>

Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Mursalat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا(1)

دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم ‏

اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے،

بعض نے مُرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔

فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا(2)

پھر زور سے جھونکا دینے والیوں کی قسم

یا فرشتے مراد ہیں، جو بعض دفعہ ہواؤں کے عذاب کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔

وَالنَّاشِرَاتِ نَشْرًا(3)

پھر (ابر کو) ابھار کر پراگندہ کرنے والیوں کی قسم۔‏

یا ان فرشتوں کی قسم، جو بادلوں کو منتشر کرتے ہیں یا فضائے آسمانی میں اپنے پر پھیلاتے ہیں۔

تاہم امام ابن کثیر اور امام طبری نے ان تینوں سے  ہوائیں مراد لی  ہیں اور صحیح قرار دیا ہے، جیسے کہ ترجمے میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔

فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا(4)

پھر حق اور باطل کو جدا جدا کر دینے والے

یعنی ان فرشتوں کی قسم جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے احکام لے کر اترتے ہیں۔

یا مراد آیات قرآنیہ ہیں، جن سے حق و باطل اور حلال و حرام کی تمیز ہوتی ہے

یا رسول مراد ہیں جو وحی الٰہی کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔

فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا(5)

اور وحی لانے والے فرشتوں کی قسم۔

‏ جو اللہ کا کلام پیغمبروں تک پہنچاتے ہیں یا رسول مراد ہیں جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی، اپنی امتوں کو پہنچاتے ہیں۔

عُذْرًا أَوْ نُذْرًا(6)

جو (وحی) الزام اتارنے یا آگاہ کر دینے والی ہوتی ہے

یعنی فرشتے وحی لے کر آتے ہیں تاکہ لوگوں پر دلیل قائم ہو جائے اور یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمارے پاس تو کوئی اللہ کا پیغام ہی لے کر نہیں آیا

یا مقصد ڈرانا ہے ان کو جو انکار یا کفر کرنے والے ہوں گے۔

إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ(7)

جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یقیناً ہونے والی ہے ۔‏

یا جواب قسم یہ ہے کہ تم سے قیامت کا جو وعدہ کیا جاتا ہے، وہ یقیناً واضح ہونے والی ہے، یعنی اس میں شک کرنے کی نہیں بلکہ اس کے لئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ قیامت کب واقع ہوگی؟

 اگلی سورت میں اس کو واضح کیا جا رہا ہے

فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ(8)

پس جب ستارے بےنور کر دیئے جائیں گے

طَمْس کے معنی مٹ جانے اور بےنشان ہونے کے ہیں،

یعنی جب ستاروں کی روشنی ختم بلکہ ان کا نشان تک مٹ جائے گا۔

وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ(9)

اور جب آسمان توڑ پھوڑ دیا جائے گا۔‏

وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ(10)

اور جب پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کرکے اڑا دیئے جائیں گے۔

یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اور زمین بالکل صاف اور ہموار کر دی جائے گی۔

وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ(11)

اور جب رسولوں کو وقت مقررہ پر لایا جائے گا۔

‏ یعنی فصل وقضا کے لیے ان کے بیانات سن کر ان کی قوموں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

لِأَيِّ يَوْمٍ أُجِّلَتْ(12)

کس دن کے لئے (ان سب کو) مؤخر کیا گیا

یعنی کیسے عظیم دن کے لئے، جس کی شدت اور ہولناکی، لوگوں کے لئے سخت تعجب انگیز ہوگی، ان پیغمبروں کے جمع ہونے کا وقت دیا گیا ہے۔

لِيَوْمِ الْفَصْلِ(13)

فیصلے کے دن کے لئے۔

‏ یعنی جس دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا کوئی جنت میں اور کوئی دوزخ میں جائے گا۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ(14)

تجھے کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا ہے؟‏

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(15)

اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔

یعنی ہلاکت ہے

بعض کہتے ہیں جہنم کی ایک وادی کا نام ہے،

یہ آیت اس سورت میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ اس لیے کہ ہر مکذب کا جرم ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کا ہوگا اور اسی حساب سے عذاب کی نوعیتیں بھی مختلف ہوں گی،

 بنابریں اسی ویل کی مختلف قسمیں ہیں جسے مختلف مکذبین کے لیے الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔

أَلَمْ نُهْلِكِ الْأَوَّلِينَ(16)

کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہیں کیا؟‏

ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِينَ(17)

پھر ہم ان کے بعد پچھلوں کو لائے

‏ یعنی کفار مکہ اور ان کے ہم نوا، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا۔

كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ(18)

ہم گنہگاروں کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں

‏ یعنی سزا دیتے ہیں دنیا میں اور آخرت میں۔

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(19)

اس دن جھٹلانے والوں کے لئے (افسوس) ہے۔‏

أَلَمْ نَخْلُقْكُمْ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ(20)

کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے (منی سے) پیدا نہیں کیا۔‏

فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَكِينٍ(21)

پھر ہم نے اسے مضبوظ و محفوظ جگہ میں رکھا

‏ یعنی رحم مادر میں۔

إِلَى قَدَرٍ مَعْلُومٍ(22)

ایک مقررہ وقت تک۔‏

یعنی مدت حمل تک نو یا چھ مہینے۔

فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ(23)

پھر ہم نے اندازہ کیا اور ہم کیا خوب اندازہ کرنے والے ہیں‏

یعنی رحم مادر میں جسمانی ساخت و ترکیب و صحیح اندازہ کیا کہ دونوں آنکھوں، دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں اور دونوں کانوں کے درمیان اور دیگر اعضا کا ایک دوسرے کے درمیان کتنا فاصلہ رہنا چاہیئے۔

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(24)

اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے۔‏

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا(25)

کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا؟‏

أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا(26)

زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی

یعنی زمین زندوں کو اپنی پشت پر اور مردوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔

وَجَعَلْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَيْنَاكُمْ مَاءً فُرَاتًا(27)

اور ہم نے اس میں بلند اور بھاری پہاڑ بنا دیئے اور تمہیں سیراب کرنے والا میٹھا پانی پلایا۔‏

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(28)

اس دن جھوٹ جاننے والوں کے لئے وائے اور افسوس ہے۔‏

انْطَلِقُوا إِلَى مَا كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ(29)

اس دوزخ کی طرف جاؤ جسے تم جھٹلاتے رہے تھے

یہ فرشتے جہنمیوں کو کہیں گے

انْطَلِقُوا إِلَى ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ(30)

چلو تین شاخوں والے تنے کی طرف

جہنم سے جو دھواں آئے گا وہ بلند ہو کر تین طرفوں میں پھیل جائے گا، یعنی جس طرح دیوار یا درخت کا سایہ ہوتا ہے،

 یہ دھواں حقیقت میں اس طرح کا سایہ نہیں ہوگا جس میں جہنمی کچھ سکون حاصل کرلیں۔

لَا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ(31)

جو دراصل نہ سایہ دینے والا ہے نہ شعلے سے بچا سکتا ہے۔

‏ یعنی جہنم کی حرارت سے بچنا بھی ممکن نہیں ہوگا

إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ(32)

یقیناً دوزخ چنگاریاں پھینکتی ہے جو مثل محل کے ہیں

اس کا ایک ترجمہ ہے جو لکڑی کے بوٹے یعنی بھاری ٹکڑے کے مثل ہیں۔

كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ(33)

گویا کہ وہ زرد اونٹ ہیں ۔‏

اس معنی کی بناء پر مطلب یہ ہے کہ اس کی ایک ایک چنگاڑی اتنی اتنی بڑی ہوگی جیسے محل یا قلعہ۔ پھر ہر چنگاڑی کے مذید اتنے بڑے بڑے ٹکڑے ہو جائیں گے جیسے اونٹ ہوتے ہیں۔

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(34)

آج ان جھٹلانے والوں کی درگت ہے۔‏

هَذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُونَ(35)

آج (کا دن) وہ دن ہے کہ یہ بول بھی نہ سکیں گے

محشر کا دن جس میں کافروں کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ ایک وقت وہ ہوگا کہ وہ وہاں بھی جھوٹ بولیں گے پھر اللہ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے پھر جس وقت ان کو جہنم میں لے جایا جارہا ہوگا اس وقت عالم اضطراب وپریشانی میں ان کی زبانیں بھی گنگ ہو جائیں گی۔

بعض کہتے ہیں کہ بولیں گے تو سہی لیکن ان کے پاس حجت کوئی نہیں ہوگی۔

وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ(36)

نہ انہیں معذرت کی اجازت دی جائے گی۔

مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس پیش کرنے کے لیے معقول عذر ہی نہیں ہوگا جسے وہ پیش کرسکیں گے۔

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(37)

اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔‏

هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ ۖ جَمَعْنَاكُمْ وَالْأَوَّلِينَ(38)

یہ ہے فیصلہ کا دن ہم نے تمہیں اور اگلوں کو سب کو جمع کرلیا

یہ اللہ کے بندوں سے خطاب فرمائے گا کہ ہم نے تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے فیصلہ کرنے کے لئے ایک ہی میدان میں جمع کر لیا۔

فَإِنْ كَانَ لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيدُونِ(39)

پس اگر تم مجھ سے کوئی چال چل سکتے ہو تو چل لو

یہ سخت وعید اور تہدید ہے کہ اگر تم میری گرفت سے بچ سکتے ہو اور میرے حکم سے نکل سکتے ہو تو بچ اور نکل کے دکھاؤ۔ لیکن وہاں کس میں یہ طاقت ہوگی؟

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(40)

وائے ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے۔‏

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ(41)

بیشک پرہیزگار لوگ سایوں میں ہیں اور بہتے چشموں میں۔‏

یعنی درختوں اور محلات کے سائے، آگ کے دھوئیں کا سایہ نہیں ہوگا جیسے مشرکین کے لئے ہوگا۔

وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ(42)

اور ان میووں میں جن کی وہ خواہش کریں

ہر قسم کے پھل، جب بھی خواہش کریں گے، آ موجود ہونگے۔

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ(43)

(اے جنتیو!) کھاؤ پیو مزے سے اپنے کئے ہوئے اعمال کے بدلے۔‏

یہ بطور احسان انہیں کہا جائے گا یعنی جنت کی یہ نعمتیں ان اعمال صالحہ کی وجہ سے تمہیں ملی ہیں جو تم دنیا میں کرتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ جس کی وجہ سے انسان جنت میں داخل ہوگا اعمال صالحہ ہیں۔

جو لوگ عمل صالح کے بغیر اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں ان کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی زمین میں ہل چلائے اور بیج بوئے بغیر فصل کا امیدوار ہو یا حنظل بوکر خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھے۔

إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ(44)

یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔

اس میں بھی اس امر کی ترغیب و تلقین ہے کہ اگر آخرت میں حسن انجام کے طالب ہو تو دنیا میں نیکی اور بھلائی کا راستہ اپناؤ۔

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(45)

اس دن سچا نہ جاننے والوں کے لئے (افسوس) ہے

کہ اہل تقویٰ کے حصے میں جنت کی نعمتیں آئیں اور ان کے حصے میں بڑی بد بختی۔

كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُمْ مُجْرِمُونَ(46)

(اے جھٹلانے والو) تم دنیا میں تھوڑا سا کھا لو اور فائدہ اٹھالو بیشک تم گنہگار ہو ‏

یہ مکذبین قیامت کو خطاب ہے اور یہ امر، تہدید و وعید کے لئے ہے، یعنی اچھا چند روز خوب عیش کر لو، تم جیسے مجرمین کے لئے شکنجہ عذاب تیار ہے۔

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(47)

اس دن جھٹلانے والوں کے لئے سخت ہلاکت ہے۔‏

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ(48)

ان سے جب کہا جاتا ہے کہ رکوع کر لو تو نہیں کرتے

یعنی جب ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے، تو نماز نہیں پڑھتے۔

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ(49)

اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے۔ ‏

یعنی ان کے لیے جو اللہ کے اوامر ونواہی کو نہیں مانتے۔

فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ(50)

اب اس قرآن کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے

یعنی جب قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو اس کے بعد اور کون سا کلام ہے جس پر ایمان لائیں گے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter