Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al BaqarahAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے Part II Ayah 142-252سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ بیوقوفوں سے مراد یہاں مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو ۔ چنانچہ اب حکم آ گیا اور آپ نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی۔ آپ کے ساتھ کے نمازیوں میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں ۔ جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے، اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو لوگ اگلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حال ہے۔ تب یہ فرمان نازل ہوا: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ (۲:۱۴۳) اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا۔ ایک اور روایت میں ہے : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ (۲:۱۴۴) نازل ہوئی اور کعبۃ اللہ قبلہ مقرر ہوا۔ اس موقع پر مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے کہا کاش ہم کو ان لوگوں کا حال معلوم ہوتا جو سمت قبلہ بدلنے سے قبل وفات پا گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ (۲:۱۴۳) یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے : اہل کتاب میں سے بعض بیوقوف اہل کتاب نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا، جس پر یہ آیتیں سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا نازل ہوئیں قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۱۴۲) آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔ شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی ۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے جھٹ سے اعتراض جڑ دیا ۔ جس کا جواب ملا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں خلاصہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ کا منہ ہوتا تھا، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہو گیا ۔ دونوں جمع نہیں ہو سکتے تھے تو وہاں آپ کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم قرآن میں نازل ہوا تھا یا دوسری وحی کے ذریعہ یہ حکم ملا تھا ۔ بعض بزرگ تو کہتے ہیں یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہادی امر تھا اور مدینہ آنے کے بعد کئی ماہ تک اسی طرف آپ نمازیں پڑھتے رہے گو چاہت اور تھی ۔ یہاں تک کہ پروردگار نے بیت العتیق کی طرف منہ پھیرنے کو فرمایا اور آپ نے اس طرف منہ کر کے پہلے نماز عصر پڑھی اور پھر لوگوں کو اپنے خطبہ میں اس امر سے آگاہ کیا ۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ ظہر کی نماز تھی ۔ حضرت ابو سعید بن معلیٰ فرماتے ہیں میں نے اور میرے ساتھی نے جو اول نماز کعبہ کی طرف پڑھی ہے وہ ظہر کی نماز تھی بعض مفسرین کا بیان ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی ۔ اس وقت آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے، دو رکعت ادا کر چکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے ۔ حضرت نویلہ بنت مسلمؓ فرماتی ہیں کہ ہم ظہر کی نماز میں تھے جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے۔ مرد عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں ۔ ہاں اہل قبا کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہو گیا ۔ چنانچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناسخ کے حکم کا لازم ہونا اسی وقت ہوتا ہے ۔ جب اس کا علم ہو جائے گو وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہو ۔ اس لئے کہ ان حضرات کو عصر مغرب اور عشا کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ۔ واللہ اعلم ۔ اب باطل پرست کمزور عقیدے والے باتیں بنانے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کبھی اسے قبلہ کہتا ہے کبھی اسے قبلہ قرار دیتا ہے۔ انہیں جواب ملا : وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (۲:۱۱۵) اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے یعنی حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جدھر منہ کرو ۔ اسی طرف اس کا منہ ہے بھلائی اسی میں نہیں آ گئی بلکہ اصلیت تو ایمان کی مضبوطی ہے جو ہر حکم کے ماننے پر مجبور کر دیتی ہے لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِاللَّهِ (۲:۱۷۷) ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا ہو، اور اس میں گویا مؤمنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے جدھر انہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا جائے یہ متوجہ ہو جاتے ہیں اطاعت کے معنی اس کے حکم کی تعمیل کے ہیں اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ہر طرف گھمائے تو ہم بخوشی گھوم جائیں گے ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا پھیر لیں گے ۔ اُمت محمدیہ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ انہیں خلیل الرحمٰن علیہ السلام کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا جو اسی اللہ لا شریک کے نام پر بنایا گیا ہے اور تمام تر فضیلتیں جسے حاصل ہیں ۔مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے : یہودیوں کو ہم سے اس بات پر بہت حسد ہے کہ - اللہ نے ہمیں جمعہ کے دن کی توفیق دی اور یہ اس سے بھٹک گئے - اور اس پر کہ ہمارا قبلہ یہ ہے اور وہ اس سے گمراہ ہو گئے - اور بڑا حسد ان کو ہماری آمین کہنے پر بھی ہے جو ہم امام کے پیچھے کہتے ہیں وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں اللہ فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ اُمت ہو تم اور اُمتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں وَسَط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہے حضور علیہ السلام اپنی قوم میں وَسَط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطیٰ یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے اور چونکہ تمام اُمتوں میں یہ اُمت بھی بہتر افضل اور اعلیٰ تھی اس لئے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیاجیسے فرمایا : هُوَ اجْتَبَـكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكمْ فِى الدِّينِ ۔۔۔ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ (۲۲:۷۸) اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی دین اپنے باپ ابراہیمؑ کا قائم رکھو اس اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا۔ ان کی اُمت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح علیہ السلام نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا تمہاری اُمت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا کا ہے وَسَط کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا (بخاری ترمذی، نسائی ابن ماجہ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے: قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی اُمت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی اُمت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی؟ یہ کہیں گے ہاں، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی کہ انبیاء علیہم السلام نے تیرا پیغام اپنی اپنی اُمتوں کو پہنچایا ۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا کا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وَسَطًا بمعنی عدلاً آیا ہے ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اور میری اُمت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہوں گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا ۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے : بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ ﷺنے فرمایا تم یہ کس طرح کہہ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ ﷺنے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا آپ ﷺنے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا۔ آپ ﷺنے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا مسند احمد میں ہے۔ ابوالاسود فرماتے ہیں: میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی میں نے کہا امیر المؤمنین کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیںاللہ اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین دیں؟ آپ ﷺنے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ ﷺنے فرمایا دو بھی۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے: قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو ۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ ﷺنے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ۚ جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحان کے طور پر تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لئے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ سچا تابعدار کون ہے؟اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لیتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے، یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اسکا ہر کام، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں۔ قبلہ کی تبدیلی امتحان کے لیے تھی ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے: وَإِذَا مَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَّن يَقُولُ ۔۔۔ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ (۹:۱۲۴،۱۲۵) اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔ اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور جگہ فرمان ہے : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى (۴۱:۴۴) آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، اور جگہ فرمان ہے: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا (۱۷:۸۲) یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ان پر کوئی مشکل نہیں اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبیلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں چنانچہ اوپر حدیث بیان ہو چکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے ۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھر گئے جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا ۔ یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہو گا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے ساتھ تمہارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (۱۴۳) اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف رحیم ہے؟ صحیح حدیث میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپنے بچہ کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچہ کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا بتاؤ تو یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں آپ ﷺنے فرمایا: فَوَاللهِ للهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هذِهِ بِوَلَدِهَا اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رؤف و رحیم ہے۔ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ قرآن میں قبلہ کا حکم پہلا نسخ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یہاں کے اکثر باشندے یہود تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھنے کا حکم دیا یہود اس سے بہت خوش ہوئے ۔ آپ کئی ماہ تک اسی رخ نماز پڑھتے رہے لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت قبلہ ابراہیمی کی تھی آپﷺ اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے بالاخر آیت قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ نازل ہوئی اس پر یہود کہنے لگے کہ اس قبلہ سے یہ کیوں ہٹ گئے جس کے جواب میں کہا گیا مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ (۲:۱۴۲) جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور فرمایا فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (۲:۱۱۵) تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے پہلا قبلہ بطور امتحان تھا جیسے فرمایا : وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنتَ عَلَيْهَآ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ (۲:۱۴۳) جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے اور روایت میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اس پر یہ آیت اتری اور حکم ہوا کہ مسجد حرام کی طرف کعبہ کی طرف میزاب کی طرف منہ کرو جبرائیل علیہ السلام نے امامت کرائی ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد حرام میں میزاب کے سامنے بیٹھے ہوئے اس آیت پاک کی تلاوت کی اور فرمایا میزاب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے ۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف توجہ مقصود ہے اور دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ کعبہ کی جہت ہونا کافی ہے اور یہی مذہب اکثر ائمہ کرام کا ہے ۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں مراد اس کی طرف ہے ابو العالیہ مجاہد عکرمہ سعید بن جبیر قتادہ ربیع بن انس وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں ابن جریج میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: بیت اللہ قبلہ ہے مسجد حرام والوں کا اور مسجد قبلہ ہے اہل حرام کا اور حرم قبلہ ہے تمام زمین والوں کا خواہ مشرق میں ہوں خواہ مغرب میں میری تمام اُمت کا قبلہ یہی ہے ۔ ابو نعیم میں بروایت براء ؓمروی ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ سترہ مہینے تک تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن آپ کو پسند امر یہ تھا کہ بیت اللہ کی طرف پڑھیں چنانچہ اللہ کے حکم سے آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر عصر کی نماز ادا کی پھر نمازیوں میں سے ایک شخص مسجد والوں کے پاس گیا وہ رکوع میں تھے اس نے کہا میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ شریف کی طرف نماز ادا کی یہ سن کر وہ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ شریف کی طرف پھر گئے عبدالرزاق میں بھی یہ روایت قدرے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے نسائی میں حضرت ابو سعید بن معلیٰ سے مروی ہے: ہم صبح کے وقت مسجد نبوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جایا کرتے تھے اور وہاں کچھ نوافل پڑھا کرتے تھے ایک دن ہم گئے تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کہا آج کوئی نئی بات ضرور ہوئی ہے میں بھی بیٹھ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت قَدْ نَرَى تلاوت فرمائی میں نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوں منبر سے اترنے سے پہلے ہی ہم اس نئے حکم کی تعمیل کریں اور اول فرمانبردار بن جائیں چنانچہ ہم ایک طرف ہو گئے اور سب سے پہلے بیت اللہ شریف کی طرف نماز پڑھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی منبر سے اتر آئے اور اس قبلہ کی طرف پہلی نماز ظہر ادا کی گئی ۔ ابن مردویہ میں بروایت ابن عمر ؓمروی ہے کہ پہلی نماز جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف ادا کی وہ ظہر کی نماز ہے اور یہی نماز صلوٰۃ وسطی ٰہے لیکن مشہور یہ ہے کہ پہلی نماز کعبہ کی طرف عصر کی ادا کی ہوئی اسی وجہ سے اہل قبا کو دوسرے دن صبح کے وقت اطلاع پہنچی۔ ابن مردویہ میں بروایت نویلہ بنت مسلم موجود ہے کہ ہم مسجد بنو حارثہ میں ظہر یا عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے ادا کر رہے تھے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ کسی نے آ کر قبلہ کے بدل جانے کی خبر دی ۔ چنانچہ ہم نماز میں بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے اور باقی نماز اسی طرف ادا کی، اس گھومنے میں مرد عورتوں کی جگہ اور عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں، آپ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو خوش ہو کر فرمایا یہ ہیں ایمان بالغیب رکھنے والے ۔ ابن مردویہ میں بروایت عمارہ بن اوس مروی ہے کہ رکوع کی حالت میں ہمیں اطلاع ہوئی اور ہم سب مرد عورتیں بچے اسی حالت میں قبلہ کی طرف گھوم گئے۔ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ ارشاد ہوتا ہے تم جہاں بھی ہو مشرق مغرب شمال یا جنوب میں ہر صورت نماز کے وقت منہ کعبہ کی طرف کر لیا کرو ۔ ہاں البتہ سفر میں سواری پر نفل پڑھنے والا جدھر سواری جا رہی ہو ادھر ہی نفل ادا کرنے اس کے دل کی توجہ کعبہ کی طرف ہونی کافی ہے اسی طرح میدان جنگ میں نماز پڑھنے والا جس طرح اور جس طرف بن پڑے نماز ادا کر لے اور اسی طرح وہ شخص جسے قبلہ کی جہت کا قطعی علم نہیں وہ اندازہ سے جس طرف زیادہ دل مانے نماز ادا کر لے ۔ پھر گو اس کی نماز فی الواقع قبلہ کی طرف نہ بھی ہوئی ہو تو بھی وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔ مسئلہ مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظریں رکھے نہ کہ سجدے کی جگہ جیسے کہ شافعی ، احمد اور ابوحنیفہ کا مذہب ہے اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ منہ مسجد الحرام کی طرف کرو اور اگر سجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلیف کمال خشوع کے خلاف ہو گا بعض مالکیہ کا یہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینہ کی طرف نظر رکھے قاضی شریک کہتے ہیں کہ قیام کے وقت سجدہ کی جگہ نظر رکھے جیسے کہ جمہور جماعت کا قول ہے اس لئے کہ یہ پورا پورا خشوع خضوع ہے اور ایک حدیث بھی اس مضمون کی وارد ہوئی ہے: وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (۱۴۴) اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں ارشاد ہوتا ہے کہ یہ یہودی جو چاہیں باتیں بنائیں لیکن ان کے دل جانتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے اور برحق ہے کیونکہ یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن یہ لوگ کفر وعناد اور تکبر و حسد کی وجہ سے اسے چھپاتے ہیں اللہ بھی ان کی ان کرتوتوں سے بےخبر نہیں۔ وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے یہودیوں کے کفر و عناد اور مخالفت و سرکشی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجودیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا انہیں علم ہے لیکن پھر بھی یہ حالت ہے کہ ہر قسم کی دلیلیں پیش ہو چکنے کے بعد بھی حق کی پیروی نہیں کرتےجیسے اور جگہ ہے: إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ (۱۰:۹۶،۹۷) یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپکے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جبتک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ اور نہ آپ کے قبلے کو ماننے والے ہیں اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت بیان فرماتا ہے کہ جس طرح وہ ناحق پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تو وہ بھی سمجھ لیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ ان کی باتوں میں آ جائیں اور ان کی راہ چل پڑیں وہ ہمارے تابع فرمان ہیں اور ہماری مرضی کے عامل ہیں وہ ان کی باطل خواہش کی تابعداری ہرگز نہیں کریں گے نہ ان سے یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا حکم آ جانے کے بعد ان کے قبلہ کی طرف توجہ کریں وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (۱۴۵) اور اگر آپ باوجود کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے پھر بھی ان کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالیقین آپ بھی ظالموں میں ہوجائیں گے ۔ پھر اپنے نبی کو خطاب کر کے در اصل علماء کو دھمکایا گیا کہ حق کے واضح ہو جانے کے بعد کسی کے پیچھے لگ جانا اور اپنی یا دوسروں کی خواہش پرستی کرنا یہ صریح ظلم ہے۔ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ارشاد ہوتا ہے کہ علماء اہل کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کی حقانیت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانے یہ ایک مثال تھی جو مکمل یقین کے وقت عرب دیا کرتے تھے ۔ ایک حدیث میں ہے: ایک شخص کے ساتھ چھوٹا بچہ تھا آپ ﷺنے اس سے پوچھا یہ تیرا لڑکا ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی گواہ رہیئے آپ نے فرمایا نہ یہ تجھ پر پوشیدہ رہے نہ تو اس پر۔ قرطبی کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن سلام سے جو یہودیوں کے زبردست علامہ تھے پوچھا کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی جانتا ہے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتا ہے؟ جواب دیا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ اس لئے کہ آسمانوں کا امین فرشتہ زمین کے امین شخص پر نازل ہوا اور اس نے آپ کی صحیح تعریف بتا دی یعنی حضرت جبرائیل حضرت عیسیٰؑ کے پاس آئے اور پھر پروردگار عالم نے ان کی صفتیں بیان کیں جو سب کی سب آپ میں موجود ہیں پھر ہمیں آپ کے نبی برحق ہونے میں کیا شک رہا؟ ہم آپ کو بیک نگاہ کیوں نہ پہچان لیں؟بلکہ ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں شک ہے اور آپ کی نبوت میں کچھ شک نہیں، غرض یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے ایک بڑے مجمع میں ایک شخص اپنے لڑکے کو پہچان لیتا ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جو اہل کتاب کی آسمانی کتابوں میں ہیں وہ تمام صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح نمایاں ہیں کہ بیک نگاہ ہر شخص آپ کو جان جاتا ہے وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (۱۴۶) ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے ۔ پھر فرمایا کہ باوجود اس علم حق کے پھر بھی یہ لوگ اسے چھپاتے ہیں الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (۱۴۷) آپ کے رب کی طرف سے یہ سراسر حق ہے، خبردار آپ شک کرنے والوں میں نہ ہونا ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ثابت قدمی کا حکم دیا کہ خبردار تم ہرگز حق میں شک نہ کرنا۔ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے تم اپنی نیکیوں کی طرف دوڑو۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہر مذہب والوں کا ایک قبلہ ہے لیکن سچا قبلہ وہ ہے جس پر مسلمان ہیں ابو العالیہ کا قول ہے : یہود کا بھی قبلہ ہے نصرانیوں کا بھی قبلہ ہے اور تمہارا بھی قبلہ ہے لیکن ہدایت والا قبلہ وہی ہے جس پر اے مسلمانو تم ہو ۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ ہر ایک وہ قوم جو کعبہ کو قبلہ مانتی ہے وہ بھلائیوں میں سبقت کرے مُوَلِّيهَا کی دوسری قرأت مُوَلَّاهَا ہے جیسے اور جگہ ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً (۵:۴۸) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۴۸) جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔ پھر فرمایا کہ گو تمہارے جسم اور بدن مختلف ہو جائیں گو تم ادھر ادھر بکھر جاؤ لیکن اللہ تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے اسی زمین سے جمع کر لے گا۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۱۴۹) آپ جہاں سے نکلیں اپنا منہ (نماز کے لئے) مسجد حرام کی طرف کرلیا کریں، یعنی یہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بےخبر نہیں۔ فخرالدین رازی نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے: - پہلا حکم تو ان کے لیے ہے جو کعبہ کو دیکھ رہے ہیں ۔ - دوسرا حکم ان کے لیے ہے جو مکہ میں ہیں لیکن کعبہ ان کے سامنے نہیں۔ - تیسری بار انہیں حکم دیا جو مکہ کے باہر روئے زمین پر ہیں۔ قرطبی نے ایک توجیہ یہ بھی بیان کی ہے: - پہلا حکم مکہ والوں کو ہے - دوسرا اور شہر والوں کو - تیسرا مسافروں کو بعض کہتے ہیں تینوں حکموں کا تعلق اگلی پچھلی عبارت سے ہے۔ - پہلے حکم میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب کا اور پھر اس کی قبولیت کا ذکر ہے - اور دوسرے حکم میں اس بات کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چاہت بھی ہماری چاہت کے مطابق تھی اور حق امر یہی تھا - اور تیسرے حکم میں یہودیوں کی حجت کا جواب ہے کہ ان کی کتابوں میں پہلے سے موجود تھا کہ آپ کا قبلہ کعبہ ہو گا تو اس حکم سے وہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔ ساتھ ہی مشرکین کی حجت بھی ختم ہوئی کہ وہ کعبہ کو متبرک اور مشرف مانتے تھے اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ بھی اسی کی طرف ہو گئی رازی نے اس حکم کو بار بار لانے کی حکمتوں کو بخوبی تفصیل سے بیان کیا ہے واللہ اعلم۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ اور جس جگہ سے آپ نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں پھر فرمایا تا کہ اہل کتاب کو کوئی حجت تم پر باقی نہ رہے وہ جانتے تھے کہ اس اُمت کی صفت کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا ہے جب وہ یہ صفت نہ پائیں گے تو انہیں شک کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قبلہ کی طرف پھرتے ہوئے دیکھ لیا تو اب انہیں کسی طرح کا شک نہ رہنا چاہئے اور یہ بات بھی ہے کہ جب وہ تمہیں اپنے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے ہاتھ ایک بہانہ لگ جائے گا لیکن جب تم ابراہیمی قبلہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے تو وہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے، حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں : یہود کی یہ حجت تھی کہ آج یہ ہمارے قبلہ کی طرف ہیں یعنی ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں کل ہمارا مذہب بھی مان لیں گے لیکن جب اپنے اللہ کے حکم سے اصلی قبلہ اختیار کر لیا تو ان کی اس ہوس پر پانی پڑ گیا وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو تاکہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے پھر فرمایا مگر جو ان میں سے ظالم اور ضدی مشرکین بطور اعتراض کہتے تھے کہ یہ شخص ملت ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھتا انہیں جواب بھی مل گیا کہ یہ نبی ﷺ ہمارے احکام کا متبع ہے پہلے ہم نے اپنی کمال حکمت سے انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا جسے وہ بجا لائے پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف پھر جانے کو کہا جسے جان و دل سے بجا لائے پس آپ ہر حال میں ہمارے احکام کے ما تحت ہیں (صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم) فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۵۰) تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ہی ڈرو تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور اس لئے بھی کہ تم راہ راست پاؤ۔ پھر فرمایا ان ظالموں کے شبہ ڈالنے سے تم شک میں نہ پڑو ان باغیوں کی سرکشی سے تم خوف نہ کرو ان کے بےجان اعتراضوں کی مطلق پرواہ نہ کر وہاں میری ذات سے خوف کیا کرو صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہا کرو قبلہ بدلنے میں جہاں یہ مصلحت تھی کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں وہاں یہ بھی بات تھی کہ میں چاہتا تھا کہ اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں اور قبلہ کی طرح تمہاری تمام شریعت کامل کر دوں اور تمہارے دین کو ہر طرح مکمل کر دوں اور اس میں یہ ایک راز بھی تھا کہ جس قبلہ سے اگلی اُمتیں بہک گئیں تم اس سے نہ ہٹوہم نے اس قبلہ کو خصوصیت کے ساتھ تمہیں عطا فرما کر تمہارا شرف اور تمہاری فضیلت و بزرگی تمام اُمتوں پر ثابت کر دی۔ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ جس طرح ہم نے تم میں تمہیں سے رسول بھیجا اور ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ اپنی بہت بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی مبعوث فرمایا، جو اللہ تعالیٰ کی روشن اور نورانی کتب کی آیتیں ہمارے سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی شرارتوں اور جاہلیت کے کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (۱۵۱) اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جس سے تم بےعلم تھے۔ اور کتاب و حکمت یعنی قرآن وحدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے پس آپ کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جہل چھایا ہوا تھاجنہیں صدیوں سے تاریکی نے گھیر رکھا تھا جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تو بھی نہیں پڑا تھا دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے، وہ علم میں گہرے تکلف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے، دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بجائے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہےاور جگہ ارشاد ہے : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ (۳:۱۶۴) بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں ا کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اس نعمت کو قدر نہ کرنے والوں کو قرآن کہتا ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (۱۴:۲۸) کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا یہاں نِعْمَتَ اللَّهِ سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ اس لئے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا، اسی لئے اس آیت میں بھی اپنی نعمت کا ذکر فرما کر لوگوں کو اپنی یاد اور اپنے شکر کا حکم دیا کہ جس طرح میں نے احسان تم پر کیا تم بھی میرے ذکر اور میرے شکر سے غفلت نہ کرو۔ موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تیرا شکر کس طرح کروں ارشاد ہوتا ہے مجھے یاد رکھو بھولو نہیں یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے حسن بصری کا قول ہے : اللہ کی یاد کرنے والے کو اللہ بھی یاد کرتا ہے اس کا شکر کرنے والے کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب کرتا ہے بزرگان سلف سے مروی ہے کہ اللہ سے پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے غفلت نہ برتی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے سوال ہوتا ہے کہ کیا زانی، شرابی ، چور اور قاتل نفس کو بھی اللہ یاد کرتا ہے؟ فرمایا ہاں برائی سے، حسن بصری فرماتے ہیں: مجھے یاد کرو یعنی میرے ضروری احکام بجا لاؤ میں تمہیں یاد کروں گا یعنی اپنی نعمتیں عطا فرماؤں گا سعید بن جبیر فرماتے ہیں: میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کا یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے ایک قدسی حدیث میں ہے : جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ وہ جماعت فرشتوں کی ہے جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور اگر تو اے بنی آدم میری طرف ایک ہاتھ بڑھائے گا میں تیری طرف دو ہاتھ بڑھاؤں گا اور اگر تو میری طرف چلتا ہوا آئے گا تو میں تیری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ قریب ہے وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (۱۵۲) میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو پھر فرمایا میرا شکر کرو ناشکری نہ کرواور جگہ ہے : وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِى لَشَدِيدٌ (۱۴:۷) اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے مسند احمد میں ہے کہ عمربن حصین ایک مرتبہ نہایت قیمتی حلہ پہنے ہوئے آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو اس کا اثر اس پر دیکھنا چاہتا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (۱۵۳) اے ایمان والو صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے شکر کے بعد صبر کا بیان ہو رہا ہے اور ساتھ ہی نماز کا ذکر کر کے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کا حکم ہو رہا ہے، ظاہر بات ہے کہ انسان یا تو اچھی حالت میں ہوگا تو یہ موقعہ شکر کا ہے یا اگر بری حالت میں ہوگا تو یہ موقعہ صبر کا ہے، حدیث میں ہے: مؤمن کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام میں اس کے لئے سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے اسے راحت ملتی ہے ۔ شکر کرتا ہے تو اجر پاتا ہے، رنج پہنچتا ہے صبر کرتا ہے تو اجر پاتا ہے آیت میں اس کا بھی بیان ہو گیا کہ مصیبتوں پر تحمل کرے اور انہیں ٹالنے کا ذریعہ صبر و صلوٰۃ ہے، جیسے اس سے پہلے گزر چکا ہے: وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَـشِعِينَ (۲:۴۵) صبر و صلوٰۃ کے ساتھ استعانت چاہو یہ ہے تو اہم کام لیکن رب کا ڈر رکھنے والوں پر بہت آسان ہے، حدیث میں ہے: جب کوئی کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز شروع کر دیتے، صبر کی دو قسمیں ہیں: حرام اور گناہ کے کاموں کے ترک کرنے پر، اطاعت اور نیکی کے کاموں کے کرنے پریہ صبر پہلے سے بڑا ہے، تیسری قسم صبر کی مصیبت، درد اور دکھ پر یہ بھی واجب ہے، جیسے عیبوں سے استغفار کرنا واجب ہے، حضرت عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ اللہ کی فرمانبرداری میں استقلال سے لگے رہنا چاہے انسان پر شاق گزرے طبیعت کے خلاف ہو جی نہ چاہے یہ بھی ایک صبر ہے۔ دوسرا صبر اللہ تعالیٰ کی منع کئے ہوئے کے کاموں سے رک جانا ہے چاہے طبعی میلان اس طرف ہو خواہش نفس اکسا رہی ہو، امام زین العابدینؒ فرماتے ہیں: قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ اٹھیں اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف بڑھیں گے فرشتے انہیں دیکھ پر پوچھیں گے کہ کہاں جا رہے ہو؟ جواب دیں گے ہم صابر لوگ ہیں اللہ کی فرمانبرداری کرتے رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے، مرتے دم تک اس پر اور اس پر صبر کیا اور جمے رہے، فرشتے کہیں گے پھر تو ٹھیک ہے بیشک تمہارا یہی بدلہ ہے اور اسی لائق تم ہو جاؤ جنت میں مزے کرو اچھے کام والوں کا اچھا ہی انجام ہےیہی قرآن فرماتا ہے: إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (۳۹:۱۰) صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں صبر کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کرے اور مصیبتوں کا بدلہ اللہ کے ہاں ملنے کا یقین رکھے ان پر ثواب طلب کرے ہر گھبراہٹ پریشانی اور کٹھن موقعہ پر استقلال اور نیکی کی امید پر وہ خوش نظر آئے وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (۱۵۴) اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔ پھر فرمایا کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ ایسی زندگی میں ہیں جسے تم نہیں سمجھ سکتے انہیں حیات برزخی حاصل ہے اور وہاں وہ خورد و نوش پا رہے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے : شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہو گی؟ ان سے پھر یہی سوال ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہو گا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں، رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے : مؤمن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مؤمن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال جان اور پھلوں کی کمی سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کر لیتا ہے کبھی ترقی اور بھلائی کسے ذریعہ اور کبھی تنزل اور برائی سے ، جیسے فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَـهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّـبِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَـرَكُمْ (۴۷:۳۱) یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کرلیں اور جگہ ہے : فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ (۱۶:۱۱۲) اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا خوف، کچھ بھوک، کچھ مال کی کمی، کچھ جانوں کی کمی یعنی اپنوں اور غیروں کی خویش و اقارب کی موت، کبھی پھلوں اور پیداوار کی نقصان وغیرہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے، وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (۱۵۵) اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ صبر کرنے والوں کو نیک اجر اور اچھا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بےصبر جلد باز اور ناامیدی کرنے والوں پر اس کے عذاب اتر آتے ہیں۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں - خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے، - بھوک سے مراد روزوں کی بھوک ہے، - مال کی کمی سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی ہے، - جان کی کمی سے مراد بیماریاں ہیں، - پھلوں سے مراد اولاد ہے، لیکن یہ تفسیر ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۱۵۶) جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسکی طرف لوٹنے والے ہیں اب بیان ہو رہا ہے کہ جن صبر کرنے والوں کی اللہ کے ہاں عزت ہے وہ کون لوگ ہیں؟ پس فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو تنگی اور مصیبت کے وقت آیت إِنَّا لِلَّهِ پڑھ لیا کرتے ہیں اور اس بات سے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور جو ہمیں پہنچا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان میں جس طرح وہ چاہے تصرف کرتا رہتا ہے اور پھر اللہ کے ہاں اس کا بدلہ ہے جہاں انہیں بالآخر جانا ہے، أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (۱۵۷) ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ کی نوازشیں اور الطاف ان پر نازل ہوتے ہیں عذاب سے نجات ملتی ہے اور ہدایت بھی نصیب ہوتی ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں دوبرابر کی چیزیں صلوات اور رحمت اور ایک درمیان کی چیز یعنی ہدایت ان صبر کرنے والوں کو ملتی ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں : میرے خاوند حضرت ابو سلمہؓ ایک روز میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہو کر آئے اور خوشی خوشی فرمانے لگے آج تو میں نے ایک ایسی حدیث سنی ہے کہ میں بہت ہی خوش ہوا ہوں وہ حدیث یہ ہے کہ جس کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ کہے اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا اللہ مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اجر اور بدلہ ضرور دیتا ہے حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں میں نے اس دعا کو یاد کر لیا جب حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہوا تو میں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر پھر یہ دعا بھی پڑلی لیکن مجھے خیال آیا کہ بھلا ابو سلمہؓ سے بہتر شخص مجھے کون مل سکتا ہے؟ جب میری عدت گزر چکی تو میں ایک روز ایک کھال کو دباغت دے رہی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی میں نے اپنے ہاتھ دھو ڈالے کھال رکھ دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر تشریف لانے کی درخواست کی اور آپ کو ایک گدی پر بٹھا دیا آپ ﷺنے مجھ سے اپنا نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میری خوش قسمتی کی بات ہے لیکن اول تو میں بڑی باغیرت عورت ہوں ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف کوئی بات مجھ سے سرزد ہو جائے اور اللہ کے ہاں عذاب ہو دوسرے یہ کہ میں عمر رسیدہ ہوں، تیسرے بال بچوں والی ہوں آپ ﷺنے فرمایا سنو ایسی بےجا غیرت اللہ تعالیٰ تمہاری دور کر دے گا اور عمر میں کچھ میں بھی چھوٹی عمر کا نہیں اور تمہارے بال بچے میرے ہی بال بچے ہیں میں نے یہ سن کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی عذر نہیں چنانچہ میرا نکاح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میرے میاں سے بہت ہی بہتر یعنی اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمایا فالحمد للہ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث باختلاف الفاظ مروی ہے، مسند احمد میں حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی مسلمان کو کوئی رنج و مصیبت پہنچے اس پر گویا زیادہ وقت گزر جائے پھر اسے یاد آئے اور وہ إِنَّا لِلَّهِ پڑھے تو مصیبت کے صبر کے وقت جو اجر ملا تھا وہی اب بھی ملے گا، ابن ماجہ میں ہے حضرت ابو سنان فرماتے ہیں: میں نے اپنے ایک بچے کو دفن کیا ابھی میں اس کی قبر میں سے نکلا نہ تھا کہ ابو طلحہ خولانی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے نکالا اور کہا سنو میں تمہیں ایک خوشخبری سناؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک الموت سے دریافت فرماتا ہے تو نے میرے بندے کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کا کلیجہ کا ٹکڑا چھین لیا بتا تو اس نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں اللہ تیری تعریف کی اور إِنَّا لِلَّهِ پڑھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اسلئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو أَنْ لَّا يَطَّوَّفَ بِهِمَا ہوتا۔ سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے مثلل کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعد حضور علیہ السلام نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لئے مسنون ہو گیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا (بخاری مسلم) ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کو جاہلیت کا کام جانتے تھے اور اسلام کی حالت میں اس سے بچتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری اساف بت صفا پر تھا اور نائلہ مروہ پر، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہو گئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا، سیرت محمد بن اسحاق میں ہے: اساف اور نائلہ دو مردو عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنا دیا، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہو گئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہو گیا، صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر چکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ۔ حضرت حبیبہ بنت تجزاۃ فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ کے آگے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے تھے آپ قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ کا تہبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان اِدھر اُدھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے (مسند احمد) اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی اور ان کے موافقین کا مذہب ہے، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے، بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا۔ امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے۔ امام ابو حنیفہ، ثوری، شعبی، ابن سیرین یہی کہتے ہیں۔ حضرت انسؓ ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ سے یہی مروی ہے امام مالک سے عتبہ کی بھی روایت ہے، ان کی دلیل آیت وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ہے، لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو، پس آپ نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہو گیا اس کا کرنا ضروری ہے، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجوب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے واللہ اعلم۔ علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کر دی۔ غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں حضرت ابراہیمؑ کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی اصل حضرت ہاجرہؓ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ حضرت ابراہیمؑ انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہو چکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب اُم اسمٰعیل علیہ السلام نہایت بےقراری، بےبسی، ڈر، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم، رنج و کرب، تکلیف اور دکھ دور ہوا۔ یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ حضرت ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کر دیا۔ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (۱۵۸) اپنی خوشی سے کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا و مروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے واللہ اعلم پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے فالحمد والشکر للہ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً (۴:۴۰) بیشک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ(۱۵۹) جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ ان آیات میں ان لوگوں کے لئے زبردست دھمکی ہے جو اللہ تعالیٰ کی باتیں اور شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں، اہل کتاب نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپا لیا تھا جس پر ارشاد ہوتا ہے کہ حق کے چھپانے والے ملعون لوگ ہیں۔ جس طرح اس عالم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی مچھلیاں اور ہوا کے پرند بھی اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جاتے ہیں ہر چیز لعنت بھیجتی ہے، صحیح حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا : جس شخص سے کسی شرعی امر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے اسے قیامت کیدن آگ کی لگام پہنائی جائے گی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے آپﷺ نے فرمایا : قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ جاندار اس کا دھماکہ سنتے ہیں سوائے جن و انس کے پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جانداروں کی حضرت عطاء فرماتے ہیںاللَّاعِنُونَ سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں اللَّاعِنُونَ سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب خشک سالی ہوتی ہے بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں یہ بنی آدم کے گنہگاروں کے گناہ کی شومی قسمت سے ہے اللہ تعالیٰ نبی آدم کے گنہگاروں پر لعنت نازل کرے، بعض مفسرین کہتے اس سے مراد فرشتے اور مؤمن لوگ ہیں، حدیث میں ہے عالم کے لئے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی اس آیت میں ہے کہ علم کے چھپانے والوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور فرشتے اور تمام لوگ اور کل لعنت کرنے والے یعنی ہر بازبان اور ہر بےزبان چاہے زبان سے کہے چاہے قرائن سے اور قیامت کے دن بھی سب چیزیں ان پر لعنت کریں گی واللہ اعلم۔ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۱۶۰) مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں انکی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنیوالا اور رحم کرنے والا ہوں پھر ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا گیا جو اپنے اس فعل سے باز آ جائیں اور اپنے اعمال کی پوری اصلاح کر لیں اور جو چھپایا تھااسے ظاہر کریں ان لوگوں کی توبہ وہ اللہ تواب الرحیم قبول فرما لیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو وہ بھی جب سچے دل سے رجوع کر لے تو اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی اُمتوں میں ایسے زبردست بدکاروں کی توبہ قبول نہیں ہوتی تھی لیکن نبی التوبہ اور نبی الرحمہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے ساتھ یہ مہربانی مخصوص ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (۱۶۱) یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جو کفر کریں توبہ نصیب نہ ہو اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں ان پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، خَالِدِينَ فِيهَا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (۱۶۲) جس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی۔ یہ لعنت ان پر چپک جاتی ہے اور قیامت تک ساتھ ہی رہے گی اور دوزخ کی آگ میں لے جائے گی اور عذاب بھی ہمیشہ ہی رہے گا نہ تو عذاب میں کبھی کمی ہوگی نہ کبھی موقوف ہوگی بلکہ ہمیشہ دوام کے ساتھ سخت عذاب میں رہیں گے نعوذباللہ من عذاب اللہ حضرت ابوالعالیہ اور حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں: قیامت کے دن کافر کو ٹھہرایا جائے گا پھر اس پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے گا پھر فرشتے پھر سب لوگ کافروں پر لعنت بھیجنے کے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور آپ کے بعد کے ائمہ کرام سب کے سب قنوت وغیرہ میں کفار پر لعنت بھیجتے تھے، لیکن کسی معین کافر پر لعنت بھیجنے کے بارے میں علماء کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ جائز نہیں اس لئے کہ اس کے خاتمہ کا کسی کو علم نہیں اور اس آیت کی یہ قید کہ مرتے دم تک وہ کافر رہے معین کافر دلیل ہے کسی پر لعنت نہ بھیجنے کی، ایک دوسری جماعت اس کی بھی قائل ہے جیسے فقیہ ابوبکر بن عربی مالکی، لیکن ان کی دلیل ایک ضعیف حدیث ہے، بعض نے اس حدیث سے یہ بھی دلیل لی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص بار بار نشہ کی حالت میں لایا گیا اور اس پر بار بار حد لگائی گئی تو ایک شخص نے کہا اس پر اللہ کی لعنت ہو بار بار شراب پیتا ہے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو یہ اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اللہ رسول سے دوستی نہ رکھے اس پر لعنت بھیجنی جائز ہے واللہ اعلم۔ وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (۱۶۳) تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ یعنی حکمرانی میں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس جیسا کوئی ہے وہ واحد اور احد ہے وہ فرد اور صمد ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں، وہ رحمٰن اور رحیم ہے، سورۃ فاتحہ کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ، ایک یہ آیت دوسری آیت الم ـ اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (۳:۱،۲) ) اس کے بعد اس توحید کی دلیل بیان ہو رہی ہے اسے بھی توجہ سے سنئے فرماتے ہیں۔ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ آسمان اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کونفع دینے والی چیزیں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا مطلب یہ ہے کہ اس اللہ کی فرماں روائی اور اس کی توحید کی دلیل ایک تو یہ آسمان ہے جس کی بلندی لطافت کشادگی جس کے ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے والے روشن ستارے تم دیکھ رہے ہو، پھر زمین کی پیدائش جو کثیف چیز ہے جو تمہارے قدموں تلے بچھی ہوئی ہے، جس میں بلند بلند چوٹیوں کے سر بہ فلک پہاڑ ہیں جس میں موجیں مارنے والے بےپایاں سمندر ہیں جس میں انواع واقسام کے خوش رنگ بیل بوٹے ہیں جس میں طرح طرح کی پیداوار ہوتی ہے جس میں تم رہتے سہتے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق آرام دہ مکانات بنا کر بستے ہو اور جس سے سینکڑوں طرح کا نفع اٹھاتے ہو، پھر رات دن کا آنا جانا رات گئی دن گیا رات آ گئی۔ نہ وہ اس پر سبقت کرے نہ یہ اس پر۔ ہر ایک اپنے صحیح انداز سے آئے اور جائے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں جائے کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں آجائے ، لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (۳۶:۴۰) نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔ يُولِجُ الَّيْلَ فِى النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِى الَّيْلِ (۵۷:۶) وہی رات کو دن میں لے جاتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے پھر کشتیوں کو دیکھو جو خود تمہیں اور تمہارے مال واسباب اور تجارتی چیزوں کو لے کر سمندر میں ادھر سے ادھرجاتی آتی رہتی ہیں ، جن کے ذریعہ اِس ملک والے اُس ملک والوں سے اور اُس ملک والے اِس ملک والوں سے رابطہ اور لین دین کرسکتے ہیں، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں پہنچ سکتی ہیں، وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا پھر اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کاملہ سے بارش برسانا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دینا، اس سے اناج اور کھیتیاں پیدا کرنا، وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۱۶۳) اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الہٰی کی نشانیاں ہیں۔ چاروں طرف ریل پیل کر دینا، زمین میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کار آمد جانوروں کو پیدا کرنا ان سب کی حفاظت کرنا، انہیں روزیاں پہنچانا ان کے لئے سونے بیٹھنے چرنے چگنے کی جگہ تیار کرنا، ہواؤں کو پورب پچھم چلانا، کبھی ٹھنڈی کبھی گرم کبھی کم کبھی زیادہ، بادلوں کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرنا، انہیں ایک طرف سے دوسری کی طرف لے جانا، ضرورت کی جگہ برسانا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے عقل مند اپنے اللہ کے وجود کو اور اس کی وحدانیت کو پالیتے ہیں، جیسے اور جگہ فرمایا : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔۔۔ سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (۳:۱۹۰،۱۹۱) آسمان وزمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غور فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے انہیں بیکار نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے ہم اس سے گھوڑے اور ہتھیار وغیرہ خریدیں اور تیرا ساتھ دیں اور ایمان بھی لائیں آپ ﷺنے فرمایا پختہ وعدے کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں پختہ وعدہ ہے آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا تمہاری دعا تو قبول ہے لیکن اگریہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر اللہ کا وہ عذاب آئے گا جو آج سے پہلے کسی پر نہ آیا ہو، آپﷺ کانپ اٹھے اور عرض کرنے لگے نہیں اللہ تو انہیں یونہی رہنے دے میں انہیں تیری طرف بلاتا رہوں گا کیا عجب آج نہیں کل اور کل نہیں تو پرسوں ان میں سے کوئی نہ کوئی تیریطرف جھک جائے اس پر یہ آیت اتری کہ اگر انہیں قدرت کی نشانیاں دیکھنی ہیں تو کیا یہ نشانیاں کچھ کم ہیں؟ ایک اور شان نزول بھی مروی ہے کہ جب آیت وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ (۲:۱۱۶۳) اتری تو مشرکین کہنے لگے ایک اللہ تمام جہاں کا بندوبست کیسے کریگا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اللہ اتنی بڑی قدرت والا ہے، بعض روایتوں میں ہے اللہ کا ایک ہونا سن کر انہوں نے دلیل طلب کی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قدرت کے نشان ہائے ان پر ظاہر کئے گئے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اس آیت میں مشرکین کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہو رہا ہے، یہ اللہ کا شریک مقرر کرتے ہیں اس جیسا اوروں کو ٹھہراتے ہیں اور پھر ان کی محبت اپنے دل میں ایسی ہی جماتے ہیں جیسی اللہ کی ہونی چاہئے حالانکہ وہ معبود برحق صرف ایک ہی ہے ، وہ شریک اور حصہ داری سے پاک ہے بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: فرماتے ہیں میں نے پوچھا یارسول اللہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا حالانکہ پیدا اسی اکیلے نے کیا ہے ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ۗ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں پھر فرمایا ایماندار اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ان کے دل عظمت الہٰی اور توحید ربانی سے معمور ہوتے ہیں،وہ اللہ کے سوا دوسرے سے ایسی محبت نہیں کرتے کسی اور سے طرف التجا کرتے ہیں نہ دوسروں کی طرف جھکتے ہیں نہ اس کی پاک ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (۱۶۵) کاش کہ مشرک لوگ جانتے جبکہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے ۔ پھر ان مشرکین کو جو اپنی جانوں پر شرک کے بوجھ کا ظلم کرتے ہیں انہیں اس عذاب کی خبر پہنچاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اسے دیکھ لیں تو یقین ہو جائے کہ قدرتوں والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، تمام چیزیں اسی کے ماتحت اور زیر فرمان ہیں اور اس کا عذاب بڑا بھاری ہے جیسے اور جگہ ہے: فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ـ وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (۸۹:۲۵،۲۶) پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی نہ ہوگا نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر انہیں اس منظر کا علم ہوتا تو یہ اپنی گمراہی اور شرک وکفر پر ہرگز نہ اڑتے ۔ إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ (۱۶۶) جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے اس دن ان لوگوں نے جن جن کو اپنا پیشوا بنا رکھا تھا وہ سب ان سے الگ ہو جائیں گے ، فرشتے کہیں گے: تَبَرَّأْنَآ إِلَيْكَ مَا كَانُواْ إِيَّانَا يَعْبُدُونَ (۲۸:۶۳) ہم تیری سرکار میں اپنی دست برادری کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے سُبْحَـنَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِمْ بَلْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْـثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ (۳۴:۴) تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے‘ ان میں کے اکثر کا انہی پر ایمان تھا اسی طرح جنات بھی ان سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور صاف صاف ان کے دشمن ہو جائیں گے اور عبادت سے انکار کریں گےاور جگہ قرآن میں ہے: وَاتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ ءالِهَةً لِّيَكُونُواْ لَهُمْ عِزّاً ـ كَلاَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَـدَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً (۱۹:۸۱،۸۲) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ وہ تو پوجا سے منکر ہوجائیں گے، الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا فرمان ہے: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ وَمَا لَكُمْ مِّن نَّـصِرِينَ (۲۹:۲۵) تم نے اللہ کے سوا بتوں کی محبت دل میں بٹھا کر ان کی پوجا شروع کر دی ہے قیامت کے دن وہ تمہاری عبادت کا انکار کریں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور تمہارا مددگار کوئی نہ ہو گا، اسی طرح اور جگہ ہے: وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّـلِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبّهِمْ ۔۔۔ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۳۴:۳۱،۳۳) کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مؤمنوں میں سے ہوتے یہ بڑے لوگ ان کمزورں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم (خود) ہی مجرم تھے ۔ (اس کے جواب میں) یہ کمزور لوگ ان متکبروں سے کہیں گے، (نہیں نہیں) بلکہ دن رات مکرو فریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا ہمارا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل میں پشیمان ہو رہے ہونگے اور کافروں کی گردنوں میں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور جگہ ہے کہ اس دن شیطان بھی کہے گا : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ ۔۔۔ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۴:۲۲) اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے انکے خلاف کیا میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے، کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی انسے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں پھر فرمایا کہ وہ عذاب دیکھ لیں گے اور اور تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے نہ کوئی بھاگنے کی جگہ رہے گی نہ چھٹکارے کی کوئی صورت نظر آئے گی دوستیاں کٹ جائیں گی رشتے ٹوٹ جائیں گے۔ اور بلادلیل باتیں ماننے والے بےوجہ اعتقاد رکھنے والے پوجا پاٹ اور اطاعت کرنے والے جب اپنے پیشواؤں کو اس طرح بری الذمہ ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو نہایت حسرت ویاس سے کہیں گے کہ اگر اب ہم دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہوئے نہ ان کی طرف التفات کریں نہ ان کی باتیں مانیں نہ انہیں شریک اللہ سمجھیں بلکہ اللہ واحد کی خالص عبادت کریں۔ حالانکہ اگر درحقیقت یہ لوٹائے بھی جائیں تو وہی کریں گے جو اس سے پہلے کرتے تھے جیسے فرمایا : وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ (۶:۲۸) اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو، اسی لئے یہاں فرمایا اللہ تعالیٰ ان کے کرتوت اسی طرح دکھائے گا ان پر حسرت وافسوس ہے یعنی اعمال نیک جو تھے وہ بھی ضائع ہو گئے جیسے اور جگہ ہے: وَقَدِمْنَآ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَآءً مَّنثُوراً (۲۵:۲۳) اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا اور جگہ ہے: مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِف (۱۴:۱۸) ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی چلے اور اڑا کر لے جائے اور جگہ ہے: وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا (۲۴:۳۹) اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (۱۶۷) یہ ہرگز جہنم سے نہیں نکلیں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ آگ سے نکلنے والے نہیں۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیؤاور شیطانی راہ پر مت چلو اوپر چونکہ توحید کا بیان ہوا تھا اس لئے یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ تمام مخلوق کا روزی رساں بھی وہی ہے، فرماتا ہے کہ میرا یہ احسان بھی نہ بھولو کہ میں نے تم پر پاکیزہ چیزیں حلال کیں جو تمہیں لذیذ اور مرغوب ہیں جو نہ جسم کو ضرر پہنچائیں نہ صحت کو نہ عقل و ہوش کو ضرر دیں، میں تمہیں روکتا ہوں کہ شیطان کی راہ پر نہ چلو جس طرح اور لوگوں نے اس کی چال چل کر بعض حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں ، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے : میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے اسے ان کے لئے حلال کر دیا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹا دیا اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جس وقت اس آیت کی تلاوت ہوئی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا حضور میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے،آپ ﷺنے فرمایا: اے سعد پاک چیزیں اور حلال لقمہ کھاتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے حرام کا لقمہ جو انسان اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی نحوست کی وجہ سے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو گوشت پوست حرام سے پلا وہ جہنمی ہے۔ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۱۶۸) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا : إِنَّ الشَّيْطَـنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُواْ مِنْ أَصْحَـبِ السَّعِيرِ (۳۵:۶) یاد رکھو ! شیطان تمہارا دشمن ہے‘ تم اسے دشمن جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں اور جگہ فرمایا: أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّـلِمِينَ بَدَلاً (۱۸:۵۰) کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت ہے جس میں شیطان کا بہکاوا ہوتا ہے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا، آپ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ نے پوچھا کیا روزے سے ہو؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں آپ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنے قسم کا کفارہ دو اور کھا لو، ابو رافع کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اب میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے؟ تو آپ نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے، پھر میں حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا، عاصم اور ابن عمر نے بھی یہی فتویٰ، حضرت ابن عباس کا فتویٰ ہے جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے برابر دے دے ۔ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۱۶۹) وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا،لہذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (۱۷۰) اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں ہم اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں ۔ یعنی ان کافروں اور مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کرو اور اپنی ضلالت وجہالت کو چھوڑ دو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بڑوں کی راہ لگے ہوئے ہیں جن چیزوں کی وہ پوجا پاٹ کرتے تھے ہم بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گےجس کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ وہ تو فہم و ہدایت سے غافل تھے۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں) پھر ان کی مثال دی کہ جس طرح چرنے چگنے والے جانور اپنے چرواہے کی کوئی بات صحیح طور سے سمجھ نہیں سکتے صرف آواز کانوں میں پڑتی ہے اور کلام کی بھلائی برائی سے بےخبر رہتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ہیں۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جن جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اور ان سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں وہ نہ سنتے ہیں نہ جانتے ہیں نہ ان میں زندگی ہے نہ انہیں کچھ احساس ہے۔ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (۱۷۱) وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل نہیں ۔ کافروں کی یہ جماعت حق کی باتوں کے سننے سے بہری ہے حق کہنے سے بےزبان ہے حق کے راہ چلنے سے اندھی ہے عقل وفہم سے دور ہے، جیسے اور جگہ ہے: وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ مَنْ يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۶:۳۹) اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں اللہ جس کو چاہے بے راہ کر دے‘جس کو چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (۱۷۲) اے ایمان والو جو پاکیزہ روزی ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیؤ اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے رہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو اور میری شکر گزاری کرو،لقمہ حلال دعا عبادت کی قبولیت کا سبب ہے اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا ، مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لوگوں اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاک چیز کو قبول فرماتا ہے اس نے رسولوں کو اور ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ پاک چیزیں کھائیں اور نیک اعمال کریں فرمان ہے: يأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُواْ مِنَ الطَّيِّبَـتِ وَاعْمَلُواْ صَـلِحاً إِنِّى بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (۲۳:۵۱) اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں اور فرمایا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْپھر آپ ﷺنے فرمایا ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے وہ پراگندہ بالوں والا غبار آلود ہوتا ہے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر دعا کرتا ہے اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا پینا لباس اور غذا سب حرام کے ہیں اس لئے اس کی اس وقت کی ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے حلال چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد حرام چیزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ تم پر مردار جانور جو اپنی موت آپ مر گیا ہو جسے شرعی طور پر ذبح نہ کیا گیا ہو حرام ہے خواہ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو یا لکڑی اور لٹھ لگنے سے مر گیا ہو کہیں سے گر پڑا ہو اور مر گیا ہو یا دوسرے جانوروں نے اپنے سینگ سے اسے ہلاک کر دیا ہو یا درندوں نے اسے مار ڈالا ہو یہ سب الْمَيْتَةَ میں داخل ہیں اور حرام ہیں لیکن اس میں سے پانی کے جانور مخصوص ہیں وہ اگرچہ خود بخود مر جائیں تو بھی حلال ہیں ۔جیسے فرمان ہے: أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ (۵:۹۶) تمہارے لئے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے اس کا پورا بیان اس آیت کی تفسیر میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ عنبر نامی جانور کا مرا ہوا ملنا اور صحابہ کا اسے کھانا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہونا اور آپ کا اسے جائز قرار دینا یہ سب باتیں حدیث میں ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے: سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے، ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دو مردے اور دو خون ہم پر حلال ہیں - مچھلی اور ٹڈی - کلیجی اور تلی، سورۃ مائدہ میں اس کا بیان تفصیل وار آئے گا۔ انشاء اللہ۔ مسئلہ مردار کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی کا یہی مذہب ہے اس لئے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے ، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ ہے تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے نجس ہو جاتا ہے، اسی طرح مردار کی کھیس بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے، صحابہ ؓ کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر وارد ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور گور خر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں۔ پھر فرمایا کہ تم پر سؤر کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مر گیا ہو، سؤر کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لئے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی، دوسرے اسلئے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا، ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۷۳) پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد فرماتے ہیں، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لئے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں، غیر باغ کی تفسیر حضرت مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لئے کھالے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لئے مجبور کردیا جائے اور بے اختیار ہو جائے اس کا بھی یہی حکم ہے، مسئلہ ایک شخص بھوک کے مارے بےبس ہو گیا ہے اسے ایک مردار جانور نظر پڑا اور کسی دوسرے کی حلال چیز بھی دکھائی دی جس میں نہ رشتہ کا ٹوٹنا ہے نہ ایذاء دہی ہے تو اسے اس دوسرے کی چیز کو کھا لینا چاہئے مردار نہ کھائے، پھر آیا اس چیز کی قیمت یا وہی چیز اس کے ذمہ رہے گی یا نہیں اس میں دو قول ہیں - ایک یہ کہ رہے گی - دوسری یہ کہ نہ رہے گی۔ نہ رہنے والے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں ہے: حضرت عباد بن شرحبیل غزی کہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال قحط سالی پڑی میں مدینہ گیا اور ایک کھیت میں سے کچھ بالیں توڑ کر چھیل کر دانے چبانے لگا اور تھوڑی سی بالیں اپنی چادر میں باندھ کر چلا کھیت والے نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور میری چادر چھین لی، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے اس شخص کو کہا اس بھوکے کو نہ تو تو نے کھانا کھلایا نہ اس کے لئے کوئی اور کوشش کی نہ اسے کچھ سمجھایا سکھایا یہ بیچارہ بھوکا تھا نادان تھا جاؤ اس کا کپڑا واپس کرو اور ایک وسق یا آدھا وسق غلہ اسے دے دو، (ایک وسق چار من کے قریب ہوتا ہے) ایک اور حدیث میں ہے: درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھا لے لےکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے،یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے حضرت مسروق فرماتے ہیں اضطرار کے وقت بھی جو شخص حرام چیز نہ کھائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ایسے وقت ایسی چیز کے کھانی ضروری ہے نہ کہ صرف رخصت ہی ہو، یہی بات زیادہ صحیح ہے جیسے کہ بیمار کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں یعنی جو یہودی نبی کی صفات کی آیتوں کو جو تورات میں ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے اپنی آؤ بھگت عرب سے کراتے ہیں اور عوام سے تحفے اور نقدی سمیٹتے رہتے ہیں وہ اس دنیا ئے فانی کے بدلے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں، انہیں ڈرلگا ہوا ہے کہ اگر حضور کی نبوت کی سچائی اور آپکے دعوے کی تصدیق کی آیتیں (جو تورات میں ہیں) لوگوں پر ظاہر ہو گئیں تو لوگ آپ کے ماتحت ہو جائیں گے اور انہیں چھوڑ دیں گے اس خوف سے وہ ہدایت و مغفرت کو چھوڑ بیٹھے اور ضلالت وعذاب پر خوش ہوں گئے اس باعث دنیا اور آخرت کی بربادی ان پر نازل ہوئی، آخرت کی رسوائی تو ظاہر ہے لیکن دنیا میں بھی لوگوں پر ان کا مکر کھل گیا، وقتًا فوقتاً وہ آیتیں جنہیں یہ بدترین علماء چھپاتے رہتے تھے ظاہر ہوتی رہیں، علاوہ ازیں خود حضرتﷺ کے معجزات اور آپ کی پاکیزہ عادات نے لوگوں کو آپ کی تصدیق پر آمادہ کر دیا اور ان کی وہ جماعت جس کے ہاتھ سے نکل جانے کے ڈرنے انہیں کلام اللہ چھپانے پر آمادہ کیا تھا بلآخر ہاتھ سے جاتی رہیں ان لوگوں نے حضور ﷺسے بیعت کر لی ایمان لے آئے اور آپ کے ساتھ مل کر ان حق کے چھپانے والوں کی جانیں لیں اور ان سے باقاعدہ جہاد کیا، قرآن کریم میں ان کی حقائق چھپانے والی حرکتوں کو جگہ جگہ بیان کیا گیا، یہاں بھی فرمایا ہے کہ یہ مال جو اللہ کی باتوں کو چھپا کر کھاتے ہو دراصل آگ کے انگارے ہیں جنہیں تم پیٹ میں بھر رہے ہو۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں بھی جو یتیموں کا مال ظلم سے ہڑپ کر لیں ۔ ان کے لئے بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں اور قیامت کے دن بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے صحیح حدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺفرماتے جو شخص سونے چاندی کے برتن میں کھاتا پیتا ہے وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۷۴) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ پھر فرمایا ان سےاللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت بھی نہیں کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ المناک عذابوں میں مبتلا کرئے گا۔ اس لئے کہ ان کے اس کرتوت کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور اب ان پر سے نظر رحمت ہٹ گئی ہے اور یہ ستائش اور تعریف کے قابل نہیں رہے بلکہ سزایاب ہوں گے اور وہاں تلملاتے رہیں گے۔ حدیث شریف میں ہے: تین قسم کے لوگوں سے اللہ بات چیت نہ کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہیں - زانی بڈھا، - جھوٹا بادشاہ، - متکبر فقیر أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خرید لیا ہے، فرمایا کہ ان لوگوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی انہیں چاہئے تھا کہ تورات میں جو خبریں حضور کی نسبت تھیں انہیں ان پڑھوں تک پہنچاتے لیکن اس کے بدلے انہوں نے انہیں چھپا لیا اور خود بھی آپ ﷺ کے ساتھ کفر کیا اور آپ ﷺ کی تکذیب کی ، ان کے اظہار پر جو نعتیں اور رحمتیں انہیں ملنے والی تھیں ان کے بدلے زحمتیں اور عذاب اپنے سر لے لئے ۔ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (۱۷۵) یہ لوگ آگ کا عذاب کتنا برداشت کرنے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے انہیں وہ دردناک اور حیرت انگیز عذاب ہوں گے کہ دیکھنے والا ششدر رہ جائے اور یہ بھی معنی ہیں کہ انہیں آگ کے عذاب کی برداشت پر کس چیز نے آمادہ کیا جو یہ اللہ کی نافرمانیوں میں مشغول ہو گئے۔ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (۱۷۶) ان عذابوں کا باعث یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچی کتاب اتاری اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقیناً وہ ضد میں دور پڑے ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس عذاب کے مستحق اس لئے ہوئے کہ انہوں نے اللہ کی باتوں کو ہنسی کھیل سمجھا اور جو کتاب اللہ حق کو ظاہر کرنے اور باطل کو ختم کرنے کے لئے اتری تھی انہوں نے اس کی مخالفت کی ظاہر کرنے کی جو باتیں چھپائیں اور اللہ کے نبی کی دشمنی کی آپﷺ کی صفتوں کو ظاہر نہ کیا فی الواقع اس کتاب کے بارے میں اختلاف کرنے والے دور کی گمراہی میں جاپڑے۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں اس پاک آیت میں صحیح عقیدے اور راہ مستقیم کی تعلیم ہو رہی ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی، انہوں نے پھر سوال کیا حضور ﷺنے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی پھر یہی سوال کیا آپ نے فرمایا: سنو نیکی سے محبت اور برائی سے عداوت ایمان ہے (ابن ابی حاتم) لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے، مجاہد حضرت ابوذر سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں حالانکہ ان کی ملاقات ثابت نہیں ہوئی۔ ایک شخص نے حضرت ابوذر ؓسے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرما دی اس نے کہا حضرت میں آپ سے بھلائی کے بارے میں سوال نہیں کرتا میرا سوال ایمان کے بارے میں ہے تو آپ نے فرمایا سن ایک شخص نے یہی سوال حضور ﷺسے کیا آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما دی وہ بھی تمہاری طرح راضی نہ ہوا تو آپ نے فرمایا مؤمن جب نیک کام کرتا ہے تو اس کا جی خوش ہو جاتا ہے اور اسے ثواب کی امید ہوتی ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو اس کا دل غمگین ہو جاتا ہے اور وہ عذاب سے ڈرنے لگتا ہے (ابن مردویہ) یہ روایت بھی منقطع ہے اب اس آیت کی تفسیر سنئے۔ مؤمنوں کو پہلے تو حکم ہوا کہ وہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں پھر انہیں کعبہ کی طرف گھما دیا گیا جو اہل کتاب پر اور بعض ایمان والوں پر بھی شاق گزرا پس اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا اصل مقصد اطاعت فرمان اللہ ہے وہ جدھر منہ کرنے کو کہے کر لو، اہل تقویٰ اصل بھلائی اور کامل ایمان یہی ہے کہ مالک کے زیر فرمان رہو، اگر کوئی مشرق کی طرف منہ کرے یا مغرب کی طرف منہ پھیر لے اور اللہ کا حکم نہ ہو تو وہ اس توجہ سے ایماندار نہیں ہو جائے گا بلکہ حقیقت میں باایمان وہ ہے جس میں وہ اوصاف ہوں جو اس آیت میں بیان ہوئے، قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے: لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَآؤُهَا وَلَـكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ (۲۲:۳۷) اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: تم نمازیں پڑھو اور دوسرے اعمال نہ کرو یہ کوئی بھلائی نہیں۔ یہ حکم اس وقت تھا جب مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے تھے لیکن پھر اس کے بعد اور فرائض اور احکام نازل ہوئے اور ان پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا، مشرق و مغرب کو اس کے لئے خاص کیا گیا کہ یہود مغرب کی طرف اور نصاریٰ مشرق کی طرف منہ کیا کرتے تھے ،پس غرض یہ ہے کہ یہ تو صرف لفظی ایمان ہے ایمان کی حقیقت تو عمل ہے، وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، حضرت مجاہد فرماتے ہیں: بھلائی یہ ہے کہ اطاعت کا مادہ دل میں پیدا ہو جائے، فرائض پابندی کے ساتھ ادا ہوں، تمام بھلائیوں کا عامل ہو، حق تو یہ ہے کہ جس نے اس آیت پر عمل کر لیا اس نے کامل اسلام پا لیا اور دل کھول کر بھلائی سمیٹ لی، اس کا ذات باری پر ایمان ہے یہ وہ جانتا ہے کہ معبود برحق وہی ہے فرشتوں کے وجود کو اور اس بات کو کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے مخصوص بندوں پر لاتے ہیں یہ مانتا ہے، کل آسمانی کتابوں کو برحق جانتا ہے اور سب سے آخری کتاب قرآن کریم کو جو کہ تمام اگلی کتابوں کو سچا کہنے والی تمام بھلائیوں کی جامع اور دین ودنیا کی سعادت پر مشتمل ہے وہ مانتا ہے، اسی طرح اول سے آخر تک کے تمام انبیاء پر بھی اس کا ایمان ہے، بالخصوص خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پربھی۔ مال کو باوجود مال کی محبت کے راہ اللہ میں خرچ کرتا ہے، وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، صحیح حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: افضل صدقہ یہ ہے کہ تو اپنی صحت اور مال کی محبت کی حالت میں اللہ کے نام دے باوجودیکہ مال کی کمی کا اندیشہ ہو اور زیادتی کی رغبت بھی ہو (بخاری ومسلم ) مستدرک حاکم میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ...پڑھ کر فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے تم صحت میں اور مال کی چاہت کی حالت میں فقیری سے ڈرتے ہوئے اور امیری کی خواہش رکھتے ہوئے صدقہ کرو، لیکن اس روایت کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے،اصل میں یہ فرمان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے، قرآن کریم میں سورۃ دھر میں فرمایا : وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً ـ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلاَ شُكُوراً (۷۶:۸،۹) اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔ اور جگہ فرمایا : لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ (۳:۹۲) جب تک تم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام نہ دو تم حقیقی بھلائی نہیں پاسکتے۔ اور جگہ فرمایا : وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (۵۹:۹) باوجود اپنی حاجت اور ضرورت کے بھی وہ دوسروں کو اپنے نفس پر مقدم کرتے ہیں پس یہ لوگ بڑے پایہ کے ہیں کیونکہ پہلی قسم کے لوگوں نے تو اپنی پسندیدہ چیز باوجود اس کی محبت کے دوسروں کو دی لیکن ان بزرگوں نے اپنی چاہت کی وہ چیز جس کے وہ خود محتاج تھے دوسروں کو دے دی اور اپنی حاجت مندی کا خیال بھی نہ کیا ۔ ذَوِي الْقُرْبَى انہیں کہتے ہیں جو رشتہ دار ہوں صدقہ دیتے وقت یہ دوسروں سے زیادہ مقدم ہیں۔ حدیث میں ہے : مسکین کو دینا اکہرا ثواب ہے اور قرابت دار مسکین کو دینا دوہرا ثواب ہے، ایک ثواب صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا۔ تمہاری بخشش اور خیراتوں کے زیادہ مستحق یہ ہیں، قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم کئی جگہ ہے۔ الْيَتَامَى سے مراد وہ چھوٹے بچے ہیں جن کے والد مر گئے ہوں اور ان کا کمانے والا کوئی نہ ہو نہ خود انہیں اپنی روزی حاصل کرنے کی قوت وطاقت ہو، حدیث شریف میں ہے بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی الْمَسَاكِينَ وہ ہیں جن کے پاس اتنا ہو جو ان کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کا کافی ہو سکے ، ان کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے جس سے ان کی حاجت پوری ہو اور فقر و فاقہ اور قلت وذلت کی حالت سے بچ سکیں، بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو مانگتے پھرتے ہوں اور ایک ایک دو دو کھجوریں یا ایک ایک دو دو لقمے روٹی کے لے جاتے ہوں بلکہ مسکین وہ بھی ہیں جن کے پاس اتنا نہ ہو کہ ان کے سب کام نکل جائیں نہ وہ اپنی حالت ایسی بنائیں جس سے لوگوں کو علم ہو جائے اور انہیں کوئی کچھ دے دے ۔ ابْنَ السَّبِيلِ مسافر کو کہتے ہیں، اسی طرح وہ شخص بھی جو اطاعت اللہ میں سفر کر رہا ہو اسے جانے آنے کا خرچ دینا، مہمان بھی اسی حکم میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مہمان کو بھی ابْنَ السَّبِيلِ میں داخل کرتے ہیں اور دوسرے بزرگ سلف بھی۔ السَّائِلِينَ وہ لوگ ہیں جو اپنی حاجت ظاہر کر کے لوگوں سے کچھ مانگیں، انہیں بھی صدقہ زکوٰۃ دینا چاہئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آئے (ابوداؤد) الرِّقَابِ سے مراد غلاموں کو آزادی دلانا ہے خواہ یہ وہ غلام ہوں جنہوں نے اپنے مالکوں کو مقررہ قیمت کی ادائیگی کا لکھ دیا ہو کہ اتنی رقم ہم تمہیں ادا کر دیں گے تو ہم آزاد ہیں لیکن اب ان بیچاروں سے ادا نہیں ہو سکی تو ان کی امداد کر کے انہیں آزاد کرانا، ان تمام قسموں کی اور دوسرے اسی قسم کے لوگوں کی پوری تفسیر سورۃ برأت میں آیت إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ (۹:۶۰) کی تفسیر میں بیان ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مال میں زکوٰۃ کے سوا کچھ اور بھی اللہ تعالیٰ کا حق ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ، اس حدیث کا ایک راوی ابوحمزہ میمون اعور ضعیف ہے۔ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، فرمایا نماز کو وقت پر پورے رکوع سجدے اطمینان اور آرام خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے جس طرح ادائیگی کا شریعت کا حکم ہے اور زکوٰۃ کو بھی ادا کرے یا یہ معنی کہ اپنے نفس کو بےمعنی باتوں اور رذیل اخلاقوں سے پاک کرے جیسے فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ـ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (۹۱:۹،۱۰) جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے یہی فرمایا تھا : هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ (۷۹:۱۸) کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ـ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ (۴۱:۶،۷) ان مشرکوں کو ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے یا یہ کہ جو اپنے آپ کو شرک سے پاک نہیں کرتے، پس یہاں مندرجہ بالا آیت زکوٰۃ سے مراد زکوٰۃ نفس یعنی اپنے آپ کو گندگیوں اور شرک وکفر سے پاک کرنا ہے، اور ممکن ہے مال کی زکوٰۃ مراد ہو تو اور احکام نفلی صدقہ سے متعلق سمجھے جائیں گے جیسے اوپر حدیث بیان ہوئی کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور حق بھی ہیں۔ پھر فرمایا وعدے پورے کرنے والےجیسے اور جگہ ہے: الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلاَ يِنقُضُونَ الْمِيثَـقَ (۱۳:۲۰) یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور وعدے نہیں توڑتے، وعدے توڑنا نفاق کی خصلت ہے، جیسے حدیث میں ہے : منافق کی تین نشانیاں ہیں، - بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنا، - وعدہ خلافی کرنا، - امانت میں خیانت کرنا، ایک اور حدیث میں ہے جھگڑے کے وقت گالیاں بکنا۔ پھرفر یایا فقر و فاقہ میں مال کی کمی کے وقت بدن کی بیماری کے وقت لڑائی کے موقعہ پر دشمنان دین کے سامنے میدان جنگ میں جہاد کے وقت صبر و ثابت قدم رہنے والے اور فولادی چٹان کی طرح جم جانے والے ۔ الصَّابِرِين کا نصب بطور مدح کے ہے ان سختیوں اور مصیبتوں کے وقت صبر کی تعلیم اور تلقین ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے ہمارا بھروسہ اسی پر ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (۱۷۷) یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ پھر فرمایا ان اوصاف والے لوگ ہی سچے ایمان والے ہیں ان کا ظاہر باطن قول فعل یکساں ہے اور متقی بھی یہی لوگ ہیں کیونکہ اطاعت گزار ہیں اور نافرمانیوں سے دور ہیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ اے ایمان والو تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، یعنی اے مسلمانوں قصاص کے وقت عدل سے کام لیا کرو الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى ۚ آزاد، آزاد کے بدلے ، غلام ، غلام کے بدلے عورت ،عورت کے بدلے آزاد کے بدلے آزاد’ غلام کے بدلے غلام’ عورت کے بدلے عورت’ اس بارے میں حد سے نہ بڑھو جیسے کہ اگلے لوگ حد سے بڑھ گئے اور اللہ کا حکم بدل دیا، آیت کا شان نزول جاہلیت کے زمانہ میں بنوقریظہ اور بنونضیر کی جنگ ہوئی تھی جس میں بنونضیر غالب آئے تھے اب یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب نضری کسی قرظی کو قتل کرے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک سو وسق کھجور دیت میں لی جاتی تھی اور جب کوئی قرظی نضری کو مار ڈالے تو قصاص میں اسے قتل کر دیا تھا اور اگر دیت لی جائے تو دوگنی دیت یعنی دو سو وسق کھجور لی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم کو مٹایا اور عدل ومساوات کا حکم دیا، ابوحاتم کی روایت میں شان نزول یوں بیان ہوا ہے: عرب کے دو قبیلوں میں جدال وقتال ہوا تھا اسلام کے بعد اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور کہا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد قتل ہو اور عورت کے بدلے مرد قتل ہو تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہے قرآن فرماتا ہے: أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (۵:۴۵) جان کے بدلے جان پس ہر قاتل مقتول کے بدلے مار ڈالا جائے گاخواہ آزاد نے کسی غلام کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو خواہ مرد نے عورت کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کرتے تھے جس پر أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ (۵:۴۵) نازل ہوئی پس آزاد لوگ سب برابر ہیں جسن کے بدلے جان لی جائے گی خواہ قاتل مرد ہو خواہ عورت ہو اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو جب کہ ایک آزاد انسان نے ایک آزاد انسان کو مار ڈالا ہے تو اسے بھی مار ڈالا جائے گا اسی طرح یہی حکم غلاموں اور لونڈیوں میں بھی جاری ہو گا اور جو کوئی جان لینے کے قصد سے دوسرے کو قتل کرے گا وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا اور یہی حکم قتل کے علاوہ اور زخمیوں کا اور دوسرے اعضاء کی بربادی کا بھی ہے، حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ بھی اس آیت کو آیت أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (۵:۴۵) سے منسوخ بتلاتے ہیں۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ، امام ثوری، امام ابن ابی لیلی اور داؤد کا مذہب ہے کہ آزاد نے اگر غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہ بھی قتل کیا جائے گا، حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت سعید بن جبیر حضرت ابراہیم نخعی حضرت قتادہ اور حضرت حکم کا بھی یہی مذہب ہے، حضرت امام بخاری، علی بن مدینی ، ابراہیم نخعی اور ایک اور روایت کی رو سے حضرت ثوری کا بھی مذہب یہی ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار ڈالے تو اس کے بدلے اس کی جان لی جائے گی دلیل میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے اور جو شخص اپنے غلام کی ناک کاٹے ہم بھی اس کی ناک کاٹ دیں گے اور جو اسے خصی کرے اس سے بھی یہی بدلہ لیا جائے ، لیکن جمہور کا مذہب ان بزرگوں کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ غلام مال ہے اگر وہ خطا سے قتل ہو جائے تو دیت یعنی جرمانہ نہیں دینا پڑتا صرف اس کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے نقصان پر بھی بدلے کا حکم نہیں۔ آیا مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء اُمت کا مذہب تو یہ ہے کہ قتل نہ کیا جائے گااور دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے : مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے ، اس حدیث کے خلاف نہ تو کوئی صحیح حدیث ہے کہ کوئی ایسی تاویل ہو سکتی ہے جو اس کے خلاف ہو، لیکن تاہم صرف امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل کر دیا جائے۔ مسئلہ حضرت حسن بصری اور حضرت عطا کا قول ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور دلیل میں مندرجہ بالا آیت کو پیش کرتے ہیں لیکن جمہور علماء اسلام اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۃ مائدہ کی آیت عام ہے جس میں آیت أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (۵:۴۵) موجود ہےعلاوہ ازیں حدیث شریف میں بھی ہے: مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں، حضرت لیث کا مذہب ہے کہ خاوند اگر اپنی بیوی کو مار ڈالے تو خاص کر اس کے بدلے اس کی جان نہیں لی جائے۔ مسئلہ چاروں اماموں اور جمہور اُمت کا مذہب ہے کہ کئی ایک نے مل کر ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تو وہ سارے اس ایک کے بدلے قتل کر دیئے جائیں گے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص کو سات اشخاص مل کر مار ڈالتے ہیں تو آپ ان ساتوں کو قتل کراتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر صفا کے تمام لوگ بھی اس قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کرا دیتا۔آپ کے اس فرمان کے خلاف آپ کے زمانہ میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اعتراض نہیں کیا پس اس بات پر گویا اجماع ہو گیا ۔ لیکن امام احمد سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ایک کے بدلے ایک ہی قتل کیا جائے زیادہ قتل نہ کیے جائیں ۔ حضرت معاذ حضرت ابن زبیر عبدالملک بن مروان زہری ابن سیرین حبیب بن ابی ثابت سے بھی یہ قول مروی ہے، ابن المندر فرماتے ہیں یہی زیادہ صحیح ہے اور ایک جماعت کو ایک مقتول کے بدلے قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں مانتے تھے پس جب صحابہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوا تو اب مسئلہ غور طلب ہو گیا ۔ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے اللہ فرماتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ کسی قاتل کو مقتول کا کوئی وارث کچھ حصہ معاف کر دے یعنی قتل کے بدلے وہ دیت قبول کر لے یا دیت بھی اپنے حصہ کی چھوڑ دے اور صاف معاف کر دے، اگر وہ دیت پر راضی ہو گیا ہے تو قاتل کو مشکل میں نہ ڈالے بلکہ اچھائی سے دیت وصول کرے اور قاتل کو بھی چاہئے کہ بھلائی کے ساتھ اسے دیت ادا کر دے، حیل وحجت نہ کرے۔ مسئلہ امام مالک کا مشہور مذہب اور امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں کا اور امام شافعی اور امام احمد کا ایک روایت کی رو سے یہ مذہب ہے کہ مقتول کے اولیاء کا قصاص چھوڑ کر دیت پر راضی ہونا اس وقت جائز ہے جب خود قاتل بھی اس پر آمادہ ہو لیکن اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں۔ مسئلہ سلف کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت قصاص سے درگزر کر کے دیت پر اگر رضامند ہوں تو ان کا اعتبار نہیں۔ حسن ، قتادہ، زہرہ ، ابن شبرمہ، لیث اور اوزاعی کا یہی مذہب ہے لیکن باقی علماء دین ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے بھی دیت پر رضامندی ظاہر کی تو قصاص جاتا رہے گا ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۷۸) تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا ۔ پھر فرماتے ہیں: قتل عمد میں دیت لینا یہ اللہ کی طرف سے تخفیف اور مہربانی ہے اگلی اُمتوں کو یہ اختیار نہ تھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل پر قصاص فرض تھا انہیں قصاص سے درگزر کرنے اور دیت لینے کی اجازت نہ تھی لیکن اس اُمت پر یہ مہربانی ہوئی کہ دیت لینی بھی جائز کی گئی تو یہاں تین چیزیں ہوئیں - قصاص - دیت - اور معانی اگلی اُمتوں میں صرف قصاص اور معافی ہی تھی دیت نہ تھی، بعض لوگ کہتے ہیں اہل تورات کے ہاں صرف قصاص اور معافی تھی اور اہل انجیل کے ہاں صرف معافی ہی تھی۔ پھر فرمایا جو شخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یا دیت قبول کر لینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے اس کے لئے سخت دردناک عذاب ہے۔ مثلاً دیت لینے کے بعد پر قتل کے درپے ہو وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس شخص کا کوئی مقتول یا مجروح ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا قصاص یعنی بدلہ لے لے یا درگزر کرے ۔ معاف کر دے یا دیت یعنی جرمانہ لے لے اور اگر کچھ اور کرنا چاہے تو اسے روک دو ان میں سے ایک کرچکنے کے بعد بھی جو زیادتی کرے وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہو جائے گا (احمد) دوسری حدیث میں ہے: جس نے دیت وصول کر لی پھر قاتل کو قتل کیا تو اب میں اس سے دیت بھی نہ لوں گا بلکہ اسے قتل کراؤں گا۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۷۹) عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے، قاتل کو خود خیال ہوگا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کر دیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل وخون سے بچ گئے۔ اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ القتل انفی للقتل قتل قتل’ قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت وبلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا۔ پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ اسے قتل کیا جائے گا زمین پر امن وامان سکون وسلامتی رہے گی، تقویٰ نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (۱۸۰) تم پر فرض کر دیا گیا کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔ اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کر دیا ، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بےوصیت لے لے گا، سنن وغیرہ میں حضرت عمرو بن خارجہؓ سے حدیث ہے کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، ابن عباسؓ سورۃ بقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے (مسند احمد) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لئے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ (۴:۷) ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سعید بن مسیب ، حسن، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، عکرمہ، زید بن اسلم، ربیع بن انس، قتادہ، سدی، مقاتل بن حیان، طاؤس، ابراہیم نخعی، شریح، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں، لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں ابومسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کر دیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ (۴:۱۱) میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہا کا ہے بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن، مسروق، طاؤس، ضحاک، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے، میں کہتا ہوں سعید بن جبیر، ربیع بن انس، قتادہ اور مقاتل بن حیان بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لئے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہو گئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کر دیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لئے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں، یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری ، دونوں کا مطلب قریباً ایک ہو گیا، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق وسباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے، پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لئے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے حدیث شریف میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتہً اٹھ گیا، باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لئے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آچکا ہےبخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ اسکے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے گزار دے راوی حدیث حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گزاری، قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک واحسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا ۔ خَيْرًا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی، بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک قریشی مر گیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے إِنْ تَرَكَ خَيْرًا فرمایا ہے ، ایک اور روایت میں ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لئے ہی چھوڑ جا، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں، طاؤس، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ ایک ہزار بتاتے ہیں ۔ الْمَعْرُوفِ سے مراد نرمی اور احسان ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں:وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے۔ بخاری ومسلم میں ہے: حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ اجازت دیجئے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں آپ ﷺنے فرمایا نہیں کہا آدھے کی اجازت دیجئے فرمایا نہیں کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئے فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، صحیح بخاری شریف میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آ جائیں اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے مسند احمد میں ہے: حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لئے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا حضور ﷺنے فرمایا : نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو۔ فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۱۸۱) اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگا، اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز۔ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۸۲) ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانبداری یا گناہ کی وصیت کر دینے سے ڈرے پس وہ ان میں آپس میں صلح کرا دے تو اس پر گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ جَنَف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں مثلاً کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلاً کہہ دیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہوگئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں واللہ اعلم۔ ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام حضرت عروہ کا ہے، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی سے روایت کیا ہے اور عروہ سے آگے سند نہیں لے گئے امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں، پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا (۲:۲۲۹) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۸۳) اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔ اللہ تعالیٰ اس اُمت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزہ کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ اخلاق سے انسان بچ جاتا ہے، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ اُمت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی اُمتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً ... فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ (۵:۴۸) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے،بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کر دیتے ہیں أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ گنتی کے چند دن ہیں پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اللہ کے اس فریضہ کو بجا لائے ، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے : حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے: رمضان کے روزے تم سے پہلے کی اُمتوں پر بھی فرض تھے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی اُمتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا تھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پورا کر لے پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کر لیں، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا ، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ (۲:۱۴۴) والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہو جاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید ؓحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں قدقامت الصلوٰۃ بھی دو مرتبہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چنانچہ سب سے پہلے حضرت بلالؓ نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓنے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زیدؓ آچکے تھے ۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی پہلے یہ دستور تھا کہ حضور ﷺ نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہو چکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور ﷺکے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں، روزوں کی تبدیلیاں سنئے اول جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (۲:۱۸۳)نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت نازل ہوئی : فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (۲:۱۸۵) تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے یعنی تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرےپس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا بات؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کر لی اور حضورﷺ کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پریہ آیت نازل ہوئی : أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ۚ ۔۔۔ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ (۲:۱۸۷) روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع تمہارے لئے حلال کیا گیا وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے۔ تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے: پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۸۴) اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اس کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی، حضرت ابن عمرؓ بھی اسے منسوخ کہتے ہیں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو، ابن ابی لیلیٰ، کہتے ہیں عطار ؒ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کر دیا، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہو گا ہاں ایسے بوڑھے، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، دوسرا قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں: بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرتے تھے، مسند ابویعلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس ؓ روزہ رکھنے سے عاجز ہو گئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کر لیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں، بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھاہے فلحمد للہ بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ماہ رمضان شریف کی فضیلت وبزرگی کا بیان ہو رہا ہے اسی ماہ مبارک میں قرآن کریم اترا مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے: ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور تورات چھٹی تاریخ اگلے تمام صحیفے اور تورات و انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارہویں کو اور انجیل اٹھارہویں کو، اگلے تمام صحیفے اور تورات و انجیل و زبور جس جس پیغمبر پر نازل ہوئیں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزت سے آسمانی دنیا تک تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتًا فوقتًا حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا یہی مطلب ہے ان آیات کا: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (۹۷:۱) ہم نے یہ(قرآن)اتارا شب قدر میں۔ اور آیت إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ (۴۴:۳) ہم نے اس کو اتارا ایک برکت کی رات میں اور آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (۲:۱۸۵) ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کے مہینے میں لَيْلَةِ الْقَدْرِ کو نازل ہوا اور اسی کو لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ بھی کہا ہے ، ابن عباسؓ سے یہی مروی ہے، کہ آپ سے جب یہ سوال ہوا کہ قران کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں اترتا رہا پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلتہ القدر میں اترنے کے کیا معنی؟ تو آپ نے یہی مطلب بیان کیا (ابن مردویہ) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھی رمضان میں قرآن کریم دنیا کے آسمان کی طرف اترا بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت واقعات اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور بیس سال میں کامل ہوا اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارا کیوں نہیں اترا؟جس کے جواب میں فرمایا گیا : كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا (۲۵:۳۲) اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے ۔ یہ اس لئے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں تدبر اور غور و فکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے یہ حق وباطل حرام وحلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے ہدایت وگمراہی اور رشدوبرائی میں علیحدگی کرنے والا ہے، بعض سلف سے منقول ہے کہ صرف رمضان کہنا مکروہ ہے شَهْرُ رَمَضَانَ یعنی رمضان کا مہینہ کہنا چاہے، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رمضان نہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہےشَهْرُ رَمَضَانَ یعنی رمضان کا مہینہ کہا کرو، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور محمد بن کعب سے بھی یہی مروی ہے، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مذہب اس کے خلاف ہے، رمضان نہ کہنے کے بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے لیکن سندا ً وہ صحیح نہیں ہے امام بخاری نے بھی اس کے رد میں باب باندھ کر بہت سی حدیثیں بیان فرمائی ہیں فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے، ایک حدیث ہے جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور نیک نیتی کے ساتھ رکھے اس کے سبب اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں غرض اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب رمضان کا چاند چڑھے کوئی شخص اپنے گھر ہو، سفر میں نہ ہو اور تندرست بھی ہو اسے روزے رکھنے لازمی اور ضروری ہیں، وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے پہلے اس قسم کے لوگوں کو بھی جو رخصت تھی وہ اٹھ گئی اس کا بیان فرما کر پھر بیمار اور مسافر کے لئے رخصت کا بیان فرمایا کہ یہ لوگ روزہ ان دنوں میں نہ رکھیں اور پھر قضا کرلیں یعنی جس کے بدن میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے روزے میں مشقت پڑے یاتکلیف بڑھ جائے یا سفر میں ہو تو افطار کرلے اور جتنے روزے جائیں اتنے دن پھر قضا کرلے۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان حالتوں میں رخصت عطا فرما کر تمہیں مشقت سے بچا لینا یہ سراسر ہماری رحمت کا ظہور ہے اور احکام اسلام میں آسانی ہے، اب یہاں چند مسائل بھی سنئے پہلا مسئلہ سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مقیم ہو اور چاند چڑھ جائے رمضان شریف کا مہینہ آجائے پھر درمیان میں اسے سفر درپیش ہو تو اسے روزہ ترک کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو روزہ رکھنے کا صاف حکم قرآن پاک میں موجود ہے، ہاں ان لوگوں کو بحالت سفر روزہ چھوڑناجائز ہے جو سفر میں ہوں اور رمضان کا مہینہ آجائے، لیکن یہ قول غریب ہے، ابومحمد بن حزم نے اپنی کتاب "محلی"میں صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے لیکن اس میں کلام ہے واللہ اعلم۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں فتح مکہ کے غزوہ کے لئے نکلے روزے سے تھے کدید میں پہنچ کر روزہ افطار کیا اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں(متفق علیہ) دوسرا مسئلہ صحابہ رحمۃ اللہ تابعین کی ایک اور جماعت نے کہا کہ سفر میں روزہ توڑ دینا واجب ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ لیکن صحیح قول جو جمہور کا مذہب ہے یہ ہے کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ رکھے خواہ نہ رکھے اس لئے کہ ماہ رمضان میں لوگ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے تھے بعض روزے سے ہوتے تھے بعض روزے سے نہیں ہوتے تھے پس روزے دار بےروزہ دار پر اور بےروزہ دار روزہ دار پر کوئی عیب نہیں پکڑاتا تھا اگر افطار واجب ہوتا تو روزہ رکھنے والوں پر انکار کیا جاتا، بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے، بخاری ومسلم میں ہے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رمضان المبارک میں سخت گرمی کے موسم میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھے رکھے پھر رہے تھے ہم میں سے کوئی بھی روزے سے نہ تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے تیسرا مسئلہ ایک جماعت علماء کا خیال ہے جن میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے، ایک دوسری جماعت کا خیال ہے کہ روزہ نہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں رخصت پر عمل ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر کے روزے کی بابت سوال ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو روزہ توڑ دے اس نے اچھا کیا اور جو نہ توڑے اس پر کوئی گناہ نہیں ایک اور حدیث شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی رخصتوں کو جو اس نے تمہیں دی ہیں تم لے لو۔ تیسری جماعت کا قول ہے کہ رکھنا نہ رکھنا دونوں برابر ہے۔ ان کی دلیل حضرت عائشہؓ والی حدیث ہے: حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں روزے اکثر رکھا کرتا ہوں تو کیا اجازت ہے کہ سفر میں بھی روزے رکھ لیا کروں فرمایا اگر چاہو نہ رکھو (بخاری ومسلم) بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر روزہ بھاری پڑتا ہو تو افطار کرنا افضل ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا اس پر سایہ کیا گیا ہے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ روزے سے ہے آپ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں(بخاری ومسلم) یہ خیال رہے کہ جو شخص سنت سے منہ پھیرے اور روزہ چھوڑنا سفر کی حالت میں بھی مکروہ جانے تو اس پر افطار ضروری ہے اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔ مسند احمد میں حضرت ابن عمر حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہ کرے اس پر عرفات کے پہاڑوں برابر گناہ ہوگا۔ چوتھا مسئلہ آیا قضاء روزوں میں پے درپے روزے رکھنے ضروری ہیں یا جدا جدا بھی رکھ لئے جائیں تو حرج نہیں؟ ایک مذہب بعض لوگوں کا یہ ہے کہ قضا کو مثل ادا کے پورا کرنا چاہئے ، ایک کے پیچھے ایک یونہی لگاتار روزے رکھنے چاہئیں دوسرے یہ کہ پے درپے رکھنے واجب نہیں خواہ الگ الگ رکھے خواہ ایک ساتھ اختیار ہے جمہور سلف وخلف کا یہی قول ہے اور دلائل سے ثبوت بھی اسی کا ہے، وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۱۸۵) وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ رمضان میں پے درپے رورزے رکھنا اس لئے ہیں کہ وہ مہینہ ہی ادائیگی روزہ کا ہے اور رمضان کے نکل جانے کے بعد تو صرف وہ گنتی پوری کرنی ہے خواہ کوئی دن ہو اسی لئے قضاء کے حکم کے بعد اللہ کی آسانی کی نعمت کا بیان ہوا ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو، مسند ہی میں ایک اور حدیث میں ہے: عروہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ تشریف لائے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے معلوم ہوتا تھا کہ وضو یا غسل کر کے تشریف لا رہے ہیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کر دئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا فلاں کام میں کوئی حرج ہے؟ فلاں کام میں کوئی حرج ہے؟ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دین آسانیوں والا ہے تین مرتبہ یہی فرمایا، مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: لوگو آسانی کرو سختی نہ کرو تسکین دو نفرت نہ دلاؤ، بخاری ومسلم کی حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: تم دونوں خوشخبریاں دینا، نفرت نہ دلانا، آسانیاں کرنا سختیاں نہ کرنا، آپس میں اتفاق سے رہنا اختلاف نہ کرنا سنن اور مسانید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں یکطرفہ نرمی اور آسانی والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا غور سے آپ اسے دیکھتے رہے پھر فرمایا کیا تم اسے سچائی کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تمام اہل مدینہ سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے نہ سناؤ کہیں یہ اس کی ہلاکت کا باعث نہ ہو سنو اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس اُمت کے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں، پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مریض اور مسافر وغیرہ کو یہ رخصت دینا اور انہیں معذور جاننا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ آسانی کا ہے سختی کا نہیں اور قضا کا حکم گنتی کے پورا کرنے کے لئے ہے اور اس رحمت نعمت ہدایت اور عبادت پر تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑائی اور ذکر کرنا چاہئے جیسے اور جگہ حج کے موقع پر فرمایا : فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَـسِكَكُمْ فَاذْكُرُواْ اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (۲:۲۰۰) پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور جگہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد فرمایا : فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانتَشِرُواْ فِى الاٌّرْضِ وَابْتَغُواْ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُواْ اللَّهَ كَثِيراً لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۶۲:۱۰) پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو اور جگہ فرمایا: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ـ وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَـرَ السُّجُودِ (۵۰:۳۹،۴۰) اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے بھی اور رات کے کسی وقت بھی تسبیح کریں اور نماز کے بعد بھی یعنی سورج کے نکلنے سے پہلے سورج کے ڈوبنے سے پہلے رات کو اور سجدوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیا کرو، اسی لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد تسبیح اور تکبیر پڑھنی چاہئے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز سے فارغ ہونا صرف اللہ اکبر کی آوازوں سے جانتے تھے، یہ آیت دلیل ہے اس امر کی کہ عیدالفطر میں بھی تکبیریں پڑھنی چاہئیں داؤد بن علی اصبہانی ظاہری کا مذہب ہے کہ اس عید میں تکبیروں کا کہنا واجب ہے کیونکہ اس میں صیغہ امر کا ہے وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ اور اس کے بالکل برخلاف حنفی مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ اس عید میں تکبیریں پڑھنا مسنون نہیں ، باقی بزرگان دین اسے مستحب بتاتے ہیں گو بعض تفصیلوں میں قدرے اختلاف ہے پھر فرمایا تاکہ تم شکر کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لا کر اس کے فرائض کو ادا کر کے اس کے حرام کردہ کاموں سے بچ کر اس کی حدود کی حفاظت کر کے تم شکر گزار بندے بن جاؤ۔ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم) ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے؟یہ آیت اتری (ابن جریر) أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب آیت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (۴۰:۶۰) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہئے؟ اس پر یہ آیت اتری (ابن جریج) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آکر فرمانے لگے: لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس ! سن لو! جنت کا خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے (مسند احمد) فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (۱۸۶) اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے ساتھ ہی ہوتا ہوں(مسند احمد) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ (۱۶:۱۲۸) جو تقویٰ واحسان وخلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے، حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے: إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ (۲۰:۴۶) میں تم دونون کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں، مقصود یہ ہے کہ باری تعالیٰ دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ ارحم الراحمین اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے (مسند احمد) حضرت ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: جو بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے - یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا - یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے - یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے، لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے؟ (مسند احمد) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (مسند احمد) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے جلدی کرنا یہ کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (موطا امام مالک) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کر دے یہ جلدی کرنا ہے، ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں، اے لوگوں تم جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا (مسند احمد) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے دعا کی کہ اللہ العالمین! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں (ابن مردویہ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا: اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الہٰی میں حاضر ہوں الہٰی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بےمثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت ودوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں(ابن مردویہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے - خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کراور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر۔ - تیرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا - مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا (بزار) دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے (ابوداود طیالسی) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے: اللہم انی اسألک برحمتک اللتی وسعت کل شئی ان تغفرلی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے اور حدیث میں ہے: تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی - عادل بادشاہ، - روزے دار - اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بلند کرے گا مظلوم کی بددعا کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں (مسند، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ ) أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ۚ روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع تمہارے لئے حلال کیا گیا ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہوگیا، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقت ہوئی جس یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے الرَّفَثُ سے مراد یہاں جماع ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادو زہری ضحاک ، ابراہیم نخعی ، سدی، عطا خراسانی ، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ۗ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو لِبَاسٌ سے مراد سکون ہے،ربیع بن انس لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۖ تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھاپی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہوگاحضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کوہے؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آکر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا؟ چنانچہ جب آدھا دن ہوا تو حضرت قیس بھوک کے مارے بےہوش ہوگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہوگیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں ایک روایت میں ہے حضرت عمر ؓ نے آکر جب یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے فرمایا عمر تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ حضرت قیسؓ نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھاپی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب مباشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آگئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا، اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی قصور ہوگیا تھا فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے۔ مَا كَتَبَ سے مراد اولاد ہے، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہوسکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں۔ مِنَ الْفَجْرِوَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب مِنَ الْفَجْرِ کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لئے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اسکے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے، مسند احمد میں ہے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دو دھاگے (سیاہ اور سفید) اپنے تکئے تلے رکھ لئے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکلا’ اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے ، مطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونوں آجاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق ومغرب تک کی ہے، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا ًموجود ہے، بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہوگی واللہ اعلم۔ بخاری شریف میں حضرت عدی کا اسی طرح کا سوال اور آپ کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے ، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اسلئے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے، حضور علیہ السلام کا فرمان ہے: سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے (بخاری ومسلم) ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے (مسلم) سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں(مسند احمد) اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہو جائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں (بخاری ومسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جب تک میری اُمت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی۔ (مسند احمد) یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے ، مسند احمد وغیرہ کی حدیث میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے: وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ (۲:۲۳۱) اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہو جانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہو جانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہوگئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے جیسے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی، ابن مسعود ، حضرت حذیفہ ، حضرت ابوہریرہ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے، جیسے محمد بن علی بن حسین، ابو مجلز، ابراہیم نخعی ، ابوالضحی، ابو وائل وغیرہ ، شاگردان ابن مسعود، عطا، حسن، حاکم بن عیینہ، مجاہد، عروہ بن زبیر، ابو الشعثائ، جابر بن زیاد، اعمش اور جابر بن رشد کا اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسنادیں اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کردی ہے وللہ الحمد ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کرسکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں الْخَيْطِ کا لفظ موجود ہے ، بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہو جائے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے: اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ رکو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہو جائے، ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضا لوٹا نے کے لئے ہوتی ، فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو (یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی )۔ ایک مرسل حدیث میں ہے: فجر دوہیں ایک توبھیڑیے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے۔ حضرت عطا سے مروی ہے: آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پیناحرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے ہ روزہ دار کے لئے سب چیزیں حرام کردیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کردیتی ہے اور حج فوت ہو جاتا ہے ان دونون روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ مسئلہ چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لئے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کر لے اور اپنا روزہ پورا کرلے اس پر کوئی حرج نہیں، چاروں اماموں اور سلف وخلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے، بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ سے رہتے آپ کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا ، حضرت ام سلمہؓ والی روایت میں ہے پھر آپ نہ افطار کرتے تھے نہ قضا کرتے تھے، صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے: ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تو آپ جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں آپ ﷺنے فرمایا واللہ مجھے تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے: جب صبح کی اذان ہو جائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے۔ جیسے کہ ظاہر ہے یہ حدیث بخار مسلم میں بھی حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے وہ فضل بن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم ، عطا، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہوگئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہ والی حدیث کا یہی مطلب ہے اور اگر اس نے عمداً غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہوگئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا حضرت عروہ ، طاؤس اور حسن یہی کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کرلے لیکن قضا لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں، ابراہیم نخعی یہی کہتے ہیں، خواجہ حسن بصری سے بھی ایک روایت ہے بعض کہتے ہیں حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث حضرت عائشہؓ والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے۔ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ والی حدیث میں لا نفی کمال کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت اُم سلمہؓ والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے۔اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے واللہ اعلم ۔ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ پھر رات تک روزے کو پورا کرو پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہئے ، بخاری مسلم میں امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے توروزے دار افطار کر لے بخاری مسلم میں حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے، مسند احمد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشیر بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں: میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کر لیا کرو اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزے سے روزہ نہ ملاؤ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خود تو ملاتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا پھر چاند دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے بخاری ومسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور اسی طرح روزے کے بے افطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملالینے کی ممانعت میں بخاری ومسلم میں حضرت انس ،حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں، پس ثابت ہوا کہ اُمت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ کی ذات اس سے مستثنی ٰتھی آپ کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مدد کی جاتی تھی، یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتاً کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے لہا احادیث من ذکراک تشغلہا عن الشراب وتلہیہا عن الزاد یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہو جاتی ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رکا رہنا چاہے تو یہ جائز ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وصال نہ کرو، جو کرنا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے لوگوں نے کہا کہ آپ تو ملا دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلادیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے (بخاری مسلم) ایک اور روایت میں ہے: ایک صحابیہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی آپﷺ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھالو اس نے کہا میں توروزے سے ہوں آپ ﷺنے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو اس نے بیان کیا تو آپ ﷺنے فرمایا آل محمد ﷺ کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں؟ (ابن جریر) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے، ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اورسلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے درپے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لئے ریاضت کے طور پر تھا واللہ اعلم۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر تھا نہ کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں آپ نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا، پس ابن زبیر اور انکے بیٹے عامر اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے، یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں، مروی ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست وچالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے، ابو العالیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کردیا رہی رات تو جو چاہے کھالے جو نہ چاہے نہ کھائے وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو، پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے: جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہو جائے حضرت ضحاک فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کرلیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا مجاہد اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لئے گھر میں جائے مثلاً پیشاب پاخانہ کے لئے یا کھانا کھانے کے لئے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لئے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لئے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہئے یا رمضان کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو وفات آئی آپﷺ کے بعد امہات المؤمنین آپ کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں(بخاری ومسلم) بخاری ومسلم میں ہے: حضرت صفیہ بنت حیی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لئے حضور ساتھ ہو لئے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے ۔ آپ ﷺنے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں وہ کہنے لگے سبحان اللہ! (کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہو سکتا ہے؟) آپ ﷺنے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس واقعہ سے اپنی اُمت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں واللہ اعلم۔ آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس وکنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں میری طرف سر جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے حضرت عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کر لیا کرتی ہوں۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۱۸۷) اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں۔ پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لئے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے: هُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (۵۷:۹) وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ ٰ تم پر رافت ورحمت کرنے والا ہے وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۸۸) اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہےجو شخص دوسرے کے مال پر ناحق قبضہ کرے اور جو اصل حقدار ہے اس کے پاس کوئی شہادت اور دلیل نہ ہو کہ یہ مال میرا ہے اور ناحق قبضہ کرنے والا اسکا انکار کر دے کہ یہ مال اس (اصل مالک کا ) کا ہے اور حاکم کے پاس جاکر بری ہو جائے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس پر اُس (اصل مالک کا ) کا حق ہے وہ اس کا مال مار رہا ہے اور حرام کھا رہا ہے اور اپنے آپ کو گنہگاروں میں شامل کر رہا ہے، حضرت مجاہد سعید بن جبیر، عکرمہ ، مجاہد ، حسن ، قتادہ ، سدی مقاتل بن حیان، عبدالرحمٰن بن زید اسلم بھی یہی فرماتے ہیں کہ باوجود اس علم کے کہ تو ظالم ہے جھگڑا نہ کر، بخاری ومسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں انسان ہوں میرے پاس لوگ جھگڑا لے کر آتے ہیں شاید ایک دوسرے سے زیادہ حجت باز ہو اور میں اس کی چکنی چپڑی تقریر سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں(حالانکہ درحقیقت میرا فیصلہ واقعہ کے خلاف ہو) تو سمجھ لو کہ جس کے حق میں اس طرح کے فیصلہ سے کسی مسلمان کے حق کو میں دلوا دوں وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے خواہ اٹھا لے خواہ نہ اٹھائے، میں کہتا ہوں یہ آیت اور حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ حاکم کا حکم کسی معاملہ کی شرعی حقیقت کو بدلتا نہیں، فی الواقع جو حرام ہو وہ قاضی کے فیصلے سے حلال اور حلال حرام نہیں ہو سکتا۔ قاضی کا فیصلہ صرف ظاہری ہوتا ہے’ باطن میں نافذ نہیں ہوتا اگر وہ فی الواقع بھی نفس الامر کے مطابق ہو تو خیر ورنہ حاکم کو تو اجر ملے گا، لیکن اس فیصلہ کی بنا پر حق کو ناحق اور ناحق کو حق بنا لینے والا رب کا مجرم ٹھہرے گا اور اس پر وبال باقی رہے گا، جس پر آیت مندرجہ بالا گواہ ہے، کہ تم اپنے دعوے کو باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کے مال کھانے کے لئے جھوٹے مقدمات بنا کر جھوٹے گواہ گزار کر ناجائز طریقوں سے حکام کو چکر دے کر اپنے دعوؤں کو ثابت نہ کیا کرو، حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لوگو! سمجھ لو کہ قاضی کا فیصلہ تیرے لئے حرام کو حلال نہیں کر سکتا اور نہ باطل کو حق کر سکتا ہے، قاضی تو اپنی عقل سمجھ سے گواہوں کی گواہی کے مطابق ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیتا ہے اور وہ بھی آخر انسان ممکن ہے خطا کرے اور ممکن ہے خطا سے بچ جائے تو جان لو کہ اگر فیصلہ قاضی کا واقعہ کے خلاف ہو تو تم صرف قاضی کا فیصلہ اسے جائز مال نہ سمجھ لو یہ جھگڑا باقی ہی ہے یہاں تک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں کو جمع کرے اور باطل والوں پر حق والوں کو غلبہ دے کر ان کا حق ان سے دلوائے اور دنیا میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے خلاف فیصلہ صادر فرما کر اس کی نیکیوں میں اسے بدلہ دلوائے۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے چاند کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس سے قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے، قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے مسند عبدالرزاق میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ (احرام کی حالت میں ) گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں ، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہواور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو ارشاد ہوتا ہے کہ بھلائی گھروں کے پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ بھلائی تقویٰ میں ہے گھروں میں دروازوں سے آؤ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: جاہلیت کے زمانہ یہ دستور تھا کہ احرام میں ہوتے تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابوداؤد طیالسی میں بھی یہ روایت ہے انصار کا عام دستور تھا کہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر کے دروازے سے نہیں داخل ہوتے تھے دراصل یہ بھی جاہلیت کے زمانہ میں قریشیوں نے اپنے لیے ایک اور امتیاز قائم کر لیا تھا کہ اپنا نام انہوں نے حمس رکھا تھا احرام کی حالت یہ تو براہراست اپنے گھروں میں آسکتے تھے لیکن دوسرے لوگ سیدھے راستے گھروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں تھے’ جب وہاں سے اس کے دروازے سے نکلے تو آپ کے ایک انصاری صحابی حضرت قطبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی اسی دروازے سے نکلے اس پر لوگوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو ایک تجارت پیشہ شخص ہیں یہ آپ کے ساتھ آپ کی طرح اس دروازے سے کیوں نکلے؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جواب دیا کہ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح کرتے دیکھا کیا۔ مانا کہ آپ حمس میں سے ہیں لیکن میں بھی تو آپ کے دین پر ہی ہوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباس وغیرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سی قوموں کا یہ رواج تھا کہ جب وہ سفر کے ارادے سے نکلتے پھر سفر ادھورا چھوڑ کر اگر کسی وجہ سے واپس چلے آتے تو گھر کے دروازے سے گھر میں نہ آتے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر آتے جس سے اس آیت میں روکا گیا، محمد بن کعب فرماتے ہیں اعتکاف کی حالت میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کیا، عطا فرماتے ہیں اہل مدینہ کا عیدوں میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کر دیا۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۱۸۹) اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانا اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا اس کا ڈر دل میں رکھنا یہ چیزیں ہیں جو دراصل اس دن کام آنے والی ہیں جس دن ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور پوری پوری جزا سزا پائے گا۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورۃ برأت نازل ہوئی ، بلکہ عبدالرحمٰن بن زید بن سلام رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ (۹:۵) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے اس لئے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں ، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو جیسے اور جگہ فرمایا: وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَآفَّةً (۹:۳۶) مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہئے ۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (۱۹۰) اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو، خیانت اور چوری نہ کرو ، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگی نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو، حضرت ابن عباس ؓ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت مقاتل بن حیان نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو، بدعہدی سے بچو، ناک کان وگیرہ اعضاء نہ کاٹو، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم وزیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو، بخاری ومسلم میں ہے: ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا، مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ، تین ، پانچ، سات ، نو، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کر دی باقی چھوڑ دیں فرمایا : کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں کی مدد کی اور اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لئے ناراض ہو گیا۔ یہ حدیث اسناداً صحیح ہے، مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آگئی تو انہوں نے ظلم وزیادتی شروع کر دی فرمان باری تعالیٰ کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہو گیا ، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم وزیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے ، وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل وخون ہوتا ہے اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل وخون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر وشرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ اور (سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے، ابو مالک فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں۔ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کروجیسے بخاری ومسلم میں ہے: یہ شہر حرمت والا ہے آسمان وزمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اسے حلال کر دیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں۔ آپ ﷺکے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے ۔ گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا حضور ﷺ نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے۔ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (۱۹۱) اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کافروں کا بدلہ یہی ہے۔ پھر فرمایا کہ ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کر دیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی ان سے یہیں لڑو تاکہ ظلم دفع ہو سکے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درخت تلے اپنے اصحاب سے بیعت لی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو دفع کر دیا چنانچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے : وَهُوَ الَّذِى كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ (۴۸:۲۴) وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو انسے روک لیا اسکے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا تھا فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۹۲) اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کر دیں اور اس سے باز آجائیں اور اسلام قبول کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالیٰ ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تا کہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب اور بلند ہو جائے اور تمام دین پر ظاہر ہو جائے، جیسے بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت وغیرت قومی سے لڑتا ہے، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو، بخاری ومسلم کی ایک اور حدیث میں ہے : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں ان کی جان ومال کا تحفظ میرے ذمہ ہوگا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (۱۹۳) اگر یہ رک جائیں (تو تم بھی رک جاؤ) زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آجائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہوگا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے یہی معنی ہیں حضرت مجاہد کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے، یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ وجدال ہو، یہاں لفظ عُدْوَانَ جو کہ زیادتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لئے ہے حقیقتا ًوہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا : فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ (۲:۱۹۴) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور جگہ ہے: وَجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (۴۲:۴۰) برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جگہ فرمان ہے: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ (۱۶:۱۲۶) اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو پس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا بدلے کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا وعذاب نہیں،حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے، صحیح بخاری شریف میں ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس دو شخص آئے جبکہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پر لوگوں نے چڑھائی کر رکھی تھی’ اور آ کر کہا کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کا خون حرام کر دیا ہے، انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے آپ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین غالب آگیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمٰن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ سے مخفی نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے سنو! اسلام کی بنائیں پانچ ہیں۔ - اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، - پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا، - رمضان کے روزے رکھنا، - زکوٰۃ دینا، - بیت اللہ شریف کا حج کرنا، اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم آپ نے نہیں سنا : وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُواْ ۔۔۔فَقَـتِلُواْ الَّتِى تَبْغِى حَتَّى تَفِىءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ (۴۹:۹) ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے ، اور جگہ ارشاد ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ (۲:۱۹۳) ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے آپ نے فرمایا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس کی تعمیل کر لی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آ پڑتا تھا یا تو قتل کر دیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بکثرت ہو گئے اور فتنہ برباد ہو گیا اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ حضرت علیؓ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور علیؓ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں ذوالقعدہ سن ۶ ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرے کے لئے صحابہ کرام سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ مسند احمد میں حدیث ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ لڑائی موقوف کر دیتے ، حدیبیہ کے میدان میں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانؓ کو مشرکین نے قتل کر دیا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چودہ سو صحابہ سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور صلح کی طرف مائل ہو گئے ۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہو گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کر لیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن ۸ ہجری کا واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام بھیجے۔ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ۚ جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے پھر فرماتا ہے جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر لو، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو، یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شان و شوکت نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہو گئی، لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضا کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت مجاہد کا قول بھی یہی ہے۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (۱۹۴) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین ودنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت رہتی ہے۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری) اور بزرگوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بیان فرمایا ہے، حضرت ابو عمران فرماتے ہیں: مہاجرین میں سے ایک نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کفار کے لشکر پر دلیرانہ حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا ان میں گھس گیا تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ دیکھو یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اس آیت کا صحیح مطلب ہم جانتے ہیں سنو! یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اٹھائی آپ کے ساتھ جنگ وجہاد میں شریک رہے آپ کی مدد پر تلے رہے یہاں تک کہ اسلام غالب ہوا اور مسلمان غالب آگئے تو ہم انصاریوں نے ایک مرتبہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے ساتھ ہمیں مشرف فرمایا ہم آپ کی خدمت میں لگے رہے آپ کی ہمرکابی میں جہاد کرتے رہے اب بحمد اللہ اسلام پھیل گیا مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا لڑائی ختم ہو گئی ان دنوں میں نہ ہم نے اپنی اولاد کی خبر گیری کی نہ مال کی دیکھ بھال کی نہ کھیتیوں اور باغوں کا کچھ خیال کیا اب ہمیں چاہئے کہ اپنے خانگی معاملات کی طرف توجہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، پس جہاد کو چھوڑ کر بال بچوں اور بیوپار تجارت میں مشغول ہو جانا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے (ابوداود ، ترمذی، نسائی وغیرہ) ایک اور روایت میں ہے: قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہ مجھے گھیرے میں لے لیں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا؟ آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے: فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ (۴:۸۴) تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا رہ، تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتا رہ تو اپنی جان کا ہی مالک ہے اسی کو تکلیف دے یہ آیت تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (ابن مردویہ وغیرہ) ترمذی کی اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے: مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرأت کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے، حضرت ضحاک بن ابو جبیرہ فرماتے ہیں کہ انصار اپنے مال اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے لیکن ایک سال قحط سالی کے موقع پر انہوں نے وہ خرچ روک لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد بخل کرنا ہے، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ گنہگار کا رحمت باری سے ناامید ہو جانا یہ ہلاک ہونا ہے اور مفسرین بھی فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں پر آپ ہلاک ہونا ہے، التَّهْلُكَةِ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے، قرطبی میں روایت ہے: لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکوں مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ۔ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (۱۹۵) اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جن کے پاس کچھ ہے حکم ہو رہا ہے کہ تم احسان کرو تاکہ اللہ تمہیں دوست رکھے نیکی کے ہر کام میں خرچ کیا کرو بالخصوص جہاد کے موقعہ پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو یہ دراصل خود تمہاری ہلاکت ہے، پس احسان اعلیٰ درجہ کی اطاعت ہے جس کا یہاں حکم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بیان ہو رہا ہے کہ احسان کرنے والے اللہ کے دوست ہیں۔ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو اوپر چونکہ روزوں کا ذکر ہوا تھا پھر جہاد کا بیان ہوا اب حج کا تذکرہ ہو رہا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو پورا کرو، ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئے ، تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ حج وعمرے کو شروع کرنے کے بعد ان کا پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو قول ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح کتاب الاحکام میں بیان کر دیا ہے فللہ الحمد والمنۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو’ تمہارا یہ سفر صرف حج وعمرے کی غرض سے ہو میقات پہنچ کر لبیک پکارنا شروع کر دو تمہارا ارادہ تجارت یعنی کسی اور دنیوی غرض کا نہ ہو، کہ نکلے تو اپنے کام کو اور مکہ کے قریب پہنچ کر خیال آگیا کہ آؤ حج وعمرہ بھی کرتا چلوں گو اس طرح بھی حج وعمرہ ادا ہو جائے لیکن یہ پورا کرنا نہیں پورا کرنا یہ ہے کہ صرف اسی ارادے سے گھر سے نکلو حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ انہیں میقات سے شروع کرے، حضرت عمر ؓفرماتے ہیں ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ ادا کرے اور عمرے کو حج کے مہینوں میں نہ کرے اس لئے کہ قرآن شریف میں ہے الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ (۲:۱۹۷) حج کے مہینے مقرر ہیں قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا پورا ہونا نہیں ان سے پوچھا گیا کہ محرم میں عمرہ کرنا کیسا ہے ؟ کہا لوگ اسے تو پورا کہتے تھے لیکن اس قول میں شبہ ہے اس لئے کہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کئے اور چاروں ذوالقعدہ میں کئے ایک سنہ ۶ ہجری میں ذوالقعدہ کے مہینے میں، دوسرا ذوالقعدہ سنہ ۷ ہجری میں عمرۃ القضاء تیسرا ذوالقعدہ سنہ ۸ ہجری میں عمرۃ الجعرانہ ، چوتھا ذوالقعدہ سنہ ۱۰ ہجری میں حج کے ساتھ ، ان عمروں کے سوا ہجرت کے بعد آپ کا اور کوئی عمرہ نہیں ہوا، ہاں آپ نے ام ہانی رضی اللہ عنہما نے آپ کے ساتھ حج کے لئے جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیک سواری کی وجہ سے ساتھ نہ جا سکیں جیسے کہ بخاری شریف میں یہ واقعہ منقول ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ تو صاف فرماتے ہیں کہ یہ ام ہانی رضی اللہ عنہ کے لیے ہی مخصوص ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حج وعمرے کا احرام باندھنے کے بعد بغیر پورا کئے چھوڑنا جائز نہیں، حج اس وقت پورا ہوتا ہے جبکہ قربانی والے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مار لے اور بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ لے اب حج ادا ہو گیا، اب |