Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ikhlas

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک

حضرت عکرمہ ؒ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیر کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اورنصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اورمجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری،

قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ  (۱)

آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے‏

اے نبی تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے

- جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں

-  جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کوئی شریک نہیں

- جس کا کوئی ہمسر نہیںنجس کا کوئی ہم جنس نہیں

- جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں۔

اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔

ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ (۲)

اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے

اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے

وہ ٱلصَّمَدُ ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔

یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے،

 ٱلصَّمَدُ کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔

حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔

 یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ صمد کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر کی روایت سے حضرت ابی بن کعب سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گزرا اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ صمد کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔

شعبیؒ کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو،

 عبداللہ بن بریدہؒ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو،

حافظ ابو القاسم طبراین رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب "السنہ" میں لفظ صمد کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردار اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے نہ وہ کھوکھلا ہے نہ وہ کھائے نہ پیئے سب فانی ہے اور وہ باقی ہے وغیرہ۔

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (۳)

نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا

وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌۢ (۴)

اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔

فرمایا اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔جیسے اور جگہ ہے

بَدِيعُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ - وَلَمْ تَكُنْ لَّهُ صَـحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ (۶:۱۰۱)

وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہرچیز کو اسی نے پیدا کیا ہے

یعنی وہ ہرچیز کا خالق و مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے جیسے اور جگہ فرمایا:

وَقَالُواْ اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَداً ... وَكُلُّهُمْ ءَاتِيهِ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَرْداً (۱۹:۸۸،۹۵)  

یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہےتم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہےکہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہوتمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہےاور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں

 اور جگہ فرمایا:

وَقَالُواْ اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ­­- لاَ يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (۲۱:۲۶،۲۷)

ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں

وَجَعَلُواْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً وَلَقَدْ عَلِمَتِ الجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ- سُبْحَـنَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (۳۷:۱۵۸،۱۵۹)

انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے۔

 صحیح بخاری شریف میں ہے :

 ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے۔

بخاری کی اور روایت میں ہے :

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نہ مجھ جیسا کوئی اور۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter