Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Naml

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


طس ۚ

طس،

حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان پر پوری بحث سورۃ بقرہ میں ہم کرچکے ہیں۔ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُبِينٍ (۱)

یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی۔‏

قرآن کریم جو کھلی ہوئی واضح روشن اور ظاہر کتاب ہے۔ یہ اسکی آیتیں ہیں

هُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (۲)

ہدایت اور خوشخبری ایمان والوں کے لئے۔‏

جو مؤمنوں کے لئے ہدایت وبشارت ہیں۔ کیونکہ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی اتباع کرتے ہیں اسے سچا جانتے ہیں اس میں حکم احکام ہیں ان پر عمل کرتے ہیں

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (۳)

جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔‏

یہی وہ لوگ ہیں جو نمازیں صحیح طور پر پڑھتے ہیں فرضوں میں کمی نہیں کرتے اسی طرح فرض زکوٰۃ بھی ، دار آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں موت کے بعد کی زندگی اور جزا سزا کو بھی مانتے ہیں۔ جنت ودوزخ کو حق جانتے ہیں۔

چنانچہ اور آیت میں بھی ہے :

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ (۴۱:۴۵)

ایمانداروں کے لئے تو یہ قرآن ہدایت اور شفاہے اور بے ایمانوں کے کان تو بہرے ہیں ان میں روئی دئیے ہوئے ہیں۔

اور آیت میں بھی ہے :

لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُّدّاً (۹۷:۱۹)

اس سے خوشخبری پرہیزگاروں کو ہے اور بدکرداروں کو اس میں ڈراوا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ (۴)

جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے انہیں ان کے کرتوت زینت دار کر دکھائے ہیں، پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں

یہاں بھی فرماتا ہے کہ جو اسے جھٹلائیں اور قیامت کے آنے کو نہ مانیں ہم بھی انہیں چھوڑ دیتے ہیں ان کی برائیاں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں۔ اسی میں وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے رہتے ہیں اور اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے رہتے ہیں۔ انکی نگاہیں اور دل الٹ جاتے ہیں

أُولَئِكَ الَّذِينَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ (۵)

یہی لوگ ہیں جن کے لئے برا عذاب ہے اور آخرت میں بھی وہ سخت نقصان یافتہ ہیں۔‏

 انہیں دنیا اور آخرت میں بدترین سزائیں ہونگی اور قیامت کے دن تمام اہل محشر میں سب سے زیادہ خسارے میں یہی رہیں گے

وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ (۶)

بیشک آپ کو اللہ حکیم و علیم کی طرف سے قرآن سکھایا جا رہا ہے۔‏

بیشک آپ اے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ہی قرآن لے رہے ہیں۔ ہم حکیم ہیں امرو نہی کی حکمت کو بخوبی جانتے ہیں علیم ہیں چھوٹے بڑے تمام کاموں سے بخوبی خبردار ہیں ۔ پس قرآن کی تمام خبریں بالکل صدق وصداقت والی ہیں اور اس کے حکم احکام سب کے سب سراسر عدل والے ہیں

 جیسے فرمان ہے:

وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً (۶:۱۱۵)

اور آپ کے رب کا کلام واقعیت اور اعتدال کے اعتبار سے کامل ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ یاد دلارہا ہے کہ اللہ نے انہیں کس طرح بزرگ بنایا اور ان سے کلام کیا اور انہیں زبردست معجزے عطا فرمائے اور فرعون اور فرعونیوں کے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا لیکن کفارنے آپ کا انکار کیا اپنے کفر وتکبر سے نہ ہٹے آپ کی اتباع اور پیروی نہ کی ۔

إِذْ قَالَ مُوسَى لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ (۷)

(یاد ہوگا) جبکہ موسیٰ ؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں گا تاکہ تم سینک تاپ کر لو

 فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی اہل کو لے کر چلے اور راستہ بھول گئے رات آگئی اور وہ بھی سخت اندھیرے والی۔ تو آپ نے دیکھا کہ ایک جانب سے آگ کا شعلہ سا دکھائی دیتا ہے آپ نے اپنی اہل سے فرمایا کہ تم تو یہیں ٹھہرو۔ میں اس روشنی کے پاس جاتا ہوں کیا عجب کہ وہاں سے جو ہو اس سے راستہ معلوم ہوجائے یا میں وہاں کچھ آگ لے آؤں کہ تم اسے ذرا سینک تاپ کرلو ۔

 ایسا ہی ہوا کہ آپ وہاں سے ایک بڑی خبر لائے اور بہت بڑا نور حاصل کیا

فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا

جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے

اللہ فرماتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب وہاں پہنچے اس منظر کو دیکھ کر حیر ان رہ گئے دیکھتے ہیں کہ سرسبز درخت ہے اس پر آگ لپٹی رہی شعلے تیز ہورہے ہیں اور درخت کی سرسبزی اور بڑھ رہی ہے۔ اونچی نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ نور آسمان تک پہنچا ہوا ہے ۔ فی الوقع وہ آگ نہ تھی بلکہ نور تھا اور نور بھی وحدہ لاشریک کا ۔

 حضرت موسیٰ متعجب تھے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ کہ یکایک ایک آواز آتی ہے کہ اس نور میں جو کچھ ہے وہ پاکی والا اور بزرگی والا ہے اور اس کے پاس جو فرشتے ہیں وہ بھی مقدس ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اللہ سوتا نہیں اور نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو پست کرتا ہے اور اونچی کرتا ہے رات کے کام اس کی طرف دن سے پہلے اور دن کے کام رات سے پہلے چڑھ جاتے ہیں۔ اسکا حجاب نور یا آگ ہے اگر وہ بٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلی ہرچیز کو جلادیں جس پر اسکی نگاہ پہنچ رہی ہے یعنی کل کائنات کو

یہ الفاظ ابن ابی حاتم کے ہیں اور اس کی اصل صحیح مسلم میں ہے۔

وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۸)

اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔‏

پاک ہے وہ اللہ جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے مشابہ نہیں۔ اس کی مصنوعات میں سے کوئی چیز کسی کے احاطے میں نہیں ۔ وہ بلند وبالا ہے ساری مخلوق سے الگ ہے زمین وآسمان اسے گھیر نہیں سکتے وہ احد وصمد ہے وہ مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے

يَا مُوسَى إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۹)

موسیٰ! سن بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں غالب با حکمت۔‏

پھر خبر دی کہ خود اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرما رہا ہے وہی اسی وقت سرگوشیاں کررہا ہے جو سب پر غالب ہے سب اس کے ماتحت اور زیر حکم ہیں ۔ وہ اپنے اقوال وافعال میں حکمت والا ہے

وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ

تو اپنی لاٹھی ڈال دے،

اس کے بعد جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ اے موسیٰ اپنی لکڑی کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو کہ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہے وہ ہرچیز پر قادر ہے۔

فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّى مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ

 موسیٰ نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا،

 موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد سنتے ہی لکڑی کو زمین پر گرایا۔ اسی وقت وہ ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا سانپ بن گئی اور بہت بڑے جسم کا سانپ بڑی ڈراؤنی صورت اس موٹاپے پر تیز تیز چلنے والا۔

 ایسا جیتا جاگتا چلتا پھرتا زبردست اژدہا دیکھ کر حضرت موسیٰ خوف زدہ ہوگئے

 جَانٌّ کا لفظ قرآن کریم میں ہے یہ ایک قسم کے سانپ ہیں جو بہت تیزی سے حرکت کرنے والے اور کنڈی لگانے والے ہوتے ہیں۔

 ایک حدیث میں ہے:

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے ایسے سانپوں کے قتل سے ممانعت فرمائی ہے۔

 الغرض جناب موسیٰ اسے دیکھ کر ڈرے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے اور منہ موڑ کر پیٹھ پھر کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ایسے دہشت زدہ تھے کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔

يَا مُوسَى لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ (۱۰)

 اے موسیٰ! خوف نہ کھا میرے حضور میں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔‏

اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ موسیٰ ڈرو نہیں۔ میں تو تمہیں اپنا برگزیدہ رسول اور ذی عزت پیغمبر بنانا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے

إِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۱)

لیکن جو لوگ ظلم کریں پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والا مہربان ہوں ۔

 اس آیت میں انسان کے لیے بہت بڑی بشارت ہے کہ جس نے بھی کوئی برائی کا کام کیا ہو پھر وہ اس پر نادم ہو جائے اس کام کو چھوڑ دے توبہ کرلے اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو اللہ تعالیٰ اسکی توبہ قبول فرمالیتا ہے ۔

جیسے اور آیت میں ہے:

وَإِنِّى لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَـلِحَاً ثُمَّ اهْتَدَى  (۲۰:۸۲)

جو بھی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور راہ راست پر چلے میں اس کے گناہوں کو بخشنے والا ہوں

 اور فرمان ہے:

وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا (۴:۱۱۰)

جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو غفور ورحیم پائے گا۔

 اس مضمون کی آیتیں کلام الہٰی میں اور بھی بہت ساری ہیں۔

وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ ۖ

اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال، وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے

لکڑی کے سانپ بن جانے کے معجزے کے ساتھ ہی کلیم اللہ کو اور معجزہ دیا جاتا ہے کہ آپ جب بھی اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالیں گے تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہو کر نکلے گا

فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (۱۲)

تو نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا یقیناً وہ بدکاروں کا گروہ ہے۔‏

یہ دو معجزے ان نو معجزوں میں سے ہے کہ جن سے میں تیری وقتا ًفوقتاً تائید کرتا رہونگا۔ تاکہ فاسق فرعون اور اس کی فاسق قوم کے دلوں میں تیری نبوت کا ثبوت جگہ پکڑجائے یہ نو معجزے وہ تھے جن کا ذکر آیت وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ ءَايَـتٍ بَيِّنَاتٍ (۱۷:۱۰۱) میں ہے جس کی پوری تفسیر بھی اس آیت کے تحت میں گزر چکی ہے

فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (۱۳)

پس جب ان کے پاس آنکھیں کھول دینے والے ہمارے معجزے پہنچے تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے۔‏

جب یہ واضح ظاہر صاف اور کھلے معجزے فرعونیوں کو دکھائے گئے تو وہ اپنی ضد میں آکر کہنے لگے یہ تو جادو ہے لو ہم اپنے جادوگروں کو بلالیتے ہیں مقابلہ کرلو

وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ

انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر

اس مقابلہ میں اللہ نے حق کو غالب کیا اور سب لوگ زیر ہوگئے مگر پھر بھی نہ مانے ۔ گو دلوں میں اس کی حقانیت جم چکی تھی ۔ لیکن ظاہر مقابلہ سے ہٹے۔ صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر حق کو جھٹلاتے رہے

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (۱۴)

پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرواز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔‏

 اب تو دیکھ لے کہ ان مفسدوں کا انجام کس طرح حیرت ناک اور کیسا کچھ عبرت ناک ہوا؟

 ایک ہی مرتبہ ایک ہی ساتھ سارے کے سارے دریا برد کردئے گئے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ

اور یقیناً ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا

وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ (۱۵)

اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔‏

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کی خبر دے رہا ہے جو اس نے اپنے بندے اور نبی حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہ السلام پر فرمائی تھیں کہ کس طرح دونوں جہان کی دولت سے انہیں مالا مال فرمایا۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی اپنے شکرئیے کی بھی توفیق دی تھی۔ دونوں باپ بیٹے ہر وقت اللہ کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری کیا کرتے تھے اور اس کی تعریفیں بیان کرتے رہتے تھے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے :

جس بندے کو اللہ تعالیٰ جو نعمتیں دے اور ان پر وہ اللہ کی حمد کرے تو اس کی حمد ان نعمتوں سے بہت افضل ہے دیکھو خود کتاب اللہ میں یہ نکتہ موجود ہے پھر آپ نے یہی آیت لکھ کر لکھا کہ ان دونوں پیغمبروں کو جو نعمت دی گئی تھی اس سے افضل نعمت کیا ہوگی۔

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ

اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے

حضرت داؤد کے وارث حضرت سلیمان ہوئے

 اس سے مراد مال کی وراثت نہیں بلکہ ملک ونبوت کی وراثت ہے۔ اگر مالی میراث مراد ہوتی تو اس میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کا نام نہ آتا کیونکہ حضرت داؤد کی سو بیویاں تھیں۔ انبیاء کی مال کی میراث نہیں بٹتی۔

 چنانچہ سید الانبیاء علیہ السلام کا ارشاد ہے:

 ہم جماعت انبیاء ہیں ہمارے ورثے نہیں بٹا کرتے ہم جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہے

وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ (۱۶)

اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الہٰی ہے۔‏

حضرت سلیمان اللہ کی نعمتیں یاد کرتے فرماتے ہیں یہ پورا ملک اور یہ زبردست طاقت کہ انسان جن پرند سب تابع فرمان ہیں پرندوں کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں یہ خاص اللہ کا فضل وکرم ہے ۔ جو کسی انسان پر نہیں ہوا۔

 بعض جاہلوں نے کہا ہے کہ اس وقت پرند بھی انسانی زبان بولتے تھے۔ یہ محض ان کی بےعلمی ہے بھلا سمجھو تو سہی اگر واقعی یہی بات ہوتی تو پھر اس میں حضرت سلیمان کی خصوصیت ہی کیا تھی جسے آپ اس فخر سے بیان فرماتے کہ ہمیں پرندوں کی زبان سکھا دی گئی پھر تو ہر شخص پرند کی بولی سمجھتا اور حضرت سلیمان کی خصوصیت جاتی رہتی۔ یہ محض غلط ہے پرند اور حیوانات ہمیشہ سے ہی ایسے ہی رہے ان کی بولیاں بھی ایسی ہی رہیں۔

یہ خاص اللہ کا فضل تھا کہ حضرت سلیمان ہر چرند پرند کی زبان سمجھتے تھے۔ ساتھ ہی یہ نعمت بھی حاصل ہوئی تھی ۔ کہ ایک بادشاہت میں جن جن چیزوں کی ضروت ہوتی ہے سب حضرت سلیمان علیہ السلام کو قدرت نے مہیا کردی تھیں۔ یہ تھا اللہ کا کھلا احسان آپ پر۔

 مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

حضرت داؤد علیہ السلام بہت ہی غیرت والے تھے جب آپ گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر جاتے پھر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی ایک مرتبہ آپ اسی طرح باہر تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بیوی صاحبہ کی نظر اٹھی تو دیکھتی ہیں کہ گھر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کھڑے ہیں حیران ہوگئیں اور دوسروں کو دکھایا ۔ آپس میں سب کہنے لگیں یہ کہاں سے آگئے؟

دروازے بند ہیں یہ کہاں سے آگئے ؟

 اس نے جواب دیا وہ جسے کوئی روک اور دروازہ روک نہ سکے وہ کسی بڑے سے بڑے کی مطلق پرواہ نہ کرے۔

حضرت داؤد علیہ السلام سمجھ گئے اور فرمانے لگے مرحبا مرحبا آپ ملک الموت ہیں اسی وقت ملک الموت نے آپ کی روح قبض کی۔

 سورج نکل آیا اور آپ پر دھوپ آگئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت داؤد پر سایہ کریں انہوں نے اپنے پر کھول کر ایسی گہری چھاؤں کردی کہ زمین پر اندھیرا سا چھا گیا پھر حکم دیا کہ ایک ایک کرکے اپنے سب پروں کو سمیٹ لو۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرندوں نے پھر پر کیسے سمیٹے؟

 آپ نے فرمایا اپنا ہاتھ سمیٹ کر بتلایا کہ اس طرح۔

 اس پر اس دن سرخ رنگ گدھ غالب آگئے۔

وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (۱۷)

سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کئے گئے ہر ہر قسم الگ الگ درجہ بندی کردی گئی

حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر جمع ہوا جس میں انسان جن پرند سب تھے۔ آپ سے قریب انسان تھے پھر جن تھے پرند آپ کے سروں پر رہتے تھے۔ گرمیوں میں سایہ کرلیتے تھے۔ سب اپنے اپنے مرتبے پر قائم تھے۔ جس کی جو جگہ مقررر تھی وہ وہیں رہتا۔

حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۱۸)

جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیو نٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ بےخبری میں سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں علم بھی نہ ہو۔

 جب ان لشکروں کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام چلے۔ ایک جنگل پر گزر ہوا جہاں چیونٹیوں کا لشکر تھا ۔ لشکر سلیمان کو دیکھ کر ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہاکہ جاؤ اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر سلیمان چلتا ہوا تمہیں روند ڈالے اور انہیں علم بھی نہ ہو۔

حضرت حسن فرماتے ہیں اس چیونٹی کا نام حرمس تھا یہ بنو شعبان کے قبیلے سے تھی۔ تھی بھی لنگڑی بقدر بھیڑیئے کے اسے خوف ہوا کہیں سب روندی جائیں گی اور پِس جائیں گی

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ

اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئےاور دعا کرنے لگے کہ

 اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر

وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (۱۹)

 اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ جانوروں کی بولیاں سمجھتے تھے اس کی بات کو بھی سمجھ گئے اور بے اختیار ہنسی آگئی۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام بن داؤد علیہ السلام استسقاء کے لئے نکلے تو دیکھا کہ ایک چیونٹی الٹی لیٹی ہوئی اپنے پاؤں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعا کر رہی ہے کہ اے اللہ ہم بھی تیری مخلوق ہیں پانی برسنے کی محتاجی ہمیں بھی ہے ۔ اگر پانی نہ برسا تو ہم ہلاک ہوجائیں گے

یہ دعا اس چیونٹی کی سن کر آپ نے لوگوں میں اعلان کیا لوٹ چلو کسی اور ہی کی دعا سے تم پانی پلائے گئے ۔

حضور ﷺفرماتے ہیں:

 نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا انہوں نے چیونٹیوں کے سوراخ میں آگ لگانے کا حکم دے دیا

 اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ اے پیغمبر محض ایک چیونٹی کے کاٹنے پر تو نے ایک گروہ کے گروہ کو جو ہماری تسبیح خواں تھا ۔ ہلاک کردیا ۔ تجھے بدلہ لینا تھا تو اسی سے لیتا۔

چیونٹی  کی بات سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام کو تبسم بلکہ ہنسی آگئیاور اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی:

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ

وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ

اے پروردگار!

تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر

اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔

اے اللہ مجھے اپنی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا الہام کر جو تونے مجھ پر انعام کی ہیں مثلاً پرندوں اور حیوانوں کی زبان سکھا دینا وغیرہ ۔ نیز جو نعمتیں تونے میرے والدین پر انعام کی ہیں کہ وہ مسلمان مؤمن ہوئے وغیرہ۔ اور مجھے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جن سے تو خوش ہوا اور جب میری موت آجائے تو مجھے اپنے نیک بندوں اور بلند رفقاء میں ملادے جو تیے دوست ہیں۔

مفسرین کا قول ہے کہ یہ وادی شام میں تھی۔ بعض اور جگہ بتاتے ہیں۔ یہ جیونٹی مثل مکھوں کے پردار تھی۔

 اور بھی اقوال ہیں

 نوف بکالی کہتے ہیں یہ بھیڑئیے کے برابر تھی۔ ممکن ہے اصل میں لفظ ذباب ہو یعنی مکھی کے برابر اور کاتب کی غلطی وہ ذیاب لکھ دیا گیا ہو یعنی بھیڑیا ۔

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ (۲۰)

آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟

ہدہد فوج سلیمان میں مہندس کا کام کرتا تھا وہ بتلاتا تھا کہ پانی کہاں ہے؟ زمین کے اندر کا پانی اس کو اسطرح نظر آتا تھا جیسے کہ زمین کے اوپر کی چیز لوگوں کو نظر آتی ہے۔ جب سلیمان علیہ السلام جنگل میں ہوتے اس سے دریافت فرماتے کہ پانی کہاں ہے؟ یہ بتا دیتا کہ فلاں جگہ ہے۔ اتنا نیچا ہے اتنا اونچا ہے وغیرہ ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اسی وقت جنات کو حکم دیتے اور کنواں کھود لیا جاتا

پانی کی تلاش کا حکم دیا اتفاق سے وہ موجود نہ تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا آج ہدہد نظر نہیں آتا کیا پرندوں میں کہیں وہ چھپ گیا جو مجھے نظر نہ آیا۔ یا واقع میں وہ حاضر نہیں؟

ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تفسیر سن کر نافع بن ارزق خارجی نے اعتراض کیا تھا (یہ بکواسی ہر وقت حضرت عبداللہ کی باتوں پر بےجا اعتراض کیا کرتا تھا )کہنے لگا آج تو تم ہارگئے۔

حضرت عبداللہ نے فرمایا کیوں؟

 اس نے کہا آپ جو یہ فرماتے ہو کہ ہدہد زمین کے تلے کا پانی دیکھ لیتا تھا یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ایک بچہ جال بچھاکر اسے مٹی سے ڈھک کر دانہ ڈال کر ہدہد کا شکار کرلیتا ہے اگر وہ زمین کے اندر کا پانی دیکھتا ہے تو زمین کے اوپر کا جال اسے کیوں نظر نہیں آتا؟

آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تو یہ سمجھ جائے گا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاجواب ہوگیا تو مجھے جواب کی ضرورت نہ تھی سن جس وقت قضا آجاتی ہے آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں اور عقل جاتی رہتی ہے۔

 نافع لاجواب ہوگیا اور کہا واللہ اب میں آپ پر اعتراض نہ کرونگا۔

 حضرت عبداللہ برزی ایک ولی کامل شخص تھے پیر جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھا کرتے تھے۔ اسی سال کی عمر تھی ایک آنکھ سے کانے تھے۔ سلیمان بن زید نے ان سے آنکھ کے جانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے اس کے بتانے سے انکار کردیا۔ یہ بھی پیچھے پڑ گئے مہینوں گزر گئے نہ وہ بتاتے نہ یہ سوال چھوڑتے آخر تنگ آکر فرمایا لو سن لو

 میرے پاس لولو خراسانی برزہ میں (جو دمشق کے پاس ایک شہر ہے) آئے اور مجھ سے کہا کہ میں انہیں برزہ کی وادی میں لے جاؤں میں انہیں وہاں لے گیا ۔ انہوں نے انگیٹھیاں نکالیں بخور نکالے اور جلانے شروع کئے یہاں تک کہ تمام وادی خوشبو سے مہکنے لگی۔ اور ہر طرف سے سانپوں کی آمد شروع ہوگئی۔

لیکن وہ بےپرواہی سے بیٹھے رہے کسی سانپ کی طرف التفات نہ کرتے تھے۔

 تھوڑی دیر میں ایک سانپ آیا جو ہاتھ بھر کا تھا اور اسکی آنکھیں سونے کی طرح چمک رہی تھیں۔ یہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے ہماری سال بھر محنت ٹھکانے لگی۔ انہوں نے اس سانپ کو لے کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اپنی آنکھوں میں وہ سلائی پھیرلی

میں نے ان سے کہاکہ میری آنکھوں میں بھی یہ سلائی پھیردو۔

 انہوں نے انکار کردیا

میں نے ان سے منت سماجت کی بہ مشکل وہ راضی ہوئے اور میری داہنی آنکھ میں وہ سلائی پھیر دی

 اب جو میں دیکھتا ہوں تو زمین مجھے ایک شیشے کی طرح معلوم ہونے لگی جیسی اوپر کی چیزیں نظر آتی تھیں ایسی ہی زمین کے اندر کی چیزیں بھی دیکھ رہا تھا

 انہوں نے مجھے کہاچل اب آپ ہمارے ساتھ ہی کچھ دورچلے میں نے منظور کرلیا وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے ساتھ لئے ہوئے چلے جب میں بستی سے بہت دور نکل گیا تو دونوں نے مجھے دونوں طرف سے پکڑلیا اور ایک نے اپنی انگلی ڈال کر میری آنکھ نکالی اور اسے پھینک دیا۔ اور مجھے یونہی بندھا ہوا وہیں پٹخ کر دونوں کہیں چل دئیے۔

 اتفاقاً وہاں سے ایک قافلہ گزرا اور انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کررحم کھایا قیدوبند سے مجھے آزاد کردیا اور میں چلا آیا یہ قصہ ہے میری آنکھ کے جانے کا (ابن عساکر)

لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۲۱)

یقیناً میں اسے سزا دونگا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے۔‏

حضرت سلیمانؑ کے اس ہدہد کا نام عنبر تھا، آپ فرماتے ہیں اگر فی الواقع وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزادوں گا اسکے پر نچوادوں گا اور اس کو پھینک دوں گاکہ کیڑے مکوڑے کھاجائیں یا میں اسے حلال کردونگا۔ یا یہ کہ وہ اپنے غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ پیش کردے۔

اتنے میں ہدہد آگیا جانوروں نے اسے خبردی کہ آج تیری خیر نہیں۔ بادشاہ سلامت عہد کرچکے ہیں کہ وہ تجھے مار ڈالیں گے۔

 اس نے کہایہ بیان کرو کہ آپ کے الفاظ کیا تھے؟

 انہوں نے بیان کئے تو خوش ہو کر کہنے لگا پھر تو میں بچ جاؤں گا۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے بچاؤ کی وجہ اس کا اپنی ماں کے ساتھ سلوک تھا۔

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ

کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں،

ہدہد کی غیر حاضری کی تھوڑی سی دیر گزری تھی جو وہ آگیا ۔ اس نے کہا کہ اے نبی اللہ جس بات کی آپ کو خبر بھی نہیں میں اس کی ایک نئی خبر لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔

وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ (۲۲)

میں سبا کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں۔‏

میں سبا سے آرہا ہوں اور پختہ یقینی خبر لایا ہوں۔ان کے سباحمیر تھے اور یہ یمن کے بادشاہ تھے۔

 ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے اس کا نام بلقیس بنت شرجیل تھا یہ سب کی ملکہ تھی۔

إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ

میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے

قتادہ کہتے ہیں۔ اس کی ماں جنیہ عورت تھی اس کے قدم کا پچھلا حصہ چوپائے کے کھر جیسا تھا

 اور روایت میں ہے اس کی ماں کا نام رفاعہ تھا

 ابن جریج کہتے ہیں ان کے باپ کا نام ذی سرخ تھا اور ماں کا نام بلتعہ تھا لاکھوں کا اس کا لشکر تھا۔

اس کی بادشاہی ایک عورت کے ہاتھ میں ہے اسکے مشیر وزیر تین سو بارہ شخص ہیں ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ ہزار کی جمعیت ہے اس کی زمین کا نام مارب ہے یہ صنعاء سے تین میل کے فاصلہ پر ہے یہی قول قرین قیاس ہے اس کا اکثر حصہ مملکت یمن ہے واللہ اعلم

وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ (۲۳)

اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔‏

 ہر قسم کا دنیوی ضروری اسباب اسے مہیا ہے اس کا نہایت ہی شاندار تخت ہے جس پر وہ جلوس کرتی ہے۔ سونے سے منڈھا ہوا ہے اور جڑاؤ اور مروارید کی کاریگری اس پر ہوئی ہے۔

یہ اسی ہاتھ اونچا اور چالیس ہاتھ چوڑا تھا ۔

چھ سو عورتیں ہر وقت اس کی خدمت میں کمر بستہ رہتی تھیں

وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ

میں نے اسے اور اس کی قوم کو، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا،

اس کا دیوان خاص جس میں یہ تخت تھے بہت بڑا محل تھا بلند وبالاکشادہ اور فراخ پختہ مضبوط اور صاف جس کے مشرقی حصہ میں تین سو ساٹھ طاق تھے اور اتنے ہی مغربی حصے میں۔ اسے اس صنعت سے بنایا تھا کہ ہر دن سورج ایک طاق سے نکلتا اور اسی کے مقابلہ کے طاق سے غروب ہوتا۔

 اہل دربار صبح وشام اس کوسجدہ کرتے ۔ راجا پر جا سب آفتاب پرست تھے اللہ کا عابد ان میں ایک بھی نہ تھا

وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ (۲۴)

شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے۔‏

شیطان نے برائیاں انہیں اچھی کر دکھائی تھیں اور ان پر حق کا راستہ بند کر رکھا تھا وہ راہ راست پر آتے ہی نہ تھے۔ راہ راست یہ ہے کہ سورج چاند اور ستاروں کی بجائے صرف اللہ ہی کی ذات کو سجدے کے لائق ماناجائے۔

 جیسے فرمان قرآن ہے :

وَمِنْ ءَايَـتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُواْ لِلشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُواْ لِلَّهِ الَّذِى خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ  (۴۱:۳۷)

رات دن سورج چاند سب قدرت اللہ کی نشانیاں ہیں۔ تمہیں سورج چاند کو سجدہ نہ کرنا چاہئے سجدہ صرف اسی اللہ کو کرنا چاہئے جو ان سب کا خالق ہے۔

أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

کہ اسی اللہ کے لئے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے

أَلَّا يَسْجُدُ کی ایک قرأت أَلَّا يَا اسْجُدُ بھی ہے۔ یا کہ بعد کامنادیٰ محذوف ہے یعنی اے میری قوم خبردار سجدہ اللہ ہی کے لئے کرنا جو آسمان کی زمین کی ہر ہرپوشیدہ چیز سے باخبر ہے۔

الْخَبْ کی تفسیر پانی اور بارش اور پیداوار سے بھی کی گئی ہے۔ کیا عجب کہ ہدہد کی جس میں یہی صفت تھی یہی مراد ہو۔

وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ (۲۵)

 اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے۔‏

اور تمہارے ہر مخفی اور ظاہر کام کو بھی وہ جانتا ہے۔ کھلی چھپی بات اس پر یکساں ہے

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (۲۶)  ۩

اسکے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ عظمت والے عرش کا مالک ہے۔‏

 وہی تنہا معبود برحق ہے وہی عرش عظیم کا رب ہے جس سے بڑی کوئی چیز نہیں۔

 چونکہ ہدہد خیر کی طرف بلانے والا ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے وال اس کے سوا غیر کے سجدے سے روکنے والا تھا اسی لئے اس کے قتل کی ممانعت کر دی گئی ۔

مسند احمد ابوداؤد ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں کا قتل منع فرمادیا:

- چیونٹی

-  شہد کی مکھی

-  ہدہد

-  اور صرد یعنی لٹورا۔

قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (۲۷)

سلیمان نے کہا، اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔‏

ہدہد کی خبر سنتے ہی حضرت سلیمان نے اس کی تحقیق شروع کردی کہ اگر یہ سچا ہے تو قابل معافی اور اگر جھوٹا ہے تو قابل سزا ہے۔

اذْهَبْ بِكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ (۲۸)

میرے اس خط کو لے جاکر انہیں دے دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔‏

اسی سے فرمایا کہ میرا یہ خط بلقیس کو جو وہاں کی فرمانرواہے دے آ۔ اس خط کو چونچ میں لے کر یا پر سے بندھواکر ہدہد اڑا۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ (۲۹)

وہ کہنے لگی اے سردارو! میری طرف ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے۔‏

وہاں پہنچ کر بلقیس کے محل میں گیا وہ اس وقت خلوت خانہ میں تھی۔ اس نے ایک طاق میں سے وہ خط اسکے سامنے رکھا اور ادب کے ساتھ ایک طرف ہوگیا ۔ اسے سخت تعجب معلوم ہواحیرت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ خوف ودہشت بھی ہوئی۔

خط کو اٹھا کر مہر توڑ کر خط کھول کر پڑھا اس کے مضمون سے واقف ہو کر اپنے امراء وزراء سردار اور رؤسا کو جمع کیا اور کہنے لگی کہ ایک باوقعت خط میرے سامنے ڈالا گیا ہے

 اس خط کا باوقعت ہونا اس پر اس سے بھی ظاہر ہوگیا تھا کہ ایک جانور اسے لاتا ہے وہ ہوشیاری اور احتیاط سے پہنچاتا ہے۔ سامنے با ادب رکھ کر ایک طرف ہوجاتا ہے تو جان گئی تھی کہ یہ خط مکرم ہے اور کسی باعزت شخص کا بھیجا ہوا ہے۔

إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۳۰)

جو سلیمان کی طرف سے ہے اور جو بخشش کرنے والے مہربان اللہ کے نام سے شروع ہے۔‏

پھر خط کامضمون سب کو پڑھ کرسنایا کہ یہ خط حضرت سلیمان کا ہے اور اس کے شروع میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھا ہوا ہے ساتھ ہی مسلمان ہونے اور تابع فرمان بننے کی دعوت ہے۔

 اب سب نے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے پیغمبر کا دعوت نامہ ہے اور ہم میں سے کسی میں انکے مقابلے کی تاب وطاقت نہیں۔ پھر خط کی بلاغت اختصار اور وضاحت نے سب کو حیران کردیا یہ مختصر سی عبارت بہت سی باتوں سے سوا ہے۔ دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے

 علماء کرام کا مقولہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے کسی نے خط میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نہیں لکھی ۔

 ایک غریب اور ضعیف حدیث ابن ابنی حاتم میں ہے :

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ نے فرمایا میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں جو مجھ سے پہلے سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے بعد کسی نبی پر نہیں اتری

میں نے کہا حضور وہ کونسی آیت ہے؟

 آپ نے فرمایا مسجد سے جانے سے پہلے ہی میں تجھے بتادوں گا

 اب آپ نکلنے لگے ایک پاؤں مسجد سے باہر رکھ بھی دیامیرے جی میں آیا شاید آپ بھول گئے ۔ اتنے میں آپ نے یہی آیت پڑھی ۔

 اور روایت میں ہے :

 جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم باسمک اللہم تحریر فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ آیت اتری آپ نے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (۳۱)

یہ کہ تم میرے سامنے سرکشی نہ کرو اور مسلمان بن کر میرے پاس آجاؤ

خط کا مضمون صرف اسی قدر تھا کہ میرے سامنے سرکشی نہ کرو مجھے مجبور نہ کرو میری بات مان لو تکبر سے کام نہ لو موحد مخلص مطیع بن کر میرے پاس چلی آؤ۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنْتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ (۳۲)

اس نے کہااے میرے سردار!

تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کرتی۔‏

بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط انہیں سنا کر ان سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ تم جانتے ہو جب تک تم سے میں مشورہ نہ کرلوں ، تم موجود نہ ہو تو میں چونکہ کسی امر کا فیصلہ تنہا نہیں کرتی اس بارے میں بھی تم سے مشورہ طلب کرتی ہوں بتاؤ کیا رائے ہے؟

قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانْظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ (۳۳)

ان سب نے جواب دیا کہ

 ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں

سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہماری جنگی طاقت بہت کچھ ہے اور ہماری طاقت مسلم ہے ۔ اس طرف سے تو اطمینان ہے آگے جو آپ کا حکم ہو۔ ہم تابعدراری کے لئے موجود ہیں ۔

قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (۳۴)

اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے ۔

اس میں ایک حد تک سرداران لشکر نے لڑائی کی طرف اور مقابلے کی طرف رغبت دی تھی لیکن بلقیس چونکہ سمجھدار عاقبت اندیش تھی اور ہدہد کے ہاتھوں خط کے ملنے کا ایک کھلا معجزہ دیکھ چکی تھی یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ حضرت سلیمان کی طاقت کے مقابلے میں، میں میرا لاؤ لشکر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو علاوہ ملک کی بربادی کے میں بھی سلامت نہ رہ سکوں گی اس لئے اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہا بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کو فتح کرتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اجاڑ دیتے ہیں ۔ وہاں کے ذی عزت لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں ۔ سرداران لشکر اور حکمران شہر خصوصی طور پر انکی نگاہوں میں پڑھ جاتے ہیں ۔

وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ (۳۵)

میں انہیں ایک ہدیہ بھیجنے والی ہوں، پھر دیکھ لوں گی کہ قاصد کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں

 اس کی بعد اسن ے جو ترکیب سوچی کہ ایک چال چلے اور حضرت سلیمان سے موافقت کر لے صلح کر لے وہ اس نے انکے سامنے پیش کی

 کہا کہ اس وقت تو میں ایک گراں بہا تحفہ انہیں بھیجتی ہوں دیکھتی ہوں اس کے بعد وہ میرے قاصدوں سے کیا فرماتے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اسے قبول فرمالیں اور ہم آئندہ بھی انہیں یہ رقم بطور جزیے کے بھیجتے رہیں اور انہیں ہم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

قتادہ کا قول ہےکہ  اسلام کی قبولیت میں اسی طرح اس نے ہدیے بھیجنے میں نہاپت دانائی سے کام لیا۔ وہ جانتی تھی کہ روپیہ پیسہ وہ چیز ہے فولاد کو بھی نرم کردیتا ہے ۔

نیز اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں ؟

 اگر قبول کر لیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کردیا تو انکی نبوت میں کوئی شک نہیں پھر مقابلہ سراسر بےسود بلکہ مضر ہے۔

فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ

پس جب قاصد حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟

بلقیس نے بہت ہی گراں قدر تحفہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا ۔ سونا موتی جواہر وغیرہ سونے کی کثیر مقدار اینٹیں سونے کے برتن وغیرہ ۔

بعض کے مطابق کچھ بچے عورتوں کے لباس میں اور کچھ عورتیں لڑکوں کے لباس میں بھیجیں اور کہا کہ اگر وہ انہیں پہچان لیں تو اسے نبی مان لینا چاہیے ۔

جب یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے سب کو وضو کرنے کا حکم دیا ۔

 لڑکیوں نے برتن سے پانی بہا کر اپنے ہاتھ دھوئے اور لڑکوں نے برتن میں ہی ہاتھ ڈال کر پانی لیا ۔ اس سے آپ نے دونوں کو الگ الگ پہچان کر علیحدہ کر دیا کہ یہ لڑکیاں ہیں اور یہ لڑکے ہیں ۔

بعض کہتے ہیں اس طرح پہچانا کہ لڑکیوں نے تو پہلے اپنے ہاتھ کے اندرونی حصہ کو دھویا اور لڑکوں نے انکے برخلاف بیرونی حصے کو پہلے دھویا

یہ بھی مروی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت نے اس کے برخلاف ہاتھ کی انگلیوں سے شروع کر کے کہنی تک لے گئے۔

 ان میں سے کسی میں نفی کا امکان نہیں ، واللہ اعلم۔

یہ بھی مذکور ہے:

 بلقیس نے ایک برتن بھیجا تھا کہا اسے ایسے پانی سے پُر کردو جو نہ زمین کا ہو نہ آسمان کا تو آپ نے گھوڑے دوڑائے اور ان کے پسینوں سے وہ برتن بھر دیا۔

 اس نے کچھ خرمہرے اور ایک لڑی بھیجی تھی آپ نے انہیں لڑی میں پرو دیا ۔

 یہ سب اقوال عموماً بنی اسرائیل کی روایتوں سے لئے جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ (۳۶)

مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو ۔

بظاہر الفاظ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس رانی کیے تحفے کی طرف مطلقاً التفات ہی نہیں کیا۔ اور اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ کیا تم مجھے مالی رشوت دے کر شرک پر باقی رکھنا چاہتے ہو ؟

یہ محض ناممکن ہے

مجھے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ ملک، مال، لاؤ، لشکر سب میرے پاس موجود ہے۔ تم سے پر طرح بہتر حالت میں میں ہوں فالحمدللہ ۔

تم ہی اپنے اس ہدیے سے خوش رہو یہ کام تم ہی کو سونپاکہ مال سے راضی ہوجاؤ اور تحفہ تمہیں جھکا دے یہاں تو دو ہی چیزیں ہیں یا شرک چھوڑو یا تلوار روکو ۔

یہ بھی کہا گیا ہے:

 اس سے پہلے کہ اسکے قاصد پہنچیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا اور انہوں نے سونے چاندی کے ایک ہزار محل تیار کردئیے۔ جس وقت قاصد پائے تخت میں پہنچے ان محلات کو دیکھ کر ہوش جاتے رہے اور کہنے لگے یہ بادشاہ تو ہمارے اس تحفے کو اپنی حقارت سمجھے گا۔ یہاں تو سونا مٹی کی وقعت بھی نہیں رکھتا ۔

 اس سے یہ ثابت ہوا کہ بادشاہوں کو یہ جائز ہے کہ بیرونی لوگوں کے لیے کچھ تکلفات کرے اور قاصدوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرے ۔

ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ (۳۷)

جا ان کی طرف واپس لوٹ جا، ہم ان (کے مقابلہ) پر وہ لشکر لائیں گے جن کے سامنے پڑنے کی ان میں طاقت نہیں

اور ہم انہیں ذلیل و پست کرکے وہاں سے نکال باہر کریں گے ۔

 پھر آپ نے قاصدوں سے فرمایا کہ یہ ہدیے انہیں کو واپس کردو اور ان سے کہہ دو مقابلے کی تیاری کرلیں یاد رکھو میں وہ لشکر لے کر چڑھائی کروں گا کہ وہ سامنے آہی نہیں سکتے۔ انہیں ہم سے جنگ کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ ہم انہیں انکی سلطنت سے بیک بینی و دوگوش ذلت و حقارت کے ساتھ نکال دیں گے ان کے تخت و تاج کو رونددیں گے۔

 جب قاصد اس تحفے کو واپس لے پہنچے اور شاہی پیغام بھی سنادیا۔ بلقیس کو آپ کی نبوت کا یقین ہو گیا فوراً خود بھی اور تمام لشکر اور رعایا مسلمان ہوگئے اور اپنے لشکروں سمیت وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگئے

 جب آپ نے اس کا قصد معلوم کیا تو بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (۳۸)

آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے لا دے

جب قاصد پہنچتا ہے اور بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت پہنچاتا ہے تو وہ سمجھ لیتی ہے اور کہتی ہے واللہ یہ سچے پیغمبر ہیں ایک پیغمبر کا مقابلہ کر کے کوئی پنپ نہیں سکتا۔

 اسی وقت دوبارہ قاصد بھیجا کہ میں اپنی قوم کے سرداروں سمیت حاضر خدمت ہوتی ہوں تاکہ خود آپ سے مل کر دینی معلومات حاصل کروں اور آپ سے اپنی تشفی کرلوں یہ کہلوا کر یہاں اپنا نائب ایک کو بنایا۔ سلطنت کے انتظامات اس کے سپرد کئے اپنا لاجواب بیش قیمت جڑاؤ تخت جو سونے کا تھا سات محلوں میں مقفل کیا اور اپنے نائب کو اسکی حفاطت کی خاص تاکید کی اور بارہ ہزار سردار جن میں سے ہر ایک کے تحت ہزاروں آدمی تھے۔ اپنے ساتھ لئے اور ملک سلیمان کی طرف چل دی۔

 جنات قدم قدم اور دم دم کی خبریں آپ کو پہنچاتے رہتے تھے ۔ جب آپکو معلوم ہوا کہ وہ قریب پہنچ چکی ہے تو آپ نے اپنے دربار میں جس میں جن و انس سب موجود تھے فرمایا کوئی ہے جو اسکے تخت کو اسکے پہنچنے سے پہلے یہاں پہنچا دے ؟ کیونکہ جب وہ یہاں آجائیں گی اور اسلام میں داخل ہوجائیں پھر اس کا مال ہم پر حرام ہوگا۔

قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ ۖ

ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے اٹھیں اس سے پہلے ہی پہلے میں اسے آپ کے پاس لا دیتا ہوں،

یہ سن کر ایک طاقتور سرکش جن جس کا نام کوزن تھا اور جو مثل ایک بڑے پہاڑ کے تھا بول پڑا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو آپ دربار برخواست کریں اس سے پہلے میں لادیتا ہوں ۔ آپ لوگوں کے فیصلے کرنے اور جھگڑے چکانے اور انصاف دینے کو صبح سے دوپہر تک دربارعام میں تشریف رکھاکرتے تھے۔

وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ (۳۹)

یقین مانئے کہ میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار

 اس نے کہا میں اس تخت کے اٹھا لانے کی طاقت رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار۔ اس میں کوئی چیز نہیں چراؤں گا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں چاہتا ہوں اس سے بھی پہلے میرے پاس وہ پہنچ جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اللہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی تخت کے منگوانے سے غرض یہ تھی کہ اپنے ایک زبردست معجزے کا اور پوری طاقت کا ثبوت بلقیس کو دکھائیں کہ اس کا تخت جسے اس نے سات مقفل مکانوں میں رکھا تھا وہ اس کے آنے سے پہلے دربار سلیمانی میں موجود ہے۔

( وہ غرض نہ تھی جو اوپر روایت قتادہ میں بیان ہوئی)

قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ

جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں

حضرت سلیمان کے اس جلدی کے تقاضے کو سن کر جس کے پاس کتابی علم تھا وہ بولا۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ یہ آصف تھے حضرت سلیمان کے کاتب تھے ان کے باپ کا نام برخیا تھا یہ ولی اللہ تھے اسم اعظم جانتے تھے۔ پکے مسلمان تھے بنو اسرائیل میں سے تھے

 مجاہد کہتے ہیں ان کا نام اسطوم تھا۔ بلیخ بھی مروی ہے ان کا لقب ذوالنور تھا ۔

 عبداللہ لھیعہ کا قول ہے یہ خضر تھے لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے۔

 انہوں نے کہا کہ آپ اپنی نگاہ دوڑائیے جہاں تک پہنچے نظر کیجئے ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میں اسے لادوں گا۔

 پس حضرت سلیمان نے یمن کی طرف جہاں اس کا تخت تھا نظر کی ادھر یہ کھڑے ہو کر وضو کرکے دعا میں مشغول ہوئے اور کہا یا ذالجلال والاکرام

یافرمایا یا الھنا والہ کل شی الھا واحدا لا الہ الاانت ائتنی بعرشھا

اسی وقت تخت بلقیس سامنے آگیا۔ اتنی ذرا سی دیر میں یمن سے بیت المقدس میں وہ تخت پہنچ گیا۔

فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ

جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری،

جب سلیمان علیہ السلام نے اسے اپنے سامنے موجود دیکھ لیا تو فرمایا یہ صرف میرے رب کا فضل ہے کہ وہ مجھے آزمالے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یاناشکری؟

وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (۴۰)

شکر گزار اپنے ہی نفع کے لئے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے۔

 جو شکر کرے وہ اپنا ہی نفع کرتا ہے اور جو ناشکری کرے وہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی بندگی سے بےنیاز ہے اور خود بندوں سے بھی اس کی عظمت کسی کی محتاجی نہیں۔

 جیسے فرمان ہے:

مَّنْ عَمِلَ صَـلِحاً فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَآءَ فَعَلَيْهَا (۴۱:۴۶)

جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لئے اور جو برائی کرتا ہے وہ اپنے لئے۔

 اور جگہ ہے:

وَمَنْ عَمِلَ صَـلِحاً فَلاًّنفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ (۳۰:۴۴)

جو نیکی کرتے ہیں وہ اپنے لئے ہی اچھائی جمع کرتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا :

تم اور روئے زمین کے سب انسان بھی اگر اللہ سے کفر کرنے لگو تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑوگے۔ وہ غنی ہے اور حمید ہے

صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اے میرے بندو اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بہتر سے بہتر اور نیک بخت سے نیک بخت ہوجائیں تو میرا ملک بڑھ نہیں جائے گا اور اگر سب کے سب بدبخت اور برے بن جائیں تو میرا ملک گھٹ نہیں جائے گایہ تو صرف تمہارے اعمال ہیں جو جمع ہونگے اور تم کو ہی ملیں گے جو بھلائی پائے تو اللہ کا شکر کرے اور جو برائی پائے تو صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے۔

قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ (۴۱)

حکم دیا کہ اس تخت میں کچھ پھیر بدل کر دو تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راہ پالیتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو راہ نہیں پاتے

اس تخت کے آجانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس میں قدرے تغیر وتبدل کر ڈالو ۔ پس کچھ ہیرے جواہر بدل دئیے گئے۔ رنگ وروغن میں بھی تبدیلی کردی گئی نیچے اور اوپر سے بھی کچھ بدل دیا گیا۔ کچھ کمی زیادتی بھی کردی گئی تاکہ بلقیس کی آزمائش کریں کہ وہ اپنے تخت کو پہچان لیتی ہے یانہیں؟

فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ ۖ

پھر جب وہ آگئی تو اس سے کہا (دریافت کیا) گیا کہ ایسا ہی تیرا (بھی) تخت ہے؟

جب وہ پہنچی تو اس سے کہا گیا کہ کیا تیرا تخت یہ ہی ہے؟

قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ

 اس نے جواب دیا کہ یہ گویا وہی ہے

 اس نے جواب دیا کہ ہوبہو اسی جیسا ہے۔

 اس جواب سے اس کی دور بینی عقلمندی زیر کی دانائی ظاہر ہے کہ دونوں پہلو سامنے رکھے دیکھا کہ تخت بالکل میرے تخت جیسا ہے مگر بظاہر اس کا یہاں پہنچنا ناممکن ہے تو اس نے بیچ کی بات کہی

وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ (۴۲)

ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا اس سے پہلے ہی ہمیں علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے

وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كَافِرِينَ (۴۳)

اسے انہوں نے روک رکھا تھا جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی رہی تھی، یقیناً وہ کافر لوگوں میں تھی

 بلقیس کو اللہ کے سوا اوروں کی عبادت نے اور اس کے کفر نے توحید اللہ سے روک دیا تھا۔

 اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا اس سے پہلے کافروں میں سے تھے۔

لیکن پہلے قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ ملکہ نے قبول اسلام کا اعلان محل میں داخل ہونے کے بعد کیا ہے۔ جیسے عنقریب بیان ہوگا۔

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا ۚ

اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو، جسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے ہاتھوں ایک محل بنوایا تھا جو صرف شیشے اور کانچ کا تھا اور اس کے نیچے پانی سے لباب حوض تھا شیشہ بہت ہی صاف شفاف تھا ۔ آنے والا شیشے کا امتیاز نہیں کرسکتا تھا بلکہ اسے یہی معلوم ہوتا تھا کہ پانی ہی پانی ہے۔ حالانکہ اس کے اوپر شیشے کا فرش تھا۔

بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس صنعت سے غرض حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ تھی کہ آپ اس سے نکاح کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ سنا تھا کہ اس کی پنڈلیاں بہت خراب ہیں اور اس کے ٹخنے چوپایوں کے کھروں جیسے ہیں اس کی تحقیق کے لئے آپ نے ایسا کیا تھا ۔ جب وہ یہاں آنے لگی تو پانی کے حوض کو دیکھ کر اپنے پائنچے اٹھائے آپ نے دیکھ لیا کہ جو بات مجھے پہنچائی گئی ہے غلط ہے۔ اس کی پنڈلیاں اور پیر بالکل انسانوں جیسے ہی ہیں۔ کوئی نئی بات یا بد صورتی نہیں ہے چونکہ بےنکاح تھی پنڈلیوں پر بال بڑے بڑے تھے۔ آپ نے استرے سے منڈوا ڈالنے کا مشورہ دیا لیکن اس نے کہا اس کی برداشت مجھ سے نہ ہوسکے گی۔ آپ نے جنوں سے کہا کہ کوئی اور چیز بناؤ جس سے یہ بال جاتے رہیں۔ پس انہوں نے ہڑتال پیش کی یہ دوا سب سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ہی تلاش کی گئی۔

 محل میں بلانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے ملک سے اپنے دربار سے اپنی رونق سے اپنے سازو سامان سے اپنے لطف وعیش سے خود اپنے سے بڑی ہستی دیکھ لے اور اپنا جاہ حشم نظروں سے گر جائے جس کے ساتھ ہی تکبر تجبر کا خاتمہ بھی یقینی تھا۔ یہ جب اندر آنے لگی اور حوض کی حد پر پہنچی تو اسے لہلاتا ہوا دریاسمجھ کر پائنچے اٹھائے۔

قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ ۗ

فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے،

اس وقت کہا گیا کہ آپ کو غلطی لگی یہ تو شیشہ منڈہا ہوا ہے ۔ آپ اسی کے اوپر سے بغیر قدم تر کئے آسکتی ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچتے ہی اس کے کان میں آپ نے صدائے توحید ڈالی اور سورج پرستی کی مذمت سنائی۔

 اس محل کو دیکھتے ہی اس حقیقت پر نظر ڈالتے ہی دربار کے ٹھاٹھ دیکھتے ہی اتنا تو وہ سمجھ گئی تھی کہ میرا ملک تو اسکے پاسنگ میں بھی نہیں۔ نیچے پانی ہے اور اوپر شیشہ ہے بیچ میں تخت سلیمانی ہے اور اوپر سے پرندوں کا سایہ ہے جن وانس سب حاضر ہیں اور تابع فرمان ۔

 جب اسے توحید کی دعوت دی گئی تو بےدینوں کی طرح اس نے بھی زندیقانہ جواب دیا جس سے اللہ کی جناب میں گستاخی لازم آتی تھی۔ اسے سنتے ہی سلیمان علیہ السلام اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور آپ کو دیکھ کر آپ کا سارا لشکر بھی۔ اب وہ بہت ہی نادم ہوگئی ادھر سے حضرت نے ڈانٹاکہ کیا کہہ دیا؟

قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۴۴)

کہنے لگی میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں۔

اس نے کہا مجھ سے غلطی ہوئی۔ اور اسی وقت رب کی طرف جھک گئی اور کہنے لگی اے اللہ میں نے اپنے اوپر ظلم کیا اب میں حضرت سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین پر ایمان لے آئی۔ چنانچہ سچے دل سے مسلمان ہوگئی۔

 ابن ابی شیبہ میں یہاں پر ایک غریب اثر ابن عباس سے وارد کیا ہے :

 آپ فرماتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام جب تخت پر متمکن ہوتے تو اس کے پاس کی کرسیوں پر انسان بیٹھتے اور اس کے پاس والی کرسیوں پر جن بیٹھتے پھر ان کے بعد شیاطین بیٹھتے پھر ہوا اس تخت کو لے اڑتی اور معلق تھمادیتی پھر پرند آکر اپنے پروں سے سایہ کرلیتے پھر آپ ہوا کو حکم دیتے اور وہ پرواز کرکے صبح صبح مہینے بھر کے فاصلے پر پہنچادیتی اسی طرح شام کو مہینے بھر کی دوری طے ہوتی

ایک مرتبہ اسی طرح آپ جا رہے تھے پرندوں کی دیکھ بھال جو کی تو ہدہد کو غائب پایا بڑے ناراض ہوئے اور فرمایا کیا وہ جمگھٹے میں مجھے نظر نہیں پڑتا یا سچ مچ غیر حاضر ہے؟ اگر واقعی وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزا دونگا بلکہ ذبح کردونگا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بیان کردے ایسے موقعہ پر آپ پرندوں کے پرنچواکر آپ زمین پر ڈلوادیتے تھے کیڑے مکوڑے کھاجاتے تھے

 اس کے بعد تھوڑ ہی دیر میں خود حاضر ہوتا ہے اپنا سبا جانا اور وہ انکی خبر لانا بیان کرتا ہے ۔ اپنی معلومات کی تفصیل سے آگاہ کرتا ہے حضرت سلیمان اس کی صداقت کی آزمائش کے لئے اسے ملکہ سبا کے نام ایک چھٹی دے کر اسے دوبارہ بھیجتے ہیں جس میں ملکہ کو ہدایت ہوتی ہے کہ میری نافرمانی نہ کرو اور مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔

 اس خط کو دیکھتے ہی ملکہ کے دل میں خط کی اور اس کے لکھنے والے کی عزت سماجاتی ہے۔ وہ اپنے درباریوں سے مشورہ کرتی ہے وہ اپنی قوت وطاقت فوج کی ٹھاٹھ بیان کرکے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تیار ہیں صرف اشارے کی دیر ہے لیکن یہ برے وقت اور اپنے شکست کے انجام کو دیکھ کر اس ارادے سے باز رہتی ہے۔ اور دوستی کا سلسلہ اس طرح شروع کرتی ہے کہ تحفے اور ہدیے حضرت سلیمان کے پاس بھیجتی ہے۔ جسے حضرت سلیمان علیہ السلام واپس کردیتے ہیں اور چڑھائی کی دھمکی دیتے ہیں

 اب یہ اپنے ہاں سے چلتی ہے جب قریب پہنچ جاتی ہے اور اس کے لشکر کی گرد کو حضرت سلیمان علیہ السلام دیکھ لیتے ہیں تب فرماتے ہیں کہ اس کا تختہ اٹھالاؤ۔ ایک جن کہتا ہے کہ بہتر میں ابھی لاتا ہوں آپ یہاں سے اٹھیں اس سے پہلے ہی اسے دیکھ لیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے بھی جلد ممکن ہے؟ اس پر تو یہ خاموش ہوگیا لیکن اللہ کے علم والے نے کہا ابھی ایک آنکھ جھپکتے ہی۔

اتنے میں تو دیکھا کہ جس کرسی پر پاؤ رکھ کر حضرت سلیمان اپنے تخت پر چڑھتے ہیں وہاں بلقیس کا تخت نمایاں ہوا۔ آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور لوگوں کو نصیحت کی اور اس میں کچھ تبدیلی کا حکم دیا

 اس کے آتے ہی اس سے اس تخت کے بابت پوچھا تو اس نے کہاکہ گویا یہ وہی ہے۔ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے دو چیزیں طلب کیں ایک تو ایسا پانی جو نہ زمین سے نکلا ہو اور نہ آسمان سے برساہو۔

 آپ کی عادت تھی کہ جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو اول انسانوں سے پھر جنوں سے پھر شیطانوں سے دریافت فرماتے

 اس سوال کے جواب میں شیطانوں نے کہا کہ یہ کوئی مشکل چیز نہیں ہے۔ گھوڑے دوڑائیے اور ان کے پسینے سے اس کو پیالہ بھر دیجئے

اس سوال کے پورا ہونے کے بعد اس نے دوسرا سوال کیا کہ اللہ کا رنگ کیسا ہے؟

 اسے سن کر آپ اچھل پڑے اور اسی وقت سجدے میں گر پڑے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ باری تعالیٰ اس نے ایسا سوال کیا کہ میں اسے تجھ سے دریافت ہی نہیں کرسکتا

 اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ بےفکر ہوجاؤ میں نے کفایت کردیا آپ سجدے سے اٹھے اور فرمایا تونے کیا پوچھا تھا اس نے کہا پانی کے بارے میں میرا سوال تھا جو آپ نے پورا کیا اور تو میں نے کچھ نہیں پوچھا یہ خود اور اس کا لشکر اس دوسرے سوال ہی کو بھول گئے۔

 آپ نے لشکریوں سے بھی پوچھا کہ اس نے دوسرا سوال کیا کیا تھا؟

 انہوں نے جواب دیا بجز پانی کے اس نے اور کوئی سوال نہیں کیا۔

 شیطانوں کے دل میں خیال آیا کہ اگر سلیمان علیہ السلام نے اسے پسند کرلیا اور اسے اپنی نکاح میں لے لیا اور اولاد بھی ہوگئی تو یہ ہم سے ہمیشہ کے لئے گئے اس لئے انہوں نے حوض بنایا پانی سے پر کیا۔ اور اوپر سے بلور کا فرش بنادیا اس صفت سے کہ دیکھنے والے کو وہ معلوم ہی نہ دے وہ تو پانی ہی سمجھے جب بلقیس دربار میں آئی اور وہاں سے گزرنا چاہا تو پانی جان کر اپنے پائنچے اٹھالئے حضرت سلیمان نے پنڈلیوں کے بال دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اسے زائل کرنے کی کوشش کرو تو کہا گیا کہ استرے سے مونڈ سکتے ہیں آپ نے فرمایا اس کانشان مجھے ناپسند ہے کوئی اور ترکیب بتاؤ پس شیاطین نے طلا بنایا جس کے لگاتے ہی بال اڑ گئے ۔ پس اول اول بال صفا طلا حضرت سلیمان کے حکم سے ہی تیار ہوا ہے۔

 امام ابن ابی شیبہ نے اس قصے کو نقل کرکے لکھا ہے یہ کتنا اچھا قصہ ہے لیکن میں کہتا ہوں بالکل منکر اور سخت غریب ہے یہ عطا بن سائب کا وہم ہے جو اس نے ابن عباس کے نام سے بیان کردیا ہے۔ اور زیادہ قرین قیاس امر یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے دفاتر سے لیا گیا ہے جو مسلمانوں میں کعب اور وہب نے رائج کردیا تھا ۔ اللہ ان سے درگزر فرمائے۔ پس ان قصوں کا کوئی اعتماد نہیں بنو اسرائیل تو جدت پسند اور جدت طراز تھے بدل لینا گھڑ لینا کمی زیادتی کرلینا ان کی عادت میں داخل تھا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ان کا محتاج نہیں رکھا ہمیں وہ کتاب دی اور اپنے نبی کی زبانی وہ باتیں پہنچائیں جو نفع میں وضاحت میں بیان میں ان کی باتوں سے اعلی اور ارفع ہیں ساتھ ہی بہت مفید اور نہایت احتیاط والی ۔ فالحمدللہ۔

 صَرْحٌ کہتے ہیں محل کو  اور ہر بلند عمارت کو۔ چنانچہ فرعون ملعون نے بھی اپنے وزیر ہامان سے یہی کہا تھا :

ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي (۴۰:۳۶)

میرے لئے ایک بالا خانہ بنا

یمن کے ایک خاص اور بلند محل کا نام بھی صرح تھا۔ اس سے مراد ہر وہ بنا ہے جو محکم مضبوط استوار اور قوی ہو۔ یہ بنا بلور اور صاف شفاف شیشے سے بنائی گئی تھی۔ دومتہ الجندل میں ایک قلعہ ہے اسکا نام بھی مادر ہے۔

مقصد صرف اتنا ہے کہ جب اس ملکہ نے حضرت سلیمان کی یہ رفعت، یہ عظمت ، یہ شوکت، یہ سلطنت دیکھی اور اس میں غور وفکر کے ساتھ ہی حضرت سلیمان کی سیرت ان کی نیکی اور ان کی دعوت سنی تو یقین آگیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اسی وقت مسلمان ہوگئی اپنے اگلے شرک وکفر سے توبہ کر لی اور دین سلیمان کی مطیع بن گئی۔ اللہ کی عبادت کرنے لگی جو خالق مالک متصرف اور مختارکل ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ (۴۵)

یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے

حضرت صالح علیہ السلام جب اپنی قوم ثمود کے پاس آئے اور اللہ کی رسالت ادا کرتے ہوئے انہیں دعوت توحید دی تو ان میں دو فریق بن گئے ایک جماعت مؤمنوں کی دوسرا گروہ کافروں کا۔ یہ آپس میں گتھ گئے

جیسے اور جگہ ہے:

قَالَ الْمَلاَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ ۔۔۔إِنَّا بِالَّذِى ءامَنتُمْ بِهِ كَـفِرُونَ (۷:۷۵،۷۶)

ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح ؑاپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ بیشک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا ہے ۔ وہ متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس بات پر یقین لائے ہوئے ہو ہم تو اس کے منکرین ہیں ۔

قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۖ

آپ نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو! تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کر مچا رہے ہو

آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا بجائے رحمت کے عذاب مانگ رہے ہو؟

لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۴۶)

تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‏

تم استغفار کرو تاکہ نزول رحمت ہو۔

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ ۚ

وہ کہنے لگے ہم تیری اور تیرے ساتھیوں کی بد شگونی لے رہے ہیں؟

انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا تو یقین ہے کہ ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تو ہے اور تیرے ماننے والے ۔ یہی فرعونیوں نے کلیم اللہ سے کہا تھا

فَإِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَـذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَى وَمَن مَّعَهُ (۷:۱۳۱)

جو بھلائیاں ہمیں ملتی ہیں ان کے لائق تو ہم ہیں لیکن جو برائیاں پہنچتی ہیں وہ سب تیری اور تیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہیں

 اور آیت میں ہے:

وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ (۴:۷۸)

اگر انہیں کوئی بھلائی مل جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچ جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری جانب سے ہے

 تو کہہ دے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے

 یعنی اللہ کی قضا و قدر سے ہے ۔

 سورہ یٰسین میں بھی کفار کا اپنے نبیوں کو یہی کہنا موجود ہے:

قَالُواْ إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِن لَّمْ تَنتَهُواْ لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالُواْ طَـئِرُكُم مَّعَكُمْ (۳۶:۱۸)

ہم تو آپ سے بدشگونی لیتے ہیں اگر تم لوگ باز نہ رہے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور سخت دیں گے ۔ نبیوں نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو ہر وقت تمہارے وجود میں موجود ہے۔

قَالَ طَائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ (۴۷)

آپ نے فرمایا تمہاری بد شگونی اللہ کے ہاں ہے، بلکہ تم فتنے میں پڑے ہوئے لوگ ہو

 یہاں ہے کہ حضرت صالح نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے یعنی وہی تمہیں اس کا بدلہ دے گا۔ بلکہ تم تو فتنے میں ڈالے ہوئے لوگ ہو تمہیں آزمایا جارہا ہے اطاعت سے بھی اور معصیت سے بھی اور باوجود تمہاری معصیت کے تمہیں ڈھیل دی جارہی ہے یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اس کے بعد پکڑے جاؤ گے۔

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (۴۸)

اس شہر میں نو سردار تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔‏

ثمود کے شہر میں نوفسادی شخص تھے جن کی طبعیت میں اصلاح تھی ہی نہیں یہی ان کے رؤسا اور سردار تھے انہی کے مشورے اور حکم سے اونٹنی کو مار ڈالا ان کے نام یہ ہیں رعی ، رعم، ھرم،ھریم، داب، صواب، مطع، قدار بن سالف

 یہ آخری شخص وہ ہے جس نے اپنے ہاتھ سے اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں۔ جس کا بیان آیت فَنَادَوْاْ صَـحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ (۵۴:۲۹) اور آیت إِذِ انبَعَثَ أَشْقَـهَا  (۹۱:۱۲) میں ہے ۔

 یہی وہ لوگ تھے جو درہم کے سکے کو تھوڑا ساکتر لیتے تھے اور اسے چلاتے تھے۔

سکے کو کاٹنا بھی ایک طرح فساد ہے چنانچہ ابوداؤد میں حدیث ہے جس میں بلاضرورت سکے کو جو مسلمانوں میں رائج ہو کاٹنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے

الغرض ان کا یہ فساد بھی تھا اور دیگر فساد بھی بہت سارے تھے۔

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ

انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے

ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (۴۹)

اور اس کے وارثوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں

 اس ناپاک گروہ نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ آج رات کو صالح کو اور اسکے گھرانے کو قتل کرڈالو اس پر سب نے حلف اٹھائے اور مضبوط عہد وپیمان کئے۔ لیکن یہ لوگ حضرت صالح تک پہنچیں اس سے پہلے عذاب الہٰی ان تک پہنچ گیا اور ان کا ستیاناس کردیا۔ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی اور ان سب سرداروں کے سر پھوٹ گئے سارے ہی ایک ساتھ مرگئے

ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے خصوصا ًجب انہوں نے حضرت صالح کی اونٹنی کو قتل کیا۔ اور دیکھا کہ کوئی عذاب نہیں آیا تو اب نبی اللہ علیہ السلام کے قتل پر آمادہ ہوئے۔ مشورے کئے کہ چپ چاپ اچانک اسے اور اسے کے بال بچوں اور اس کے والی وارثوں کو ہلاک کردو اور قوم سے کہہ دو کہ ہمیں کیا خبر ؟

 اگر صالح نبی ہے تو ہمارے ہاتھ لگنے کا نہیں ورنہ اسے بھی اس کی اونٹنی کے ساتھ سلادو اس ارادے سے چلے راہ ہی میں تھے جو فرشتے نے پتھر سے ان سب کے دماغ پاش پاش کردئیے ان کے مشوروں میں جو اور جماعت شریک تھی انہوں نے جب دیکھا کہ انہیں گئے ہوئے عرصہ ہوگیا اور واپس نہیں آئے تو یہ خبر لینے چلے دیکھا کہ سب کے سر پھٹے ہوئے ہیں بھیجے نکلے پڑے ہیں اور سب مردہ ہیں۔

 انہوں نے حضرت صالح پر ان کے قتل کی تہمت رکھی اور انہیں مار ڈالنے کے لئے نکلے لیکن ان کی قوم ہتھیار لگا کر آگئی اور کہنے لگے دیکھو اس نے تم سے کہا کہ تین دن میں عذاب اللہ تم پر آئے گا تم یہ تین دن گزرنے دو۔ اگر یہ سچا ہے تو اس کے قتل سے اللہ کو اور ناراض کروگے اور زیادہ سخت عذاب آئیں گے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو پھر تمہارے ہاتھ سے بچ کر کہاں جائے گا؟

چنانچہ وہ لوگ چلے گئے۔

 فی الواقع ان سے نبی اللہ حضرت صالح علیہ السلام نے صاف فرمادیا تھا کہ تم نے اللہ کی اونٹنی کو قتل کیا ہے تو تم اب تین دن تک مزے اڑالو پھر اللہ کا سچا وعدہ ہو کر رہے گا۔

یہ لوگ حضرت صالح کی زبانی یہ سب سن کر کہنے لگے یہ تو اتنی مدت سے کہہ رہا ہے آؤ ہم آج ہی اس سے فارغ ہوجائیں جس پتھر سے اونٹنی نکلی تھی اسی پہاڑی پر حضرت صالح علیہ السلام کی ایک مسجد تھی جہاں آپ نماز پڑھاکرتے تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ نماز کو آئے اسی وقت راہ میں ہی اس کا کام تمام کردو۔

 جب پہاڑی پر چڑھنے لگے تو دیکھا کہ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی آرہی ہے اس سے بچنے کے لئے ایک غار میں گھس گئے چٹان آکر غار کے منہ میں اس طرح ٹھہر گیا کہ غار کامنہ بالکل بند ہوگیا۔ سب کے سب ہلاک ہوگئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے؟

انہیں یہاں عذاب آیا وہاں باقی والے وہیں ہلاک کردئیے گئے نہ ان کی خبر انہیں ہوئی اور نہ ان کی انہیں۔

وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۵۰)

انہوں نے مکر (خفیہ تدبیر) کیا اور ہم نے بھی اور وہ اسے سمجھتے ہی نہ تھے

حضرت صالح اور باایمان لوگوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور اپنی جانیں اللہ کے عذابوں میں کھو دیں۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کی چال بازی کا مزہ انہیں چکھا دیا۔ اور انہیں اس سے ذرا پہلے بھی مطلق علم نہ ہوسکا۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (۵۱)

(اب) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کر دیا

 انجام کار ان کی فریب بازیوں کا یہ ہوا کہ سب کے سب تباہ وبرباد ہوئے ۔

فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا ۗ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۵۲)

یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ علم رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں بڑی نشانی ہے۔‏

یہ ہیں ان کی بستیاں جو سنسان پڑی ہیں انکے ظلم کی وجہ سے یہ ہلاک ہوگئے ان کے بارونق شہر تباہ کردئے گئے ذی علم لوگ ان نشانوں سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں ۔

وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (۵۳)

ہم نے ان کو جو ایمان لائے تھے اور پرہیزگار تھے بال بال بچالیا۔‏

ہم نے ایمان دار متقیوں کو بال بال بچالیا۔

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ (۵۴)

اور لوط کا (ذکر کر) جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ باوجود دیکھنے بھالنے کے پھر بھی تم بدکاری کر رہے ہو

اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی اُمت یعنی اپنی قوم کو اس کے نالائق فعل پر جس کا فاعل ان سے پہلے کوئی نہ ہوا تھا۔ یعنی اغلام بازی پر ڈرایا۔

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ ۚ

یہ کیا بات ہے کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے آتے ہو؟

تمام قوم کی یہ حالت تھی کہ مرد مردوں سے عورت عورتوں سے شہوت رانی کرلیا کرتی تھیں۔ ساتھ ہی اتنے بےحیا ہوگئے تھے کہ اس پاجی فعل کو پوشیدہ کرنا بھی کچھ ضروری نہیں جانتے تھے۔ اپنے مجمعوں میں واہی فعل کرتے تھے۔ عورتوں کو چھوڑ مردوں کے پاس آتے تھے

بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (۵۵)

حق یہ ہے کہ تم بڑی ہی نادانی کر رہے ہو

اس لئے آپ نے فرمایا کہ اپنی اس جہالت سے باز آجاؤ تم تو ایسے گئے گزرے اور اتنے نادان ہوئے کہ شرعی پاکیزگی کے ساتھ ہی تم سے طبعی بھی جاتی رہی۔

جیسے دوسری آیت میں ہے:

أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَـلَمِينَ ـ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ أَزْوَجِكُمْ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ (۲۶:۱۶۵،۱۶۶)

کیا تم مردوں کے پاس آتے ہو اور عورتوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑ بنائے ہیں چھوڑتے ہو؟ بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ (۵۶)

قوم کا جواب بجز اس کہنے کہ اور کچھ نہ تھا کہ آل لوط کو اپنے شہر سے شہر بدر کر دو، یہ تو بڑے پاکباز بن رہے ہیں

قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ جب لوط اور لوط والے تمہارے اس فعل سے بیزار ہیں اور نہ وہ تمہاری مانتے ہیں نہ تم ان کی ۔ تو پھر ہمیشہ کی اس بحث و تکرار کو ختم کیوں نہیں کردیتے؟ لوط علیہ السلام کے گھرانے کو دیس نکالا دے کر ان کے روزمرہ کے کچوکوں سے نجات حاصل کرلو۔

فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ (۵۷)

پس ہم نے اسے اور اس کے اہل کو بجز اس کی بیوی کے سب کو بچا لیا، اس کا اندازہ تو باقی رہ جانے والوں میں ہم لگا ہی چکے تھے ۔

جب کافروں نے پختہ ارادہ کرلیا اور اس پر جم گئے اور اجماع ہوگیا تو اللہ نے انہیں کو ہلاک کردیا اور اپنے پاک بندے حضرت لوط کو اور ان کی اہل کو ان سے جو عذاب ان پر آئے ان سے بچالیا۔ ہاں آپ کی بیوی جو قوم کے ساتھ ہی تھی وہ پہلے سے ہی ان ہلاک ہونے والوں میں لکھی جا چکی تھی وہ یہاں باقی رہ گئی اور عذاب کے ساتھ تباہ ہوئی کیونکہ یہ انہیں ان کے دین اور ان کے طریقوں میں مدد دیتی تھی انکی بد اعمالیوں کو پسند کرتی تھی۔

 اسی نے حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر قوم کو دی تھی۔ لیکن یہ خیال رہے کہ معاذاللہ ان کی اس فحش کاری میں یہ شریک نہ تھی۔ اللہ کے نبی علیہ السلام کی بزرگی کے خلاف ہے کہ ان کی بیوی بدکار ہو۔

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ (۵۸)

اور ان پر ایک (خاص قسم کی) بارش برسادی پس ان دھمکائے ہوئے لوگوں پر بری بارش ہوئی۔

اس قوم پر آسمان سے پتھر برسائے گئے جن پر ان کے نام کندہ تھے ہر ایک پر اسی کے نام پتھر آیا اور ایک بھی ان میں سے بچ نہ سکا۔

ظالموں سے اللہ کی سزا دور نہیں۔ ان پر حجت ربانی قائم ہوچکی تھی۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاچکا تھا ۔ تبلیغ رسالت کافی طور پر ہوچکی تھی۔ لیکن انہوں نے مخالفت میں جھٹلانے میں اور اپنی بے ایمانی پر اڑنے میں کمی نہیں کی۔ نبی اللہ علیہ السلام کو تکلیفیں پہنچائیں بلکہ انہیں نکال دینے کا ارادہ کیا اس وقت اس بدترین بارش نے یعنی سنگ باری نے انہیں فناکردیا۔

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى ۗ

تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ کہیں کہ ساری تعریفوں کے لائق فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اسی نے اپنے بندوں کو اپنی بیشمار نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں۔ اس کی صفتیں عالی ہیں اس کے نام بلند اور پاک ہیں

ان کے تابعداروں کے بچالینے اور مخالفین کے غارت کردینے کی نعمت بیان فرما کر اپنی تعریفیں کرنے والے اور اپنے نیک بندوں پر سلام بھیجنے کا حکم دیا۔

جیسے اس آیت میں بیان فرمایا:

سُبْحَـنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ـ وَسَلَـمٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ـ وَالْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ (۳۷:۱۸۰،۱۸۲)

پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں پیغمبروں پر سلام ہے ۔‏ اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے

آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (۵۹)

کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں۔

 اس کے بعد بطور سوال کے مشرکوں کے اس فعل پر انکار کیا کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پاک اور بری ہے۔

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً

بھلا بتاؤکہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی؟

بیان کیا جارہاہے کہ کل کائنات کار چلانے والا، سب کا پیدا کرنے والا، سب کو روزیاں دینے والا، سب کی حفاظتیں کرنے والا، تمام جہان کی تدبیر کرنے والا، صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ان بلند آسمانوں کو چمکتے ستاروں کو اسی نے پیدا کیا ہے اس بھاری بوجھل زمین کو ان بلند چوٹیوں والے پہاڑوں کو ان پھیلے ہوئے میدانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ کھیتیاں ، باغات، پھل، پھول، دریا، سمندر، حیوانات، جنات، انسان، خشکی اور تری کے عام جاندار اسی ایک کے بنائے ہوئے ہیں۔ آسمانوں سے پانی اتارنے والا وہی ہے۔

فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا ۗ

پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگائے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اُگا سکتے،

 اسے اپنی مخلوق کو روزی دینے کا ذریعہ اسی نے بنایا ، باغات کھیت سب وہی اگاتا ہے۔ جو خوش منظر ہونے کے علاوہ بہت مفید ہیں۔ خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ زندگی کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تم میں سے یا تمہارے معبودان باطل میں سے کوئی بھی نہ کسی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے نہ کسی درخت اگانے کی۔ بس وہی خالق و رازق ہے اللہ کی خالقیت اور اس کی روزی پہنچانے کی صفت کو مشرکین بھی مانتے تھے۔

جیسے دوسری آیت میں بیان ہوا ہے:

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ (۳۱:۲۵)

اگر تو ان سے دریافت کرے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہی جواب دیں گے اللہ تعالیٰ نے

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ (۶۰)

کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟  بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں (سیدھی راہ سے)۔‏

 الغرض یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ خالق کل صرف اللہ ہی ہے ۔ لیکن ان کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ عبادت کے وقت اوروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں۔ باوجودیکہ جانتے ہیں کہ نہ وہ پیدا کرتے ہیں اور نہ روزی دینے والے ۔ اور اس بات کا فیصلہ تو ہر عقلمند کرسکتا ہے کہ عبادت کے لائق وہی ہے جو خالق مالک اور رازق ہے۔ اسی لئے یہاں اس آیت میں بھی سوال کیا گیا کہ معبود برحق کے ساتھ کوئی اور بھی عبادت کے لائق ہے؟

 کیا اللہ کے ساتھ مخلوق کو پیدا کرنے میں، مخلوق کی روزی مہیا کرنے میں کوئی اور بھی شریک ہے؟

چونکہ وہ مشرک خالق رازق صرف اللہ ہی کو مانتے تھے۔ اور عبادت اوروں کی کرتے تھے اس لئے ایک اور آیت میں فرمایا:

أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (۱۶:۱۷)

تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کر سکتا؟ کیا تم بالکل نہیں سوچتے ۔

یعنی خالق اور غیر خالق یکساں نہیں پھر تم خالق اور مخلوق کو کیسے ایک کررہے ہو؟

یہ یاد رہے کہ ان آیات میں أَمَّنْ جہاں جہاں ہے وہاں یہی معنی ہیں کہ ایک تو وہ جو ان تمام کاموں کو کرسکے اور ان پر قادر ہو دوسرا وہ جس نے ان میں سے نہ تو کسی کام کو کیا ہو اور نہ کرسکتا کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟گو دوسری شق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا لیکن طرز کلام اسے صاف کردیتا ہے۔

 اور آیت میں صاف صاف یہ بھی ہے:

آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (۵۹)

کیا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک کرتے ہیں؟

 آیت کے خاتمے پر فرمایا بلکہ ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں

یہ آیت بھی اسی جیسی ہے

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ (۳۹:۹)

ایک وہ شخص جو اپنے دل میں آخرت کا ڈر رکھ کر اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو کر راتوں کو نماز میں گزارتا ہو۔ وہ اس جیسا نہیں ہوسکتا جس کے اعمال ایسے نہ ہوں

 ایک اور جگہ ہے:

وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (۲:۲۶۹)

عقلمند ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں

أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ (۳۹:۲۲)

بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو (تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے

 یعنی ایک وہ جس کا سینہ اسلام کے لئے کھلا ہوا ہو، اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور ہدایت لئے ہو اور وہ اس جیسا نہیں۔ جس کے دل میں اسلام کی طرف سے کراہت ہو اور سخت دل ہو

 اللہ نے خود اپنی ذات کی نسبت فرمایا:

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ (۱۳:۳۳)

آیا وہ اللہ جو نگہبانی کرنے والا ہے ہر شخص کی، اس کے کئے ہوئے اعمال پر

وہ جو مخلوق کی تمام حرکات سکنات سے واقف ہو تمام غیب کی باتوں کو جانتا ہوں اس کی مانند ہے جو کچھ بھی نہ جانتا ہو؟ بلکہ جس کی آنکھیں اور کان نہ ہو جیسے تمہارے یہ بت ہیں۔

 فرمان ہے:

وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ  (۱۳:۳۳)

یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ان سے کہہ ذرا انکے نام تو مجھے بتاؤ

پس ان سب آیتوں کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنی صفتیں بیان فرمائی ہیں۔ پھر خبر دی ہے کہ یہ صفات کسی میں نہیں۔

أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ

کیا وہ جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اسکے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اسکے لئے پہاڑ بنائے

زمین کو اللہ تعالیٰ نے ٹھہری ہوئی اور ساکن بنایا تاکہ دنیا آرام سے اپنی زندگی بسر کرسکے اور اس پھیلے ہوئے فرش پر راحت پاسکے۔

جیسے اور آیت میں ہے:

اللَّهُ الَّذِى جَعَـلَ لَكُـمُ الاٌّرْضَ قَـرَاراً وَالسَّمَآءَ بِنَـآءً (۴۰:۶۴)

اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے ٹھہری ہوئی ساکن بنایا اور آسمان کو چھت بنایا۔

 اس نے زمین پر پانی کے دریا بہادئیے جوادھر ادھربہتے رہتے ہیں اور ملک ملک پہنچ کر زمین کو سیراب کرتے ہیں تاکہ زمین سے کھیت باغ وغیرہ اُگیں۔

 اس نے زمین کی مضبوطی کے لئے اس پر پہاڑوں کی میخیں گاڑھ دیں تاکہ وہ تمہیں متزلزل نہ کرسکے ٹھہری رہے۔

وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ۗ

اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی

اسکی قدرت دیکھو کہ ایک کھاری سمندر ہے اور دوسرا میٹھا ہے۔ دونوں بہہ رہے ہیں بیچ میں کوئی روک آڑ پردہ حجاب نہیں لیکن قدرت نے ایک کو ایک سے الگ کر رکھا ہے اور نہ کڑوا میٹھے میں مل سکے نہ میٹھاکرڑوے میں۔ کھاری اپنے فوائد پہنچاتا رہے میٹھا اپنے فوائد دیتا رہے اس کا نتھرا ہوا خوش ذائقہ مسرورکن خوش ہضم پانی لوگ پئیں اپنے جانوروں کو پلائیں کھتیاں باڑیاں باغات وغیرہ میں یہ پانی پہنچائیں نہائیں دھوئیں وغیرہ۔ کھاری پانی اپنی فوائد سے لوگوں کو سود مند کرے یہ ہرطرف سے گھیرے ہوئے ہے تاکہ ہوا خراب نہ ہو ۔

 اور اس آیت میں بھی ہے ان دونوں کا بیان موجود ہے:

وَهُوَ الَّذِى مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَـذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَـذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخاً وَحِجْراً مَّحْجُوراً  (۲۵:۵۳)

اور وہی ہے جس نے سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی۔

یعنی ان دونوں سمندروں کا جاری کرنے والا اللہ ہی ہے اور اسی لئے ان دونوں کے درمیاں حد فاصل قائم کر رکھی ہے۔

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ

 کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟

یہاں یہ قدرتیں اپنی جتاکر پھر سوال کرتا ہے کہ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ایسا ہے جس نے یہ کام کئے ہوں یا کرسکتاہو؟

 تاکہ وہ بھی لائق عبادت سمجھاجائے ۔

بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۶۱)

 بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں۔‏

 اکثر لوگ محض بےعلمی سے غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ عبادتوں کے لائق صرف وہی ایک ہے۔

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ

بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے

سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے۔ بےکس بےبس لوگوں کا سہارا وہی ہے گرے پڑے بھولے بھٹکے مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں

جیسے فرمایا:

وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ (۱۷:۶۷)

 اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے

یعنی تمہیں جب سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کردیتے ہیں تو تم اسی کو پکارتے ہو اسکی طرف گریہ وزاری کرتے ہو اور سب کو بھول جاتے ہو۔

جیسے فرمایا:

ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْـَرُونَ (۱۶:۵۳)

اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائے تو اسی کی طرف نالہ اور فریاد کرتے ہو ۔

 یعنی اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بےقرار وہاں پناہ لے سکتا ہے مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اس کے سوا کوئی بھی دور نہیں کرسکتا۔

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور! آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا :

اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کردے تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملادے۔ قحط سالی ہوگئی ہو اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسادے ۔

 اس شخص نے کہا یارسول اللہ !مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔

 آپﷺ نے فرمایا:

 کسی کو برا نہ کہو۔ نیکی کے کسی کام کو ہلکا اور بےوقعت نہ سمجھو۔ خواہ اپنے مسلمان بھائی سے بہ کشادہ پیشانی ملنا ہو گو اپنے ڈول سے کسی پیاسے کو ایک گھونٹ پانی کا دینا ہی ہو اور اپنے تہبند کو آدھی پنڈلی تک رکھ۔ لمبائی میں زیادہ ٹخنے تک ۔ اس سے نیچے لٹکانے سے بچتا رہ۔ اس لئے کہ یہ فخر و غرور ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے (مسند احمد)

ایک روایت میں انکا نام جابر بن سلیم ہے۔ اس میں ہے:

 میں جب حضور کے پاس آیا آپ ایک چادر سے گوٹ لگائے بیٹھے تھے جس کے پھندنے آپ کے قدموں پر گر رہے تھے

میں نے آکر پوچھا کہ تم میں اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟

 آپ نے اپنے ہاتھ سے خود اپنی طرف اشارہ کیا

میں نے کہا یارسول اللہ! میں ایک گاؤں کا رہنے والا آدمی ہوں ادب تمیز کچھ نہیں جانتا مجھے احکام اسلام کی تعلیم دیجئے۔

 آپﷺ نے فرمایا :

- کسی چھوٹی سی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھ، خواہ اپنے مسلمان بھائی سے خوش خلقی کے ساتھ ملاقات ہو۔ اور اپنے ڈول میں سے کسی پانی مانگے والے کے برتن میں ذراسا پانی ڈال دینا ہی ہو۔

-  اگر کوئی تیری کسی شرمناک بات کو جانتاہو اور وہ تجھے شرمندہ کرے تو تو اسے اس کی کسی ایسی بات کی عار نہ دلا تاکہ اجر تجھے ملے اور وہ گنہگار بن جائے۔

-  ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے سے پرہیز کر کیونکہ یہ تکبر ہے اور تکبر اللہ کو پسند نہیں

-  اور کسی کو بھی ہرگز گالی نہ دینا۔

 حضرت طاؤس ایک بیمار کی بیمار پرسی کے لئے گئے اس نے کہا میرے لئے دعا کرو

 آپ نے فرمایا تم خود اپنے لئے دعا کرو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا اللہ قبول فرماتا ہے۔

حضرت وہب فرماتے ہیں میں نے اگلی آسمانی کتاب میں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

مجھے میری عزت کی قسم! جو شخص مجھ پر اعتماد کرے اور مجھے تھام لے تو میں اسے اسکے مخالفین سے بچالوں گا اور ضرور بچالوں گا چاہے آسمان وزمین وکل مخلوق اس کی مخالفت اور ایذاء دینے پر تلے ہوں۔ اور جو مجھ پر اعتماد نہ کرے میری پناہ میں نہ آئے تو میں اسے مان وامان سے چلتا پھرتا ہونے کے باوجود اگر چاہوں گا تو زمین میں دھنسادوں گا۔ اور اس کی کوئی مدد نہ کروں گا۔

 ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔

 ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گزر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔

 میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔

 اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔

 میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔

وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے

 میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا

میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے

اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا

میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔

 اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو۔

 اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔

 میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی:

 أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ

یعنی اللہ ہی ہے جو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کردیتا ہے

 پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہاہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔

سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟

 اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے

 میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔

 اس قسم کا ایک واقعہ اور بھی ہے :

 مسلمانوں کے ایک لشکر نے ایک جنگ میں کافروں سے شکست اٹھائی اور واپس لٹے۔ ان میں ایک مسلمان جو بڑے سخی اور نیک تھے ان کا گھوڑا جو بہت تیز رفتا تھا راستے میں اڑگیا۔ اس ولی اللہ نے بہت کوشش کی لیکن جانور نے قدم ہی نہ اٹھایا۔ آخر عاجز آکر اس نے کہا کیا بات ہے جو اڑ گیا۔ ایسے ہی موقعہ کے لئے تو میں نے تیری خدمت کی تھی اور تجھے پیار سے پالا تھا۔

 گھوڑے کو اللہ نے زبان دی اس نے جواب دیا کہ وجہ یہ ہے کہ آپ میرا گھاس دانہ سائیس کو سونپ دیتے تھے اور وہ اس میں سے چرالیتا تھا مجھے بہت کم کھانے کو ملتا تھا اور مجھ پر ظلم کرتا تھا ۔

 اللہ کے نیک بندے نے کہا اب سے میں تجھے اپنی گود ہی میں کھلایا کرونگا

جانور یہ سنتے ہی تیزی سے لپکا اور انہیں جائے امن تک پہنچادیا۔

 حسب وعدہ اب سے یہ بزرگ اپنے اس جانور کو اپنی گود میں ہی کھلایا کرتا تھا ۔ لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے کسی سے واقعہ کہہ دیا جس کی عام شہرت ہوگئی اور لوگ ان سے یہ واقعہ سننے کے لئے دور دور سے آنے لگے۔

 شاہ روم کو جب اس کی خبر ملی تو انہوں نے چاہاکسی طرح ان کو اپنے شہر میں بلالے۔ بہت کوشش کی مگر بےسود رہیں۔ آخر میں انہوں نے ایک شخص بھیجا کہ کسی طرح حیلے بہانے کرکے ان کو بادشاہ تک پہنچادے۔

یہ شخص پہلے مسلمان تھا پھر مرتد ہوگیا تھا بادشاہ کے پاس سے یہاں آیا ان سے ملا اپنا اسلام ظاہر کیا اور نہایت نیک بن کر رہنے لگایہاں تک کہ اس ولی کو اس پر پورا اعتماد ہوگیا اور اسے صالح اور دیندار سمجھ کر اس سے دوستی کر لی اور ساتھ ساتھ لے کر پھرنے لگے۔ اس نے اپنا پورا رسوخ جماکر اپنی ظاہری دینداری کے فریب میں انہیں پھنسا کر بادشاہ کو اطلاع دی کہ فلاں وقت دریا کے کنارے ایک مضبوط جری شخص کو بھیجو میں انہیں وہاں لے کر آجاؤں گا اور اس شخص کی مدد سے اسکو گرفتار کرلوں گا۔ یہاں سے انہیں فریب دے کر چلا اور وہاں پہنچایا دفعتاً ایک شخص نمودار ہوا اور اس نے بزرگ پر حملہ کیا ادھر سے اس مرتد نے حملہ کیا

 اس نیک دل شخص نے اس وقت آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور دعا کی کہ اے اللہ ! اس شخص نے تیرے نام سے مجھے دھوکا دیا ہے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو جس طرح چاہے مجھے ان دونوں سے بچالے۔

 وہیں جنگل سے دو درندے دھاڑتے ہوئے آتے دکھائی دئیے اور ان دونوں شخصوں کو انہوں نے دبوچ لیا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے چل دئیے اور یہ اللہ کا بندہ وہاں سے صحیح وسالم واپس تشریف لے آیا رحمہ اللہ۔

وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ

اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے

اپنی اس شان رحمت کو بیان فرما کر پھر جناب باری کی طرف ارشاد ہوتا ہے کہ وہی تمہیں زمین کا جانشیں بناتا ہے۔ ایک ایک کے پیچھے آرہاہے اور مسلسل سلسلہ چلا جارہا ہے۔

 جیسے فرمان ہے:

إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَآءُ كَمَآ أَنشَأَكُمْ مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ ءَاخَرِينَ (۶:۱۳۳)

اگر وہ چاہے تو تم سب کو تو یہاں سے فنا کردے اور کسی اور ہی کو تمہارا جانشین بنادے جیسے کہ خود تمہیں دوسروں کا خلیفہ بنادیا ہے۔

 اور آیت میں ہے:

وَهُوَ الَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـئِفَ الاٌّرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَـتٍ (۶:۱۶۵)

اس اللہ نے تمہیں زمینوں کا جانشین بنایا ہے اور تم میں سے ایک کو ایک پر درجوں میں بڑھا دیا ہے

 حضرت آدم علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا وہ اس اعتبار سے کہ ان کی اولاد ایک دوسرے کی جانشین ہوگی جیسے کہ آیت إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَـئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِى الأَرْضِ خَلِيفَةً  (۲:۳۰)  کی تفسیر اور بیان گزر چکا ہے۔

 اس آیت کے اس جملے سے بھی یہی مراد ہے کہ ایک کے بعد ایک ، ایک زمانہ کے بعد دوسرا زمانہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم پس یہ اللہ کی قدرت ہے اس نے یہ کیا کہ ایک مرے ایک پیدا ہو۔

 حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ان سے ان کی نسل پھیلائی اور دنیا میں ایک ایسا طریقہ رکھا کہ دنیا والوں کی روزیاں اور ان کی زندگیاں تنگ نہ ہوں ورنہ سارے انسان ایک ساتھ شاید زمین میں بہت تنگی سے گزارہ کرتے اور ایک سے ایک کو نقصانات پہنچتے ۔ پس موجودہ نظام الہٰی اس کی حکمت کا ثبوت ہے سب کی پیدائش کا ، موت کا آنے جانے کا وقت اس کے نزدیک مقرر ہے۔ ایک ایک اس کے علم میں ہے اس کی نگاہ سے کوئی اوجھل نہیں۔ وہ ایک دن ایسا بھی لانے والا ہے کہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے اور ان کے فیصلے کرے نیکی بدی کا بدلہ دے۔

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (۶۲)

 کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔‏

 اپنی قدرتوں کو بیان فرماتا ہے کوئی ہے جو ان کاموں کو کرسکتا ہو؟

 اور جب نہیں کرسکتا تو عبادت کے لائق بھی نہیں ہوسکتا

ایسی صاف دلیلیں بھی بہت کم سوچی جاتی ہیں اور ان سے نصیحت بھی بہت کم لوگ حاصل کرتے ہیں۔

 أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ

کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے

آسمان وزمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانیاں رکھ دی ہیں کہ خشکی اور تری میں جو راہ بھول جائے وہ انہیں دیکھ کر راہ راست اختیار کرلے۔

 جیسے فرمایا ہے :

وَعَلامَـتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ (۱۶:۱۶)

اور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں۔‏

وَهُوَ الَّذِى جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُواْ بِهَا فِى ظُلُمَـتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (۶:۹۷)

اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو پیدا کیا تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں، خشکی میں اور دریا میں راستہ معلوم کر سکو

یعنی  ستاروں سے لوگ راہ پاتے ہیں سمندروں میں خشکی میں انہیں دیکھ کر اپنا راستہ ٹھیک کرلیتے ہیں

وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۗ

 اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے

بادل پانی بھرے برسیں اس سے پہلے ٹھنڈی اور بھینی بھینی ہوائیں چلاتا ہے ۔ جس سے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اب رب کی رحمت برسے گی۔

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (۶۳)

 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند و بالا تر ہے۔‏

 اللہ کے سوا ان کاموں کا کرنے والا کوئی نہیں نہ کوئی ان پر قادر ہے ۔ تمام شریکوں سے وہ الگ ہے پاک ہے سب سے بلند ہے۔

 أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ

کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا

فرمان ہے کہ اللہ وہ ہے جو اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کو بےنمونہ پیدا کرتا ہے۔ پھر انہیں فنا کرکے دوبارہ پیدا کرے گا۔ جب تم اسے پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر مان رہے ہو تو دوبارہ کی پیدائش جو اس کے لیے بہت ہی آسان ہے اس پر قادر کیوں نہیں مانتے؟

وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ

 اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے

آسمان سے بارش برسانا اور زمین سے اناج اگانا اور تمہاری روزی کا سامان آسمان اور زمین سے پیدا کرنا اسی کا کام ہے۔

جیسے سورۃ طارق میں فرمایا:

وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ ـ وَالاّرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ  (۸۶:۱۱،۱۲)

پانی والے آسمان کی اور پھوٹنے والی زمین کی قسم ۔

 اور آیت میں ہے:

يَعْلَمُ مَا يَلْجُ فِى الاٌّرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا (۳۴:۲)

اللہ خوب جانتا ہے ہر اس چیز کو جو آسمان میں سما جائے اور جو زمین سے باہر اگ آئے۔ اور جو آسمان سے اترے اور جو اس پر چڑھے۔

 پس آسمان سے مینہ برسانے والا اسے زمین میں ادھر اھر تک پہنچانے والا اور اسکی وجہ سے طرح طرح کے پھل پھول اناج گھاس پات اگانے والا وہی ہے جو تمہاری اور تمہارے جانوروں کی روزیاں ہیں۔

 یقیناً یہ تمام چیزیں صاحب عقل کے لئے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۶۴)

 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔‏

 اپنی ان قدرتوں کو اور اپنے ان گراں بہا احسانوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ کیا اللہ کے ساتھ ان کاموں کا کرنے والا کوئی اور بھی ہے جس کی عبادت کی جائے؟

 اگر تم اللہ کے سوا دوسروں کو معبود ماننے کے دعوے کو دلیل سے ثابت کرسکتے ہو تو وہ دلیل پیش کرو؟

 لیکن چونکہ وہ محض بےدلیل ہیں اس لئے دوسری آیت میں فرمادیا :

وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَـهَا ءَاخَرَ لاَ بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الْكَـفِرُونَ (۲۳:۱۱۷)

اللہ کے ساتھ جو دوسرے کو بھی پوجے جس کی کوئی دلیل بھی اس کے پاس نہ ہو وہ یقیناً کافر ہے اور نجات سے محروم ہے۔

 قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ

کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرادیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں۔ یہاں استثناء منقطع ہے یعنی سوائے اللہ کے کوئی انسان جن فرشتہ غیب دان نہیں۔

 جیسے فرمان ہے:

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَآ إِلاَّ هُوَ (۶:۵۹)

غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اور فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ

 وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (۳۱:۳۴)

اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش برساتا ہے وہی مادہ کے پیٹ کے بچے سے واقف ہے۔

کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا نہ کسی کو یہ خبر کہ وہ کہاں مرے گا؟ علیم وخبیر صرف اللہ ہی ہے۔

 اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔

وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (۶۵)

انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھ کھڑے کئے جائیں گے۔‏

مخلوق تو یہ بھی نہیں جانتی کہ قیامت کب آئے گی۔

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ

بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہو چکا ہے،

آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں میں سے ایک بھی واقف نہیں کہ قیامت کا دن کون سا ہے؟

 جیسے فرمان ہے:

ثَقُلَتْ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ لاَ تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً (۷:۱۸۷)

سب پر یہ علم مشکل ہے اور بوجھل ہے وہ تو اچانک آجائے گی ۔

حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے:

 جو کہے کہ حضور کل کائنات کی بات جانتے تھے اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا اس لئے کہ اللہ فرماتا ہے زمین وآسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں۔

حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں تین فائدے رکھے ہیں۔:

- آسمان کی زینت بھولے

- بھٹکوں کی رہبری

-  اور شیطانوں کی مار۔

 کسی اور بات کا ان کیساتھ عقیدہ رکھنا اپنی رائے سے بات بنانا اور خود ساختہ تکلیف اور اپنی عاقبت کے حصہ کو کھونا ہے۔

 جاہلوں نے ستاروں کے ساتھ علم نجوم کو معلق رکھ کر فضول باتیں بنائی ہیں کہ اس ستارے کے وقت جو نکاح کرے یوں ہوگا فلاں ستارے کے موقعہ پر سفر کرنے سے یہ ہوتا ہے فلاں ستارے کے وقت جو تولد ہوا وہ ایسا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکو سلے ہیں انکی بکواس کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے ہر ستارے کے وقت کالا گورا ٹھنگنا لمبا خوبصورت بد شکل پیدا ہوتا ہی رہتا ہے ۔ نہ کوئی جانور غیب جانے نہ کسی پرند سے غیب حاصل ہوسکے نہ ستارے غیب کی رہنمائی کریں۔

 سنو اللہ کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ آسمان و زمیں کی کل مخلوق غیب سے بےخبر ہے۔ انہیں تو اپنے جی اٹھنے کا وقت بھی نہیں معلوم ہے ( ابن ابی حاتم)

سبحان اللہ حضرت قتادہ کا یہ قول کتنا صحیح کس قدر مفید اور معلومات سے پر ہے۔

 فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے علم آخرت کے وقت کے جاننے سے قاصر ہیں عاجز ہوگئے ہیں۔

 ایک قرأت میں بَلِ ادَّرَكَ ہے یعنی سب کے علم آخرت کا صحیح وقت نہ جاننے میں برابر ہیں۔

 جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرا اور تیرا دونوں کا علم اس کے جواب سے عاجز ہے۔

 پس یہاں بھی فرمایا کہ آخرت سے ان کے علم غائب ہیں ۔

 چونکہ کفار اپنے رب سے جاہل ہیں اس لئے آخرت کے بھی منکر ہیں۔ وہاں تک ان کے علم پہنچتے ہی نہیں ۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ آخرت میں ان کو علم حاصل ہوگا لیکن بےسود۔ جیسے اور جگہ بھی ہیں :

أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ۖ لَـٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (۱۹:۳۸)

کیا خوب دیکھنے سننے والے ہونگے اس دن جبکہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، لیکن آج تو یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں

یعنی جس دن یہ ہمارے پاس پہنچیں گے بڑے ہی دانا وبینا ہوجائیں گے۔ لیکن آج ظالم کھلی گمراہی میں ہونگے۔

بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا ۖ بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ (۶۶)

بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں۔ بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں ۔

پھر فرماتا ہے کہ بلکہ یہ تو شک ہی میں ہیں اس سے مراد کافر ہے

جیسے فرمان ہے:

وَعُرِضُوا عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًا (۱۸:۴۸)

اور سب کے سب تیرے رب کے سامنے صف بستہ حاضر کیے جائیں گے۔یقیناً تم ہمارے پاس اسی طرح آئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا لیکن تم تو اس خیال میں رہے کہ ہم ہرگز تمہارے لئے کوئی وعدے کا وقت مقرر کریں گے بھی نہیں۔‏

یعنی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہم نے جس طرح تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب ہم تمہیں دوبارہ لے آئے ہیں لیکن تم تو یہ سمجھتے رہے کہ قیامت تو کوئی چیز ہی نہیں۔

مراد یہ ہے کہ تم میں سے کافر یہ سمجھتے رہیں۔

 گو مندرجہ بالا آیات بھی گو ضمیر جنس کی طرف لوٹتی ہے لیکن مراد کفار ہی ہیں اسی لیے آخر میں فرمایا کہ

یہ تو اس سے اندھاپے میں ہیں، نابینا ہو رہے ہیں، آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

 وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ (۶۷)

کافروں نے کہا کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی۔ کیا ہم پھر نکالے جائیں گے۔‏

یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ منکرین قیامت کی سمجھ میں اب تک بھی نہیں آیا کہ مرنے اور سڑ گل جانے کے بعد مٹی اور راکھ ہوجانے کے بعد ہم دوبارہ کیسے پیدا کئے جائیں گے؟

 وہ اس پر سخت متعجب ہیں ۔

لَقَدْ وُعِدْنَا هَذَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (۶۸)

ہم اور ہمارے باپ دادوں کو بہت پہلے سے یہ وعدے دیئے جاتے رہے۔ کچھ نہیں یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں ۔

کہتے ہیں مدتوں سے اگلے زمانوں سے یہ سنتے چلے آتے ہیں لیکن ہم نے تو کسی کو مرنے کے بعد جیتا ہوا دیکھا نہیں۔ سنی سنائی باتیں ہیں انہوں نے اپنے اگلوں سے انہوں نے اپنے سے پہلے والوں سے سنیں ہم تک پہنچیں لیکن سب عقل سے دور ہیں ۔

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ (۶۹)

کہہ دیجئے کہ زمین میں چل پھر کر ذرا دیکھو تو سہی کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا  

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو جواب بتاتا ہے کہ ان سے کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھیں کہ رسولوں کو جھوٹا جاننے والوں اور قیامت کو نہ ماننے والوں کا کیسا دردرناک حسرت ناک انجام ہوا؟

ہلاک اور تباہ ہوگئے اور نبیوں اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔

یہ نبیوں کی سچائی کی دلیل ہے۔

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (۷۰)

آپ ان کے بارے میں غم نہ کریں اور ان کے داؤں گھات سے تنگ دل نہ ہوں۔‏

پھر اپنے نبی کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ تجھے اور میرے کلام کو جھٹلاتے ہیں لیکن تو ان پر افسوس اور رنج نہ کر۔ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ نہ لگا۔ یہ تیرے ساتھ جو روباہ بازیاں کر رہے ہیں اور جو چالیں چل رہے ہیں ہمیں خوب علم ہے تو بےفکر رہ ۔ تجھے اور تیرے دن کو ہم عروج دینے والے ہیں۔ دنیا جہاں پر تجھے ہم بلندی دیں گے۔

 وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۷۱)

کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہے اگر سچے ہو تو بتلا دو۔‏

مشرک چونکہ قیامت کے آنے کے قائل ہی نہیں ۔ جرأت سے اسے جلدی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ کب آئے گی ۔

قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ (۷۲)

جواب دیجئے! کہ شاید بعض وہ چیزیں جن کی تم جلدی مچا رہے ہو تم سے بہت ہی قریب ہوگئی ہوں

جناب باری کی طرف سے بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب مل رہاہے کہ ممکن ہے وہ بالکل ہی قریب آگئی ہو۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ قَرِيبًا (۱۷:۵۱)

کیا عجب کہ وہ قریب ہی آن لگی ہو

اور جگہ ہے:

يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَـفِرِينَ (۲۹:۵۴)

یہ عذابوں کو جلدی طلب کررہے ہیں اور جہنم تو کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں ۔

 لَكُمْ کا لام ردف کے عجل کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے۔ جیسے کہ حضرت مجاہد سے مروی ہے

وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ (۷۳)

یقیناً آپ کا پروردگار تمام لوگوں پر بڑے ہی فضل والا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں

پھر فرمایا کہ اللہ کے تو انسانوں پر بہت ہی فضل وکرم ہیں۔ ان کی بیشمار نعمتیں ان کے پاس ہیں تاہم ان میں کے اکثر ناشکرے ہیں۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ (۷۴)

بیشک آپ کا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جنہیں ان کے سینے چھپا رہے ہیں اور جنہیں ظاہر کر رہے ہیں۔‏

جس طرح تمام ظاہر امور اس پر آشکارا ہیں اسی طرح تمام باطنی امور بھی اس پر ظاہر ہیں۔

 جیسے فرمایا:

سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ (۱۳:۱۰)

تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بآواز بلند اسے کہنا سب اللہ پر برابر و یکساں ہیں۔‏

 اور آیت میں ہے:

يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (۷:۲۰)

وہ تو ہر ایک پوشیدگی  کو اور پوشیدہ سے پوشیدہ چیز کو بخوبی جانتا ہے

اور آیت میں ہے:

أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (۱۱:۵)

یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔

مطلب یہی ہے کہ ہر ظاہر وباطن کا وہ عالم ہے۔

وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (۷۵)

آسمان اور زمین کی کوئی پوشیدہ چیز بھی ایسی نہیں جو روشن اور کھلی کتاب میں نہ ہو

پھر بیان فرماتا ہے کہ ہر غائب حاضر کا اسے علم ہے وہ علام الغیوب ہے۔ آسمان وزمین کی تمام چیزیں خواہ تم کو ان کا علم ہو یا نہ ہو اللہ کے ہاں کھلی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔

جیسے فرمان ہے:

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَآءِ وَالاٌّرْضِ إِنَّ ذلِكَ فِى كِتَـبٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ   (۲۲:۷۰)

کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان وزمین کی ہر ایک چیز کا اللہ عالم ہے۔ سب کچھ کتاب میں موجود ہے اللہ پر سب کچھ آسان ہے۔

 إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (۷۶)

یقیناً یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان اکثر چیزوں کا بیان کر رہا جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں

قرآن پاک کی ہدایت بیان ہو رہی ہے کہ اس میں جہاں رحمت ہے وہاں فرقان بھی ہے اور بنی اسرائیل حاملان تورات وانجیل کے اختلافات کا فیصلہ بھی ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہودیوں نے منہ پھٹ بات اور نری تہمت رکھ دی تھی اور عیسائیوں نے انہیں ان کی حد سے آگے بڑھا دیا تھا ۔ قرآن نے فیصلہ کیا اور افراط وتفریط کو چھوڑ کر حق بات بتادی کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ وہ اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں ان کی والدہ نہایت پاکدامن تھی۔

صحیح اور بیشک وشبہ بات یہی ہے ۔

وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (۷۷)

اور یہ قرآن ایمان والوں کے لئے یقیناً ہدایت اور رحمت ہے

اور یہ قرآن مؤمنوں کے دل کی ہدایت ہے۔ اور ان کے لیے سراسر رحمت ہے۔

إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (۷۸)

آپ کا رب ان کے درمیان اپنے حکم سے سب فیصلے کر دے گا وہ بڑا ہی غالب اور دانا ہے۔‏

قیامت کے دن انکے فیصلے کرے گا جو بدلہ لینے میں غالب ہے اور بندہ کے اقوال و افعال کا عالم ہے۔

فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۖ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ (۷۹)

پس آپ یقیناً اللہ ہی پر بھروسہ رکھئے، یقیناً آپ سچے اور کھلے دین پر ہیں

تجھے اسی پر کام بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ اپنے رب کی رسالت کی تبلیغ میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (۸۰)

بیشک آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جبکہ پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں۔‏

تو تو سراسر حق پر ہے مخالفین شقی ازلی ہیں۔ ان پر تیرے رب کی بات صادق آچکی ہے کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا۔ گو تو انہیں تمام معجزے دکھا دے ۔ تو مردوں کو نفع دینے والی سماعت نہیں دے سکتا۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ ان کے دلوں پر پردے ہیں ان کے کانوں میں بوجھ ہیں۔ یہ بھی قبولیت کا سننا نہیں سنیں گے۔ اور نہ تو بہروں کو اپنی آواز سناسکتا ہے جب کہ وہ پیٹھ موڑے منہ پھیرے جا رہے ہوں۔

وَمَا أَنْتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ۖ

اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر رہنمائی کر سکتے ہیں

 اور تو اندھوں کو انکی گمراہی میں بھی رہنمائی نہیں کرسکتا

إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ (۸۱)

آپ تو صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہیں پھر وہ فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔‏

تو صرف انہیں کو سنا سکتا ہے ۔

 یعنی قبول صرف وہی کریں گے جو کان لگاکر سنیں اور دل لگاکر سمجھیں ساتھ ہی ایمان و اسلام بھی ان میں ہو ۔ اللہ کے رسول کے ماننے والے ہوں دین اللہ کے قائل وحامل ہوں۔

 وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ (۸۲)

جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا، ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔

جس جانور کا یہاں ذکر ہے یہ لوگوں کے بالکل بگڑ جانے اور دین حق کو چھوڑ بیٹھنے کے وقت آخر زمانے میں ظاہر ہوگا۔ جب کہ لوگوں نے دین حق کو بدل دیا ہوگا۔

 بعض کہتے ہیں یہ مکہ شریف سے نکلے گا بعض کہتے ہی اور کسی جگہ سے جس کی تفصیل ابھی آئے گی انشاء اللہ تعالی۔

وہ بولے گا باتیں کرے گا اور کہے گا کہ لوگ اللہ کی آیتوں کا یقین نہیں کرتے تھے

 ابن جریر اسی کو مختار کہتے ہیں۔ لیکن اس قول میں نظر ہے واللہ اعلم۔

 ابن عباس کا قول ہے:

 وہ انہیں زخمی کرے گا

ایک روایت میں ہے کہ وہ یہ اور وہ دونوں کرے گا ۔

یہ قول بہت اچھا ہے اور دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں، واللہ اعلم۔

 وہ احادیث جودابتہ الارض کے بارے میں مروی ہیں۔ ان میں سے کچھ ہم یہاں بیان کرتے ہیں واللہ المستعان۔

 صحابہ کرام ایک مرتبہ بیٹھے قیامت کا ذکر کررہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے آئے۔ ہمیں ذکر میں مشغول دیکھ کر فرمانے لگے کہ قیامت قائم نہ ہوگی کہ تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو ۔

- سورج کا مغرب سے نکلنا ،

- دھواں،

-  دابتہ الارض،

- یاجوج ماجوج،

-  عیسیٰ بن مریم کا ظہور،

-  اور دجال کانکلنا

-  اور مغرب، مشرق اور جزیرہ عرب میں تین خسف ہونا،

-  اور ایک آگ کا عدن سے نکلنا جو لوگوں کا حشر کرے گی۔ انہی کے ساتھ رات گزارے گی اور انہی کے ساتھ دوپہر کا سوناسوئے گی (مسلم وغیرہ)

ابوداؤد طیالسی میں ہے:

دابتہ الارض تین مرتبہ نکلے گا

دور دراز کے جنگل سے ظاہر ہوگا اور اس کا ذکر شہر یعنی مکہ تک نہ پہنچے گا

پھر ایک لمبے زمانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوگا اور لوگوں کی زبانوں پر اس کا قصہ چڑھ جائے گا یہاں تک کہ مکہ میں بھی اس کی شہرت پہنچے گی۔

پھر جب لوگ اللہ کی سب سے زیادہ حرمت وعظمت والی مسجد مسجد حرام میں ہوں گے اسی وقت اچانک دفعتاً دابتہ الارضانہیں وہیں دکھائی دے گا کہ رکن مقام کے درمیان اپنے سر سے مٹی جھاڑ رہا ہوگا۔

 لوگ اس کو دیکھ کر ادھر ادھر ہونے لگیں گے یہ مؤمنوں کی جماعت کے پاس جائے گا اور ان کے منہ کو مثل روشن ستارے کے منور کردے گا اس سے بھاگ کر نہ کوئی بچ سکتا ہے اور نہ چھپ سکتا ہے۔

 یہاں تک کہ ایک شخص اس کو دیکھ کر نماز کو کھڑا ہوجائے گا یہ اس کو کہے گا اب نماز کو کھڑا ہوا ہے؟

 پھر اس کے پیشانی پر نشان کردے گا اور چلاجائے گا اس کے ان نشانات کے بعد کافر مؤمن کا صاف طور امتیاز ہوجائے گایہاں تک کہ مؤمن کافر سے کہے گا کہ اے کافر! میرا حق ادا کر اور کافر مؤمن سے کہے گا اے مؤمن! میرا حق ادا کر

یہ روایت حذیفہ بن اسید سے موقوفا ًبھی مروی ہے۔

 ایک روایت میں ہے:

 یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا جب کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کررہے ہونگے لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں ہے۔

صحیح مسلم میں ہے :

سب سے پہلے جو نشانی ظاہر ہوگی وہ سورج کا مغرب سے نکلنا اور دابتہ الارض کا ضحٰی کے وقت آجانا ہے۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ہوگا اس کے بعد ہی دوسرا ہوگا۔

صحیح مسلم شریف میں ہے آپﷺ نے فرمایا:

 چھ چیزوں کی آمد سے پہلے نیک اعمال کرلو۔

- سورج کا مغرب سے نکلنا،

- دھویں کا آنا،

- دجال کا آنا،

- اور دابتہ الارض کا آنا

-  تم میں سے ہر ایک کا خاص امر اور عام امر ۔

یہ حدیث اور سندوں سے دوسری کتابوں میں بھی ہے۔

ابوداؤد طیالسی میں ہے:

 دابتہ الارضکے ساتھ حضرت عیسیٰ کی لکڑی اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ہوگی۔ کافروں کی ناک پر لکڑی سے مہر لگائے گا اور مؤمنوں کے منہ انگوٹھی سے منور کردے گا یہاں تک کہ ایک دسترخوان بیٹھے ہوئے مؤمن کافر سب ظاہر ہونگے۔

 ایک اور حدیث میں جو مسند احمد میں ہے، مروی ہے کہ کافروں کے ناک پر انگوٹھی سے مہر کرے گا اور مؤمنوں کے چہرے لکڑی سے چمکا دے گا۔

ابن ماجہ میں حضرت بریدہ سے روایت ہے:

 مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مکہ کے پاس ایک جنگل میں گئے۔ میں نے دیکھا کہ ایک خشک زمین ہے جس کے ارد گرد ریت ہے۔ فرمانے لگے یہیں سے دابتہ الارض نکلے گا۔

 ابن بریدہ کہتے ہیں اس کے کئی سال بعد میں حج کے لئے نکلا تو مجھے لکڑی دکھائی دی جو میری اس لکڑی کے برابر تھی۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کے چار پیر ہونگے صفا کے کھڈ سے نکلے گا بہت تیزی سے خروج کرے گا جیسے کہ کوئی تیز رفتار گھوڑا ہو لیکن تاہم تین دن میں اس کے جسم کا تیسرا حصہ بھی نہ نکلا ہوگا۔

 حضرت عبداللہ بن عمر سے جب اس کی بابت پوچھا گیا تو فرمانے لگے:

 جیاد میں ایک چٹان ہے اس کے نیچے سے نکلے گا میں اگر وہاں ہوتا تو تمہیں وہ چٹان دکھا دیتا۔ یہ سیدھا مشرق کی طرف جائے گا اور اس شور سے جائے گا کہ ہر طرف اس کی آواز پہنچ جائے گی۔ پھر شام کی طرف جائے گا وہاں بھی چیخ لگاکر، پھر یمن کی طرف متوجہ ہوگایہاں بھی آواز لگاکر شام کے وقت مکہ سے چل کر صبح کو عسفان پہنچ جائے گا۔

لوگوں نے پوچھا پھر کیا ہوگا؟

 فرمایا پھر مجھے معلوم نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ مزدلفہ کی رات کو نکلے گا۔

 حضرت عزیر کے ایک کلام کی حکایت ہے :

 سدوم کے نیچے سے یہ نکلے گا۔ اس کے کلام کو سب سنیں گے حاملہ کے حمل وقت سے پہلے گرجائیں گے، میٹھا پانی کڑوا ہوجائے گادوست دشمن ہوجائیں گے حکمت جل جائے گی علم اٹھ جائے گا نیچے کی زمین باتیں کرے گی انسان کی وہ تمنائیں ہونگی کہ جو کبھی پوری نہ ہوں، ان چیزوں کی کوشش ہوگی جو کبھی حاصل نہ ہو۔ اس بارے میں کام کریں گے جسے کھائیں گے نہیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:

 اس کے جسم پر سب رنگ ہونگے۔ اس کے دوسینگوں کے درمیان سوار کے لئے ایک فرسخ کی راہ ہوگی۔

 ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ یہ موٹے نیزے کی اور بھالے کی طرح کا ہوگا۔

 حضرت علیؓ فرماتے ہیں اس کے بال ہونگے کھر ہونگے ڈاڑھی ہوگی دم نہ ہوگی۔ تین دن میں بمشکل ایک تہائی باہر آئے گا حالانکہ تیز گھوڑے کی چال چلتا ہوگا۔

 ابوزبیر کا قول ہے:

 اس کا سر بیل کے سرکے مشابہ ہوگا آنکھیں خنزیر کی آنکھوں کے مشابہ ہونگی، کان ہاتھی جیسے ہوں گے، سینگ کی جگہ اونٹ کی طرح ہوگی، شتر مرغ جیسی گردن ہوگی، شیر جیسا سینہ ہوگا، چیتے جیسا رنگ ہوگا بلی جیسی کمر ہوگی مینڈے جیسی دم ہوگی اونٹ جیسے پاؤں ہونگے ہر دو جوڑ کے درمیان بارہ گز کا فاصلہ ہوگا۔

حضرت موسیٰ کی لکڑی اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ساتھ ہوگی ہر مؤمن کے چہرے پر اپنے عصائے موسوی سے نشان کرے گا جو پھیل جائے گا اور چہرہ منور ہوجائے گا اور ہر کافر کے چہرے پر خاتم سلیمانی سے نشانی لگادے گا جو پھیل جائے گا اور اس کا سارا چہرہ سیاہ ہوجائے گا۔ اب تو اس طرح مؤمن کافر ظاہر ہوجائیں گے کہ خرید وفروخت کے وقت کھانے پینے کے وقت لوگ ایک دوسروں کو اے مؤمن اور اے کافر کہہ کر بلائیں گے۔ دابتہ الارض ایک ایک کا نام لے کر ان کو جنت کی خوشخبری یا جہنم کی بدخبری سنائے گا۔

 یہی معنی ومطلب اس آیت کا ہے۔

 وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ (۸۳)

اور جس دن ہم ہر اُمت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کر لائیں گےپھر وہ سب کے سب الگ کر دیئے جائیں گے  

اللہ کی باتوں کو نہ ماننے والوں کا اللہ کے سامنے حشر ہوگا اور وہاں انہیں ڈانٹ ڈپٹ ہوگی تاکہ ان کی ذلت وحقارت ہو۔ ہر قوم میں سے ہر زمانے کے ایسے لوگوں کے گروہ الگ الگ پیش ہونگے

جیسے فرمان ہے:

احْشُرُواْ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَأَزْوَجَهُمْ (۳۷:۲۲)

ظالموں کو اور ان کے جوڑوں کو جمع کرو۔

 اور جیسے فرمان ہے:

وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (۸۱:۷)

جب کہ نفسوں کی جوڑیاں ملائی جائیں گی۔

 یہ سب ایک دوسرے کو دھکے دیں گے اور اول والے آخر والوں کو رد کریں گے۔

حَتَّى إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُمْ بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا

جب سب کے سب آپہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نے میری آیتوں کو باوجودیکہ تمہیں ان کا پورا علم تھا کیوں جھٹلایا؟

أَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۸۴)

اور یہ بھی بتلاؤ کہ تم کیا کرتے رہے؟  

پھر سب کے سب جانوروں کی طرح ہنکا کر اللہ کے سامنے لائیں جائیں گے۔ ان کے حاضر ہوتے ہی وہ منتقم حقیقی نہایت غصہ سے ان سے باز پرس کرے گا۔ یہ نیکیوں سے خالی ہاتھ ہونگے

 جیسے فرمایا:

فَلاَ صَدَّقَ وَلاَ صَلَّى - وَلَـكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى (۷۵:۳۱،۳۲)

نہ انہوں نے سچائی کی تھی نہ نمازیں پڑھی تھیں بلکہ جھٹلایا تھا اور منہ موڑا تھا ۔

پس ان پر حجت ثابت ہوجائے گی اور کوئی عذر نہ کرسکیں گے۔

 جیسے فرمان ہے:

هَـذَا يَوْمُ لاَ يَنطِقُونَ - وَلاَ يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ (۷۷:۳۵،۳۶)

یہ وہ دن ہے کہ بول نہ سکیں گے اور نہ کوئی معقول عذر پیش کرسکیں گے اور نہ غیر معقول معذرت کی اجازت پائیں گے۔

وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ (۸۵)

بسبب اس کے کہ انہوں نے ظلم کیا تھا ان پر بات جم جائے گی اور وہ کچھ بول نہ سکیں گے

پس ان کے ذمہ بات ثابت ہوجائے گی ۔ ششدرو حیران رہ جائیں گے اپنے ظلم کا بدلہ خوب پائیں گے۔ دنیا میں ظالم تھے اب جس کے سامنے کھٹے ہونگے وہ عالم الغیب ہے کوئی بات بنائے نہ بنے گی۔

أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ

کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایا ہے کہ وہ اس میں آرام حاصل کرلیں اور دن کو ہم نے دکھلانے والا بنایا ہے

پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے اور اپنی بلندی شان بتاتا ہے اور اپنی عظیم الشان سلطنت دکھاتا ہے جو کھلی دلیل ہے۔

اس کی اطاعت کی فرضیت پر اور اس کے حکموں کے بجالانے اور اسکے منع کردہ کاموں سے رکے رہنے کی ضروت پر ۔ اور اس کے نبیوں کو سچا ماننے کی اصلیت پر۔

اس نے رات کو پرسکون بنایا تاکہ تم اس میں آرام حاصل کرلو اور دن بھر کی تھکان دور کرلو اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اپنی معاش کی تلاش کرلو سفر تجارت کاروبار باآسانی کرسکو۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۸۶)

یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان و یقین رکھتے ہیں۔‏

یہ تمام چیزیں ایک مؤمن کے لیے تو کافی سے زیادہ دلیل ہیں۔

 وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۚ

جس دن صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب آسمانوں والے اور زمین والے گھبرا اٹھیں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ چاہے

وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ (۸۷)

اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہونگے۔‏

اللہ تعالیٰ قیامت کی گھبراہٹ اور بےچینی کو بیان فرما رہے ہیں۔

 صور میں حضرت اسرافیل علیہ السلام بحکم الہٰی پھونک ماریں گے۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ ہونگے۔ دیر تک نفخہ پھونکتے رہیں گے۔ جس سے سب پریشان حال ہوجائیں گے سوائے شہیدوں کے جو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں دئیے جاتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک دن کسی شخص نے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا فرمایا کرتے ہیں کہ اتنے اتنے وقت تک قیامت آجائے گی؟

 آپ نے سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ یا اور کوئی ایساہی کلمہ بطور تعجب کہا اور فرمانے لگے

 سنو! اب تو جی چاہتا ہے کہ کسی سے کوئی حدیث بیان ہی نہ کرو میں نے یہ کہا تھا کہ عنقریب تم بڑی اہم باتیں دیکھو گے۔ بیت اللہ خراب ہوجائے گا اور یہ ہوگا وہ ہوگا وغیرہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

 دجال میری اُمت میں چالیس ٹھہرے گا۔ میں نہیں جانتاکہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ۔

 پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نازل فرمائے گا۔ وہ صورت شکل میں بالکل حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالی ٰعنہ جیسے ہونگے آپ اسے ڈھونڈ نکالیں گے اور اسے ہلاک کردیں گے ۔

پھر سات سال ایسے گزریں گے کہ دنیا بھر میں دو شخص ایسے نہ ہونگے جن میں آپس میں بغض وعدوات ہو۔

 پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک بھینی بھینی ٹھنڈی ہوا چلائے گا جس سے ہر مؤمن فوت ہوجائے گا۔ ایک ذرے کے برابر بھی جس کے دل میں خیر یا ایمان ہوگا اس کی روح بھی قبض ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی پہاڑ کی کھوہ میں گھس گیا ہوگا تو یہ ہوا وہیں جاکر اسے فناکردے گی۔

اب زمین پر صرف بد لوگ رہ جائیں گے جو پرندوں جیسے ہلکے اور چوپائیوں جیسے بےعقل ہوں گے۔

ان میں سے بھلائی برائی کی تمیز اٹھ جائے گی ان کے پاس شیطان پہنچے گا اور کہے گا تم شرماتے نہیں کہ بتوں کی پرستش چھوڑے بیٹھے ہو؟

 یہ بت پرستی شروع کردیں گے۔ اللہ انہیں روزیاں پہنچاتا رہے گا اور خوش وخرم رکھے گا۔

یہ اسی مستی میں ہونگے جو صور پھونکنے کا حکم مل جائے گا۔ جس کے کان میں آواز پڑی وہیں دائیں بائیں لوٹنے لگا سب سے پہلے اسے وہ شخص سنے گا جو اپنے اُونٹ کے لئے حوض ٹھیک ٹھاک کر رہا ہوگا سنتے ہی بےہوش ہوجائے گا۔ اور سب لوگ بےہوش ہونا شروع ہوجائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ مثل شبنم کے بارش برسائے گا جس سے لوگوں کے جسم اٹھنے لگیں گے۔

پھر دوسرا نفخہ پھونکاجائے گا جس سے سب اٹھ کھڑے ہونگے ۔ وہیں آواز لگے گی کہ لوگو! اپنے رب کے پاس چلو ۔ وہاں ٹھہرو تم سے سوال جواب ہوگا

پھر فرمایا جائے گا کہ آگ کا حصہ نکالو۔ پوچھاجائے گا کہ کتنوں میں سے کتنے؟

تو فرمایا جائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔

 یہ ہوگا وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کردے۔ یہ ہوگا وہ دن جب پنڈلی (تجلی رب) کی زیارت کرائی جائے گی۔

 پہلا نفخہ تو گھبراہٹ کا نفخہ ہوگا۔ دوسرا بےہوشی اور موت کا اور تیسرا دوبارہ جی کر رب العالمین کے دربار میں پیش ہونے کا ۔

 أتوہ کی قرائت الف کے مد کے ساتھ بھی مروی ہے۔

 ہر ایک ذلیل وخوار ہو کر پست ولاچار ہو کر بےبس اور مجبور ہوکر ماتحت اور محکوم ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔ ایک سے بھی بن نہ پڑے گی کہ اسکی حکم عدولی کرے۔

جیسے فرمان ہے :

يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ  (۱۷:۵۲)

جس دن اللہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی فرمانبرداری کروگے

 اور آیت میں ہے:

ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الاٌّرْضِ إِذَآ أَنتُمْ تَخْرُجُونَ (۳۰:۲۵)

پھر جب وہ تمہیں زمین سے بلائے گا تو تم سب نکل کھڑے ہوگے۔

 صور کی حدیث میں ہے کہ تمام روحیں صور کے سوراخ میں رکھی جائیں گی اور جب جسم قبروں سے اٹھ رہے ہونگے۔ صورپھونک دیا جائے گا روحیں اڑنے لگیں گی مؤمنوں کی روحیں نورانی ہونگی کافروں کی روحیں اندھیرے اور ظلمت والی ہونگی۔ رب العالمین خالق کل فرمادے گا میرے جلال کی میری عزت کی قسم ہے ہر روح اپنے بدن میں چلی جائے۔ جس طرح زہر رگ وپے میں سرایت کرتا ہے اس طرح روحیں اپنے جسموں میں پھیل جائیں گی اور لوگ اپنی اپنی جگہ سے سرجھاڑ اٹھ کھڑے ہوں گے

جیسے فرمایا:

يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الاٌّجْدَاثِ سِرَاعاً كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ (۷۰:۴۳)

اس دن قبروں سے اس طرح جلدی نکلیں گے جس طرح اپنی عبادت گاہ کی طرف دوڑے بھاگے جاتے تھے۔

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ

اور پہاڑوں کو دیکھ کر اپنی جگہ جمے ہوئے خیال کرتے ہیں لیکن وہ بھی بادل کی طرح اڑتے پھریں گے

یہ بلند پہاڑ جنہیں تم گڑا ہوا اور جما ہوا دیکھ رہے ہو یہ اس دن اڑتے بادلوں کی طرح ادھر ادھر پھیلے ہوئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے دکھائی دیں گے۔ ریزہ ریزہ ہو کر یہ چلنے پھرنے لگیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام ونشان ہوجائیں گے زمین صاف ہتھیلی جیسی بغیر کسی اونچ نیچ کے ہوجائے گی

صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ

یہ ہے صنعت اللہ کی جس نے ہرچیز کو مضبوط بنایا ہے

یہ ہے صفت اس صناع کی جس کی ہرصفت حکمت والی مضبوط پختہ اور اعلی ہوتی ہے۔ جس کی اعلی تر قدرت انسانی سمجھ میں نہیں آسکتی ۔

إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (۸۸)

جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ باخبر ہے۔‏

بندوں کے تمام اعمال خیر وشر سے وہ واقف ہے ہر ایک فعل کی سزا جزا وہ ضرور دے گا۔

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ (۸۹)

جو لوگ نیک عمل لائیں گے انہیں اس سے بہتر بدلہ ملے گا اور وہ اس دن گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے

وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۹۰)

اور جو برائی لے کر آئیں گے وہ اوندھے منہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ صرف وہی بدلہ دیئے جاؤ گے جو تم کرتے رہے ہو۔‏

 اس اختصار کے بعد تفصیل بیان فرمائی کہ نیکی اخلاص توحید لے کر جو آئے گا وہ ایک کے بدلے دس پائے گا اور اس دن کی گھبراہٹ سے نڈر رہے گا اور لوگ گھبراہٹ میں عذاب میں ہونگے۔ یہ امن میں ثواب میں ہوگا بلند وبالا بالاخانوں میں راحت واطمینان سے ہوگا۔ اور جس کی برائیاں ہی برائیاں ہوں یا جس کی برائیاں بھلائیوں سے زیادہ ہوں اسے ان کا بدلہ ملے گا۔ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ۔

 اکثر مفسرین سے مروی ہے کہ برائی سے مراد شرک ہے۔

 إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ

مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے جسکی ملکیت ہرچیز ہے

اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کردیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کا اور اس کی فرمانبرداری کا مامور ہوں۔

 جیسے ارشاد ہے:

يأَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى شَكٍّ مِّن دِينِى فَلاَ أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَـكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِى يَتَوَفَّاكُمْ (۱۰:۱۰۴)

اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہواکرے میں توجن کی تم عبادت کررہے ہو ان کی عبادت ہرگز نہیں کرونگا۔ میں اسی اللہ کا عابد ہوں جو تمہاری زندگی موت کا مالک ہے۔

یہاں مکہ شریف کی طرف ربوبیت کی اضافت صرف بزرگی اور شرافت کے اظہار کے لئے ہے

 جیسے فرمایا:

فَلْيَعْبُدُواْ رَبَّ هَـذَا الْبَيْتِ ـ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَءَامَنَهُم مِّنْ خوْفٍ (۱۰۶:۳،۴)

انہیں چاہیے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں اوروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور اوروں کے خوف کے وقت بےخوف کررکھاہے۔

 یہاں فرمایا کہ اس شہر کو حرمت وعزت والا اس نے بنایا ہے۔

 جیسے بخاری ومسلم میں ہےحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا :

یہ شہر اسی وقت سے باحرمت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حرمت دینے سے حرمت والا ہی رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں نہ اس کا شکار خوف زدہ کیا جائے نہ اس میں گری پڑی چیز کسی کی اٹھائی جائے ہاں جو پہچان کر مالک کو پہنچانا چاہے اس کے لئے جائز ہے۔ اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔

یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مروی ہے جیسے کہ احکام کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے۔ وللہ الحمد

وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۹۱)

اور مجھے بھی فرمایا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں ہو جاؤں۔‏

پھر اس خاص چیز کی ملکیت ثابت کرکے اپنی عام ملکیت کا ذکر فرماتا ہے کہ ہرچیز کا رب اور مالک وہی ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی مالک نہ معبود۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملاہے کہ میں موحد مخلص مطیع اور فرمانبردار ہو کر رہوں۔

وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ ۖ

اور میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں،

اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا کہ میں لوگوں کو اللہ کا کلام پڑھ کر سناؤں۔

جیسے فرمان ہے:

ذَلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الآيَـتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ (۳:۵۸)

ہم یہ آیتیں اور یہ حکمت والا ذکر تیرے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔

 اور آیت میں ہے:

نَتْلُواْ عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ (۲۸:۳)

ہم تجھے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ سناتے ہیں۔

فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ (۹۲)

جو راہ راست پر آجائے وہ اپنے نفع کیلئے راہ راست پر آئے گا اور جو بہک جائے تو کہہ دیجئے کہ میں صرف ہوشیار کرنے والوں میں سے ہوں ۔

مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کامبلغ ہوں میں تمہیں جگا رہا ہوں۔ تمہیں ڈرا رہا ہوں۔ اگر میری مان کر راہ راست پر آؤگے تو اپنا بھلاکروگے۔ اور اگر میری نہ مانی تو میں اپنے تبلیغ کے فرض کو ادا کرکے سبکدوش ہوگیا ہوں۔ اگلے رسولوں نے بھی یہی کیا تھا اللہ کا کلام پہنچاکر اپنا دامن پاک کرلیا۔

 جیسے فرمان ہے:

فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (۴۰:۱۳)

تجھ پر صرف پہنچادینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے ۔

 اور فرمایا:

إِنَّمَآ أَنتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ (۱۱:۱۲)

تو صرف ڈرا دینے والا ہے اور ہرچیز پر وکیل اللہ ہی ہے ۔

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ

کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں وہ عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم (خود) پہچان لو گے

اللہ کے لئے تعریف ہے جو بندوں کی بےخبری میں انہیں عذاب نہیں کرتا بلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتا ہے اپنی حجت تمام کرتا ہے بھلا برا سمجھا دیتا ہے۔ ہم تمہیں ایسی آیتیں دکھائیں گے کہ تم خود قائل ہوجاؤ۔جیسے فرمایا :

سَنُرِيهِمْ ءَايَـتِنَا فِى الاٌّفَاقِ وَفِى أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱:۵۳)

ہم انہیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہوجائے۔

وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۹۳)

اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے آپ کا رب غافل نہیں ۔‏

 اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں بلکہ اسکا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 دیکھو لوگو! اللہ کو کسی چیز سے اپنے عمل سے غافل نہ جاننا۔ وہ ایک ایک مچھر سے ایک ایک پتنگے سے اور ایک ایک ذرے سے باخبر ہے۔

عمربن عبدالعزیز سے مروی ہے:

 اگر وہ غافل ہوتا تو انسان کے قدموں کے نشان سے جنہیں ہوا مٹادیتی ہے غفلت کر جاتا لیکن وہ ان نشانات کا بھی حافظ ہے اور عالم ہے۔

امام احمد بن حنبل اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے تھے جو یا تو آپ کے ہیں یا کسی اور کے

اذا ماخلوت الدھر یوما فلا تقل      خلوت ولکن قل علی رقیب

یعنی جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے اللہ کو وہاں حاضر ناظر جاننا۔ وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter