Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Fajr

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَٱلۡفَجۡرِ (۱)  

قسم ہے فجر کی!

فجر تو ہر شخص جانتا ہے یعنی صبح

 اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح،

 اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز،

وَلَيَالٍ عَشۡرٍ۬  (۲)

اور دس راتوں کی!

اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں۔

چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے:

کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں

 لوگوں نے پوچھا اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں؟

 فرمایا یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا

بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن

 لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں۔

وَٱلشَّفۡعِ وَٱلۡوَتۡرِ  (۳) 

جفت اور طاق کی !

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

عَشۡر  سے مراد عیدالاضحیٰ کے دس دن ہیں اور ٱلۡوَتۡر  سے مرادعرفے کا دن ہے اور ٱلشَّفۡع سے مراد قربانی کا دن ہے

اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے واللہ اعلم۔

ٱلۡوَتۡر سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو ٱلشَّفۡع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے

حضرت واصل بن سائب رضی اللہ عنہ نے حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا ٱلۡوَتۡر سے مراد یہی وتر نماز ہے؟

 آپ نے فرمایا نہیں ٱلشَّفۡع عرفہ کا دن ہے اور ٱلۡوَتۡر عیدالاضحی کی رات ہے

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ ٱلشَّفۡع کیا ہے اور ٱلۡوَتۡر کیا ہے؟

آپ نے فرمایا  سورہ البقرۃ آیت ۲۰۳ فَمَن تَعَجَّلَ فِى يَوۡمَيۡن میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ شَّفۡع ہے اور مَن   تَأَخَّر میں جو ایک دن ہے وہ  وَتۡر ہے یعنی گیارہویں بارہویں ذی الحجہ کی شفع اور تیرھویں وتر ہے۔

آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن شَّفۡع ہے اور آخری دن وَتۡر ہے،

 بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے وہ وتر ہے وتر کو دوست رکھتا ہے

 زید بن اسلم فرماتے ہیں اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں شَّفۡع بھی ہے اور وَتۡر بھی۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق شَّفۡع اور اللہ وَتۡر ہے

یہ بھی کہا گیا ہے کہ شَّفۡع صبح کی نماز ہے اور وَتۡر مغرب کی نماز ہے

یہ بھی کہا گیا ہے کہ شَّفۡع سے مراد جوڑ جوڑ اور وَتۡر سے مراد اللہ عز و جل جیسے آسمان، زمین ، تری ، خشکی جن انس سورج چاند   وغیرہ

قرآن میں ہے :

وَمِن ڪُلِّ شَىۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَيۡنِ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُونَ (۵۱:۴۹)

ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کر لو

 یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے ایک حدیث میں ہے :

شَّفۡع سے مراد وہ دن ہیں اور وَتۡر سے مراد تیسرا دن۔

 یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے

ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں شَّفۡع ہے جیسے صبح کی دو ظہر عصر اور عشاء کی چار چار اور وَتۡر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے وتر ہیں اور اسی طرح آخری رات کا وتر

 ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے بعض صحابہ سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمران بن حصین پر موقوف ہے، واللہ اعلم۔

 امام ابن جریر نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا۔

وَٱلَّيۡلِ إِذَا يَسۡرِ (۴)

رات جب چلنے لگے۔

پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے

 اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور والفجر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔

 فجر کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہو گا۔ جیسے آیت  واللیل اذا عسعس والصبح اذا تنفس میں عکرمہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے

هَلۡ فِى ذَٲلِكَ قَسَمٌ۬ لِّذِى حِجۡرٍ  (۵)

کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے

 حِجۡر  سے مراد عقل ہے،حِجۡر  کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں۔ ،حطیم کو بھی حجر البیتاسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے جر یمامہ اور اسی لیے عرب کہتے ہیں جر الحاکم علی فلان جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ حجرا محجورا

تو فرماتا ہے کہ ان میں عقل مندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں

جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے تو فرمایا ہے

أَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ  (۶) 

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عادیوں کے ساتھ کیا کیا

کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کر دیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے، اللہ کی نافرمانی کرتے، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول حضرت ہود علیہ السلام آئے تھے

یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بے ایمانوں کو تیز و تند خوفناک اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہو گئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے سورہ الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے

إِرَمَ ذَاتِ ٱلۡعِمَادِ (۷)  

ستونوں والے ارم کے ساتھ

إِرَمَ ذَاتِ ٱلۡعِمَادِیہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہو جائے یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکے اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:

وَٱذۡڪُرُوٓاْ إِذۡ جَعَلَكُمۡ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوحٍ۬ وَزَادَكُمۡ فِى ٱلۡخَلۡقِ بَصۜۡطَةً۬‌ۖ فَٱذۡڪُرُوٓاْ ءَالَآءَ ٱللَّهِ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (۷:۶۹)

یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی تمہیں چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو

 اور جگہ ہے:

فَأَمَّا عَادٌ۬ فَٱسۡتَڪۡبَرُواْ فِى ٱلۡأَرۡضِ بِغَيۡرِ ٱلۡحَقِّ وَقَالُواْ مَنۡ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً‌ۖ أَوَلَمۡ يَرَوۡاْ أَنَّ ٱللَّهَ ٱلَّذِى خَلَقَهُمۡ هُوَ أَشَدُّ مِنۡہُمۡ قُوَّةً۬‌ۖ (۴۱:۱۵)

کہ عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست طاقت و قوت والا ہے

یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے

ٱلَّتِى لَمۡ يُخۡلَقۡ مِثۡلُهَا فِى ٱلۡبِلَـٰدِ (۸)  

جس کی مانند کوئی قوم ملکوں میں پیدا نہیں  ہوئی۔‏

اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے ارم ان کا دار السلطنت تھا۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے۔

 مِثۡلُهَا کی ضمیر کا مرجع عِمَادِ بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے

اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو لم یجعلکہا جاتا نہ کہ م یخلق

ابن ابی حاتم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو یچارے سب کے سب دب کر مر جاتے

حضرت ثور بن زید دیلی فرماتے ہیں:

 میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں میں نے ستون بلند کیے ہیں میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں جو امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکالے گی

 غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند و بالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے تھے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آ چکا ہے یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے واللہ اعلم ۔

بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہإِرَمَ ذَاتِ ٱلۡعِمَادِ ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہو سکتا ہے یا عطف بیان

 دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کر دیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑ جائے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسرے چاندی کی اس کے مکانات باغات محلے وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں پھل تیار ہیں ، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے در و دیوار خالی ہیں کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں کبھی یمن میں کبھی عراق میں کبھی کہیں کبھی کہیں ۔ وغیرہ

یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں،

ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں اپنے گم شدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا، گھوما پھرا، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا،

 ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سنداً صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریض اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بےوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے کبھی بخور کے بہانے سے کبھی کسی اور طرح سے ان سے یہ مکار روپے وصول کر لیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں

 ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے نہ کوئی دیو بھوت جن پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے۔

 امام ابن جریر نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد ہو لیکن ٹھیک نہیں یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کی تراش لیا کرتے تھے

وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُواْ ٱلصَّخۡرَ بِٱلۡوَادِ  (۹) 

اور ثمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے۔

جیسے اور جگہ ہے :

وَتَنۡحِتُونَ مِنَ ٱلۡجِبَالِ بُيُوتً۬ا فَـٰرِهِينَ  (۲۶:۱۴۹)

تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو ۔

 اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں عربی شعر بھی ہیں

 ابن اسحاق فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القریٰ میں رہتے تھے

عادیوں کا قصہ پورا پورا سورہ اعراف میں ہم بیان کر چکے ہیں اب اعادہ کی ضرورت نہیں

وَفِرۡعَوۡنَ ذِى ٱلۡأَوۡتَادِ (۱۰) 

اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا

پھر فرمایا میخوں والا فرعون

 أَوۡتَاد کے معنی ابن عباسؓ نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے

یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا

بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہو گئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی، اللہ ان پر رحم کرے،

ٱلَّذِينَ طَغَوۡاْ فِى ٱلۡبِلَـٰدِ (۱۱)   

ان سبھی نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا۔‏

فَأَكۡثَرُواْ فِيہَا ٱلۡفَسَادَ  (۱۲)   

اور بہت فساد مچا رکھا تھا۔‏

پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے

فَصَبَّ عَلَيۡهِمۡ رَبُّكَ سَوۡطَ عَذَابٍ (۱۳) 

 آخر تیرے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسایا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہو گئے،

إِنَّ رَبَّكَ لَبِٱلۡمِرۡصَادِ (۱۴) 

یقیناً تیرا رب گھات میں ہے۔

تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے سن رہا ہے سمجھ رہا ہے وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم وجور سے پاک ہے

 یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے

 اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اے معاذ! مؤمن حق کا قیدی ہے

اے معاذ! مؤمن تو امید و بیہم کی حالت میں ہی رہتا ہے جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہو جائے۔

 اے معاذ! مؤمن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے

- قرآن اس کی دلیل ہے

- خوف اس کی حجت ہے

-  شوق اس کی سواری ہے

- نماز اس کی پناہ ہے

-  روزہ اس کی ڈھال ہے

- صدقہ اس کا چھٹکارا ہے

- سچائی اس کی امیر ہے

-  شرم اس کا وزیر ہے

 اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے

 اس کے راوی یونس اللہ اور ابو حمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابو حمزہ ہی کا کلام ہو،

 اسی ابن ابی حاتم میں ہے:

ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا لوگو! جہنم کے ساتھ پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہو گا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہو گی یہاں امانتداری کا سوال ہو گا جو امانت دار ہو گا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہو گی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پا سکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہو گی اور یہ کہہ رہی ہو گی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جسے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں آیت إِنَّ رَبَّكَ لَبِٱلۡمِرۡصَادِ

یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں۔

فَأَمَّا ٱلۡإِنسَـٰنُ إِذَا مَا ٱبۡتَلَٮٰهُ رَبُّهُ ۥ فَأَكۡرَمَهُ ۥ وَنَعَّمَهُ ۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَكۡرَمَنِ (۱۵)  

انسان (کا یہ حال ہے) کہ جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وسعت اور کشادگی پا کر یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا یہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے جیسے اور جگہ ہے:

أَيَحۡسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِۦ مِن مَّالٍ۬ وَبَنِينَ  ۔ نُسَارِعُ لَهُمۡ فِى ٱلۡخَيۡرَٲتِ‌ۚ بَل لَّا يَشۡعُرُونَ (۲۳:۵۵،۵۶)

یعنی مال و اولاد کے بڑھ جانے کو یہ لوگ نیکیوں کی زیادتی سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بےسمجھی ہے

وَأَمَّآ إِذَا مَا ٱبۡتَلَٮٰهُ فَقَدَرَ عَلَيۡهِ رِزۡقَهُ ۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَهَـٰنَنِ (۱۶) 

 اور جب وہ اس کو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کی (اور ذلیل کیا)

اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگ ترشی کو انسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے

كَلَّا‌ۖ  بَل لَّا تُكۡرِمُونَ ٱلۡيَتِيمَ (۱۷)

ایسا ہرگز نہیں بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے

اسی لیے یہاں  كَلَّا‌ کہہ کر ان دونوں خیالات کی تردید کی کہ یہ واقعہ نہیں جسے اللہ مال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اور جس پر تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ خوشی اور ناخوشی کامدار ان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے غنی ہو کر شکر گزاری کرے تو اللہ کا محبوب اور فقیر ہو کر صبر کرے تو اللہ کا محبوب اللہ تعالیٰ اس طرح اور اس طرح آزماتا ہے

 پھر یتیم کی عزت کرنے کا حکم دیا ، حدیث میں ہے:

 سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو پھر آپ نے انگی اٹھا کر فرمایا میں اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اسی طرح ہوں گے یعنی قریب قریب

 ابو داؤد کی حدیث میں ہے :

 کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر انہیں دکھایا آپ نے فرمایا اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے

وَلَا تَحَـٰٓضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلۡمِسۡكِينِ (۱۸)   

اور مسکینوں کو کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے۔‏

وَتَأۡڪُلُونَ ٱلتُّرَاثَ أَڪۡلاً۬ لَّمًّ۬ا (۱۹)  

اور (مُردوں کی) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو۔

وَتُحِبُّونَ ٱلۡمَالَ حُبًّ۬ا جَمًّ۬ا  (۲۰) 

اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو۔‏

 فرمایا کہ یہ لوگ فقیروں مسکینوں کے ساتھ سلوک احسان کرنے انہیں کھانا پینا دینے کی ایک دوسرے کو رغبت و لالچ نہیں دلاتے اور یہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کا مال حلال و حرام ہضم کر جاتے ہیں اور مال کی محبت بھی ان میں بیحد ہے۔

كَلَّآ إِذَا دُكَّتِ ٱلۡأَرۡضُ دَكًّ۬ا دَكًّ۬ا  (۲۱)  

یقیناً جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی۔‏

قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ بالیقین اس دن زمین پست کر دی جائیگی اونچی نیچی زمین بربار کر دی جائیگی اور بالکل صاف ہموار ہو جایئگی پہاڑ زمین کے بربار کر دئیے جائیں گے تمام مخلوق قبر سے نکل آئیگی خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آ جائیگا

یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوگی اور یہ شفاعت اس وقت ہوگی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہو آئیگی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں پھر سب کے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ فرمائیں گے کہ ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں پھر آپ جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورہ سبحان میں گزر چکا ہے

وَجَآءَ رَبُّكَ وَٱلۡمَلَكُ صَفًّ۬ا صَفًّ۬ا  (۲۲)  

اور تیرا رب (خود) آ جائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آ جائیں گے)

پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائیگا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے

وَجِاْىٓءَ يَوۡمَٮِٕذِۭ بِجَهَنَّمَ‌ۚ

اور جس دن جہنم بھی لائی جائے گی

جہنم بھی لائی جائیگی

صحیح مسلم شریف میں ہے

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جہنم کی اس روز ستر ہزار لگامیں ہوں گی ہر لگا پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے گھسیٹ رہے ہوں گے

 یہی روایت خود حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی مروی ہے

يَوۡمَٮِٕذٍ۬ يَتَذَڪَّرُ ٱلۡإِنسَـٰنُ وَأَنَّىٰ لَهُ ٱلذِّكۡرَىٰ  (۲۳)  

اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اسکے سمجھنے کا فائدہ کہاں

اس دن انسان اپنے نئے پرانے تمام اعمال کو یاد کرنے لگے گا برائیوں پر پچھتائے گا نیکیوں کے نہ کرنے یا کم کرنے پر افسوس کرے گا گناہوں پر نادم ہوگا

يَقُولُ يَـٰلَيۡتَنِى قَدَّمۡتُ لِحَيَاتِى  (۲۴)  

وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی زندگی کے لئے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا۔

مسند احمد میں ہے

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی بندہ اپنے پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک سجدے میں پڑا رہے اور اللہ کا پورا اطاعت گزار رہے پھر بھی اپنی اس عبادت کو قیامت کے دن حقیر اور ناچیز سمجھے گا اور چاہے گا کہ اگر میں دنیا کی طرف لوٹایا جاؤں تو اجرو ثواب کام اور زیادہ کروں

فَيَوۡمَٮِٕذٍ۬ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ ۥۤ أَحَدٌ۬  (۲۵)  

پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی نہ ہوگا۔‏

وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ ۥۤ أَحَدٌ۬  (۲۶)  

نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی اور کا نہ ہو گا۔ جو وہ اپنے نافرمان اور نافرجام بندوں کو کرے گا نہ اس جیسی زبردست پکڑ اور قید و بند کسی کی ہو سکتی ہے زبانیہ فرشتے بدترین بیڑیاں اور ہتھکڑیاں انہیں پہنائے ہوئے ہوں گے

یہ تو ہوا بد بختوں کا انجام اب نیک بختوں کا حال سنئے

يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّةُ (۲۷)  

اے اطمینان والی روح۔‏

ٱرۡجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً۬ مَّرۡضِيَّةً۬ (۲۸)    

تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش۔

فَٱدۡخُلِى فِى عِبَـٰدِى (۲۹)    

پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔‏

وَٱدۡخُلِى جَنَّتِى  (۳۰)   

اور میری جنت میں چلی جا۔‏ 

 جو روحیں سکون اور اطمینان والی ہیں پاک اور ثابت ہیں حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اور قبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائیگا کہ تو اپنے رب کی طرف اس کے پڑوس کی طرف اس کے ثواب اور اجر کی طرف اس کی جنت اور رضامندی کی طرف لوٹ چل یہ اللہ سے خوش ہے اور اللہ اس سے راضی ہے اور اتنا دے گا کہ یہ بھی خوش ہو جائیگا تو میرے خاص بندوں میں آ جا اور میری جنت میں داخل ہو جا ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اتری ہے

 بریدہ فرماتے ہیں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعای عنہ کے بارے میں اتری ہے

 حضرت عبداللہؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ قیامت کے دن اطمینان والی روحوں سے کہا جائیگا کہ تو اپنے رب یعنی اپنے جسم کی طرف لوٹ جا جسے تو دنیا میں آباد کیے ہوئے تھی تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے راضی و رضامند ہو

یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عبداللہ اس آیت کو فاد خلی فی عبادی پڑھتے تھے یعنی اے روح میرے بندے میں یعنی اس کے جسم میں چلی جا لیکن یہ غریب ہے اور ظاہر قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے:

وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ  (۱۰:۳۰)

پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جائیں گے

اور جگہ ہے

وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ (۴۰:۴۳)

ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف

 یعنی اس کے حکم کی طرف اور اس کے سامنے ہے

 ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ آیتیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں اتریں تو آپ نے کہا کتنا اچھا قول ہے

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں بھی یہی کہاجائے گا

دوسری روایت میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت سعید بن جبیرؓ نے یہ آیتیں پڑھیں تو حضرت صدیقؓ نے یہ فرمایا جس پر آپ ﷺنے یہ خوش خبری سنائی کہ تجھے فرشتہ موت کے وقت یہی کہے گا ،

ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے:

 جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباسؓ مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی اور یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کون پڑھ رہا ہے

یہ روایت طبرانی میں بھی ہے

 ابو ہاشم قنات بن زرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 جنگ روم میں ہم دشمنوں کے ہاتھ قید ہوگئے شاہ روم نے ہمیں اپنے سامنے بلایا اور کہا یا تو تم اس دین کو چھوڑ دو یا قتل ہونا منظور کر لو

ایک ایک کو وہ یہ کہتا کہ ہمارا دین قبول کرو ورنہ جلاد کو حکم دیتا ہوں کہ تمہاری گردن مارے تین شخص تو مرتد ہوگئے جب چوتھا آیا تو اس نے صاف انکار کیا

 بادشاہ کے حکم سے اس کی گردن اڑا دی گئی اور سر کو نہر میں ڈال دیا گیاوہ نیچے ڈوب گیا اور ذراسی دیر میں اوپر آ گیا اور ان تینوں کی طرف دیکھنے لگا کہ اے فلاں اور اے فلاں اور اے فلاں ان کے نام لے کر انہیں آواز دی جب یہ متوجہ ہوئے سب درباری لوگ بھی دیکھ رہے تھے اور خود بادشاہ بھی تعجب کے ساتھ سن رہا تھا اس مسلمان شہید کے سر نے کہا سنو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّةُ  ۔ ٱرۡجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً۬ مَّرۡضِيَّةً۬ ۔ فَٱدۡخُلِى فِى عِبَـٰدِى ۔ وَٱدۡخُلِى جَنَّتِى

اتنا کہہ کر وہ سر پھر پانی میں غوطہ لگا گیا

اس واقعہ کا اتنا اچھا اثر ہوا کہ قریب تھا کہ نصرانی اسی وقت مسلمان ہو جاتے بادشاہ نے اسی وقت دربار برخاست کرادیا اور وہ تینوں پھر مسلمان ہوگئے اور ہم سب یونہی قید میں رہے آخر خلیفہ ابو جعفر منصور کی طرف فدیہ آگیا اور ہم نے نجات پائی

 ابن عساکر میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے کہا یہ دعا پڑھا کر

اللھم انی اسئلک نفسا بلک مطمئنتہ تومن بلقائک وترضی بقضالک وتفنع بعطآئک

الٰہی میں تجھ سے ایسا نفس طلب کرتا ہوں جو تیری ذات پر اطمینان اور بھروسہ رکھتا ہو تیری ملاقات پر ایمان رکھتا ہو تیری قضا پر راضی ہو تیرے دئیے ہوئے پر قناعت کرنے والا ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter