Tafsir Ibn Kathir (English)

Surah Al A'la

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

اردو اور عربی فونٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (١)

اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر

یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی اس کے لائق نہیں ہے

حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے

 سُبْحَانَ رَبَّیَ  الاَّعْلَیٰ

(مسند احمد ٢٣٢۔١)

الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى (2)

جس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا۔

 ایک  حقیر نطفے سے تجھے پیدا کیا، جب کہ اس کے پہلے تیرا وجود نہیں تھا۔ تجھے ایک کامل انسان بنا دیا، تو سنتا ہے، دیکھتا ہے اور عقل فہم رکھتا ہے۔

وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى (3)‏‏

اور جس نے (ٹھیک ٹھاک) اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی

یعنی نیکی اور بدی کی، ضروریات زندگی، اشیا کی جنسوں کی، ان کی انواع و صفات اور خصوصیات کا اندازہ فرما کر انسان کی بھی ان کی طرف رہنمائی فرما دی تاکہ انسان ان سے استفادہ حاصل کرے۔

وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى (4)

اور جس نے تازہ گھاس پیدا کیا۔

جسے جانور چرتے ہیں۔

فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى(5)

پھر اس نے اس کو (سکھا کر) سیاہ کوڑا کر دیا۔

گھاس خشک ہو جائے تو اسے غثاء کہتے ہیں،

احوی سیاہ کر دیا۔

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (6)‏‏

ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بولے گا

إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ

مگر جو کچھ اللہ چاہے،

حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو آپ جلدی جلدی پڑھتے تاکہ بھول نہ جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس طرح جلدی نہ کریں، نازل شدہ وحی ہم آپ کو پڑھوائیں گے، یعنی آپ کی زبان پر جاری کر دیں گے۔

 پس آپ بھولیں گے نہیں۔ مگر جسے اللہ چاہے گا لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے آپ کو سب کچھ یاد ہی رہا بعض نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے کہ جن کو اللہ منسوخ کرنا چاہے گا وہ آپ کو بھلوا دے گا (فتح القدیر)

إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى(7)

وہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔

یہ بھی عام ہے

جہر قرآن کا وہ حصہ ہے جسے رسول اللہ یاد کرلیں اور جو آپ کے سینے سے محو کر دیا جائے وہ مخفی ہے۔

خفی چھپ کر عمل کرے اور جہر ظاہر ان سب کو اللہ جانتا ہے۔

وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَى(8)

ہم آپ کیلئے آسانی پیدا کر دیں گے

یہ بھی عام ہے۔

ہم آپ پر وحی آسان کر دیں گے تاکہ اس کو یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے ہم آپ کے اس طریقے سے رہنمائی کریں گے جو آسان ہوگا، ہم جنت والا عمل آپ کے لئے آسان کر دیں گے۔ ہم آپ کے لیے ایسے اقوال وافعال آسان کر دیں گے جن میں خیر ہو اور ہم آپ کے لیے ایسی شریعت مقرر کریں گے جو سہل، مستقیم، اور معتدل ہوگی جس میں کوئی کجی، عسر اور تنگی نہیں ہوگی۔

فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَى(9)

تو آپ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت کچھ فائدہ دے۔

یعنی وعظ ونصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہو کہ فائدہ مند ہوگی، یہ وعظ ونصیحت اور تعلیم کے لیے ایک اصول اور ادب بیان فرمایا۔

امام شوکانی کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں،چاہے فائدہ دے یا نہ دے، کیونکہ انداز و تبلیغ دونوں صورتوں میں آپ کے لیے ضروری تھی۔

سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَى(10)

ڈرنے والا تو نصیحت لے گا۔

یعنی آپ کی نصیحت سے وہ یقیناً عبرت حاصل کریں گے جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوگا، ان میں خشیت الہی اور اپنی اصلاح کا جذبہ مزید قوی ہوگا۔

وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى(11)

(ہاں) بد بخت اس سے گریز کرے گا۔

یعنی اس نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیونکہ ان کا کفر پر اصرار اللہ کی معصیتوں میں انہماک جاری رہتا ہے۔

الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى(12)

(ہاں) بد بخت اس سے گریز کرے گا۔

ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى(13)

جہاں پھر نہ مرے گا نہ جئے گا (بلکہ حالت نزع میں پڑا رہے گا)۔

ان کے برعکس جو لوگ صرف اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے عارضی طور پر جہنم میں رہ گئے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ ایک طرح کی موت دے دیگا حتٰی کہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہو جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ انبیاء وغیرہ کی سفارش سے ان کو گروہوں کی شکل میں نکالے گا، ان کو جنت کی نہر میں ڈالا جائے گا، جنتی بھی ان پر پانی ڈالیں گے جس سے وہ اس طرح اٹھیں گے جیسے سیلاب کے کورے سے دانہ اگ آتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى(14)

بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا  

جنہوں نے اپنے نفس کو اخلاق رذیلہ سے اور دلوں کو شرک کی آلودگی سے پاک کر لیا۔

وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى(15)

اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔‏

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا(16)

لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔‏

وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى(17)

اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے

کیونکہ دنیا اور اس کی ہرچیز فانی ہے، جبکہ آخرت کی زندگی دائمی اور ابدی ہے، اس لئے عاقل فانی چیز کو باقی رہنے والی پر ترجیح نہیں دیتا۔

إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى(18)

یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں۔‏

صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى(19)

(یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں۔‏

*********

Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Mar 2019

hit counter