح کھاتے تھے؟ بتلایا ہم اسے پیس لیتے تھے پھر اسے پھونکتے تھے جو کچھ اڑنا ہوتا اڑ جاتا اور جو باقی رہ جاتا اسے گوندھ لیتے  (اور پکا کر)کھا لیتے تھے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۱۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سامنے بھنی ہوئی بکری رکھی تھی۔ انہوں نے ان کو کھانے پر بلایا لیکن انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور آپ نے کبھی جَو کی روٹی بھی آسودہ ہو کر نہیں کھائی۔

حدیث نمبر:   ۵۴۱۵

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا اور نہ تشتری میں دو چار قسم کی چیزیں رکھ کر کھائیں اور نہ کبھی چپاتی کھائی۔

میں  ذیلی راوی نے قتادہ سے پوچھا، پھر آپ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے؟ بتلایا کہ سفرہ (چمڑے کے دستر خوان)پر۔

حدیث نمبر:   ۵۴۱۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی برابر تین دن تک گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔

تلبینہ یعنی حریرہ کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۱۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کی وجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں۔ صرف گھر والے اور خاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں تلبینہ پکانے کا حکم دیتیں۔ وہ پکایا جاتا پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا۔

پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے۔

ثرید کے بیان میں

حدیث نمبر:   ۵۴۱۸

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں میں تو بہت سے کامل ہوئے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا اور کوئی کامل نہیں ہوا اور عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۱۹

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۲۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک غلام کے پاس گیا جو درزی تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک پیالہ پیش کیا جس میں ثرید تھا۔ بیان کیا کہ پھر وہ اپنے کام میں لگ گئے۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کدو تلاش کرنے لگے کہا کہ پھر میں بھی اس میں سے کدو تلاش کر کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھنے لگا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد سے میں بھی کدو بہت پسند کرتا ہوں۔

کھال سمیت بھنی ہوئی بکری اور شانہ اور پسلی کے گوشت کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۲۱

راوی: قتادہ

 ہم انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی روٹی پکانے والا ان کے پاس ہی کھڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کھاؤ۔ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پتلی روٹی   (چپاتی)دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مسلم بھنی ہوئی بکری دیکھی۔

حدیث نمبر:   ۵۴۲۲

راوی: عمر بن امیہ ضمری

میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے شانہ میں سے گوشت کاٹ رہے تھے، پھر آپ نے اس میں سے کھایا۔ پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ کھڑے ہو گئے اور چھری ڈال دی اور نماز پڑھی لیکن نیا وضو نہیں کیا۔

سلف صالحین اپنے گھروں میں اور سفروں میں جس طرح کا کھانا میسر ہوتا اور گوشت وغیرہ محفوظ رکھ لیا کرتے تھے

عائشہ رضی اللہ عنہما اور اسماء رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے   (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفر ہجرت کے لیے) توشہ تیار کیا تھا (جسے ایک دستر خوان میں باندھ دیا گیا تھا)۔

حدیث نمبر:   ۵۴۲۳

راوی: عابس

میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ صرف ایک سال اس کا حکم دیا تھا جس سال قحط پڑا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا تھا   (اس حکم کے ذریعہ)کہ جو مال والے ہیں وہ   (گوشت محفوظ کرنے کے بجائے)محتاجوں کو کھلا دیں اور ہم بکری کے پائے محفوظ رکھ لیتے تھے اور اسے پندرہ پندرہ دن بعد کھاتے تھے۔

 ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کرنے کے لیے کیا مجبوری تھی؟ اس پر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ہنس پڑیں اور فرمایا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۲۴

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

(مکہ مکرمہ سے حج کی)قربانی کا گوشت ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ لاتے تھے۔

حیس (احساس) کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۲۵

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے یہاں کے بچوں میں کوئی بچہ تلاش کر لاؤ جو میرے کام کر دیا کرے۔ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر لائے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، جب بھی آپ کہیں پڑاؤ کرتے خدمت کرتا۔ میں سنا کرتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے

  اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والعجز والكسل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والبخل والجبن وضلع الدين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وغلبة الرجال  

اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے، رنج سے، عجز سے، سستی سے، بخل سے، بزدلی سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے۔

(انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ)پھر میں اس وقت سے برابر آپ کی خدمت کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم خیبر سے واپس ہوئے اور صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا بھی ساتھ تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پسند فرمایا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی سواری پر پیچھے کپڑے سے پردہ کیا اور پھر انہیں وہاں بٹھایا۔ آخر جب مقام صہبا میں پہنچے تو آپ نے دستر خوان پر حیس   (کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ کا ملیدہ)بنایا پھر مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو بلا لایا، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا۔ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی دعوت ولیمہ تھی۔

 پھر آپ روانہ ہوئے اور جب احد دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد جب مدینہ نظر آیا تو فرمایا کہ اے اللہ! میں اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو اسی طرح حرمت والا علاقہ بناتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر بنایا تھا۔ اے اللہ! اس کے رہنے والوں کو برکت عطا فرما۔ ان کے مد (توسیع) میں اور ان کے صاع میں برکت فرما۔

کھانے کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۲۷

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

- اس مؤمن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو سنگترے جیسی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے

- اور اس مؤمن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے

-  اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ   (پھول)جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے

-  اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۲۸

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۲۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، جو انسان کو سونے اور کھانے سے روک دیتا ہے۔ پس جب کسی شخص کی سفری ضرورت حسب منشا پوری ہو جائے تو اسے جلد ہی گھر واپس آ جانا چاہیئے۔

سالن کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۳۰

راوی: قاسم بن محمد

بریرہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریعت کی تین سنتیں قائم ہوئیں۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں   (ان کے مالکوں سے)خرید کر آزاد کرنا چاہا تو ان کے مالکوں نے کہا کہ ولاء کا تعلق ہم سے ہی قائم ہو گا۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ)میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یہ شرط لگا بھی لو جب بھی ولاء اسی کے ساتھ قائم ہو گا جو آزاد کرے گا۔

پھر بیان کیا کہ بریرہ آزاد کی گئیں اور انہیں اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے شوہر کے ساتھ رہیں یا ان سے الگ ہو جائیں

اور تیسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے، چولھے پر ہانڈی پک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کا کھانا طلب فرمایا تو روٹی اور گھر میں موجود سالن پیش کیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا میں نے گوشت   (پکتے ہوئے)نہیں دیکھا ہے؟ عرض کیا کہ دیکھا ہے یا رسول اللہ! لیکن وہ گوشت تو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے، انہوں نے ہمیں ہدیہ کے طور پر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لیے وہ صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔

میٹھی چیز اور شہد کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۳۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۳۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

میں پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا۔ اس وقت میں روٹی نہیں کھاتا تھا۔ نہ ریشم پہنتا تھا، نہ فلاں اور فلانی میری خدمت کرتے تھے   (بھوک کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات)میں اپنے پیٹ پر کنکریاں لگا لیتا اور کبھی میں کسی سے کوئی آیت پڑھنے کے لیے کہتا حالانکہ وہ مجھے یاد ہوتی۔ مقصد صرف یہ ہوتا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائے اور کھانا کھلا دے اور مسکینوں کے لیے سب سے بہترین شخص جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، ہمیں اپنے گھر ساتھ لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا کھلا دیتے تھے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ گھی کا ڈبہ نکال کر لاتے اور اس میں کچھ نہ ہوتا۔ ہم اسے پھاڑ کر اس میں جو کچھ لگا ہوتا چاٹ لیتے تھے۔

کدو کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۳۳

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک درزی غلام کے پاس تشریف لے گئے، پھر آپ کی خدمت میں   (پکا ہوا)کدو پیش کیا گیا اور آپ اسے   (رغبت کے ساتھ)کھانے لگے۔ اسی وقت سے میں بھی کدو پسند کرتا ہوں کیونکہ میں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔

اپنے دوستوں اور مسلمان بھائیوں کی دعوت کے لیے کھانا تکلف سے تیار کرائے

حدیث نمبر:   ۵۴۳۴

راوی: ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ

جماعت انصار میں ایک صاحب تھے جنہیں ابوشعیب کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچتا تھا۔ ابوشعیب رضی اللہ عنہ نے ان غلام سے کہا کہ تم میری طرف سے کھانا تیار کر دو۔ میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلا کر لائے۔ ان کے ساتھ ایک صاحب بھی چلنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم پانچ آدمیوں کی تم نے دعوت کی ہے مگر یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں، اگر چاہو تو انہیں اجازت دو اور اگر چاہو منع کر دو۔ ابوشعیب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے انہیں بھی اجازت دے دی۔

صاحب خانہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ مہمان کے ساتھ آپ بھی وہ کھائے

حدیث نمبر:   ۵۴۳۵

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میں نوعمر تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک درزی غلام کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ ایک پیالہ لایا جس میں کھانا تھا اور اوپر کدو کے قتلے تھے۔ آپ کدو تلاش کرنے لگے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو کدو کے قتلے آپ کے سامنے جمع کر کے رکھنے لگا۔ (پیالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھنے کے بعد)غلام اپنے کام میں لگ گیا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اسی وقت سے میں کدو پسند کرنے لگا، جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل دیکھا۔

شوربہ کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۳۶

راوی: انس رضی اللہ عنہ

ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا۔ میں بھی آپ کے ساتھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جَو کی روٹی اور شوربہ پیش کیا گیا۔ جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیالے میں چاروں طرف کدو تلاش کر رہے تھے، اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔

خشک کئے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۳۷

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شوربہ لایا گیا۔ اس میں کدو اور سوکھے گوشت کے ٹکڑے تھے، پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کدو کے قتلے تلاش کر کر کے کھا رہے تھے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۳۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ تین دن سے زیادہ گوشت قربانی والا رکھنے سے منع فرمایا ہو۔ صرف اس سال یہ حکم دیا تھا جس سال قحط کی وجہ سے لوگ فاقے میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ تھا کہ جو لوگ غنی ہیں وہ گوشت محتاجوں کو کھلائیں   (اور جمع کر کے نہ رکھیں)اور ہم تو بکری کے پائے محفوظ کر کے رکھ لیتے تھے اور پندرہ دن بعد تک   (کھاتے تھے)اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر سیر ہو کر نہیں کھائی۔

جس نے ایک ہی دستر خوان پر کوئی چیز اٹھا کر اپنے دوسرے ساتھی کو دی یا اس کے سامنے رکھی

عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اگر   (ایک دستر خوان پر)ایک دوسرے کی طرف دستر خوان کے کھانے بڑھائے لیکن یہ جائز نہیں کہ   (میزبان کی اجازت کے بغیر)ایک دستر خوان سے دوسرے دستر خوان کی طرف کوئی چیز بڑھائی جائے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۳۹

راوی: انس رضی اللہ عنہ

ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس دعوت میں گیا۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں جَو کی روٹی اور شوربہ، جس میں کدو اور خشک کیا ہوا گوشت تھا، پیش کیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیالہ میں چاروں طرف کدو تلاش کر رہے ہیں۔ اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔

تازہ کھجور اور ککڑی ایک ساتھ کھانا

حدیث نمبر:   ۵۴۴۰

راوی: عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تازہ کھجور ککڑی کے ساتھ کھاتے دیکھا ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۴۱

راوی: ابوعثمان

میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سات دن تک مہمان رہا، وہ اور ان کی بیوی اور ان کے خادم نے رات میں   (جاگنے کی)باری مقرر کر رکھی تھی۔ رات کے ایک تہائی حصہ میں ایک صاحب نماز پڑھتے رہے پھر وہ دوسرے کو جگا دیتے اور میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں ایک مرتبہ کھجور تقسیم کی اور مجھے بھی سات کھجوریں دیں، ایک ان میں خراب تھی۔

حدیث نمبر:   ۵۴۴۱ - b

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں کھجور تقسیم کی پانچ مجھے عنایت فرمائیں چار تو اچھی کھجوریں تھیں اور ایک خراب تھی جو میرے دانتوں کے لیے سب سے زیادہ سخت تھی۔

تازہ کھجور اور خشک کھجور کے بیان میں

اور اللہ تعالیٰ کا  مریم علیہا السلام کو خطاب   (۱۹:۲۵)  اور اپنی طرف کھجور کی شاخ کو ہلا تو تم پر تازہ تر کھجور گریں گے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۴۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ہم پانی اور کھجور ہی سے (اکثر دنوں میں)پیٹ بھرتے رہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۴۳

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

مدینہ میں ایک یہودی تھا اور وہ مجھے قرض اس شرط پر دیا کرتا تھا کہ میری کھجوریں تیار ہونے کے وقت لے لے گا۔ جابر رضی اللہ عنہ کی ایک زمین بئررومہ کے راستہ میں تھی۔ ایک سال کھجور کے باغ میں پھل نہیں آئے۔ پھل چنے جانے کا جب وقت آیا تو وہ یہودی میرے پاس آیا لیکن میں نے تو باغ سے کچھ بھی نہیں توڑا تھا۔ اس لیے میں آئندہ سال کے لیے مہلت مانگنے لگا لیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کیا۔ اس کی خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ چلو، یہودی سے جابر رضی اللہ عنہ کے لیے ہم مہلت مانگیں گے۔

چنانچہ یہ سب میرے باغ میں تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی سے گفتگو فرماتے رہے لیکن وہ یہی کہتا رہا کہ ابوالقاسم میں مہلت نہیں دے سکتا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہو گئے اور کھجور کے باغ میں چاروں طرف پھرے پھر تشریف لائے اور اس سے گفتگو کی لیکن اس نے اب بھی انکار کیا پھر میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تازہ کھجور لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تناول فرمایا پھر فرمایا جابر! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے؟ میں نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں میرے لیے کچھ فرش بچھا دو۔ میں نے بچھا دیا تو آپ داخل ہوئے اور آرام فرمایا پھر بیدار ہوئے تو میں ایک مٹھی اور کھجور لایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے بھی تناول فرمایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو فرمائی۔ اس نے اب بھی انکار کیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا کہ جابر! جاؤ اب پھل توڑو اور قرض ادا کر دو۔ آپ کھجوروں کے توڑے جانے کی جگہ کھڑے ہو گئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑ لیں جن سے میں نے قرض ادا کر دیا اور اس میں سے کھجوریں بچ بھی گئی پھر میں وہاں سے نکلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سنائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔

کھجور کے درخت کا گوند کھانا جائز ہے

حدیث نمبر:   ۵۴۴۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کھجور کے درخت کا گابھہ لایا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جن کی برکت مسلمان کی برکت کی طرح ہوتی ہے۔

 میں نے خیال کیا کہ آپ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں کہ وہ درخت کھجور کا ہوتا ہے، یا رسول اللہ! لیکن پھر جو میں نے مڑ کر دیکھا تو مجلس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ درخت کھجور کا ہے۔

عجوہ کھجور کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۴۵

راوی: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہر دن صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں، اسے اس دن نہ زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ جادو۔

دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانا

حدیث نمبر:   ۵۴۴۶

راوی: جبلہ بن سحیم

ہمیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ   (جب وہ حجاز کے خلیفہ تھے)ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے راشن میں ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم کھجور کھاتے ہوتے تو وہ فرماتے کہ دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے۔

 پھر فرمایا سوا اس صورت کے جب اس کو کھانے والا شخص اپنے ساتھی سے   (جو کھانے میں شریک ہے)اس کی اجازت لے لے۔

ککڑی کھانے کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۴۷

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کو ککڑی کے ساتھ کھاتے ہوئے دیکھا۔

کھجور کے درخت کی برکت کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۴۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت مثل مسلمان کے ہے اور وہ کھجور کا درخت ہے۔

ایک وقت میں دو طرح کے   (پھل)یا دو قسم کے کھانے جمع کر کے کھانا

حدیث نمبر:   ۵۴۴۹

راوی: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ککڑی کے ساتھ کھجور کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔

دس دس مہمانوں کو ایک ایک بار بلا کر کھانے پر بٹھانا

حدیث نمبر:   ۵۴۵۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

ان کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک مد جَو لیا اور ان سے پیس کر اس کا   خطيفة   (آٹے کو دودھ میں ملا کر پکاتے ہیں)پکایا اور ان کے پاس جو گھی کا ڈبہ تھا اس میں اس پر سے گھی نچوڑا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں   (بلانے کے لیے)بھیجا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا تو آپ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آپ کو کھانا کھانے کے لیے بلایا۔ آپ نے دریافت فرمایا اور وہ لوگ بھی جو میرے ساتھ ہیں؟ چنانچہ میں واپس آیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ جو میرے ساتھ موجود ہیں وہ بھی چلیں گے۔

اس پر ابوطلحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا  یا رسول اللہ! وہ تو ایک چیز ہے جو ام سلیم نے آپ کے لیے پکائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کھانا آپ کے پاس لایا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس آدمیوں کو میرے پاس اندر بلا لو۔ چنانچہ دس صحابہ داخل ہوئے اور کھانا پیٹ بھر کر کھایا پھر فرمایا دس آدمیوں کو میرے پاس اور بلا لو۔ یہ دس بھی اندر آئے اور پیٹ بھر کر کھایا پھر فرمایا اور دس آدمیوں کو بلا لو۔ اس طرح انہوں نے چالیس آدمیوں کا شمار کیا۔

 اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایا پھر آپ کھڑے ہوئے تو میں دیکھنے لگا کہ کھانے میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوا۔

لہسن اور دوسری   (بدبودار سبزیوں جیسے پیاز، مولی وغیرہ)ترکاریوں کا بیان

اس بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۵۱

راوی: عبدالعزیز

انس رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لہسن کے بارے میں کچھ کہتے نہیں سنا۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص   (لہسن)کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۵۲

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے لہسن یا پیاز کھائی ہو تو اسے چاہئے کہ ہم سے دور رہے، یا یہ فرمایا کہ ہماری مسجد سے دور رہے۔

کباث کا بیان اور وہ پیلو کے درخت کا پھل ہے

حدیث نمبر:   ۵۴۵۳

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام مرالظہران پر تھے، ہم پیلو توڑ رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو خوب کالا ہو وہ توڑو کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔

کھانا کھانے کے بعد کلی کرنے کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۵۴

راوی: سوید بن نعمان

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام صہبا پر پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا طلب فرمایا۔ کھانے میں ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی، پھر ہم نے کھانا کھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کلی کر کے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے، ہم نے بھی کلی کی۔

حدیث نمبر:   ۵۴۵۵

راوی: سوید رضی اللہ عنہ

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے جب ہم مقام صہبا پر پہنچے۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ جگہ خیبر سے ایک منزل کی دوری پر ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا طلب فرمایا لیکن ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی۔ ہم نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا پھر آپ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور نیا وضو نہیں کیا ۔

رو مال سے صاف کرنے سے پہلے انگلیوں کو چاٹنا

حدیث نمبر:   ۵۴۵۶

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کھانا کھائے تو ہاتھ چاٹنے یا کسی کو چٹانے سے پہلے ہاتھ نہ پونچھے۔

رو مال کا بیان

حدیث نمبر:   ۵۴۵۷

راوی: سعید بن الحارث

میں  نے جابر رضی اللہ عنہ سے ایسی چیز کے   (کھانے کے بعد)جو آگ پر رکھی ہو وضو کے متعلق پوچھا   (کہ کیا ایسی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟)تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں اس طرح کا کھانا   (جو پکا ہوا ہوتا)بہت کم میسر آتا تھا اور اگر میسر آ بھی جاتا تھا تو سوا ہماری ہتھیلیوں بازوؤں اور پاؤں کے کوئی رومال نہیں ہوتا تھا   (اور ہم انہیں سے اپنے ہاتھ صاف کر کے)نماز پڑھ لیتے تھے اور وضو۔

کھانا کھانے کے بعد کیا دعا پڑھنی چاہیئے؟

حدیث نمبر:   ۵۴۵۸

راوی: ابوامامہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے جب کھانا اٹھایا جاتا تو آپ یہ دعا پڑھتے:

الحمد لله كثيرا طيبا مباركا فيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ غير مكفي،‏‏‏‏ ولا مودع ولا مستغنى عنه،‏‏‏‏ ربنا

تمام تعریفیں اللہ کے لیے، بہت زیادہ پاکیزہ برکت والی، ہم اس کھانے کا حق پوری طرح ادا نہ کر سکے اور یہ ہمیشہ کے لیے رخصت نہیں کیا گیا ہے   (اور یہ اس لیے کہا تاکہ)اس سے ہم کو بےپرواہی کا خیال نہ ہو، اے ہمارے رب!۔

حدیث نمبر:   ۵۴۵۹

راوی: ابوامامہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے اور ایک مرتبہ بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دستر خوان اٹھاتے یہ دعا پڑھتے:    

الحمد لله الذي كفانا وأروانا،‏‏‏‏ غير مكفي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ولا مكفور،

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہماری کفایت کی اور ہمیں سیراب کیا۔ ہم اس کھانے کا حق پوری طرح ادا نہ کر سکے ورنہ ہم اس نعمت کے منکر نہیں ہیں۔

وقال مرة الحمد لله ربنا،‏‏‏‏ غير مكفي،‏‏‏‏ ولا مودع، ولا مستغنى،‏‏‏‏ ربنا‏‏‏.

اور ایک مرتبہ فرمایا  تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں اے ہمارے رب! اس کا حق ادا نہیں کر سکے اور نہ یہ ہمیشہ کے لیے رخصت کیا گیا ہے۔   (یہ اس لیے کہا تاکہ)اس سے ہم کو بے نیازی کا خیال نہ ہو۔ اے ہمارے رب! ۔

خادم کو بھی ساتھ میں کھانا کھلانا مناسب ہے

حدیث نمبر:   ۵۴۶۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلا دے   (کیونکہ)اس نے   (پکاتے وقت)اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔

شکر گزار کھانے والا (ثواب میں)صابر روزہ دار کی طرح ہے

اس مسئلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

کسی شخص کی کھانے کی دعوت ہو

اور دوسرا شخص بھی اس کے ساتھ طفیلی ہو جائے تو اجازت لینے کے لیے وہ کہے کہ یہ بھی میرے ساتھ آ گیا ہے

 اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تم کسی ایسے مسلمان کے گھر جاؤ   (جو اپنے دین و مال میں)غلط کاموں سے بدنام نہ ہو تو اس کا کھانا کھاؤ اور اس کا پانی پیو۔

حدیث نمبر:   ۵۴۶۱

راوی: ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ

جماعت انصار کے ایک صحابی ابوشعیب رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا۔ وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے فاقہ کا اندازہ لگا لیا۔ چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس گئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دو۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ دعوت دوں گا۔ غلام نے کھانا تیار کر دیا۔

 اس کے بعد ابوشعیب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی چلنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوشعیب! یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں، اگر تم چاہو تو انہیں بھی اجازت دے دو اور اگر چاہو تو چھوڑ دو۔ انہوں نے عرض کیا نہیں بلکہ میں انہیں بھی اجازت دیتا ہوں۔

شام کا کھانا حاضر ہو تو نماز کے لیے جلدی نہ کرے

حدیث نمبر:   ۵۴۶۲

راوی: عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ

انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بکری کے شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ گوشت اور چھری جس سے آپ کاٹ رہے تھے، چھوڑ کر کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھائی اور اس نماز کے لیے نیا وضو نہیں کیا۔

حدیث نمبر:   ۵۴۶۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رات کا کھانا سامنے رکھ دیا گیا ہو اور نماز بھی کھڑی ہو گئی ہو تو پہلے کھانا کھاؤ۔

حدیث نمبر:   ۵۴۶۴

راوی: نافع

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ رات کا کھانا کھایا اور اس وقت آپ امام کی قرآت سن رہے تھے۔

حدیث نمبر:   ۵۴۶۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کھڑی ہو چکے اور رات کا کھانا بھی سامنے ہو تو کھانا کھاؤ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد  فإذا طعمتم فانتشروا (۳۳:۵۳) پھر جب تم کھانا کھا چکو تو دعوت والے کے گھر سے اٹھ کر چلے جاؤ

حدیث نمبر:   ۵۴۶۶

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میں پردہ کے حکم کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔

 زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا موقع تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح مدینہ منورہ میں کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کھانے کی دعوت کی تھی۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بعض اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک دوسرے لوگ   (کھانے سے فارغ ہو کر)جا چکے تھے۔ آخر آپ بھی کھڑے ہو گئے اور چلتے رہے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے پر پہنچے پھر آپ نے خیال کیا کہ وہ لوگ   (بھی جو کھانے کے بعد گھر بیٹھے رہ گئے تھے)جا چکے ہوں گے   (اس لیے آپ واپس تشریف لائے)میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا لیکن وہ لوگ اب بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ پھر واپس آ گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ دوبارہ واپس آیا۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ پر پہنچے پھر آپ وہاں سے واپس ہوئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکایا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔


© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Email: cmaj37@gmail.com

Visits wef 2019


website hit counter