Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Nuh

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ

یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا

حضرت نوح علیہ السلام جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث شفاعت میں ہے کہ یہ پہلے رسول ہیں، نیز کہا جاتا ہے کہ انہی کی قوم سے شرک کا آغاز ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔

أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(1)

کہ اپنی قوم کو ڈرا دو (اور خبردار کردو) اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے

 قیامت کے دن عذاب یا دنیا میں عذاب آنے سے قبل، جیسے اس قوم پر طوفان آیا۔

قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ(2)

(نوح علیہ السلام نے) کہا اے میری قوم! میں تمہیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔

اللہ کے عذاب سے

 اگر تم ایمان نہ لائے اسی لیے عذاب سے نجات کا نسخہ تمہیں بتلانے آیا ہوں جو آگے بیان ہو رہا ہے۔

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ(3)

کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔

- اور شرک چھوڑ دو، صرف اسی کی عبادت کرو۔

- اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرو، جن سے تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا سکتے ہو،

- یعنی میں تمہیں جن باتوں کا حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اس لئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول اور اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔

يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ

تو وہ خود تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایک وقت مقرہ تک چھوڑ دے گا

إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ(4)

 یقیناً اللہ کا وعدہ جب آجاتا ہے تو مؤخر نہیں ہوتا کاش تمہیں سمجھ ہوتی۔

اس کے معنی یہ کیے گیے ہیں کہ ایمان لانے کی صورت میں تمہاری موت کی جو مدت مقرر ہے اس کو مؤخر کرکے تمہیں مزید مہلت عمر عطا فرمائے گا اور وہ عذاب تم سے دور کردے گا جو عدم ایمان کی صورت میں تمہارے لیے مقدر تھا۔ بلکہ لامحالہ واقع ہو کر رہنا ہے اسی لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ایمان واطاعت کا راستہ فوراً اپنا لو تاخیر خطرہ ہے کہ وعدہ عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آجاؤ۔

قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا(5)

(نوح علیہ السلام نے) کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے ۔‏

یعنی تیرے حکم کی تعمیل میں، بغیر کسی کوتاہی کے رات دن میں نے تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچایا ہے۔

فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا(6)

مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور زیادہ بھاگنے لگے ۔‏

یعنی میری پکار سے یہ ایمان سے اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ جب کوئی قوم گمراہی کے آخری کنارے پر پہنچ جائے تو پھر اس کا یہی حال ہوتا ہے، اسے جتنا اللہ کی طرف بلاؤ، وہ اتنا ہی دور بھاگتی ہے۔

وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ

میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لئے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں

- یعنی ایمان اور اطاعت کی طرف، جو سبب مغفرت ہے۔

- تاکہ میری آواز سن سکیں۔ تاکہ میرا چہرہ نہ دیکھ سکیں یا اپنے سروں پر کپڑے ڈال دیے تاکہ میرا کلام نہ سن سکیں

 وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا(7)

اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور پھر بڑا تکبر کیا،

- یعنی کفر پر مصر رہے، اس سے باز نہ آئے اور توبہ نہیں کی۔

- قبول حق اور امتثال امر سے انہوں نے سخت تکبر کیا۔

ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا(8)

پھر میں نے انہیں با آواز بلند بلایا۔‏

ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا(9)

بیشک میں نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور چپکے چپکے بھی ۔‏

یعنی مختلف انداز اور طریقوں سے انہیں دعوت دی۔

بعض کہتے ہیں، کہ اجتماعات اور مجلسوں میں بھی انہیں دعوت دی اور گھروں میں فرداً فرداً بھی اللہ کا پیغام پہنچایا۔

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ

اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ

یعنی ایمان اور اطاعت کا راستہ اپنالو، اور اپنے رب سے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ لو۔

إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا(10)

 (اور معافی مانگو) وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے

وہ توبہ کرنے والوں کے لئے بڑا رحیم و غفار ہے۔

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا(11)

وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا

بعض علماء اسی آیت کی وجہ سے نماز استسقاء میں سورہ نوح کے پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔

 مروی ہے کہ حضرت عمر بھی ایک مرتبہ نماز استسقاء کے لئے منبر پر چڑھے تو صرف آیات استغفار (جن میں یہ آیت بھی تھی) پڑھ کر منبر سے اتر آئے۔ اور فرمایا کہ میں نے بارش کو، بارش کے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں میں ہیں جن سے بارش زمین پر اترتی ہے (ابن کثیر)

وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا(12)

اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا۔

یعنی ایمان و اطاعت سے تمہیں اخروی نعمتیں ملیں گی بلکہ دنیاوی مال ودولت اور بیٹوں کی کثرت سے بھی نوازے جاؤ گے۔

مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا(13)

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے۔

یعنی جس طرح اس کی عظمت کا حق ہے تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں؟

 اور اس کو ایک کیوں نہیں مانتے اور اس کی اطاعت کیوں نہیں کرتے۔

وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا(14)

حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے۔‏

پہلے نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر عظام اور لحم اور پھر خلق تام، جیسا کہ سورہ حج۔ ٥، المؤ منون۔١٤ ، المؤ من ٦٧ وغیرہ میں تفصیل گزری۔

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا(15)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے کس طرح سات آسمان پیدا کر دیئے ہیں۔

جو اس کی قدرت اور کمال صناعت پر دلالت کرتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت کے لائق صرف وہی ایک اللہ ہے۔

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا(16)

اور ان میں چاند کو خوب جگمگاتا بنایا اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے۔‏

جو روئے زمین کو منور کرنے والا اور اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔ تاکہ اس کی روشنی میں انسان معاش کے لیے جو انسانوں کی انتہائی ناگزیر ضرورت ہے کسب و محنت کر سکے۔

وَاللَّهُ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا(17)

اور تم کو زمین سے ایک (خاص) اہتمام سے اگایا ہے

یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو، جنہیں مٹی سے بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔

یا اگر تمام انسانوں کو مخاطب سمجھا جائے، تو مطلب ہوگا کہ تم جس نطفے سے پیدا ہوتے ہو وہ اسی خوراک سے بنتا ہے جو زمین سے حاصل ہوتی ہے، اس اعتبار سے سب کی پیدائش کی اصل زمین ہی قرار پائی ہے۔

ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا(18)

پھر تمہیں اسی میں لوٹا لے جائے گا اور (ایک خاص طریقہ) سے پھر نکالے گا

یعنی، مر کر پھر اسی مٹی میں دفن ہونا ہے اور پھر قیامت والے دن اسی زمین سے تمہیں زندہ کرکے نکالا جائے گا۔

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا(19)

اور تمہارے لئے زمین کو اللہ تعالیٰ نے فرش بنا دیا ہے۔

یعنی اسے فرش کی طرح بچھا دیا ہے تم اس پر اسی طرح چلتے پھرتے ہو جیسے اپنے گھر میں بچھے ہوئے فرش پر چلتے اور اٹھتے بیٹھتے ہو۔

لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا(20)

تاکہ تم اس کی کشادہ راہوں میں چلو پھرو۔

یعنی اس زمین پر اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے کشادہ راستے بنا دیے ہیں تاکہ انسان آسانی کے ساتھ ایک دوسری جگہ، ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاسکے اس لیے یہ راستے بھی انسان کی کاروباری اور تمدنی ضرورت ہے جس کا انتظام کرکے اللہ نے انسانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔

قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا(21)

نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! ان لوگوں نے میری تو نافرمانی کی

 اور ایسوں کی فرمانبرداری کی جن کے مال و اولاد نے (یقیناً) نقصان ہی میں بڑھایا ہے

لوگ میری نافرمانی پر اڑے ہوئے ہیں اور میری دعوت پر لبیک نہیں کہہ رہے۔ یعنی ان کے اپنے بڑوں اور صاحب ثروت ہی کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے انہیں دنیا اور آخرت کے خسارے میں ہی بڑھایا ہے۔

وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا(22)

اور ان لوگوں نے بڑا سخت فریب کیا،

یہ مکر یا فریب کیا تھا

بعض کہتے ہیں ان کا بعض لوگوں کو حضرت نوح علیہ السلام کے قتل پر ابھارنا تھا

 بعض کہتے ہیں کہ مال واولاد کی وجہ سے جس فریب نفس کا وہ شکار ہوئے

 حتٰی کہ بعض نے کہا کہ اگر یہ حق پر نہ ہوتے تو ان کو یہ نعمتیں میسر کیوں آتیں؟

بعض کے نزدیک ان کا کفر ہی بڑا مکر تھا۔

وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا(23)

اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا)

یہ قوم نوح علیہ السلام کے وہ لوگ تھے جن کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اتنی شہرت ہوئی کہ عرب میں بھی ان کی پوجا ہوتی رہی، یہ پانچوں قوم نوح علیہ السلام کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب یہ مر گئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصوریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو، جب یہ تصویریں رکھنے والے فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر کہ شرک میں ملوث کر دیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں چنانچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کر دی (صحیح بخاری)

وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا ۖ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا(24)

اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا (الٰہی) تو ان ظالموں کی گمراہی اور بڑھا۔

انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور اس کا مرجع یہی مذکورہ پانچ بت ہیں، اس کا مطلب ہوگا کہ ان کے سبب بہت سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام نے بھی کہا تھا۔

مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا(25)

یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نہیں پایا۔‏

وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا(26)

اور (حضرت) نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ

یہ بددعا اس وقت کی جب حضرت نوح علیہ السلام ان کے ایمان لانے سے بالکل نا امید ہوگئے اور اللہ نے بھی اطلاع کر دی کہ اب ان میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا (ہود۔٣٦) مطلب ہے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔

إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا(27)

اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو (یقیناً) یہ تیرے (اور) بندوں کو (بھی) گمراہ کر دیں گے

اور یہ فاجروں اور ڈھیٹ کافروں ہی کو جنم دیں گے۔‏

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ

اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ

 اور جو بھی ایماندار ہو کر میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور کل ایماندار عورتوں کو بخش دے

کافروں کے لیے بدعا کی تو مومنین کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔

وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا(28)

اور کافروں کو سوائے بربادی کے اور کسی بات میں نہ بڑھا

یہ بددعا قیامت تک آنے والے ظالموں کے لئے ہے جس طرح مذکورہ دعا تمام مومن مردوں اور تمام مومن عورتوں کے لئے ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter