Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Tin

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (۱)

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔‏

التِّين سے مراد :

- کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے

- کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے ،

-  کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے

- بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے ،

-  کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح ہے وہ مراد ہے ۔

- بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے

الزَّيْتُون سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے ۔

کسی نے کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو،

وَطُورِ سِينِينَ (۲)

اور طور سینین کی ‏

طُورِ سِينِين وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا

وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (۳)

اور اس امن والے شہر کی

لْبَلَدِ الْأَمِين سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔

بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر بھیجے گئے تھے ،

- التِّين سے مراد تو بیت المقدس ہے ۔ جہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور

- طُورِ سِينِين سے مراد طور سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور

- الْبَلَدِ الْأَمِين سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھیجے گئے ،

تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ

- طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر حضرت موسیٰ  علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور

- سا عیر یعنی بیت المقدس کے پہاڑسے اس نےنورچمکایا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں بھیجا اور

-  فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا،

پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زبانی اور وجودی ترتیب بیان کر دی۔ اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (۴)

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (۵)

پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا۔

ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قدو قامت والا، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کر دیا یعنی جہنمی ہو گیا، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کر لیا،

بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرف لوٹا دینا ہے ۔

حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا،

 امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (۶)

لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کئے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔‏

لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مؤمنوں کا استثناء کیوں ہوتا؟

بڑھاپا تو بعض مؤمنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جوا وپر ہم نے ذکر کی جیسے اور جگہ سورہ والعصر میں ہے کہ تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزاملے گی جس کی انتہا نہ ہو جیسے پہلے بیان ہو چکا ہے

فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ (۷)

پس تجھے اب روز جزا کے جھٹلانے پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں ؟

 کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کر دیا اس پردوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟

حضرت مجاہدؒ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓسے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں؟

 آپ نے فرمایا معاذ اللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے

عکرمہؒ کا بھی یہی قول ہے ۔

أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ (۸)

کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم نہیں ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ کیا اللہ حاکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بےعدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقا م لے گا ،

حضرت ابوہریرہ سے مرفوع حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ جو شخص وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونپڑھے اور اس کے آخر کی آیت ت أَلَيْسَ اللَّهُ پڑھے تو کہہ دے  بلی وانا علی ذالک من الشاھدین یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter