Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Waqiah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ (١)‏

جب قیامت قائم ہو جائے گی

واقعہ بھی قیامت کے ناموں سے ہے، کیونکہ یہ لامحالہ واقع ہونے والی ہے، اس لئے اس کا نام بھی ہے۔

لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ (۲)‏

جس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔‏

خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ (۳)‏

وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی

پستی اور بلندی سے مطلب ذلت اور عزت ہے۔ یعنی اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو یہ بلند اور نافرمانوں کو پست کرے گی، چاہے دنیا میں معاملہ اس سے برعکس ہو،۔

إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا (۴)‏

جبکہ زمین زلزلہ کے ساتھ ہلا دی جائے گی۔‏

رَجًّا کے معنی حرکت و اضطراب (زلزلہ) کے ہیں۔

وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا (۵)‏

اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے ۔‏

اور بَسّ کے معنی ریزہ ریزہ ہو جانے کے ہیں۔

فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا (۶)‏

پھر وہ مثل پراگندہ غبار کے ہوجائیں گے۔‏

وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً (۷)‏

اور تم تین جماعتوں میں ہو جاؤ گے۔‏

فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (۸)‏

پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں

اس سے عام مؤمنین مراد ہیں جن کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے جو ان کی خوش بختی کی نشانی ہوگی۔

وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ (۹)‏

اور بائیں ہاتھ والوں کا کیا حال ہے بائیں ہاتھ والوں کا

اس سے مراد کافر ہیں جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ  (۱۰)‏

اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہیں

ان سے مراد خواص مؤمنین ہیں، یہ تیسری قسم ہے جو ایمان قبول کرنے میں سبقت کرنے اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو قرب خاص سے نوازے گا، یہ ترکیب ایسے ہی ہے، جیسے کہتے ہیں، تو تو ہے اور زید زید، اس میں گویا زید کی اہمیت اور فضیلت کا بیان ہے۔

أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ (۱۱)‏‏

وہ بالکل نزدیکی حاصل کئے ہوئے ہیں۔‏

فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (۱۲)‏‏

نعمتوں والی جنتوں میں ہیں۔‏

ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ (۱۳)‏‏

(بہت بڑا) گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگا۔‏

ثُلَّةٌ اس  بڑے گروہ کو کہا جاتا ہے۔ جس کا گننا ناممکن ہو۔

وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ   (۱۴)‏‏

اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے

کہا جاتا ہے کہ اولین سے مراد حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کی امت کے لوگ ہیں اور آخرین سے امت محمدیہ کے افراد ۔

مطلب یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں سابقین کا ایک بڑا گروہ ہے، کیونکہ ان کا زمانہ بہت لمبا ہے جس میں ہزاروں انبیاء کے سابقین شامل ہیں ان کے مقابلے میں امت محمدیہ کا زمانہ (قیامت تک) تھوڑا ہے، اس لیے ان میں سابقین بھی بہ نسبت گذشتہ امتوں کے تھوڑے ہوں گے۔

 اور ایک حدیث میں آتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کا نصف ہو گے۔

تو یہ آیت مذکورہ مفہوم کے مخالف نہیں۔ کیونکہ امت محمدیہ کے سابقین اور عام مؤمنین ملا کر باقی تمام امتوں سے جنت میں جانے والوں کا نصف ہوجائیں گے، اس لیے محض سابقین کی کثرت (سابقہ امتوں میں) سے حدیث میں بیان کردہ تعداد کی نفی نہیں ہوگی۔

 مگر یہ قول محل نظر ہے اور بعض نے اولین و آخرین سے اسی امت محمدیہ کے افراد مراد لیے ہیں۔ یعنی اس کے پہلے لوگوں میں سابقین کی تعداد زیادہ اور پچھلے لوگوں میں تھوڑی ہوگی۔

 امام ابن کثیر نے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ اور یہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔

یہ جملہ معترضہ ہے، فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ اور عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ   کے درمیان۔

عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ   (۱۵)‏‏

یہ لوگ سونے کی تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر۔‏

مَوْضُونَةٍ بنے ہوئے‘ جڑے   ہوئے۔

مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ (۱۶)‏‏

مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ (۱۶)‏‏

یعنی مذکورہ جنتی سونے کے تاروں سے بنے اور سونے جواہر سے جڑے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے یعنی رو در رو ہوں گے نہ کہ پشت بہ پشت۔

يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ (۱۷)‏‏

ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) (١) رہیں گے آمد و رفت کریں گے۔‏

یعنی وہ بڑے نہیں ہونگے کہ بوڑھے ہوجائیں نہ ان کے خدو خال اور قدو قامت میں کوئی تغیر ہوگا بلکہ ایک ہی عمر اور ایک ہی حالت پر رہیں گے، جیسے نو عمر لڑکے ہوتے ہیں۔

بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ   (۱۸)‏‏

آبخورے اور جگ لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے پر ہو۔‏

مَعِين ‘ چشمہ جاری جو خشک نہ ہو۔

لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ (۱۹)‏‏

جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فطور آئے (١)‏

صداع ایسے سردردکو کہتے ہیں جو شراب کے نشے اور خمار کی وجہ سے ہو

اور انْزاف کے معنی‘ وہ فتور عقل جو مدہوشی کی بنیاد پر ہو۔ دنیا کی شراب کے نتیجے میں یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں‘ آخرت کی شراب میں سرور اور لذت تو یقینا ًہوگی لیکن یہ خرابیاں مثلاً مدہوشی عقل میں فتور نہیں ہوگا۔

وَفَاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ (۲۰)‏‏

اور ایسے میوے لئے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں۔‏

وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ (۲۱)‏‏

اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں۔‏

وَحُورٌ عِينٌ (۲۲)‏‏

اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں۔‏

كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ (۲۳)‏‏

جو چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔‏

لْمَكْنُونِ جسے چھپا کر رکھا گیا‘ اس کو کسی کے ہاتھ لگے ہوں نہ گرد و غبار اسے پہنچا ہو۔ ایسی چیز بالکل صاف ستھری اور اصلی حالت میں رہتی ہے۔

جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۲۴)‏‏

یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا۔‏

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا (۲۵)‏‏

نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔‏

إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا (۲۶)‏‏

صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی

یعنی دنیا میں تو باہم لڑائی جھگڑے ہی ہوتے ہیں‘ حتیٰ کہ بہن بھائی بھی اس سے محفوظ نہیں‘ اس اختلاف و نزاع سے دلوں میں کدورتیں اور بغض و عناد پیدا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف بد زبانی‘ سب وشتم‘ غیبت اور چغل خوری وغیرہ پر انسان کو آمادہ کرتا ہے۔ جنت ان تمام اخلاقی گندگیوں اور بیہودگیوں سے نہ صرف پاک ہو گی‘ بلکہ وہاں سلام ہی سلام کی آوازیں سننے میں آئیں گی، فرشتوں کی طرف سے بھی اور آپس میں اہل جنت کی طرف سے بھی۔

مطلب یہ ہے کہ وہاں سلام و تحیہ تو ہو گا لیکن دل اور زبان کی وہ خرابیاں نہیں ہوں گی جو دنیا میں عام ہیں حتیٰ کہ بڑے بڑے دیندار بھی محفوظ نہیں۔

وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ (۲۷)‏‏

اور داہنے ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے

اب تک سابقین کا ذکر تھا اب عام مؤمنین کا ذکر ہو رہا ہے

فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ (۲۸)‏‏

وہ بغیر کانٹوں کی بیریوں۔‏

وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ (۲۹)‏‏

اور تہ بہ تہ کیلوں۔‏

وَظِلٍّ مَمْدُودٍ (۳۰)‏‏

اور لمبے لمبے سایوں

جیسے ایک حدیث میں ہے :

 جنت کے ایک درخت کے سائے تلے ایک گھوڑا سوار سو سال تک چلتا رہے گا، تب بھی وہ سایہ ختم نہیں ہوگا ۔صحیح بخاری

وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ (۳۱)‏‏

اور بہتے ہوئے پانیوں۔‏

وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ (۳۲)‏‏

اور بکثرت پھلوں میں۔‏

لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ (۳۳)‏‏

جو نہ ختم ہوں نہ روک لئے جائیں

یعنی یہ پھل موسمی نہیں ہونگے کہ موسم گزر گیا تو پھل بھی آئندہ فصل تک ناپید ہوجائیں، یہ پھل اس طرح فصل گل و لالہ کے پابند نہیں ہونگے، بلکہ بہار و خزاں اور گرمی و سردی ہر موسم میں دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ان کے حصول کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ (۳۴)‏‏

اور اونچے اونچے فرشوں میں ہونگے

بعض نے فرشوں سے بیویوں اور مرفوعہ سے بلند مرتبہ کا مفہوم مراد لیا ہے۔

إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (۳۵)‏‏

ہم نے ان (کی بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے۔‏

فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا (۳۶)‏‏

اور ہم نے انہیں کنواریاں بنا دیا ہے۔

أَنْشَأْنَاهُنَّ کا مرجع اگرچہ قریب میں نہیں ہے لیکن سیاق کلام اس پر دلالت کرتا ہے اس سے مراد اہل جنت کو ملنے والی بیویاں اور حور عین ہیں۔ حوریں، ولادت کے عام طریقے سے پیدا شدہ نہیں ہونگی، بلکہ اللہ تعالیٰ خاص طور پر انہیں جنت میں اپنی قدرت خاص سے بنائے گا، اور جو دنیاوی عورتیں ہونگی، تو وہ بھی حوروں کے علاوہ اہل جنت کو بیویوں کے کے طور پر ملیں گی‘ ان میں بوڑھی‘ کالی‘ بد شکل‘ جس طرح کی بھی ہوں گی‘ سب کو اللہ تعالیٰ جنت میں جوانی اور حسن و جمال سے نواز دے گا‘ نہ کو ئی بدشکل‘ بلکہ سب باکرہ (کنواری) کی حیثیت میں ہوں گی۔

عُرُبًا أَتْرَابًا (۳۷)‏‏

محبت والیاں اور ہم عمر ہیں۔‏

عُرُبًا ایسی عورت جو اپنے حسن و جمال اور دیگر محاسن کی وجہ سے خاوند کو نہایت محبوب ہو۔

أَتْرَاب ہم عمر‘ یعنی سب عورتیں جو اہل جنت کو ملیں گی‘ ایک ہی عمر کی ہوں گی‘ جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے:

سب جنتی ۳۳ سال کی عمر کے ہوں گے۔ سنن ترمذی

یا مطلب ہے کہ خاوندوں کی ہم عمر ہوں گی۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔

لِأَصْحَابِ الْيَمِينِ (۳۸)‏‏

دائیں ہاتھ والوں کے لئے ہیں۔‏

ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ (۳۹)‏‏

جم غفیر ہے اگلوں میں سے

یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کے لوگوں میں سے یا خود امت محمدیہ کے اگلوں میں سے۔

وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ (۴۰)‏‏

اور بہت بڑی جماعت ہے پچھلوں میں سے۔

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے یا آپ کی امت کے پچھلوں میں سے۔

وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ (۴۱)‏‏

اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے

اس سے مراد اہل جہنم ہیں، جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ جو ان کی مقدر شدہ شقاوت کی علامت ہو گی۔

فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ (۴۲)‏‏

گرم ہوا اور گرم پانی میں (ہوں گے)‏

سَمُومٍ آگ کی حرارت یا گرم ہوا جو مسام بدن میں گھس جائے۔

حَمِيمٍ کھولتا ہوا پانی

وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ (۴۳)‏‏

اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں۔‏

يَحْمُومٍ سخت کالا دھواں، طلب یہ ہے کہ جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر وہ ایک سائے کی طرف دوڑیں گے‘ لیکن جب وہاں پہنچیں گے تو معلوم ہو گا کہ یہ سایہ نہیں ہے‘ جہنم ہی کی آگ کا سخت دھواں ہے۔

امام ضحاک فرماتے ہیں، آگ بھی سیاہ ہے‘ اہل نار بھی سیاہ رو ہوں گے اور جہنم میں جو کچھ بھی ہو گا ‘ سیاہ ہی ہو گا۔

لَا بَارِدٍ وَلَا كَرِيمٍ (۴۴)‏‏

جو ٹھنڈا ہے نہ فرحت بخش

یعنی سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے، لیکن یہ جس کا سایہ سمجھ رہے ہونگے، وہ سایہ ہی نہیں ہوگا، جو ٹھنڈا ہو، وہ تو جہنم کا دھواں ہوگا جس میں کوئی حسن منظر یا خیر نہیں۔ یا حلاوت نہیں۔

إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُتْرَفِينَ (۴۵)‏‏

بیشک یہ لوگ اس سے پہلے بہت نازوں سے پلے ہوئے تھے

یعنی دنیا اور آخرت سے غافل ہو کر عیش و عشرت کی زندگی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ (۴۶)‏‏

اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے۔‏

وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (۴۷)‏‏

اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے مٹی اور ہڈی ہو جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھا کھڑے کئے جائیں گے۔‏

أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ (۴۸)‏‏

اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟‏

اس سے معلوم ہوا کہ عقیدہ آخرت کا انکار ہی کفر و شرک اور معاصی میں ڈوبے رہنے کا بنیادی سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آخرت کا تصور‘ اس کے ماننے والوں کے ذہنوں میں دھندلا جاتا ہے‘ تو ان میں بھی فسق و فجور عام ہو جاتا ہے۔ جیسے آجکل عام مسلمانوں کا حال ہے۔

قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ (۴۹)‏‏

آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے۔‏

لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ (۵۰)‏‏

ضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت۔‏

ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ (۵۱)‏‏

پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو !‏

لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ (۵۲)‏‏

البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت۔‏

فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (۵۳)‏‏

اور اسی سے پیٹ بھرنے والے ہو۔

یعنی اس کریہ المنظراور نہایت بدذائقہ اور تلخ سرخت کا کھانا تمہیں اگرچہ سخت ناگوار ہو گا‘ لیکن بھوک کی شدت سے تمہیں اسی سے اپنا پیٹ بھرنا ہو گا۔

یعنی فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ  (۵۴)‏‏

پھر اس پر گرم کھولتا پانی پینے والے ہو۔‏

فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ (۵۵)‏‏

پھر پینے والے بھی پیاسے اونٹوں کی طرح۔‏

الْهِيمِ ان پیاسے اونٹوں کو کو کہا جاتا ہے جو ایک خاص بیماری کی وجہ سے پانی پر پانی پئے جاتے ہیں لیکن ان کی پیاس نہیں بجھتی۔

مطلب یہ ہے کہ زقوم کھانے کے بعد پانی بھی اس طرح نہیں پیؤ گے جس طرح عام معمول ہوتا ہے‘ بلکہ ایک تو بطور عذاب کے تمہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ دوسرا تم اسے پیاسے اونٹوں کی طرح پیئے جاؤ گے لیکن تمہاری پیاس دور نہیں ہو گی۔

هَذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ (۵۶)‏‏

قیامت کے دن ان کی مہمانی یہ ہے۔‏

یہ بطور استزااور تہکم کے فرمایا‘ ورنہ مہمانی تو وہ ہوتی ہے یو مہمان کی عزت کے لیے تیار کی جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اور مقام پر  فرمایا:

فَبَشِّرۡهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ سورۃ آل عمران‘ ۲۱

ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجئے۔

نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ (۵۷)‏‏

ہم ہی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں باور نہیں کرتے؟

یعنی تم جانتے ہو کہ تمہیں پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے، پھر تم اس کو مانتے کیوں نہیں ہو؟

یا دوبارہ زندہ کرنے پر یقین کیوں نہیں کرتے۔

أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ (۵۸)‏‏

اچھا پھر یہ بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو۔‏

أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ (۵۹)‏‏

کیا اس کا (انسان) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں

یعنی تمہارے بیویوں سے مباشرت کرنے کے نتیجے میں تمہارے جو قطرات منی عورتوں کے رحموں میں جاتے ہیں، ان سے انسانی شکل و صورت بنانے والے ہم ہیں یا تم؟

نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ (۶۰)‏‏

ہم ہی نے تم میں موت کو معین کر دیا (١) اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں ہیں۔‏ (٢)

۱۔ یعنی ہر شخص کی موت کا وقت مقرر کر دیا ہے، جس سے کوئی تجاوز نہیں کر سکتا، چنانچہ کوئی بچپن میں، کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے۔

۲۔  یا مغلوب اور عاجز نہیں ہیں، بلکہ قادر ہیں۔

عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ  (۶۱)‏‏

کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں نئے سرے سے اس عالم میں پیدا کریں جس سے تم (بالکل) بےخبر ہو

یعنی تمہاری صورتیں مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنا دیں اور تمہاری جگہ تمہاری شکل و صورت کی کوئی اور مخلوق پیدا کر دیں۔

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَى فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ (۶۲)‏‏

یقینی طور پر پہلی دفعہ کی پیدائش معلوم ہی ہے پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ۔‏

یعنی کیوں نہیں سمجھتے کہ جس طرح اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا (جس کا تمہیں علم ہے) وہ دوبارہ بھی پیدا کر سکتا ہے۔

أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ (۶۳)‏‏

اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو۔‏

أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (۶۴)‏‏

اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔‏

یعنی زمین میں تم جو بیج بوتے ہو‘ اس میں سے  ایک درخت زمین کے اوپر نمودار ہو جاتا ہے۔ غلے کے اس بے جان دانے کو پھاڑ کر اور زمین کے سینے کو چیر کر اس طرح درخت اگانے والا کون ہے؟ یہ بھی منی کے قطرے سے انسان بنا دینے کی طرح ہماری ہی قدرت کا شاہکار ہے  یا تمہارے کسی ہنر یا چھومنتر کا نتیجہ ہے؟

لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ (۶۵)‏‏

اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے ہی رہ جاؤ۔‏

یعنی کھتی کو سرسبز و شاداب کرنے کے بعد‘ جب وہ پکنے کے قریب ہو جائے تو ہم اگر چاہیں تو اسے خشک کر کے ریزہ ریزہ کر دیں اور تم حیرت سے منہ ہی تکتے رہ جاؤ۔

تَفَكَّهُ کے معنی نعمت اور خوشحالی بھی ہیں اور حزن و یاس بھی۔

إِنَّا لَمُغْرَمُونَ (۶۶)‏‏

کہ ہم پر تاوان ہی پڑ گیا

یعنی ہم نے پہلے زمین پر ہل چلا کر اسے ٹھیک کیا پھر بیج ڈالا، پھر اسے پانی دیتے رہے۔ لیکن جب فصل کے پکنے کا وقت آیا تو وہ خشک ہوگئی، اور ہمیں کچھ بھی نہ ملا یعنی یہ سارا خرچ اور محنت کا معاوضہ نہ ملے، بلکہ یوں ہی ضائع ہو جائے یا زبردستی اس سے کچھ وصول کرلیا جائے اور اسکے بدلے میں اسے کچھ نہ دیا جائے ۔

بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (۶۷)‏‏

بلکہ ہم بالکل محروم ہی رہ گئے۔‏

أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ (۶۸)‏‏

اچھا یہ تو بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو۔‏

أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ (۶۹)‏‏

اسے بادلوں سے بھی تم ہی اتارتے ہو یا ہم برساتے ہیں۔‏

لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ (۷۰)‏‏

اگر ہماری منشا ہو تو ہم اسے کڑوا زہر کر دیں پھر ہماری شکر گزاری کیوں نہیں کرتے؟

یعنی اس احسان پر ہماری اطاعت کرکے ہمارا عملی شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟

أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ (۷۱)‏‏

اچھا ذرا یہ بھی بتاؤ کہ جو آگ تم سلگاتے ہو۔‏

أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ (۷۲)‏‏

اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں

کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں، مرخ اور عفار، ان دونوں سے ٹہنیاں لے کر، ان کو آپس میں رگڑا جائے تو اس سے آگ کے شرارے نکلتے ہیں۔

نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِلْمُقْوِينَ (۷۳)‏‏

ہم نے اسے سبب نصیحت (۱) اور مسافروں کے فائدے کی چیز بنایا (۲)‏

۱۔ کہ اس کے اثرات اور فوائد حیرت انگیز ہیں اور دنیا کی بیشمار چیزوں کی تیاری کے لئے اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے، پھر ہم نے جس طرح دنیا میں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں جو اس سے ٦٩ درجہ حرارت میں زیادہ ہوگی۔

 ۲۔  تَفَكَّهُ ، مقوی کی جمع ہے، قواء یعنی خالی صحراء میں داخل ہونے والا، مراد مسافر ہے، یعنی مسافر صحراؤں اور جنگلوں میں ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سے روشنی، گرمی اور ایندھین حاصل کرتے ہیں۔

 بعض نے مقوی سے وہ فقراء مراد لیے ہیں جو بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ ہوں۔

بعض نے اس کے معنی مستمعین (فائدہ اٹھانے والے) کیے ہیں۔ اس میں امیر غریب، مقیم اور مسافر سب آجاتے ہیں اور سب ہی آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن تین چیزوں کو عام رکھنے کا اور ان سے کسی کو نہ روکنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں پانی اور گھاس کے علاوہ آگ بھی ہے، امام ابن کثیر نے اس مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے۔

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (۷۴)‏‏

پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو۔‏

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ (۷۵)‏‏

پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی (١)‏

فَلَا أُقْسِمُ میں لَا زائد ہے جو تاکید کے لیے ہے۔ یا یہ زائد نہیں ہے بلکہ ما قبل کی کسی چیز کی نفی کے لیے ہے۔ ۔یعنی یہ قرآن کی کہانت یا شاعری نہیں ہے بلکہ میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن عزت والا ہے۔

مَوَاقِعِ النُّجُومِ سے مراد ستاروں کے طلوع و غروب کی جگہیں اور ان کی منزلیں اور مدار ہیں۔

ترجمہ کیا ہے :

قسم کھاتا ہوں آیتوں کے اترنے کی پیغمبروں کے دلوں میں ۔ (موضح القرآن) یعنی نجوم‘ قرآن کی آیات اور مواقع‘ قلوب انبیا۔

بعض  نے اس کا مطلب قرآن کا آہستہ آہستہ بتدریج اترنا اور بعض نے قیامت والے دن ستاروں کا جھڑنا مراد لیا ہے۔ ابن کثیر

وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (۷۶)‏‏

اور اگر تمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔‏

إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (۷۷)‏‏

کہ بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے

یہ جواب قسم ہے۔

فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ (۷۸)‏‏

جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے

یعنی لوح محفوظ میں۔

لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۷۹)‏‏

جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں

یعنی اس قرآن کو فرشتے ہی چھوتے ہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوتی۔

مطلب مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ کیوں کر ممکن ہے یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔

تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ  (۸۰)‏‏

یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے۔‏

أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ (۸۱)‏‏

پس کیا تم ایسی بات کو سرسری (اور معمولی) سمجھ رہے ہو۔‏

حديث سے مراد قرآن کریم ہے۔

مُدْهِنُونَ وہ نرمی جو کفر و نفاق کے مقابلے میں اختیار کی جائے دراں حالیکہ ان کے مقابلے میں سخت تر رویے کی ضرورت ہے۔

یعنی اس قرآن کو اپنانے کے معاملے میں تمام کافروں کو خوش کرنے کے لیے نرمی اور اعراض کا راستہ اختیار کر رہے ہو۔ حالانکہ یہ قرآن مذکورہ صفات کا حامل ہے‘ اس لائق ہے کہ اسے نہایت خوشی سے اپنایا جائے۔

وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (۸۲)‏‏

اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔‏

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ (۸۳)‏‏

پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے۔‏

وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ (۸۴)‏‏

اور تم اس وقت آنکھوں سے دیکھتے رہو

یعنی روح نکلتے ہوئے دیکھتے ہو لیکن ٹال سکنے کی یا اسے کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے۔

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ (۸۵)‏‏

ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں (١) لیکن تم دیکھ نہیں سکتے۔‏(۲)

یعنی مرنے والے کے ہم، تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اپنے علم، قدرت کے اعتبار سے۔

 یا ہم سے مراد اللہ کے کارندے یعنی موت کے فرشتے ہیں جو اس کی روح قبض کرتے ہیں۔

یعنی اپنی جہالت کی وجہ سے تمہیں اس بات کا ادراک نہیں ک اللہ تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

یا روح قبض کرنے والے فرشتوں کو تم دیکھ نہیں سکتے۔

فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (۸۶)‏‏

پس اگر تم کسی کے زیر فرمان نہیں۔‏

تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۸۷)‏‏

اور اس قول میں سچے ہو تو (ذرا) اس روح کو تو لوٹاؤ ۔‏

یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ کوئی تمہارا آقا اور مالک نہیں جس کے تم زیر فرمان اور ما تحت ہو یا کوئی جزا سزا کا دن نہیں آئے گا، تو اس قبض کی ہوئی روح کو اپنی جگہ پر واپس لوٹا کر دکھاؤ اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے اس کا مطلب تمہارا گمان باطل ہے۔ یقیناً تمہارا ایک آقا ہے اور یقیناً ایک دن آئے گا جس میں وہ آقا ہر ایک کو اسکے عمل کی جزا دے گا۔

فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ (۸۸)‏‏

پس جو کوئی بارگاہ الٰہی سے قریب ہوگا۔‏

سورت کے آغاز میں اعمال کے لحاظ سے انسانوں کی جو تین قسمیں بیان کی گئی تھیں ان کا پھرذکر کیا جا رہا ہے۔ یہ ان کی پہلی قسم ہے جنہیں مقربین کے علاوہ سابقین بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ نیکی کے ہر کام میں آگے آگے ہوتے ہیں اور قبول ایمان میں بھی دوسروں سے سبقت کرتے ہیں اور اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ مقربین بارگاہ الہٰی قرار پاتے ہیں۔

فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ (۸۹)‏‏

اسے تو راحت ہے اور غذائیں ہیں اور آرام والی جنت ہے۔‏

وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ (۹۰)‏‏

اور جو شخص داہنے (ہاتھ) والوں میں سے ہے

یہ دوسری قسم ہے، عام مؤمنین۔ یہ بھی جہنم سے بچ کر جنت میں جائیں گے، تاہم درجات میں سابقین سے کمتر ہوں گے۔ موت کا فرشتے ان کو بھی سلامتی کی خوشخبری دیتے ہیں۔

فَسَلَامٌ لَكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ (۹۱)‏‏

تو بھی سلامتی ہے تیرے لئے کہ تو داہنے والوں میں سے ہے۔‏

وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ (۹۲)‏‏

لیکن اگر کوئی جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہے

یہ تیسری قسم ہے جنہیں آغاز سورت میں کہا گیا تھا، بائیں ہاتھ والے یا حاملین نحوست۔ یہ اپنے کفر و نفاق کی سزا یاس اس کی نحوست عذاب جہنم کی صورت میں بھگتیں گے۔

فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ (۹۳)‏‏

تو کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی ہے۔‏

وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ (۹۴)‏‏

اور دوزخ میں جانا ہے۔‏

إِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ (۹۵)‏‏

یہ خبر سراسر حق اور قطعاً یقینی ہے۔‏

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (۹۶)‏‏

پس تو اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کر (١)‏

حدیث میں آتا ہے:

 دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں، زبان پر ہلکے اور وزن میں بھاری۔ ۔(صحیح بخاری)

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہِ  سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter