Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Yasin

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 يس (۱)

یٰسِین

بعض نے اس کے معنی یا رجل یا انسان کے کئے ہیں۔ بعض نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور بعض نے اسے اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بتلایا ہے۔ لیکن یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔

یہ بھی ان حروف مقطعات میں سے ہی ہے۔ جن کا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (۲)

‏ قسم ہے قرآن با حکمت کی

یا قرآن محکم کی، جو نظم و معنی کے لحاظ سے محکم یعنی پختہ ہے۔ واؤ قسم کے لئے ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔

إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (۳)

کہ بیشک آپ پیغمبروں میں سے ہیں (١)‏

مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شک کرتے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرتے اور کہتے تھے

 لَسْتَ رُسَلًا (۱۳:۴۳)  ' تو تو پیغمبر ہی نہیں '

اللہ نے ان کے جواب میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرف و فضل و اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لئے قسم نہیں کھائی یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازات اور خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اثبات کے لئے قسم کھائی۔

عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۴)

سیدھے راستے پر ہیں  

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پیغمبروں کے راستے پر ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔

یا ایسے راستے پر ہیں جو سیدھا اور مطلوب منزل (جنت) تک پہنچانے والا۔

تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (۵)

یہ قرآن اللہ زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے  

یعنی اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو عزیز ہے یعنی اس کا انکار اور اس کے رسول کو جھوٹا کرنے والے سے انتقام لینے پر قادر ہے

رحیم ہے۔ یعنی جو اس پر ایمان لائے گا اور اس کا بندہ بن کر رہے گا اس کے لئے نہایت مہربان۔

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ (۶)

تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے تھے، سو (اسی وجہ سے) یہ غافل ہیں

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بےخبر ہیں۔

یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے۔

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۷)

ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہو چکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے  

جیسے ابو جہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔

بات ثابت ہونے کا مطلب، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ' میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا ' (۳۲:۱۳)

شیطان سے بھی خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا تھا ' میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دونگا۔

 یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ نے جبراً ان کو ایمان سے محروم رکھا کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق قرار نہ پاتے۔

إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ (۸)

ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے انکے سر اوپر الٹ گئے ہیں  

جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں  نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچے کئے ہوئے ہیں۔

 یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزا جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسر التفاسیر)

وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (۹)

اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی (١) جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا (٢) سو وہ نہیں دیکھ سکتے۔‏

۱۔ یعنی دنیا کی زندگی ان کے لئے مزین کردی گئی، یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے، جس کی وجہ سے وہ لذائذ دنیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب ہے اور آخرت کا تصور ان کے ذہنوں میں ناممکن الواقع کر دیا گیا، یہ گویا ان کے پیچھے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں کیونکہ آخرت کا کوئی خوف ہی ان کے دلوں میں نہیں ہے۔

۲۔ یا ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی، یا انہیں اندھا کردیا ہے جس سے وہ دیکھ نہیں سکتے یہ ان کے حال کی دوسری تمثیل ہے۔

وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۱۰)

اور آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں دونوں برابر ہیں، یہ ایمان نہیں لائیں گے۔‏

یعنی جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہی کے اس مقام تک پہنچ جائیں، ان کے لئے اندازہ بےفائدہ رہتا ہے۔

إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ ۖ

بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں (١) جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بےدیکھے ڈرے،

یعنی انذار سے صرف اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔

فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (۱۱)

سو آپ اس کو مغفرت اور با وقار اجر کی خوش خبریاں سنا دیجئے۔‏

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ

بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے (١)

اور ہم لکھتے جاتے ہیں اور وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں

یعنی قیامت والے دن

یہاں احیائے موتی کے ذکر سے یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں میں سے جس کا دل چاہتا ہے، زندہ کر دیتا ہے جو کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ پس وہ ہدایت اور ایمان کو اپنا لیتے ہیں۔

وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (۱۲)

اور ہم نے ہرچیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے (٢)‏

اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے صحائف اعمال مراد لیے ہیں۔

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ (۱۳)

اور آپ ان کے سامنے ایک مثال (یعنی ایک) بستی والوں کی مثال (اس وقت کا) بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں (کئی) رسول آئے

تاکہ اہل مکہ یہ سمجھ لیں کہ آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں، بلکہ رسالت و نبوت کا یہ سلسلہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔

إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ (۱۴)

جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے (اول) دونوں کو جھٹلایا

پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی سو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں

یہ تین رسول کون تھے؟

مفسرین نے ان کے مختلف نام بیان کئے ہیں، لیکن نام مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھیجے ہوئے تھے، جو انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک بستی میں تبلیغ و دعوت کے لئے بھیجے تھے۔ بستی کا نام انطاکیہ تھا۔

قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ (۱۵)

ان لوگوں نے کہا تم تو ہماری طرح معمولی آدمی ہو اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی۔ تم نرا جھوٹ بولتے ہو۔‏

قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ (۱۶)

ان (رسولوں) نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بیشک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔‏

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (۱۷)

اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔‏

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ

انہوں نے کہا کہ ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں

ممکن ہے کچھ لوگ ایمان لے آئے ہوں اور ان کی وجہ سے قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ہو، جس کو انہوں نے رسولوں کی نَعْوذُ بِاللّٰہِ نحوست قرار دیا۔ یا بارش کا سلسلہ موقوف رہا ہو تو وہ سمجھے ہوں کہ یہ ان رسولوں کی نحوست ہے۔ نَعْوذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ، جیسے آج کل بھی بد نہاد اور دین وشریعت سے بےبہرہ لوگ، اہل ایمان وتقویٰ کو ہی، منحوس، سمجھتے ہیں۔

لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۸)

 اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کر دیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔‏

قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ ۚ

ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے ،

یعنی وہ تمہارے اپنے اعمال بد کا نتیجہ ہے جو تمہارے ساتھ ہی ہے نہ کہ ہمارے ساتھ۔

أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (۱۹)

کیا اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جائے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔‏

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ (۲۰)

اور ایک شخص(اس) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راہ پر چلو

یہ شخص مسلمان تھا، جب اسے پتہ چلا کہ قوم پیغمبروں کی دعوت کو نہیں اپنا رہی، تو اس نے آکر رسولوں کی حمایت اور ان کے اتباع کی ترغیب دی۔

اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ (۲۱)

ایسے لوگوں کی راہ پر چلو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ راہ راست پر ہیں۔‏

وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۷)

اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے

اپنے مسلک توحید کی وضاحت کی، جس سے مقصد اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان کی صحیح رہنمائی ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی قوم نے اس سے کہا ہو کہ کیا تو بھی اس معبود کی عبادت کرتا ہے، جس کی طرف یہ مرسلین ہمیں بلا رہے ہیں اور ہمارے معبودوں کو تو بھی چھوڑ بیٹھا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے کہا۔

مفسرین نے اس شخص کا نام حبیب نجار بتایا۔ واللہ اعلم

أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ (۲۳)

کیا میں اسے چھوڑ کر ایسوں کو معبود بناؤں

کہ اگر (اللہ) رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش مجھے کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ مجھے بچاسکیں ۔‏

یہ ان معبودان باطلہ کی بےبسی کی وضاحت ہے جن کی عبادت اس کی قوم کرتی تھی اور شرک کی اس گمراہی سے نکالنے کے لئے رسول ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔

 نہ بچاسکیں کا مطلب ہے کہ اللہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ بچا نہیں سکتے۔

إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۲۴)

پھر تو یقیناً کھلی گمراہی میں ہوں ۔‏

یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے اختیار اور بےبس معبودوں کی عبادت شروع کر دوں، تو میں بھی کھلی گمراہی میں جا گروں گا۔

 یا ضَلَال یہاں حسران کے معنی میں ہے، یعنی یہ تو نہایت واضح خسارے کا سودا ہے۔

إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ (۲۵)

میری سنو! میں تو (سچے دل سے) تم سب کے رب پر ایمان لا چکا ہوں

اس کی دعوت توحید اور اقرار توحید کے جواب میں قوم نے اسے قتل کرنا چاہا تو اس نے پیغمبروں سے خطاب کر کے یہ کہا مقصد اپنے ایمان پر ان پیغمبروں کو گواہ بنایا تھا۔

یا اپنی قوم سے خطاب کر کے کہا جس سے مقصود دین حق پر اپنی صلاحیت اور استقامت کا اظہار تھا کہ تم جو چاہو کر لو، لیکن اچھی طرح سن لو کہ میرا ایمان اسی رب پر ہے، جو تمہارا بھی رب ہے۔

کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو مار ڈالا اور کسی نے ان کو اس سے نہیں روکا۔ رَحِمَہُ اللّٰہُ تعالیٰ

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (۲۶)

(اس سے) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہو جاتا۔‏

بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ (۲۷)

کہ مجھے رب نے بخش دیا اور مجھے با عزت لوگوں میں سے کر دیا ۔‏

یعنی جس ایمان اور توحید کی وجہ سے مجھے رب نے بخش دیا، کاش میری قوم اس کو جان لے تاکہ وہ بھی ایمان و توحید کو اپنا کر اللہ کی مغفرت اور اس کی نعمتوں کی مستحق ہو جائے۔

 اس طرح اس شخص نے مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی۔ ایک مؤمن صادق کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ ہر وقت لوگوں کی خیر خواہی ہی کرے، بد خواہی نہ کرے اور ان کی صحیح رہنمائی کرے، گمراہ نہ کرے، بیشک لوگ اسے جو چاہے کہیں اور جس قسم کا سلوک چاہیں کریں، حتٰی کہ اسے مار ڈالیں۔

وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ (۲۸)

اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہ اتارا (١) اور نہ اس طرح ہم اتارا کرتے ہیں ۔‏(٢)

۱۔ یعنی حبیب نجار کے قتل کے بعد ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا۔ یہ اس قوم کی حقیر شان کی طرف اشارہ ہے۔

۲۔  یعنی جس قوم کی ہلاکت کسی دوسرے طریقے سے لکھی جاتی ہے وہاں ہم فرشتے نازل بھی نہیں کرتے۔

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ (۲۹)

وہ تو صرف ایک زور کی چیخ تھی کہ یکایک وہ سب کے سب بجھ بھجا گئے

کہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے ایک چیخ ماری، جس سے سب جسموں سے روحیں نکل گئیں اور وہ بجھی آگ کی طرح ہوئے۔ گویا زندگی، شعلہ فروزاں ہے اور موت، اس کا بجھ کر راکھ کا ڈھیر ہو جانا۔

يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ

 (ایسے) بندوں پر افسوس!

حسرت و ندامت کا یہ اظہار خود اپنے نفسوں پر، قیامت والے دن، عذاب دیکھنے کے بعد کریں گے کہ کاش انہوں نے اللہ کے بارے میں کوتاہی نہ کی ہوتی

 یا اللہ تعالیٰ بندوں کے رویے پر افسوس کر رہا ہے کہ ان کے پاس جب بھی کوئی رسول آیا انہوں نے اس کے ساتھ مذاق ہی کیا۔

مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۳۰)

کبھی بھی کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا جس کی ہنسی انہوں نے نہ اڑائی ہو۔‏

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ (۳۱)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہم نے غارت کر دیا کہ وہ ان (١) کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‏

اس میں اہل مکہ کے لئے تنبیہہ ہے کہ تکذیب رسالت کی وجہ سے جس طرح پچھلی قومیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہو سکتے ہیں۔

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (۳۲)

اور نہیں ہے کوئی جماعت مگر یہ وہ جمع ہو کر ہمارے سامنے حاضر کی جائے گی

مطلب یہ ہے کہ تمام لوگ گزشتہ بھی اور آئندہ آنے والے بھی، سب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونگیں جہاں ان کا حساب کتاب ہوگا۔

وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (۳۳)

اور ان کے لئے ایک نشانی (١) (خشک) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کر دیا اور اس سے غلہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں۔‏

یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت اور مردوں کو زندہ کرنے پر نشانی۔

وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ (۳۴)

اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کر دیئے (١) اور جن میں ہم نے چشمے بھی جاری کر دیئے ہیں۔‏

یعنی مردہ زمین کو زندہ کرکے ہم اس سے ان کی خوراک کے لئے صرف غلہ ہی نہیں لگاتے، بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لئے مختلف اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں،

یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ کثیرالمنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے۔

پھر غلے کا ذکر پہلے کیا کیونکہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلمہ۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سے اس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔

لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ (۳۵)

تاکہ (لوگ) اس کے پھل کھائیں (١) اور اس کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا (٢) پھر کیوں شکر گزاری نہیں کرتے۔‏

۱۔ یعنی بعض جگہ چشمے جاری کرتے ہیں، جس کے پانی سے پیدا ہونے والے پھل لوگ کھائیں۔

 ۲۔  امام ابن جریر کے نزدیک یہاں ما نافیہ ہے یعنی غلول اور پھلوں کی یہ پیداوار، اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے۔ اس میں ان کی سعی و محنت، کدو کاوش اور تصرف کا دخل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں نہیں کرتے؟

 اور بعض کے نزدیک ما موصولہ ہے جو الَّذِیْ کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کا پھل کھائیں اور ان چیزوں کو جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا۔ ہاتھوں کا عمل ہے، زمین کو ہموار کرکے بیج بونا،

اسی طرح پھلوں کے کھانے مختلف طریقے ہیں، مثلًا انہیں نچوڑ کر ان کا رس پینا، مختلف پھلوں کو ملا کر چاٹ بنانا وغیرہ۔

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ (۳۶)

وہ پاک ذات ہے جس نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کیے

خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں

یعنی انسانوں کی طرح زمین کی ہر پیداوار میں بھی ہم نے نر مادہ دونوں پیدا کئے۔

 علاوہ ازیں آسمانوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں بھی جو چیزیں تم سے غائب ہیں، جن کا علم تم نہیں رکھتے، ان میں زوجیت (نر اور مادہ) کا یہ نظام ہم نے رکھا ہے۔ پس تمام مخلوق جوڑا جوڑا ہے، نباتات بھی نر اور مادے کا یہی نظام ہے۔

 حتٰی کہ آخرت کی زندگی، دنیا کی زندگی کے لئے بمنزلہ زوج ہے اور یہ حیات آخرت کے لئے ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو مخلوق کی صفت سے اور دیگر تمام کوتاہیوں سے پاک ہے۔ وہ (فرد) ہے، زوج نہیں۔

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ (۳۷)

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں

یعنی اللہ کی قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے، جس سے فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے۔

 اَظْلَمَ کے معنی ہیں، اندھیرے میں داخل ہونا۔ جیسے اَصْبَحَ اور اَمْسَیٰ اور اَظْھَرَ کے معنی ہیں، صبح شام اور ظہر کے وقت میں داخل ہونا۔

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۳۸)

اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا۔

یعنی اپنے اس مدار (فلک) پر چلتا رہتا ہے، جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے، اسی سے اپنی سیر کا آغاز کرتا ہے اور وہیں پر ختم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، کہ کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا جائے۔

دوسرے معنی ہیں، اپنے ٹھہرنے کی جگہ تک، اور اس کا یہ مقام قرار عرش کے نیچے ہے،

 جیسا کہ حدیث میں ہے:

 سورج روزانہ غروب کے بعد عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے ۔ صحیح بخاری، تفسیر سورہ یٰسین

دونوں مفہوم کے اعتبار سے لِمُسْتَقَرٍّ میں لام، علت کے لئے ہے۔ ای: لأجل مستقرلھا

بعض کہتے ہیں کہ لام، الی کے معنی میں ہے، پھر مستقر یوم قیامت ہوگا۔ یعنی سورج کا یہ چلنا قیامت کے دن تک ہے، قیامت والے دن اس کی حرکت ختم ہو جائے گی۔

یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ (۳۹)

اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں (١) کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے (٢)‏

۱۔ چاند کی ٢٨ منزلیں ہیں، روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے

۲۔  یعنی جب آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ چاند کی انہی گردشوں سے اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں۔

لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے (١) اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے (٢)

۱۔ یعنی سورج کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے جس سے اس کی روشنی ختم ہو جائے بلکہ دونوں کا اپنا اپنا راستہ اور الگ الگ حد ہے۔ سورج دن ہی کو اور چاند رات ہی کو طلوع ہوتا ہے اس کے برعکس کبھی نہیں ہوا، جو ایک مدبر کائنات کے وجود پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔

۲۔  بلکہ یہ بھی ایک نظام میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔

وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (۴۰)

اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔‏

كُلٌّ سے سورج، چاند یا اس کے ساتھ دوسرے کواکب مراد ہیں،

سب اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں، ان کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔

وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (۴۱)

ان کے لئے ایک نشانی (یہ بھی) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا

اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے کہ اس نے سمندر میں کشتیوں کا چلنا آسان فرما دیا، حتٰی کہ تم اپنے ساتھ بھری ہوئی کشتیوں میں اپنے بچوں کو بھی لے جاتے ہو

اور دوسرے معنی سے یہ مراد کشتی نوح علیہ السلام ہے۔ یعنی سفینہ نوح علیہ السلام میں لوگوں کو بٹھایا جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ گویا نسل انسانی کے آبا اس میں سوار تھے۔

وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ (۴۲)

اور ان کے لئے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔‏

اس سے مراد ایسی سواریاں ہیں جو کشتی کی طرح انسانوں اور سامان تجارت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں،

 اس میں قیامت تک پیدا ہونے والی چیزیں آگئیں۔ جیسے ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریلیں، بسیں، کاریں اور دیگر نقل و حمل کی اشیاء۔

وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ (۴۳)

اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ڈبو دیتے۔ پھر نہ تو کوئی ان کا فریاد رس ہوتا نہ بچائے جائیں۔‏

إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ (۴۴)

لیکن ہم اپنی طرف سے رحمت کرتے ہیں اور ایک مدت تک کے لئے انہیں فائدے دے رہے ہیں۔‏

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۴۵)

اور ان سے جب (کبھی) کہا جاتا ہے کہ اگلے پچھلے (گناہوں) سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‏

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ (۴۶)

اور ان کے پاس تو ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں آتی جس سے یہ بےرخی نہ برتتے ہوں ۔‏

یعنی توحید اور صداقت رسول کی نشانی بھی ان کے سامنے آتی، اس میں یہ غور ہی نہیں کرتے کہ جس سے ان کو فائدہ ہو، ہر نشانی سے اعراض ان کا شیوہ ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ

اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرو،

یعنی غربا مساکین اور ضرورت مندوں کو دو۔

قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ

تو یہ کفار ایمان والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں؟ جنہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود کھلا پلا دیتا

یعنی اللہ چاہتا تو ان کو غریب ہی نہ کرتا، تاہم ان کو دے کر اللہ کی مشیت کے خلاف کیوں کریں۔

إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۴۷)

تم تو ہو ہی کھلی گمراہی میں۔‏

 یعنی یہ کہہ کر، غربا کی مدد کرو، کھلی غلطی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔

یہ بات تو ان کی صحیح تھی کہ غربت و ناداری اللہ کی مشیت ہی سے تھی، لیکن اس کو اللہ کے حکم سے اعراض کا جواز بنا لینا غلط تھا، آخر انکی امداد کرنے کا حکم دینے والا بھی تو اللہ ہی تھا، اس لیے اسکی رضا تو اسی میں ہے کہ غرباء و مساکین کی امداد کی جائے۔ اس لیے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضا اور چیز مشیت کا تعلق امور تکوینی سے ہے جس کے تحت جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کی حکمت و مصلحت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور رضا کا تعلق امور تشریعی سے ہے، جن کو بجا لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے تاکہ ہمیں اس کی رضا حاصل ہو۔

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۴۸)

وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا، سچے ہو تو بتلاؤ۔‏

مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ (۴۹)

انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار ہے جو انہیں آپکڑے گی اور یہ باہم لڑائی جھگڑے میں ہی ہونگے ۔‏

یعنی لوگ بازاروں میں خرید و فروخت اور حسب عادت بحث و تکرار میں مصروف ہونگے کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہو جائے گی یہ نفخہ اولیٰ ہوگا جسے نفخہ فزع بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا۔ نَفْخَۃُ الْصَّعْقِ جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا سب موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔

فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (۵۰)

اس وقت نہ تو یہ وصیت کر سکیں گے اور نہ اپنے اہل کی طرف لوٹ سکیں گے۔‏

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ (۵۱)

تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب (١) اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے۔‏

پہلے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثانیہ اور دوسرے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثالثہ ہوگا، جسےنَفْخَۃُ الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ کہتے ہیں، اس سے لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہونگے۔ (ابن کثیر)

قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ۜ ۗ

کہیں گے ہائے ہائے! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا

قبر کو خواب گاہ سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبروں میں ان کو عذاب نہیں ہوگا، بلکہ بعد میں جو ہولناک مناظر اور عذاب کی شدت دیکھیں گے، اس کے مقابلے میں انہیں قبر کی زندگی ایک خواب ہی محسوس ہوگی۔

هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ (۵۲)

یہی ہے جس کا وعدہ رحمٰن نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا۔‏

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (۵۳)

یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے۔‏

فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۵۴)

پس آج کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں انہیں بدلہ دیا جائے گا، مگر صرف ان ہی کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے۔‏

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ (۵۵)

جنتی لوگ آج کے دن اپنے (دلچسپ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہیں  

فَاكِهُونَ کے معنی ہیں فَرِحُونَ خوش مسرت کے ساتھ۔

هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ (۵۶)

وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے۔‏

لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ (۵۷)

ان کے لئے جنت میں ہر قسم کے میوے ہوں گے اور بھی جو کچھ وہ طلب کریں۔‏

سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ (۵۸)

مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام ' کہا جائے گا ۔‏

اللہ کا سلام، فرشتے اہل جنت کو پہنچائیں گے۔

بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود سلام سے نوازے گا۔

وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (۵۹)

اے گناہ گارو ! آج تم الگ ہو جاؤ ۔‏

یعنی اہل ایمان سے الگ ہو کر کھڑے ہو۔ یعنی میدان محشر میں اہل ایمان و اطاعت اور اہل کفر و معصیت الگ الگ کر دیئے جائیں گے،

 دوسرا مطلب یہ ہے کہ مجرمین کو ہی مختلف گروہوں میں الگ الگ کر دیا جائے گا۔ مثلًا یہودیوں کا گروہ، عیسائیوں کا گروہ، صائبین اور مجوسیوں کا گروہ، زانیوں کا گروہ، شرابیوں کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔

أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۶۰)

اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (٢)‏

۱۔ اس سے مراد عہد الست ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے نکالنے کے وقت لیا گیا تھا

یا وہ وصیت ہے جو پیغمبروں کی زبانی لوگوں کو جاتی رہی۔

اور بعض کے نزدیک وہ دلائل عقلیہ ہیں جو آسمان و زمین میں اللہ نے قائم کئے ہیں۔ (فتح القدیر)

۲۔  یہ اسکی علت ہے کہ تمہیں شیطان کی عبادت اور اس کے وسوسے قبول کرنے سے اس لیے روکا گیا تھا کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس نے تمہیں ہر طرح گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (۶۱)

اور میری عبادت کرنا (١) سیدھی راہ یہی ہے (٢)‏

۱۔ یعنی یہ بھی عہد لیا تھا کہ تمہیں صرف میری ہی عبادت کرنی ہے، میری عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا۔

۲۔  یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس کی طرف تمام انبیاء لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچانے والا۔

وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ (۶۲)

شیطان نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔‏

یعنی اتنی عقل بھی تمہارے اندر نہیں کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔

 اور میں تمہارا رب ہوں، میں ہی تمہیں روزی دیتا ہوں اور میں ہی تمہاری رات دن حفاظت کرتا ہوں لہذا تمہیں میری نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ تم شیطان کی عداوت کو اور میرے حق عبادت کو نہ سمجھ کر نہایت بےعقلی اور نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔

هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (۶۳)

یہی وہ دوزخ ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔‏

اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (۶۴)

اپنے کفر کا بدلہ پانے کے لئے آج اس میں داخل ہو جاؤ ۔‏

یعنی اب اس بےعقلی کا نتیجہ بھگتو اور اپنے کفر کے سبب سے جہنم کی سختیوں کا مزہ چکھو۔

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۶۵)

ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے۔

یہ مہر لگا نے کی ضرورت اس لئے پیش آئیگی کہ ابتداءً مشرکین قیامت والے دن بھی جھوٹ بولیں گے اور کہیں گے:

وَاللّٰہِ رَبَّنَا مَا کُنَّا مُشرِکِیْنَ (۶:۲۳)

اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے

چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا، جس سے وہ خود تو بولنے کی طاقت سے محروم ہو جائیں گے،

البتہ اللہ تعالیٰ اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرما دے گا، ہاتھ بولیں گے کہ ہم سے اس نے فلاں فلاں کام کیا تھا اور پاؤں اس پر گواہی دیں گے۔ یوں گویا اقرار اور شہادت، دونوں مرحلے طے ہوجائیں گے۔

 علاوہ ازیں ناطق کے مقابلے میں غیر ناطق چیزوں کا بول کر گواہی دینا، حجت واستدلال میں زیادہ بلیغ ہے کہ اس میں ایک اعجازی شان پائی جاتی ہے۔ فتح القدیر

اس مضموں کو احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ملاحظہ ہو صحیح مسلم، کتاب الزھد

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ (۶۶)

اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں بےنور کر دیتے پھر یہ راستے کی طرف دوڑتے پھرتے لیکن انہیں کیسے دکھائی دیتا؟

یعنی بینائی سے محرومی کے بعد انہیں راستہ کس طرح دکھائی دیتا؟ لیکن یہ ہمارا حلم و کرم ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ (۶۷)

اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں مسخ کر دیتے پھر وہ چل پھر سکتے اور نہ لوٹ سکتے  

یعنی نہ آگے جاسکتے، نہ پیچھے لوٹ سکتے، بلکہ پتھر کی طرح ایک جگہ پڑے رہتے۔ مَسَخْنَا کے معنی پیدائش میں تبدیلی کے ہیں، یعنی انسان سے پتھر یا جانور کی شکل میں تبدیل کر دینا۔

وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ (۶۸)

اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں (١) کیا پھر بھی وہ نہیں سمجھتے (٢)‏

۱۔ یعنی جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، ان کی پیدائش کو بدل کر برعکس حالت میں کر دیتے ہیں۔ یعنی جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نشو و نما جاری رہتی ہے اور اس کی عقلی اور بدنی قوتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتٰی کہ وہ جوانی اور بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اس کے قوائے عقلیہ و بدنیہ میں ضعف و گھٹاؤ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ حتٰی کہ وہ ایک بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔

۲۔  کہ جو اللہ اس طرح کر سکتا ہے، کیا وہ دوبارہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں۔

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ (۶۹)

نہ تو ہم نے اس پیغمبر کو شعر سکھائے اور نہ یہ اس کے لائق ہے۔ وہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے  

مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے۔ ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ کی شاعرانہ تک بندی ہی ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی۔ کہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت و موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط و تفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا اسکی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج وطبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اسکو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اسکا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لیے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور انکے شبہات کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امیت بھی قطع شبہات کے لیے تھی تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نے فلاں سے سیکھ پڑھ کر اس کو مرتب کرلیا ہے۔

البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اوزان و بحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایسا آپ کے قصدو ارادہ کے بغیر ہوا اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح حنین والے دن آپ کی زبان پر بے اختیار یہ رجز جاری ہوگیا۔ انا النبی لا کذب۔ انا ابن عبد المطلب ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

 ھل أنت الا اصبع دمیت۔ وفی سبیل اللہ ما لقیت

لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ (۷۰)

تاکہ وہ ہر شخص کو آگاہ کر دے جو زندہ ہے (١) اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے ۔‏(٢)

۱۔ یعنی جس کا دل صحیح ہے، حق کو قبول کرتا اور باطل سے انکار کرتا ہے۔

۲۔  یعنی جو کفر پر مصر ہو، اس پر عذاب والی بات ثابت ہو جائے۔

 لِيُنْذِرَ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ (۷۱)

کیا وہ نہیں دیکھتے ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی (١) ہوئی چیزوں میں سے انکے لئے چوپائے (٢) بھی پیدا کئے جنکے کہ یہ مالک ہوگئے ہیں (٣)‏

۱۔ اس سے غیروں کی شرکت کی نفی ہے، ان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، کسی اور کا ان کے بنانے میں حصہ نہیں ہے۔

۲۔  اَنْعَام نَعَم کی جمع ہے۔

اس سے مراد چوپائے یعنی اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ دنبہ وغیرہ ہیں۔

۳۔  یعنی جس طرح چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں، اگر ہم ان کے اندر وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے میں ہی نہ آسکتے۔

وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ (۷۲)

اور ان مویشیوں کو ہم نے ان کے تابع فرمان کردیا (١) جن میں سے بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔‏

یعنی ان جانوروں سے وہ جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ انکار نہیں کرتے، حتٰی کہ وہ انہیں ذبح بھی کر دیتے ہیں اور چھوٹے بچے انہیں کھینچے پھرتے ہیں۔

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ (۷۳)

انہیں ان میں سے اور بھی بہت سے فائدے ہیں (١) اور پینے کی چیزیں۔ کیا پھر (بھی) یہ شکر ادا نہیں کریں گے؟‏

یعنی سواری اور کھانے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں

مثلًا اون اور بالوں سے کئی چیزیں بنتی ہیں، ان کی چربی سے تیل حاصل ہوتا ہے اور یہ باربرداری اور کھیتی باڑی کے کام بھی آتے ہیں۔

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ (۷۴)

اور وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں تاکہ وہ مدد کئے جائیں۔‏

یہ ان کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں، جن سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ ہیں۔ لیکن یہ بجائے اس کے کہ یہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کریں یعنی ان کی عبادت و اطاعت کریں، یہ غیروں سے امیدیں وابستہ کرتے اور انہیں معبود بناتے ہیں۔

لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ (۷۵)

(حالانکہ) ان میں ان کی مدد کی طاقت ہی نہیں، (لیکن) پھر بھی (مشرکین) ان کے لئے حاضر باش لشکری ہیں

مطلب یہ ہے کہ جن بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے؟

وہ خود اپنی مدد کرنے سے قاصر ہیں انہیں کوئی برا کہے ان کی ندامت کرے، تو یہی ان کی حمایت و مدافت میں سرگرم ہوتے ہیں، نہ کہ خود ان کے وہ معبود

فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (۷۶)

پس آپ کو ان کی بات غمناک نہ کرے، ہم ان کی پوشیدہ اور اعلانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں۔‏

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ (۷۷)

کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔‏

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (۷۸)

اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان کی گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟‏

قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ (۷۹)

آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے اول مرتبہ پیدا کیا ہے (١) جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے۔‏

یعنی جو اللہ تعالیٰ انسان کو ایک حقیر نطفے سے پیدا کرتا ہے، وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟

 اسکی قدرت احیائے موتی کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے:

 ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی راکھ تیز ہوا والے دن خشکی میں اڑا دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری راکھ جمع کرکے اسے زندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا تیرے خوف سے۔ چنانچہ اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ (۸۰)

وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو ۔‏

کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے،

 سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کے حوالے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے۔

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ

جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ہم جیسوں (١) کے پیدا کرنے پر قادر نہیں،

یعنی انسانوں جیسے مطلب انسانوں کا دوبارہ پیدا کرنا جس طرح انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا، آسمان و زمین کی پیدائش سے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر استدلال ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا:

لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ (۴۰:۵۷)

آسمان و زمین کی پیدائش (لوگوں کے نزدیک) انسانوں کی پیدائش سے زیادہ مشکل کام ہے ۔

 سورہ احقاف۔ ۳۳ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (۸۱)

بیشک قادر ہے۔ اور وہی پیدا کرنے والا دانا (بینا) ہے۔‏

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۸۲)

وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔

یعنی اس کی شان تو یہ ہے پھر اس کے لیے سب انسانوں کا زندہ کر دینا کون سا مشکل معاملہ ہے؟

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۸۳)

پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی بادشاہت ہے اور (۱) جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔‏

بعض اسے مبالغے کا صیغہ قرار دیتے ہیں۔ یعنی ملکوت ملک کا مبالغہ ہے۔

٨٣۔١ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر تمہارا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے نہیں بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کر لو۔ تمہیں ہر حال اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا، جہاں وہ عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter