Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al JumuahTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ(١) (ساری چیزیں) جو آسمان اور زمین میں ہیں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو) بادشاہ نہایت پاک غالب و با حکمت ہے۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا اُمِّیِّینَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت دوسروں کے کے لئے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے اس لئے اللہ کا ان پر زیادہ احسان تھا۔ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ(۲) جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(۳) اور دوسروں کے لئے بھی انہی میں سے جو اب تک ان سے نہیں ملے۔ وہی غالب با حکمت ہے۔ یہ اُمِّیِّینَ پر عطف ہے یعنی بَعَثَ فِیْ اَ خِرِ یْنَ مِنْھُمْ اَخَرِ یْنَ سے فارس اور دیگر غیر عرب لوگ ہیں جو قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے ہونگے، بعض کہتے ہیں کہ عرب و عجم کے وہ تمام لوگ ہیں جو عہد صحابہ کرام کے بعد قیامت تک ہوں گے چنانچہ اس میں فارس، روم، بربر، سوڈان، ترک، مغول، کرد، چینی اور اہل ہند وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہم کی نبوت سب کے لیے ہے چنانچہ یہ سب ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ اور اسلام لانے کے بعد یہ بھی منہم کا مصداق یعنی اولین اسلام لانے والے اُمِّیِّینَ میں سے ہوگئے کیونکہ تمام مسلمان امت واحدہ ہیں۔ اسی ضمیر کی وجہ سے بعض کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد بعد میں ہونے والے عرب ہیں کیونکہ منہم کی ضمیر کا مرجع اُمِّیِّینَ ہیں۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ(۴) یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے اپنا فضل دے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔ یہ اشارہ نبوت محمدی کی طرف ہو سکتا ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کی طرف بھی۔ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو اَسْفَار سَفْر کی جمع ہے، معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے اس لئے کتاب کو سفر کہا جاتا ہے ۔ (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل وتحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم و شعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا : "الئک کالانعام بل ھم اضل" یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں،(الاعراف۔ ۱۷۶) یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علماء کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں لیکن اس کے مقتضی پر عمل نہیں کرتے۔ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ(۵) اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسی) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(۶) کہہ دیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔ - جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں۔ (المائدہ۔١٨) - اور دعویٰ کرتے تھے کہ جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا ۔ (البقرۃ۔ ١١١) - تاکہ تمہیں وہ اعزاز و اکرام حاصل ہو جو تمہارے غرور کے مطابق تمہارے لئے ہونا چاہیئے، - اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت ومحبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کر لو۔ یعنی مسلمان اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الہی میں دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں یعنی کفر و معاصی اور کتاب الٰہی میں تحریف و تغیر کا جو ارتکاب یہ کرتے رہے ہیں، ان کے باعث کبھی بھی یہ موت کی آرزو نہیں کریں گے وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ(۷) اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ(۸) پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے کئے ہوئے تمام کام بتلا دیگا۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ اذان کس طرح دی جائے، اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہرچیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں۔ (فتح القدیر) فَاَسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہے کہ اذان کے بعد فوراً کاروبار بند کر کے آجاؤ۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری) بعض حضرات نے ذروا البیع (خرید وفروخت) چھوڑ دو سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خریدوفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی ایسا گاؤں نہیں جہاں خرید وفروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو اس لیے یہ دعویٰ ہی خلاف واقعہ ہے۔ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب دنیا کے مشاغل ہیں وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کردیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کھتی باڑی کاروبار اور مشاغل دنیا سے مختلف چیز ہے؟ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ(۹) یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہو جاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(۱۰) اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑ کر باہر خرید و فروخت کے لئے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت ختم نہ ہو جائے صرف ١٢ آدمی مسجد میں رہ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحیح بخاری)۔ انفضاض کے معنی ہیں مائل اور متوجہ ہونا دوڑ کر منتشر ہوجانا۔ الیھا میں ضمیر کا مرجع تجارۃ ہے یہاں صرف ضمیر تجارت پر اکتفا کیا اس لیے کہ جب تجارت بھی باوجود جائز اور ضروری ہونے کے دوران خطبہ مذموم ہے تو کھیل وغیرہ کے مذموم ہونے کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں قائما سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خطبے ہوتے تھے، جن کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے۔ (صحیح مسلم) قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے - یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کی جو جزائے عظیم ہے۔ - جس کی طرف تم دوڑ کر گئے اور مسجد سے نکل گئے اور خطبہ جمعہ کی سماعت بھی نہیں کی۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(۱۱) اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے ۔ - پس اسی سے روزی طلب کرو اور اطاعت کے ذریعے سے اسی کی طرف وسیلہ پکڑو۔ اس کی اطاعت اور اس کی طرف رزق حاصل کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔ *********** |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |