Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Fil

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ  (۱)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟

أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ (۲)

کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کر دیا

اللہ رب العزت نے قریش پر جو اپنی خاص نعمت انعام فرمائی تھی اس کا ذکر کر رہا ہے کہ جس لشکر نے ہاتھیوں کو ساتھ لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے چڑھائی کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کہ وہ کعبے کے وجود کو مٹائیں ان کا نام و نشان مٹا دیا ان کی تمام فریب کاریاں ان کی تمام قوتیں سلب کر لیں برباد و غارت کر دیا۔

یہ لوگ مذہباً نصرانی تھے لیکن دین مسیح کو مسخ کر دیا تھا‘ قریب قریب بت پرست ہو گئے تھے  انہیں اس طرح نامراد کرنا یہ گویا پیش خیمہ تھا آنحضرت ﷺ کی بعثت کا اور اطلاع تھی آپ ﷺ کی آمد آمد کی۔ حضور ﷺ اسی سال تولد ہوئے۔ اکثر تاریخ داں حضرات کا یہی قول ہے

 تو گویا رب عالم فرما رہا ہے کہ اے قریشیو! حبشہ کے اس لشکر پر تمہیں فتح تمہاری بھلائی کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ اس میں ہمارے گھر کا بچاؤ تھا جسے ہم شرف بزرگی عظمت و عزت میں اپنے آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی نبوت سے بڑھانے والے تھے۔

وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ (۳)

اور ان پر پرندوں کے جھنڈ پر جھنڈ بھیج دیئے۔

أَبَابِيلَ جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد عرب لغت عرب میں پایا نہیں گیا۔

أَبَابِيلَ کے معنی ہیں گروہ گروہ‘ جھنڈ جھنڈ ‘ بہت سارے پے در پے جمع شدہ‘ ادھر ادھر سے آنے والے۔

تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ (۴)

جو ان کو مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔

سِجِّيلٍ کے معنی ہیں بہت سخت۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو فارسی لفظوں سے مرکب ہے یعنی سنگ اور گل سے یعنی پتھر اور مٹی۔ غرض سِجِّيلٍ وہ ہے جس میں پتھر معہ مٹی کے ہو۔

فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ (۵)

پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔

عَصْف جمع ہے عَصْفةً کی ، کھیتی کے ان پتوں کو کہتے ہیں جو پک نہ گئے ہوں۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ عَصْف کہتے ہیں بھسی کو جو اناج کے دانوں کے اوپر ہوتی ہے۔

 ابن زیدؒ فرماتے ہیں کہ مراد کھیتوں کے وہ  پتے ہیں جنہیں جانور چر چکے ہوں۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تہس نہس کر دیا اور عام خاص کو ہلاک کر دیا‘ ان کی ساری تدبیریں پٹ پڑ گئیں‘ کوئی بھلائی انہیں نصیب نہ ہوئی‘ ایسا بھی کوئی ان میں صحیح سالم نہ رہا کہ ان کی خبر پہنچائے۔ جو بھی بچا وہ زخمی ہو کر اور اس زخم سے پھر جانبر نہ ہو سکا‘ خود بادشاہ بھی گویا وہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گیا تھا جوں توں صنعاء میں پہنچا لیکن وہاں جاتے ہی اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور واقعہ بیان کر ہی چکا تھا جو مر گیا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter