Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Mo'minun

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (۱)

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی

 فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا،

 کاشت کار کو  فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے،

شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔

 آیت میں ان مؤمنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔

اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔

الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (۲)

جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں

 خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔

 قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔

 اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔

وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (۳)

جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں

 لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں،

ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انہیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ (۴)

جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں

اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوٰۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوٰۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہو۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (۵)

جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‏

إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (۶)

بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔‏

فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (۷)

جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں

اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعا ًاجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہوگی۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (۸)

جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں

اَ  مَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (۹)

جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں

آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فانا للہ وان الیہ راجعون

أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ (۱۰)

یہی وارث ہیں۔‏

الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۱۱)

جو فردوس کے وارث ہونگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے

ان صفات مذکورہ کے حامل مؤمن  ہی فلاح یاب ہونگے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔  (صحیح بخاری)

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ (۱۲)

یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا

مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔

ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (۱۳)

پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔

محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے، جہاں نو مہینے بچہ بڑی حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے۔

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ

پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں،

پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا (١) پھر دوسری بناوٹ میں اسے پیدا کر دیا (٢)

۱۔ اس کی کچھ تفصیل سورہ حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں  مُخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت،  مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کر دی ہے۔

  مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ۔(۹۵:۴)

ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا

۲۔  اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔

فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (۱۴)

برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔

خَالِقِينَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔

ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (۱۵)

اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو۔‏

ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (۱۶)

پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے۔‏

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ (۱۷)

ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں (١) اور ہم مخلوقات میں غافل نہیں ہیں ۔‏(٢)

۱۔   طَرَائِقَ ، طریقۃ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انہیں  طَرَائِقَ کہا۔

یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انہیں طرائق قرار ریا۔

۲۔   خَلْقِ سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔

یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں ۔ (فتح القدیر)

اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہرچیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔  (ابن کثیر)

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (۱۸)

ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں، (١) پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں (٢) اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں‏(۳)

۱۔ یعنی نہ زیادہ کہ جس سے تباہی پھیل جائے اور نہ اتنا کم کہ پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو۔

۲۔  یعنی یہ انتطام بھی کیا کہ سارا پانی برس کر فوراً بہہ نہ جائے اور ختم نہ ہو جائے بلکہ ہم نے چشموں، نہروں، دریاؤں اور تالابوں اور کنوؤں کی شکل میں اسے محفوظ بھی کیا، تاکہ ان ایام میں جب بارشیں نہ ہوں، یا ایسے علاقے میں جہاں بارش کم ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت زیادہ ہے، ان سے پانی حاصل کر لیا جائے۔

۳۔  یعنی جس طرح ہم اپنے فضل و کرم سے پانی کا ایسا وسیع انتظام کیا ہے، وہیں ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ پانی کی سطح اتنی نیچی کر دیں کہ تمہارے لئے پانی کا حصول ناممکن ہو جائے۔

فَأَنْشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (۱۹)

اسی پانی کے ذریعے سے ہم تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کر دیتے ہیں، کہ تمہارے لیے ان میں بہت سے میوے ہوتے ہیں انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو

یعنی ان باغوں میں انگور اور کھجور کے علاوہ اور بہت سے پھل ہوتے ہیں، جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو اور کچھ کھاتے ہو۔

وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ (۲۰)

اور وہ درخت جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے اور کھانے والے کے لئے سالن ہے ۔

اس سے زیتون کا درخت مراد ہے، جس کا روغن تیل کے طور پر اور پھل سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

سالن کو  صِبْغٍ،ُ رنگ کہا ہے کیونکہ روٹی، سالن میں ڈبو کر، گویا رنگی جاتی ہے۔

  طُورِ سَيْنَاءَ (پہاڑ) اور اس کا قرب و جوار خاص طور پر اس کی عمدہ قسم کی پیداوار کا علاقہ ہے۔

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ

تمہارے لئے چوپایوں میں بھی بڑی بھاری عبرت ہے۔

نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (۲۱)

 ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور بھی بہت سے نفع تمہارے لئے ان میں ہیں ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔‏

وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (۲۲)

اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کرائے جاتے ہو

یعنی رب کی ان نعمتوں سے تم فیض یاب ہوتے ہو، کیا وہ اس لائق کہ تم اس کا شکر ادا کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت اور اطاعت کرو۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ (۲۳)

یقیناً ہم نے نوح ؑ  کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا،

 اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) نہیں ڈرتے۔‏

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ

اس کی قوم کے کافر سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے

یعنی یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے، یہ کس طرح نبی اور رسول ہو سکتا ہے؟

 اور اگر یہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے تو اصل مقصد اس سے تم پر فضیلت اور بہتری حاصل کرنا ہے۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ (۲۴)

اگر اللہ ہی کو منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو اتارتا‘(١)  ہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانے میں سنا ہی نہیں۔

۱۔  اور اگر واقع اللہ اپنے رسول کے ذریعہ سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، تو وہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا نہ کہ کسی انسان کو، وہ ہمیں آ کر توحید کا مسئلہ سمجھاتا۔

۲۔  یعنی اس کی دعوت توحید، ایک نرالی دعوت ہے، اس سے پہلے ہم نے اپنے باپ دادوں کے زمانے میں تو یہ سنی ہی نہیں۔

إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينٍ (۲۵)

یقیناً اس شخص کو جنون ہے، پس تم اسے ایک وقت مقرر تک ڈھیل دو ۔

یہ ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، بیوقوف اور کم عقل سمجھتا اور کہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ہی دیوانہ ہے اسے ایک وقت تک ڈھیل دو، موت کے ساتھ ہی اس کی دعوت بھی ختم ہو جائے گی یا ممکن ہے اس کی دیوانگی ختم ہو جائے اور اس دعوت کو ترک کر دے۔

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (۲۶)

نوح ؑنے دعا کی اے میرے رب ان کو جھٹلانے پر تو میری مدد کر

ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ و دعوت کے بعد، بالآخر رب سے دعا کی،

فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (۵۴:۱۰)

نوح علیہ السلام نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر

اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق کشتی تیار کرو۔

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا

تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا

فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ

جب ہمارا حکم آجائے (١) اور تنور ابل پڑے (٢) تو تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لے (٣)

۱۔ یعنی ان کی ہلاکت کا حکم آ جائے۔

۲۔  تنور پر حاشیہ سورہ ہود میں گزر چکا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین سے مراد ہے ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہوگئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔نوح علیہ السلام کو ہدایت جاری ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے۔

۳۔  یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات ہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا (نر مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے۔

وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ

اور اپنے اہل کو بھی، مگر ان میں سے جن کی بابت ہماری بات پہلے گزر چکی ہے

یعنی جن کی ہلاکت کا فیصلہ، ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہو چکا ہے، جیسے زوجہ نوح علیہ السلام اور انکا بیٹا۔

وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ (۲۷)

خبردار جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کرنا وہ تو سب ڈبوئے جائیں گے ۔

یعنی جب عذاب کا آغاز ہو جائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے۔ کیونکہ ان کے غرق کرنے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (۲۸)

جب تو اور تیرے ساتھی کشتی پر باطمینان بیٹھ جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہی ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی۔‏

وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (۲۹)

اور کہنا کہ اے میرے رب! (١) مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں میں ۔‏(٢)

۱۔ کشتی میں بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ان ظالموں کو بالآخر غرق کر کے، ان سے نجات عطا فرمائی اور کشتی کے خیرو عافیت کے ساتھ کنارے پر لگنے کی دعا کرنا۔

رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ

۲۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

اللّٰہُ اَکْبَرْ، اللّٰہ اَکْبَرْ، ا للّٰہُ اَکْبَرْ

سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَ ا وَمَا کُنَّا لَہ، مُقْرِنِیْنَ وَ اِ نَّا اِلٰی رَ بِّنَا لْمُنْقَلِمُوْ نَ

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ وَإِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِينَ (۳۰)

یقیناً اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں (١) اور ہم بیشک آزمائش کرنے والے ہیں۔‏ (٢)

۱۔ یعنی اس سرگزشت نوح علیہ السلام میں اہل ایمان کو نجات اور کفروں کو ہلاک کر دیا گیا، نشانیاں ہیں اس امر پر کہ انبیاء جو کچھ اللہ کی طرف سے لے کر آتے ہیں، ان میں وہ سچے ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر اور کشمکش حق و باطل میں ہر بات سے آگاہ ہے اور وقت آنے پر اس کا نوٹس لیتا ہے اور اہل باطل کی پھر اس طرح گرفت کرتا ہے کہ اس کے شکنجے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔

۲۔  اور ہم انبیاء و رسل کے ذریعے سے یہ آزمائش کرتے رہے ہیں۔

ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ (۳۱)

پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور امت پیدا کی

اکثر مفسرین کے نزدیک قوم نوح کے بعد، جس قوم کو اللہ نے پیدا فرمایا اور ان میں رسول بھیجا، وہ قوم عاد ہے کیونکہ اکثر مقامات پر قوم نوح کے جانشین کے طور پر عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔

 بعض کے نزدیک یہ قوم ثمود ہے کیونکہ آگے چل کر ان کی ہلاکت کے ذکر میں کہا گیا کہ زبردست چیخ نے ان کو پکڑ لیا، اور یہ عذاب قوم ثمود پر آیا تھا۔

 بعض کے نزدیک یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اہل مدین  ہے کہ ان کی ہلاکت بھی چیخ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔

فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ (۳۲)

پھر ان میں خود ان میں سے (ہی) رسول بھی بھیجا (١) کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (٢) تم کیوں نہیں ڈرتے؟‏

۱۔ یہ رسول بھی ہم نے انہی میں سے بھیجا، جس کی نشو و نما ان کے درمیان ہی ہوئی تھی، جس کو وہ اچھی طرح پہچانتے تھے، اس کے خاندان، مکان اور جائے پیدائش ہرچیز سے واقف تھے۔

۲۔  اس نے آ کر سب سے پہلے وہی توحید کی دعوت دی جو ہر نبی کی دعوت و تبلیغ کا سرنامہ رہی۔

وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

اور سردار قوم (١) نے جواب دیا، جو کفر کرتے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے انہیں دنیاوی زندگی میں خوشحال کر رکھا تھا (٢)

۱۔ یہ سردار قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کو جھٹلاتے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہیں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔

۲۔  یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیاوی آسائشوں کی فروانی، یہ دو بنیادی سبب تھے، اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے۔ آج بھی باطل انہیں اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔

مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ (۳۳)

کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، تمہاری ہی خوراک یہ بھی کھاتا ہے اور تمہارے پینے کا پانی ہی یہ بھی پیتا ہے ۔

چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے؟جیسے آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسولﷺ کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔

وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ (۳۴)

اگر تم نے اپنے جیسے ہی انسان کی تابعداری کر لی تو بیشک تم سخت خسارے والے ہو ۔

وہ خسارہ ہی ہے کہ اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر تم اس کی فضیلت و برتری کو تسلیم کر لو گے، جب کہ ایک بشر، دوسرے بشر سے افضل کیوں کر ہو سکتا ہے۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو مکرین بشریت رسول کے دماغوں میں رہا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس بشر کو رسالت کے لیے چن لیتا ہے تو وہ اس وحی رسالت کی وجہ سے دوسرے تمام غیر نبی انسانوں سے شرف و فضل میں بہت بالا اور نہایت ارفع ہو جاتا ہے۔

أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ (۳۵)

کیا یہ تمہیں اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر صرف خاک اور ہڈی رہ جاؤ گے تو تم پھر زندہ کیے جاؤ گے۔‏

هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ (۳۶)

نہیں نہیں دور اور بہت دور ہے وہ جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو ۔

 هَيْهَاتَ ، جس کے معنی دور کے ہیں، دو مرتبہ تاکید کے لیے ہے۔

إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ (۳۷)

(زندگی) تو صرف دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے جیتے رہتے ہیں اور یہ نہیں کہ ہم اٹھائے جائیں گے۔‏

إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِينَ (۳۸)

یہ تو بس ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر جھوٹ (بہتان) باندھ لیا ہے، (١) ہم تو اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔‏

یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ، یہ ایک نرا جھوٹ ہے جو یہ شخص اللہ پر باندھ رہا ہے۔

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (۳۹)

نبی نے دعا کی کہ پروردگار! ان کے جھٹلانے پر میری مدد کر

بالآخر، حضرت نوح علیہ السلام کی طرح، اس پیغمبر نے بھی بارگاہ الٰہی میں، مدد کے لئے، دست دعا دراز کر دیا۔

قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ (۴۰)

جواب ملا کہ یہ تو بہت ہی جلد اپنے کیے پر پچھتانے لگیں گے

 عَمَّا میں  ما زائد ہے جو مجرور کے درمیان، قلت زمان کی تاکید کے لیے آیا ہے جیسے  فبما رحمتہ من اللہ میں  ما زائد ہے یعنی بہت جلد عذاب آنا ہے جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتاوا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ یعنی بہت جلد عذاب آنے والا ہے، جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً ۚ

بالآخر عدل کے تقاضے کے مطابق چیخ (١) نے پکڑ لیا اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ کر ڈالا (٢)

 ۱۔ یہ چیخ کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی چیخ تھی،

بعض کہتے ہیں کہ ویسے ہی سخت چیخ تھی، جس کے ساتھ باد صر صر بھی تھی۔ دونوں نے مل کر ان کو چشم زدن میں فنا کے گھاٹ اتار دیا۔

 ۲۔  غُثَاءً اس کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جو سیلابی پانی کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں درختوں کے پتے، خشک تنے، تنکے اور اسی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ جب پانی کا زور ختم ہو جاتا ہے، تو خشک ہو کر بیکار پڑے ہوتے ہیں، یہی حال ان منکرین اور متکبرین کا ہوا۔

فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (۴۱)

پس ظالموں کے لئے دوری ہو۔‏

ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ (۴۲)

ان کے بعد ہم نے اور بھی بہت سی امتیں پیدا کیں

اس سے مراد حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کی قومیں ہیں، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں اسی ترتیب سے ان کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔

بعض کے نزدیک بنو اسرائیل مراد ہیں۔

  قُرُون ، قرن کی جمع ہے اور یہاں بمعنی امت استعمال ہوا ہے۔

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ (۴۳)

نہ تو کوئی امت اپنے وقت مقرہ سے آگے بڑھی اور نہ پیچھے رہی

یعنی سب امتیں بھی قوم نوح اور عاد کی طرح، جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا تو تباہ اور برباد ہوگئیں، ایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوئیں۔

جیسے فرمایا:

إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ۔ (۱۰:۴۹)

ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ

پھر ہم نے لگاتار رسول بھیجے (١) جب جب جس امت کے پاس اس کا رسول آیا اس نے جھٹلایا،

 تَتْرَى کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔

فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ

پس ہم نے ایک کو دوسرے کے پیچھے لگا دیا (۱) اور انہیں افسانہ بنا دیا۔ (۲)

۱۔  ہلاکت اور بربادی میں۔

یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔

۲۔  جس طرح  اَعَاجِیْبُ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح  اَحَاحِیْثُ اُحْدُوْثَۃً کی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلو قات کے واقعات اور قصص۔

فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ (۴۴)

ان لوگوں کو دوری ہے جو ایمان قبول نہیں کرتے۔‏

ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَى وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۴۵)

پھر ہم نے موسیٰ ؑ کو اور اس کے بھائی ہارون ؑ کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیل (١) کے ساتھ بھیجا۔‏

 آيَات سے مراد وہ نو آیات ہیں، جن کا ذکر سورہ اعراف میں ہے، جن کی وضاحت گزر چکی ہے

 سُلْطَانٍ مُبِينٍ سے مراد واضح اور پختہ دلیل ہے، جس کا کوئی جواب فرعون اور اس کے درباریوں سے نہ بن پڑا۔

إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ (۴۶)

فرعون اور اس کے لشکروں کی طرف، پس انہوں نے تکبر کیا اور تھے ہی وہ سرکش لوگ ۔

استکبار اور اپنے کو بڑا سمجھنا، اس کی بنیادی وجہ بھی وہی عقیدہ آخرت سے انکار اور اسباب دنیا کی فروانی ہی تھی، جس کا ذکر پچھلی قوموں کے واقعات میں گزرا۔

فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ (۴۷)

کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے جیسے دو شخصوں پر ایمان لائیں؟ حالانکہ خود ان کی قوم (بھی) ہمارے ماتحت ہے۔‏

یہاں بھی انکار کے لیے دلیل انہوں نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی بشریت ہی پیش کی اور اسی بشریت کی تاکید کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسی قوم کے افراد ہیں جو ہماری غلام ہے۔

فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ (۴۸)

پس انہوں نے دونوں کو جھٹلایا آخر وہ بھی ہلاک شدہ لوگوں میں مل گئے۔‏

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (۴۹)

ہم نے موسیٰ ؑ  کو کتاب (بھی) دی کہ لوگ راہ راست پر آجائیں ۔

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مؤمنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (۵۰)

ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا (١) اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی (٢) والی جگہ میں پناہ دی۔‏

۱۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے اور بی بی حوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم علیہ السلام سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔

۲۔   رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور  مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورہ مریم میں گزرا۔

يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (۵۱)

اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو (١) تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔‏

 الطَّيِّبَاتِ سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں،

بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔

دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کر دی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔

  خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔

حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسر کے معاون ہیں۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔

چنانچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے 'کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے '

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا ۔ (صحیح بخاری)

وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ (۵۲)

یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے (١) اور میں ہی تم سب کا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو۔‏

اُ  مَّۃ سے مراد دین ہےاور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ و عمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (۵۳)

پھر انہوں نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لئے، ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر اترا رہا ہے۔‏

فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ حَتَّى حِينٍ (۵۴)

پس آپ (بھی) انہیں انکی غفلت میں ہی کچھ مدت پڑا رہنے دیں۔

گمراہی کی تاریکیاں بھی اتنی گمبھیر ہوتی ہیں کہ اس میں گھرے ہوئے انسان کی نظروں سے حق اوجھل ہی رہتا ہے

 عُمرۃ، حیرت، غفلت اور ضلالت ہے۔ آیت میں بطور دھمکی ان کو چھوڑنے کا حکم ہے، مقصود وعظ و نصیحت سے روکنا نہیں ہے۔

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ (۵۵)

کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔‏

نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ (۵۶)

وہ ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں۔‏

إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ (۵۷)

یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔‏

وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ (۵۸)

یقیناً جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‏

وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ (۵۹)

اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے‏

وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ (۶۰)

اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ نامقبول قرار نہ پائے۔

حدیث میں آتا ہے۔

 حضرت عائشہؓ نے پوچھا ' ڈرنے والے کون ہیں؟  وہ جو شراب پیتے، بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں؟

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نامقبول نہ ٹھہریں ۔ (ترمذی تفسیر سورہ المؤمن ون۔ مسند احمد ٦۔١٩٥۔١٦٠)۔

أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (۶۱)

یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں۔‏

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ ۚ

ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے (١) اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے،

ایسی ہی آیت سورہ بقرہ کے آخر میں گزر چکی ہے۔

وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (۶۲)

ان کے اوپر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔‏

بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِنْ هَذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذَلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ (۶۳)

بلکہ ان کے دل اس طرف سے غفلت میں ہیں اور ان کے لئے اس کے سوا بھی بہت سے اعمال ہیں (١) جنہیں وہ کرنے والے ہیں۔‏

یعنی شرک کے علاوہ دیگر برائیاں یا اعمال مراد ہیں، جو مؤمنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

حَتَّى إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِمْ بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ (۶۴)

یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیا (١) تو بلبلانے لگے۔‏

عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔

 یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔

اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔

لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّكُمْ مِنَّا لَا تُنْصَرُونَ (۶۵)

آج مت بلبلاؤ یقیناً تم ہمارے مقابلہ پر مدد نہ کئے جاؤ گے ۔

یعنی دنیا میں عذاب الٰہی سے دوچار ہو جانے کے بعد کوئی چیخ پکار انہیں اللہ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتی۔ اسی طرح عذاب آخرت سے بھی انہیں چھڑانے والا یا مدد کرنے والا، کوئی نہیں ہوگا۔

قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُونَ (۶۶)

میری آیتیں تو تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں (١) پھر بھی تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے (٢)‏

۱۔ یعنی قرآن مجید یا کلام الٰہی، جن میں پیغمبر کے فرمودات بھی شامل ہیں۔

۲۔  یعنی آیا احکام الٰہی سن کر تم منہ پھیر لیتے تھے اور ان سے بھا گتے تھے۔

مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ (۶۷)

اکڑتے اینٹھتے (١) افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے ۔ (۲)

۱۔ یعنی انہیں اپنی تولیت خانہ کعبہ اور اس کا خادم و نگران ہونے کا جو غرور تھا، اس کی بنا پر آیات الٰہی کا انکار کیا

 اور بعض نے اس کا مرجع قرآن کو بنایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل میں کھلبلی پیدا ہو جاتی جو انہیں قرآن پر ایمان لانے سے روک دیتی۔

۲۔   سَامِرًا کے معنی ہیں رات کی گفتگو  

یہاں اس کے معنی خاص طور پر ان باتوں کے ہیں جو قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ کرتے تھے اور اس کی بنا پر وہ حق کی بات سننے اور قبول کرنے سے انکار کر دیتے۔ یعنی چھوڑ دیتے۔

اور بعض نے  ہجر کے معنی فحش گوئی کے کئے ہیں۔ یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں بےہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو، جن میں کوئی بھلائی نہیں۔  (فتح القدیر)

أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ (۶۸)

کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا (١) بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا ۔‏(٢)

۱۔ بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کر لیتے تو انہیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہو جاتی۔

۲۔  یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کر لینا چاہیے تھا۔

أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (۶۹)

یا انہوں نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں ۔

یہ بطور توبیخ کے ہے، کیونکہ وہ پیغمبر کے نسب، خاندان اور اسی طرح اس کی صداقت و امانت، راست بازی اور اخلاق و کردار کی بلندی کو جانتے تھے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔

أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ (۷۰)

یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہے (١) بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لایا ہے۔ ہاں ان میں اکثر حق سے چڑنے والے ہیں ۔‏(٢)

۱۔ یہ بھی زجر و توبیخ کے طور پر ہی ہے یعنی اس پیغمبر نے ایسا قرآن پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اور امن و سکون کا باعث ہیں۔ کیا ایسا قرآن اور ایسی تعلیمات ایسا شخص بھی پیش کر سکتا ہے جو دیوانہ اور مجنون ہو۔

 ۲۔  یعنی ان کے اعراض اور استکبار کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت (ناپسدیدگی) ہے جو عرصہ دراز سے باطل کو اختیار کئے رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ

اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز درہم برہم ہو جائے

 حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔

یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتے ہیں۔

بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ (۷۱)

حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں۔‏

أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (۷۲)

کیا آپ ان سے کوئی اجرت چاہتے ہیں؟ یاد رکھئے کہ آپ کے رب کی اجرت بہت ہی بہتر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی رساں ہے۔‏

وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۷۳)

یقیناً آپ انہیں راہ راست کی طرف بلا رہے ہیں۔‏

وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ (۷۴)

بیشک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے مڑ جانے والے ہیں ۔

یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔

وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۷۵)

اور اگر ہم ان پر رحم فرمائیں اور ان کی تکلیفیں دور کر دیں تو یہ تو اپنی اپنی سرکشی میں جم کر اور بہکنے لگیں

اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض و عناد تھا اور کفر و شرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔

وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ (۷۶)

اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی ۔

عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی

' اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انہیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما '

چنانچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہوگئے جس پر حضرت سفیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی ۔ (ابن کثیر)

حَتَّى إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (۷۸)

یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی وقت فوراً مایوس ہوگئے

اس سے دنیا کا عذاب بھی مراد ہو سکتا ہے اور آخرت کا بھی، جہاں وہ تمام راحت اور خیر سے مایوس اور محروم ہوں گے اور تمام امیدیں منقطع ہو جائیں گی۔

وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (۷۸)

وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے، مگر تم بہت (ہی) کم شکر کرتے ہو

یعنی عقل و فہم اور سننے کی صلاحتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔

وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (۷۹)

اور وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کرکے زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے ۔

اس میں اللہ کی قدرت عظیمہ کا بیان ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں پیدا کر کے مختلف اطراف میں پھیلا دیا ہے۔ تمہارے رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف، زبانیں بھی مختلف اور عادات و رسومات بھی مختلف۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ تم سب کو زندہ کر کے وہ اپنی بارگاہ میں جمع فرمائے گا۔

وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۸۰)

اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور رات دن کے ردو بدل (١) کا مختار بھی وہی ہے۔ کیا تم کو سمجھ بوجھ نہیں (٢)‏

۱۔ یعنی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا، پھر رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا۔

۲۔  جس سے تم یہ سمجھ سکو کہ یہ سب کچھ اس ایک اللہ کی طرف سے ہے جو ہرچیز پر غالب ہے اور اس کے سامنے ہرچیز جھکی ہے۔

بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ (۸۱)

بلکہ ان لوگوں نے بھی ویسی ہی بات کہی جو اگلے کہتے چلے آئے‏

قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (۸۲)

کہ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا پھر بھی ہم ضرور اٹھائے جائیں گے۔‏

لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (۸۳)

ہم سے ہمارے باپ دادوں سے پہلے ہی سے یہ وعدہ ہوتا چلا آیا ہے کچھ نہیں یہ صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔‏

یہ سب لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے آباؤ اجداد سے، لیکن ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۸۴)

پوچھیے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو۔‏

سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (۸۵)

فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔‏

قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (۸۶)

دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے؟‏

سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ

وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔

قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (۸۷)

کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ۔

یعنی جب تمہیں تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیا کا خالق بھی ایک اللہ ہے آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے، تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے، پھر تم اس کی واحدانیت کو تسلیم کر کے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔

قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۸۸)

پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جو پناہ دیتا ہے (١) اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا (٢)

اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ؟‏

۱۔ یعنی جس کی حفاظت کرنا چاہے اسے اپنی پناہ میں لے لے، کیا اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

۲۔  یعنی جس کو وہ نقصان پہنچانا چاہے، کیا کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی ہے کہ وہ اسے نقصان سے بچا لے اور اللہ کے مقابلے میں اپنی پناہ میں لے لے؟

سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ

یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔

قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ (۸۹)

کہہ دیجئے پھر تم کدھر جادو کر دیئے جاتے ہو

یعنی پھر تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو؟

قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اسکی خالقیت و مالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے۔ انہیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا۔ یعنی عبادت صرف ایک اللہ کی نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے اس لئے نہیں کہ آسمان و زمین کی تخلیق یا تدبیر میں کوئی اور بھی شریک ہے بلکہ صرف اس مغالطے کی بنا پر کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے اختیار دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔

بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (۹۰)

حق یہ ہے کہ ہم نے انہیں حق پہنچا دیا ہے اور یہ بیشک جھوٹے ہیں۔‏

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ ۚ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ۚ

نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا

سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (۹۱)

جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ہے۔‏

عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (۹۲)

وہ غائب حاضر کا جاننے والا ہے اور جو شرک یہ کرتے ہیں اس سے بالا تر ہے۔‏

قُلْ رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ (۹۳)

آپ دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وہ دکھائے جس کا وعدہ انہیں دیا جا رہا ہے۔‏

رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (۹۴)

تو اے رب! تو مجھے ان ظالموں کے گروہ میں نہ کرنا

چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے:

وَ اِذَا اَرَدَتَ بِقَوْمِ فِتْنَۃ،ُ فَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنِ

اے اللہ جب تو کسی قوم پر آزمائش یا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے۔(ترندی و مسند احمد)

وَإِنَّا عَلَى أَنْ نُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ (۹۵)

ہم جو کچھ وعدے انہیں دے رہے ہیں سب آپ کو دکھا دینے پر یقیناً قادر ہیں۔‏

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ

برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو،

جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا :

برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔ حٰم السجدہ (۳٤۔٣٥)

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ (۹۶)

جو کچھ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں۔‏

وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ (۹۷)

اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے اس طرح پناہ مانگتے

وَ اَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ حَمْزِہِ وَ نَفُخِہِ وَنَفْثِہِ۔ (ابو داؤد)

وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ (۹۸)

اور اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں  

اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ ہر اہم کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرو یعنی بسم اللہ پڑھ کر، کیونکہ اللہ کی یاد، شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔ اسی لئے آپ یہ دعا بھی مانگتے تھے۔

اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْحَرَمِ وَ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْغَرَقِ، و اَعُوذُبِکَ اَنْ یَّتَخَبَّطَنِیْ الشَّیْطَانُ عِنْدَالمُوْتِ۔  (ابو داؤد)

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (۹۹)

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے۔‏

لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ

کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں (١) ہرگز ایسا نہیں ہوگا (٢)

۱۔ یہ آرزو، ہر کافر موت کے وقت، دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت، بارگاہ الٰہی میں قیامت کے وقت اور جہنم میں دھکیل دیئے جانے کے وقت کرتا ہے اور کرے گا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو متعدد، جگہ بیان کیا گیا ہے۔

۲۔   كَلَّا ، ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے۔

إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے (۱) ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ۔‏(۲)۱۰۰)

۱۔  اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ایسی بات ہے کہ جو ہر کافر نزع (جان کنی) کے وقت کہتا ہے۔

 دوسرے معنی ہیں کہ یہ صرف بات ہی بات ہے عمل نہیں، اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو ان کا یہ قول، قول ہی رہے گا عمل اصلاح کی توفیق انہیں پھر نصیب نہیں ہوگی، کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا، بلکہ عمل صالح کے لئے دنیا میں آنے کی آرزو کرے گا۔ اس لئے زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عمل صلاح کر لئے جائیں تاکہ کل قیامت کو یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔  (ابن کثیر)

 ۲۔  دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اسے یہاں برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہوگا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی ہے۔ انسان کا وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہوگا، بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہوگا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا یا دریاؤں میں بہا دیا ہوگا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (۱۰۱)

پس جب صور پھونک دیا جائیگا اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ

محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ابتداء ایسا ہوگا، بعد میں وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور ایک دوسرے سے پوچھ گچھ بھی کریں گے۔

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۱۰۲)

جن کی ترازو کا پلہ بھاری ہوگیا وہ تو نجات والے ہوگئے۔‏

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ (۱۰۳)

اور جن کے ترازو کا پلہ ہلکا ہوگیا یہ ہیں وہ جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا جو ہمیشہ جہنم واصل ہوئے۔‏

تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ (۱۰۴)

ان کے چہروں کو آگ جھلستی رہے گی (١) اور وہ وہاں بد شکل بنے ہوئے ہونگے ۔‏(٢)

۱۔ چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ انسانی وجود کا سب سے اہم اور اشرف حصہ ہے، ورنہ جہنم تو پورے جسم کو ہی محیط ہوگی۔

۲۔   کَلَحً کے معنی ہوتے ہیں ہونٹ سکڑ کر دانت ظاہر ہو جائیں۔

 ہونٹ گویا دانتوں کا لباس ہیں، جب یہ جہنم کی آگ سے سمٹ اور سکڑ جائیں گے تو دانت ظاہر ہو جائیں گے، جس سے انسان کی صورت بدشکل اور ڈراؤنی ہو جائے گی۔

أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (۱۰۵)

کیا میری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت نہیں کی جاتی تھیں؟ پھر بھی تم انہیں جھٹلاتے تھے۔‏

قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ (۱۰۶)

کہیں گے کہ اے پروردگار ! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی (واقعی) ہم تھے ہی گمراہ۔‏

رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ (۱۰۷)

اے پروردگار! ہمیں یہاں سے نجات دے اگر اب بھی ہم ایسا ہی کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں۔‏

قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ (۱۰۸)

اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھٹکارے ہوئے یہیں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔‏

إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (۱۰۹)

میرے بندوں کی ایک جماعت تھی جو برابر یہی کہتی رہی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لا چکے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما

 تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔‏

فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّى أَنْسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ (۱۱۰)

(لیکن) تم انہیں مذاق ہی اڑاتے رہے یہاں تک کہ (اس مشغلے نے) تم کو میری یاد (بھی) بھلا دی اور تم ان سے مذاق کرتے رہے۔‏

إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ (۱۱۱)

میں نے آج انہیں ان کے اس صبر کا بدلہ دے دیا ہے کہ وہ خاطر خواہ اپنی مراد کو پہنچ چکے ہیں۔

دنیا میں اہل ایمان کے لئے ایک صبر آزما مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب دین و ایمان پر عمل کرتے ہیں تو دین سے ناآشنا اور ایمان سے بےخبر لوگ انہیں ہنسی مذاق و ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کتنے ہی کمزور ایمان والے ہیں کہ وہ ان ملامتوں سے ڈر کر بہت سے احکام اللہ پر عمل کرنے سے کرتے ہیں، جیسے ڈاڑھی ہے، پردے کا مسئلہ ہے، شادی بیاہ کی ہندوانہ رسومات سے اجتناب ہے وغیرہ وغیرہ۔

 خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی بھی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ و رسول کی اطاعت سے کسی بھی موقع پر انحراف نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور انہیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔

قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ (۱۱۲)

اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے؟‏

قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ (۱۱۳)

وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجئے

اس سے مراد فرشتے ہیں، جو انسانوں کے اعمال اور عمریں لکھنے پر مامور ہیں یا وہ انسان مراد ہیں جو حساب کتاب میں مہارت رکھتے ہیں۔

قیامت کی ہولناکیاں، ان کے ذہنوں سے دنیا کی عیش و عشرت کو محو کر دیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی جیسے دن یا آدھا دن۔ اس لئے وہ کہیں گے کہ ہم تو ایک دن یا اس سے بھی کم وقت دنیا میں رہے۔ بیشک تو فرشتوں سے یا حساب جاننے والوں سے پوچھ لے۔

قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۱۴)

اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو اے کاش! تم اسے پہلے ہی جان لیتے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یقیناً دنیا کی زندگی بہت ہی قلیل ہے۔ لیکن اس نکتے کو دنیا میں تم نے نہیں جانا کاش تم دنیا میں اس کی حقیقت سے دنیا کی بےثباتی سے آگاہ ہو جاتے، تو آج تم بھی اہل ایمان کی طرح کامیاب و کامران ہوتے۔

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (۱۱۵)

کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔‏

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (۱۱۶)

اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے (١) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے (٢)‏

۱۔ یعنی وہ اس سے بہت بلند کہ وہ تمہیں بغیر کسی مقصد کے یوں ہی ایک کھیل کے طور پر بےکار پیدا کیا اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا۔ اسی لئے آگے فرمایا وہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

۲۔  عرش کی صفت کریم بیان فرمائی کہ وہاں سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ ۚ

جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (۱۱۷)

بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ فلاح اور کامیابی آخرت میں عذاب الٰہی سے بچ جانا ہے، محض دنیا کی دولت اور آسائشوں کی فروانی، کامیابی نہیں، یہ دنیا میں کافروں کو بھی حاصل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان سے فلاح کی نفی فرما رہا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اصل فلاح آخرت سے فلاح ہے جو اہل ایمان کے حصے آئے گی، نہ کہ دنیاوی مال و اسباب کی کثرت، جو کہ بلا تفریق مؤمن  اور کافر، سب کو ہی حاصل ہوتی ہے۔

وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (۱۱۸)

اور کہو کہ اے میرے رب! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں سے بہتر مہربانی کرنے والا ہے۔‏

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter