Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Dhariyat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا (۱)

قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر ۔‏

اس سے مراد ہوائیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔

فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (۲)

پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو۔‏

وِقْرًا ، ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے،

حَامِلَاتِ، وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں یا پھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسے چوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا (۳)

پھر چلنے والی نرمی سے

جَارِيَاتِ ، پانی میں چلنے والی کشتیاں،

 يُسْرًا آسانی سے۔

فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا (۴)

پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں ۔‏

مُقَسِّمَاتِ، اس سے مراد فرشتے ہیں جو کام کو تقسیم کر لیتے ہیں، کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بتایا ہے۔ جیسے کہ فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔

 قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔

آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں کا چلنا اور فرشتوں کا مختلف امور کو سر انجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارے کام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کے خلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتی ہے۔

إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ (۵)

یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کئے جاتے ہیں (سب) سچے ہیں‏

وَإِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ (۶)

اور بیشک انصاف ہونے والا ہے۔‏

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ (۷)

قسم ہے راہوں والے آسمان کی  

دوسرا ترجمہ، حسن جمال اور زینت و رونق والا کیا گیا ہے چاند، سورج ستارے و سیارے، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق و زینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں۔

إِنَّكُمْ لَفِي قَوْلٍ مُخْتَلِفٍ (۸)

یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو  

یعنی اے اہل مکہ! تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادو گر، کوئی شاعر، کوئی کاہن اور کوئی جھوٹا کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتا ہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔

يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ (۹)

اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے (١) جو پھیر دیا گیا ہو۔‏

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے،

یا حق سے یعنی بعث و توحید سے

یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا،

 پہلے مفہوم میں ذم ہے اور دوسرے میں مدح۔

قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ (۱۰)

بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے۔‏

الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ (۱۱)

جو غفلت میں ہیں اور بھولے ہوئے ہیں۔‏

يَسْأَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ (۱۲)

پوچھتے ہیں کہ یوم جزا کب ہوگا؟‏

يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (۱۳)

ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے  

يُفْتَنُونَ کے معنی ہیں یحرقون ویعذبون جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ ڈالے جائیں گے۔

ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ (۱۴)

اپنی فتنہ پردازی کا مزہ چکھو (١) یہی ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے۔‏

فِتْنَۃ بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (۱۵)

بیشک تقوٰی والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہونگے۔‏

آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ (۱۶)

ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا اسے لے رہے ہونگے وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے۔‏

كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (۱۷)

وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے  

ھجوع کے معنی ہیں رات کو سونا۔ مَا يَهْجَعُونَ میں مَا تاکید کے لیے ہے۔

وہ رات کو کم سوتے تھے، مطلب ہے ساری رات سو کر غفلت اور عیش و عشرت میں نہیں گزار دیتے تھے۔ بلکہ رات کا کچھ حصہ اللہ کی یاد میں اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑاتے ہوئے گزارتے تھے۔ جیسا کہ حدیث بھی قیام اللیل کی تاکید ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا:

 لوگو! لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، سلام پھیلاؤ اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔ (مسند احمد ٥۔٤٥١)

وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (۱۸)

اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔  

وقت سحر قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے حدیث میں آتا ہے

جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کر دوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم)

وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (۱۹)

اور ان کے مال میں مانگنے والوں اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا  

محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجودلوگ اسے نہیں دیتے۔

ا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ، آفت ارضی و سماوی میں، تباہ ہو جائے۔

وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (۲۰)

اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

وَفِي أَنْفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (۲۱)

اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔‏

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (۲۲)

اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے ۔‏

یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ (۲۳)

آسمانوں اور زمین کے پروردگار کی قسم! کہ یہ (١) بالکل برحق ہے ایسا ہی جیسے کہ تم باتیں کرتے ہو۔‏

إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع (یہ) وہ امور و آیات ہیں جو مذکور ہوئیں۔

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ (۲۴)

کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے ؟‏

ھَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ (۲۵)

وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں ۔

یہ اپنے جی میں کہا، ان سے خطاب کر کے نہیں کہا۔

فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ (۲۶)

پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) لائے۔‏

فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (۲۷)

اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں۔  

یعنی سامنے رکھنے کے باوجود انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ ہی نہیں بڑھایا تو پوچھا۔

فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ

پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوف زدہ ہوگئے (١) انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے (۲)

۱۔ ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔

۲۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔

وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ (۲۸)

اور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی۔‏

فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ (۲۹)

پس ان کی بیوی آگے بڑھی اور حیرت (۱) میں آکر اپنے منہ پر مار کر کہا کہ میں تو بڑھیا ہوں اور ساتھ ہی بانجھ۔‏

صَرَّةٍ کے دوسرے معنی ہیں چیخ و پکار، یعنی چیختے ہوئے کہا۔

قَالُوا كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (۳۰)

انہوں نے کہا ہاں تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے، بیشک وہ حکیم و علیم ہے ۔‏

یعنی جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے، یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا ہے، بلکہ تیرے رب نے اسی طرح کہا ہے جس کی ہم تجھے اطلاع دے رہے ہیں، اس لئے اس پر تعجب کی ضرورت ہے نہ کہ شک کرنے کی، اس لئے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہتا ہے۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ (۳۱)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے  

یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اور کیا کام اور مقصد ہے جس کے لئے تمہیں بھیجا گیا ہے۔

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ (۳۲)

انہوں نے جواب دیا کہ ہم گناہگار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں  

اس سے مراد قوم لوط ہے جن کا سب سے بڑا جرم لواطت تھا۔

لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِينٍ (۳۳)

تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں۔  

برسائیں کا مطلب ہے، ان کنکریوں سے انہیں رجم کر دیں۔

یہ کنکریاں خالص پتھر کی تھیں نہ آسمانی اولے تھے، بلکہ مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔

مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ (۳۴)

جو تیرے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں ان حد سے گزر جانے والوں کے لئے۔  

مُسَوَّمَةً (نامزد یا نشان زدہ) ان کی مخصوص علامت تھی جن سے انہیں پہچان لیا جاتا تھا یا وہ عذاب کے لیے مخصوص تھیں،

 بعض کہتے ہیں کہ جس کنکری سے جس کی موت واقع ہوئی تھی اس پر اسی کا نام لکھا ہوا تھا،

 مُسْرِفِينَ جو شرک و ضلالت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور فسق و فجور میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۳۵)

پس جتنے ایمان دار وہاں تھے ہم نے انہیں نکال لیا  

یعنی عذاب آنے سے پہلے ہم ان کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا تاکہ وہ عذاب سے محفوظ رہیں۔

فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۳۶)

اور ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا  

اور یہ اللہ کے پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا ، کہتے ہیں کہ کل تیرہ آدمی تھے۔ ان میں حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا، جس میں ان کی دو بیٹیاں اور کچھ ایمان لانے والے تھے ان میں حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی شامل نہ تھی بلکہ وہ اپنی قوم کے ساتھ عذاب سے ہلاک ہونے والوں میں سے تھی۔ (ایسر التفاسیر)

اسلام کے معنی ہیں اطاعت و انقیاد ۔

اللہ کے حکموں پر سر اطاعت خم کر دینے والا مسلم ہے اس اعتبار سے ہر مؤمن مسلمان ہے اسی لیے پہلے ان کے لیے مؤمن کا لفظ استعمال کیا، اور پھر ان ہی کے لیے مسلم کا لفظ بولا گیا ہے اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کے مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ مؤمن اور مسلم کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ قرآن نے جو کہیں مؤمن اور مسلم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تو وہ ان معانی کے اعتبار سے ہے جو عربی لغت کی رو سے ان کے درمیان ہے اس لیے لغوی استعمال کے مقابلے میں حقیقت شرعیہ کا اعتبار زیادہ ضروری ہے اور حقیقت شرعیہ کے اعتبار سے ان کے درمیان صرف وہی فرق ہے

 حدیث جبرائیل علیہ السلام سے ثابت ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کی شہادت، اقامت صلوۃ، ایتائے زکوٰۃ، حج اور صیام رمضان۔

 اور جب ایمان کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا، اللہ پر ایمان لانا، اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور تقدیر (خیر وشر کے من جانب اللہ ہونے) پر ایمان رکھنا، یعنی دل سے ان چیزوں پر یقین رکھنا ایمان اور احکام و فرائض کی ادائیگی اسلام ہے۔

 اس لحاظ سے ہر مؤمن مسلمان اور ہر مسلمان مؤمن ہے۔  (فتح القدیر)

اور جو مؤمن اور مسلمان کے درمیان میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں قرآن نے ایک ہی گروہ کے لیے مؤمن اور مسلمان کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ان کے درمیان جو فرق ہے اس کی رو سے ہر مؤمن مسلم بھی ہے تاہم ہر مسلم کا مؤمن ہونا ضروری نہیں۔ (ابن کثیر)

بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے فریقین کے پاس اپنے اپنے مؤقف پر استدلال کے لیے دلائل موجود ہیں۔

وَتَرَكْنَا فِيهَا آيَةً لِلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (۳۷)

اور ہم نے ان کے لئے جو دردناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی  

یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔

 اور یہ علامت بھی انہی کے لئے ہے جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ و نصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے ہیں اور آیات میں غور و فکر بھی وہی کرتے ہیں۔

وَفِي مُوسَى إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَى فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۳۸)

موسیٰ (علیہ السلام کے قصے) میں (بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے) کہ ہم نے فرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا۔‏

فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ وَقَالَ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (۳۹)

پس اس نے اپنے بل بوتے پر منہ موڑا (١) اور کہنے لگا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔‏

جانب اقویٰ کو رکن کہتے ہیں۔ یہاں مراد اس کی اپنی قوت اور لشکر ہے۔

فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَ مُلِيمٌ (۴۰)

بالآخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو اپنے عذاب میں پکڑ کر دریا میں ڈال دیا وہ تھا ملامت کے قابل ۔‏

یعنی اس کے کام ہی ایسے تھے کہ جن پر وہ ملامت ہی کا مستحق تھا۔

وَفِي عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ (۴۱)

اسی طرح عادیوں میں (١) بھی (ہماری طرف سے تنبیہ ہے) جب کہ ہم نے ان پر خیر و برکت سے (۲) خالی آندھی بھیجی۔‏

۱۔ عاد کے قصے میں بھی ہم نے نشانی چھوڑی۔

۲۔  الرِّيحَ الْعَقِيمَ (بانجھ ہوا) جس میں خیر و برکت نہیں تھی،

 وہ ہوا درختوں کو ثمر آور کرنے والی تھی نہ بارش کی پیامبر، بلکہ صرف ہلاکت اور عذاب کی ہوا تھی۔

مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ (۴۲)

وہ جس چیز پر گرتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح (چورا چورا) کر دیتی تھی۔

یہ اس ہوا کی تاثیر تھی جو قوم عاد پر بطور عذاب بھیجی گئی تھی۔ یہ تند تیز ہوا، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی۔  ( سورۃالحاقہ)

وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّى حِينٍ (۴۳)

اور ثمود (کے قصے) میں بھی (عبرت) ہے جب ان سے کہا گیا کہ تم کچھ دنوں تک فائدہ اٹھالو  

یعنی جب انہوں نے اپنے ہی طلب کردہ معجزے اونٹنی کو قتل کر دیا، تو ان سے کہہ دیا گیا کہ اب تین دن اور تم دنیا کے مزے لوٹ لو، تین دن کے بعد تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے۔

یہ اسی طرف اشارہ ہے ۔

بعض نے اسے حضرت صالح علیہ السلام کی ابتدائے نبوت کا قول قرار دیا ہے۔

 الفاظ اس مفہوم کے بھی متحمل ہیں بلکہ سیاق سے یہی معنی زیادہ قریب ہے۔

فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ وَهُمْ يَنْظُرُونَ (۴۴)

لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی جس پر ان کے دیکھتے دیکھتے (تیز تند) کڑاکے نے ہلاک کر دیا۔‏

الصَّاعِقَةُ (کڑاکا) آسمانی چیخ تھی اور اس کے ساتھ (زلزلہ) تھا جیسا کہ سورہ اعراف ٧٨ میں ہے۔

فَمَا اسْتَطَاعُوا مِنْ قِيَامٍ وَمَا كَانُوا مُنْتَصِرِينَ (۴۵)

پس نہ تو کھڑے ہو سکے (١) اور نہ بدلہ لے سکے (٢)‏

۱۔ چہ جائیکہ وہ بھاگ سکیں۔

 ۲۔  یعنی اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکے۔

وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (۴۶)

اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وہ بھی بڑے نافرمان تھے۔

قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود و غیرہ بہت پہلے گزر چکی ہے اس نے بھی اطاعت الٰہی کی بجائے اسکی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر اسے طوفان میں ڈبو دیا گیا۔

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (۴۷)

آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا (۱) اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں (۲)‏

۱۔ السَّمَاءَ منصوب ہے بَنَيْنَا محذوف کی وجہ سے بَنَيْنَا وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا

۲۔  یعنی پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم نے اس کو اور بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہین۔

 یا آسمان سے بارش برسا کر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں

 وُسْع (طاقت و قدرت رکھنے والے) تو مطلب ہوگا ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت و قدرت موجود ہے۔ ہم آسمان و زمین بنا کر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت طاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔

وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ (۴۹)

اور زمین کو ہم نے فرش بنا دیا (١) پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں۔‏

یعنی فرش کی طرح اسے بچھا دیا ہے۔

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (۴۹)

ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے (۱) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو (۲)‏

۱۔ یعنی ہرچیز کو جوڑا جوڑا، نر اور مادہ یا اس کی مقابل اور ضد کو بھی پیدا کیا ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرا، خشکی اور تری، چاند اور سورج، میٹھا اور کڑوا ، رات اور دن، خیر اور شر زندگی اور موت ایمان اور کفر شقاوت اور سعادت جنت اور دوزخ جن وانس وغیرہ حتیٰ کہ حیوانات کے مقابل جمادات اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کا بھی جوڑا ہو یعنی آخرت، دنیا کے بالمقابل دوسری زندگی۔

۲۔  یہ جان لو کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (۵۰)

پس تم اللہ کی طرف دوڑ بھاگ (یعنی رجوع) کرو (١) یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں۔‏

یعنی کفر و معصیت سے توبہ کرکے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔

وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ ۖ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (۵۱)

اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہراؤ بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں۔  

یعنی میں تمہیں کھول کھول کر ڈرا رہا اور تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی طرف رجوع کرو، اسی پر اعتماد اور بھروسہ کر اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو، اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک مت کرو، ایسا کرو گے تو یاد رکھنا جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیئے جاؤ گے۔

كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (۵۲)

اس طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔‏

أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ (۵۳)

کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں  

یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کو جھٹلایا اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوم کیلئے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ (۵۴)

نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش (١) ہیں تو آپ ان سے منہ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں۔‏

یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لئے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جھلتے ہیں۔

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (۵۵)

اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمانداروں کو نفع دے گی۔  

اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔

 یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں اس نصیحت سے وہ لوگ یقیناً فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (۵۶)

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔  

اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب و مطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادہ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت باز پرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔

مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ (۵۷)

نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ مجھے کھلائیں  

یعنی میری عبادت و اطاعت سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے کما کر کھلائیں، جیسا کہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتا ہے، بلکہ رزق کے سارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت و اطاعت سے تو خود ان ہی کا فائدہ ہوگا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہوگا۔

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (۵۸)

اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔‏

فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ (۵۹)

پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا (۱) لہذا وہ مجھ سے جلدی طلب نہ کریں (۲)‏

۱۔ ذَنُوب کے معنی بھرے ڈول کے ہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکال کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر وشرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔

۲۔ لیکن یہ حصہ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوعَدُونَ (۶۰)

پس خرابی ہے منکروں کو ان کے اس دن کی جس کا وعدہ دیئے جاتے ہیں۔‏

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter