صحیح بخاری شریف

زبردستی کام کرانےکا بیان

احادیث ۱۳

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ ... وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

لیکن جس کا دل کفر ہی کے لیے کھل جائے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے عذاب درد ناک ہو گا۔ (۱۶:۱۰۶)

اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔

اور سورۃ نساء میں فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ ... قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ

بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے

وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بےبس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کر دے(۴:۹۷)

امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجا لانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔

اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے

 اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔

حدیث نمبر ۶۹۴۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن الولید رضی اللہ عنہم کو نجات دے۔ اے اللہ بےبس مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ پیس ڈال اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آئی تھی۔

جس نے کفر پر مار کھانے، قتل کئے جانے اور ذلت کو اختیار کیا

حدیث نمبر ۶۹۴۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین خصوصیتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں گی وہ ایمان کی شیرینی پا لے گا اول یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے سب سے زیادہ عزیز ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی شخص سے محبت صرف اللہ ہی کے لیے کرے تیسرے یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹ کر جانا اتنا ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینک دیا جانا۔

حدیث نمبر ۶۹۴۲

راوی: سعید بن زید رضی اللہ عنہ

میں نے اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ اسلام لانے کی وجہ سے مکہ معظمہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے باندھ دیا تھا اور اب جو کچھ تم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ہے اس پر اگر احد پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے تو اسے ایسا ہی ہونا چاہئے۔

حدیث نمبر ۶۹۴۳

راوی: خباب بن الارت رضی اللہ عنہ

ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا حال زار بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بہت سے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کا حال یہ ہوا کہ ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا اور گڑھا کھود کر اس میں انہیں ڈال دیا جاتا پھر آرا لایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دئیے جاتے اور لوہے کے کنگھے ان کے گوشت اور ہڈیوں میں دھنسا دئیے جاتے لیکن یہ آزمائشیں بھی انہیں اپنے دین سے نہیں روک سکتی تھیں۔ اللہ کی قسم! اس اسلام کا کام مکمل ہو گا اور ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک اکیلا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہو گا اور بکریوں پر سوا بھیڑئیے کے خوف کے اور کسی لوٹ وغیرہ کا کوئی ڈر نہ ہو گالیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔

جس کے ساتھ زبردستی کی جائے یا اسی طرح کسی شخص کا بیچنا حق وغیرہ کو مجبوری سے کوئی بیچ کھوچ کا یا اور معاملہ کرے

حدیث نمبر ۶۹۴۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم بیت المدراس کے پاس پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اے قوم یہود! اسلام لاؤ تم محفوظ ہو جاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا ابوالقاسم! آپ نے پہنچا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم آپ نے پہنچا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔

اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلا وطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہئے کہ جلا وطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔

جس کے ساتھ زبردستی کی جائے اس کا نکاح

اور اللہ نے سورۃ النور میں فرمایا:

وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ

تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں تاکہ تم اس کے ذریعہ دنیا کی زندگی کا سامان جمع کرو اور جو کوئی ان پر جبر کرے گا تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲۴:۳۳)

حدیث نمبر ۶۹۴۵

راوی: خنساء بنت خذام انصاریہ

 ان کے والد نے ان کی شادی کر دی ان کی ایک شادی اس سے پہلے ہو چکی تھی (اور اب بیوہ تھیں  اس نکاح کو انہوں نے ناپسند کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر  اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔

حدیث نمبر ۶۹۴۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا عورتوں سے ان کے نکاح کے سلسلہ میں اجازت لی جائے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں۔

میں نے عرض کیا لیکن کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی تو وہ شرم کی وجہ سے چپ سادھ لے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔

اگر کسی کو مجبور کیا گیا اور آخر اس نے غلام ہبہ کیا یا بیچا تو نہ ہبہ صحیح ہو گا نہ بیع صحیح ہو گی

اور بعض لوگوں نے کہا اگر مکرہ سے کوئی چیز خریدے اور خریدنے والا اس میں کوئی نذر کر دے تو یہ مدبر کرنا درست ہو گا۔

حدیث نمبر ۶۹۴۷

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

ایک انصاری صحابی نے کسی غلام کو مدبر بنایا اور ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ملی تو دریافت فرمایا۔ اسے مجھ سے کون خریدے گا چنانچہ نعیم بن النحام رضی اللہ عنہ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔

انہوں نے بیان کیا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے ہی سال مر گیا۔

اکراہ (اضطراب) کی برائی کا بیان

حدیث نمبر ۶۹۴۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

سورۃ النساء کی آیت :

 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا

مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔(۴:۱۹)

بیان کیا کہ جب کوئی شخص  زمانہ جاہلیت میں  مر جاتا تو اس کے وارث اس کی عورت کے حقدار بنتے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا اور چاہتا تو شادی نہ کرتا اس طرح مرنے والے کے وارث اس عورت پر عورت کے وارثوں سے زیادہ حق رکھتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی  بیوہ عورت عدت گزارنے کے بعد مختار ہے وہ جس سے چاہے شادی کرے اس پر زبردستی کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔

جب عورت سے زبردستی زنا کیا گیا ہو تو اس پر حد نہیں ہے

اللہ تعالیٰ نے  سورۃ النور میں فرمایا  :

 وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ

اور جو کوئی اس کے ساتھ زبردستی کرے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ اس زبردستی کے بعد معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔(۲۴:۳۳)

حدیث نمبر ۶۹۴۹

راوی: صفیہ بنت ابی عبید

حکومت کے غلاموں میں سے ایک نے حصہ خمس کی ایک باندی سے صحبت کر لی اور اس کے ساتھ زبردستی کر کے اس کی بکارت توڑ دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے غلام پر حد جاری کرائی اور اسے شہر بدر بھی کر دیا لیکن باندی پر حد نہیں جاری کی۔ کیونکہ غلام نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔

حکومت کے غلاموں میں سے ایک نے حصہ خمس کی ایک باندی سے صحبت کر لی اور اس کے ساتھ زبردستی کر کے اس کی بکارت توڑ دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے غلام پر حد جاری کرائی اور اسے شہر بدر بھی کر دیا لیکن باندی پر حد نہیں جاری کی۔ کیونکہ غلام نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔

زہری نے ایسی کنواری باندی کے متعلق کہا جس کے ساتھ کسی آزاد نے ہمبستری کر لی ہو کہ حاکم کنواری باندی میں اس کی وجہ سے اس شخص سے اتنے دام بھر لے جتنے بکارت جاتے رہنے کی وجہ سے اس کے دام کم ہو گئے ہیں اور اس کو کوڑے بھی لگائے اگر آزاد مرد ثیبہ لونڈی سے زنا کرے تب خریدے۔

اماموں نے یہ حکم نہیں دیا ہے کہ اس کو کچھ مالی تاوان دینا پڑے گا بلکہ صرف حد لگائی جائے گی۔

حدیث نمبر ۶۹۵۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ یا ظالموں میں سے ایک ظالم رہتا تھا اس ظالم نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سارہ علیہا السلام کو اس کے پاس بھیجیں آپ نے سارہ کو بھیج دیا وہ ظالم ان کے پاس آیا تو وہ  سارہ علیہا السلام  وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو تو مجھ پر کافر کو نہ مسلط کر پھر ایسا ہوا کہ وہ کم بخت بادشاہ اچانک خراٹے لینے اور گر کر پاؤں ہلانے لگا۔

اگر کوئی شخص دوسرے مسلمان کو اپنا بھائی کہے

اور اس پر قسم کھائی اس ڈر سے کہ اگر قسم نہ کھائے گا تو کوئی ظالم اس کو مار ڈالے گا یا کوئی اور سزا دے گا اسی طرح ہر شخص جس پر زبردستی کی جائے اور وہ ڈرتا ہو تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس کی مدد کرے ظالم کا ظلم اس پر سے دفع کرے اس کے بچانے کے لیے جنگ کرے اس کو دشمن کے ہاتھ میں نہ چھوڑ دے پھر اگر اس نے مظلوم کی حمایت میں جنگ کی اور اس کے بچانے کی غرض سے ظالم کو مار ہی ڈالا تو اس پر قصاص لازم نہ ہو گا نہ دیت لازم ہو گی

 اور اگر کسی شخص سے یوں کہا جائے تو شراب پی لے یا مردار کھا لے یا اپنا غلام بیچ ڈال یا اتنے قرض کا اقرار کرے یا اس کی دستاویز لکھ دے یا فلاں چیز ہبہ کر دے یا کوئی عقد توڑ ڈال نہیں تو ہم تیرے دینی باپ یا بھائی کو مار ڈالیں گے تو اس کو یہ کام کرنے درست ہو جائیں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس سے یوں کہا جائے تو شراب پی لے یا مردار کھا لے نہیں تو ہم تیرے بیٹے یا باپ یا محرم رشتہ دار، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ کو مار ڈالیں گے تو اس کو یہ کام کرنے درست نہ ہوں گے نہ وہ مضطر کہلائے گا

پھر ان بعض لوگوں نے اپنے قول کا دوسرے مسئلہ میں خلاف کیا۔

کہتے ہیں کہ کسی شخص سے یوں کہا جائے ہم تیرے باپ یا بیٹے کو مار ڈالتے ہیں نہیں تو تو اپنا یہ غلام بیچ ڈال یا اتنے قرض کا اقرار کر لے یا فلاں چیز ہبہ کر دے تو قیاس یہ ہے کہ یہ سب معاملے صحیح اور نافذ ہوں گے مگر ہم اس مسئلہ میں اتحسان پر عمل کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں بیع اور ہبہ اور ہر ایک عقد اقرار وغیرہ باطل ہو گا ان بعض لوگوں نے ناطہٰ وار اور غیر ناطہٰ وار میں بھی فرق کیا ہے۔ جس پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی سارہ کو فرمایا یہ میری بہن ہے اللہ کی راہ میں دین کی رو سے اور ابراہیم نخعی نے کہا اگر قسم لینے والا ظالم ہو تو قسم کھانے والے کی نیت معتبر ہو گی اور اگر قسم لینے والا مظلوم ہو تو اس کی نیت معتبر ہو گی۔

حدیث نمبر ۶۹۵۱

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے  کسی ظالم کے سپرد کرے اور جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہو گا اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت اور حاجت پوری کرے گا۔

حدیث نمبر ۶۹۵۲

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔

 ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن آپ کا کیا خیال ہے جب وہ ظالم ہو گا پھر میں اس کی مدد کیسے کروں؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تم اسے ظلم سے روکنا کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔


© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Email: cmaj37@gmail.com

Visits wef 2019


website hit counter