Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Inshiqaq

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ (۱)

جب آسمان پھٹ جائے گا

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہو گا پھٹنے کا حکم پاتے ہی پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا

وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّت (۲)

اور اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گا اسی کے لائق وہ ہے

اسے بھی چاہیے کہ امر اللہ بجا لائے اس لیے کہ یہ اس اللہ کا حکم ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا جس سے بڑا اور کوئی نہیں جو سب پر غالب ہے اس پر غالب کوئی نہیں، ہر چیز اس کے سامنے پست و لاچار ہے بےبس و مجبور ہے

وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (۳)

اور جب زمین کھینچ کر پھیلا دی جائے گی

اور زمین پھیلا دی جائیگی بچھا دی جائیگی اور کشادہ کر دی جائیگی۔ حدیث میں ہے

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو چمڑے کی طرح کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر انسان کو صرف دو قدم ٹکانے کی جگہ ملے گی سب سے پہلے مجھے بلایا جائیگا حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب ہوں گے اللہ کی قسم اس سے پہلے اس نے کبھی اسے نہیں دیکھا تو میں کہوں گا

 اللہ جبرائیل نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ تیرے بھیجے ہوئے میرے پاس آتے ہیں

 اللہ فرمائے گا سچ کہا

تو میں کہوں گا اللہ پھر مجھے شفاعت کی اجازت ہو چنانچہ مقام محمود میں کھڑا ہو کر میں شفاعت کروں گا اور کہوں گا کہ اللہ تیرے ان بندوں نے زمین کے گوشے گوشے پر تیری عبادت کی ہے (ابن جریر)

وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (۴)

اور اس میں جو ہے اسے وہ اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی

وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (۵)

اور اپنے رب پر کان لگائے گی اور اسی لائق وہ ہے۔‏

اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ زمین اپنے اندر کے کل مردے اگل دے گی اور خالی ہو جائیگی یہ بھی رب کے فرمان کی منتظر ہو گی اور اسے بھی یہی لائق ہے

يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ (۶)

اے انسان! تو نے اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کر کے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔‏

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے انسان تو کوشش کرتا رہےگا اور اپنے رب کی طرف آگے بڑھتا رہےگا اعمال کرتا رہےگا یہاں تک کہ ایک دن اس سے مل جائےگا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گا اور اپنے اعمال اور اپنی سعی و کوشش کو اپنے سامنے دیکھ لے گا

ابو داؤد طیالسی میں ہے:

 حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جی لے جب تک چاہے بالآخر موت آنے والی ہے جس سے چاہ و دل بستگی پیدا کر لے ایک دن اس سے جدائی ہونی ہے جو چاہے عمل کر لے ایک دن اس کی ملاقات ہونے والی ہے ،

 مُلَاقِيهِ کی ضمیر کا مرجع بعض نے لفظ رَب کو بھی بتایا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ

 اللہ سے تیری ملاقات ہونے والی ہے وہ تجھے تیرے کل اعمال کا بدلہ دے گا اور تیری تمام کوشش و سعی کا پھل تجھے عطا فرمائے گا

 دونوں ہی باتیں آپس میں ایک دوسری کو لازم و ملزوم ہیں

قتادہ فرماتے ہیں:

 اے ابن آدم تو کوشش کرنے والا ہے لیکن اپنی کوشش میں کمزور ہے جس سے یہ ہو سکے کہ اپنی تمام تر سعی و کوشش نیکیوں کی کرے تو وہ کر لے دراصل نیکی کی قدرت اور برائیوں سے بچنے کی طاقت بجز امداد الٰہی حصال نہیں ہو سکتی ۔

فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ (۷)

تو (اسوقت) جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا۔‏

فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا (۸)

اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا‏

پھر فرمایا جس کے داہنے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ مل جائےگا اس کا حساب سختی کے بغیر نہایت آسانی سے ہو گا اس کے چھوٹے اعمال معاف بھی ہو جائیں گے اور جس سے اس کے تمام اعمال کا حساب لیا جائےگا وہ ہلاکت سے نہ بچے گا

 جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 جس سے حساب کا مناقشہ ہو گا وہ تباہ ہو گا تو حضرت عائشہ نے فرمایا قرآن میں تو ہے کہ نیک لوگوں کا بھی حساب ہو گا

 فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا

آپ نے فرمایا دراصل یہ وہ حساب نہیں یہ تو صرف پیشی ہے جس سے حساب میں پوچھ گچھ ہو گی وہ برباد ہو گا  (مسند احمد)

دوسری روایت میں ہے:

 یہ بیان فرماتے ہوئے آپ نے اپنی انگلی اپنے ہاتھ پر رکھ کر جس طرح کوئی چیز کریدتے ہیں اس طرح اسے ہلا جلا کر بتایا مطلب یہ ہے کہ جس سے باز پرس اور کرید ہو گی وہ عذاب سے بچ نہیں سکتا

خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:

 جس سے باقاعدہ حساب ہو گا وہ تو بےعذاب پائے نہیں رہ سکتا

 اور حِسَابًا يَسِيرًا سے مراد صرف پیشی ہے حالانکہ اللہ خوب دیکھتا رہا ہے

حضرت صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نماز میں یہ دعا مانگ رہے تھے

اللھم حاسبنی حسابا یسیرا

جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آسان حساب کیا ہے؟

 فرمایا صرف نامہ اعمال پر نظر ڈال لی جائیگی اور کہہ دیا جائیگا کہ جاؤ ہم نے درگزر کیا لیکن اے عائشہ جس سے اللہ حساب لینے پر آئے گا وہ ہلاک ہو گا  (مسند احمد)

وَيَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِهِ مَسْرُورًا (۹)

اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا ۔‏

غرض جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آئےگا وہ اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہی چھٹی پا جائے گا اور اپنے والوں کی طرف خوش خوش جنت میں واپس آئےگا ،

طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 تم لوگ اعمال کر رہے ہو اور حقیقت کا علم کسی کو نہیں عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے اعمال کو پہچان لو گے بعض وہ لوگ ہوں گے جو ہنسی خوشی اپنوں سے آ ملیں گے اور بعض ایسے ہوں کہ رنجیدہ افسردہ اور ناخوش واپس آئیں گے

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ (۱۰)

ہاں جس شخص کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا۔‏

فَسَوْفَ يَدْعُو ثُبُورًا (۱۱)

تو وہ موت کو بلانے لگے گا۔‏

وَيَصْلَى سَعِيرًا (۱۲)

اور بھڑکتی ہوئی جہنم میں داخل ہوگا۔‏

اور جسے پیٹھ پیچھے سے بائیں ہاتھ میں ہاتھ موڑ کر نامہ اعمال دیا جائےگا وہ نقصان اور گھاٹے کی پکار پکارے گا ہلاکت اور موت کو بلائے گا اور جہنم میں جائےگا دنیا میں خوب ہشاش بشاش تھا بےفکری سے مزے کر رہا تھا آخرت کا خوف عاقبت کا اندیشہ مطلق نہ تھا اب اس کو غم و رنج، یاس محرومی و رنجیدگی اور افسردگی نے ہر طرف سے گھیر لیا یہ سمجھ رہا تھا کہ موت کے بعد زندگی نہیں۔ اسے یقین نہ تھا کہ لوٹ کر اللہ کے پاس بھی جانا ہے

إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا (۱۳)

یہ شخص اپنے متعلقین میں (دنیا میں) خوش تھا ‏

إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ (۱۴)

اس کا خیال تھا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر ہی نہ جائے گا۔‏

بَلَى إِنَّ رَبَّهُ كَانَ بِهِ بَصِيرًا (۱۵)

کیوں نہیں حالانکہ اس کا رب اسے بخوبی دیکھ رہا تھا

پھر فرماتا ہے کہ ہاں ہاں اسے اللہ ضرور دوبارہ زندہ کر دے گا جیسے کہ پہلی مرتبہ اس نے اسے پیدا کیا پھر اس کے نیک و بد اعمال کی جزا و سزا دے گا بندوں کے اعمال و احوال کی اسے اطلاع ہے اور وہ انہیں دیکھ رہا ہے۔

فَلَا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ (۱۶)

مجھے شفق کی قسم اور رات کی!‏

شَفَق سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے مغربی کناروں پر ظاہر ہوتی ہے

حضرت ابوہریرہؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد سفیدی ہے ،

پس شَفَق کناروں کی سرخی کو کہتے ہیں وہ طلوع سے پہلے ہو یا غروب کے بعد اور اہل سنت کے نزدیک مشہور یہی ہے ،

خلیل کہتے ہیں عشاء کے وقت تک یہ شَفَق باقی رہتی ہے ،

 جوہری کہتے ہیں سورج کے غروب ہونے کے بعد جو سرخی اور روشنی باقی رہتی ہے اسے شَفَق کہتے ہیں ۔ یہ اول رات سے عشاء کے وقت تک رہتی ہے ۔

 عکرمہؒ فرماتے ہیں مغرب سے لے کر عشاء تک ،

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:

 مغرب کا وقت شفق غائب ہونے تک ہے ،

 مجاہد سے البتہ یہ مروی ہے کہ اس سے مراد سارا دن ہے ۔

 اور ایک روایت میں ہے کہ مراد سورج ہے ، غالباً اس مطلب کی وجہ اس کے بعد کا جملہ ہے تو گویا روشنی اور اندھیرے کی قسم کھائی،

 امام ابن جریر فرماتے ہیں دن کے جانے اور رات کے آنے کی قسم ہے ۔

 اوروں نے کہا ہے سفیدی اور سرخی کا نام " شَفَق "ہے

اور قول ہے کہ یہ لفظ ان دونوں مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے ۔

وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ (۱۷)

اور اس کی جمع کردہ چیزوں کی قسم۔‏

وَسَقَ کے معنی ہیں جمع کیا یعنی رات کے ستاروں اور رات کے جانوروں کی قسم ، اسی طرح رات کے اندھیرے میں تمام چیزوں کا اپنی اپنی جگہ چلے جانا،

وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ (۱۸)

اور چاند کو جب وہ کامل ہو جاتا ہے۔‏

اور چاند کی قسم جبکہ وہ پورا ہو جائے اور پوری روشنی والا بن جائے،

لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۱۹)

یقیناً تم ایک حالت دوسری حالت میں پہنچوگے ‏

لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ کی تفسیر بخاری میں مرفوع حدیث سے مروی ہے :

 ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف چڑھتے چلے جاؤ گے ،

حضرت انسؓ فرماتے ہیں:

 جو سال آئے گا وہ اپنے پہلے سے زیادہ برا ہو گا ۔ میں نے اسی طرح تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے

 اس حدیث سے اور اوپر والی حدیث کے الفاظ بالکل یکساں ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے ۔ (اللہ اعلم)

اور یہ مطلب بھی اسی حدیث کا بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد ذات نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی تائید حضرت عمر ابن مسعودؓ ابن عباسؓ اور عام اہل مکہ اور اہل کوفہ کی قرأت سے بھی ہوتی ہے ۔ ان کی قرأت ہے لَتَرْكَبِنَّ۔

شعبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے :

 اے نبی تم ایک آسمان کے بعد دوسرے آسمان پر چڑھو گے ، مراد اس سے معراج ہے ، یعنی منزل بمنزل چڑھتے چلے جاؤ گے

سدی کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق منزلیں طے کرو گے۔ جیسے حدیث میں ہے ،

 تم اپنے سے اگلے لوگوں کے طریقوں پر چڑھو گے بالکل برابر برابر یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہو تو تم بھی یہی کرو گے ،

لوگوں نے کہا اگلوں سے مراد آپ کی کیا یہود و نصرانی ہیں؟

آپؐ نے فرمایا پھر اور کون؟

حضرت مکحول فرماتے ہیں ہر بیس سال کے بعد تم کسی نہ کسی ایسے کام کی ایجاد کرو گے جو اس سے پہلے نہ تھا،

 عبداللہ فرماتے ہیں، آسمان پھٹے گا پھر سرخ رنگ ہو جائے گا۔ پھر بھی رنگ بدلتے چلے جائیں گے ،

ابن مسعود ؓفرماتے ہیں کبھی تو آسمان دھواں بن جائے گا پھر پھٹ جائے گا ۔

حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں

یعنی بہت سے لوگ جو دنیا میں پست و ذلیل تھے آخرت میں بلند و ذی عزت بن جائیں گے ، اور بہت سے لوگ دنیا میں مرتبے اور عزت والے تھے وہ آخرت میں ذلیل و نامراد ہو جائیں گے ۔

 عکرمہ یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ پہلے دودھ پیتے تھے پھر غذا کھانے لگے ، پہلے جوان تھے پھر بڈھے ہوئے۔

حسن بصری فرماتے ہیں:

 نرمی کے بعد سختی سختی کے بعد نرمی ، امیری کے بعد فقیری ، فقیری کے بعد امیری، صحت کے بعد بیماری، بیماری کے بعد تندروستی،

ایک مرفوع حدیث میں ہے :

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 ابن آدم غفلت میں ہے وہ پروا نہیں کرتا کہ کس لیے پیدا کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ جب کسی کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتے سے کہتا ہے اس کی روزی اس کی اجل ، اس کی زندگی ، اس کا بدیا نیک ہونا لکھ لے پھر وہ فارغ ہو کر چلا جاتا ہے ،

 اور دوسرا فرشتہ آتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے سمجھ آ جائے پھر وہ فرشتہ اٹھ جاتا ہے

 پھر دو فرشتے اس کا نامہ اعمال لکھنے والے آ جاتے ہیں۔ موت کے وقت وہ بھی چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آ جاتے ہیں اس کی روح قبض کرتے ہیں پھر قبر میں اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے ، ملک الموت چلے جاتے ہیں

قیامت کے دن نیکی بدی کے فرشتے آ جائیں گے اور اس کی گردن سے اس کا نامہ اعمال کھول لیں گے ، پھر اس کے ساتھ ہی رہیں گے ، ایک سائق ہے دوسرا شہید ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا

لقد کنت فی غفلتہ من ھٰذا تو اس سے غافل تھا،

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ پڑھی یعنی ایک حال سے دوسرا حال پھر فرمایا:

 لوگو تمہارے آگے بڑے بڑے ہم امور آ رہے ہیں جن کی برداشت تمہارے بس کی بات نہیں لہذا اللہ تعالیٰ بلند و برتر سے مدد چاہو،

یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے ، منکر حدیث ہے اور اس کی سند میں ضعیف راوی ہیں

لیکن اس کا مطلب بالکل صحیح اور درست ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالی ٰاعلم۔

 امام ابن جریر نے ان تمام اقوال کو بیان کر کے فرمایا ہے  کہ صحیح مطلب یہ ہے :

 آپ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت سخت کاموں میں ایک کے بعد ایک سے گزرنے والے ہیں اور گو خطاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہے لیکن مراد سب لوگ ہیں کہ وہ قیامت کی ایک کے بعد ایک ہولناکی دیکھیں گے ،

فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ  (۲۰)

انہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے۔‏

پھر فرمایا کہ انہیں کیا ہو گیا یہ کیوں نہیں ایمان لاتے ؟

وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ (۲۱) ۩

اور جب ان کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے ‏

اور انہیں قرآن سن کر سجدے میں گر پڑنے سے کونسی چیز روکتی ہے ،

بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُكَذِّبُونَ (۲۲)

بلکہ جنہوں نے کفر کیا وہ جھٹلا رہے ہیں

بلکہ یہ کفار تو الٹا جھٹلاتے ہیں اور حق کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی میں اور برائی میں پھنسے ہوئے ہیں،

وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ (۲۳)

اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں رکھتے ہیں۔‏

اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو جنہیں یہ چھپا رہے ہیں بخوبی جانتا ہے ،

فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (۲۴)

انہیں المناک عذابوں کی خوشخبری سنا دو۔‏

تم اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خبر پہنچا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب تیار کر رکھے ہیں ،

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (۲۵)

ہاں ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کو بیشمار اور نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔‏

پھر فرمایا کہ ان عذابوں سے محفوط ہونے والے بہترین اجر کے مستحق ایماندار نیک کردار لوگ ہیں ، انہیں پورا پورا بغیر کسی کمی کے حساب اور اجر ملے گا ، جیسے اور جگہ ہے :

عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (۱۱:۱۰۸)

یہ بے انتہا بخشش ہے

بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بلا احسان لیکن یہ معنی ٹھیک نہیں ہر آن پر لحظہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ عز و جل کے اہل جنت پر احسان و انعام ہوں گے بلکہ صرف اس کے احسان اور اس کے فعل و کرم کی بنا پر انہیں جنت نصیب ہوئی نہ کہ ان کے اعمال کی وجہ سے

 پس اس مالک کا تو ہمیشہ اور مدام والا احسان اپنی مخلوق پر ہے ہی ، اس کی ذات پاک ہر طرح کی ہر وقت کی تعریفوں کے لائق  ہمیشہ ہمیشہ ہے ، اسی لیے اہل جنت پر اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد کا الہام اسی طرح کیا جائے جس طرح سانس بلا تکلیف اور بےتکلف بلکہ بے ارادہ چلتا رہتا ہے ، قرآن فرماتا ہے :

وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۰:۱۰)

ان کا آخری قول یہی ہو گا کہ سب تعریف جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے ہی ہے ،

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter