Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ahzab

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ

اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا

تنبیہ کی ایک مؤثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہوجائے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے۔

 تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں۔

 کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا۔

إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (۱)

اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے ۔

علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بےپایاں حکمت سے اس کی کوئی بات کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچارہے۔

وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۚ

جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں

إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (۲)

 (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے ۔

جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں۔

وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (۳)

آپ اللہ ہی پر توکل رکھیں، وہ کار سازی کے لئے کافی ہے ۔

اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے ۔

سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتامقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلاً ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے۔

مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ

کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے

وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ

 اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا،

 بیان فرمایا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے ۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہوجاتی۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنالینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہوجاتا۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہہ د دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتیں

مَّا هُنَّ أُمَّهَـتِهِمْ إِنْ أُمَّهَـتُهُمْ إِلاَّ اللاَّئِى وَلَدْنَهُمْ  (۵۸:۲)

ایسا کہنے سے وہ مائیں نہیں بن جاتیں مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں۔

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ

اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں

ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں۔

یہ آیت حضرت زید بن حارث ؓ کے بارے میں اتری ہے جو حضور ﷺکے آزاد کردہ تھے انہیں حضور نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنارکھا تھا ۔ انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا ۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے۔

جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے:

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مّن رِّجَالِكُمْ وَلَـكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيماً (۳۳:۴۰)

تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ۔

 اللہ تعالیٰ کو ہرچیز کا علم ہے۔

یہاں فرمایا یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں۔

وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (۴)

اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وہ سیدھی راہ سمجھاتا ہے۔‏

اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کررکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل وفہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کردی۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے آپ کو کچھ خطرہ گزرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔

 زہری فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہوسکتے ۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ

لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے

پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکاراجائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور فرمادیا ہے کہ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے۔

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم حضرت زید کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاکرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا ۔

بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت سہلہ بنت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہا حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آجاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حضرت حذیفہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہوجاؤگی ۔

الغرض یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی مداخلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لئے بیان فرمادی ۔

اور جب حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا نکاح ان سے کرلیا اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے فالحمد للہ اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے ۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا:

وَحَلَـئِلُ أَبْنَآئِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَـبِكُمْ  (۴:۲۳)

تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔

 ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے :

 رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں

مسند احمد میں ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کردیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور نے فرمایا بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا۔ یہ واقعہ سنہ ۱۰ ہجری ماہ ذی الحجہ کاہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے۔

 حضرت زید بن حارثہؓ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ ۸ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔

 صحیح مسلم شریف میں مروی ہے:

 حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا۔ اسے بیان فرما کر کہ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں۔

فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ

 پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں،

پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہیں انکے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں ۔

 حضور اکرم ﷺجب عمرۃ القضا والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی چچاچچا کہتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں لے کر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہیں انہیں اچھی طرح رکھو۔ حضرت زیدؓ اور حضرت جعفر ؓفرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے ۔

 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے۔ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔

 آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے۔

حضرت علی رضی اللہ سے فرمایا تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں۔

 حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے

حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو میرا بھائی ہے اور ہمارا مولیٰ ہے

 اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں ۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا۔ اور آپ نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں۔

 ابی فرماتے ہیں واللہ اگر یہ بھی معلوم ہوتاکہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے۔

 حدیث شریف میں ہے:

 جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا ۔

 اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔

وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ

تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں

پھر فرماتا ہے جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں۔ چنانچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں:

رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَا  (۲:۲۸۶)

اے اللہ ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ۔

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عز اسمہ نے فرمایا میں نے یہ دعاقبول فرمائی۔

 صحیح بخاری شریف میں ہے:

 جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا ہوجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔

 اور حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے درگزر فرمالیا ہے۔

یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ

وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (۵)

البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔‏

 ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمدا کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے:

لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِالَّلغْوِ فِى أَيْمَـنِكُمْ (۲:۲۲۵)

اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں۔

اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ باوجود جاننے کے ۔

 آیت قرآن جو اب تلاوتا ًمنسوخ ہے اس میں تھا:

فان کفرابکم ان ترغبوا عن ابائکم یعنی تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی رجم کیا ( یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا) اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا۔

 ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے۔

 اور حدیث میں ہے

 تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں۔

- نسب میں طعنہ زنی،

-  میت پر نوحہ،

-  ستاروں سے باراں طلبی۔

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ

پیغمبر مؤمنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں

چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک کو علم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ اس لئے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیاردیا۔ یہ خود اپنے لئے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو بدل وجان قبول کرتے جائیں

 جیسے فرمایا :

فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِى أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً  (۴:۶۵)

تیرے رب کی قسم یہ مؤمن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں

اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو بدل وجان بکشادہ پیشانی قبول نہ کرلیں۔

صحیح حدیث شریف میں ہے :

اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اسکی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

 ایک اور صحیح حدیث میں ہے:

 حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے۔

آپ ﷺنے فرمایا نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔

یہ سن کر جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے قسم اللہ کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے ہرچیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں

 آپ ﷺنے فرمایا اب ٹھیک ہے ۔

 بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 تمام مؤمنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں ۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ

سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔ اور اگر کوئی مرجائے اور اسکے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس کے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے۔

وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ

 اور پیغمبر کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود کی اپنی مائیں۔

 ہاں ماں کے اور احکام مثلا ًخلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھاہے جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ حکم کا اثبات ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المؤمنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟

 اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور کو ابو المؤمنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابوالمؤمنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آجائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مؤنث بھی شامل ہے۔

 ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے

 ابی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی قرأت میں امھاتھم کے بعد یہ لفظ ہیں وھو اب لھم یعنی آپﷺ ان کے والد ہیں۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا :

میں تمہارے لے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھے۔

نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجاکرے۔

آپ تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرماتے تھے

دوسرا قول یہ ہے:

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ (۳۳:۴۰)حضور تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ۔

وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ

اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مؤمنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار ہیں

پھر فرماتا ہے کہ بہ نسبت عام مؤمنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں۔ اس سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرادیا تھا۔

 حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصاری ومہاجرین کے بارے میں اترا ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس مال کچھ نہ تھا یہاں آکر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے۔

حضرت ابوبکر کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فلاں کے ساتھ۔ حضرت عثمان کا ایک زرقی شخص کے ساتھ ۔ خود میرا حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہوجاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لئے بھی ہوگیا۔

إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُمْ مَعْرُوفًا ۚ

 (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو

پھر فرماتا ہے ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو۔

كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا (۶)

یہ حکم (الہٰی ) میں لکھا ہے ۔

فرماتا ہے اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم وتبدیلی نہیں ہوئی۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لئے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا ۔واللہ اعلم

وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ

وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا (۷)

جبکہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے،اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا ۔‏

فرمان ہے کہ ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں سے اور عام نبیوں سے سب سے ہم نے عہد وعدہ لیا کہ وہ میرے دین کی تبلیغ کریں گے اس پر قائم رہیں گے۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد امداد اور تائید کریں گے اور اتفاق واتحاد رکھیں گے۔

 اسی عہد کا ذکر اس آیت میں ہے :

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَـقَ النَّبِيِّيْنَ ۔۔۔ قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُمْ مِّنَ الشَّـهِدِينَ  (۳:۸۱)

اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے قول قرار لیا کہ جو کچھ کتاب وحکمت دے کر میں تمیں بھیجوں پھر تمہارے ساتھ کی چیز کی تصدیق کرنے والا رسول آجائے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی امداد کرنا۔

بولو تمہیں اس کا اقرار ہے؟ اور میرے سامنے اس کا پختہ وعدہ کرتے ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں ہمیں اقرار ہے۔

جناب باری تعالی نے فرمایا بس اب گواہ رہنا اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

یہاں عام نبیوں کا ذکر کرکے پھر خاص جلیل القدر پیغمبروں کا نام بھی لے دیا ۔ اسی طرح ان کے نام اس آیت میں بھی ہیں:

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الِدِينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً ۔۔۔أَنْ أَقِيمُواْ الدِّينَ وَلاَ تَتَفَرَّقُواْ فِيهِ (۴۲:۱۳)

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح ؑ کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے،

اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنااور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا

یہاں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زمین پر اللہ کے پہلے پیغمبر تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے جو سب سے آخری پیغمبر تھے۔ اور ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کا ذکر ہے جو درمیانی پیغمبر تھے ۔

 ایک لطافت اس میں یہ ہے کہ پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا اور آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا اور درمیانی پیغمبروں میں سے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کا ذکر کیا۔ یہاں تو ترتیب یہ رکھی کہ فاتح اور خاتم کا ذکر کرکے بیچ کے نبیوں کا بیان کیا اور اس آیت میں سب سے پہلے خاتم الانیباء کا نام لیا اس لئے کہ سب سے اشرف وافضل آپ ہی ہیں۔ پھر یکے بعد دیگرے جس طرح آئے ہیں اسی طرح ترتیب وار بیان کیا اللہ تعالیٰ اپنے تمام نبیوں پر اپنا درود وسلام نازل فرمائے۔

 اس آیت کی تفسیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

 پیدائش کے اعتبار سے میں سب نبیوں سے پہلے ہوں اور دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخر میں ہوں پس مجھ سے ابتدا کی ہے ۔

 یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن اس کے ایک راوی سعید بن بشیر ضعیف ہیں۔

 اور سند سے یہ مرسل مروی ہے اور یہی زیادہ مشابہت رکھتی ہے اور بعض نے اسے موقوف روایت کی ہے واللہ اعلم۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ پانچ پیغمبر ہیں۔ نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین اور ان میں بھی سب سے بہترمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

 اس کا ایک راوی ضعیف ہے۔

 اس آیت میں جس عہد ومیثاق کا ذکر ہے یہ وہ ہے جو روز ازل میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے تمام انسانوں کو نکال کرلیا تھا ۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 حضرت آدم علیہ السلام کو بلند کیا گیا آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ان میں مالدار مفلس خوبصورت اور ہر طرح کے لوگ دیکھے تو کہا اللہ کیا اچھا ہوتاکہ تونے ان سب کو برابر ہی رکھا ہوتا

 اللہ تعالیٰ عزوجل جلالہ نے فرمایا کہ یہ اس لئے ہے کہ میرا شکر ادا کیا جائے ۔

 ان میں جو انبیاء کرام علیھم السلام تھے انہیں بھی آپ نے دیکھا وہ روشنی کے مانند نمایاں تھے ان پر نور برس رہا تھا ان سے نبوت ورسالت کا ایک اور خاص عہد لیا گیا تھا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔

لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَنْ صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا (۸)

تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت فرمائے، اور کافروں کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھے ہیں۔‏

صادقوں سے ان کے صدق کا سوال ہو یعنی ان سے جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچانے والے تھے ۔ ان کی اُمتوں میں سے جو بھی ان کو نہ مانے اسے سخت عذاب ہوگا۔

اے اللہ تو گواہ رہ ہماری گواہی ہے ہم دل سے مانتے ہیں کہ بیشک تیرے رسولوں نے تیرا پیغام تیرے بندوں کو بلا کم وکاست پہنچا دیا۔ انہوں نے پوری خیر خواہی کی اور حق کو صاف طور پر نمایاں طریقے سے واضح کردیا جس میں کوئی پوشیدگی کوئی شبہ کسی طرح کا شک نہ رہا گو بدنصیب ضدی جھگڑالو لوگوں نے انہیں نہ مانا۔ ہمارا ایمان ہے کہ تیرے رسولوں کی تمام باتیں سچ اور حق ہیں اور جس نے ان کی راہ نہ پکڑی وہ گمراہ اور باطل پر ہے۔

غزوئہ خندق اور مسلمانوں کی خستہ حالی

جنگ خندق میں جو سنہ ۵ ہجری ماہ شوال میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر جو اپنا فضل واحسان کیا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے۔ جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا۔

 بعض لوگ کہتے ہیں جنگ خندق سنہ۴ ہجری میں ہوئی تھی۔

 اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے جن میں سلام بن ابو حقیق، سلام بن مشکم ،کنانہ بن ربیع وغیرہ تھے مکے میں آکر قریشیوں کو جو اول ہی سے تیار تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے پر آمادہ کیا اور ان سے عہد کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ انہیں آمادہ کرکے یہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے ان سے بھی ساز باز کرکے اپنے ساتھ شامل کرلیا قریشیوں نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملالیا۔ ان سب کا سردار ابوسفیان صخر بن حرب بنا اور غطفان کا سردار عینیہ بن حصن بن بدر مقرر ہوا۔ ان لوگوں نے کوشش کرکے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کرلیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس لشکر کشی کی خبریں پہنچیں تو آپ نے بہ مشورہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینے شریف کی مشرقی سمت میں خندق یعنی کھائی کھدوائی اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین وانصار رضی اللہ تعالیٰ عنہم شامل تھے اور خود آپ بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے میں بھی حصہ لیتے تھے۔

مشرکین کا لشکر بلامزاحمت مدینے شریف تک پہنچ گیا اور مدینے کے مشرقی حصے میں احد پہاڑ کے متصل اپنا پڑاؤ جمایا یہ تھا مدینے کا نیچا حصہ اوپر کے حصے میں انہوں نے اپنی ایک بڑی بھاری جمعیت بھیج دی جس نے اعالی مدینہ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا اور نیچے اوپر سے مسلمانوں کو محصور کرلیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کے صحابہ کو جو تین ہزار سے نیچے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ صرف سات سو تھے لے کر ان کے مقابلے پر آئے۔ سلع پہاڑی کو آپ نے اپنی پشت پر کیا اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہو کر فوج کو ترتیب دیا۔ خندق جو آپ نے کھودی اور کھدوائی تھی اس میں پانی وغیرہ نہ تھا وہ صرف ایک گڑھا تھا جو مشرکین کے ریلے کو بےروک آنے نہیں دیتا تھا

 آپ نے بچوں اور عورتوں کو مدینے کے ایک محلے میں کردیا تھا ۔

 یہودیوں کی ایک جماعت بنو قریظہ مدینے میں تھی مشرقی جانب ان کا محلہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ مضبوط تھا ان کا بھی بڑا گروہ تھا تقریبا آٹھ سو جنگجو لڑنے کے قابل میدان میں موجود تھے مشرکین اور یہود نے ان کے پاس حی بن اخطب نضری کو بھیجا اس نے انہیں بھی شیشے میں اتار کر سبز باغ دکھلا کر اپنی طرف کرلیا اور انہوں نے بھی ٹھیک موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کی۔ اور اعلانیہ طور پر صلح توڑ دی۔

باہر سے دس ہزار کا وہ لشکر جو گھیرا ڈالے پڑا ہے اندر سے ان یہودیوں کی بغاوت جو بغلی پھوڑے کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمان بتیس دانتوں میں زبان یا آٹے میں نکل کی طرح ہوگئے۔ یہ کل سات سو آدمی کر ہی کیا سکتے تھے۔

یہ وقت تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئیں دل الٹ گئے طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ جھنجھوڑ دئیے گئے اور سخت امتحان میں مبتلا ہوگئے۔ مہینہ بھر تک محاصرہ کی یہی تلخ صورت قائم رہی گو مشرکین کی یہ جرأت تو نہیں ہوئی کہ خندق سے پار ہو کر دستی لڑائی لڑتے لیکن ہاں گھیرا ڈالے پڑے رہے اور مسلمانوں کو تنگ کردیا۔ البتہ عمرو بن عبدود عامری جو عرب کا مشہور شجاع پہلوان کو لے کر خندق سے اپنے گھوڑوں کوپھلانگ لایا۔

یہ حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سواروں کی طرف اشارہ کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں تیار نہ پاکر آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ تم اس کے مقابلے پر جاؤ آپ گئے تھوڑی دیر تک تو دونوں بہادروں میں تلوار چلتی رہی لیکن بالآخر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے کفر کے اس دیو کو تیہ تیغ کیا جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ فتح ہماری ہے۔

 پھر پروردگار نے وہ تندوتیز آندھی بھیجی کہ مشرکین کے تمام خیمے اکھڑے گئے کوئی چیز قرینے سے نہ رہی آگ کا جلانا مشکل ہوگیا۔ کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی بالآخر تنگ آکر نا مرادی سے واپس ہوئے۔ جس کا بیان اس آیت میں ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا ۚ

اے ایمان والوں! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو

 جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا

وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (۹)

اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے۔‏

جس ہواکا اس آیت میں ذکر ہے بقول مجاہد رحمۃ اللہ یہ صبا ہواؤں سے ہلاک کئے گئے تھے۔

 عکرمہ فرماتے ہیں جنوبی ہوا نے شمالی ہوا سے اس جنگ احزاب میں کہا کہ چل ہم تم جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں تو شمالی ہوا نے کہا کہ کہگرمی رات کو نہیں چلاتی۔ پھر ان پر صبا ہوا بھیجی گئی۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں مجھے میرے ماموں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خندق والی رات سخت جاڑے اور تیز ہوا میں مدینہ شریف بھیجا کہ کھانا اور لحاف لے آؤں ۔ میں نے حضور سے اجازت چاہی تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ میرے جو صحابی تمہیں ملے انہیں کہنا کہ میرے پاس چلے آئیں۔ اب میں چلا ہوائیں زناٹے کی شائیں شائیں چل رہی تھیں۔ مجھے جو مسلمان ملا میں نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا اور جس نے سنا الٹے پاؤں فورا حضور کی طرف چل دیا یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ہوا میری ڈھال کو دکھے دے رہی تھی اور وہ مجھے لگ رہی تھی یہاں تک کہ اس کا لوہا میرے پاؤں پر گرپڑا جسے میں نے پھینک دیا ۔

 اس ہوا کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی نازل فرمائے تھے جنہوں نے مشرکین کے دل اور سینے خوف اور رعب سے بھر دئیے۔ یہاں تک کہ جتنے سرداران لشکر تھے اپنے ماتحت سپاہیوں کو اپنے پاس بلابلاکر کر کہنے لگے نجات کی صورت تلاش کرو۔ بچاؤ کا انتظام کرو۔

یہ تھا فرشتوں کا ڈالا ہوا رعب اور یہی وہ لشکر ہے جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس لشکر کو تم نے نہیں دیکھا۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک نوجوان شخص نے جو کوفے کے رہنے والے تھے کہا کہ اے ابو عبداللہ تم بڑے خوش نصبیب ہو کہ تم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کی مجلس میں بیٹھے بتاؤ تم کیا کرتے تھے؟

حضرت حذیفہ نے فرمایا واللہ ہم جان نثاریاں کرتے تھے۔

نوجوان فرمانے لگے سنئے چچا اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو پاتے تو واللہ آپ کو قدم بھی زمین پر نہ رکھنے دیتے اپنی گردنوں پر اٹھا کر لے جاتے۔

 آپ نے فرمایا بھیتجے لو ایک واقعہ سنو جنگ خندق کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی رات تک نماز پڑھتے رہے۔ فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کوئی ہے جو جا کر لشکر کفار کی خبر لائے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔ کوئی کھڑا نہ ہوا کیونکہ خوف کی بھوک کی اور سردی کی انتہا تھی۔ پر آپ دیر تک نماز پڑھتے رہے۔

 پھر فرمایا کوئی ہے جو جا کر یہ خبر لادے کہ مخالفین نے کیا کیا؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرا رفیق کرے۔

 اب کے بھی کوئی کھڑا نہ ہوا اور کھڑا ہوتا کیسے؟ بھوک کے مارے پیٹ کمر سے لگ رہا تھا سردی کے مارے دانت بج رہے تھے ، خوف کے مارے پتے پانی ہو رہے تھے۔ بالآخر میرا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اب تو بےکھڑے ہوئے چارہ نہیں تھا۔ فرمانے لگے حذیفہ تو جا اور دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں دیکھ جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے کوئی نیا کام نہ کرنا

میں نے بہت خوب کہہ کر اپنی راہ لی اور جرأت کے ساتھ مشرکوں میں گھس گیا وہاں جاکر عجیب حال دیکھا کہ دکھائی نہ دینے والے اللہ کے لشکر اپنا کام پھرتی سے کررہے ہیں۔ چولہوں پر سے دیگیں ہوا نے الٹ دی ہیں۔ خیموں کی چوبیں اکھڑ گئی ہیں، آگ جلا نہیں سکتے ۔ کوئی چیز اپنی ٹھکانے نہیں رہی اسی وقت ابوسفیان کھڑا ہوا اور با آواز بلند منادی کی کہ اے قریشیوں اپنے اپنے ساتھی سے ہوشیار ہوجاؤ۔ اپنے ساتھی کو دیکھ بھال لو ایسانہ ہو کوئی غیر کھڑا ہو۔

 میں نے یہ سنتے ہی میرے پاس جو ایک قریشی جوان تھا اس کا ہاتھ پکڑلیا اور اس سے پوچھا تو کون ہے؟

 اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں۔

 میں نے کہا اب ہوشیار رہنا۔

پھر ابوسفیان نے کہا اللہ گواہ ہے ہم اس وقت کسی ٹھہرنے کی جگہ پر نہیں ہیں ۔ ہمارے مویشی ہمارے اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں۔ بنو قریظہ نے ہم سے وعدہ خلافی کی اس نے ہمیں بڑی تکلیف پہنچائی پھر اس ہوا نے تو ہمیں پریشان کر رکھا ہے ہم کھانا نہیں پکا سکتے آگ تک نہیں جلاسکتے خیمے ڈیرے ٹھہر نہیں سکتے۔ میں تو تنگ آگیا ہوں اور میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ واپس ہوجاؤں پس میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ واپس چلو۔

 اتنا کہتے ہی اپنے اونٹ پر جو زانوں بندھا ہوا بیٹھا تھا چڑھ گیا اور اسے مارا وہ تین پاؤں سے ہی کھڑا ہوگیا پھر اس کا پاؤ کھولا۔ اس وقت ایسا اچھا موقعہ تھا کہ اگر میں چاہتا ایک تیر میں ہی ابو سفیان کا کام تمام کردیتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمادیا تھا کہ کوئی نیا کام نہ کرنا اس لئے میں نے اپنے دل کو روک لیا۔

 اب میں واپسی لوٹا اور اپنے لشکر میں آگیا جب میں پہنچا ہوں تو میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر کو لپیٹے ہوئے جو آپ کی کسی بیوی صاحبہ کی تھی نماز میں مشغول ہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر دونوں پیروں کے درمیان بٹھالیا اور چادر مجھے بھی اڑھا دی ۔ پھر رکوع اور سجدہ کیا اور میں وہیں وہی چادر اوڑھے بیٹھارہا جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔

 قریشیوں کے واپس لوٹ جانے کی خبر جب قبیلہ غطفان کو پہنچی تو انہوں نے بھی سامان باندھا اور واپس لوٹ گئے

 اور روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 جب میں چلا تو باوجود کڑاکے کی سخت سردی کے قسم اللہ کی مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کسی گرم حمام میں ہوں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب میں لشکر کفار میں پہنچا ہوں اس وقت ابوسفیان آگ سلگائے ہوئے تاپ رہا تھا میں نے اسے دیکھ کر پہچان کر اپنا تیر کمان میں چڑھالیا اور چاہتا تھا کہ چلادوں اور بالکل زد میں تھا ناممکن تھا کہ میر انشانہ خالی جائے لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آگیا کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ وہ چوکنے ہو کر بھڑک جائیں تو میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ جب میں واپس آیا اس وقت بھی مجھے کوئی سردی محسوس نہ ہوئی بلکہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا میں حمام میں چل رہا ہوں ۔ ہاں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا بڑے زور کی سردی لگنے لگی اور میں کپکپانے لگا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مجھ کو اوڑھادی۔ میں جو اوڑھ کر لیٹا تو مجھے نیند آگئی اور صبح تک پڑا سوتارہا صبح خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مجھے یہ کہہ کر جگایا کہ اے سونے والے بیدار ہوجا۔

 اور روایت میں ہے:

 جب اس تابعی نے کہا کہ کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور آپ کے زمانے کو پاتے تو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکاش کہ تم جیسا ایمان ہمیں نصیب ہو تاکہ باجود نہ دیکھنے کے پورا اور پختہ عقیدہ رکھتے ہو۔ برادر زادے جو تمنا کرتے ہو یہ تمناہی ہے نہ جانے تم ہوتے تو کیا کرتے؟ ہم پر تو ایسے کٹھن وقت آئے ہیں ۔ یہ کہہ کہ پھر آپ نے مندرجہ بالا خندق کی رات کا واقعہ بیان کیا۔

 اس میں یہ بھی ہے کہ ہوا جھڑی آندھی کے ساتھ بارش بھی تھی۔

 اور روایت میں ہے:

 حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے واقعات کو بیان فرما رہے تھے جو اہل مجلس نے کہا کہ اگر ہم اس وقت موجود ہوتے تو یوں اور یوں کرتے اس پر آپ نے یہ واقعہ بیان فرمادیا کہ باہر سے تو دس ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے اندر سے بنوقریظہ کے آٹھ سو یہودی بگڑے ہوئے ہیں بال بچے اور عورتیں مدینے میں ہیں خطرہ لگا ہوا ہے اگر بنو قریظہ نے اس طرف کا رخ کیا تو ایک ساعت میں ہی عورتوں بچوں کا فیصلہ کردیں گے۔ واللہ اس رات جیسی خوف وہراس کی حالت کبھی ہم پر نہیں گزری ۔ پھر وہ ہوائیں چلتی ہیں ، آندھیاں اٹھتی ہیں، اندھیرا چھا جاتا ہے، کڑک گرج اور بجلی ہوتی ہے کہ العظمتہ اللہ ۔ ساتھی کو دیکھنا تو کہاں اپنی انگلیاں بھی نظر نہ آتی تھی۔ جو منافق ہمارے ساتھ تھے وہ ایک ایک ہو کر یہ بہانا بناکر ہمارے بال بچے اور عورتیں وہاں ہیں اور گھر کا نگہبان کوئی نہیں ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر اجازت چاہنے لگے اور آپ نے بھی کسی ایک کو نہ روکا جس نے کہا کہ میں جاؤں ؟

 آپ نے فرمایا شوق سے جاؤ۔

 وہ ایک ایک ہو کر سرکنے لگے اور ہم صرف تین سو کے قریب رہ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لائے ایک ایک کو دیکھا میری عجیب حالت تھی نہ میرے پاس دشمن سے بچنے کے لئے کوئی آلہ تھا نہ سردی سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی کپڑا تھا ۔ صرف میری بیوی کی ایک چھوٹی سی چادر تھی جو میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے اس وقت میں اپنے گھٹنوں میں سر ڈالے ہوئے دبک کر بیٹھا ہوا کپکپارہا تھا ۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟

میں نے کہا حذیفہ ۔

 فرمایا حذیفہ سن !

واللہ مجھ پر تو زمین تنک آگئی کہ کہیں حضور مجھے کھڑا نہ کریں میری تو درگت ہو رہی ہے لیکن کرتا کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن رہا ہوں ارشاد؟

 آپ نے فرمایا دشمنوں میں ایک نئی بات ہونے والی ہے جاؤ ان کی خبر لاؤ۔

 واللہ اس وقت مجھ سے زیادہ نہ تو کسی کو خوف تھا نہ گھبراہٹ تھی نہ سردی تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنتے ہی کھڑا ہوگیا اور چلنے لگا تو میں نے سنا کہ آپ میرے لئے دعا کررہے ہیں کہ اے اللہ اس کے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے اس کی حفاظت کر۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے سات ہی میں نے دیکھا کہ کسی قسم کا خوف ڈر دہشت میرے دل میں تھی ہی نہیں۔

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دے کر فرمایا دیکھو حذیفہ وہاں جاکر میرے پاس واپس آنے تک کوئی نئی بات نہ کرنا۔

 اس روایت میں یہ بھی ہے:

 میں ابوسفیان کو اس سے پہلے پہچانتا نہ تھا میں گیا تو وہاں یہی آوازیں لگ رہی تھیں کہ چلو کوچ کرو واپس چلو ۔

 ایک عجیب بات میں نے یہ بھی دیکھی کہ وہ خطرناک ہوا جو دیگیں الٹ دیتی تھی وہ صرف ان کے لشکر کے احاطہ تک ہی تھی واللہ اس سے ایک بالشت بھر باہر نہ تھی ۔ میں نے دیکھا کہ پتھر اڑ اڑ کر ان پر گرتے تھے۔ جب میں واپس چلا ہوں تو میں نے دیکھا کہ تقریبا بیس سوار ہیں جو عمامے باندھے ہوئے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفایت کردی اور آپ کے دشمنوں کو مات دی۔

 اس میں یہ بھی بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت میں داخل تھا کہ جب کبھی کوئی گھبراہٹ اور دقت کا وقت ہوتا تو آپ نماز شروع کردیتے ۔ جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی اسی وقت یہ آیت اتری ۔

إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ

جب کہ (دشمن) تمہارے پاس اوپر اور نیچے سے چڑھ آئے

پس آیت میں نیچے کی طرف سے آنے والوں سے مراد بنو قریظہ ہیں۔

وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (۱۰)

اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح گمان کرنے لگے

شدت خوف اور سخت گھبراہٹ سے آنکھیں الٹ گئیں اور دل حلقوم تک پہنچ گئے تھے اور طرح طرح کے گمان ہو رہے تھے یہاں تک کہ بعض منافقوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب کی لڑائی میں کافر غالب آجائیں گے عام منافقوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے؟

 معتب بن قشیر کہنے لگا کہ آنحضرت تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہم قیصر وکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنیں گے اور یہاں حالت یہ ہے کہ پاخانے کو جانا بھی دو بھر ہو رہا ہے۔ یہ مختلف گمان مختلف لوگوں کے تھے مسلمان تو یقین کرتے تھے کہ غلبہ ہمارا ہی ہے جیساکہ فرمان ہے :

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ  (۳۳:۲۲)

اور ایمانداروں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے!کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اسکے رسول نے دیا تھا

لیکن منافقین کہتے تھے کہ اب کی مرتبہ سارے مسلمان مع آنحضرت گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دئیے جائیں گے ۔

 صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عین اس گبھراہٹ اور پریشانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمیں اس سے بچاؤ کی کوئی تلقین کریں۔

آپ ﷺنے فرمایا یہ دعامانگو:

اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا

اللہ ہماری پردہ پوشی کر اللہ ہمارے خوف ڈر کو امن وامان سے بدل دے۔

ادھر مسلمانوں کی یہ دعا بلند ہوئیں ادھر اللہ کا لشکر ہواؤں کی شکل میں آیا اور کافروں کا تیاپانچا کردیا ، فالحمدللہ۔

هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (۱۱)

یہیں مؤمن آزمائے گئے اور پوری طرح جھنجھوڑ دیئے گئے

اس گھبراہٹ اور پریشانی کا حال بیان ہو رہا ہے جو جنگ احزاب کے موقعہ پر مسلمانوں کی تھی کہ باہر سے دشمن اپنی پوری قوت اور کافی لشکر سے گھیرا ڈالے کھڑا ہے۔ اندرون شہر میں بغاوت کی آگ بھڑکی ہوئی ہے یہودیوں نے دفعۃً صلح توڑ کر بےچینی کی باتیں بنا رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ بس اللہ کے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے دیکھ لئے۔

وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (۱۲)

اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعدہ کیا تھا

وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ

ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو! تمہارے لئے ٹھکانا نہیں چلو لوٹ چلو

 کچھ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے کان میں صور پھونک رہے ہیں کہ میاں پاگل ہوئے ہو؟ دیکھ نہیں رہے دو گھڑی میں نقشہ پلٹنے والاہے۔ بھاگ چلو لوٹولوٹو واپس چلو۔

 يَثْرِب سے مراد مدینہ ہے۔

 جیسے صحیح حدیث میں ہے:

 مجھے خواب میں تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے۔ جو دو سنگلاخ میدانوں کے درمیان ہے پہلے تو میرا خیال ہوا تھا کہ یہ ہجر ہے لیکن نہیں وہ جگہ یثرب ہے۔

 اور روایت میں ہے کہ وہ جگہ مدینہ ہے ۔

 البتہ یہ خیال رہے کہ ایک ضعیف حدیث میں ہے جو مدینے کو یثرب کہے وہ استغفار کر لے۔ مدینہ تو طابہ ہے وہ طابہ ہے

یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہے اور اس کی اسناد میں ضعف ہے۔

 کہا گیا ہے کہ عمالیق میں سے جو شخص یہاں آکر ٹھہرا تھا چنکہ اسکا نام یثرب بن عبید بن مہلا بیل بن عوص بن عملاق بن لاد بن آدم بن سام بن نوح تھا اس لئے اس شہر کو بھی اسی کے نام سے مشہور کیا گیا ۔

یہ بھی قول ہے کہ تورات شریف میں اس کے گیارہ نام آئے ہیں۔ مدینہ ، طابہ، جلیلہ، جابرہ، محبہ ، محبوبہ، قاصمہ، مجبورہ، عدراد، مرحومہ۔

کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تورات میں یہ عبادت پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ شریف سے فرمایا اے طیبہ اور اے طابہ اور اے مسکینہ خزانوں میں مبتلا نہ ہو تمام بستیوں پر تیرا درجہ بلند ہوگا۔

وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ۖ

اور ان کی ایک جماعت یہ کہہ کر نبی ﷺ سے اجازت مانگنے لگی ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے

کچھ لوگ تو اس موقعہ خندق پر کہنے لگے یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں اپنے گھروں کو لوٹ چلو۔

 بنو حارثہ کہنے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھروں میں چوری ہونے کا خطرہ ہے وہ خالی پڑے ہیں ہمیں واپس جانے کی اجازت ملنی چاہیے ۔ اوس بن قینطی نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے گھروں میں دشمن کے گھس جانے کا اندیشہ ہے ہمیں جانے کی اجازت دیجئے۔

إِنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا (۱۳)

 (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا۔

 اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی بات بتلادی کہ یہ تو ڈھونک رچایا ہے حقیقت میں عذر کچھ بھی نہیں نامردی سے بھگوڑا پن دکھاتے ہیں۔ لڑائی سے جی چرا کر سرکنا چاہتے ہیں۔

وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا (۱۴)

اور اگر مدینے کے اطراف سے ان پر (لشکر) داخل کئے جاتے پھر انسے فتنہ طلب کیا جاتا تو یہ ضرور اسے برپا کر دیتے اور نہ لڑتے مگر تھوڑی مدت

جو لوگ یہ عذر کرکے جہاد سے بھاگ رہے تھے کہ ہمارے گھر اکیلے پڑے ہیں جن کا بیان اوپر گزرا۔ ان کی نسبت جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان پر دشمن مدینے کے چو طرف سے اور ہر ہر رخ سے آجائے پھر ان سے کفر میں داخل ہونے کا سوال کیا جائے تو یہ بےتامل کفر کو قبول کرلیں گے لیکن تھوڑے خوف اور خیالی دہشت کی بنا پر ایمان سے دست برداری کررہے ہیں۔ یہ ان کی مذمت بیان ہوئی ہے ۔

وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ ۚ وَكَانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْئُولًا (۱۵)

اس سے پہلے تو انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھریں گے اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدہ کی باز پرس ہوگی

پھر فرماتا ہے یہی تو ہیں جو اس سے پہلے لمبی لمبی ڈینگیں مارتے تھے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے ہم میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنے والے نہیں ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ جو وعدے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کئے تھے اللہ تعالیٰ ان کی باز پرس کرے گا۔

قُلْ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِنْ فَرَرْتُمْ مِنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ وَإِذًا لَا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا (۱۶)

کہہ دیجئے کہ تم موت سے یا خوف قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہیں کچھ بھی کام نہ آئے گا اور اسوقت تم ہی کم فائدہ ٹھاؤ گے

ارشاد ہوتا ہے کہ یہ موت وفوت سے بھاگنا لڑائی سے منہ چھپانا میدان میں پیٹھ دکھانا جان نہیں بچاسکتا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اچانک پکڑ کے جلد آجانے کا باعث ہوجائے اور دنیا کا تھوڑا سا نفع بھی حاصل نہ ہوسکے۔ حالانکہ دنیا تو آخرت جیسی باقی چیز کے مقابلے پر کل کی کل حقیر اور محض ناچیز ہے۔

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ۚ

پوچھئے! اگر اللہ تمہیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہیں بچا سکے (یا تم سے روک سکے)

وَلَا يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (۱۷)

اپنے لئے بجز اللہ تعالیٰ کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مدد گار۔‏

پھر فرمایا کہ بجز اللہ کے کوئی نہ دے سکے نہ دلاسکے نہ مددگاری کرسکے نہ حمایت پر آسکے ۔ اللہ اپنے ارادوں کو پورا کرکے ہی رہتا ہے۔

قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا ۖ

اللہ تعالیٰ تم میں سے انہیں (بخوبی) جانتا ہے جو دوسروں کو روکتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ۔

وَلَا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا (۱۸)

اور کبھی کبھی ہی لڑائی میں آجاتے

اللہ تعالیٰ اپنے محیط علم سے انہیں خوب جانتا ہے جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں۔ اپنے ہم صحبتوں سے یار دوستوں سے کنبے قبیلے والوں سے کہتے ہیں کہ آؤ تم بھی ہمارے ساتھ رہو اپنے گھروں کو اپنے آرام کو اپنی زمین کو اپنے بیوی بچوں کو نہ چھوڑو۔ خود بھی جہاد میں آتے نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی کسی وقت منہ دکھاجائیں اور نام لکھوا جائیں ۔

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ

تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں

یہ بڑے بخیل ہیں نہ ان سے تمہیں کوئی مدد پہنچے نہ ان کے دل میں تمہاری ہمدردی نہ مال غنیمت میں تمہارے حصے پر یہ خوش ۔

فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ

پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں

 اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو

خوف کے وقت تو ان نامردوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑجاتے ہیں۔ آنکھیں چھاچھ پانی ہوجاتی ہے مایوسانہ نگاہوں سے تکتے لگتے ہیں۔

فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ

پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں

لیکن خوف دور ہوا کہ انہوں نے لمبی لمبی زبانیں نکال ڈالیں اور بڑھے چڑھے دعوے کرنے لگے اور شجاعت ومرومی کا دم بھرنے لگے۔ اور مال غنیمت پر بےطرح گرنے لگے۔ ہمیں دو ہمیں دو کا غل مچا دیتے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھی ہیں۔ ہم نے جنگی خدمات انجام دی ہیں ہمارا حصہ ہے ۔ اور جنگ کے وقت صورتیں بھی نہیں دکھاتے بھاگتوں کے آگے اور لڑتوں کے پیچھے رہاکرتے ہیںدونوں عیب جس میں جمع ہوں اس جیسا بےخیر انسان اور کون ہوگا؟

 امن کے وقت عیاری بد خلقی بد زبانی اور لڑائی کے وقت نامردی روباہ بازی اور زنانہ پن۔ لڑائی کے وقت حائضہ عورتوں کی طرح الگ اور یکسو اور مال لینے کے وقت گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو۔

أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ

یہ ایمان لائے ہی نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کر دئیے ہیں،

وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (۱۹)

اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے ۔

 اللہ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے دل شروع سے ہی ایمان سے خالی ہیں۔ اس لئے ان کے اعمال بھی اکارت ہیں۔ اللہ پر یہ آسان ہے۔

يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ

سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر چلے نہیں گئے

ان کی بزدلی اور ڈرپوکی کا یہ عالم ہے کہ اب تک انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں ہوا کہ لشکر کفار لوٹ گیا اور خطرہ ہے کہ وہ پھر کہیں آ نہ پڑے۔

وَإِنْ يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُمْ بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنْبَائِكُمْ ۖ

اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وہ صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے،

مشرکین کے لشکروں کو دیکھتے ہی چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کاش کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ اس شہر میں ہی نہ ہوتے بلکہ گنواروں کے ساتھ کسی اجاڑ گاؤں یا کسی دوردراز کے جنگل میں ہوتے کسی آتے جاتے سے پوچھ لیتے کہ کہو بھئی لڑائی کا کیا حشر ہوا؟

وَلَوْ كَانُوا فِيكُمْ مَا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا (۲۰)

اگر وہ تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا؟) نہ لڑتے مگر برائے نام

 اللہ فرماتا ہے یہ اگر تمہارے ساتھ بھی ہوں تو بیکار ہیں۔ ان کے دل مردہ ہیں نامردی کے گھن نے انہیں کھوکھلا کر رکھا ہے۔ یہ کیا لڑیں گے اور کونسی بہادری دکھائیں گے؟

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (۲۱)

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ،ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے

اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے

یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال افعال احوال اقتدا پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ۔ مثلاً راہ الٰہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ نے دکھائی یقیناً یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزوِ اعظم بنالیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے بہترین نمونہ بنالیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں۔

 اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے:

 تم نے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کیوں نہ کی؟

 میرے رسول تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا ۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لئے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ

اور ایمانداروں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے!کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اسکے رسول نے دیا تھا

پھر اللہ کی فوج کے سچے مؤمنوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول کا۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ غلط ہو یقیناً ًہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہوگا۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی ۔

 بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ ۔۔۔نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ  (۲:۲۱۴)

کیا تم نے یہ سمجھ لیا؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤگے؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا

یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے

 یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی ۔

وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ

اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا

اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچا ہے

وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (۲۲)

اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا

 فرماتا ہے کہ ان اصحاب پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا ۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے۔ یقین کامل ہو گیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی۔

 اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کردی ہے وللہ الحمد والمنہ ۔

پس فرماتا ہے کہ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں ماناکرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے۔

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ

مؤمنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا

فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (۲۳)

بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اس دن مؤمنوں اور کفار میں فرق واضح ہوگیا منافقوں کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ وقت سے پہلے تو جاں نثاری کے لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے لیکن وقت آنے پر پورے بزدل اور نامرد ثابت ہوئے، سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بجائے ثابت قدمی کے پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بجائے ثابت قدمی کے پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

 یہاں مؤمنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے۔ بعض نے جام شہادت نوش فرمایا اور بعض اس کے نظارے میں بےچین ہیں۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے قرآن لکھنا شروع کیا تو ایک آیت مجھے نہیں ملتی تھی حالانکہ سورۃ احزاب میں وہ آیت میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی تھی۔ آخر حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہ آیت ملی یہ وہ صحابی ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم نے دو گواہوں کے برار کردیا تھا ۔ وہ آیت مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ہے۔

یہ آیت حضرت انس بن نضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

 واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے جس کا انہیں سخت افسوس تھا کہ سب سے پہلی جنگ میں جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک تھے میں شامل نہ ہوسکا اب جو جہاد کا موقعہ آئے گا میں اللہ تعالیٰ کو اپنی سچائی دکھا دونگا اور یہ بھی کہ میں کیا کرتا ہوں ؟ اس سے زیادہ کہتے ہوئے خوف کھایا۔ اب جنگ احد کا موقعہ آیا تو انہوں نے دیکھا کہ سامنے سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آرہے ہیں انہیں دیکھ کر تعجب سے فرمایا کہ ابو عمرو کہاں جا رہے ہو؟ واللہ مجھے احد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبوئیں آرہی ہیں ۔ یہ کہتے ہی آپ آگے بڑھے اور مشرکوں میں خوب تلوار چلائی۔ چونکہ مسلمان لوٹ گئے تھے یہ تنہا تھے ان کے بےپناہ حملوں نے کفار کے دانت کھٹے کردئیے تھے اور کفا رلڑتے لڑتے ان کی طرف بڑھے اور چاروں طرف سے گھیر لیا اور شہید کر دیا ۔ آپ کو (۸۰) اسی سے اوپر اپر زخم آئے تھے کوئی نیزے کا کوئی تلوار کا کوئی تیر کا ۔

 اور یہی ایسے تھے جنہوں نے جو کہا تھا کر دکھایا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔شہادت کے بعد کوئی آپ کو پہچان نہ سکا یہاں تک کہ آپ کی ہمشیرہ نے آپ کو پہچانا اور وہ بھی ہاتھوں کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر ۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

 اور روایت میں ہے کہ جب مسلمان بھاگے تو آپ نے فرمایا اے اللہ انہوں نے جو کیا میں اس سے اپنی معذوری ظاہر کرتا ہوں ۔ اور مشرکوں نے جو کیا میں اس سے بیزار ہوں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ ساتھ چلے بھی لیکن فرماتے ہیں جو ہو کررہے تھے وہ میری طاقت سے باہر تھا ۔

 حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ بیان ابی ابن حاتم میں ہے کہ جنگ احد سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینے آئے تو منبر پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کی جو جو شہید ہوگئے تھے ان کے درجوں کی خبر دی۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔

 ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کا اس آیت میں ذکر ہے وہ کون ہیں؟

 اس وقت میں سامنے آرہا تھا اور حضرمی سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپ نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا اے پوچھنے والے یہ بھی ان ہی میں سے ہیں ۔

 ان کے صاحبزادے حضرت موسیٰ بن طلحہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں گئے جب وہاں سے واپس آنے لگے دروازے سے باہر نکلے ہی تھے جو جناب معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس بلایا اور فرمایا آؤ مجھ سے ایک حدیث سنتے جاؤ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تمہارے والد طلحہ رضی اللہ تعالیٰ ان میں سے ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنا عہد اور نذر پوری کردی۔ رب العلمین ان کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ بعض اس دن کے منتظر ہیں کہ پھر لڑائی ہو اور وہ اپنی کار گزاری اللہ کو دکھائیں اور جام شہادت نوش فرمائیں۔ پس بعض نے تو سچائی اور وفاداری ثابت کردی اور بعض موقعہ کے منتظر ہیں انہوں نے نہ عہد بدلا نہ نذر پوری کرنے کا کبھی انہیں خیال گزرا بلکہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں وہ منافقوں کی طرح بہانے بنانے والے نہیں۔ یہ خوف اور زلزلہ محض اس واسطے تھا کہ خبیث وطیب کی تمیز ہوجائے اور برے بھلے کا حال ہر ایک پر کھل جائے۔ کیونکہ اللہ تو عالم الغیب ہے اس کے نزدیک تو ظاہر وباطن برابر ہے جو نہیں ہوا اسے بھی وہ تو اسی طرح جانتا ہے جس طرح اسے جو ہوچکا ۔ لیکن اس کی عادت ہے کہ جب تک مخلوق عمل نہ کرلے انہیں صرف اپنے علم کی بنا پر جزا سزا نہیں دیتا۔ جیسے اس کا فرمان ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَـهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّـبِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَـرَكُمْ  (۴۷:۳۱)

ہم تمہیں خوب پرکھ کر مجاہدین صابرین کو تم میں سے ممتاز کردینگے۔

 پس وجود سے پہلے کا علم پھر وجود کے بعد کا علم دونوں اللہ کو ہیں اور اس کے بعد جزا سزا۔

 جیسے فرمایا :

مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ  (۳:۱۷۹)

اللہ تعالیٰ جس حال پر تم ہو اسی پر مؤمنوں کو چھوڑ دے ایسا نہیں جب تک کہ وہ بھلے برے کی تمیز نہ کرلے نہ اللہ ایسا ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کردے۔

لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ

تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور اگر چاہے تو منافقوں کو سزا دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے

إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (۲۴)

اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا بہت ہی مہربان ہے۔‏

پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور عہد شکن منافقوں کو سزادے۔ یا انہیں توفیق توبہ دے کہ یہ اپنی روش بدل دیں اور سچے دل سے اللہ کی طرف جھک جائیں تو اللہ بھی ان پر مہربان ہوجائے اور ان کو معاف فرمادے ۔ اس لئے کہ وہ اپنی مخلوق کی خطائیں معاف فرمانے والا اور ان پر مہربانی کرنے والا ہے۔ اس کی رافت ورحمت غضب وغصے سے بڑھی ہوئی ہے۔

وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ

اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا

اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے طوفان باد وباراں بھیج کر اور اپنے نہ نظر آنے والے لشکر اتار کر کافروں کی کمر توڑی دی اور انہیں سخت مایوسی اور نامرادی کیساتھ محاصرہ ہٹانا پڑا ۔ بلکہ اگر رحمۃ اللعالمین کی اُمت میں یہ نہ ہوتے تو یہ ہوائیں ان کے ساتھ وہی کرتیں جو عادیوں کے ساتھ اس بےبرکت ہوا نے کیا تھا۔

چونکہ رب العالمین کا فرمان ہے:

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ (۸:۳۳)

تو جب تک ان میں ہے اللہ انہیں عام عذاب نہیں کرے گا

 لہذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا۔ ان کے مجمع کو منتشر کرکے ان پر سے اپنا عذاب ہٹالیا۔

 چونکہ ان کا یہ اجتماع محض ہوائے نفسانی تھا اس لئے ہوا نے ہی انہیں پراگندہ کردیا جو سوچ سمجھ کر آئے تھے سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت ؟کہاں کی فتح؟

جان کے لالے پڑے گئے اور ہاتھ ملتے دانت پیستے پیچ وتاب کھاتے ذلت ورسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ۔

وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ

اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مؤمنوں کو کافی ہوگیا

کیونکہ جو کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو عملی صورت بھی دے دے پھر وہ اس میں کامیاب نہ ہو تو گنہگار تو وہ ہو ہی گیا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل اور آپ کے دین کو فنا کرنے کی آرزو پھر اہتمام پھر اقدام سب کچھ انہوں نے کر لیا۔ لیکن قدرت نے دونوں جہان کا بوجھ ان پر لادھ کر انہیں جلے دل سے واپس کیا اللہ تعالیٰ نے خود ہی مؤمنوں کی طرف سے ان کا مقابلہ کیا۔ نہ مسلمان ان سے لڑے نہ انہیں ہٹایا ۔ بلکہ مسلمان اپنی جگہ رہے اور وہ بھاگتے رہے۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی اور خود ہی کافی ہوگیا اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکر کی عزت کی تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں (بخاری مسلم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ بھی بخاری مسلم میں مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:

اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ، اهْزِمِ الْأَحْزَابَ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُم

اے اللہ اے کتاب کے اتارنے والے جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انہیں ہلا ڈال۔

اس فرمان وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ یعنی اللہ نے مؤمنوں کی کفایت جنگ سے کردی۔ اس میں نہایت لطیف بات یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ سے ہی مسلمان چھوٹ گئے بلکہ آئندہ ہمیشہ ہی صحابہ اس سے بچ گئے کہ مشرکین ان پر چڑھ دوڑیں۔ چنانچہ آپ تاریخ دیکھ لیں جنگ خندق کے بعد کافروں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ مدینے پر یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی جگہ خود چڑھائی کرتے۔ ان کے منحوس قدموں سے اللہ نے اپنے نبی کے مسکن وآرام گاہ کو محفوظ کرلیا فالحمد للہ۔

بلکہ برخلاف اس کے مسلمان ان پر چڑھ چڑھ گئے یہاں تک کہ عرب کی سرزمین سے اللہ نے شرک وکفر ختم کردیا۔ جب اس جنگ سے کافر لوٹے اسی وقت رسول اکرم صلی اللہ علہ وسلم نے بطور پیشن گوئی فرمادیا تھا کہ اس سال کے بعد قریش تم سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ تم ان سے جنگ کرو گے چنانچہ یہی ہوا۔ یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا ۔

وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا (۲۵)

اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا اور غالب ہے۔‏

 اللہ کی قوت کا مقابلہ بندے کے بس کا نہیں۔ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ اسی نے اپنی مدد وقوت سے ان بپھرے ہوئے اور بکھرے ہوئے لشکروں کو پسپا کیا۔ انہیں برائے نام بھی کوئی نفع نہ پہنچا۔ اس نے اسلام اور اہل اسلام کو غالب کیا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے عبد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی۔ فالحمد للہ

بنو قریظہ کا محاصرہ

اتنا ہم پہلے لکھ چکے ہیں جب مشرکین ویہود کے لشکر مدینے پر آئے اور انہوں نے گھیرا ڈالا تو بنو قریظہ کے یہودی جو مدینے میں تھے اور جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد وپیمان ہوچکا تھا انہوں نے بھی عین موقعہ پر بیوفائی کی اور عہد توڑ کر آنکھیں دکھانے لگے ان کا سردار کعب بن اسد باتوں میں آگیا اور حی بن اخطب خبیث نے اسے بدعہدی پر آمادہ کردیا پہلے تو یہ نہ مانا اور اپنے عہد پر قائم رہا حی نے کہا کہ دیکھ تو سہی میں تو تجھے عزت کا تاج پہنانے آیا ہوں۔ قریش اور انکے ساتھی غطفان اور ان کے ساتھی اور ہم سب ایک ساتھ ہیں۔ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک ایک ایک مسلمان کا قیمہ نہ کرلیں یہاں سے نہیں ہٹنے کے

کعب چونکہ جہاندیدہ شخص تھا اس نے جواب دیا کہ محض غلط ہے۔ یہ تمہارے بس کے نہیں تو ہمیں ذلت کا طوق پہنانے آیا ہے ۔ تو بڑا منحوس شخص ہے میرے سامنے سے ہٹ جا اور مجھے اپنی مکاری کا شکار نہ بنا لیکن حی پھر بھی نہ ٹلا اور اسے سمجھاتا بجھاتا رہا۔ آخر میں کہا سن اگر بالفرض قریش اور غطفان بھاگ بھی جائیں تو میں مع اپنی جماعت کے تیری گڑھی میں آجاؤں گا اور جو کچھ تیرا اور تیری قوم کا حال ہوگا۔ وہی میرا اور میری قوم کا حال ہوگا۔

بالآخر کعب پر حی کا جادو چل گیا اور بنو قریظہ نے صلح توڑ دی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کو سخت صدمہ ہوا اور بہت ہی بھاری پڑا پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی مدد کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع اصحاب کے مظفر ومنصور مدینے شریف کو واپس آئے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہتھیار کھول دئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہتھیار اتارکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں گرد وغبار سے پاک صاف ہونے کے لئے غسل کرنے کو بیٹھے ہی تھے جو حضرت جبرائیل ظاہر ہوئے آپ کے سر پر ریشمی عمامہ تھا خچر پر سوار تھے جس پر ریشمی گدی تھی فرمانے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے کمر کھول لی ؟

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں

حضرت جبرائیل نے فرمایا لیکن فرشتوں نے اب تک اپنے ہتھیار الگ نہیں کئے۔ میں کافروں کے تعاقب سے ابھی ابھی آرہا ہوں سنئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان کی پوری گوشمالی کیجئے ۔ مجھے بھی اللہ کا حکم مل چکا ہے کہ میں انہیں تھرادوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے تیار ہو کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو حکم دیا اور فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک عصر کی نماز بنو قریظہ میں ہی پڑھے۔ ظہر کے بعد یہ حکم ملا تھا بنو قریظہ کا قلعہ یہاں سے کئی میل پر تھا ۔ نماز کا وقت صحابہ کو راستہ میں آگیا۔ تو بعض نے تو نماز ادا کرلی اور کہا کہ حضور کا فرمان اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم تیز چلیں۔ اور بعض نے کہا ہم تو وہاں پہنچے بغیر نماز نہیں پڑھیں گے جب آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے دونوں میں سے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔

 آپ ﷺنے مدینہ پر حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنایا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ لشکر کا جھنڈادیا اور آپ بھی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے پیچھے پیچھے بنو قریظہ کی طرف چلے اور جاکر ان کے قلعہ کو گھیر لیا۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک رہا۔ جب یہودیوں کے ناک میں دم آگیا اور تنگ حال ہوگئے تو انہوں نے اپنا حاکم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا جو قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ بنو قریظہ میں اور قبیلہ اوس میں زمانہ جاہلیت میں اتفاق ویگانگت تھی ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لئے ان یہودیوں کو یہ خیال رہا کہ حضرت سعد ہمارا لحاظ اور پاس کریں گے جیسے کہ عبداللہ بن ابی سلول نے بنو قینقاع کو چھڑوایا تھا

 ادھر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جنگ خندق میں انہیں اکحل کی رگ میں ایک تیر لگا تھا جس سے خون جاری تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم پر داغ لگوایا تھا اور مسجد کے خیمے میں ہی انہیں رکھا تھا کہ پاس ہی پاس عیادت اور بیمار پر سی کرلیا کریں۔

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی:

 اے پروردگار اگر اب بھی کوئی ایسی لڑائی باقی ہے جس میں کفار قریش تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھ آئیں تو تو مجھے زندہ رکھ کہ میں اس میں شرکت کرسکوں

اور اگر تو نے کوئی ایک لڑائی بھی ایسی باقی نہیں رکھی تو خیر میرا زخم خوب بہاتا رہے

لیکن اے میرے رب جب تک میں بنو قریظہ قبیلے کی سرکشی کی سزا سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہ کرلوں تو میری موت کو مؤخر فرمانا۔

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مستجاب الدعوات کی دعا کی قبولیت کی شان دیکھئے کہ آپ دعا کرتے ہیں ادھر یہودان بنو قریظہ آپ کے فیصلے پر اظہار رضامندی کرکے قلعے کو مسلمانوں کے سپرد کرتے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدمی بھیج کر آپ کو مدینہ سے بلواتے ہیں کہ آپ آکر ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنادیں۔ یہ گدھے پر سوار کرالئے گیے اور سارا قبیلہ ان سے لپٹ گیا کہ دیکھئے حضرت خیال رکھئے گا بنو قریظہ آپ کے آدمی ہیں انہوں نے آپ پر بھروسہ کیا ہے وہ آپ کے حلیف ہیں آپ کے قوم کے دکھ کے ساتھی ہیں ۔ آپ ان پر رحم فرمائیے گا ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے گا۔ دیکھئے اس وقت ان کا کوئی نہیں وہ آپ کے بس میں ہیں وغیرہ

لیکن حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ محض خاموش تھے کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ ان لوگوں نے مجبور کیا کہ جواب دیں پیچھا ہی نہ چھوڑا۔ آخر آپ نے فرمایا وقت آگیا ہے کہ سعد رضی اللہ اس بات کا ثبوت دے کہ اسے اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں۔ یہ سنتے ہی ان لوگوں کے تو دل ڈوب گئے اور سمجھ لیا کہ بنو قریظہ کی خیر نہیں۔

 جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سواری اس خیمے کے قریب پہنچ گئی جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو آپ نے فرمایا لوگو اپنے سردار کے استقبال کے لئے اٹھو چنانچہ مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو عزت واکرام وقعت واحترام سے سواری سے اتارا یہ اس لئے تھا کہ اس وقت آپ حاکم کی حیثیت میں تھے ان کے فیصلے پورے ناطق ونافذ سمجھے جائیں۔

آپ کے بیٹھتے ہی حضور نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کے فیصلے پر رضامند ہو کر قلعے سے نکل آئیں ہیں اب آپ ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیجئے۔

آپ نے کہا جو میں ان پر حکم کروں وہ پورا ہوگا؟

حضور نے فرمایا ہاں کیوں نہیں؟

 کہا اور اس خیمے والوں پر بھی اس کی تعمیل ضروری ہوگی؟

 آپ نے فرمایا یقیناً

پوچھا اور اس طرف والوں پر بھی ؟ اور اشارہ اس طرف کیا جس طرف خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ لیکن آپ کی طرف نہیں دیکھا آپ کی بزرگی اور عزت وعظمت کی وجہ سے،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں اس طرف والوں پر بھی ۔

 آپ نے فرمایا اب میرا فیصلہ سنئے میں کہتا ہوں بنو قریظہ میں جتنے لوگ لڑنے والے ہیں انہیں قتل کردیا جائے اور ان کی اولاد کو قید کرلیا جائے ان کے مال قبضے میں لائے جائیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سعد رضی اللہ تم نے ان کے بارے میں وہی حکم کیا جو اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر کیا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے سچے مالک اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا وہی سنایا ہے۔

 پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خندقیں کھائی کھدوا کر انہیں بندھا ہوا بلوا کر ان کی گردنیں ماری گئیں۔ یہ گنتی میں سات آٹھ سو تھے ان کی عورتیں نابالغ بچے اور مال لے لئے گئے۔

وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ صَيَاصِيهِمْ

اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کر لی تھی انہیں (بھی) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا

پس فرماتا ہے کہ جن اہل کتاب یعنی یہودیوں نے کافروں کے لشکروں کی ہمت افزائی کی تھی اور ان کا ساتھ دیا تھا ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعے خالی کرا دئیے۔

 اس قوم قریظہ کے بڑے سردار جن سے ان کی نسل جاری ہوئی تھی اگلے زمانے میں آکر حجاز میں اسی طمع میں بسے تھے کہ نبی آخر الزمان کی پیش گوئی ہماری کتابوں میں ہے وہ چونکہ یہیں ہونے والے ہیں تو ہم سب پہلے آپ کی اتباع کی سعادت سے مسعود ہونگے۔ لیکن ان ناحلقوں نے جب اللہ کی وہ نبی آئے ان کی تکذیب کی جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت ان پر نازل ہوئی۔

صَيَاصِي سے مراد قلعے ہیں اسی معنی کے لحاظ سے سینگوں کو بھی صَيَاصِي کہتے ہیں اس لئے کہ جانور کے سارے جسم کے اوپر اور سب سے بلند یہی ہوتے ہیں

وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا (۲۶)

اور ان کے دلوں میں (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو۔‏

ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا انہوں نے ہی مشرکین کو بھڑکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کرائی تھی

وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَمْ تَطَئُوهَا ۚ

اور اس نے تمہیں انکی زمینوں کا اور ان کے گھروں کا اور انکے مال کا وارث کر دیا اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں

عالم جاہل برابر نہیں ہوتے۔ یہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جڑوں سے اکھیڑ دینا چاہا تھا لیکن معاملہ برعکس ہوگیا

پانسہ پلٹ گیا قوت کمزوری سے اور مراد نامرادی سے بدل گئی۔ نقشہ بگڑ گیا حمایتی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ یہ بےدست وپا رہ گئے۔ عزت کی خواہش نے ذلت دکھائی مسلمانوں کے برباد کرنے اور پیس ڈالنے کی خواہش نے اپنے تئیں پسوا دیا۔ اور ابھی آخرت کی محرومی باقی ہے۔ کچھ قتل کردئیے گئے باقی قیدی کر دیئے گئے۔

 عطیہ فرظی کا بیان ہے کہ جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو میرے بارے میں حضور کو کچھ تردد ہوا۔

فرمایا اسے الگ لے جاؤ دیکھو اگر اس کے ناف کے نیچے بال ہوں تو قتل کردو ورنہ قیدیوں میں بٹھاددیکھا تو میں بچہ ہی تھا زندہ چھوڑ دیا گیا۔

 ان کی زمین گھر ان کے مال کے مالک مسلمان بن گئے بلکہ اس زمین کے بھی جو اب تک پڑی تھی اور جہاں مسلمان کے نشان قدم بھی نہ پڑے تھے یعنی خیبر کی زمین یا مکہ شریف کی زمین ۔ یا فارس یا روم کی زمین اور ممکن ہے کہ یہ کل خطے مراد ہوں اللہ بڑی قدرتوں والا ہے ۔

مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے:

 خندق والے دن میں لشکر کا کچھ حال معلوم کرنے نکلی۔ مجھے اپنے پیچھے سے کسی کے بہت تیز آنے کی آہٹ اور اس کے ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی میں راستے سے ہٹ کر ایک جگہ بیٹھ گئی دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر کی طرف جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بھائی حارث بن اوس تھے جن کے ہاتھ میں ان کی ڈھال تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے لیکن بڑے لانبے چوڑے تھے زرہ پورے بدن پر نہیں آئی تھی ہاتھ کھلے تھے اشعار رجز پڑھتے ہوئے جھومتے جھاُمتے چلے جا رہے تھے

میں یہاں سے اور آگے بڑھی اور ایک باغیچے میں چلی گئی وہاں کچھ مسلمان موجود تھے جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اور ایک اور صاحب جو خود اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھ لیا پس پھر کیا تھا؟ بڑے ہی بگڑے اور مجھ سے فرمانے لگے یہ دلیری؟ تم نہیں جانتیں لڑائی ہو رہی ہے؟ اللہ جانے کیا نتیجہ ہو؟ تم کیسے یہاں چلی آئیں وغیرہ وغیرہ ۔

جو صاحب مغفر سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے انہوں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ باتیں سن کر اپنے سر سے لوہے کا ٹوپ اتارا دیکھا اب میں پہچان گئی کہ وہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاموش کیا کہ کیا ملامت شروع کر رکھی ہے نتیجے کا کیا ڈر ہے؟ کیوں تمہیں اتنی گھبراہٹ ہے؟ کوئی بھاگ کے جائے گا کہاں؟ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک قریشی نے تاک کر تیر لگایا اور کہا لے میں ابن عرقہ ہوں۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رگ اکحل پر وہ تیر پڑا اور پیوست ہوگیا۔ خون کے فوارے چھوٹ گئے اسی وقت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ مجھے موت نہ دینا جب تک بنو قریظہ کی تباہی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو۔ اللہ کی شان سے اسی وقت خون تھم گیا۔ مشرکین کو ہواؤں نے بھگادیا اور اللہ نے مؤمنوں کی کفایت کردی ابوسفیان اور اسکے ساتھی تو بھاگ کر تہامہ میں چلے گئے عینیہ بن بدر اس کے ساتھی نجد میں چلے گئے۔ بنو قریظہ اپنے قلعہ میں جاکر پنا گزین ہوگئے۔ میدان خالی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں واپس تشریف لے آئے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مسجد میں ہی چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا

 اسی وقت حضرت جبرائیل آئے آپ کا چہرہ گرد آلود تھا فرمانے لگے آپ نے ہتھیار کھول دئیے؟ حالانکہ فرشتے اب تک ہتھیار بند ہیں۔ اٹھئے بنو قریظہ سے بھی فیصلہ کر لیجئے ان پر چڑھائی کیجئے حضور نے فوراً ہتھیار لگا لئے اور صحابہ میں بھی کوچ کی منادی کرادی۔

 بنو تمیم کے مکانات مسجد نبوی سے متصل ہی تھے راہ میں آپ نے ان سے پوچھا کیوں بھئی؟ کسی کو جاتے ہوئے دیکھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ابھی ابھی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گئے ہیں۔ حالانکہ تھے تو وہ حضرت جبرائیل لیکن آپ کی ڈاڑھی چہرہ وغیرہ بالکل حضرت دحیہ کلبی سے ملتاجلتا تھا ۔

 اب آپ نے جاکر بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کیا پچیس روز تک یہ محاصرہ جاری رہا۔ جب وہ گھبرائے اور تنگ آگئے تو ان سے کہا گیا کہ قلعہ ہمیں سونپ دو اور تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بارے میں جو چاہیں گے فیصلہ فرمادیں گے۔ انہوں نے حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا اس صورت میں تو اپنی جان سے ہاتھ دھولینا ہے۔ انہوں نے یہ معلوم کرکے اسے تو نامنظور کردیا اور کہنے لگے ہم قلعہ خالی کردیتے ہیں آپ کی فوج کو قبضہ دیتے ہیں ہمارے بارے کا فیصلہ ہم حضرت سعد بن معاذ کو دیتے ہیں۔ آپ نے اسے بھی منظور فرمالیا۔

 حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا آپ تشریف لے آئے گدھے پر سوار تھے جس پر کجھور کے درخت کی چھال کی گدی تھی آپ اس پر بمشکل سوار کرادیئے گئے تھے آپ کی قوم آپ کو گھیرے ہوئے تھی اور سمجھارہی تھی کہ دیکھو بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہمارے دوست ہیں ہماری موت زیست کے شریک ہیں اور ان کے تعلقات جو ہم سے ہیں وہ آپ پر پوشیدہ نہیں۔ آپ خاموشی سے سب کی باتیں سنتے جاتے تھے جب ان کے محلہ میں پہنچے تو ان کی طرف نظر ڈالی اور کہا وقت آگیا کہ میں اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقاً پرواہ نہ کروں۔ جب حضور کے خیمے کے پاس ان کی سواری پہنچی تو حضور نے فرمایا اپنے سید کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہمارا سید تو اللہ ہی ہے ۔ آپ نے فرمایا اتارو۔ لوگوں نے مل جل کر انہیں سواری سے اتارا حضور نے فرمایا سعد رضی اللہ ان کے بارے میں جو حکم کرنا چاہو کر دو۔

 آپ نے فرمایا ان کے بڑے قتل کردئیے جائیں اور ان کے چھوٹے غلام بنائیے جائیں ان کا مال تقسیم کر لیا جائے۔

آپ ﷺنے فرمایا سعد رضی اللہ تم نے اس حکم میں اللہ اور اس کے رسول کی پوری موافقت کی۔

 پھر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا مانگی کہ اے اللہ اگر تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش کی کوئی اور چڑھائی ابھی باقی ہو تو مجھے اس کی شمولیت کے لئے زندہ رکھ ورنہ اپنی طرف بلالے۔ اسی وقت زخم سے خون بہنے لگا حالانکہ وہ پورا بھر چکا تھا یونہی سا باقی تھا چنانچہ انہیں پھر اسی خیمے میں پہنچا دیا گیا اور آپ وہیں شہد ہوگئے رضی اللہ عنہ۔

 خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی عنہ وغیرہ بھی آئے سب رو رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آواز عمر رضی اللہ کی آواز میں پہچان بھی ہو رہی تھی میں اس وقت اپنے حجرے میں تھی ۔ فی الواقع اصحاب رسول اللہ ایسے ہی تھے جیسے اللہ نے فرمایا رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (۴۸:۲۹) آپس میں ایک دوسرے کی پوری محبت اور ایک دوسرے سے الفت رکھنے والے تھے۔

 حضرت علقمہ رضی اللہ نے پوچھا ام المؤمنین یہ تو فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رویا کرتے تھے؟

فرمایا آپ کی آنکھیں کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں ہاں غم ورنج کے موقعہ پر آپ داڑھی مبارک اپنی مٹھی میں لے لیتے تھے۔

وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا (۲۷)

اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔‏

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمتعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (۲۸)

اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ

 اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔‏

وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا (۲۹)

اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے

 تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں۔

-  اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیتا ہوں

-  اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گزارو۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔

اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں۔

حضرت عائشہؓ کا بیان ہے:

 اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔

میں نے فوراً جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کونسی بات ہے۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے۔ آپ کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا

 اور روایت میں ہے کہ تین دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ خوش ہوگئے اور ہنس دیئے، پھر آپ دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے۔

 فرماتی ہیں کہ اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا۔

مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں۔ اتنے میں حضرت عمرؓ بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا۔

گئے دیکھا کہ آپ کی ازواج مطہرات آپ کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ خاموش ہیں۔

حضرت عمر ؓنے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں۔

 پھر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی۔

یہ سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں؟

ابوبکرؓ حضرت عائشہؓ کی طرف لپکے اور عمر ؓحضرت حفصہؓ کی طرف اور فرمانے لگے افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں۔

وہ تو کہئے خیر گزری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں برگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے۔

 اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی۔

 اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا۔ سب سے پہلے آپ حضرت صدیقہؓ کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گزر چکا ۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یارسول اللہ آپ اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ میں نے آپ کو اختیار کیا۔ آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتا دوں گا۔

 حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کردوں اور تمہیں رہائی دے دوں اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے واللہ اعلم۔

 جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ کی نوبیویاں تھیں۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ، حفصہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں رضی اللہ عنہن وارضاھن اجمعین۔

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ

اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بےحیائی (کا ارتکاب) کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یعنی مؤمنوں کی ماؤں نے جب اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آخرت کے پہلے گھر کو پسند کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں وہ ہمیشہ کے لئے مقرر ہو چکیں۔ تو اب جناب باری عز اسمہ اس آیت میں انہیں وعظ فرما رہا ہے اور بتلا دیا ہے کہ تمہارا معاملہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے۔ اگر بالفرض تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے سرتابی اور بدخلقی سرزد ہوئی تو تمہیں دنیا اور آخرت میں عتاب ہوگا چونکہ تمہارے بڑے رتبے ہیں تمہیں گناہوں سے بالکل دور رہنا چاہئے۔ ورنہ رتبے کے مطابق مشکل بھی بڑھ جائے گی۔

وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (۳۰)

اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل (سی بات) ہے۔‏

 اللہ پر سب باتیں سہل اور آسان ہیں۔

 یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فرمان بطور شرط کے ہے اور شرط کا ہونا ضروری نہیں ہوتا

جیسے فرمان ہے:

لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ  (۳۹:۶۵)

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں گے۔

نبیوں کا ذکر کر کے فرمایا:

وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۶:۸۸)

اگر یہ شرک کریں تو ان کی نیکیاں بیکار ہو جائیں

 اور آیت میں ہے:

قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـنِ وَلَدٌ فَأَنَاْ أَوَّلُ الْعَـبِدِينَ  (۴۳:۸۱)

اگر رحمان کے اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے عابد ہوں

 اور آیت میں ارشاد ہو رہا ہے:

لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً لاَّصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ سُبْحَـنَهُ هُوَ اللَّهُ الْوَحِدُ الْقَهَّارُ (۳۹:۴)

اگر اللہ کو اولاد منظور ہوتی تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا پسند فرما لیتا وہ پاک ہے وہ یکتا اور ایک ہے وہ غالب اور سب پر حکمران ہے

 پس ان پانچوں آیتوں میں شرط کے ساتھ بیان ہے لیکن ایسا ہوا نہیں۔

 نہ نبیوں سے شرک ہونا ممکن نہ سردار رسولاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ممکن۔ نہ اللہ کی اولاد۔

 اسی طرح امہات المؤمنین کی نسبت بھی جو فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی کھلی لغو حرکت کرے تو اسے دگنی سزا ہوگی اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ واقعی ان میں سے کسی نے کوئی ایسی نافرمانی اور بدخلقی کی ہو۔ نعوذ باللہ

وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا (۳۱)

اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے

اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے۔‏

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے عدل و فضل کا بیان فرما رہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ تمہاری اطاعت گزاری اور نیک کاری پر تمہیں دگنا اجر ہے اور تمہارے لئے جنت میں باعزت روزی ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی منزل میں ہوں گی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل اعلیٰ علیین میں ہے جو تمام لوگوں سے بالا تر ہے۔ اسی کا نام وسیلہ ہے۔ یہ جنت کی سب سے اعلیٰ اور سب سے اونچی منزل ہے جس کی چھت عرش اللہ ہے۔

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ ۚ

اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو آداب سکھاتا ہے اور چونکہ تمام عورتیں انہی کے ماتحت ہیں۔ اس لئے یہ احکام سب مسلمان عورتوں کے لئے ہیں

إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (۳۲)

اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جسکے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔‏

 پس فرمایا کہ تم میں سے جو پرہیزگاری کریں وہ بہت بڑی فضیلت اور مرتبے والی ہیں۔ مردوں سے جب تمہیں کوئی بات کرنی پڑے تو آواز بنا کر بات نہ کرو کہ جن کے دلوں میں روگ ہے انہیں طمع پیدا ہو۔ بلکہ بات اچھی اور مطابق دستور کرو۔

 پس عورتوں کو غیر مردوں سے نزاکت کے ساتھ خوش آوازی سے باتیں کرنی منع ہیں۔ گھل مل کر وہ صرف اپنے خاوندوں سے ہی کلام کر سکتی ہیں۔

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ۖ

اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو

فرمایا بغیر کسی ضروری کام کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ مسجد میں نماز کے لئے آنا بھی شرعی ضرورت ہے جیسے کہ حدیث میں ہے:

 اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔

لیکن انہیں چاہئے کہ سادگی سے جس طرح گھروں میں رہتی ہیں اسی طرح آئیں۔

 ایک روایت میں ہے کہ ان کے لئے ان کے گھر بہتر ہیں۔

 بزار میں ہے:

 عورتوں نے حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جہاد وغیرہ کی کل فضیلتیں مرد ہی لے گئے۔ اب آپ ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے ہم مجاہدین کی فضیلت کو پا سکیں۔

 آپ ﷺنے فرمایا :

تم میں سے جو اپنے گھر میں پردے اور عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے وہ جہاد کی فضیلت پا لے گی۔

 ترمذی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 عورت سر تا پا پردے کی چیز ہے۔ یہ جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شیطان جھانکنے لگتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب یہ اپنے گھر کے اندرونی حجرے میں ہو۔

 ابو داؤد میں ہے:

 عورت کی اپنے گھر کی اندرونی کوٹھڑی کی نماز گھر کی نماز سے افضل ہے اور گھر کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے۔

جاہلیت میں عورتیں بےپردہ پھرا کرتی تھیں اب اسلام بےپردگی کو حرام قرار دیتا ہے۔ ناز سے اٹھلا کر چلنا ممنوع ہے۔ دوپٹہ گلے میں ڈال لیا لیکن اسے لپیٹا نہیں جس سے گردن اور کانوں کے زیور دوسروں کو نظر آئیں، یہ جاہلیت کا بناؤ سنگھار تھا جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 حضرت نوح اور حضرت ادریس کی دو نسلیں آباد تھیں۔ ایک تو پہاڑ پر دوسرے نرم زمین پر۔ پہاڑیوں کے مرد خوش شکل تھے عورتیں سیاہ فام تھیں اور زمین والوں کی عورتیں خوبصورت تھیں اور مردوں کے رنگ سانولے تھے۔ ابلیس انسانی صورت اختیار کر کے انہیں بہکانے کے لئے نرم زمین والوں کے پاس آیا اور ایک شخص کا غلام بن کر رہنے لگا۔ پھر اس نے بانسری وضع کی ایک چیز بنائی اور اسے بجانے لگا اس کی آواز پر لوگ لٹو ہوگئے اور پھر بھیڑ لگنے لگی اور ایک دن میلے کا مقرر ہو گیا جس میں ہزارہا مرد و عورت جمع ہونے لگے۔ اتفاقاً ایک دن ایک پہاڑی آدمی بھی آ گیا اور ان کی عورتوں کو دیکھ کر واپس جا کر اپنے قبیلے والوں میں اس کے حسن کا چرچا کرنے لگا۔ اب وہ لوگ بکثرت آنے لگے اور آہستہ آہستہ ان عورتوں مردوں میں اختلاط بڑھ گیا اور بدکاری اور زنا کاری کا عام رواج ہو گیا۔

یہی جاہلیت کا بناؤ ہے جس سے یہ آیت روک رہی ہے۔

وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ

 اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو

ان کاموں سے روکنے کے بعد اب کچھ احکام بیان ہو رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت میں سب سے بڑی عبادت نماز ہے اس کی پابندی کرو اور بہت اچھی طرح سے اسے ادا کرتی رہو۔

 اسی طرح مخلوق کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو۔ یعنی زکوٰۃ نکالتی رہو۔

 ان خاص احکام کی بجا آوری کا حکم دے کر پھر عام طور پر اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا۔

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (۳۳)

اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔

فرمایا اس اہل بیت سے ہر قسم کے میل کچیل کو دور کرنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کا ہو چکا ہے وہ تمہیں بالکل پاک صاف کر دے گا۔

یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ان آیتوں میں اہل بیت میں داخل ہیں۔ اس لئے کہ یہ آیت انہی کے بارے میں اتری ہے۔

 آیت کا شان نزول تو آیت کے حکم میں داخل ہوتا ہی ہے گو بعض کہتے ہیں کہ صرف وہی داخل ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں وہ بھی اور اس کے سوا بھی۔ اور یہ دوسرا قول ہی زیادہ صحیح ہے۔

حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ تو بازاروں میں منادی کرتے پھرتے تھے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کے بارے میں خالصتاً نازل ہوئی ہے (ابن جریر)

ابن ابی حاتم میں حضرت عکرمہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو چاہے مجھ سے مباہلہ کر لے۔

یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

 اس قول سے اگر یہ مطلب ہے کہ شان نزول یہی ہے اور نہیں، تو یہ تو ٹھیک ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اہل بیت میں اور کوئی ان کے سوا داخل ہی نہیں تو اس میں نظر ہے اس لئے کہ احادیث سے اہل بیت میں ازواج مطہرات کے سوا اوروں کا داخل ہونا بھی پایا جاتا ہے۔

مسند احمد اور ترمذی میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لئے جب نکلتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر پہنچ کر فرماتے اے اہل بیت نماز کا وقت آ گیا ہے پھر اسی آیت تطہیر کی تلاوت کرتے۔

 امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔

 ابن جریر کی ایک اسی حدیث میں سات مہینے کا بیان ہے۔ اس میں ایک راوی ابوداؤد اعمی نفیع بن حارث کذاب ہے۔ یہ روایت ٹھیک نہیں۔

 مسند میں ہے شد اد بن عمار کہتے ہیں:

 میں ایک دن حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اس وقت وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علیؓ کا ذکر ہو رہا تھا۔ وہ آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے میں نے بھی ان کا ساتھ دیا جب وہ لوگ گئے تو مجھ سے سے حضرت واثلہ ؓنے فرمایا تو نے بھی حضرت علیؓ کی شان میں گستا خانہ الفاظ کہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے بھی سب کی زبان میں زبان ملائی۔ تو فرمایا سن میں نے جو دیکھا ہے تجھے سناتا ہوں۔

 میں ایک مرتبہ حضرت علی کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں گئے ہوئے ہیں۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھا رہا تھوڑی دیر میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ہیں دونوں بچے آپ کی انگلی تھامے ہوئے تھے آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تو اپنے سامنے بٹھا لیا اور دونوں نواسوں کو اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا اور ایک کپڑے سے ڈھک لیا پھر اسی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا:

 اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت اور میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں۔

 دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:

 میں نے یہ دیکھ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ کے اہل بیت میں سے ہوں؟

 آپ نے فرمایا تو بھی میرے اہل میں سے ہے۔

حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان میرے لئے بہت ہی بڑی امید کا ہے

 اور روایت میں ہے:

 حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت حسن حضرت حسین رضی اللہ عنہم اجمعین آئے آپ نے اپنی چادر ان پر ڈال کر فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں یا اللہ ان سے ناپاکی کو دور فرما اور انہیں پاک کر دے۔

میں نے کہا میں بھی؟

 آپ نے فرمایا ہاں تو بھی۔

میرے نزدیک سب سے زیادہ میرا مضبوط عمل یہی ہے۔

 مسند احمد میں ہے:

 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حریرے کی ایک پتیلی بھری ہوئی لائیں۔ آپ ﷺنے فرمایا اپنے میاں کو اور اپنے دونوں بچوں کو بھی بلا لو۔ چنانچہ وہ بھی آ گئے اور کھانا شروع ہوا آپ اپنے بستر پر تھے۔ خیبر کی ایک چادر آپ کے نیچے بچھی ہوئی تھی۔ میں حجرے میں نماز ادا کر رہی تھی جب یہ آیت اتری ۔

پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر انہیں اڑھا دی اور چادر میں سے ایک ہاتھ نکال کر آسمان کی طرف اٹھا کر یہ دعا کی کہ الہٰی  یہ میرے اہل بیت اور حمایتی ہیں تو ان سے ناپاکی دور کر اور انہیں ظاہر کر

 میں نے اپنا سر گھر میں سے نکال کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ سب کے ساتھ ہوں

 آپ ﷺنے فرمایا یقیناً تو بہتری کی طرف ہے فی الواقع تو خیر کی طرف ہے۔

 اس روایت کے روایوں میں عطا کے استاد کا نام نہیں جو معلوم ہو سکے کہ وہ کیسے راوی ہیں باقی راوی ثقہ ہیں۔

 دوسری سند سے انہی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے :

 ایک مرتبہ ان کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا آیت تطہیر تو میرے گھر میں اتری ہے۔ آپ میرے ہاں آئے اور فرمایا کسی اور کو آنے کی اجازت نہ دینا۔

 تھوڑی دیر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں۔ اب بھلا میں بیٹی کو باپ سے کیسے روکتی؟

 پھر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو نواسے کو نانا سے کون روکے؟

 پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے میں نے انہیں بھی نہ روکا۔

 پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے میں انہیں بھی نہ روک سکی۔

جب یہ سب جمع ہو گئے تو جو چادر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھے ہوئے تھے اسی میں ان سب کو لے لیا اور کہا الہٰی  یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں خوب پاک کر دے۔

 پس یہ آیت اس وقت اتری جبکہ یہ چادر میں جمع ہو چکے تھے

 میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی؟

 لیکن اللہ جانتا ہے آپ اس پر خوش نہ ہوئے اور فرمایا تو خیر کی طرف ہے۔

مسند کی اور روایت میں ہے

میرے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے جب خادم نے آ کر خبر کی کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے ہیں تو آپ نے مجھ سے فرمایا ایک طرف ہو جاؤ میرے اہل بیت آ گئے ہیں۔

 میں گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئی

 جب دونوں ننھے بچے اور یہ دونوں صاحب تشریف لائے۔ آپ نے دونوں بچوں کو گودی میں لے لیا اور پیار کیا پھر ایک ہاتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن میں دوسرا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن میں ڈال کر ان دونوں کو بھی پیار کیا اور ایک سیاہ چادر سب پر ڈال کر فرمایا یا اللہ تیری طرف نہ کہ آگ کی طرف میں اور میری اہل بیت۔

 میں نے کہا میں بھی؟

فرمایا ہاں تو بھی۔

اور روایت میں ہے:

 میں اس وقت گھر کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھی اور میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟

 آپ نے فرمایا تو بھلائی کی طرف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ہے

 اور روایت میں ہے:

 میں نے کہا مجھے بھی ان کے ساتھ شامل کر لیجئے تو فرمایا تو میری اہل ہے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے ایک دن صبح ہی صبح نکلے اور ان چاروں کو اپنی چادر تلے لے کر یہ آیت پڑھی۔ مسلم

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک مرتبہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

 وہ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے ان کے گھر میں آپ کی صاحبزادی تھیں جو سب سے زیادہ آپ کی محبوب تھیں۔ پھر چادر کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا

 میں نے قریب جا کر کہا یا رسول اللہ میں بھی آپ کے اہل بیت سے ہوں

 آپ نے فرمایا دور رہو تم یقیناً خیر پر ہو۔ (ابن ابی حاتم)

حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور ان چاروں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔

اور سند سے یہ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا قول ہونا مروی ہے۔ واللہ اعلم

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری تو آپ نے ان چاروں کو اپنے کپڑے تلے لے کر فرمایا یارب یہ میرے اہل ہیں اور میرے اہل بیت ہیں (ابن جریر)

صحیح مسلم شریف میں ہے:

 حضرت یزید بن حبان فرماتے ہیں میں اور حصین بن سیرہ اور عمر بن مسلمہ مل کر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے۔ حصین کہنے لگے اے زید آپ کو تو بہت سی بھلائیاں مل گئیں۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، آپ کی حدیثیں سنیں، آپ کے ساتھ جہاد کئے، آ پکے پیچھے نمازیں پڑھیں غرض آپ نے بہت خیر و برکت پا لیا اچھا ہمیں کوئی حدیث تو سناؤ۔

 آپ نے فرمایا بھتیجے اب میری عمر بڑی ہو گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دور ہو گیا۔ بعض باتیں ذہن سے جاتی رہیں۔ اب تم ایسا کرو جو باتیں میں از خود بیان کروں انہیں تم قبول کر لو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو۔

 سنو! مکے اور مدینے کے درمیان ایک پانی کی جگہ پر جسے خم کہا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں ایک خطبہ سنایا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور وعظ و پند کے بعد فرمایا :

میں ایک انسان ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی مان لوں میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ پہلی تو کتاب اللہ جس پر ہدایت و نور ہے۔ تم اللہ کی کتابوں کو لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو پھر تو آپ نے کتاب اللہ کی بڑی رغبت دلائی اور اس کی طرف ہمیں خوب متوجہ فرمایا۔

پھر فرمایا اور میری اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں تین مرتبہ یہی کلمہ فرمایا۔

تو حصین نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ کے اہل بیت کون ہیں؟

 کیا آپ کی بیویاں آپ کی اہل بیت نہیں ہیں؟

فرمایا آپ کی بیویاں تو آپ کی اہل بیت ہیں ہی۔ لیکن آپ کی اہل بیت وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ کھانا حرام ہے،

پوچھا وہ کون ہیں؟

 فرمایا آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس رضی اللہ عنہم۔

پوچھا کیا ان سب پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے؟

 کہا ہاں!

دوسری سند سے یہ بھی مروی ہے:

 میں نے پوچھا کیا آپ کی بیویاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں؟

 کہا نہیں قسم ہے اللہ کی بیوی کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے خاوند کے پاس گو عرصہ دراز سے ہو لیکن پھر اگر وہ طلاق دے دے تو اپنے میکے میں اور اپنی قوم میں چلی جاتی ہے۔ آپ کے اہل بیت آپ کی اصل اور عصبہ ہیں جن پر آپکے بعد صدقہ حرام ہے۔

 اس روایت میں یہی ہے لیکن پہلی روایت ہی اولیٰ ہے اور اسی کو لینا ٹھیک ہے اور اس دوسری میں جو ہے اس سے مراد صرف حدیث میں جن اہل بیت کا ذکر ہے وہ ہے کیونکہ وہاں وہ آل مراد ہے جن پر صدقہ خوری حرام ہے یا یہ کہ مراد صرف بیویاں نہیں ہیں بلکہ وہ مع آپ کی اور آل کے ہیں۔ یہی بات زیادہ رائج ہے اور اس سے اس روایت اور اس سے پہلے کی روایت میں جمع بھی ہو جاتی ہے اور قرآن اور پہلی احادیث میں بھی جمع ہو جاتی ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ ان احادیث کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے۔ کیونکہ ان کی بعض اسنادوں میں نظر ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔

جس شخص کو نور معرفت حاصل ہو اور قرآن میں تدبر کرنے کی عادت ہو وہ یقیناً بیک نگاہ جان لے گا کہ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بلاشبک و شبہ داخل ہیں اس لئے کہ اوپر سے کلام ہی ان کے ساتھ اور انہی کے بارے میں چل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ہی فرمایا کہ اللہ کی آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں جن کا درس تمہارے گھروں میں ہو رہا ہے انہیں یاد رکھو اور ان پر عمل کرو۔

پس اللہ کی آیات اور حکمت سے مراد بقول حضرت قتادہ وغیرہ کتاب و سنت ہے۔ پس یہ خاص خصوصیت ہے جو ان کے سوا کسی اور کو نہیں ملی کہ ان کے گھروں میں اللہ کی وحی اور رحمت الہٰی  نازل ہوا کرتی ہے اور ان میں بھی یہ شرف حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بطور اولیٰ اور سب سے زیادہ حاصل ہے کیونکہ حدیث شریف میں صاف وارد ہے کہ کسی عورت کے بستر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی نہیں آتی بجز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترے کے یہ اس لئے بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا تھا۔ ان کا بستر بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کے لئے نہ تھا۔ پس اس زیادتی درجہ اور بلندی مرتبہ کی وہ صحیح طور پر مستحق تھیں۔ ہاں جبکہ آپ کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہوئیں تو آپ کے قریبی رشتے دار بطور اولیٰ آپ کی اہل بیت ہیں۔

 جیسے حدیث میں گزر چکا کہ میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں۔

 اس کی مثال میں یہ آیت ٹھیک طور پر پیش ہو سکتی ہے۔ لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ  (۹:۱۰۸)  کہ یہ اتری تو ہے مسجد قبا کے بارے میں جیسا کہ صاف صاف احادیث میں موجود ہے۔

 لیکن صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اس مسجد سے کون سی مسجد مراد ہے؟

 تو آپ نے فرمایا وہ میری ہی مسجد ہے یعنی مسجد نبوی۔

پس جو صفت مسجد قبا میں تھی وہی صفت چونکہ مسجد نبوی میں بھی ہے اس لئے اس مسجد کو بھی اسی نام سے اس آیت کے تحت داخل کر دیا۔

ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا۔ آپ ایک مرتبہ نماز پڑھا رہے تھے کہ بنو اسد کا ایک شخص کود کر آیا اور سجدے کی حالت میں آپ کے جسم میں خنجر گھونپ دیا جو آپ کے نرم گوشت میں لگا جس سے آپ کئی مہینے بیمار رہے جب اچھے ہوگئے تو مسجد میں آئے منبر پر بیٹھ کر خطبہ پڑھا جس میں فرمایا اے عراقیو! ہمارے بارے میں اللہ کا خوف کیا کرو ہم تمہارے حاکم ہیں، تمہارے مہمان ہیں، ہم اہل بیت ہیں جن کے بارے میں آیت إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا  اتری ہے۔ اس پر آپ نے خوب زور دیا اور اس مضمون کو بار بار ادا کیا جس سے مسجد والے رونے لگے۔

 ایک مرتبہ آپ نے ایک شامی سے فرمایا تھا کیا تو نے سورہ احزاب کی آیت تطہیر نہیں پڑھی؟

 اس نے کہا ہاں کیا اس سے مراد تم ہو؟

 فرمایا ہاں!

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (۳۴)

اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے۔‏

اللہ تعالیٰ بڑے لطف و کرم والا، بڑے علم اور پوری خبر والا ہے۔ اس نے جان لیا کہ تم اس کے لطف کے اہل ہو،اس لیے اس نے تمہیں یہ نعمتیں عطا فرمائیں اوریہ فضیلتیں تمہیں دیں ۔

پس اس آیت کے معنی مطابق تفسیر ابن جریر یہ ہوئے :

 اے نبی کی بیویو! اللہ کی جو نعمت تم پر ہے اسے تم یاد کرو کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں کیا جہاں اللہ کی آیات اور حکمت پڑھی جاتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اسکا شکر کرنا چاہئے اور اسکی حمد پڑھنی چاہئے تم پر اللہ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں آباد کیا۔

حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے۔

 اللہ انجام تک سے خبردار ہے۔ اس نے اپنے پورے اور صحیح علم سے جانچ کر تمہیں اپنے نبی ﷺ کی بیویاں بننے کے لئے منتخب کر لیا۔

 پس دراصل یہ بھی اللہ کا تم پر احسان ہے جو لطیف و خبیر ہے ہرچیز کے جزوکل سے۔

اسلام اور ایمان میں فرق اور ذکر الہٰی

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھی اپنے سر کے بال سلجھا رہی تھی جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز منبر پر سنی میں نے بالوں کو تو یونہی لپیٹ لیا اور حجرے میں آ کر آپ کی باتیں سننے لگی تو آپ اس وقت یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے۔ نسائی

 اور بہت سی روایتیں آپ سے مختصراً مروی ہیں۔

 ایک روایت میں ہے کہ چند عورتوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تھا

 اور روایت میں ہے کہ عورتوں نے ازواج مطہرات سے یہ کہا تھا۔

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ

 بیشک مسلمان مرد اور عورتیں مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں

اسلام و ایمان کو الگ الگ بیان کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان اسلام کا غیر ہے اور ایمان اسلام سے مخصوص و ممتاز ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا (۴۹:۱۴)  والی آیت اور بخاری و مسلم کی حدیث کہ زانی زنا کے وقت مؤمن نہیں ہوتا پھر اس پر اجماع کہ زنا سے کفر لازم نہیں آتا۔ یہ اس پر دلیل ہے اور ہم شرح بخاری کی ابتداء میں اسے ثابت کر چکے ہیں۔

وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ

فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں

قنوت سے مراد سکون کے ساتھ کی اطاعت گزاری ہے جیسے:

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ ءَانَآءَ الَّيْلِ سَـجِداً وَقَآئِماً يَحْذَرُ الاٌّخِرَةَ وَيَرْجُواْ رَحْمَةَ رَبِّهِ  (۳۹:۹)

 بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتاہو

اور فرمان ہے:

وَلَهُ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ كُلٌّ لَّهُ قَـنِتُونَ  (۳۰:۲۶)

آسمان و زمین کی ہر چیزاللہ کی فرماں بردار ہے

 اور فرماتا ہے:

يمَرْيَمُ اقْنُتِى لِرَبِّكِ وَاسْجُدِى وَارْكَعِى مَعَ الرَكِعِينَ  (۳:۴۳)

اے مریم تو اپنے رب کی اطاعت کیا کر اور سجدہ کرتی رہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتا رہ۔

اور فرماتا ہے:

وَقُومُواْ لِلَّهِ قَـنِتِينَ  (۲:۲۳۸)

اللہ کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میں کھڑے ہوا کرو۔

 پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور ان کے اجتماع سے انسان میں فرماں برداری اور اطاعت گزاری پیدا ہو جاتی ہے۔

 باتوں کی سچائی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور یہ عادت ہر طرح محمود ہے۔ صحابہ کبار میں تو وہ بزرگ بھی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا، سچائی ایمان کی نشانی ہے اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے۔

 سچا نجات پاتا ہے۔ سچ ہی بولا کرو۔ سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف۔

 جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔

 انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے اور جھوٹ کا قصد کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے

 اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں۔

وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ

صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں،عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں،

صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے۔ مصیبتوں پر صبر ہوتا ہے اس علم پر کہ تقدیر کا لکھا ٹلتا نہیں۔ سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے۔ پھر تو جوں جوں زمانہ گزرتا ہے خواہ مخواہ ہی صبر آ جاتا ہے۔

 خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے۔ یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جبکہ دل میں اللہ کا خوف اور رب کو ہر وقت حاضر ناظر جانتا ہو اور اس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہو جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجے پر وہ ضرور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ

خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں،روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں،

 صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہو نہ جن کا کوئی کمانے والا ہو انہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ اللہ کی اطاعت ہو اور اس کی مخلوق کا کام بنے۔

 بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے :

سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا

 ان میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے لیکن اسطرح پوشیدہ طور پر کہ داہنے ہاتھ کے خرچ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہیں لگتی

 اور حدیث میں ہے :

صدقہ خطاؤں کو اسطرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے

 اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔

 روزے کی بابت حدیث میں ہے:

 یہ بدن کی زکوٰۃ ہے یعنی اسے پاک صاف کر دیتا ہے اور طبعی طور پر بھی ردی اخلاط کو مٹا دیتا ہے۔

 حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لئے وہ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ  میں داخل ہو گیا۔

 حدیث میں ہے:روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے۔

 اے نوجوانو تم میں سے جسے طاقت ہو وہ تو اپنا نکاح کر لے تاکہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں اور پاک دامنی حاصل ہو جائے اور جسے اپنے نکاح کی طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے، یہی اس کے لئے گویا خصی ہونا ہے۔

وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ

 اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں،بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں

اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ایسے مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں۔ اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَـفِظُونَ ـ إِلاَّ عَلَى أَزْوَجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـنُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ـ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَآءَ ذلِكَ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (۷۰:۲۹،۳۱)

یہ لوگ اپنے بدن کو روکے رہتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں سے اور لونڈیوں سے ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ہاں اسکے سوا جو اور کچھ طلب کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے

ذکر اللہ کی نسبت ایک حدیث میں ہے:

 جب میاں اپنی بیوی کو رات کے وقت جگا کر دو رکعت نماز دونوں پڑھ لیں تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں لکھ لئے جاتے ہیں (ابوداؤد)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے درجے والا بندہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کون ہے؟

 آپ نے فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا۔

 میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ کے مجاہد سے بھی؟

 آپ نے فرمایا اگرچہ وہ کافروں پر تلوار چلائے یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والا اس سے افضل ہی رہے گا۔ (مسند احمد)

مسند ہی میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے راستے میں جا رہے تھے جمدان پر پہنچ کر فرمایا یہ جمدان ہے مفرد بن کر چلو۔

 آگے بڑھنے والوں نے پوچھا مفرد سے کیا مراد ہے؟

فرمایا اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے۔

پھر فرمایا اے اللہ حج و عمرے میں اپنا سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما!

لوگوں نے کہا بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے

 آپ نے فرمایا یا اللہ سرمنڈوانے والوں کو بخش ۔

 لوگوں نے پھر کتروانے الوں کے لئے درخواست کی

تو آپ نے فرمایا کتروانے والے بھی۔

 آپﷺ کا فرمان ہے :

 اللہ کے عذابوں سے نجات دینے والا کوئی عمل اللہ کے ذکر سے بڑا نہیں۔

 ایک مرتبہ آپ نے فرمایا میں تمہیں سب سے بہتر سب سے پاک اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے حق میں سونا چاندی اللہ کی راہ میں لٹانے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو جب تم کل دشمن سے ملو گے اور ان کی گردنیں مارو گے اور وہ تمہاری گردنیں ماریں گے۔

 لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے

فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر۔

 مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے:

 ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا مجاہد افضل ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا ۔

 اس نے پھر روزے دار کی نسبت پوچھا

یہی جواب ملا

پھر نماز، زکوۃ،حج صدقہ، سب کی بابت پوچھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا یہی جواب دیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا پھر اللہ کا ذکر کرنے والے تو بہت ہی بڑھ گئے

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔

 کثرت ذکر اللہ کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ اسی سورت کی آیت يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اذْكُرُواْ اللَّهَ ذِكْراً كَثِيراً (۳۳:۴۱) کی تفسیر میں ہم ان احادیث کو بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔

أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (۳۵)

 (ان سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع مغفرت) اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‏

 پھر فرمایا یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لئے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم یعنی جنت

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ

اور (دیکھو) کسی مؤمن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔

 انہوں نے کہا  میں اس سے نکاح نہیں کروں گی

 آپ ﷺنے فرمایا! ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو۔

 حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجئے میں سوچ لوں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری۔

 اسے سن کر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا۔ یا رسول اللہ! کیا آپ اس نکاح سے رضامند ہیں؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔

 تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا

 اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت حضرت زید کے زیادہ شریف تھیں۔ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔

 حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 یہ آیت عقبہ بن ابومعیط کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہوں۔

 آپ ﷺنے فرمایا مجھے قبول ہے۔

 پھر حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا۔ غالباً یہ نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی علیحدگی کے بعد ہوا ہو گا۔ اس سے حضرت ام کلثوم ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ کے غلام سے نکاح کرنے کا، اس پر یہ آیت اتری

بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کر دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ (۳۳:۶) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں۔ پس آیت وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ  خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے۔

 مسند احمد میں ہے:

 ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلوں ۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ،ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کورد کردیا اور اب جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر دیں۔

 انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کورد کرتے ہو؟جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرناچاہیے۔

 اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے، یہ ٹھیک نہیں۔

چنانچہ انصاری سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اس بات سے خوش ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا! ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں۔

کہا پھر آپ کو اختیار ہے آپ نکاح کر دیجئے، چنانچہ نکاح ہو گیا۔

 ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لئے نکلے، لڑائی ہوئی جس میں حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا۔

ایک اور روایت میں حضرت ابوبردہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لئے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کرلیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا۔

 اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ کو شہید کر دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی۔

یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو۔

 اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لئے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھاکہ انکار نہ کرو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی۔ انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات رد نہ کرو اس وقت یہ آیت وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ  نازل ہوئی تھی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت طاؤس نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟

 آپ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی

پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کر سکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق، نہ کسی اور بات کا۔

جیسے فرمایا :

فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ۔۔۔ فِى أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً (۴:۶۵)

قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں۔

پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کر لیا۔

 صحیح حدیث میں ہے

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں۔

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (۳۶)

یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‏

 اسی لئے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے۔ جیسے فرمان ہے:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَـلِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۲۴:۶۳)

جو لوگ ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو۔

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ

 (یاد کرو) جبکہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا کہ جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر

وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ ۖ

 تو نے اپنے دل میں وہ جو چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا،

حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کو ہر طرح سمجھایا ۔ ان پر اللہ کا انعام تھا کہ اسلام اور متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق دی۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ان پر احسان تھا کہ انہیں غلامی سے آزاد کر دیا۔ یہ بڑی شان والے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی پیارے تھے یہاں تک کہ انہیں سب مسلمان حب الرسول کہتے تھے۔ ان کے صاحبزادے اسامہؓ کو بھی حب بن حب کہتے تھے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:

 جس لشکر میں انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتے تھے اس لشکر کا سردارانہی کو بناتے تھے۔ اگر یہ زندہ رہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بن جاتے (احمد )

بزار میں ہے:

 حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں تھا میرے پاس حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما آئے اور مجھ سے کہا جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو۔

 میں نے آپﷺ کو خبر کی

 آپﷺ نے فرمایا جانتے ہو وہ کیوں آئے ہیں ؟

 میں نے کہا نہیں !

آپ ﷺنے فرمایا لیکن میں جانتا ہوں جاؤ بلا لاؤ

یہ آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بتائیے آپ کو اپنے اہل میں سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟

 آپﷺ نے فرمایا میری بیٹی فاطمہ ؓ۔

 انہوں نے کہا ہم حضرت فاطمہؓ کے بارے میں نہیں پوچھتے ۔

 آپ ﷺنے فرمایا پھر اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے بھی ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی امیمہ بنت جحش اسدیہؓ سے کرادیا تھا۔

 دس دینار اور سات درہم مہر دیا تھا، ایک دوپٹہ ایک چادر ایک کرتا پچاس مد اناج اور دس مد کھجوریں دی تھیں ۔

 ایک سال یا کچھ اوپر تک تو یہ گھر بسا لیکن پھر ناچاقی شروع ہو گئی۔

 حضرت زید نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت شروع کی تو آپ ﷺانہیں سمجھانے لگے کہ گھر نہ توڑو اللہ سے ڈرو۔

 ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے اس جگہ بہت سے غیر صحیح آثار نقل کئے ہیں جن کا نقل کرنا ہم نامناسب جان کر ترک کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بھی ثابت اور صحیح نہیں ۔

مسند احمد میں بھی ایک روایت حضرت انس سے ہے لیکن اس میں بھی بڑی غرابت ہے اس لئے ہم نے اسے بھی وارد نہیں کیا۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 یہ آیت حضرت زینب بنت جحشؓ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے ۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں گی ۔ یہی بات تھی جسے آپ نے ظاہر نہ فرمایا اور حضرت زیدؓ کو سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو الگ نہ کریں ۔

 حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر اللہ کی وحی کتاب اللہ میں سے ایک آیت بھی چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے ۔

فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا

پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا

وَطَرًا کے معنی حاجت کے ہیں ۔

مطلب یہ ہے کہ جب زیدؓ ان سے سیر ہوگئے اور باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی میل ملاپ قائم نہ رہ سکا بلکہ طلاق ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب ؓکو اپنے نبی ﷺکے نکاح میں دے دیا۔ اس لئے ولی کے ایجاب و قبول سے مہر اور گواہوں کی ضرورت نہ رہی۔

 مسند احمد میں ہے:

 حضرت زینب کی عدت پوری ہو چکی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ ؓسے کہا کہ تم جاؤ اور انہیں مجھ سے نکاح کرنے کا پیغام پہنچاؤ۔

 حضرت زیدؓ گئے اس وقت آپ آٹاگوندھ رہی تھیں ۔ حضرت زیدؓ پر ان کی عظمت اس قدر چھائی کہ سامنے پڑ کر بات نہ کر سکے منہ پھیر کر بیٹھ گئے اور ذکر کیا۔

 حضرت زینب نے فرمایا ٹھہرو!میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلوں ۔

یہ تو کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں ادھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے ان کا نکاح تجھ سے کر دیا۔ چنانچہ اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے اطلاع چلے آئے پھر ولیمے کی دعوت میں آپﷺ نے ہم سب کو گوشت روٹی کھلائی۔ لوگ کھا پی کر چلے گئے مگر چند آدمی وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آپ باہر نکل کر اپنی بیویوں کے حجرے کے پاس گئے ۔ آپ انہیں السلام علیک کرتے تھے اور وہ آپ سے دریافت کرتی تھیں کہ فرمائیے بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟

مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی یا آپ خبر دیئے گئے کہ لوگ وہاں سے چلے گئے ۔

 اس کے بعد آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی آپ کے ہمراہ تھا میں نے آپ کے ساتھ ہی جانے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے پردہ گرا دیا اور میرے اور آپ کے درمیان حجاب ہو گیا اور پردے کی آیتیں اتریں اور صحابہ کو نصیحت کی گئی اور فرما دیا گیا کہ نبی کے گھروں میں بے اجازت نہ جاؤ۔ (مسلم)

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ازواج مطہرات سے فخر اً کہا کرتی تھیں کہ تم سب کے نکاح تمہارے ولی وارثوں نے کئے اور میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر کرا دیا۔

سورۃ نور کی تفسیر میں ہم یہ روایت بیان کر چکے ہیں کہ حضرت زینب نے کہا میرا نکاح آسمان سے اترا اور ان کے مقابلے پر حضرت عائشہ نے فرمایا میری برأت کی آیتیں آسمان سے اتریں جس کا حضرت زینب نے اقرار کیا۔

 ابن جریر میں ہے :

حضرت زینب نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو آپ کی اور بیویوں میں نہیں

- ایک تو یہ کہ میرا اور آپ کا دادا ایک ہے ۔

-  دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مجھے آپ کے نکاح میں دیا۔

-  تیسرے یہ کہ ہمارے درمیان سفیر حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے۔

لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ

تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ان سے نکاح کرنا تیرے لئے جائز کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کو بیویوں کے بارے میں جب انہیں طلاق دے دی جائے کوئی حرج نہ رہے ۔ یعنی وہ اگر چاہیں ان سے نکاح کر سکیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے حضرت زیدؓ کو اپنا متنبی بنا رکھا تھا ۔ عام طور پر انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا۔ قرآن نے اس نسبت سے بھی ممانعت کر دی اور حکم دیا کہ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت کر کے پکارا کرو پھر حضرت زید ؓنے جب حضرت زینب کو طلاق دے دی تو اللہ پاک نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دے کر یہ بات بھی ہٹادی۔

وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (۳۷)

اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا ہے

جس آیت میں حرام عورتوں کا ذکر کیا ہے وہاں بھی یہی فرمایا کہ تمہارے اپنے صلبی لڑکوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں ۔ تاکہ لے پالک لڑکوں کی لڑکیاں اس حکم سے خارج رہیں ۔ کیونکہ ایسے لڑکے عرب میں بہت تھے۔ یہ امر اللہ کے نزدیک مقرر ہو چکا تھا۔ اس کا ہونا حتمی ، یقینی اور ضروری تھا۔ اور حضرت زینب کو یہ شرف ملنا پہلے ہی سے لکھا جا چکا تھا کہ وہ ازواج مطہرات امہات المؤمنین میں داخل ہوں رضی اللہ عنہا۔

مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ

جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لئے مقرر کی ہیں ان میں نبی پر کوئی حرج نہیں

فرماتا ہے کہ جب اللہ کے نزدیک اپنے لے پالک متنبی کی بیوی سے اس کی طلاق کے بعد نکاح کرنا حلال ہے پھر اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا حرج ہے اگلے نبیوں پر جو جو حکم اللہ نازل فرماتے تھے۔ ان پر عمل کرنے میں ان پر کوئی حرج نہ تھا۔ اس سے منافقوں کے اس قول کا رد کرنا ہے کہ دیکھو اپنے آزاد کردہ غلام اور لے پالک لڑکے کی بیوی سے نکاح کر لیا۔

سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۚ

 (یہی) اللہ کا دستور ان میں بھی رہے جو پہلے ہوئے

وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا (۳۸)

اور اللہ تعالیٰ کے کام اندازے پر مقرر کئے ہوئے ہیں۔‏

 اس اللہ کے مقدر کردہ امور ہو کر ہی رہتے ہیں ، وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔

الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ

یہ سب ایسے تھے کے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے

وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (۳۹)

اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔

ان کی تعریف ہو رہی ہے جو اللہ کی مخلوق کو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور امانت اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہیں کرتے، کسی کی سطوت و شان سے مرعوب ہو کر پیغام اللہ کا پہنچانے میں خوف نہیں کھاتے ۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کافی ہے ۔ اس منصب کی ادائیگی میں سب کے پیشوا بلکہ ہر ایک امر میں سب کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔

خیال فرمائیے کہ مشرق و مغرب کے ہر ایک بنی آدم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کی تبلیغ کی ۔ اور جب تک اللہ کا دین چار دانگ عالم میں پھیل نہ گیا، آپ مسلسل مشقت کے ساتھ اللہ کے دین کی اشاعت میں مصروف رہے۔ آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم ہی کی طرف آتے رہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف اللہ کے رسول بن کر آئے تھے۔

 قرآن میں فرمان الہٰی  ہے:

قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا  (۷:۱۵۸)

لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔

پھر آپ کے بعد منصب تبلیغ آپ کی اُمت کو ملا ۔ ان میں سب کے سردار آپ کے صحابہ ہیں رضوان اللہ علیہم ۔ جو کچھ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا، سب کچھ بعد والوں کو سکھا دیا ۔ تمام اقوال و افعال جو احوال دن اور رات کے ، سفر و حضر کے ، ظاہر و پوشیدہ دنیا کے سامنے رکھ دئیے ۔ اللہ ان پر اپنی رضامندی نازل فرمائے ۔

 اللہ کریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کر دے۔

 مسند احمد میں ہے:

 تم میں سے کوئی اپنا آپ ذلیل نہ کرے ۔

 لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے!

فرمایا خلاف شرع کام دیکھ کر، لوگوں کے خوف کے مارے خاموش ہو رہے ۔ قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی کہ تو کیوں خاموش رہا؟

یہ کہے گا کہ لوگوں کے ڈر سے ۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا سب سے زیادہ خوف رکھنے کے قابل تو میری ذات تھی ،

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ

 (لوگو) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں

پھر اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ کہا جائے ۔

 لوگ جو زید بن محمد کہتے تھے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے ۔

 تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زید کے والد نہیں ۔

یہی ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد بلوغت کو پہنچی ہی نہیں ۔ قاسم ، طیب اور طاہر تین بچے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ایک بچہ ہوا جس کا نام حضرت ابراہیم لیکن یہ بھی دودھ پلانے کے زمانے میں ہی انتقال کر گئے ۔

آپ کی لڑکیاں حضرت خدیجہؓ سے چار تھیں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہم اجمعین

ان میں سے تین تو آپ کی زندگی میں ہی رحلت فرما گئیں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ کے چھ ماہ بعد ہوا۔

وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (۴۰)

لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرچیز کو (خوب) جانتا ہےـ‏

 پھر فرماتا ہے بلکہ آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں جیسے فرمایا:

اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ  (۶:۱۲۴)

اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھتا ہے ۔

یہ آیت نص ہے اس امر پر کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

 اور جب نبی ہی نہیں تو رسول کہاں ؟

 کوئی نبی ، رسول آپ کے بعد نہیں آئے گا۔ رسالت تو نبوت سے بھی خاص چیز ہے ۔ ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ۔

متواتر احادیث سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ختم الانبیاء ہونا ثابت ہے ۔ بہت سے صحابہ سے یہ حدیثیں روایت کی گئی ہیں ۔

 مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

میری مثال نبیوں میں ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک بہت اچھا اور پورامکان بنایا لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی جہاں کچھ نہ رکھا لوگ اسے چاروں طرف سے دیکھتے بھالتے اور اس کی بناوٹ سے خوش ہوتے لیکن کہتے کیا اچھا ہو تاکہ اس اینٹ کی جگہ پُر کر لی جاتی ۔ پس میں نبیوں میں اسی اینٹ کی جگہ ہوں ۔

 امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔

 مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی ۔

 صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ بات گراں گزری تو آپ نے فرمایا لیکن خوش خبریاں دینے والے ۔

صحابہ نے پوچھا خوشخبریاں دینے والے کیا ہیں ۔

فرمایا مسلمانوں کے خواب جو نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہیں ۔

یہ حدیث بھی ترمذی شریف میں ہے اور امام ترمذی اسے صحیح غریب کہتے ہیں

 محل کی مثال والی حدیث ابو داؤد طیالسی میں بھی ہے ۔ اس کے آخر میں یہ ہے کہ میں اس اینٹ کی جگہ ہوں مجھ سے انبیا علیہم الصلوۃ السلام ختم کئے گئے ۔

 اسے بخاری مسلم اور ترمذی بھی لائے ہیں ۔

 مسند کی اس حدیث کی ایک سند میں ہے کہ میں آیا اور میں نے اس خالی اینٹ کی جگہ پر کر دی ۔

مسند میں ہے:

 میرے بعد نبوت نہیں مگر خوشخبری والے ۔

 پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہیں ؟

 فرمایا اچھے خواب یا فرمایا نیک خواب ۔

 عبدالرزاق وغیرہ میں محل کی اینٹ کی مثال والی حدیث میں ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر محل والے سے کہتے ہیں کہ تو نے اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی ؟ پس میں وہ اینٹ ہوں ۔

صحیح مسلم شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مجھے تمام انبیاء پر چھ فضیلتیں دی گئی ہیں ،

- مجھے جامع کلمات عطافرمائے گئے ہیں ۔

- صرف رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔

- میرے لئے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ۔

-  میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بنائی گئی ،

- میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔

-  اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا گیا ۔

یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔

صحیح مسلم میں محل مثال والی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ میں آیا اور میں نے اس اینٹ کی جگہ پوری کر دی ۔

مسند میں ہے میں اللہ کے نزدیک نبیوں کا علم کرنے والا تھا اس وقت جبکہ آدم پوری طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔

بخاری و مسلم کی اور حدیث میں ہے:

 میرے کئی نام ہیں ،

-  میں محمد ہوں

-  اور میں احمد ہوں

-  اور میں ماحی ہوں اللہ تعالیٰ میری وجہ سے کفر کو مٹادے گا

-  اور میں حاشر ہوں تمام لوگوں کا حشر میرے قدموں تلے ہو گا

-  اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں

حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے گویا کہ آپ رخصت کر رہے ہیں اور تین مرتبہ فرمایا :

- میں امی نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔

-  میں فاتح کلمات دیا گیا ہوں جو نہایت جامع اور پورے ہیں ۔

- میں جانتا ہوں کہ جہنم کے داروغے کتنے ہیں اور عرش کے اٹھانے والے کتنے ہیں ۔

- میرا اپنی اُمت سے تعارف کرایا گیا ہے ۔

- جب تک میں تم میں ہوں میری سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ۔ جب میں رخصت ہوجاؤں تو کتاب اللہ کو مضبوط تھام لو اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو (مسندامام احمد)

اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔

 اللہ تعالیٰ کی اس وسیع رحمت پر اس کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے رحم وکرم سے ایسے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف بھیجا اور انہیں ختم المرسلین اور خاتم الانبیاء بنایا اور یکسوئی والا، آسان ، سچا اور سہل دین آپ کے ہاتھوں کمال کو پہنچایا۔

رب العالمین نے اپنی کتاب میں اور رحمتہ للعالمین نے اپنی متواتر احادیث میں یہ خبر دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ پس جو شخص بھی آپ کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، مفتری، دجال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ گو وہ شعبدے دکھائے اور جادوگری کرے اور بڑے کمالات اور عقل کو حیران کردینے والی چیزیں پیش کرے اور طرح طرح کی بیرنگیاں دکھائے لیکن عقلمند جانتے ہیں کہ یہ سب فریب دکھوکہ اور مکاری ہے ۔

 یمن کے مدعی نبوت عنسی اور یمانہ کے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو دیکھ لو کہ دنیا نے انہیں جیسے یہ تھے سمجھ لیا اور ان کی اصلیت سب پر ظاہر ہو گئی ۔ یہی حال ہوگا ہر اس شخص کا جو قیامت تک اس دعوے سے مخلوق کے سامنے آئے گا کہ اس کا جھوٹ اور اس کی گمراہی سب پر کھل جائے گی ۔ یہاں تک کہ سب سے آخری دجال مسیح آئے گا۔ اس کی علامتوں سے بھی ہر عالم اور ہر مؤمن اس کا کذاب ہونا جان لے گا

پس یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے کہ ایسے جھوٹے دعوے داروں کو یہ نصیب ہی نہیں ہوتا کہ وہ نیکی کے احکام دیں اور برائی سے روکیں ۔ ہاں جن احکام میں ان کا اپنا کوئی مقصد ہوتا ہے ان پر بہت زورر دیتے ہیں ۔ ان کے اقوال، افعال افترا اور فجور والے ہوتے ۔

 جیسے فرمان باری ہے:

هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَن تَنَزَّلُ الشَّيَـطِينُ - تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ  (۲۶:۲۲۱،۲۲۲)

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطن کن کے پاس آتے ہیں ؟ ہر ایک بہتان بازگنہگار کے پاس۔

سچے نبیوں کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے وہ نہایت نیکی والے، بہت سچے ہدایت والے ، استقاُمت والے ، قول و فعل کے اچھے، نیکیوں کا حکم دینے والے، برائیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ان کی تائید ہوتی ہے ۔ معجزوں سے اور خارق عادت چیزوں سے ان کی سچائی اور زیادہ ظاہر ہوتی ہے ۔ اور اس قدر ظاہر واضح اور صاف دلیلیں ان کی نبوت پر ہوتی ہیں کہ ہر قلب سلیم ان کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے

 اللہ تعالیٰ اپنے تمام سچے نبیوں پر قیامت تک درود سلام نازل فرماتا رہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا (۴۱)

مسلمانوں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو۔‏

بہت سی نعمتوں کے انعام کرنے والے اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ہمیں اس کا بکثرت ذکر کرنا چاہئے اور اس پر بھی ہمیں نعمتوں اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے ۔

 ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہارے بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو راہ اللہ خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں؟

 لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے ؟

 فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر (ترمذی ابن ماجہ)

یہ حدیث پہلے والذاکرین کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے ۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سنی ہے جسے میں کسی وقت ترک نہیں کرتا۔

دعا یہ ہے

اللہم اجعلنی اعظم شکرک واتبع نصیحتک واکثر ذکرک واحفظ وصیتک

اے اللہ تو مجھے اپنا بہت بڑا شکر گزار، فرماں بردار، بکثرت ذکر کرنے والا اور تیرے احکام کی حفاظت کرنے والا بنا دے

دو اعرابی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ ایک نے پوچھا سب سے اچھا شخص کون ہے ؟

 آپﷺ نے فرمایا جو لمبی عمر پائے ، اور نیک اعمال کرے۔

 دوسرے نے پوچھاحضور صلی اللہ علیہ وسلم احکام اسلام تو بہت سارے ہیں مجھے کوئی چوٹی کا حکم بتا دیجئے کہ اس میں چمٹ جاؤں

 آپﷺ نے فرمایا ذکر اللہ میں ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھ (ترمذی )

فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ کا ذکر میں ہر وقت مشغول رہو یہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں (مسند احمد)

فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو یہاں تک کہ منافق تمہیں ریا کار کہنے لگیں ۔ (طبرانی )

فرماتے ہیں:

 جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر حسرت افسوس کا باعث بنے گی۔ (مسند)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:

 ہر فرض کام کی کوئی حد ہے ۔ پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے ۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے ۔

فَاذْكُرُواْ اللَّهَ قِيَـماً وَقُعُوداً وَعَلَى جُنُوبِكُمْ  (۴:۱۰۳)

اللہ تعالیٰ کا ذکر کروکھڑے بیٹھے لیٹے رات کو دن کو

خشکی میں تری میں سفر میں حضر میں غنا میں فقر میں صحت میں بیماری پوشیدگی میں ظاہر میں غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیے ۔ صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمہارے لئے ہر وقت دعاگو رہیں گے ۔

 اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث و آثار ہیں ۔

 اس آیت میں بھی بکثرت ذکر اللہ کرنے کی ہدایت ہو رہی ہے ۔ بزرگوں نے ذکر اللہ اور وظائف کی بہت سی مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے امام نسائی امام معمری وغیرہ ۔ ان سب میں بہترین کتاب اس موضوع پر حضرت امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے ،

وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (۴۲)

اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔‏

صبح شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو ۔

جیسے فرمایا:

فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ـ وَلَهُ الْحَمْدُ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَعَشِيّاً وَحِينَ تُظْهِرُونَ (۳۰:۱۷،۱۸)

اللہ کے لئے پاکی ہے ۔ جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو، اسی کے لئے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور بعد از زوال اور ظہر کے وقت ،

هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ

وہی ہے جو تم پر رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمہارے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں)

پھر اس کی فضیلت بیان کرنے اور اس کی طرف رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے وہ خود تم پر رحمت بھیج رہا ہے ۔ یعنی جب وہ تمہاری یاد رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ تم اس کے ذکر سے غفلت کرو؟

جیسے فرمایا:

كَمَآ أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنْكُمْ يَتْلُواْ عَلَيْكُمْ آيَـتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَـبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ ـ

 فَاذْكُرُونِى أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ (۲:۱۵۱،۱۵۲)

جس طرح ہم نے تم میں خود تمہی میں سے رسول بھیجا جو تم پر ہماری کتاب پڑھتا ہے اور وہ سکھاتا ہے جسے تم جانتے ہی نہ تھے۔

پس تم میرا ذکر کرو میں تمہاری یاد کروں گا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔

حدیث قدسی میں ہے:

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہوتی ہے ۔

صلوٰۃ جب اللہ کی طرف مضاف ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی اپنے فرشتوں کے سامنے بیان کرتا ہے ۔

 اور قول میں ہے مراد اس کی رحمت ہے ۔ اور دونوں قولوں کا انجام ایک ہی ہے ۔

فرشتوں کی صلوٰۃ ان کی دعا اور استغفار ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے:

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ۔۔۔ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَقِهِمُ السَّيّئَـتِ (۴۰:۷،۹)

عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں

 اور اس پر ایمان رکھتے ہیںاور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں،

کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہرچیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے،

 پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔

 اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے

 اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں

یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔‏انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ

لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ

تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جائے

وہ اللہ اپنی رحمت کو تم پر نازل فرما کر اپنے فرشتوں کی دعا کو تمہارے حق میں قبول فرما کر تمہیں جہالت وو ضلالت کی اندھیریوں سے نکال کر ھدایت و یقین کے نور کی طرف لے جاتا ہے ۔

وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (۴۳)

اور اللہ تعالیٰ مؤمنوں پر بہت ہی مہربان ہے‏

اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مؤمنوں پر رحیم و کریم ہے ۔

 دنیا میں حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزیاں عطا فرماتا ہے اور آخرت میں گھبراہٹ اور ڈر خوف سے بچا لے گا۔ فرشتے آکر انہیں بشارت دیں گے کہ تم جہنم سے آزاد ہو اور جنتی ہو۔ کیونکہ ان فرشتوں کے دل مؤمنوں کی محبت و الفت سے پُر ہیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے اصحاب کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک چھوٹا بچہ راستے میں تھا اس کی ماں نے ایک جماعت کو آتے ہوئے دیکھا تو میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی اور بچے کو گود میں لے کر ایک طرف ہٹ گئی ۔

ماں کی اس محبت کو دیکھ کر صحابہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیال تو فرمائیے کیا یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مطلب کو سمجھ کر فرمانے لگے قسم اللہ کی ! اللہ تعالیٰ بھی اپنے دوستوں کو آگ میں نہیں ڈالے گا۔ ( مسند احمد )

صحیح بخاری شریف میں ہے :

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قیدی عورت کو دیکھا کہ اس نے اپنے بچے کو دیکھتے ہی اٹھا لیا اور اپنے کلیجے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی

آپ نے فرمایا بتاؤ تو اگر اس کے اختیار میں ہو تو کیا یہ اپنی خوشی سے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟

صحابہ نے کہا ہرگز نہیں

 آپ ﷺنے فرمایا قسم ہے اللہ کی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے،

تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ

جس دن یہ (اللہ سے) ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا

اللہ کی طرف سے ان کا ثمرہ جس دن یہ اس سے ملیں گے سلام ہو گا۔

جیسے فرمایا:

سَلاَمٌ قَوْلاً مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ  (۳۶:۵۸)

مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا۔

قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرے گا۔ اس کی تائید بھی آیت دَعْوَهُمْ فِيهَا سُبْحَـنَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ وَءَاخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ (۱۰:۱۰)سے ہوتی ہے ۔

وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا (۴۴)

 ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے با عزت اجر تیار کر رکھا ہے۔‏

 اللہ نے ان کے لئے اجر کریم یعنی جنت مع اس کی تمام نعمتوں کے تیار کر رکھی ہے ۔ جن میں سے ہر نعمت کھانا پینا پہننا اوڑھنا عورتیں لذتیں منظر وغیرہ ایسی ہیں کہ آج تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتیں ۔ چہ جائیکہ دیکھنے میں یا سننے میں آئیں ۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (۴۵)

اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا خوشخبری سنانے والا بھیجا ہے۔‏

تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات

عطابن یسار فرماتے ہیں:

 میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں تورات میں کیا ہیں ؟

فرمایا جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ کے تورات میں بھی ہیں ۔ تورات میں ہے

 اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا، ڈرانے والا اُمتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے ۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے ، نہ بازاروں میں شور مچانے والا۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ درگزر کرتا ہے ۔ اور معاف فرماتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا۔ جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہو جائیں ۔ جس سے اندھی آنکھیں روشن ہو جائیں ۔ اور بہرے کان سننے والے بن جائیں ۔ اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں (بخاری)

ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت وہیب بن منبہ فرماتے ہیں:

 بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت شعیا علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہو جاؤ، میں تمہاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا ۔

میں اُمیوں میں سے ایک نبی اُمی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو۔ نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گزر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو۔

 میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا۔ جو حق گو ہوگا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کر دوں گا۔

ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی۔ صدق و وفا اس کی عادت ہو گی ۔ عفو درگزر اس کا خلق ہو گا۔ حق اس کی شریعت ہو گی ۔ عدل اس کی سیرت ہو گی ۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا۔ احمد اس کا نام ہو گا۔ گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنادوں گا۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا۔

 انجانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا۔

 دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا۔ تمام اُمتوں سے اس کی اُمت کو اعلیٰ اور افضل بنادوں گا۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے ۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ وہ موحد ہوں گے ، مؤمن ہوں گے ، اخلاص والے ہوں گے ، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے ۔

وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے۔

 دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضامندی کی جستجو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے ۔

منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے ۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے۔

میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی ۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے ۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کردوں گا ۔

 اس کی اُمت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی ۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا۔

میں انہیں ان کے نبی کے وارث کردوں گا۔ جو اپنے زب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے ۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے ، برائیوں سے روکیں گے ، نماز ادا کریں گے، زکوۃ دیں گے، وعدے پورے کریں گے ، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی ۔

یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں ۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں ،

 ابن ابی خاتم میں ہے:

 آپﷺ حضرت علی ؓاور حضرت معاذ ؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ نے انہیں فرمایا :

جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا سختی نہ کرنا،

 دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے ۔

طبرانی میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھ پر یہ اترا ہے:

 اے نبی ہم نے تجھے تیری اُمت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں ۔ اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے ۔

جیسے ارشاد ہے:

وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاءِ شَهِيداً  (۴:۴۱)

ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔

 اور آیت میں ہے:

لِّتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا  (۲:۱۴۳)

تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں ۔

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (۴۶)

اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا (۴۷)

آپ مؤمنوں کو خوشخبری سنا دیجئے! کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔‏

آپ مؤمنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کاڈر سنانے والے ہیں ۔ اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں ۔

وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (۴۸)

اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیں اور جو ایذاء (انکی طرف سے پہنچے) اسکا خیال بھی نہ کیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھیئے کافی ہےاللہ کام بنانے والا‏

 آپ کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی ۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے ،

 اے نبی !کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے درگزر کرو۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ

اے مؤمنوں جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دیدو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو

اس آیت میں بہت سے احکام ہیں ۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف عقد پر بھی نکاح کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں اس سے زیادہ صراحت والی آیت اور نہیں ۔

 اس میں اختلاف ہے کہ لفظ نکاح حقیقت میں صرف ایجاب وقبول کے لئے ہے ؟

یا صرف جماع کے لئے ہے ؟

یا ان دونوں کے مجموعے کے لئے ؟

 قرآن کریم میں اس کا اطلاق عقد و وطی دونوں پر ہی ہوا ہے ۔ لیکن اس آیت میں صرف عقد پر ہی اطلاق ہے ۔

 اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دخول سے پہلے بھی خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ۔

مؤمنات کا ذکر یہاں پر بوجہ غلبہ کے ہے ورنہ حکم کتابیہ عورت کا بھی یہی ہے ۔

 سلف کی ایک بڑی جماعت نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس سے پہلے نکاح ہو گیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا ہے پس معلوم ہوا ہے کہ نکاح سے پہلے نہ طلاق صحیح ہے نہ وہ واقع ہوتی ہے ۔

 امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اور بہت بڑی جماعت سلف و خلف کا یہی مذہب ہے ۔

 مالکؒ اور ابو حنفیہؒ کا خیال ہے کہ نکاح سے پہلے بھی طلاق درست ہو جاتی ہے ۔ مثلاً کسی نے کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ تو اب جب بھی اس سے نکاح کرے گا طلاق پڑ جائے گی ۔

 پھر مالکؒ اور ابو حنیفہؒ میں اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو کہے کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں پس وہ جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی اور امام مالکؒ کا قول ہے کہ نہیں پڑے گی کیونکہ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے یہ کہا ہو کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟

 آپ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا اس عورت کو طلاق نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے طلاق کو نکاح کے بعد فرمایا ہے ۔

پس نکاح سے پہلے کی طلاق کوئی چیز نہیں ۔

 مسند احمد ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ ابن آدم جس کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں ۔ اور حدیث میں ہے جو طلاق نکاح سے پہلے کی ہو وہ کسی شمار میں نہیں ۔ (ابن ماجہ ) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عورتوں کو نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت نہیں بلکہ وہ جس سے چاہیں اسی وقت نکاح کر سکتی ہیں ۔ ہاں اگر ایسی حالت میں ان کا خاوند فوت ہوگیا ہو تو یہ حکم نہیں اسے چار ماہ دس دن کی عدت گزارنی پڑے گی ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔ پس نکاح کے بعد ہی میاں نے بیوی کو اس سے پہلے ہی اگر طلاق دے دی ہے تو اگر مہر مقرر ہو چکا ہے تو اس کا آدھا دینا پڑے گا۔ ورنہ تھوڑا بہت دے دینا کافی ہے ۔ اور آیت میں ہے:

وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ (۲:۲۳۷)

اگر مہر مقرر ہو چکا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو آدھے مہر کی وہ مستحق ہے ۔

 اور آیت میں ارشاد ہے:

لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ ۔۔۔حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (۲:۲۳۶)

اگر تم اپنی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو یہ کچھ گناہ کی بات نہیں ۔

اگر ان کا مہر مقرر نہ ہوا ہو تو تم انہیں کچھ نہ کچھ دے دو۔ اپنی اپنی طاقت کے مطابق ، امیر و غریب دستور کے مطابق ان سے سلوک کریں اور بھلے لوگوں پر یہ ضروری ہے ۔

چنانچہ ایسا ایک واقعہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی گزرا۔ کہ آپ نے امیمہ بنت شرجیل سے نکاح کیا یہ رخصت ہو کر آگئیں آپ گئے ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے اسے پسند نہ کیا آپ نے حضرت ابو اسید کو حکم دیا کہ ان کا سامان تیار کر دیں اور دو کپڑے ارزقیہ کے انہیں دے دیں ۔

فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (۴۹)

پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو پھر بھلے طریقے سے رخصت کر دو ۔

 پس سَرَاحًا جَمِيلًا یعنی اچھائی سے رخصت کر دینا یہی ہے کہ اس صورت میں اگر مہر مقرر ہے تو آدھا دے دے ۔ اور اگر مقرر نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کے ساتھ کچھ سلوک کر دے ۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ

اے نبی! ہم نے تیرے لئے وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے

وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ

اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ پر حلال ہیں ۔ آپ کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں ۔ ہاں ام المؤمنین حضرت حبیبہ بنت ابی سفیان عنہا کا مہر حضرت نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا۔ اور اسی طرح ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہر صرف ان کی آزادی تھی ۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ بھی تھیں پھر آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کرلیا۔ اور حضرت جویریہ بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضامندی نازل فرمائے ۔

 اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ پر حلال ہیں ۔ صفیہ اور جویریہ کے مالک آپ ہوگئے تھے پھر آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کی ملکیت میں آئی تھیں ۔ حضرت ماریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کو فرزند بھی ہوا۔ جن کا نام حضرت ابراہیم تھا ۔

وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ

اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے

چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لئے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کر دیا۔

 نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو۔ ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کر لیتے تھے۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا۔

 اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے ۔

پھر فرمایا جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے ۔

حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ نے تسلیم کر لیا۔ اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی۔

مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔

قتادہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے ۔

وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا

اور وہ با ایمان عورتیں جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے

خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ

یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مؤمنوں کے لئے نہیں

پھر فرمایا اور وہ مؤمنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی کے لئے ہبہ کر دیے۔ اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں ۔ تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں ۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے

جیسے حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں:

وَلَا يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ  (۱۱:۳۴)

اگر میں تمہیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمہیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمہیں کوئی نفع نہیں دے سکتی ۔

 اور جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان میں ہے:

يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ  (۱۰:۸۴)

اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو۔ اور اگر تم مسلمان ہوگئے ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔

 پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں ۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا۔

 مسند احمد میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں ۔ تو ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئے ۔

 آپ ﷺنے فرمایا تمہارے پاس کچھ ہے جو انہیں مہر میں دیں ؟

 جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں ۔

آپ ﷺنے فرمایا یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو۔

 اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا ۔

 آپ ﷺنے فرمایا تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے ۔

 انہوں نے ہر چند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا ۔

 آپ ﷺنے فرمایا قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمہیں یاد ہیں ؟

 اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔

 آپ ﷺنے فرمایا بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا ۔

 یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ۔

 حضرت انس جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں ۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیا تھی۔ تو آپ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں (بخاری)

مسند احمد میں ہے:

 ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کر کے کہنے لگیں کے حضور میری مراد یہ ہے کہ آپ اس سے نکاح کرلیں ۔آپ نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں ۔ یہاں تک کہ کہا حضور نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ نے فرمایا پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں۔

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے :

 اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں ۔

 اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں ۔

 اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں ۔

ممکن ہے ام سلیم ہی حضرت خولہ ہوں رضی اللہ عنہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں ۔

ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں ۔ خدیجہ ، عائشہ ، حفصہ ، ام حبیبہ ، سودہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہن اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں

 اور حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کوہبہ کیا تھا

 اورحضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی۔

 اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے ۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا

اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی ،

 اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے رضی اللہ عنہا۔

دو کنیزیں تھیں ۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ ۔

 ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت حضرت میمونہ بنت حارث تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے ۔اور یہ روایت مرسل ہے ۔

یہ مشہور بات ہے کہ حضرت زینب جن کی کنیت ام المساکین تھی، یہ زینب بنت خزیمہ تھیں ، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ واللہ اعلم،

مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ کو دیا تھا چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں ۔ جب یہ آیت اتری :

تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ (۵۱)

تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔

 تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر خوب وسعت و کشادگی کر دی ۔

 حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو ۔

حضرت یونس بن بکیر فرماتے ہیں گو آپ کے لئے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ کو سونپ دے آپ اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ نے ایسا کیا نہیں ۔ کیونکہ یہ امر آپ کی مرضی پر رکھا گیا تھا۔ یہ بات کسی اور کے لئے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے ۔

چنانچہ حضرت بروع بنت واشق کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے ۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کردیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر و اجب ہو جاتا ہے ۔

 ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو۔ اس لئے کہ آپ کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے ۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں

 کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دے دے۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ تھا۔ اور مؤمنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے ۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں ۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے ۔

قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ

ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ا کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں (احکام) مقرر کر رکھے ہیں یہ اسلئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو

پس اُمت کا تو یہ حکم ہے اور آپ پر اس کی پابندیاں نہیں ۔ تاکہ آپ کو کوئی حرج نہ ہو ۔

وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (۵۰)

اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑے رحم والا ہے۔‏

 اللہ بڑا غفور ورحیم ہے ۔

تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ ۖ

ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے

وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ

اور تو ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں

بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

 میں ان عورتوں پر عار رکھا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کریں اور کہتی تھیں کہ عورتیں بغیر مہر کے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرنے میں شرماتی ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو میں نے کہا کہ آپ کا رب آپ کے لئے کشادگی کرتا ہے ۔

پس معلوم ہوا کہ آیت سے مراد یہی عورتیں ہیں ۔ ان کے بارے میں اللہ کے نبی کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں قبول کریں اور جسے چاہیں قبول نہ فرمائیں ۔ پھر اس کے بعد یہ بھی آپ کے اختیار میں ہے کہ جنہیں قبول نہ فرمایا ہو انہیں جب چاہیں نواز دیں

 عامر شعبی سے مروی ہے کہ جنہیں مؤخر کر رکھا تھا ان میں حضرت اُم شریک تھی ۔

 ایک مطلب اس جملے کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بیویوں کے بارے میں آپ کو اختیار تھا کہ اگر چاہیں تقسیم کریں چاہیں نہ کریں جسے چاہیں مقدم کریں جسے چاہیں مؤخر کریں ۔ اسی طرح خاص بات چیت میں بھی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری عمر برابر اپنی ازواج مطہرات میں عدل کے ساتھ برابری کی تقسیم کرتے رہے ۔

 صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

 اس آیت کے نازل ہو چکنے کے بعد بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اجازت لیا کرتے تھے۔ مجھ سے تو جب دریافت فرماتے میں کہتی اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی اور کے پاس آپ کو ہرگز نہ جانے دوں ۔

 پس صحیح بات جو بہت اچھی ہے اور جس سے ان اقوال میں مطابقت بھی ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت عام ہے ۔ اپنے نفس سونپنے والیوں اور آپ کی بیویوں سب کو شامل ہے ۔ ہبہ کرنے والیوں کے بارے میں نکاح کرنے نہ کرنے اور نکاح والیوں میں تقسیم کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار تھا۔

ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ

اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انہیں دےدے اس پر سب کی سب راضی ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی حکم بالکل مناسب ہے اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سہولت والا ہے ۔ جب وہ جان لیں گی کہ آپ باریوں کے مکلف نہیں ہیں ۔ پھر بھی مساوات قائم رکھتے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی ۔ اور ممنون و مشکور ہوں گی اور آپ کے انصاف و عدل کی داددیں گی ۔

وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ

 تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ (خوب) جانتا ہے ۔

اللہ دلوں کی حالتوں سے واقف ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسے کس کی طرف زیادہ رغبت ہے ۔

 مسند میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ الٰہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کر دیا ۔ اب جو میرے بس میں نہیں اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا

یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں ۔

وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا (۵۱)

اللہ تعالیٰ بڑا ہی علم اور حلم والا ہے۔

اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے ۔ لیکن حلم و کرم والا ہے ۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف فرماتا ہے ۔

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ

اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں

 اور نہ (درست ہے) کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کرے) اگرچہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر جو تیری مملوکہ ہوں

وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا (۵۲)

اور اللہ تعالیٰ ہرچیز کا (پورا) نگہبان ہے۔‏

پہلی آیتوں میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہیں اور اگر چاہیں تو آپ سے علیحدہ ہو جائیں۔ لیکن امہات المؤمنین نے دامن رسول کو چھوڑنا پسند نہ فرمایا۔ اس پر انہیں اللہ کی طرف سے ایک دنیاوی بدلہ یہ بھی ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواس آیت میں حکم ہوا کہ اب اس کے سوا کسی اور عورت سے نکاح نہیں کر سکتے نہ آپ ان میں سے کسی کو چھوڑ کر اس کے بدلے دوسری لاسکتے ہیں گو وہ کتنی ہی خوش شکل کیوں نہ ہو؟

ہاں لونڈیوں اور کنیزوں کی اور بات ہے اس کے بعد پھر رب العالمین نے یہ تنگی آپ پر سے اٹھالی اور نکاح کی اجازت دے دی لیکن خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے کوئی اور نکاح کیا ہی نہیں۔

 اس حرج کے اٹھانے میں اور پھر عمل کے نہ ہونے میں بہت بڑی مصلحت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان اپنی بیویوں پر رہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے:

 آپ کے انتقال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اور عورتیں بھی حلال کر دی تھیں (ترمذی نسائی)

حضرت اُم سلمہؓ سے بھی مروی ہے:

 حلال کرنے والی آیت تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ ہے جو اس آیت سے پہلے گزر چکی ہے بیان میں وہ پہلے ہے اور اترنے میں وہ پیچھے ہے۔ سورہ بقرہ میں بھی اس طرح عدت وفات کی پچھلی آیت منسوخ ہے اور پہلی آیت اس کی ناسخ ہے۔ واللہ اعلم۔

اس آیت کے ایک اور معنی بھی بہت سے حضرات سے مروی ہیں۔ وہ کہتے ہیں مطلب اس سے یہ ہے کہ جن عورتوں کا ذکر اس سے پہلے ہے ان کے سوا اور حلال نہیں جن میں یہ صفتیں ہوں وہ ان کے علاوہ بھی حلال ہیں۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعبؓ سے سوال ہوا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بیویاں تھیں اگر وہ آپ کی موجودگی میں انتقال کرجائیں تو آپ اور عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے تھے؟

 آپ نے فرمایا یہ کیوں؟

 تو سائل نے لَا يَحِلُّ

یہ سن کر حضرت ابیؓ نے فرمایا اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ عورتوں کی جو قِسمیں اس سے پہلے بیان ہوئی ہیں یعنی نکاح کی ہوئی بیویاں، لونڈیاں، چچا کی، پھوپیوں کی ، مامو اور خالاؤں کی بیٹیاں ہبہ کرنے والی عورتیں۔ ان کے سوا جو اور قسم کی ہوں جن میں یہ اوصاف نہ ہوں وہ آپ پر حلال نہیں ہیں۔ (ابن جریر)

ابن عباسؓ سے مروی ہے:

 سوائے ان مہاجرات مؤمنات کے اور عورتوں سے نکاح کرنے کی آپ کو ممانعت کر دی گئی۔ غیر مسلم عورتوں سے نکاح حرام کر دیا گیا قرآن میں ہے وَمَن يَكْفُرْ بِالإِيمَـنِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ  (۵:۵)، یعنی ایمان کے بعد کفر کرنے والے کے اعمال غارت ہیں۔

 پس اللہ تعالیٰ نے آیت إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ… (۵۰)، میں عورتوں کی جن قسموں کا ذکر کیا وہ تو حلال ہیں ان کے ماسوا اور حرام ہیں۔

 مجاہد فرماتے ہیں ان کے سوا ہر قسم کی عورتیں خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ یہودیہ ہوں خواہ نصرانیہ سب حرام ہیں۔

 ابو صالح فرماتے ہیں کہ اعرابیہ اور انجان عورتوں سے نکاح سے روک دیئے گئے۔ لیکن جو عورتیں حلال تھیں ان میں سے اگر چاہیں سینکڑوں کرلیں حلال ہیں۔

 الغرض آیت عام ہے ان عورتوں کو جو آپ کے گھر میں تھیں اور ان عورتوں کو جن کی اقسام بیان ہوئیں سب کو شامل ہے اور جن لوگوں سے اس کے خلاف مروی ہے ان سے اس کے مطابق بھی مروی ہے۔ لہذا کوئی منفی نہیں۔

 ہاں اس پر ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ کو طلاق دے دی تھی پھر ان سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت سودہؓ کے فراق کا بھی ارادہ کیا تھا جس پر انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہؓ کو دے دیا تھا۔

 اس کا جواب امام ابن جریر نے یہ دیا ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔

 بات یہی ہے لیکن ہم کہتے ہیں اس جواب کی بھی ضرورت نہیں۔ اس لئے کہ آیت میں ان کے سوا دوسریوں سے نکاح کرنے اور انہیں نکال کر اوروں کو لانے کی ممانعت ہے نہ کہ طلاق دینے کی ، واللہ اعلم۔

سودہؓ والے واقعہ میں آیت وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ (۴:۱۲۸)، اتری ہے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ ابو داؤد وغیرہ میں مروی ہے۔

ابو یعلی میں ہے:

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی حضرت حفصہؓ کے پاس ایک دن آئے دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں پوچھا کہ شاید تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی۔ سنو اگر رجوع ہو گیا اور پھر یہی موقعہ پیش آیا تو قسم اللہ کی میں مرتے دم تک تم سے کلام نہ کروں گا۔

 آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو زیادہ کرنے سے اور کسی کو نکال کر اس کے بدلے دوسری کو لانے سے منع کیا ہے۔ مگر لونڈیاں حلال رکھی گئیں۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:

 جاہلیت میں ایک خبیث رواج یہ بھی تھا کہ لوگ آپس میں بیویوں کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے یہ اپنی اسے دے دیتا تھا اور وہ اپنی اسے دے دیتا تھا۔ اسلام نے اس گندے طریقے سے مسلمانوں کو روک دیا۔

 ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ عینیہ بن حصن فزاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اور اپنی جاہلیت کی عادت کے مطابق بغیر اجازت لئے چلے آئے۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں۔

 آپ ﷺنے فرمایا تم بغیر اجازت کیوں چلے آئے؟

 اس نے کہا واہ! میں نے تو آج تک قبیلہ مفر کے خاندان کے کسی شخص سے اجازت مانگی ہی نہیں۔

 پھر کہنے لگا یہاں آپ کے پاس کون سی عورت بیٹھی ہوئی تھیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا یہ ام المؤمنین حضرت عائشہ تھیں۔

 تو کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیں میں ان کے بدلے اپنی بیوی آپ کو دیتا ہوں جو خوبصورتی میں بےمثل ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا حرام کر دیا ہے۔

جب وہ چلے گئے تو مائی صاحبہ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون تھا؟

 آپ ﷺنے فرمایا ایک احمق سردار تھا۔ تم نے ان کی باتیں سنیں؟ اس پر بھی یہ اپنی قوم کا سردار ہے۔

 اس روایت کا ایک راوی اسحاق بن عبداللہ بالکل گرے ہوئے درجے کا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ

اے ایمان والو!مت جاؤ گھروں میں نبی کے،مگر جو تم کو حکم ہو کھانے کے واسطے، نہ راہ دیکھتے اسکے پکنے کی،

اس آیت میں پردے کا حکم ہے اور شرعی آداب و احکام کا بیان ہے۔

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق جو آیتیں اتری ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔ بخاری مسلم میں آپ سے مروی ہے کہ تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق ہی رب العالمین کے احکام نازل ہوئے ۔

- میں نے کہا یا رسول اللہ! اگر آپ مقام ابراہیم کو قبلہ بنائیں تو بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم اترا کہ  وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَهِيمَ  (۲:۱۲۵)

- میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں ہر کوئی یعنی چھوٹا بڑا آ جائے آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں تو اچھا ہو پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردے کا حکم نازل ہوا۔

-  جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات غیرت کی وجہ سے کچھ کہنے سننے لگیں تو میں نے کہا کسی غرور میں نہ رہنا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دلوائے گا چنانچہ یہی آیت قرآن میں نازل ہوئی۔

صحیح مسلم میں ایک چوتھی موافقت بھی مذکور ہے وہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ ہے

 اور روایت میں ہے سنہ ۵ ھ ماہ ذی قعدہ میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ہے۔ جو نکاح خود اللہ تعالیٰ نے کرایا تھا اسی صبح کو پردے کی آیت نازل ہوئی ہے۔

 بعض حضرات کہتے ہیں یہ واقعہ سن تین ہجری کا ہے۔ واللہ اعلم۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو لوگوں کی دعوت کی وہ کھا پی کر باتوں میں بیٹھے رہے آپ نے اٹھنے کی تیاری بھی کی۔ پھر بھی وہ نہ اٹھے یہ دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے آپ کے ساتھ ہی کچھ لوگ تو اٹھ کر چل دیئے لیکن پھر بھی تین شخص وہیں بیٹھے رہ گئے اور باتیں کرتے رہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ ابھی تک باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ پھر لوٹ گئے۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو حضرت انسؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ اب آپ آئے گھر میں تشریف لے گئے

حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے بھی جانا چاہا تو آپ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ کر لیا اور یہ آیت اتری

 اور روایت میں ہے:

 حضور ﷺنے اس موقعہ پر گوشت روٹی کھلائی تھی اور حضرت انسؓ کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو بلا لائیں لوگ آتے تھے کھاتے تھے اور واپس جاتے تھے۔ جب ایک بھی ایسا نہ بچا کہ جسے حضرت انسؓ بلاتے تو آپ کو خبر دی آپﷺ نے فرمایا اب دستر خوان بڑھا دو لوگ سب چلے گئے مگر تین شخص باتوں میں لگے رہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے نکل کر حضرت عائشہؓ کے پاس گئے اور فرمایا اسلام علیکم اہل البیت و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔

 انہوں نے جواب دیا وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ فرمایئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے۔

 اسی طرح آپ اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور سب جگہ یہی باتیں ہوئیں۔ اب لوٹ کر جو آئے تو دیکھا کہ وہ تینوں صاحب اب تک گئے نہیں۔ چونکہ آپ میں شرم و حیا لحاظ و مروت بیحد تھا اس لئے آپ کچھ فرما نہ سکے اور پھر سے حضرت عائشہ ؓکے حجرے کی طرف چلے اب نہ جانے میں نے خبر دی یا آپ کو خود خبردار کر دیا گیا کہ وہ تینوں بھی چلے گئے ہیں تو آپ پھر آئے اور چوکھٹ میں ایک قدم رکھتے ہی آپ نے پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیت نازل ہوئی۔

 ایک روایت میں بجائے تین شخصوں کے دو کا ذکر ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے :

 آپﷺ کے کسی نئے نکاح پر حضرت اُم سلیم ؓنے مالیدہ بنا کر ایک برتن میں رکھ کر حضرت انسؓ سے کہا اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاؤ اور کہہ دینا کہ یہ تھوڑا سا تحفہ ہماری طرف سے قبول فرمایئے اور میرا سلام بھی کہہ دینا۔

 اس وقت لوگ تھے بھی تنگی میں۔ میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ام المؤمنین کا سلام پہنچایا اور پیغام بھی۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا اچھا اسے رکھ دو۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا

پھر فرمایا جاؤ فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ بہت سے لوگوں کے نام لئے

اور پھر فرمایا ان کے علاوہ جو مسلمان مل جائے میں نے یہی کیا۔

جو ملا اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھانے کے لئے بھیجتا رہا واپس لوٹا تو دیکھا کہ گھر اور انگنائی اور بیٹھک سب لوگوں سے بھرے ہوئے ہے تقریباً تین سو آدمی جمع ہوگئے تھے

 اب مجھ سے آپ ﷺنے فرمایا آؤ وہ پیالہ اٹھا لاؤ میں لایا تو آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر دعا کی اور جو اللہ نے چاہا۔ آپ نے زبان سے کہا پھر فرمایا چلو دس دس آدمی حلقہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ہر ایک بسم اللہ کہہ کر اپنے اپنے آگے سے کھانا شروع کرو۔

 اسی طرح کھانا شروع ہوا اور سب کے سب کھا چکے تو آپ ﷺنے فرمایا پیالہ اٹھالو

حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے پیالہ اٹھا کر دیکھا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت رکھا اس وقت اس میں زیادہ کھانا تھا یا اب؟

چند لوگ آپ کے گھر میں ٹھہر گئے ان میں باتیں ہو رہی تھیں اور ام المؤمنین دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں ان کا اتنی دیر تک نہ ہٹنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزر رہا تھا لیکن شرم و لحاظ کی وجہ سے کچھ فرماتے نہ تھے اگر انہیں اس بات کا علم ہو جاتا تو وہ نکل جاتے لیکن وہ بےفکری سے بیٹھے ہی رہے۔

 آپﷺ گھر سے نکل کر اور ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ بھی سمجھ گئے بڑے نادم ہوئے اور جلدی سے نکل لئے آپ اندر بڑھے اور پردہ لٹکا دیا۔

میں بھی حجرے میں ہی تھا جب یہ آیت اتری اور آپﷺ اس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے سب سے پہلے اس آیت کو عورتوں نے سنا اور میں تو سب سے اول ان کا سننے والا ہوں۔

 پہلے حضرت زینبؓ کے پاس آپ کا مانگا لے جانے کی روایت آیت فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ (۳۷) کی تفسیر میں گزر چکی ہے اس کے آخر میں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر لوگوں کو نصیحت کی گئی اور ہاشم کی اس حدیث میں اس آیت کا بیان بھی ہے۔

 ابن جریر میں ہے:

 رات کے وقت ازواج مطہرات قضائے حاجت کے لئے جنگل کو جایا کرتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہ تھا آپ فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس طرح نہ جانے دیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر توجہ نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نکلیں تو چونکہ فاروق اعظم کی منشا یہ تھی کہ کسی طرح ازواج مطہرات کا یہ نکلنا بند ہو اس لئے انہیں ان کے قدو قامت کی وجہ سے پہچان کر با آواز بلند کہا کہ ہم نے تمہیں اے سودہ پہچان لیا۔ اس کے بعد پردے کی آیتیں اتریں۔

 اس روایت میں یونہی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے۔ چنانچہ مسند احمد میں حضرت عائشہ کی روایت ہے :

حجاب کے حکم کے بعد حضرت سودہؓ نکلیں

 اس میں یہ بھی ہے کہ یہ اسی وقت واپس آ گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے ۔ ایک ہڈی ہاتھ میں تھی آ کر واقعہ بیان کیا اسی وقت وحی نازل ہوئی جب ختم ہوئی اس وقت بھی ہڈی ہاتھ میں ہی تھی اسے چھوڑی ہی نہ تھی۔

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتوں کی بناء پر باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے۔

 آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عادت سے روکتا ہے جو جاہلیت میں اور ابتداء اسلام میں ان میں تھی کہ بغیر اجازت دوسرے کے گھر میں چلے جانا۔ پس اللہ تعالیٰ اس اُمت کا اکرام کرتے ہوئے اسے یہ ادب سکھاتا ہے۔

 چنانچہ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون ہے کہ خبردار عورتوں کے پاس نہ جاؤ۔

پھر اللہ نے انہیں مستثنیٰ کر لیا جنہیں اجازت دے دی جائے۔ تو فرمایا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دیجائے۔ کھانے کے لئے ایسے وقت پر نہ جاؤ کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو۔

 مجاہد اور قتادہ فرماتے ہیں:

 کھانے کے پکنے اور اس کے تیار ہونے کے وقت ہی نہ پہنچو۔ جب سمجھا کہ کھانا تیار ہو گا۔ جا گھسے یہ خصلت اللہ کو پسند نہیں۔

یہ دلیل ہے طفیلی بننے کی حرمت پر۔

امام خطیب بغدادی نے اس کی مذمت میں پوری ایک کتاب لکھی ہے۔

وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ

 لیکن جب بلائے تب جاؤ، اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو،

 پھر فرمایا جب بلائے جاؤ تم پھر جاؤ اور جب کھا چکو تو نکل جاؤ۔ باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو۔

صحیح مسلم شریف میں ہے:

 تم میں سے کسی کو جب اس کا بھائی بلائے تو اسے دعوت قبول کرنی چاہئے خواہ نکاح کی ہو یا کوئی اور

 اور حدیث میں ہے:

 اگر مجھے فقط ایک کھر کی دعوت دی جائے تو بھی میں اسے قبول کروں گا۔

إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ

 نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا

دستور دعوت بھی بیان فرمایا کہ جب کھا چکو تو اب میزبان کے ہاں چوکڑی مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ بلکہ وہاں سے چلے جاؤ۔ باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو۔ جیسے ان تین شخصوں نے کیا تھا۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی لیکن شرمندگی اور لحاظ سے آپ کچھ نہ بولے،

اسی طرح مطلب یہ بھی ہے کہ تمہارا بے اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں چلے جانا آپ پر شاق گزرتا ہے لیکن آپ بوجہ شرم و حیا کے تم سے کہہ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف فرما رہا ہے کہ اب سے ایسا نہ کرنا۔ وہ حق حکم سے حیا نہیں کرتا۔

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ

جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو

تمہیں جس طرح بے اجازت آپ کی بیویوں کے پاس جانا منع ہے اسی طرح ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے۔ اگر تمہیں ان سے کوئی ضروری چیز لینی دینی بھی ہو تو پس پردہ لین دین ہو۔

ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مالیدہ کھا رہے تھے حضرت عمرؓ کو بھی بلا لیا آپ بھی کھانے بیٹھ گئے۔ حضرت صدیقہؓ پہلے ہی سے کھانے میں شریک تھیں حضرت عمرؓ ازواج مطہرات کے پردے کی تمنا میں تھے کھاتے ہوئے انگلیوں سے انگلیاں لگ گئیں تو بےساختہ فرمانے لگے کاش کہ میری مان لی جاتی اور پردہ کرایا جاتا تو کسی کی نگاہ بھی نہ پڑتی اس وقت پردے کا حکم اترا۔

ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ

تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے

 پھر پردے کی تعریف فرما رہا ہے کہ مردوں عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی کا یہ ذریعہ ہے۔

وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ

اور نہ تمہیں جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔

کسی شخص نے آپ کی کسی بیوی سے آپ کے بعد نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہو گا اس آیت میں یہ حرام قرار دیا گیا ۔

 چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں زندگی میں اور جنت میں بھی آپ کی بیویاں ہیں اور جملہ مسلمانوں کی وہ مائیں ہیں اس لئے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا محض حرام ہے۔ یہ حکم ان بیویوں کے لئے جو آپ کے گھر میں آپ کے انتقال کے وقت تھیں سب کے نزدیک اجماعاً ہے

لیکن جس بیوی کو آپ نے اپنی زندگی میں طلاق دے دی اور اس سے میل ہو چکا ہو تو اس سے کوئی اور نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟

 اس میں دو مذہب میں اور جس سے دخول نہ کیا اور طلاق دے دی ہو اس سے دوسرے لوگ نکاح کر سکتے ہیں۔

قیلہ بنت اشعث بن قیس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آ گئی تھی آپ ﷺکے انتقال کے بعد اس نے عکرمہ بن ابوجہل سے نکاح کر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ پر یہ گراں گزرا لیکن حضرت عمر ؓنے سمجھایا کہ اے خلیفہ رسول یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی نہ تھی نہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا نہ اسے پردہ کا حکم دیا اور اس کی قوم کے ارتداد کے ساتھ ہیں اس کے ارتداد کی وجہ سے اللہ نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بری کر دیا یہ سن کر حضرت صدیق ؓکا اطمینان ہو گیا۔

إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا (۵۳)

یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

پس ان دونوں باتوں کی برائی بیان فرماتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینا ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کر لینا یہ دونوں گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے ہیں،

إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (۵۴)

تم کسی چیز کو ظاہر کر دو چھپا کر رکھو اللہ تو ہرچیز کا بخوبی علم رکھنے والا ہے۔‏

تمہاری پوشیدگیاں اور علانیہ باتیں سب اللہ پر ظاہر ہیں، اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔ آنکھوں کی خیانت کو ، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے ارادوں کو وہ جانتا ہے۔

لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ

ان عورتوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں اور اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (میل جول کی) عورتوں اور ملکیت کے ماتحتوں (لونڈی غلام) کے سامنے ہوں

پردہ کی تفصیلات

چونکہ اوپر کی آیتوں میں اجنبیوں سے پردے کا حکم ہوا تھا اس لئے جن قریبی رشتہ داروں سے پردہ نہ تھا ان کا بیان اس آیت میں کر دیا۔

سورہ نور میں بھی اسی طرح فرمایا :

وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ ۔۔۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلَى عَوْرَتِ النِّسَآءِ (۲۴:۳۱)

عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں ، باپوں ، سسروں، لڑکوں، خاوند کے لڑکوں ، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں، عورتوں اور ملکیت جن کی ان کے ہاتھوں میں ہو۔

ان کے سامنے یا کام کاج کرنے والے غیر خواہشمند مردوں یا کمسن بچوں کے سامنے۔

 اس کی پوری تفسیر اس آیت کے تحت میں گزر چکی ہے۔

چچا اور ماموں کا ذکر یہاں اس لئے نہیں کیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے لڑکوں کے سامنے ان کے اوصاف بیان کریں۔

حضرت شعبی اور حضرت عکرمہ تو ان دونوں کے سامنے عورت کا دوپٹہ اتارنا مکروہ جانتے تھے۔

 نِسَائِهِنَّ سے مراد مؤمن عورتیں ہیں۔

 ماتحت سے مراد لونڈی غلام ہیں۔

جیسے کہ پہلے ان کا بیان گزر چکا ہے اور حدیث بھی ہم وہیں وارد کر چکے ہیں۔

 سعید بن مسیب فرماتے ہیں اس سے مراد صرف لونڈیاں ہی ہیں۔

وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا (۵۵)

 (عورتو!) اللہ سے ڈرتی رہو۔ اللہ تعالیٰ یقیناً ہرچیز پر شاہد ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو۔ اللہ ہرچیز پر شاہد ہے۔ چھپا کھلا سب اسے معلوم ہے۔ اس موجود اور حاضر کا خوف رکھو اور اس کا لحاظ کرتی رہو۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔

صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو العالیہ سے مروی ہے:

اللہ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اپنے فرشتوں کے سامنے آپ کی ثناء و صفت کا بیان کرنا ہے اور فرشتوں کا درود آپ کے لئے دعا کرنا ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یعنی برکت کی دعا۔

 اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اللہ کا درود رحمت ہے فرشتوں کا درود استغفار ہے۔

 عطا فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی صلوٰۃ سبوح قدوس سبقت رحمتی غضبی ہے۔

 مقصود اس آیت شریفہ سے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت عزت و مرتبت لوگوں کی نگاہوں میں جچ جائے وہ جان لیں کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کا ثناء خواں ہے اور اس کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (۵۶)

 اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔

 ملاء اعلیٰ کی یہ خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ تم بھی آپ پر درود و سلام بھیجا کرو تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی کے لوگوں کا اس پر اجتماع ہو جائے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے پوچھا تھا کہ کیا اللہ تم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے؟

 تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ ان سے کہہ دو کہ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر رحمت بھیجتا رہتا ہے۔ اسی کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے

 دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہی رحمت اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں پر بھی نازل فرماتا ہے ارشاد ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ـ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ـ هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ (۳۳:۴۱،۴۳)

اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے رہا کرو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو وہ خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی

اور کہا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم آپ پر سلام کہنا تو جانتے ہیں درود سکھا دیجئے تو آپ نے فرمایا یوں کہو:

اللھم اجعل صلواتک ورحمتک وبرکاتک علی محمد وعلی ال محمد کما جعلتھا علی ابراہیم وال ابراہیم انک حمید مجید

اس کا ایک راوی ابوداؤد اعمیٰ جس کا نام نفیع بن حارث ہے وہ متروک ہے۔

حضرت علی ؓسے لوگوں کو اس دعا کا سکھانا بھی مروی ہے۔ مگر اس کی سند ٹھیک نہیں اس کا راوی ابو الحجاج مزی سلامہ کندی نہ تو معروف ہے نہ اس کی علامات حضرت علیؓ سے ثابت ہے ۔

اللھم داحی المدحوات وباری المسموکات وجبار القلوب علی فطرتھا شقیتھا وسعیدھا اجعل شرائف صلواتک ونواحی برکاتک وفضائل الائک علی محمد عبدک ورسولک

الفاتح لما اغلق والخاتم لما سبق والمعلن الحق بالحق والدامغ لجیشات الاباطیل کما حمل فاضطلع بامرک بطاعتک مستوفزا فی مرضاتک غیر نکل فی قدم

ولا وھن فی عزم واعیا لوحیک حافظا لعھدک ماضیا علی نفاذ أمرک حتی اوریٰ قبسا لقباس الاء اللہ تصل باھلہ اسبابہ بہ ھدیت القلوب بعد خوضات الفتن

والاثم وابھج موضحات الاعلام ونائرات الاحکام ومنیرات الاسلام فھو امینک المامون وخازن علمک المخزون وشھیدک یوم الدین وبعیثک نعمتہ ورسولک بالحق رحمتہ

 اللھم افسح لہ فی عدنک واجزہ مضاعفات الخیر من فضلک لہ مھنات غیر مکدرات من فوز ثوابک المعلول وجزیل عطائک المحلول

اللھم أعل علی بناء الناس بناءہ واکرم مثواہ لدیک ونزلہ واثمم لہ نورہ واجزہ من ابطغائک لہ مقبول الشھادۃ مرضی المقالتہ ذا منطق عدل وخطتہ فصل وحجتہ وبرھان عظیم

ابن ماجہ میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں:

 جب تم حضور ﷺ پر درود بھیجو تو بہت اچھا درود پڑھا کرو۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہ درود حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے۔

 لوگوں نے کہا پھر آپ ہی ہمیں کوئی ایسا درود سکھائیےآپ نے فرمایا بہتر ہے یہ پڑھو:

اللھم اجعل صلوتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین وامام المتقین وخاتم النبیین محمد عبدک ورسولک امام الخیر وقائد الخیر ورسول الرحمۃ اللھم ابعثہ مقاما محمودا یغبطہ بہ الاولون ولاخرون

اس کے بعد التحیات کے بعد کے دونوں درود ہیں۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ،كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ،إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ،كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ،إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد

ابن جریر کی ایک روایت میں ہے:

 حضرت یونس بن خباب نے اپنے فارس کے ایک خطبے میں اس آیت کی تلاوت کی۔ پھر لوگوں کے درود کے طریقے کے سوال کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں وارحم محمدا وال محمد کما رحمت ال ابراہیم کو بھی بیان فرمایا ہے۔ اس سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ کے لئے رحم کی دعا بھی ہے۔

 جمہور کا یہی مذہب ہے۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ ایک اعربی نے اپنی دعا میں کہا تھا اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر تو آپ نے اسے فرمایا تو نے بہت ہی زیادہ کشادہ چیز تنگ کر دی۔

قاضی عیاض نے جمہور مالکیہ سے اس کا عدم جواز نقل کیا ہے۔ ابو محمد بن ابو زید بھی اس کے جواز کی طرف گئے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

 جب تک کوئی شخص مجھ پر درد بھیجتا رہتا ہے تب تک فرشتے بھی اس کے لئے دعا رحم کرتے رہتے ہیں۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ کمی کرو یا زیادتی کرو۔ (ابن ماجہ)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 سب سے قریب روز قیامت مجھ سے وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھا کرتا تھا۔ (ترمذی)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 مجھ پر جو ایک مرتبہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں بھیجتا ہے

 اس پر ایک شخص نے کہا پھر میں اپنی دعا کا آدھا وقت درود میں ہی خرچ کروں گا۔

 فرمایا جیسی تیری مرضی

 اس نے کہا پھر میں دو تہائیاں کرلوں؟

 آپ نے فرمایا اگر چاہے

 اس نے کہا پھر تو میں اپنا سارا وقت اس کے لئے ہی کر دیتا ہوں

 آپ ﷺنے فرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ تجھے دین و دنیا کے غم سے نجات دے دے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا۔ (ترمذی)

ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے :

 آدھی رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلتے اور فرماتے ہیں ہلا دینے والی آرہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی بھی ہے۔

حضرت ابی نے ایک مرتبہ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں رات کو کچھ نماز پڑھا کرتا ہوں۔ تو اس کا تہائی حصہ آپ پر درود پڑھتا رہوں؟

 آپ نے فرمایا آدھا حصہ۔

 انہوں نے کہا کہ آدھا کرلوں ؟

 فرمایا دو تہائی

کہا اچھا میں پورا وقت اسی میں گزاروں گا۔

 آپ نے فرمایا تب تو اللہ تیرے تمام گناہ معاف فرما دے گا  (ترمذی)

اسی روایت کی ایک اور سند میں ہے:

 دو تہائی رات گزرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ کی یاد کرو۔ لوگو ذکر الہٰی  کرو۔دیکھو کپکپا دینے والی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ رہی ہے۔ موت اپنے ساتھ کی کل مصیبتوں اور آفتوں کو لئے ہوئے چلی آ رہی ہے۔

حضرت ابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ پر بکثرت درود پڑھتا ہوں پس کتنا وقت اس میں گزاروں؟

آپ نے فرمایا جتنا تو چاہے۔

کہا چوتھائی؟

 فرمایا جتنا چاہو اور زیادہ کرو تو اور اچھا ہے۔

کہا آدھا تو یہی جواب دیا

پوچھا دو تہائی تو یہی جواب ملا۔

 کہا تو بس میں سارا ہی وقت اس میں گزاروں گا

فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تجھے تیرے تمام ہم و غم سے بچا لے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا۔ (ترمذی)

ایک شخص نے آپ سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اپنی تمام تر صلوۃ آپ ہی پر کر دوں تو؟

آپ نے فرمایا دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد پورے ہو جائیں گے (مسند احمد)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف فرماتے ہیں:

 آپ ایک مرتبہ گھر سے نکلے۔ میں ساتھ ہو لیا آپ کھجوروں کے ایک باغ میں گئے وہاں جا کر سجدے میں گر گئے اور اتنا لمبا سجدہ کیا، اس قدر دیر لگائی کہ مجھے تو یہ کھٹکا گزرا کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کر گئی ہو۔ قریب جا کر غور سے دیکھنے لگا اتنے میں آپ نے سر اٹھایا مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟

 تو میں نے اپنی حالت ظاہر کی۔

 فرمایا بات یہ تھی کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمایا تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ جناب باری عزاسمہ فرماتا ہے جو تجھ پر درود بھیجے گا میں بھی اس پر درود بھیجوں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں بھی اس پر سلام بھیجوں گا۔ (مسند احمد بن حنبل)

اور روایت میں ہے :

 یہ سجدہ اس امر پر اللہ کے شکریے کا تھا۔

 ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام کے لئے نکلے کوئی نہ تھا جو آپ کے ساتھ جاتا تو حضرت عمر ؓ جلدی سے پیچھے پیچھے گئے۔ دیکھا کہ آپ سجدے میں ہیں، دور ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔ آپ نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھ کر فرمایا تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ مجھے سجدے میں دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔ سنو میرے پاس جبرائیل آئے اور فرمایا :

آپ کی اُمت میں سے جو ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے گا۔ اللہ اس پر دس رحمتیں اتارے گا اور اس کے دس درجے بلند کرے گا۔ (طبرانی)

ایک مرتبہ آپ اپنے صحابہ کے پاس آئے ۔ چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔ صحابہ نے سبب دریافت کیا تو فرمایا :

ایک فرشتے نے آ کر مجھے یہ بشارت دی کہ میرا اُمتی جب مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں اس پر اتریں گی۔ اسی طرح ایک سلام کے بدلے دس سلام (نسائی)

اور روایت میں ہے:

 ایک درود کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی، دس گناہ معاف ہوں گے ، دس درجے بڑھیں گے اور اسی کے مثل اس پر لوٹایا جائے گا (مسند)

جو شخص مجھ پر ایک درود بھیجے گا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا (مسلم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

مجھ پر درود بھیجا کرو وہ تمہارے لئے زکوٰۃ ہے اور میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو وہ جنت میں ایک اعلیٰ درجہ ہے جو ایک شخص کو ہی ملے گا کیا عجب کہ وہ میں ہی ہوں (احمد)

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کا قول ہے :

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم وسلم پر جو درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر درود بھیجتے ہیں۔ اب جو چاہے کم کرے اور جو چاہے اس میں زیادتی کرے

 سنو ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ایسے کہ گویا کوئی کسی کو رخصت کر رہا ہو۔ تین بار فرمایا کہ

- میں اُمی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔

- میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

- مجھے نہایت کھلا بہت جامع اور ختم کر دینے والا کلام دیا گیا ہے۔

-  مجھے جہنم کے داروغوں کی عرش کے اٹھانے والوں کی گنتی بتا دی گئی ہے۔

-  مجھ پر خاص عنایت کی گئی ہے اور مجھے اور میری اُمت کو عافیت عطا فرمائی گئی ہے۔

-  جب تک میں تم میں موجود ہوں سنتے اور مانتے رہو۔

- جب مجھے میرا رب لے جائے تو تم کتاب اللہ کو مضبوط تھامے رہنا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھنا۔ (مسند احمد)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اسے چاہئے کہ مجھ پر درود بھیجے۔ ایک مرتبہ کے درود بھیجنے سے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ (ابوداؤد طیالسی)

ایک درود دس رحمتیں دلواتا ہے اور دس گناہ معاف کراتا ہے (مسند)

بخیل ہے وہ جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا۔ (ترمذی)

اور روایت میں ہے ایسا شخص سب سے بڑا بخیل ہے۔

 ایک مرسل حدیث میں ہے:

 انسان کو یہ بخل کافی ہے کہ میرا نام سن کر درود نہ پڑھے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

- وہ شخص برباد ہوا جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔

-  وہ برباد ہوا جس کی زندگی میں رمضان آیا اور نکل جانے تک اس کے گناہ معاف نہ ہوئے۔

- وہ بھی برباد ہوا جس نے اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کے زمانے کو پا لیا پھر بھی انہوں نے اسے جنت میں نہ پہنچایا۔ (ترمذی)

یہ حدیثیں دلیل ہیں اس امر پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب ہے۔ علماء کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے۔ جیسے طحاوی حلیمی وغیرہ۔

ابن ماجہ میں ہے:

 جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا اس نے جنت کی راہ سے خطا کی۔

یہ حدیث مرسل ہے۔ لیکن پہلی احادیث سے اس کی پوری تقویت ہو جاتی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں مجلس میں ایک دفعہ تو واجب ہے پھر مستحب ہے۔

 چنانچہ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے:

 جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کے ذکر اور درود کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر وبال ہو جائے گی۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے چاہے معاف کر دے

اور روایت میں ذکر اللہ کا ذکر نہیں۔

 اس میں یہ بھی ہے کہ گو وہ جنت میں جائیں لیکن محرومی ثواب کے باعث انہیں سخت افسوس رہے گا۔

بعض کا قول ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ آپ پر درود واجب ہے پھر مستحب ہے تاکہ آیت کی تعمیل ہو جائے۔

قاضی عیاض نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے وجوب کو بیان فرما کر اسی قول کی تائید کی ہے۔ لیکن طبری فرماتے ہیں کہ آیت سے تو استحاب ہی ثابت ہوتا ہے اور اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا مطلب بھی یہی ہو کہ ایک مرتبہ واجب پھر مستحب جیسے آپ کی نبوت کی گواہی۔ لیکن میں کہتا ہوں بہت سے ایسے اوقات ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا ہمیں حکم ملا ہے لیکن بعض وقت واجب ہے اور بعض جگہ واجب نہیں۔

چنانچہ

- اذان سن کر

دیکھئے مسند کی حدیث میں ہے :

جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو تم بھی کہو پھر مجھ پر درود بھیجو ایک کے بدلے دس درود اللہ تم پر بھیجے گا پھر میرے لئے وسیلہ مانگو جو جنت کی ایک منزل ہے اور ایک ہی بندہ اس کا مستحق ہے مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں سنو جو میرے لئے وسیلہ کی دعا کرتا ہے اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے۔

 پہلے درود کے زکوٰۃ ہونے کی حدیث میں بھی اس کا بیان گزر چکا ہے۔

 فرمان ہے:جو شخص درود بھیجے اور کہے اللھم انزلہ المقعد المقرب عندک یوم القیامتہ اس کے لئے میری شفاعت قیامت کے دن واجب ہو جائے گی۔ (مسند)

- مسجد میں جانے اور مسجد سے نکلنے کے وقت

مسند میں ہے:

حضرت فاطمہؓ فرماتی ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جاتے تو درود و سلام پڑھ کر یہ پڑھتے۔

اللْهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِك

اور جب مسجد سے نکلتے تو درود و سلام کے بعدیہ پڑھتے۔

اللْهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِك

حضرت علی رضی اللہ عنہ کافرمان ہے جب مسجدوں میں جاؤ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کرو۔

- نماز کے آخری قعدہ میں التحیات کا دورد۔

 اس کی بحث پہلی گزر چکی ۔

 ہاں اول تشہد میں اسے کسی نے واجب نہیں کہا۔ البتہ مستحب ہونے کا ایک قول شافعیؒ کا ہے۔ گو دوسرا قول اس کے خلاف بھی انہی سے مروی ہے۔

- جنازے کی نماز میں آپ پر درود پڑھنا۔

سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ پڑھے۔

 دوسری میں درود پڑھ۔

چوتھی میں اللھم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ ، پڑھے۔

 ایک صحابی کا قول ہے کہ مسنون نماز جنازہ یوں ہے کہ امام تکبیر کہہ کر آہستہ سلام پھیر دے۔ (نسائی)

- عید کی نماز میں

حضرت ابن مسعودؓ ، حضرت ابو موسیٰؓ اور حضرت حذیفہؓ کے پاس آ کر ولید بن عقبہ کؓہتا ہے عید کا دن ہے بتلاؤ تکبیروں کی کیا کفیت ہے؟

عبد اللہ ؓنے فرمایا :

- تکبیر تحریمہ کہہ کر اللہ کی حمد کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دود بھیج دعا مانگ

-  پھر تکبیر کہہ کر یہی کر۔

- پھر تکبیر کہہ کر یہی کر۔

-  پھر تکبیر کہہ کر یہی کر۔

-  پھر تکبیر کہہ کر یہی کر

-  پھر قرأت کر

- پھر تکبیر کہہ کر رکوع کر

- پھر کھڑا ہو کر پڑھ اور اپنے رب کی حمد بیان کر اور حضور پر صلوٰۃ پڑھ اور دعا کر

-  اور تکبیر کہہ اور اسی طرح کر پھر رکوع میں جا۔

حضرت حذیفہ اور حضرت ابوموسیٰ نے بھی اس کی تصدیق کی۔

- دعا کے خاتمے پر

 ترمذی میں حضرت عمر ؓکا قول ہے:

 دعا آسمان و زمین میں معلق رہتی ہے یہاں تک کہ تو درود پڑھے تب چڑھتی ہے۔

 ایک روایت مرفوع بھی اسی طرح کی آئی ہے اس میں یہ بھی ہے :

 دعا کے اول میں، درمیان میں اور آخر میں درود پڑھ لیا کرو۔

 ایک غریب اور ضعیف حدیث میں ہے :

 مجھے سوار کے پیالے کی طرح نہ کر لو کہ جب وہ اپنی تمام ضروری چیزیں لے لیتا ہے تو پانی کا کٹورہ بھی بھر لیتا ہے اگر وضو کی ضرورت پڑی تو وضو کر لیا، پیاس لگی تو پانی پی لیا ورنہ پانی بہاد دیا۔

 دعا کی ابتداء میں دعا کے درمیان میں اور دعا کے آخر میں مجھ پر درود پڑھا کرو۔ خصوصاً دعائے قنوت میں درود کی زیادہ تاکید ہے۔

حضرت حسن فرماتے ہیں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں وتروں میں پڑھا کرتا ہوں۔ (اہل السنن)

اللْهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ،

وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ،

وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ،

وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ،

تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْت

نسائی کی روایت میں آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّد

- جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں

مسند احمد میں ہے:

 سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم ؑپیدا کئے گئے، اسی میں قبض کئے گئے، اسی میں نفحہ ہے، اسی میں بیہوشی ہے۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں۔

 صحابہ نے پوچھا آپ تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ پر کیسے پیش کئے جائیں گے؟

 آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا۔

ابوداؤد نسائی میں بھی یہ حدیث ہے۔

 ابن ماجہ میں ہے:

 جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو

 پوچھا گیا موت کے بعد بھی؟

فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں۔

 یہ حدیث غریب ہے اور اس میں انتقطاع ہے۔ عبادہ بن نسی نے حضرت ابوالدرداء کو پایا نہیں۔ واللہ اعلم۔

بیہقی میں بھی حدیث ہے کہ جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر بکثرت درود بھیجو لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔

 ایک روایت میں ہے اس کا جسم زمین نہیں کھاتی جس سے روح القدس نے کلام کیا ہو۔ لیکن یہ حدیث مرسل ہے۔

ایک مرسل حدیث میں بھی جمعہ کے دن اور رات میں درود کی کثرت کا حکم ہے۔

اسی طرح خطیب پر بھی دونوں خطبوں میں درود و واجب ہے اس کے بغیر صحیح نہ ہوں گے اس لئے کہ یہ عبادت ہے اور اس میں ذکر اللہ واجب ہے پس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی واجب ہو گا۔ جیسے اذان و نماز

 شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے

- آپ کی قبر شریف کی زیارت کے وقت

ابوداؤد میں ہے :

جو مسلمان مجھ پر سلام پڑھتا ہے۔ اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔

 ابو داؤد میں ہے:

 اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ میری قبر پر عرس میلہ نہ لگاؤ۔ ہاں مجھ پر درود پڑھو گو تم کہیں بھی ہولیکن تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔

قاضی اسماعیل بن اسحاق اپنی کتاب فضل الصلوۃ میں ایک روایت لائے ہیں:

 ایک شخص ہر صبح روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا اور درود سلام پڑھتا تھا۔ ایک دن اس سے حضرت علی بن حسین بن علی نے کہا تم روز ایسا کیوں کرتے ہو؟

اس نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا مجھے بہت مرغوب ہے۔

 آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں میں نے اپنے باپ سے انہوں نے میرے دادا سے سنا ہے کہ رسول اللہﷺفرمایا:

 میری قبر کو عید نہ بناؤ۔ نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ جہاں کہیں تم ہو وہیں سے مجھ پر درود و سلام بھیجو وہ مجھے پہنچ جاتے ہیں۔

 اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام مذکور نہیں اور سند سے یہ روایت مرسل مروی ہے۔

حسن بن حسن بن علی سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ کی قبر کے پاس کچھ لوگوں کو دیکھ کر انہیں یہ حدیث سنائی کہ آپ کی قبر پر میلہ لگانے سے آپ نے روک دیا ہے۔ ممکن ہے ان کی کسی بے ادبی کی وجہ سے یہ حدیث آپ کو سنانے کی ضرورت پڑی ہو مثلاً وہ بلند آواز سے بول رہے ہوں۔

یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر پے درپے آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ تو اور جو شخص اندلس میں ہے جہاں کہیں تم ہو وہیں سے سلام بھیجو تمہارے سلام مجھے پہنچا دیئے جاتے ہیں۔

 طبرانی میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ یہ خاص راز ہے اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں بھی نہ بتاتا۔ سنو میرے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جب میرا ذکر کسی مسلمان کے سامنے کیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں اللہ تجھے بخشے۔ اور خود اللہ اور اس کے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔

یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے۔

مسند احمد میں ہے:

 اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے رہتے ہیں میری اُمت کے سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں۔

نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے۔

 ایک حدیث میں ہے:

 جو میری قبر کے پاس سے مجھ پر سلام پڑھتا ہے اسے میں سنتا ہوں اور جو دور سے سلام بھیجتا ہے اسے میں پہنچایا جاتا ہوں۔

یہ حدیث سنداً صحیح نہیں محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے۔

ہمارے ساتھیوں کا قول ہے کہ احرام والا جب لبیک پکارے تو اسے بھی درود پڑھنا چاہئے۔

 دارقطنی وغیرہ میں قاسم بن محمد بن اببوکر صدیق کا فرمان مروی ہے کہ لوگوں کو اس بات کا حکم کیا جاتا تھا۔

صحیح سند سے حضرت فاروق اعظم ؓکا قول مروی ہے:

- جب تم مکہ پہنچو تو سات مرتبہ طواف کرو،

- مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرو۔

- پھر صفا پر چڑھو اتنا کہ وہاں سے بیت اللہ نظر آئے وہاں کھڑے رہ کر سات تکبیریں کہو ان کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء بیان کرو اور درود پڑھو۔ اور اپنے لئے دعا کرو پھر مروہ پر بھی اسی طرح کرو ۔

ہمارے ساتھیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ذبح کے وقت بھی اللہ کے نام کے ساتھ درود پڑھنا چاہئے۔ آیت ورفعنا لک ذکرک سے انہوں نے تائید چاہی ہے کیونکہ اس کی تفسیر میں ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر کیا جائے وہیں آپ کا نام بھی لیا جائے گا جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں یہاں صرف ذکر اللہ کافی ہے۔ جیسے کھانے کے وقت اور جماع کے وقت وغیرہ وغیرہ کہ ان اوقات میں درود کا پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہوا۔

 ایک حدیث میں ہے:

 اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر بھی صلوٰۃ و سلام بھیجو وہ بھی میری طرح اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں

 لیکن اس کی سند میں دو ضعیف راوی ہیں عمر بن ہارون اور ان کے استاد۔

کان کی سنسناہٹ کے وقت بھی درود پڑھنا ایک حدیث میں ہے۔

 اگر اس کی اسناد صحیح ثابت ہو جائے تو صحیح

ابن خزیمہ میں ہے:

 جب تم میں سے کسی کے کان میں سرسراہٹ ہو تو مجھے ذکر کرکے درود پڑھے اور کہے کہ جس نے مجھے بھلائی سے یاد کیا اسے اللہ بھی یاد کرے

 اس کی سند غریب ہے اور اس کے ثبوت میں نظر ہے۔

مسئلہ:

اہل کتاب اس بات کو مستحب جانتے ہیں کہ کاتب جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھے صلی اللہ علیہ وسلم لکھے۔

ایک حدیث میں ہے:

 جو شخص کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھے اس کے درود کا ثواب اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ کتاب رہے

 لیکن کئی وجہ سے یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ امام ذہبی کے استاد تو اسے موضوع کہتے ہیں۔ یہ حدیث بہت سے طریق سے مروی ہے لیکن ایک سند بھی صحیح نہیں۔

 امام خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب آداب الرادی والسامع میں لکھتے ہیں میں نے امام احمد کی دستی لکھی ہوئی کتاب میں بہت جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیکھا جہاں درود لکھا ہوا نہ تھا آپ زبانی درود پڑھ لیا کرتے تھے۔

فصل:

نبیوں کے سوا غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنا اگر تبعاً ہو تو بیشک جائز ہے۔ جیسے حدیث میں ہے:

 اللھم صل علی محمد والہ وازواجہ و ذریتہ۔

 ہاں صرف غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنے میں اختلاف ہے۔

 بعض تو اسے جائز بتاتے ہیں اور دلیل میں آیت ھوالذی یصلی علیکم الخ اور اولئک علیھم صلوات اور وصل علیھم پیش کرتے ہیں

اور یہ حدیث بھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قوم کا صدقہ آتا تو آپ فرماتے اللھم صل علیھم چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں جب میرے والد آپ کے پاس اپنا صدقے کا مال لائے تو آپ نے فرمایا اللھم صل علی ال ابی اوفی بخاری و مسلم۔

ایک اور حدیث میں ہے :

 ایک عورت نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے خاوند پر صلوت بھیجئے تو آپ نے فرمایا صلی اللہ علیہ و علی زوجک

لیکن جمہور علماء اس کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء کے سوا اوروں پر خاصتہ صلوٰۃ بھیجنا ممنوع ہے۔ اس لئے کہ اس لفظ کا استعمال انبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام کیلئے اس قدر بکثرت ہوگیا ہے کہ سنتے ہی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ نام کسی نبی کا ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ غیر نبی کیلئے یہ الفاظ نہ کہے جائیں۔ مثلاً ابوبکر صل اللہ علیہ یا علی صلی اللہ علیہ نہ کہا جائے گو معنی اس میں کوئی قباحت نہیں جیسے محمد عزوجل نہیں کہا جاتا۔ حالانکہ ذی عزت اور ذی مرتبہ آپ بھی ہیں اس لئے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے مشہور ہوچکے ہیں اور کتاب و سنت میں صلوٰۃ کا جو استعمال غیر انبیاء کیلئے ہوا ہے وہ بطور دعا کے ہے ۔ اسی وجہ سے آل ابی اوفی کو اس کے بعد کسی نے ان الفاظ سے یاد نہیں کیا نہ حضرت جابر اور ان کی بیوی کو۔ یہی مسلک ہمیں بھی اچھا لگتا ہے، واللہ اعلم۔

بعض ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ غیر انبیاء کیلئے یہ الفاظ صلوٰۃ استعمال کرنا بددینوں کا شیوہ ہوگیا ہے۔ وہ اپنے بزرگوں کے حق میں یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں پاس ان کی اقتدا ہمیں نہ کرنی چاہئے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ مخالفت کس درجے کی ہے حرمت کے طور پر یا کراہیت کے طور پر یا خلاف اولیٰ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے۔ اس لئے کہ بدعتیوں کا طریقہ ہے جس پر ہمیں کاربند ہونا ٹھیک نہیں اور مکروہ وہی ہوتا ہے جس میں نہی مقصود ہو۔

 زیادہ تر اعتبار اس میں اسی پر ہے کہ صلوٰۃ کا لفظ سلف میں نبیوں پر ہی بولا جاتا رہا جیسے کہ عزوجل کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کیلئے بولا جاتا رہا۔

 اب رہا سلام سو اس کے بارے میں شیخ ابو محمد جوینی فرماتے ہیں کہ یہ بھی صلوٰۃ کے معنی میں ہے پس غائب پر اس کا استعمال نہ کیا جائے اور جو نبی نہ ہو اس کیلئے خاصتہً اسے بھی نہ بولا جائے۔ پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے۔ زندوں اور مردوں کا یہی حکم ہے۔ ہاں جو سامنے موجود ہو اس سے خطاب کرکے سلام علیک یا سلام علیکم یا السلام علیک یا علیکم کہنا جائز ہے اور اس پر اجماع ہے۔

یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عموماً مصنفین کے قلم سے علی علیہ السلام نکلتا ہے یا علی کرم اللہ وجہہ نکلتا ہے گو معنی اس میں کوئی حرج نہ ہو لیکن اس سے اور صحابہ کی جناب میں ایک طرح کی سوء ادبی پائی جاتی ہے۔ ہمیں سب صحابہ کے ساتھ حسن عقیدت رکھنی چاہئے۔ یہ الفاظ تعظیم و تکریم کے ہیں اس لئے حضرت علی سے زیادہ مستحق ان کے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔

 حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے:

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ نہ بھیجنی چاہئے۔ ہاں مسلمان مردوں عورتوں کیلئے دعا مغفرت کرنی چاہئے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا :

 بعض لوگ آخرت کے اعمال سے دنیا کے جمع کرنے کی فکر میں ہیں اور بعض مولوی واعظ اپنے خلیفوں اور امیروں کیلئے صلوٰۃ کے ہی الفاظ بولتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تھے۔ جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو انہیں کہہ دینا کہ صلوٰۃ صرف نبیوں کیلئے ہیں اور عام مسلمانوں کیلئے اس کے سوا جو چاہیں دعا کریں۔

حضرت کعب کہتے ہیں:

 ہر صبح ستر ہزار فرشتے اتر کر قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیتے ہیں اور اپنے پر سمیٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا رحمت کرتے رہتے ہیں اور ستر ہزار رات کو آتے ہیں یہاں تک کہ قیامت کے دن جب آپ کی قبر مبارک شق ہوگی تو آپ کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے

امام نووی فرماتے ہیں:

 حضور پر صلوٰۃ و سلام ایک ساتھ بھیجنے چاہئیں صرف صلی اللہ علیہ وسلم یا صرف علیہ السلام نہ کہے۔

 اس آیت میں بھی دونوں ہی کا حکم ہے پس اولیٰ یہ ہے کہ یوں کہا جائے صل اللہ علیہ وسلم تسلیما۔

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا (۵۷)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ۔

جو لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرکے اس کے روکے ہوئے کاموں سے نہ رک کر اس کی نافرمانیوں پر جم کر اسے ناراض کر رہے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں وہ ملعون اور معذب ہیں۔

حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں اس سے مراد تصویریں بنانے والے ہیں۔

بخاری و مسلم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں میں ہی دن رات کا تغیر و تبدل کر رہا ہوں۔

مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والے کہا کرتے تھے ہائے زمانے کی ہلاکت اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یوں کیا۔ پس اللہ کے افعال کو زمانے کی طرف منسوب کرکے پھر زمانے کو برا کہتے تھے گویا افعال کے فاعل یعنی خود اللہ کو برا کہتے تھے۔

 حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا تو اس پر بھی بعض لوگوں نے باتیں بنانا شروع کی تھیں۔ بقول ابن عباس یہ آیت اس بارے میں اتری۔

 آیت عام ہے کسی طرح بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دے وہ اس آیت کے ماتحت ملعون اور معذب ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ کو ایذاء دینی گویا اللہ کو ایذاء دینی ہے۔ جس طرح آپ کی اطاعت عین اطاعت الہٰی  ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں دیکھو اللہ کو بیچ میں رکھ کر تم سے کہتا ہوں کہ میرے اصحاب کو میرے بعد نشانہ نہ بنالینا میری محبت کی وجہ سے ان سے بھی محبت رکھنا ان سے بغض دبیر رکھنے والا مجھ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ انہیں جس نے ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی یقین مانو کہ اللہ اس کی بھوسی اڑا دے گا۔

یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے۔

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (۵۸)

جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ایذاء دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں

جو لوگ ایمانداروں کی طرف ان برائیوں کو منسوب کرتے ہیں۔ جن سے وہ بری ہیں وہ بڑے بہتان باز اور زبردست گناہ گار ہیں۔

 اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں پھر رافضی شیعہ جوصحابہ پر عیب گیری کرتے ہیں اور اللہ نے جن کی تعریفیں کی ہیں یہ انہیں برا کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ انصار و مہاجرین سے خوش ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کی مدح و ستائش موجود ہے۔ لیکن یہ بےخبر کند ذہن انہیں برا کہتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان میں وہ باتیں بتاتے ہیں جن سے وہ بالکل الگ ہیں۔

حق یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے دل اوندھے ہوگئے ہیں اس لئے ان کی زبانیں بھی الٹی چلتی ہیں۔ قابل مدح لوگوں کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت والوں کی تعریفیں کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟

 آپ فرماتے ہیں تیرا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جسے اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم ہو۔

 آپ سے سوال ہوا کہ اگر وہ بات اس میں ہو تب؟

 آپ نے فرمایا جبھی تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے۔ (ترمذی)

ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ سب سے بڑی سود خواری کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ اللہ جانے اور اللہ کا رسول۔

 آپ ﷺنے فرمایا سب سے بڑا سود اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے۔

 پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ

اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔

جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مؤمن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔

 امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔

حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔

 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں۔

حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں؟

 فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے

حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے:

 ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مؤمنوں کی عورتوں کا ذکر ہے۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علاُمت ہےآزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں۔

سدی کا قول ہے :

 فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہو جائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے۔

ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (۵۹)

اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‏

پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا،

لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا (۶۰)

اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جنہوں کے دلوں میں بیماری ہے اور لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کی (تباہی) پر مسلط کر دیں گے پر تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے۔‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے ۔

مَلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (۶۱)

ان پر پھٹکار برسائی گئی، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں

بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے، راندہ درگاہ ہو جائیں گے، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں

سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (۶۲)

ان سے اگلوں نے بھی اللہ کا یہی دستور جاری رہا۔ اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز رد و بدل نہیں پائے گا۔‏

مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو گا۔

يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ

لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے،

وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا (۶۳)

 آپ کو کیا خبر ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو۔‏

لوگ یہ سمجھ کر کہ قیامت کب آئے گی۔ اس کا علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔ آپ سے سوال کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم کروا دیا کہ اس کا مطلق مجھے علم نہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

سورۃ اعراف میں بھی یہ بیان ہے اور اس سورت میں بھی

پہلی سورت مکے میں اتری تھی یہ سورت مدینے میں نازل ہوئی۔

جس سے ظاہر کرا دیا گیا کہ ابتدا سے انتہا تک قیامت کے صحیح وقت کی تعیین آپ کو معلوم نہ تھی۔ ہاں اتنا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معلوم کرا دیا تھا کہ قیامت کا وقت ہے قریب۔

 جیسے اور آیت میں ہے :

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ  (۵۴:۱)

قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

اور آیت میں ہے:

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ (۲۱:۱)

لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ لگا پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں

اور آیت میں ہے:

أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ  (۱۶:۱)

اللہ کا حکم آ پہنچا اس کی جلدی نہ مچاؤ

إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا (۶۴)

اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔‏

اللہ تعالیٰ نے کافروں کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ان پر ابدی لعنت فرمائی ہے۔

خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (۶۵)

جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ کوئی حامی و مددگار نہ پائیں گے۔‏

دار آخرت میں ان کیلئے آگ جہنم تیار ہے جو بڑی بھڑکنے والی ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ کبھی نکل سکیں نہ چھوٹ سکیں اور وہاں نہ کوئی اپنا فریاد رس پائیں گے نہ کوئی دوست و مددگار جو انہیں چھڑالے یا بچاسکے،

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا (۶۶)

اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت اور افسوس سے) کہیں گے کاش ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے۔‏

یہ جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے۔ اس وقت تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم اللہ رسول کے تابعدار ہوتے۔

میدان قیامت میں بھی ان کی یہی تمنائیں رہیں گی

 جیسے اور جگہ فرمایا:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّـلِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ ۔۔۔وَكَانَ الشَّيْطَـنُ لِلإِنْسَـنِ خَذُولاً  (۲۹:۲۵،۲۷)

ہاتھ کو چباتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ہم قرآن حدیث کے عامل ہوتے۔ کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے قرآن و حدیث سے بہکا دیا فی الواقع شیطان انسان کو ذلیل کرنے والا ہے

 اور آیت میں ہے:

رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَ  (۱۵:۲)

عنقریب کفار آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ مسلمان ہوتے،

وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (۶۷)

اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا ۔

رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا (۶۸)

پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما۔‏

اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے علماء کی پیروی کی۔ امراء اور مشائخین کے پیچھے لگے رہے۔ رسولوں سے اختلاف کیا اور یہ سمجھا کہ ہمارے بڑے راہ راست پر ہیں۔ ان کے پاس حق ہے آج ثابت ہوا کہ درحقیقت وہ کچھ نہ تھے۔ انہوں نے تو ہمیں بہکا دیا، پروردگار تو انہیں دوہرا عذاب کر۔ ایک تو انکے اپنے کفر کا ایک ہمیں برباد کرنے کا۔ اور ان پر بدترین لعنت نازل کر۔

 ایک قرأت میں كَبِيرًا کے بدلے كَثِيرًا ہے مطلب دونوں کا یکساں ہے۔

بخاری و مسلم میں ہے:

 حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسی دعا کی درخواست کی جسے وہ نماز میں پڑھیں تو آپ نے یہ دعا تعلیم فرمائی:

اللھم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا و انہ ولا یغفرالذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم

اے اللہ میں نے بہت سے گناہ کئے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی انہیں معاف نہیں کرسکتا پس تو اپنی خصوصی بخشش سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر تو بڑا ہی بخشش کرنے والا اور مہربان ہے۔

اس حدیث میں بھی ظلما كَثِيرًا اور كَبِيرًا دونوں ہی مروی ہیں۔

 بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دعا میں كَثِيرًا كَبِيرًا دونوں لفظ ملالے۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں بلکہ ٹھیک یہ ہے کہ کبھی كَثِيرًا کہے کبھی كَبِيرًا دونوں لفظوں میں سے جسے چاہے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن دونوں کو جمع نہیں کرسکتا، واللہ اعلم۔

حضرت علی ؓکا ایک ساتھی آپ کے مخالفین سے کہہ رہا تھا کہ تم اللہ کے ہاں جاکر یہ کہو گے :

رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (۶۷)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ

اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرما دیا

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت ہی شرمیلے اور بڑے لحاظ دار تھے۔ یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا۔

 کتاب التفسیر میں تو امام صاحب اس حدیث کو اتنا ہی مختصر لائے ہیں، لیکن احادیث انبیاء کے بیان میں اسے مطول لائے ہیں۔ اس میں یہ بھی ہے:

 حضرت موسیٰ علیہ السلام بوجہ سخت حیا و شرم کے اپنا بدن کسی کے سامنے ننگا نہیں کرتے تھے۔ بنو اسرائیل آپ کو ایذاء دینے کے درپے ہوگئے اور یہ افواہ اڑا دی کہ چونکہ ان کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا ان کے بیضے بڑھ گئے ہیں یا کوئی اور آفت ہے اس وجہ سے یہ اس قدر پردے داری کرتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ یہ بدگمانی آپ سے دور کردے۔

 ایک دن حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام تنہائی میں ننگے نہا رہے تھے، ایک پتھر پر آپ نے کپڑے رکھ دیئے تھے، جب غسل سے فارغ ہو کر آئے، کپڑے لینے چاہے تو پتھر آگے کو سرک گیا۔ آپ اپنی لکڑی لئے اس کے پیچھے گئے وہ دوڑنے لگا۔ آپ بھی اے پتھر میرے کپڑے میرے کپڑے کرتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے۔

 بنی اسرائیل کی جماعت ایک جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔ جب آپ وہاں تک پہنچ گئے تو اللہ کے حکم سے پتھر ٹھہر گیا۔ آپ نے اپنے کپڑے پہن لئے۔ بنو اسرائیل نے آپ کے تمام جسم کو دیکھ لیا اور جو فضول باتیں ان کے کانوں میں پڑی تھیں ان سے اللہ نے اپنے نبی کو بری کردیا۔

غصے میں حضرت موسیٰ نے تین یا چار پانچ لکڑیاں پتھر پر ماری تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واللہ لکڑیوں کے نشان اس پتھر پر پڑ گئے۔ اسی برأت وغیرہ کا ذکر اس آیت میں ہے۔

یہ حدیث مسلم میں نہیں یہ روایت بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں ہے۔ بعض روایتیں موقوف بھی ہیں۔

حضرت علیؓ سے مروی ہے:

 ایک مرتبہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام پہاڑ پر گئے جہاں حضرت ہارون کا انتقال ہوگیا لوگوں نے حضرت موسیٰؑ  کی طرف بدگمانی کی اور آپ کو ستانا شروع کیا۔ پروردگار عالم نے فرشتوں کو حکم دیا اور وہ اسے اٹھا لائے اور بنو اسرائیل کی مجلس کے پاس سے گزرے اللہ نے اسے زبان دی اور قدرتی موت کا اظہار کیا۔

انکی قبر کا صحیح نشان نامعلوم ہے صرف اس ٹیلے کا لوگوں کو علم ہے اور وہی ان کی قبر کی جگہ جانتا ہے لیکن بےزبان ہے۔ تو ہوسکتا ہے کہ ایذاء یہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایذاء ہو جس کا بیان پہلے گزرا۔

لیکن میں کہتا ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں ہوں بلکہ ان کے سوا اور بھی ایذائیں ہوں۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں میں کچھ تقسیم کیا اس پر ایک شخص نے کہا اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں میں نے جب یہ سنا تو میں نے کہا اے اللہ کے دشمن میں تیری اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور پہنچاؤں گا۔ چنانچہ میں نے جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر کردی

 آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر فرمایا اللہ کی رحمت ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وہ اس سے بہت زیادہ ایذاء دے گئے لیکن صبر کیا۔ (بخاری، مسلم)

اور روایت میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام ارشاد تھا کہ کوئی بھی میرے پاس کسی کی طرف سے کوئی بات نہ پہنچائے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تم میں آکر بیٹھوں تو میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی بات چبھتی ہوئی نہ ہو۔

ایک مرتبہ کچھ مال آپ کے پاس آیا آپ نے اسے لوگوں میں تقسیم کیا۔ دو شخص اس کے بعد آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ واللہ اس تقسیم سے نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خوشی کا ارادہ کیا نہ آخرت کے گھر کا۔ میں ٹھہر گیا اور دونوں کی باتیں سنیں۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ نے تو یہ فرمایا ہے کہ کسی کی کوئی بات میرے سامنے نہ لایا کرو۔ ابھی کا واقعہ ہے کہ میں جا رہا تھا جو فلاں اور فلاں سے میں نے یہ باتیں سنیں

 اسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہوگیا اور آپ پر یہ بات بہت ہی گراں گزری۔ پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا عبد اللہ جانے دو دیکھو موسیٰ اس سے بھی زیادہ ستائے گئے لیکن انہوں نے صبر کیا،

وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا (۶۹)

اور اللہ کے نزدیک با عزت تھے۔‏

 قرآن فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والے تھے۔ مستجاب الدعوت تھے۔ جو دعا کرتے تھے قبول ہوتی تھی۔

 ہاں اللہ کا دیدار نہ ہوا اس لئے کہ یہ طاقت انسانی سے خارج تھا۔

 سب سے بڑھ کر ان کی وجاہت کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کیلئے نبوت مانگی اللہ نے وہ بھی عطا فرمائی۔

وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَآ أَخَاهُ هَـرُونَ نَبِيّاً  (۱۹:۵۳)

ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (۷۰)

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو ۔

اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کو اپنے تقویٰ کی ہدایت کرتا ہے ان سے فرماتا ہے کہ اس طرح وہ اس کی عبادت کریں کہ گویا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور بات بالکل صاف، سیدھی، سچی، اچھی بولا کریں،

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:

 جسے یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کی عزت کریں اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔

عکرمہؒ فرماتے ہیں قول سَدِيدًا لا الٰہ الا اللہ ہے۔

حضرت خباب فرماتے ہیں سچی بات قول سَدِيدًا ہے۔

 مجاہد فرماتے ہیں ہر سیدھی بات قول سَدِيدًا میں داخل ہے۔

يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ

تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے

جب وہ دل میں تقویٰ ، زبان پر سچائی اختیار کرلیں گے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں اعمال صالحہ کی توفیق دے گا اور ان کے تمام اگلے گناہ معاف فرما دے گا بلکہ آئندہ کیلئے بھی انہیں استغفار کی توفیق دے گا تاکہ گناہ باقی نہ رہیں۔

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (۷۱)

اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔‏

 اللہ رسول کے فرمانبردار اور سچے کامیاب ہیں جہنم سے دور اور جنت سے سرفراز ہیں۔

 ایک دن ظہر کی نماز کے بعد مردوں کی طرف متوجہ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور سیدھی بات بولنے کا حکم دوں۔

پھر عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر بھی یہی فرمایا (ابن ابی حاتم)

ابن ابی الدنیا کی کتاب التقویٰ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ منبر پر ہر خطبے میں یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ لیکن اس کی سند غریب ہے

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اسکے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے انسان نے اٹھا لیا

إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (۷۲)

وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:

 امانت سے مراد یہاں اطاعت ہے۔ اسے حضرت آدم علیہ السلام پر پیش کرنے سے پہلے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن وہ بار امانت نہ اٹھا سکے اور اپنی مجبوری اور معذوری کا اظہار کیا۔

جناب باری عزاسمہ نے اسے اب حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پیش کیا کہ یہ سب تو انکار کر رہے ہیں۔ تم کہو

آپ نے پوچھا اللہ اس میں بات کیا ہے؟

 فرمایا اگر بجا لاؤ گے ثواب پاؤ گے اور برائی کی سزا پاؤ گے۔

 آپ نے فرمایا میں تیار ہوں۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے:

 امانت سے مراد فرائض ہیں

 دوسروں پر جو پیش کیا تھا یہ بطور حکم کے نہ تھا بلکہ جواب طلب کیا تھا تو ان کا انکار اور اظہار مجبوری گناہ نہ تھا بلکہ اس میں ایک قسم کی تعظیم تھی کہ باوجود پوری طاقت کے اللہ کے خوف سے تھرا اٹھے کہ کہیں پوری ادائیگی نہ ہوسکے اور مارے نہ جائیں۔ لیکن انسان جو کہ بھولا تھا اس نے اس بار امانت کو خوشی خوشی اٹھالیا۔

 آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :

 عصر کے قریب یہ امانت اٹھائی تھی اور مغرب سے پہلے ہی خطا سرزد ہو گئی۔

حضرت ابی کا بیان ہے کہ عورت کی پاکدامنی بھی اللہ کی امانت ہے۔

قتادہ کا قول ہے دین فرائض حدود سب اللہ کی امانت ہیں۔

 جنابت کا غسل بھی بقول بعض امانت ہے۔

 زید بن اسلام فرماتے ہیں:

 تین چیزیں اللہ کی امانت ہیں

- غسل جنابت،

-  روزہ ،

-  نماز ۔

مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں سب کی سب امانت میں داخل ہیں۔ تمام احکام بجا لانے تمام ممنوعات سے پرہیز کرنے کا انسان مکلف ہے۔ جو بجالائے گا ثواب پائے گا جہاں گناہ کرے گا سزا پائے گا۔

 امام حسن بصری فرماتے ہیں:

 خیال کرو آسمان باوجود اس پختگی، زینت اور نیک فرشتوں کا مسکن ہونے کے اللہ کی امانت برداشت نہ کرسکا جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ بجا آوری اگر نہ ہوئی تو عذاب ہوگا۔ زمین صلاحیت کے باوجود اور سختی کے لمبائی اور چوڑائی کے ڈر گئی اور اپنی عاجزی ظاہر کرنے لگی۔ پہاڑ باوجود اپنی بلندی اور طاقت اور سختی کے اس سے کانپ گئے۔ اور اپنی لاچاری ظاہر کرنے لگے۔

مقاتل فرماتے ہیں:

 پہلے آسمانوں نے جواب دیا اور کہا یوں تو ہم مطیع ہیں لیکن ہاں ہمارے بس کی یہ بات نہیں کیونکہ عدم بجا آوری کی صورت میں بہت بڑا خطرہ ہے۔

پھر زمین سے کہا گیا کہ اگر پوری اتری تو فضل و کرم سے نواز دوں گا۔ لیکن اس نے کہا یوں تو ہر طرح طابع فرمان ہو جو فرمایا جائے عمل کروں لیکن میری وسعت سے تو یہ باہر ہے۔

پھر پہاڑوں سے کہا گیا انہوں نے بھی جواب دیا کہ نافرمانی تو ہم کرنے کے نہیں امانت ڈال دی جائے تو اٹھالیں گے لیکن یہ بس کی بات نہیں ہمیں معاف فرمایا جائے۔

پھر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا گیا انہوں نے کہا اے اللہ اگر پورا اتروں تو کیا ملے گا؟

 فرمایا بڑی بزرگی ہوگی جنت ملے گی رحم و کرم ہوگا اور اگر اطاعت نہ کی نافرمانی کی تو پھر سخت سزا ہوگی اور آگ میں ڈال دیئے جاؤ گے

 انہوں نے کہا یا اللہ منظور ہے۔

 مجاہد فرماتے ہیں:

 آسمان نے کہا میں نے ستاروں کو جگہ دی فرشتوں کو اٹھا لیا لیکن یہ نہیں اٹھا سکوں گا یہ تو فرائض کا بوجھ ہے جس کی مجھ میں طاقت نہیں۔

زمین نے کہا مجھ میں تونے درخت بوئے دریا جاری کئے۔ لوگوں کو بسائے گا لیکن یہ امانت تو میرے بس کی نہیں۔ میں فرض کی پابند ہو کر ثواب کی امید پر عذاب کے احتمال کو نہیں اٹھاسکتی۔

پہاڑوں نے بھی یہی کہا لیکن انسان نے لپک کر اسے اٹھالیا۔

بعض روایات میں ہے:

 تین دن تک وہ گریہ زاری کرتے رہے اور اپنی بےبسی کا اظہار کرتے رہے لیکن انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا۔

 اللہ نے اسے فرمایا اب سن اگر تو نیک نیت رہا تو میری اعانت ہمیشہ تیرے شامل حال رہے گی تیری آنکھوں پر میں دو پلکیں کردیتا ہوں کہ میری ناراضگی کی چیزوں سے تو انہیں بند کرلے۔ میں تیری زبان پر دو ہونٹ بنا دیتا ہوں کہ جب وہ مرضی کے خلاف بولنا چاہے تو تو اسے بند کرلے۔ تیری شرمگاہ کی حفاظت کیلئے میں لباس اتارتا ہوں کہ میری مرضی کے خلاف تو اسے نہ کھولے۔

 زمین و آسمان نے ثواب و عذاب سے انکار کردیا اور فرمانبرداری میں مسخر رہے لیکن انسانوں نے اسے اٹھالیا۔

 ایک بالکل غریب مرفوع حدیث میں ہے:

 امانت اور وفا انسانوں پر نبیوں کی معرفت نازل ہوئیں۔ اللہ کا کلام ان کی زبانوں میں اترا نبیوں کی سنتوں سے انہوں نے ہر بھلائی برائی معلوم کرلی۔ ہر شخص نیکی بدی کو جان گیا۔ یاد رکھو! سب سے پہلے لوگوں میں امانت داری تھی پھر وفا اور عہد کی نگہبانی اور ذمہ داری کو پورا کرنا تھا۔ امانت داری کے دھندلے سے نشان لوگوں کے دلوں پر رہ گئے۔ کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ عالم عمل کرتے ہیں جاہل جانتے ہیں لیکن انجان بن رہے ہیں اب یہ امانت وفا مجھ تک اور میری اُمت تک پہنچی۔ یاد رکھو اللہ اسی کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے آپ کو ہلاک کرلے۔ اسے چھوڑ کر غفلت میں پڑ جائے۔ لوگو! ہوشیار رہو اپنے آپ پر نظر رکھو۔ شیطانی وسوسوں سے بچو۔ اللہ تمہیں آزما رہا ہے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص ایمان کے ساتھ ان چیزوں کو لائے گا جنت میں جائے گا:

- پانچوں وقتوں کی نماز کی حفاظت کرتا ہو،

- وضو، رکوع، سجدہ اور وقت سجدہ اور وقت سمیت زکوٰۃ ادا کرتا ہو۔

-  دل کی خوشی کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم نکالتا ہو۔

- سنو واللہ یہ بغیر ایمان کے ہو ہی نہیں سکتا اور امانت کو ادا کرے۔

 حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے؟

فرمایا جنابت کا فرضی غسل۔ پس اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اپنے دین میں سے کسی چیز کی اس کے سوا امانت نہیں دی۔

 تفسیر ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ کی راہ کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر امانت کی خیانت کو نہیں مٹاتا

ان خائنوں سے قیامت کے دن کہا جائے گا جاؤ ان کی امانتیں ادا کرو

 یہ جواب دیں گے اللہ کہاں سے ادا کریں؟ دنیا تو جاتی رہی

تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوگا پھر حکم ہوگا کہ انہیں ان کی ماں ہاویہ میں لے جاؤ۔ فرشتے دھکے دیتے ہوئے گرا دیں گے۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے تو انہیں اسی امانت کی ہم شکل جہنم کی آگ کی چیز نظر پڑے گی۔ یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھیں گے جب کنارے تک پہنچیں گے تو وہاں پاؤں پھسل جائے گا۔ پھر گر پڑیں گے اور جہنم کے نیچے تک گرتے چلے جائیں گے۔ پھر لائیں گے پھر گریں گے ہمیشہ اسی عذاب میں رہیں گے۔

 امانت وضو میں بھی ہے۔ نماز میں بھی امانت بات چیت میں بھی ہے اور ان سب سے زیادہ امانت ان چیزوں میں ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائیں۔

 حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کیا حدیث بیان فرما رہے ہیں؟

 تو آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہا ہاں ٹھیک ہے۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دو حدیثیں سنی ہیں۔ ایک کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور دوسری کے ظہور کا مجھے انتظار ہے ایک تو یہ کہ آپ نے فرمایا:

 امانت لوگوں کی جبلت میں اتاری گئی

پھر قرآن اترا حدیثیں بیان ہوئیں۔

پھر آپ نے امانت کے اٹھ جانے کی بابت فرمایا:

 انسان سوئے گا جو اس کے دل سے امانت اٹھ جائے گی اور ایسا نشان رہ جائے گا جیسے کسی کے پیر پر کوئی انگارہ لڑھک کر آگیا ہو اور پھپھولا پڑگیا ہو کہ ابھرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن اندر کچھ بھی نہیں۔

 پھر آپ نے ایک کنکر لے کر اسے اپنے پیر پر لڑھکا کر دکھا دیا کہ اس طرح لوگ لین دین خرید و فروخت کیا کریں گے۔ لیکن تقریباً ایک بھی ایماندار نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ مشہور ہو جائے گا کہ فلاں قبیلے میں کوئی امانت دار ہے۔ اور یہاں تک کہ کہا جائے گا یہ شخص کیسا عقلمند، کس قدر زیرک، دانا اور فراست والا ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 دیکھو اس سے پہلے تو میں ہر ایک سے ادھار سدھار کرلیا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو وہ خود میرا حق مجھے دے جائے گا اور اگر یہودی یا نصرانی ہے تو حکومت اسلام مجھے اس سے دلوا دے گی۔ لیکن اب تو صرف فلاں فلاں کو ہی ادھار دیتا ہوں باقی بند کردیا ہے۔ (مسلم)

مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

 چار باتیں تجھ میں ہوں پھر اگر ساری دنیا بھی فوت ہو جائے تو تجھے نقصان نہیں۔

- امانت کی حفاظت،

- بات چیت کی صداقت،

- حسن اخلاق

- حلال کی روزی۔

 حضرت عبد اللہ بن مبارک کی کتاب الزھد میں ہے:

 جبلہ بن سحیم حضرت زیاد کے ساتھ تھے اتفاق سے ان کے منہ سے باتوں ہی باتوں میں نکل گیا قسم ہے امانت کی۔ اس پر حضرت زیاد رونے لگے اور بہت روئے۔ میں ڈرگیا کہ مجھ سے کوئی سخت گناہ سرزد ہوا۔

 میں نے کہا کیا وہ اسے مکروہ جانتے تھے

فرمایا ہاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے بہت مکروہ جانتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے۔

ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

وہ ہم میں سے نہیں جو امانت کی قسم کھائے،

لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ

 (یہ اس لئے) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مؤمن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے

وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (۷۳)

اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔‏

امانتداری جو حضرت آدم علیہ السلام نے کی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ منافق مرد و عورت اور مشرک مرد و عورت یعنی وہ جو ظاہر میں مسلمان اور باطن میں کافر تھے اور وہ جو اندر باہر یکساں کافر تھے انہیں تو سخت سزا ملے اور مؤمن مرد و عورت پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ جو اللہ کو اس کے فرشتوں کو اس کے رسولوں کو مانتے تھے اور اللہ کے سچے فرمانبردار رہے۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter