Tafsir Ibn Kathir (English)

Surah Al Nazi'at

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

اردو اور عربی فونٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا(۱)‏

ڈوب کر سختی سے کھنچنے والوں کی قسم

نَزْع کے معنی سختی سے کھنچنا،

غَرْقًا ڈوب کر،

یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔

وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا(۲)‏

بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم

نَشْط کے معنی گرہ کھول دینا، یعنی مومنوں کی جان فرشتے بہ سہولت سے نکالتے ہیں جیسے کسی چیز کی گرہ کھول دی جائے۔

وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا(۳)‏

اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم

سَبْح کے معنی تیرنا،

 فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے سمندر سے موتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتے ہیں

 یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔

فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا(۴)‏

پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم

یہ فرشتے اللہ کی وحی، انبیاء تک، دوڑ کر پہنچاتے ہیں تاکہ شیطان کو اس کی کوئی خبر نہ لگے۔

 یا مومنوں کی روحیں جنت کی طرف لے جانے میں نہایت سرعت سے کام لیتے ہیں۔

فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا(۵)‏

پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم

یعنی اللہ تعالیٰ جو کام سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہا جاتا ہے۔

يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ(۶)‏

جس دن کاپنے والی کانپے گی ‏

یہ نفخئہ اولیٰ ہے جسے نفخئہ فنا کہتے ہیں، جس سے ساری کائنات کانپ اور لرز اٹھے گی اور ہرچیز فنا ہو جائے گی۔

تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ(۷)‏

اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی (پیچھے پیچھے) آئے گی

یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر قبروں سے نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا نفخہ پہلے نفخہ سے چالیس سال بعد ہوگا۔

قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ(۸)‏

(بہت سے) دل اس دن دھڑ کتے ہونگے

قیامت کے ہول اور شدائد سے۔

أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ(۹)‏

جس کی نگاہیں نیچی ہونگی

‏ دہشت زدہ لوگوں کی نظریں بھی (مجرموں کی طرح) جھکی ہوئی ہوں گی۔

يَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ(۱۰)‏

کہتے ہیں کہ کیا پہلی کی سی حالت کی طرف لوٹائے جائیں گے

حافِرَۃ، پہلی حالت کو کہتے ہیں۔

 منکرین قیامت کا قول ہے کہ کیا ہم پھر اس طرح زندہ کر دیئے جائیں گے جس طرح مرنے سے پیشتر تھے۔

أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا نَخِرَةً(۱۱)‏

کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیدہ ہڈیاں ہو جائیں گے

یہ انکار قیامت کی مزید تاکید ہے کہ ہم کس طرح زندہ کر دیئے جائیں گے جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔

قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ(۱۲)‏

کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان دہ ہے

یعنی اگر واقعی ایسا ہوا جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں، پھر دوبارہ زندگی ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہوگی

فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ(۱۳)‏

(معلوم ہونا چاہیئے) وہ تو صرف ایک (خوفناک) ڈانٹ ہے۔‏

فَإِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ(۱۴)‏

کہ (جس کے ظاہر ہوتے ہی) وہ ایک دم میدان میں جمع ہو جائیں گے

یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں گے۔

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى(۱۵)‏

موسیٰ(علیہ السلام) کی خبر تمہیں پہنچی ہے؟‏

إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى(۱۶)‏

جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا

‏ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے واپسی پر آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچ گئے تھے تو وہاں ایک درخت کی اوٹ سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الالسلام سے کلام فرمایا تھا، جیسا کہ تفصیل سورہ طٰہٰ کے آغاز میں گزری۔

اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى(۱۷)‏

یہ کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے

‏ یعنی کفر و معصیت اور تکبر میں حد سے تجاوز کر گیا ہے۔

فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى(۱۸)‏

اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے

یعنی کیا ایسا راستہ اور طریقہ تو پسند کرتا ہے جس سے تیری اصلاح ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اور مطیع ہوجا۔

وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى(۱۹)‏

اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے

‏ یعنی اس کی توحید اور عبادت کا راستہ، تاکہ تو اس کے عقاب سے ڈرے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔

فَأَرَاهُ الْآيَةَ الْكُبْرَى(۲۰)‏

پس اسے بڑی نشانی دکھائی ‏

یعنی اپنی صداقت کے وہ دلائل پیش کئے جو اللہ کی طرف سے انہیں عطا کئے گئے تھے۔

بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے۔ مثلاً ید بیضا اور عصا

 اور بعض کے نزدیک آیات تسعہ۔

فَكَذَّبَ وَعَصَى(۲۱)‏

تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔‏

ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَى(۲۲)‏

پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے

یعنی اس نے ایمان و اطاعت سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلائے اور موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا،چنانچہ جادوگروں کو جمع کر کے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کرایا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔

فَحَشَرَ فَنَادَى(۲۳)‏

پھر سب کو جمع کر کے پکارا۔‏

فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى(۲۴)‏

تم سب کا رب میں ہی ہوں۔‏

فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَى(۲۵)‏

تو (سب سے بلند و بالا) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کر لیا

یعنی اللہ نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے فرمانوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا اور قیامت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، جو اسے وہاں ملے گا

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَى(۲۶)‏

بیشک اس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو ڈرے

اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تسلی اور کفار مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نے گزشتہ لوگوں کے واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو ان کا انجام بھی فرعون کی طرح ہو سکتا ہے۔

أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ

کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟

بَنَاهَا(۲۷)‏

اللہ نے اسے بنایا۔‏

یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود تنبیہ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا آسمان بنانے سے زیادہ مشکل ہے۔

رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا(۲۸)‏

اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔

‏ ٹھیک ٹھاک کا مطلب اسے ایسی شکل صورت میں ڈھالنا ہے کہ جس میں کوئی تفاوت، کجی، شگاف اور خلل باقی نہ رہے۔

وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا(۲۹)‏

اسکی رات کو تاریک بنایا اسکے دن کو روشن بنایا۔‏

وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا(۳۰)‏

اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔‏

أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا(۳۱)‏

اس میں سے پانی اور چارہ نکالا۔‏

وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا(۳۲)‏

اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑھ دیا۔‏

مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ(۳۳)‏

یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہیں۔‏

فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَى(۳۴)‏

پس جب وہ بڑی آفت (قیامت) آ جائے گی۔‏

يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَى(۳۵)‏

جس دن کے انسان اپنے کئے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا۔‏

وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِمَنْ يَرَى(۳۶)‏

اور ہر دیکھنے والے کے سامنے جہنم ظاہر کی جائے گی۔‏

فَأَمَّا مَنْ طَغَى(۳۷)‏

تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی)

یعنی کفر و گناہوں میں حد سے تجاوز کیا ہوگا۔

وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا(۳۸)‏

اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی۔‏

فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى(۳۹)‏

(اسکا) ٹھکانا جہنم ہی ہے۔‏

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى(۴۰)‏

ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے  سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔‏

کہ اگر میں نے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی تو مجھے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، اس لئے وہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔

فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى(۴۱)‏

تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔‏

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا(۴۲)‏

لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں

یعنی قیامت کب واقع اور قائم ہوگی؟

جس طرح کشتی اپنے آخری مقام پر پہنچ کر لنگر انداز ہوتی ہے اسی طرح قیامت کے واقع کا صحیح وقت کیا ہے؟

فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا(۴۳)‏

آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق؟

یعنی آپ کو اس کی بابت یقینی علم نہیں ہے، اس لئے آپ کا اس کو بیان کرنے سے کیا تعلق؟

إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا(۴۴)‏

اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے۔‏

اس کا یقینی علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔

إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا(۴۵)‏

آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں

یعنی آپ کا کام صرف ڈرانا ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔

كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا(۴۶)‏

جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں) رہے ہیں

یعنی دنیا میں پورا ایک دن بھی نہ رہے، دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہوگی۔

*********

Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Mar 2019

hit counter