Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Momin

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حمِ (۱)

حم

اس سورت کو سورۃغَافِرِ اور سورۃ  الطَّوْلِ بھی کہتے ہیں

تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۲)

اس کتاب کا نازل فرمانا (١) اس اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور دانا ہے (٢)‏

۱۔ تَنْزِيلُ،  مُنَزَّل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں

۲۔  جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔

 عَلِيمِ ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔

غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ

گناہ کو بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا (١) سخت عذاب والا،(۲) انعام و قدرت والا (۳)

۱۔ گزشتہ گناہ معاف کرنے والا اور مستقبل میں ہونے والی کوتاہیوں پر توبہ قبول کرنے والا ہے یا اپنے دوستوں کے لئے غافر ہے اور کافر اور مشرک اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔

۲۔  ان کے لیے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیں اور تمرد و طغیان کا راستہ اختیار کریں ۔ یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہی ہے:

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ـ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ

میرے بندوں کو بتلا دو کہ میں غفور و رحیم ہوں اور میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے۔ (۱۵:۴۹،۵۰)

 قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ دونوں وصف ساتھ ساتھ بیان کیے گئے ہیں تاکہ انسان خوف اور رجا کے درمیان رہے کیونکہ محض خوف ہی خوف‘ انسان کو رحمت و مغفرت الہی سے مایوس کر سکتا ہے اور نری امید گناہوں پر دلیر کر دیتی ہے۔

۳۔ الطَّوْلِ کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں یعنی وہی فراخی اور تونگری عطا کرنے والا ہے بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں انعام اور تفضل یعنی اپنے بندوں پر انعام اور فضل کرنے والا ہے۔

لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ (۳)

 جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف واپس لو ٹنا ہے۔

مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ (۴)

اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں (۱) جو کافر ہیں پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے ۔(۲)‏

۱۔ اس جھگڑے سے مراد ناجائز اور باطل جھگڑا ہے جس کا مقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال بحث ومناظرہ کا مقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو وہ مذموم نہیں نہایت محمود و مستحسن ہے بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے:

لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ

تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا اسے چھپانا نہیں۔ (۳:۱۸۷)

 بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل وبراہین کو چھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پر کائنات کی ہرچیز لعنت کرتی ہے ۔ البقرہ ۱۵۹

۲۔  یعنی یہ کافر اور مشرک جو تجارت کرتے ہیں اس کے لئے مختلف شہروں میں آتے جاتے ہیں اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مؤاخذہ الٰہی میں آ جائیں گے، یہ مہلت ضرور دیئے جا رہے ہیں لیکن انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ

قوم نوح نے اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی جھٹلایا تھا۔

وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ

اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کر لینے کا ارادہ کیا   

تاکہ اسے قید یا قتل کر دیں یا سزا دیں۔

وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ

اور باطل کے ذریعے جھوٹے بحث مباحثے کئے تاکہ ان سے حق کو بگاڑ دیں (۱) پس میں نے انہیں پکڑ لیا،

یعنی اپنے رسولوں سے انہوں نے جھگڑا کیا، جس سے مقصود حق بات میں کیڑے نکالنا اور اسے کمزور کرنا تھا۔

فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ (۵)

سو میری طرف سے کیسی سزا ہوئی ۔‏

 چنانچہ میں نے ان حامیان باطل کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس تم دیکھ لو ان کے حق میں میرا عذاب کس طرح آیا اور کیسے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا یا انہیں نشان عبرت بنا دیا۔

وَكَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ (۶)

اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں۔

مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کر دی گئیں اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدل بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الہی کی گرفت میں آ جائیں گے پھر کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا

عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں

 اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں،

رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (۷)

 کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہرچیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے،

 پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔

اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کی وضاحت ہے

 یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو عرش کے ارد گرد ہیں ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ کمالات اور خوبیوں کا اس کے لیے اثبات اور اس کے سامنے عجز وتذلل یعنی ایمان کا اظہار کرتے ہیں

دوسرا کام ان کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کیلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہوگی۔ ابن کثیر

رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ

اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے

 اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں

یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں

 اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ

وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہی کی پیروی ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ کی۔

ملا دیا ہم نے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا۔ (۵۲:۲۱)

یعنی سب کو جنت میں اس طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلیٰ مقام عطا کر دیا۔ یہ نہیں کیا کہ اعلیٰ مقام میں کمی کر کے انہیں ادنیٰ مقام پر لے آئے، بلکہ اد نیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کر دیا اور اس کے عمل کی کمی کو اپنے فضل و کرم سے پورا کر دیا ۔

إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۸)

یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔‏

وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ

انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ

السَّيِّئَاتِ سے مراد یہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاؤں سے یا برائیوں کی جزا سے بچانا۔

وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (۹)

حق تو یہ ہے کہ اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی اور بہت بڑی کامیابی ہے۔‏

یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہو جانا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں

 ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں:

-  ایک تو یہ کہ فرشتے ان کے لیے غائبانہ دعا کرتے ہیں جس کی حدیث میں بڑی فضلیت وارد ہے

-  دوسری یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے

جعلنا اللہ من الذین یلحقھم اللہ بابائھم الصالحین۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ

بیشک جنہوں نے کفر کیا انہیں آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے،

إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ (۱۰)

 جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے ۔

مَقْتِ سخت ناراضی کو کہتے ہیں اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہونگے،

اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ

وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوہی بار جلایا  (زندہ کیا)

جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہےجو باپ کی پشت میں ہوتا ہے یعنی اس  کے وجود سے پہلے اس کے عدم وجود کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے

 اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیاوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام وفات پر ہوتا ہے اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی

انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ   (سورہ  البقرۃ  ۲۸)میں بھی کیا گیا ہے۔

وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ  ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ (۱۱)

اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں (۱) تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے (۲)‏

۱۔  یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہونگے جہاں پیشمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔

۲۔  یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔

ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ

یہ (عذاب) تمہیں اس لئے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے

یہ ان کے جہنم سے نہ نکالے جانے کا سبب بیان فرمایا کہ تم دنیا میں اللہ کی توحید کے منکر تھے اور شرک تمہیں مرغوب تھا اس لیے اب جہنم کے دائمی عذاب کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔

فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ (۱۲)

پس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے‏

اسی ایک اللہ کا حکم ہے کہ اب تمہارے لیے جہنم کا عذاب ہمیشہ کے لیے ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔

 جو الْعَلِيِّ ( اعلیٰ )یعنی ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات یا صفات میں کوئی اس جیسا ہو

اور الْكَبِيرِ یعنی ان باتوں سے بہت بڑا ہے کہ اس کی کوئی مثل ہو یا بیوی اور اولاد ہو یا شریک ہو۔

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا ۚ

وہی ہے جو تمہیں اپنی (نشانیاں) دکھلاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے روزی اتارتا ہے

یعنی پانی جو تمہارے لئے تمہاری روزیوں کا سبب ہے

یہاں اللہ تعالیٰ نے اظہار آیات کو انزال رزق کے ساتھ جمع کر دیا اس لئے کہ آیات قدرت کا اظہار، مذا ہب کی بنیاد ہے اور روزیاں اجسام کی بنیاد ہیں، یوں دونوں بنیادوں کو جمع فرما دیا ہے۔ فتح القدیر

وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَنْ يُنِيبُ (۱۳)

نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتے ہیں۔

اللہ کی اطاعت کی طرف جس سے ان کے دلوں میں آخرت کا خوف پیدا ہوتا ہے اور احکام و فرائض الہی کی پایندی کرتے ہیں۔

فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (۱۴)

تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کر کے گو کافر برا مانیں

یعنی جب سب کچھ اللہ ہی اکیلا کرنے والا ہے تو کافروں کو چاہے کتنا بھی ناگوار گزرے صرف اسی ایک اللہ کو پکارو اس کے لیے عبادت و اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔

رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ (۱۵)

بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔‏

الرُّوحَ سے مراد وحی ہے جو وہ بندوں میں سے ہی کسی کو رسالت کے لیے چن کر اس پر نازل فرماتا ہے وحی کو روح سے اس لیے تعبیر فربایا کہ جس طرح روح میں انسانی زندگی کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے اسی طرح وحی سے بھی ان انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے جو پہلے کفر وشرک کی وجہ سے مردہ ہوتے ہیں۔

يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ

جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے (١) ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی۔

یعنی زندہ ہو کر قبروں سے نکل کھڑے ہونگے۔

لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (۱۶)

آج کس کی بادشاہی ہے؟ (۱)، فقط اللہ واحد و قہار کی۔ (۲)‏

۱۔  یہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا جب سارے انسان اس کے سامنے میدان محشر میں جمع ہوں گے اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دا‏ئیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور کہے گا میں بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟  (صحیح بخاری)

 ۲۔  جب کوئی نہیں بولے گا تو یہ جواب اللہ تعالیٰ خود ہی دے گا

بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ منادی کرے گا جس کے ساتھ ہی تمام کافر اور مسلمان بیک آواز یہی جواب دیں گے۔ فتح القدیر

الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (۱۷)

آج ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا آج (کسی قسم کا) ظلم نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔‏

اس لئے کہ اسے بندوں کی طرح غورو فکر کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔

وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ

اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (١) (قیامت سے) آگاہ کر دیجئے جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے (۲) اور سب خاموش ہونگے

۱۔  آزِفَةِ کے معنی ہیں قریب آنے والی۔ یہ قیامت کا نام ہے، اس لئے کہ وہ بھی قریب آنے والی ہے۔

۲۔  یعنی اس دن خوف کی وجہ سے دل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے

 كَاظِمِينَ غم سے بھرے ہوئے یا روتے ہوئے یا خاموش اس کے تینوں معنی کیے گئے ہیں۔

مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ (۱۸)

 ظالموں کا کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی، کہ جس کی بات مانی جائے گی۔‏

يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ (۱۹)

وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو (خوب) جانتا ہے۔‏

اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کامل کا بیان ہے کہ اسے تمام اشیا کا علم ہے چھوٹی ہو یا بڑی باریک ہو یا موٹی اعلیٰ مرتبے کی ہو یا چھوٹے مرتبے کی اس لیے انسان کو چاہیے کہ جب اس کے علم واحاطہ کا یہ حال ہے تو اس کی نافرمانی سے اجتناب اور صحیح معنوں میں اس کا خوف اپنے اندر پیدا کرے

 آنکھوں کی خیانت یہ ہے کہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا جائے جیسے راہ چلتے کسی حسین عورت کو کنکھیوں سے دیکھنا

 سینوں کی باتوں میں وہ وسوسے بھی آ جاتے ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں وہ جب تک وسوسے ہی رہتے ہیں یعنی ایک لمحہ گزراں کی طرح آتے اور ختم ہو جاتے ہیں تب تک تو وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہوگے لیکن جب وہ عزائم کا روپ دھار لیں تو پھر ان کا مؤاخذہ ہو سکتا ہے چاہے ان پر عمل کرنے کا انسان کو موقع نہ ملے۔

وَاللَّهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ ۗ

اور اللہ تعالیٰ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا اس کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ نہیں کر سکتے

اس لئے کہ انہیں کسی چیز کا علم ہے نہ کسی پر قدرت، وہ بےخبر بھی ہیں اور بے اختیار بھی، جب کہ فیصلے کے لئے علم اور اختیار دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اور یہ دونوں خوبیاں صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اس لئے صرف اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور وہ یقیناً حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا، کیونکہ اسے کسی کا خوف ہوگا نہ کسی سے حرص و طمع۔

إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (۲۰)

بیشک اللہ تعالیٰ خوب سنتا خوب دیکھتا ہے۔‏

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ

کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا نتیجہ کیسا ہوا؟

كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ (۲۱)

 وہ قوت و طاقت کے اور باعتبار زمین میں اپنی یادگاروں کے ان سے بہت زیادہ تھے، پس اللہ نے انہیں ان گناہوں پر پکڑ لیا

اور کوئی نہ ہوا جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیتا۔‏

گزشنہ آیات میں احوال آخرت کا بیان تھا اب دنیا کے احوال سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ذرا زمین میں چل پھر کر ان قوموں کا انجام دیکھیں جو ان سے پہلے اس جرم تکذیب میں ہلاک کی گئیں جس کا ارتکاب یہ کر رہے ہیں دراں حالیکہ گزشتہ قومیں قوت و آثار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھیں لیکن جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو انہیں کوئی نہیں بجا سکا اسی طرح تم پر بھی عذاب آ سکتا ہے اور اگر آ گیا تو پھر کوئی تمہارا پشت پناہ نہ ہوگا۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ ۚ

یہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس پیغمبر معجزے لے لے کر آتے تھے تو وہ انکار کر دیتے تھے (١) پس اللہ انہیں پکڑ لیتا تھا۔

یہ ان کی ہلاکت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور پیغمبروں کی تکذیب۔اب سلسلہ نبوت و رسالت تو بند ہے۔ تاہم آفاق پر انفس میں بیشمار آیات الٰہی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں۔

 علاوہ ازیں وعظ وتذکیر اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے علماء اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشاندہی کے لیے موجود ہیں اس لیے آج بھی جو آیات الہی سے اعراض اور دین وشریعت سے غفلت کرے گا اس کا انجام مکذبین اور منکرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔

إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ (۲۲)

یقیناً وہ طاقتور اور سخت عذاب والا ہے۔‏

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۲۳)

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔

آیات سے مراد وہ نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے

یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی

 سُلْطَانٍ مُبِينٍ سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔

إِلَى فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ (۲۴)

فرعون ہامان اور قارون کی طرف‘  تو انہوں نے کہا (یہ تو) جادوگر اور جھوٹا ہے۔‏

فرعون مصر میں آباد قبط کا بادشاہ تھا بڑا ظالم وجابر اور رب اعلیٰ ہونے کا دعوے دار اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا جیسا کہ قرآن کے متعدد مقامات پر اس کی تفصیل ہے

 ہامان فرعون کا وزیر اور مشیر خاص تھا

قارون اپنے وقت کا مال دار ترین آدمی تھا

 ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا :

كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ـ تَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ

اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی نبی آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے

 کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں؟نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں۔ (۵۱:۵۲،۵۳)

فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ

پس جب ان کے پاس (موسیٰ علیہ السلام) ہماری طرف سے (دین) حق لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ایمان والے ہیں ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو

فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو جو نجومیوں کی پیش گوئی کے مطابق اس کی بادشاہت کے لیے خطرے کا تھا یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تذلیل واہانت کے لیے دیا

 نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کے وجود کو اپنے لیے مصبیت اور نحوست کا باعث سمجھیں جیسا کہ فی الواقع انہوں نے کہا:

أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا

اے موسیٰ علیہ السلام تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دو چار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ (۷:۱۲۹)

وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (۲۵)

اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے

یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم ہی غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ

اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ(علیہ السلام) کو مار ڈالوں (١) اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے (٢)

۱۔ یہ غالبًا فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔

۲۔  یہ فرعون کی دیدہ دلیری کا اظہار ہے کہ میں دیکھوں گا، اس کا رب اسے کیسے بچاتا ہے، اسے پکار کر دیکھ لے۔

 یا رب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچا لے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔

إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (۲۶)

مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کر دے۔

یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہو جائے

مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث وتکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوگا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے فساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا درآں حالیکہ فسادی وہ خود تھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔

وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ (۲۷)

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا

 میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے شخص(کی برائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کے یے دعا مانگی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے:

اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرور ھم

اے اللہ ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔ مسند احمد

وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ

اور ایک مؤمن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ

 تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے

یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔

وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ

اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا،

یہ اس نے بطور تنزل کے کہا کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس سے تعرض نہ کیا جائے

اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناً وہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے تم پر ان میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ (۲۸)

اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا جیسا کہ تم باور کراتے ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دلائل معجزات سے نہ نوازتا جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں

 دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ يَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا ۚ

اے میری قوم کے لوگو!

آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب ہو،(۱)‏ لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا(۲)‏

 ۱۔ یعنی یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کا شکر ادا کرو اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضگی مول نہ لو۔

۲۔  یہ فوجی لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آ گیا۔

یہاں تک اس مؤمن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔

قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ (۲۹)

فرعون بولا، میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ بتلا رہا ہوں۔

فرعون نے اپنے دنیاوی جاہ و جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا

 وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ ( سورہ ھود ۹۷)

وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِثْلَ يَوْمِ الْأَحْزَابِ (۳۰)

اس مؤمن نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز (بد عذاب) نہ آئے جو اور امتوں پر آیا۔‏

مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۚ

جیسے امت نوح اور عاد و ثمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا)

یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب (جھٹلایا) پر ہم اڑے رہے تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جائیں گے

وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ (۳۱)

اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا۔

یعنی اللہ نے جن کو بھی ہلاک کیا ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب ومخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا ورنہ وہ شفیق ورحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا

گویا قوموں کی ہلاکت یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنی ٰنہیں

از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو از جو

وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ (۳۲)

اور مجھے تم پر قیامت کے دن کا بھی ڈر ہے

التَّنَادِ کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا،

قیامت کو يَوْمَ التَّنَادِ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (الاعراف۔ ٤٨،٤٩)۔

 بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کی بد بختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا

بعض کہتے ہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کو پکارا جائے گا جیسے اہل جنت کو اے جنتیو! اور اہل جنم کو اے جہنمیو!

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔

يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۗ

جس دن تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے، (١) تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا

یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے

وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (۳۳)

اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں

جو اسے ہدایت کا راستہ بتا سکے یعنی چلا سکے۔

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ ۖ

اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لیکر آئے، (١) پھر بھی تم انکی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے (٢)

۱۔ یعنی اہل مصر! حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قبل تمہارے اس علاقہ میں جس میں تم آباد ہو، حضرت یوسف علیہ السلام بھی دلائل و براہین کے ساتھ آئے تھے۔ جس میں تمہارے آباؤ اجداد کو ایمان کی دعوت دی گئی تھی یعنی جَاءَكُمْ سے مراد جَآءَ اِلَیٰ آبائِکُمْ ہے یعنی تمہارے آباؤ واجداد کے پاس آئے۔

۲۔  لیکن تم ان پر بھی ایمان نہیں لائے اور ان کی دعوت میں شک و شبہ ہی کرتے رہے۔

حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ

یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی (۱) تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں ،(۲)

۱۔  یعنی یوسف علیہ السلام پیغمبر کی وفات ہوگئی۔

۲۔ یعنی تمہارا شیوہ چونکہ ہر پیغمبر کی تکذیب اور مخالفت ہی رہا ہے اس لیے سمجھتے تھے کہ اب کوئی رسول ہی نہیں آئے گا

یا یہ مطلب ہے کہ رسول کا آنا یا نہ آنا تمہارے لیے برابر ہے

 یا یہ مطلوب ہے کہ اب ایسا باعظمت انسان کہاں پیدا ہو سکتا ہے جو رسالت سے سرفراز ہو

 گویا بعد از مرگ حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کا اعتراف تھا اور بہت سے لوگ ہر اہم ترین انسان کی وفات کے بعد یہی کہتے رہے ہیں

كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (۳۴)

 اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک شبہ کرنے والا ہو

یعنی اس واضح گمراہی کی طرح جس میں تم مبتلا ہو اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو بھی گمراہ کرتا ہے جو نہایت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرتا اور اللہ کے دین کی وحدانیت اور اس کے وعدوں وعیدوں میں شک کرتا ہے۔

الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ

جو بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں

یعنی اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود اللہ کی توحید اور اس کے احکام میں جھگڑتے ہیں، جیسا کہ ہر دور کے اہل باطن کا وطیرہ رہا ہے۔

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ

اللہ کے نزدیک اور مؤمنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے

یعنی ان کی اس حرکت سے اللہ تعالیٰ ہی ناراض نہیں ہوتا، اہل ایمان بھی اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔

كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ (۳۵)

اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر مغرور سرکش کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔

یعنی جس طرح ان مجادلین کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اسی طرح ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جو اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں تکبر اور سرکشی کا اظہار کرتا ہے جس کے بعد معروف ان کو معروف اور منکر، منکر نظر نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ منکر، ان کے ہاں معروف اور اور معروف، منکر قرار پاتا ہے۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ (۳۶)

فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک بالا خانہ (١) بنا شاید کہ میں آسمان کے جو دروازے ہیں‏

یہ فرعون کی سرکشی کا بیان ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو بلند عمارت بنانے کا حکم دیا تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائے۔

 أَسْبَابَ کے معنی دروازے، یا راستے کے ہیں ۔(مزید دیکھئے القصص، آیت ۲۸)

أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ

 (ان) دروازوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں (١) اور بیشک میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹا ہے (٢)

۱۔ یعنی دیکھوں کہ آسمانوں پر کیا واقعی کوئی اللہ ہے؟

۲۔  اس بات میں کہ آسمان پر اللہ ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور ان کا مدبر ہے۔

 یا اس بات میں کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔

وَكَذَلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ

اور اسی طرح فرعون کی بد کرداریاں اسے بھلی دکھائی گئیں (۱) اور راہ سے روک دیا گیا (٢)

۱۔  یعنی شیطان نے اس طرح اسے گمراہ کئے رکھا اور اس کے برے عمل اسے اچھے نظر آتے رہے

 ۲۔  یعنی حق اور درست راستے سے اسے روک دیا گیا اور وہ گمراہیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا۔

وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ (۳۷)

اور فرعون کی (ہر) حیلہ سازی تباہی میں ہی رہی ۔‏

تَبَابٍ خسارہ، ہلاکت۔

یعنی فرعون نے جو تدبیر اختیار کی، اس کا نتیجہ اس کے حق میں برا ہی نکلا۔ اور بالآخر اپنے لشکر سمیت پانی میں ڈبو دیا گیا۔

وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ (۳۸)

اور اس ایماندار شخص نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) تم (سب) میری پیروی کرو میں نیک راہ کی طرف تمہاری رہبری کروں گا

فرعون کی قوم سے ایمان لانے والا پھر بولا اور کہا کہ

 دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستے پر چلا رہا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون بھٹکا ہوا ہے، میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں وہ سیدھا راستہ ہے اور وہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام دعوت دے رہے ہیں۔

يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ (۳۹)

اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے (١) (یقین مانو کہ قرار) اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے (٢)‏

۱۔ جس کی زندگی چند روزہ ہے۔ اور وہ بھی آخرت کے مقابلے میں صبح یا شام کی ایک گھڑی کے برابر۔

 ۲۔  جس کو زوال اور فنا نہیں، نہ وہاں انتقال اور کوچ ہوگا۔ کوئی جنت میں جائے یا جہنم میں، دونوں کی زندگیاں ہمیشہ کی ہوں گی۔ ایک راحت اور آرام کی زندگی۔ دوسرے عذاب کی زندگی۔ موت اہل جنت کو آئے گی نہ اہل جہنم کو۔

مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا ۖ

جس نے گناہ کیا ہے اسے تو برابر ہی کا بدلہ ہے

یعنی برائی کی مثل ہی جزا ہوگی زیادہ نہیں اور اس کے مطابق ہی عذاب ہوگا جو عدل وانصاف کا آئینہ دار ہوگا۔

وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ (۴۰)

اور جس نے نیکی کی ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایماندار ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے (۱) اور وہاں بیشمار روزی پائیں گے (۲)

۱۔  یعنی وہ جو ایمان دار بھی ہوں گے اور اعمال صالحہ کے پابند بھی اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اعمال صالحہ کے بغیر محض ایمان یا ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کی حثییت اللہ کے ہاں کچھ نہیں ہوگی عند اللہ کامیابی کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالح اور عمل صالح کے ساتھ ایمان ضروری ہے۔

۲۔  یعنی بغیر اندازے اور حساب کے نعمتیں ملیں گی اور ان کے ختم ہونے کا بھی اندیشہ نہیں ہوگا۔

وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ (۴۱)

اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں (١) اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا رہے ہو۔ (۲)‏

۱۔ اور وہ یہ کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس کے رسول کی تصدیق کرو، جو اس نے تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لئے بھیجا ہے

۲۔  یعنی توحید کی بجائے شرک کی دعوت دے رہے ہو جو انسان کو جہنم میں لے جانے والا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں وضاحت ہے۔

تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ

تم مجھے دعوت دے رہے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ شرک کروں جس کا کوئی علم مجھے نہیں

وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ (۴۲)

 اور میں تمہیں غالب بخشنے والے (معبود) کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔

الْعَزِيزِ ،غالب جو کافروں سے انتقام لینے اور ان کو عذاب دینے پر قادر ہے

الْغَفَّارِ، اپنے ماننے والوں کی غلطیوں کوتاہیوں کو معاف کر دینے والا اور ان کی پردہ پوشی کرنے والا۔

جب کہ تم جن کی عبادت کرنے کی طرف مجھے بلا رہے ہو وہ بالکل حقیر اور کم تر چیزیں ہیں نہ وہ سن سکتی ہیں نہ جواب دے سکتی ہیں کسی کو نفع پہچانے پر قادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر۔

لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ

یہ یقینی امر ہے (١) کہ مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وہ تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے (۲) نہ آخرت میں (۳)

۱۔  لَا جَرَمَ یہ بات یقینی ہے، یا اس میں جھوٹ نہیں ہے۔

۲۔  یعنی وہ کسی کی پکار سننے کی استعداد ہی نہیں رکھتے کہ کسی کو نفع پہنچا سکیں یا الوہیت کا استحقاق انہیں حاصل ہو

اس کا تقربیا وہی مفہوم ہے جو اس آیت اور اس جیسی دیگر متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے:

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (۴۶:۵)

إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ  (۳۵:۱۴)

اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن لیں تو قبول نہیں کر سکتے۔

۳۔  یعنی آخرت میں ہی وہ پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر یا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں؟

 یہ بھی ممکن نہیں ہے ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہو سکتی ہیں کہ وہ معبود بنیں اور ان کی عبادت کی جائے؟

وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ (۴۳)

اور یہ بھی (یقینی بات ہے) کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے (١) اور حد سے گزر جانے والے ہی (یقیناً) اہل دوزخ ہیں۔ (۲)

۱۔  جہاں ہر ایک کا حساب ہوگا اور عمل کے مطابق اچھی یا بری جزا دی جائے گی۔

۲۔  یعنی کافر و مشرک جو اللہ کی نافرمانی میں ہر حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اس طرح جو بہت زیادہ گناہ گار مسلمان ہوں گے جن کی نافرمانیاں اسراف کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہوگی تاہم بعد میں شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ کی مشیت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ

پس آگے چل کر تم میری باتوں کو یاد کرو گے

عنقریب وہ وقت آئے گا جب میری باتوں کی صداقت اور جن باتوں سے روکتا تھا ان کی شناعت تم پر واضح ہو جائے گی پھر تم ندامت کا اظہار کرو گے مگر وہ وقت ایسا ہوگا کہ ندامت بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی۔

وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (۴۴)

میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں (۱) یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کا نگران ہے۔ (۱)

۱۔  یعنی اسی پر بھروسہ کرتا اور اسی سے ہر وقت استعانت کرتا ہوں اور تم سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتا ہوں۔۲۔  وہ انہیں دیکھ رہا ہے پس وہ مستحق ہدایت کو ہدایت سے نوازتا اور ضلالت کا استحقاق رکھنے والے کو ضلالت سے ہمکنار کرتا ہے ان امور میں جو حکمتیں ہیں ان کو وہی خوب جانتا ہے۔

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ

پس اسے اللہ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں

یعنی اس کی قوم قبط نے اس مؤمن کے اظہار حق کی وجہ سے اس کے خلاف جو تدبیریں اور سازشیں سوچ رکھی تھیں ان سب کو ناکام بنا دیا اور اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نجات دے دی۔ اور آخرت میں اس کا گھر جنت ہوگا۔

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (۴۵)

اور فرعوں والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا

یعنی دنیا میں انہیں سمندر میں غرق کر دیا گیا اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کا سخت ترین عذاب ہے۔

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ

آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں

اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں لوگ روزانہ صبح شام پیش کئے جاتے ہیں، جس سے قبر کا عذاب ثابت ہوتا ہے جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔ حدیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر پر روشنی ڈالی گئی ہے مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ہاں! قبر کا عذاب حق ہے ۔

 اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا:

 جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر میں) اس پر صبح و شام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے، جہاں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے بھیجے گا ۔ صحیح بخاری

 اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔

وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (۴۶)

اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔

اس سے بالکل واضح ہے کہ عرض علی النار کا معاملہ جو صبح وشام ہوتا ہے قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے قیامت والے دن اس کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا

 آل فرعون سے مراد فرعون اس کی قوم اور اس کے سارے پیروکار ہیں

یہ کہنا کہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے اسے اگر عذاب ہو تو اس طرح نظر نہ آئے لغو ہے کیونکہ عذاب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں نظر بھی آ‏ئے اللہ تعالیٰ ہر طرح عذاب دینے پر قادر ہے کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ خواب میں ایک شخص نہایت المناک منظر دیکھ کر سخت کرب و اذیت محسوس کرتا ہے لیکن دیکھنے والوں کو ذرا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص تکلیف سے دو چار ہے اس کے باوجود عذاب قبر کا انکار محض ہٹ دھرمی اور بےجا تحکم ہے بلکہ بیداری میں بھی انسان کو جو تکالیف ہوتی ہیں وہ خود ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ صرف انسان کا تڑپنا اور تلملانا ظاہر ہوتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ تڑپے اور تلمائے۔

وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِنَ النَّارِ (۴۷)

اور جب کہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ تکبر والوں سے (جن کے یہ تابع تھے) کہیں گے ہم تو تمہارے پیرو تھے تو کیا اب تم ہم سے اس آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو؟‏

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ (۴۸)

وہ بڑے لوگ جواب دیں گے ہم تو سبھی اس آگ میں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔‏

وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ (۴۹)

اور (تمام) جہنمی مل کر جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ کسی دن تو ہمارے عذاب میں کمی کر دے۔‏

قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ

وہ جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول معجزے لے کر نہیں آئے تھے؟

قَالُوا بَلَى ۚ

 وہ کہیں گے کیوں نہیں،

قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (۵۰)

 وہ کہیں گے پھر تم ہی دعا کرو (١) اور کافروں کی دعا محض بے اثر اور بےراہ ہے (٢)‏

۱۔ ہم ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے کیونکر کچھ کہہ سکتے ہیں جن کے پاس اللہ کے پیغمبر دلائل و معجزات لے کر آئے لیکن انہوں نے پروا نہ کی؟

۲۔  یعنی بالآخر وہ خود ہی اللہ سے فریاد کریں گے لیکن اس فریاد کی وہاں شنوائی نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ دنیا میں ان پر حجت تمام کی جا چکی تھی اب آخرت تو ایمان، توبہ اور عمل کی جگہ نہیں، وہ تو دار الجزا ہے، دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کا نتیجہ وہاں بھگتنا ہوگا۔

إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے

یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے

 بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض نبی قتل کر دئیے گئے جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام وغیرہ اور بعض ہجرت پر مجبور ہوگئے جیسے ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟

دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں

یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر بعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے لیکن بالآخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخرو ہوتے ہیں جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا

 جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر مارنا چاہا اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقا یقینا ًہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوہ خیبر، اور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟  ابن کثیر

وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (۵۱)

اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے (۱) کھڑے ہونگے۔‏

أَشْهَادُ ، شہید ( گواہ) کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے

 قیامت والے دن فرشتے اور انبیاء علیہم السلام گواہی دیں گے

 یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یا اللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کو جھٹلایا۔

علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گواہی دیں گے جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اس لئے قیامت کو گواہوں کے کھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔

 اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (۵۲)

جس دن ظالموں کو ان کی (عذر) معذرت کچھ نفع نہ دے گی ان کے لئے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لئے برا گھر ہوگا  

یعنی اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار۔ اور معذرت کا فائدہ اس لئے نہیں ہوگا کہ وہ معذرت کی جگہ نہیں، اس لئے یہ معذرت، معذرت باطلہ ہوگی۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَى وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ (۵۳)

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت نامہ عطا فرمایا (۱) اور بنو اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا (١)‏

۱۔ یعنی نبوت اور تورات عطا کی جیسے فرمایا:

إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ   (۵:۴۴)

 ۲:  یعنی تورات، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی باقی رہی، جس کے نسلاً بعد نسل وہ وارث ہوتے رہے۔

یا کتاب سے مراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں، ان سب کتابوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔

هُدًى وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (۵۴)

کہ وہ ہدایت و نصیحت تھی عقل مندوں کے لئے

هُدًى وَذِكْرَى  ہدایت دینے والی اور نصیحت کرنے والی۔

عقل مندوں سے مراد عقل سلیم کے مالک ہیں۔ کیونکہ وہی آسمانی کتابوں کا فائدہ وہی اٹھاتے ہیں ہدایت و نصیحت حاصل کرتے ہیں جو عقل سلیم کے مالک ہیں دوسرے لوگ تو گدھوں کی طرح ہیں جن پر کتابوں کا بوجھ تو لدا ہوتا ہے لیکن وہ اس سے بےخبر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے؟

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ

پس اے نبی! تو صبر کر اللہ کا وعدہ بلا شک (وشبہ) سچا ہی ہے تو اپنے گناہ کی (١) معافی مانگتا رہ  (۲)

گناہ سے مراد چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہو جاتی ہیں، جن کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دی جاتی ہے۔

یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر و ثواب کی زیادتی کے لئے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بےنیاز نہ ہوں۔

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ (۵۵)

اور صبح شام (۱) اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ۔‏

عَشِيِّ سے دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ

 اور إِبْكَارِ سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ ۚ

جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند کے نہ ہونے کے آیات الٰہی میں جھگڑا کرتے ہیں ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں

وہ اس تک پہنچنے والے ہی نہیں

یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث و حجت کرتے ہیں، یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، تاہم اس سے جو ان کا مقصد ہے کہ حق کمزور اور باطل مضبوط ہو وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا۔

فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (۵۶)

سو تو اللہ کی پناہ مانگتا رہ بیشک وہ پورا سننے والا اور سب سے زیادہ دیکھنے والا ہے۔‏

لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (۵۷)

آسمان و زمین کی پیدائش یقیناً انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے، لیکن (یہ اور بات ہے کہ) اکثر لوگ بےعلم ہیں

یعنی پھر یہ کیوں اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ جب کہ یہ کام آسمان و زمین کی تخلیق سے بہت آسان ہے۔

وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ

اندھا اور بینا برابر نہیں نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور بھلے کام کئے بدکاروں کے برابر ہیں

مطلب ہے جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں، اسی طرح مؤمن و کافر اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں بلکہ قیامت کے دن ان کے درمیان جو عظیم فرق ہوگا، وہ بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گا۔

قَلِيلًا مَا تَتَذَكَّرُونَ

تم (بہت) کم نصیحت حاصل کر رہے ہو۔‏

إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (۵۹)

قیامت بالیقین اور بلاشبہ آنے والی ہے، لیکن (یہ اور بات ہے کہ) بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے۔‏

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ

اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا

گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا تو اب اس آیت میں ایسی راہنمائی دی جا رہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے،اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا۔   مسند احمد

بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے۔ یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اور حقیقی معنی طلب کرنے کے ہیں، دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے۔

علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے اور حدیث مذکورہ کی رو سے بھی عبادت ہے کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لئے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (۶۰)

یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے

یہ اللہ کی عبادت سے انکار و اعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے رات بنا دی کہ تم اس میں آرام حاصل کرو (١) اور دن کو دیکھنے والا بنا دیا (٢)

۱۔ یعنی رات کو تاریک بنایا، تاکہ کاروبار زندگی معطل ہو جائیں اور لوگ امن اور سکون سے سو سکیں۔

 ۲۔  یعنی روشن بنایا تاکہ معاشی محنت اور تگ و دو میں تکلیف نہ ہو۔

إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (۶۱)

بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل و کرم والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے۔

اللہ کی نعمتوں کا اور نہ ان کا اعتراف ہی کرتے ہیں یا تو کفر وجحود کی وجہ سے جیسا کہ کافروں کا شیوہ ہے یا منعم کے واجبات شکر سے اہمام و غفلت کی وجہ سے جیسا کہ جاہلوں کا شعار ہے۔

ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (۶۲)

یہی اللہ ہے تم سب کا رب ہرچیز کا خالق اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر کہاں تم پھرے جاتے ہو

یعنی پھر تم اس کی عبادت سے کیوں بدکتے ہو اور اس کی توحید سے کیوں پھرتے اور بھاگتے ہو۔

كَذَلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (۶۳)

اس طرح وہ لوگ بھی پھیرے جاتے رہے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔‏

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً

اللہ ہی ہے (١) جس نے تمہارے لئے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ (۲) اور آسمان کو چھت بنایا (۳)

۱۔ آگے نعمتوں کی کچھ قسمیں بیان کی جا رہی ہیں تاکہ اللہ کی قدرت کاملہ بھی واضح ہو جائے اور اس کا بلا شرکت غیرے معبود ہونا بھی۔

۲۔ جس میں تم رہتے چلتے پھرتے کاروبار کرتے اور زندگی گزارتے ہو پھر بالآخر موت سے ہمکنار ہو کر قیامت تک کے لیے اسی میں آسودہ خواب رہتے ہو۔

۳۔  یعنی قائم اور ثابت رہنے والی چھت اگر اس کے گرنے کا اندیشہ رہتا تو کوئی شخص آرام کی نیند سو سکتا تھا نہ کسی کے لیے کاروبار حیات کرنا ممکن ہوتا۔

وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ

اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں (۱) اور تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو عطا فرمائیں (۲)

۱۔  جتنے بھی روئے زمین پر حیوانات ہیں، ان سب میں (تم) انسانوں کو سب سے زیادہ خوش شکل اور متناسب الا عضا بنایا ہے۔

۲۔  یعنی اقسام و انواع کے کھانے تمہارے لئے مہیا کئے، جو لذیذ بھی ہیں اور قوت بخش بھی۔

ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (۶۴)

یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، پس بہت برکتوں والا اللہ ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا۔‏

هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ

وہ زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو

یعنی جب سب کچھ کرنے والا اور دینے والا وہی ہے دوسرا کوئی بنانے میں شریک ہے نہ اختیارات میں تو پھر عبادت کا مستحق بھی صرف ایک اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔

استمداد و استغاثہ بھی اسی سے کرو کہ وہی سب کی فریادیں اور التجائیں سننے پر قادر ہے دوسرا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقے سے کسی کی بات سننے پر قادر ہی نہیں ہے جب یہ بات ہے تو دوسرے مشکل کشائی اور حاجت روائی کس طرح کر سکتے ہیں؟

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۶۵)

تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‏

قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِنْ رَبِّي

آپ کہہ دیجئے! کہ مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو (١)

 اس بنا پر کہ میرے پاس میرے رب کی دلیلیں پہنچ چکی ہیں،

چاہے وہ پتھر کی مورتیاں ہوں، انبیاء علیہم السلام اور صلحا ہوں اور قبروں میں مدفون اشخاص ہوں۔ مدد کے لئے کسی کو مت پکارو، ان کے ناموں کی نذر نیاز مت دو ان کے ورد نہ کرو ان سے خوف مت کھاؤ اور ان سے امیدیں وابستہ نہ کرو کیونکہ یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں جو صرف ایک اللہ کا حق ہے۔

وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۶۶)

 مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کا تابع فرمان ہو جاؤں۔  

یہ وہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے اللہ کی توحید یعنی اللہ کے واحد الہ اور رب ہونے کا اثبات ہوتا ہے جو قرآن میں جا بجا ذکر کیے گئے ہیں

اسلام کے معنی ہیں اطاعت وانقیاد کے لیے جھک جانا سر اطاعت خم کر دینا یعنی اللہ کے سامنے میں جھک جاؤں ان سے سرتابی نہ کروں

 آگے پھر توحید کے کچھ دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ

وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے (۱) پھر خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا پھر تمہیں بچہ کی صورت میں نکالتا ہے،

پھر (تمہیں بڑھاتا ہے کہ) تم اپنی پوری قوت کو پہنچ جاؤ پھر بوڑھے ہو جاؤ (۲)

۱۔ یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کر دیا اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی جیسا کہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔

۲۔  یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ ۖ

تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں

یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل فوت ہو جاتے ہیں۔

وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۶۷)

 (وہ تمہیں چھوڑ دیتا ہے) تاکہ تم مدت معین تک پہنچ جاؤ (۱) اور تاکہ تم سوچ سمجھ لو۔ (۲)‏

۱۔  یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لئے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔

۲۔  یعنی جب تم ان اطوار اور مراحل پر غور کرو گے کہ نطفے سے علقہ پھر مضغۃ، پھر بچہ، پھر جوانی، کہولت اور بڑھاپا، تو تم جان لو گے کہ تمہارا رب بھی ایک ہی ہے اور تمہارا معبود بھی ایک اس کے سوا کو‏ئی معبود نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بھی سمجھ لو گے کہ جو اللہ یہ سب کچھ کرنے والا ہے اس کے لیے قیامت والے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کر دینا بھی مشکل نہیں ہے اور وہ یقیناً سب کو زندہ فرما‏ئے گا۔

هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ

وہی ہے جو جلاتا ہے اور مار ڈالتا ہے

زندہ کرنا اور مارنا اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ ایک بےجان نطفے کو مختلف اطوار سے گزار کر ایک زندہ انسان کے روپ میں ڈھال دیتا ہے اور پھر ایک وقت مقررہ کے بعد اس زندہ انسان کو مار کر موت کی وادیوں میں سلا دیتا ہے۔

فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۶۸)

پھر وہ جب کسی کام کا کرنا مقرر کرتا ہے تو اسے صرف کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے۔

 اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ اس کے لفظ كُنْ (ہو جا) سے وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے جس کا وہ ارادہ کرے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ (۶۹)

کیا تو نے نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں (١) وہ کہاں پھیر دئیے جاتے ہیں (٢)‏

۱۔ انکار اور تکذیب کے لئے یا اس کے رد و ابطال کے لئے۔

۲۔  یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کس طرح حق کو نہیں مانتے۔

 یہ تعجب کا اظہار ہے۔

الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۷۰)

جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے بھی جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا انہیں ابھی ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی۔‏

إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ (۷۱)

جب ان کی گردنوں میں طوق ہونگے اور زنجریں ہوں گی گھسیٹے جائیں گے

یہ وہ نقشہ ہے جو جہنم میں ان مکذبین کا ہوگا۔

فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ (۷۲)

کھولتے ہوئے پانی میں اور پھر جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے۔‏

مجاہد اور مقاتل کا قول ہے کہ ان کے ذریعے سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی یعنی یہ لوگ اس کا ایندھن بنے ہوں گے۔

ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُونَ (۷۳)

پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ جنہیں تم شریک کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟‏

مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَيْئًا ۚ

جو اللہ کے سوا تھے (١) وہ کہیں گے کہ وہ تو ہم سے بہک گئے (٢) بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی کو بھی پکارتے ہی نہ تھے (٣)

۱۔ کیا وہ آج تمہاری مدد کر سکتے ہیں؟

۲۔  یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئے ہیں، وہ ہماری مدد کیا کریں گے؟

۳۔  اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کر دیں گے کیونکہ وہاں ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع ۔ فتح القدیر

 اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔

كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ (۷۴)

اللہ تعالیٰ کافروں کو اسی طرح گمراہ کرتا ہے۔

یعنی ان مکذبین ہی کی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرنا ہے

مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کے دل سیاہ اور زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں۔

ذَلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُونَ (۷۵)

یہ بدلہ ہے اس چیز کا جو تم زمین میں ناحق پھولے نہ سماتے تھے۔ اور بےجا اتراتے پھرتے تھے۔‏

یعنی تمہاری یہ گمراہی اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم کفر وتکذیب اور فسق وفجور میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ان پر تم خوش ہوتے اور اتراتے تھے  اترانے میں مزید خوشی کا اظہار ہے جو تکبر کو مستلزم ہے۔

ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (۷۶)

اب آؤ جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لئے (اس کے) دروازوں میں داخل ہو جاؤ کیا ہی بری جگہ ہے تکبر کرنے والوں کی

یہ جہنم پر مقرر فرشتے، اہل جہنم کو کہیں گے۔

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ

پس آپ صبر کریں اللہ کا وعدہ قطعًا سچا ہے

۱۔ کہ ہم کافروں سے انتقام لیں گے۔

 یہ وعدہ جلدی بھی پورا ہو سکتا ہے یعنی دنیا میں ہی ہم ان کی گرفت کرلیں گے یا حسب مشیت الٰہی تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی قیامت والے دن ہم انہیں سزا دیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔

فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ

انہیں ہم نے جو وعدے دے رکھے ہیں ان میں سے کچھ ہم کو دکھائیں

یعنی آپ کی زندگی میں ان کو مبتلائے عذاب کر دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اللہ نے کافروں سے انتقام لے کر مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے ۸ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔

أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ (۷۷)

یا (اس سے پہلے) ہم آپ کو وفات دے دیں، ان کا لوٹایا جانا تو ہماری ہی طرف ہے۔

۲۔  یعنی اگر کافر دنیاوی مؤاخذہ وعذاب سے بچ بھی گئے تو آخر میرے پاس ہی آئیں گے جہاں ان کے لیے سخت عذاب تیار ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ

یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں

 اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کئے

اور یہ تعداد میں، بہ نسبت ان کے جن کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے کہ قرآن کریم میں تو صرف ٢٥، انبیاء و رسل کا ذکر اور ان کی قوموں کے حالات بیان کئے ہیں۔

وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ

اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

آيَة سے مراد یہاں معجزہ اور خرق عادت واقعہ ہے جو پیغمبر کی صداقت پر دلالت کرے

کفار پیغمبروں سے مطالبے کرتے رہے کہ ہمیں فلاں فلاں چیز دکھاؤ جیسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار مکہ نے کئی چیزوں کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورہ بنی اسرائیل میں موجود ہے

 اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے پر ان کو کوئی معجزہ صادر کر کے دکھلادے یہ صرف ہمارے اختیار میں تھا بعض نبیوں کو تو ابتدا ہی سے معجزے دے دیے گئے تھے بعض قوموں کو ان کے مطالبے پر معجزہ دکھلایا گیا اور بعض کو مطالبے کے باوجود نہیں دکھلایا گیا ہماری مشیت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا کسی نبی کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا معجزہ صادر کر کے دکھلا دیتا

اس سے ان لوگوں کی واضح تردید ہوتی ہے جو بعض اولیاء کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں کہ وہ جب چاہتے اور جس طرح کا چاہتے خرق عادت امور کا اظہار کردیتے تھے جیسے شیخ عبد القادر جیلانی کے لیے بیان کیا جاتا ہے یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کے لیے اس کی ضرورت بھی تھی تو کسی ولی کو یہ اختیار کیوں کر مل سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ ولی کو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی لیکن اللہ کی حکمت ومشیت اس کی متقصضی نہ تھی اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی ولی کی ولایت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے اس لیے انہیں معجزے اور کرامات کی ضرورت ہی نہیں ہے انہیں اللہ تعالیٰ یہ اختیار بلا ضرورت کیوں عطا کر سکتا ہے؟

فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ (۷۸)

پھر جس وقت اللہ کا حکم آئے گا (۱) حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا (۲) اور اس جگہ اہل باطن خسارے میں رہ جائیں گے۔‏

۱۔  یعنی دنیا یا آخرت میں جب ان کے عذاب کا وقت معین آجائے گا۔

۲۔ یعنی ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو عذاب۔

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (۷۹)

اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے (۱) جن میں سے بعض پر تم سوار ہوتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو۔ (۲)‏

۱۔ اللہ تعالیٰ اپنی ان گنت نعمتوں میں سے بعض نعمتوں کا تذکرہ فرما رہا ہے

 چوپائے سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہے یہ نر مادہ مل کر آٹھ ہیں جیسا کہ سورہ انعام ۱۴۳، ۱۴۴ میں ہے

۲۔  یہ سواری کے کام بھی آتے ہیں، ان کا دودھ بھی پیا جاتا ہے (جیسے بکری، گائے اور اونٹنی کا دودھ) ان کا گوشت انسان کی مرغوب ترین غذا ہے اور بار برداری کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔

وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (۸۰)

اور بھی تمہارے لئے ان میں بہت سے نفع ہیں (١) اور تاکہ اپنے سینوں میں چھپی ہوئی حاجتوں کو انہی پر سواری کرکے تم حاصل کر لو

 اور ان چوپایوں پر اور کشتیوں پر سوار کئے جاتے ہو۔(۲)‏

۱۔ جیسے ان سب کے اون اور بالوں سے اور ان کی کھالوں سے کئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ان کے دودھ سے گھی مکھن، پنیر وغیرہ بھی بنتی ہے۔

۲۔  ان سے مراد بچے اور عورتیں ہیں جنہیں ہودج سمیت اونٹ وغیرہ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔

وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ (۸۱)

اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا جا رہا ہے (۱) پس تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا منکر بنتے رہو گے۔ (۲)‏

۱۔ جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ نشانیاں آفاق میں ہی نہیں ہیں تمہارے نفسوں کے اندر بھی ہیں۔

۲۔  یعنی یہ اتنی واضح عام اور کثیر ہیں جن کا کوئی منکر انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا

یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ

کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلوں کا انجام نہیں دیکھا

یعنی جن قوموں نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا۔ یہ ان کی بستیوں کے آثار اور کھنڈرات تو دیکھیں جو ان کے علاقوں میں ہی ہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا؟

كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ

جو ان سے تعداد میں زیادہ تھے قوت میں سخت اور زمین میں بہت ساری یادگاریں چھوڑی تھیں

یعنی عمارتوں کارخانوں اور کھیتیوں کی شکل میں ان کے کھنڈرات واضح کرتے ہیں کہ وہ کاریگی کے میدان میں بھی تم سے بڑھ کر تھے۔

فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۸۲)

ان کے کئے کاموں نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا۔

فَمَا أَغْنَى میں ما استفہامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی نافیہ کا مفہوم تو ترجمے سے واضح ہے

 استفہامیہ کی رو سے مطلب ہوگا ان کو کیا فائدہ پہنچایا؟

مطلب وہی ہے کہ ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہیں آئی۔

فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ

پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر اترانے لگے

علم سے مراد ان کی خود ساختہ شبہات اور باطل دعوے ہیں، انہیں علم سے بطور استہزاء تعبیر فرمایا وہ چونکہ انہیں علمی دلائل سمجھتے تھے، ان کے خیال کے مطابق ایسا کہا۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی باتوں کے مقابلے میں یہ اپنے توہمات پر اتراتے اور فخر کرتے رہے۔

یا علم سے مراد دنیاوی باتوں کا علم ہے، یہ احکام و فرائض الٰہی کے مقابلے میں انہیں ترجیح دیتے رہے۔

وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۸۳)

بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔‏

فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ (۸۴)

ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان لائے اور جن جن کو ہم شریک بنا رہے تھے ہم نے ان سب سے انکار کیا۔‏

فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ

لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا۔

سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ (۸۵)

 اللہ نے اپنا معمول یہی مقرر کر رکھا ہے جو اس کے بندوں میں برابر چلا آرہا ہے (۱) اور اس جگہ کافر خراب و خستہ ہوئے۔ (۲)‏

۱۔ یعنی اللہ کا یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ عذاب دیکھنے کے بعد توبہ اور ایمان مقبول نہیں یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔

۲۔  یعنی معاینہ عذاب کے بعد ان پر واضح ہوگیا کہ اب سوائے خسارے اور ہلاکت کے ہمارے مقدر میں کچھ نہیں۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter