Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Qalam

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (1)

ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں۔‏

قلم کی قسم کھائی، جس کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس کے ذریعے سے کھول کر بیان لکھا جاتا ہے

 بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ خاص قلم ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور اسکو تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس نے ابد تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں (سنن ترمذی)

مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (2)

تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے

یہ جواب قسم ہے، جس میں کفار کے قول کا رد ہے، وہ آپ کو مجنون (دیوانہ) کہتے تھے۔

وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (3)

اور بیشک تیرے لئے بے انتہاء اجر ہے ۔‏

فریضہ نبوت کی ادائیگی میں جتنی زیادہ تکلیفیں برداشت کیں اور دشمنوں کی باتیں سنی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ(4)

اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔

خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب ہے کہ تو اس خلق پر ہے جس کا حکم اللہ نے تجھے قرآن میں یا دین میں دیا ہے۔

فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ(5)

پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے۔‏

یعنی جب حق واضح ہو جائے گا اور سارے پردے اٹھ جائیں گے اور یہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق فرمایا ہے۔

بِأَيْيِكُمُ الْمَفْتُونُ(6)

کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے۔‏

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ(7)

بیشک تیرا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو خوب جانتا ہے، اور وہ راہ یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے۔‏

فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ(8)

پس تو جھٹلانے والوں کو نہ مان

اطاعت سے مراد یہاں وہ مدارات ہے جس کا اظہار انسان نے اپنے ضمیر کے خلاف کرتا ہے۔ یعنی مشرکوں کی طرف جھکنے اور ان کی خاطر مدارت کی ضرورت نہیں۔

وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ(8)

وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں

وہ چاہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ بھی تیرے بارے میں نرم رویہ اختیار کریں باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں ڈھیلے ہو جائیں گے۔ اس لئے حق میں خوشامد، حکمت، تبلیغ اور کار نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ(10)

اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہنا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا۔‏

هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ(11)

بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور۔‏

مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ(12)

بھلائی سے روکنے والا حد سے بڑھ جانے والا گنہگار۔‏

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ(13)

گردن کش پھر ساتھ ہی بےنسب ہو

یہ ان کافروں کی اخلاقی پستیوں کا ذکر ہے جن کی خاطر پیغمبر کو خوش آمد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ(14)

اس کی سرکشی صرف اس لئے ہے کہ وہ مال والا اور بیٹوں والا ہے

یعنی مذکورہ اخلاقی قباحتوں کا ارتکاب اس لئے کرتا ہے کہ اللہ نے اسے مال اور اولاد کی نعمتوں سے نوازا ہے یعنی وہ شکر کی بجائے کفران نعمت کرتا ہے، یعنی جس شخص کے اندر یہ خرابیاں ہوں، اس کی بات صرف اس لئے مان لی جائے کہ وہ مال اور اولاد رکھتا ہے۔

إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ(15)

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے یہ تو اگلوں کے قصے ہیں۔‏

سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ(16)

ہم بھی اس کی سونڈ(ناک) پر داغ دیں گے

بعض کے نزدیک اس کا تعلق دنیا سے ہے،

 مثلاً  کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں ان کفروں کے ناکوں کو تلواروں کا نشانہ بنایا گیا۔

 اور بعض کہتے ہیں کہ یہ قیامت والے دن جہنمیوں کی علامت ہوگی کہ ان کے ناکوں کو داغ دیا جائے گا

 یا اس کا مطلب چہروں کی سیاہی ہے۔ جیسا کہ کافروں کے چہرے اس دن سیاہ ہونگے۔

 بعض کہتے ہیں کہ کافروں کا یہ حشر دنیا اور آخرت دونوں جگہ ممکن ہے۔

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ

بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا

مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔

كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ(17)

جس طرح ہم نے باغ والوں کو  آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے۔‏

باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔

 یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس باغ کو تباہ کر دیا،

کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر)

یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔

وَلَا يَسْتَثْنُونَ(18)

اور انشاء اللہ نہ کہا۔‏

یعنی صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے۔

فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ(19)

پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو رہے تھے

بعض کہتے ہیں، راتوں رات اسے آگ لگ گئی، بعض کہتے ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے آکر اسے تہس نہس کر دیا۔

فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ(20)

پس وہ باغ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی

یعنی جس طرح کھیتی کٹنے کے بعد خشک ہو جاتی ہے، اس طرح سارا باغ اجڑ گیا،

بعض نے ترجمہ یہ کیا ہے، سیاہ رات کی طرح ہوگیا، یعنی جل کر۔

فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ(21)

اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں۔‏

أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ(22)

اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو۔‏

فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ(23)

پھر جب یہ چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے

یعنی باغ کی طرف جانے کے لئے ایک تو صبح صبح نکلے دوسرے آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے گئے تاکہ کسی کو ان کے جانے کا علم نہ ہو۔

أَنْ لَا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِسْكِينٌ(24)

کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے

یعنی وہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ آج کوئی باغ میں آکر ہم سے کچھ نہ مانگے جس طرح ہمارے باپ کے زمانے میں آیا کرتے تھے اور وہ اپنا حصہ لے جاتے تھے۔

وَغَدَوْا عَلَى حَرْدٍ قَادِرِينَ(25)

اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پا گئے

یعنی اپنے معاملے کا انہوں نے اندازہ کر لیا، یا اپنے ارادے سے انہوں نے باغ پر قدرت حاصل کر لی،

یا مطلب ہے مساکین پر انہوں نے قابو پا لیا۔

فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ(26)

جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے ہیں۔

یعنی باغ والی جگہ کو راکھ کا ڈھیر یا اسے تباہ برباد دیکھا۔

 یعنی پہلے پہل تو ایک دوسرے کو کہا۔

بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ(27)

نہیں نہیں ہماری قسمت پھوٹ گئی

پھر جب غور کیا تو جان گئے کہ یہ آفت زدہ اور تباہ شدہ باغ ہمارا ہی ہے جسے اللہ نے ہمارے طرز عمل کی پاداش میں ایسا کر دیا اور واقعی یہ ہماری بد نصیبی ہے۔

قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ(28)

ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے

بعض نے تسبیح سے مراد انشاءاللہ کہنا مراد لیا ہے۔

قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ(29)

تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ظالم تھے۔

یعنی اب انہیں احساس ہوا کہ ہم نے اپنے باپ کے طرز عمل کے خلاف قدم اٹھا کر غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا اللہ نے ہمیں دی ہے

 اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معصیت کا عزم اور اس کے لیے ابتدائی اقدامات بھی ارتکاب معصیت کی طرح جرم ہے جس پر مؤاخذہ ہوسکتا ہے صرف وہ ارادہ معاف ہے جو وسوسے کی حد تک ہو۔

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ(30)

پھر ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے۔‏

قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ(31)

کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے۔‏

عَسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ(32)

کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں‏

کہتے ہیں کہ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ اب اگر اللہ نے ہمیں مال دیا تو اپنے باپ کی طرح اس میں سے غربا اور مساکین کا حق ادا کریں گے۔ اسلئے ندامت اور توبہ کے ساتھ رب سے امیدیں بھی وابستہ کیں۔

كَذَلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ

یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت ہی بڑی ہے

یعنی اللہ کے حکم کی مخالفت اور اللہ کے دیے مال میں بخل کرنے والوں کو ہم دنیا میں اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔

لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ(33)

کاش انہیں سمجھ ہوتی

لیکن افسوس وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس لئے پروا نہیں کرتے۔

إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ(34)

پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں۔‏

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ(35)

کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کر دیں گے

مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کر دیں گے

مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔

مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ(36)

تمہیں کیا ہوگیا، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟‏

أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ(37)

کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟‏

کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے جس کا تم دعویٰ کر رہے ہو، کہ وہاں بھی تمہارے لئے وہ کچھ ہو جسے تم پسند کرتے ہو۔

إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ(38)

کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں۔‏

یا ہم نے تم سے پکا عہد کر رکھا ہے، جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے کہ تمہارے لئے وہی کچھ ہوگا جس کا تم اپنی بابت فیصلہ کرو گے۔

أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ(39)

یا تم نے ہم سے قسمیں لی ہیں؟ جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لئے وہ سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کر لو

یا ہم نے تم سے پکاعہد کر رکھا ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہو گا جس کا تم اپنی بابت فیصلہ کرو گے۔

سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَلِكَ زَعِيمٌ(40)

ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہ دار (اور دعویدار) ہے

کہ کیا وہ قیامت والے دن ان کے لئے وہی کچھ فیصلہ کروائے گا، جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے فرمائے گا۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ(41)

کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟ تو چاہیے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں۔

یا جن کو انہوں نے شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ ان کی مدد کر کے ان کو اچھا مقام دلوا دیں گے؟

اگر ان کے شریک ایسے ہیں تو ان کو سامنے لائیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو۔

يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ(42)

جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کر سکیں گے

بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے:

 قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہو جائے گا (صحیح بخاری)

اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا؟

 اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کر سکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ

نگاہیں نیچی ہوں گی ان پر ذلت و خواری چھا رہی ہوگی

یعنی دنیا کے برعکس ان کا معاملہ ہوگا دنیا میں تکبر وعناد کی وجہ سے ان کی گردنیں اکڑی ہوتی تھیں۔

وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ(43)

حالانکہ یہ سجدے کے لئے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے جبکہ صحیح سلامت تھے

یعنی صحت مند اور توانا تھے، اللہ کی عبادت میں کوئی چیز ان کے لئے مانع نہیں تھی۔ لیکن دنیا میں اللہ کی عبادت سے یہ دور رہے۔

فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ(44)

پس مجھے اور اس کلام کو جھٹلانے والے کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا

یعنی میں ہی ان سے نمٹ لوں گا تو ان کی فکر نہ کر

 یہ ڈھیل دینے کا ذکر ہے۔

قرآن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نافرمانی کے باوجود دنیاوی مال و اسباب کی فراوانی، اللہ کا فضل نہیں ہے، اللہ کے قانون پھر جب وہ گرفت کرنے پر آتا ہے تو کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔

وَأُمْلِي لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ(45)

اور میں انہیں ڈھیل دونگا، بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔‏

أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ(46)

کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہوں

یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن سرزنش ان کو کی جا رہی ہے جو آپ پر ایمان نہیں لا رہے تھے۔

أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ(47)

کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے وہ لکھتے ہوں۔

یعنی کیا غیب کا علم ان کے پاس ہے لوح محفوظ ان کے تصرف میں ہے کہ اس میں سے جو بات چاہتے ہیں نقل کر لیتے ہیں اس لیے یہ تیری اطاعت اختیار کرنے اور تجھ پر ایمان لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ(48)

بس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے انتظار کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جبکہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی

جنہوں نے اپنی قوم کی روش تکذیب کو دیکھتے ہوئے عجلت سے کام لیا اور رب کے فیصلے کے بغیر ہی از خود اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں انہیں مچھلی کے پیٹ میں، جب کہ وہ غم و اندوہ سے بھرے ہوئے تھے اپنے رب کو مدد کے لئے پکارنا پڑا۔ جیسے کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے،

لَوْلَا أَنْ تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ(49)

اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پالیتی تو یقیناً وہ برے حالوں میں چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا ۔

یعنی اگر اللہ تعالیٰ انہیں توبہ و مناجات کی توفیق نہ دیتا اور ان کی دعا قبول نہ فرماتا تو ساحل سمندر کے بجائے جہاں ان کے سائے اور خوراک کے لئے بیلدار درخت اگا دیا گیا، کسی بنجر زمین میں پھینک دیا جاتا اور عند اللہ ان کی حیثیت بھی مذموم رہتی، جب کہ قبولیت دعا کے بعد وہ محمود ہوگئے۔

فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ(50)

اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیک کاروں میں کر دیا

اس کا مطلب ہے کہ انہیں توانا اور تندرست کرنے کے بعد دوبارہ رسالت سے نواز کر انہیں اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا، جیسا کہ سورت صافات۔١٤٦ سے بھی واضح ہے۔

وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ

اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں

مزید لکھتے ہیں ' یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اس کا دوسروں پر، اللہ کے حکم سے، اثر انداز ہونا، حق ہے۔ جیسا کہ متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں اس سے بچنے کے لیے دعائیں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو ماشاء اللہ یا بارک اللہ کہا کرو تاکہ اسے نظر نہ لگے۔

لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ(51)

جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے

یعنی حسد کے طور پر بھی اور اس غرض سے بھی کہ لوگ اس قرآن سے متاثر نہ ہوں بلکہ اس سے دور ہی رہیں آنکھوں کے ذریعے سے بھی یہ کفار نبی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے اور زبانوں سے بھی آپ کو دیوانہ کہہ کر ایذاء پہنچاتے اور آپ کے دل کو مجروح کرتے۔

وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ(52)

در حقیقت یہ (قرآن) تو تمام جہان والوں کے لئے سراسر نصیحت ہے

جب واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے تو پھر اس کو لانے والا اور بیان کرنے والا مجنون (دیوانہ) کس طرح ہو سکتا ہے؟

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter