Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Saba

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمان اور زمین میں ہے

چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے۔ اس لئے ہر قسم کی تعریف و ثناء کا مستحق بھی وہی ہے۔

وَهُوَ اللَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِى الاٍّولَى وَالاٌّخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۸:۷۰)

وہی معبود ہے جسکے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اسی کیلئے دنیا اور آخرت کی حمد و ثناء سزاوار ہے۔ اسیکی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں۔

وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ۚ

آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے

زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَإِنَّ لَنَا لَلاٌّخِرَةَ وَالاٍّولَى (۹۲:۱۳)

اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے ۔‏

وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (۱)

وہ (بڑی) حکمتوں والا اور پورا خبردار ہے‏

وہ اپنے اقوال، افعال، تقدیر، شریعت سب میں حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں، جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں، جو اپنے احکام میں حکیم، جو اپنی مخلوق سے باخبر،

يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ

جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے جو آسمان سے اترے اور جو چڑھ کر اس میں جائے وہ سب سے باخبر ہے

جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں، جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں، اس کے علم سے باہر نہیں۔ جو زمین سے نکلتا ہے، اگتا ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے۔ اس کے محیط، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں۔ ہرچیز کی گنتی، کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے۔

 آسمان سے جو بارش برستی ہے، اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں۔

وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ (۲)

 اور مہربان نہایت بخشش والا۔‏

وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اسی وجہ سے انکے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کرلیں۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں۔

 پھر غفور ہے۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کرلیا۔

توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا

توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ

کفار کہتے ہیں ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔

پورے قرآن میں تین آیتیں ہیں جہاں قیامت کے آنے پر قسم کھاکر بیان فرمایا گیا ہے۔ ایک تو سورۃ یونس میں ہے

وَيَسْتَنْبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِى وَرَبِّى إِنَّهُ لَحَقٌّ وَمَآ أَنتُمْ بِمُعْجِزِينَ  (۱۰:۵۳)

لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا قیامت کا آنا حق ہی ہے؟ تو کہہ دے کہ ہاں ہاں میرے رب کی قسم وہ یقیناً حق ہی ہے اور تم اللہ کو مغلوب نہیں کرسکتے۔

 دوسری آیت یہی ہے (۳۴:۳) ۔

تیسری آیت سورۃ تغابن میں ہے:

زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَن لَّن يُبْعَثُواْ قُلْ بَلَى وَرَبِّى لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (۶۴:۷)

کفار کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اٹھائے نہ جائیں گے۔ تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر اپنے اعمال کی خبر دیئے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل ہی آسان ہے۔

قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ

 آپ کہہ دیجئے! مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی

لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (۳)

اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہرچیز کھلی کتاب میں موجود ہے۔

پس یہاں بھی کافروں کے انکار قیامت کا ذکر کرکے اپنے نبی کو ان کے بارے قسمیہ بتا کر پھر اس کی مزیدتاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو عالم الغیب ہے جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں۔ سب اس کے علم میں ہے۔ گو ہڈیاں سڑ گل جائیں ان کے ریزے متفرق ہو جائیں لیکن وہ کہاں ہیں؟

کتنے ہیں؟

 سب وہ جانتا ہے۔ وہ ان سب کے جمع کرنے پر بھی قادر ہے۔ جیسے کہ پہلے انہیں پیدا کیا۔

وہ ہرچیز کا جاننے والا ہے اور تمام چیزیں اس کے پاس اس کی کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہیں ،

لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (۴)

تاکہ وہ ایمان والوں اور نیکوں کاروں کو بھلا بدلہ عطا فرمائے یہی لوگ ہیں جن کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔‏

پھر قیامت کے آنے کی حکمت بیان فرمائی کہ ایمان والوں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ ملے۔ وہ مغفرت اور رزق کریم سے نوازے جائیں، اور جنہوں نے اللہ کی باتوں سے ضد کی رسولوں کی نہ مانی انہیں بدترین اور سخت سزائیں ہوں۔ نیک کار مؤمن جزا اور بدکار کفار سزا پائیں گے۔

 جیسے فرمایا :

لاَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآئِزُونَ  (۵۹:۲۰)

جہنمی اور جنتی برابر نہیں۔ جنتی کامیاب اور مقصد ور ہیں۔

 اور آیت میں ہے:

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِى الاٌّرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (۳۸:۲۸)

کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟‏

یعنی مؤمن اور مفسد متقی اور فاجر برابر نہیں،

وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ (۵)

اور ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کی جنہوں نے کوشش کی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔‏

وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ هُوَ الْحَقَّ

اور جنہیں علم ہے وہ دیکھ لیں گے کہ جو آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ (سراسر) حق ہے

پھر قیامت کی ایک اور حکمت بیان فرمائی کہ ایماندار بھی قیامت کے دن جب نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل کرلیں گے اور اس وقت کہہ اٹھیں گے:

لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ  (۷:۴۳)

کہ ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے۔

 اور اس وقت کہا جائے گا

هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمـنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ  (۳۶:۵۲)

یہ ہے جس کا وعدہ رحمان نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا۔

اور فرمایا:

لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِى كِتَـبِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ فَهَـذَا يَوْمُ الْبَعْثِ  (۳۰:۵۶)

اللہ نے تو لکھ دیا تھا کہ تم قیامت تک رہو گے تو اب قیامت کا دن آچکا۔

وَيَهْدِي إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (۶)

 اور اللہ غالب خوبیوں والے کی راہ کی راہبری کرتا ہے۔

وہ اللہ عزیز ہے یعنی بلند جناب والا بڑی سرکار والا ہے۔ بہت عزت والا ہے پورے غلبے والا ہے۔ نہ اس پر کسی کا بس نہ کسی کا زور۔ ہرچیز اس کے سامنے پست اور عاجز۔ وہ قابل تعریف ہے اپنے اقوال و افعال شرع و فعل میں۔ ان تمام میں اس کی ساری مخلوق اس کی ثناء خواں ہے۔ جل و علا۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَى رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ (۷)

اور کافروں نے کہا (آؤ) ہم تمہیں ایک ایسا شخص بتلائیں جو تمہیں یہ خبر پہنچا رہا ہے کہ جب تم بالکل ہی ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے۔‏

کافر اور ملحد جو قیامت کے آنے کو محال جانتے تھے اور اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ان کے کفریہ کلمات کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آپس میں کہتے تھےلو اور سنو ہم میں ایک صاحب ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور چورا چورا اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اس کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے،

أَفْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَمْ بِهِ جِنَّةٌ ۗ

 (ہم نہیں کہہ سکتے) کہ خود اس نے (ہی) اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے یا اسے دیوانگی ہے

 اس شخص کی نسبت دو ہی خیال ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ ہوش و حواس کی درستی میں وہ عمداً اللہ کے ذمے ایک جھوٹ بول رہا ہے اور جو اس نے نہیں فرمایا وہ اس کی طرف نسبت کرکے یہ کہہ رہا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس کا دماغ خراب ہے، مجنوں ہے، بےسوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے۔

بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ (۸)

بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں۔

اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں، نیک ہیں، راہ یافتہ ہیں، دانا ہیں، باطنی اور ظاہری بصیرت والے ہیں۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ منکر لوگ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں اور غور و فکر سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے حق بات اور سیدھی راہ ان سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ بہت دور نکل جاتے ہیں،

أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ

کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟

کیا اسکی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے ہو۔ جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کردی۔ جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو نہ زمین کا فرش۔

 جیسے فرمان ہے:

وَالسَّمَآءَ بَنَيْنَـهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ـ وَالاٌّرْضَ فَرَشْنَـهَا فَنِعْمَ الْمَـهِدُونَ (۵۱:۴۷،۴۸)

ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں۔

یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو پیچھے دیکھو، اسی طرح دائیں نظر ڈالو، بائیں طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی۔

إِنْ نَشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ ۚ

اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں

اتنی بڑی مخلوق کا خالق، اتنی زبردست قدرتوں پر قادر کیا تم جیسی چھوٹی سی مخلوق کو فنا کرکے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے؟

وہ تو قادر ہے کہ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یا آسمان تم پر توڑ دے

 یقیناً تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں لیکن اللہ کا حکم اور عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ (۹)

یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو (دل سے) متوجہ ہو۔‏

 جس میں عقل ہو جس میں دور بینی کا مادہ ہو جس میں غور و فکر کی عادت ہو، جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو، جس کے سینے میں دل دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو وہ تو ان زبردست نشانات کو دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت میں شک کر ہی نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے۔آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کردیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے؟ جس نے ہڈیوں، گوشت، کھال کو ابتداً پیدا کیا۔ اسے ان کے سڑ گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کرکے اٹھا بٹھانا کیا بھاری ہے؟

 اسی کو اور آیت میں فرمایا:

أَوَلَـيْسَ الَذِى خَلَقَ السَّمَـوتِ وَالاٌّرْضَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى (۳۶:۸۱)

جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا کیا وہ ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ بیشک قادر ہے۔

اور آیت میں ہے:

لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْـثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (۴۰:۵۷)

انسانوں کی پیدائش سے بہت زیادہ مشکل تو آسمان و زمین کی پیدائش ہے۔ لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ

اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت داؤد علیہ السلام پر دنیوی اور اخروی رحمت نازل فرمائی۔ نبوت بھی دی بادشاہت بھی دی لاؤ لشکر بھی دیئے طاقت و قوت بھی دی۔ پھر ایک پاکیزہ معجزہ یہ عطا فرمایا کہ ادھر نغمہ داؤدی ہوا میں گونجا، ادھر پہاڑوں اور پرندوں کو بھی وجد آگیا۔

يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ

اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم ہے)

پہاڑوں نے آواز میں آوا زملا کر اللہ کی حمد و ثناء شروع کی پرندوں نے پر ہلانے چھوڑ دیئے اور اپنی قسم قسم کی پیاری پیاری بولیوں میں رب کی وحدانیت کے گیت گانے لگے۔

صحیح حدیث میں ہے:

 رات کو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے انہیں نغمہ داؤدی کا کچھ حصہ مل گیا ہے۔

 ابو عثمان نہدی کا بیان ہے کہ واللہ ہم نے حضرت ابو موسیٰ سے زیادہ پیاری آواز کسی باجے کی بھی نہیں سنی۔

 أَوِّبِي کے معنی حبشی زبان میں یہ ہیں کہ تسبیح بیان کرو۔ لیکن ہمارے نزدیک اس میں مزید غور کی ضرورت ہے لغت عرب میں یہ لفظ ترجیع کے معنی میں موجود ہے۔ پس پہاڑوں کو اور پرندوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ حضرت داؤد کی آواز کے ساتھ اپنی آواز بھی ملا لیا کریں۔

 تاویب کے ایک معنی دن کو چلنے کے بھی آتے ہیں۔ جیسے سری کے معنی رات کو چلنے کے ہیں لیکن یہ معنی بھی یہاں کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتا یہاں تو یہی مطلب ہے کہ داؤد کی تسبیح کی آواز میں تم بھی آواز ملا کر خوش آوازی سے رب کی حمد بیان کرو۔

وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ (۱۰)

 اور ہم نے اس کے  لئے لوہا نرم کر دیا

اور فضل ان پر یہ ہوا کہ ان کیلئے لوہا نرم کردیا گیا نہ انہیں لوہے کی بھٹی میں ڈالنے کی ضرورت نہ ہتھوڑے مارنے کی حاجت ہاتھ میں آتے ہی ایسا ہو جاتا تھا جیسے دھاگے،

أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ ۖ

کہ تو پوری پوری زرہیں بنا اور جوڑوں میں اندازہ رکھ

اب اس لوہے سے بفرمان اللہ آپ زرہیں بناتے تھے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے زرہ آپ ہی نے ایجاد کی ہے۔ ہر روز صرف ایک زرہ بناتے اس کی قیمت چھ ہزار لوگوں کے کھلانے پلانے میں صرف کردیتے۔ زرہ بنانے کی ترکیب خود اللہ کی سکھائی ہوئی تھی کہ کڑیاں ٹھیک ٹھیک رکھیں حلقے چھوٹے نہ ہوں کہ ٹھیک نہ بیٹھیں بہت بڑے نہ ہوں کہ ڈھیلا پن رہ جائے بلکہ ناپ تول اور صحیح انداز سے حلقے اور کڑیاں ہوں۔

 ابن عساکر میں ہے:

 حضرت داؤد علیہ السلام بھیس بدل کر نکلا کرتے اور رعایا کے لوگوں سے مل کر ان سے اور باہر کے آنے جانے والوں سے دریافت فرماتے کہ داؤد کیسا آدمی ہے؟ لیکن ہر شخص کو تعریفیں کرتا ہوا ہی پاتے۔ کسی سے کوئی بات اپنی نسبت قابل اصلاح نہ سنتے۔ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو انسانی صورت میں نازل فرمایا۔ حضرت داؤد کی ان سے بھی ملاقات ہوئی تو جیسے اوروں سے پوچھتے تھے ان سے بھی سوال کیا

انہوں نے کہا کہ داؤد ہے تو اچھا آدمی اگر ایک کمی اس میں نہ ہوتی تو کامل بن جاتا۔

 آپ نے بڑی رغبت سے پوچھا کہ وہ کیا؟

فرمایا وہ اپنا بوجھ مسلمانوں کے بیت المال پر ڈالے ہوئے ہیں خود بھی اسی میں سے لیتا ہے اور اپنی اہل و عیال کو بھی اسی میں سے کھلاتا ہے۔

حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ شخص ٹھیک کہتا ہے اسی وقت جناب باری کی طرف جھک پڑے اور گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے کہ اللہ مجھے کوئی کام کاج ایسا سکھا دے جس سے میرا پیٹ بھر جایا کرے۔ کوئی صنعت اور کاریگری مجھے بتا دے جس سے میں اتنا حاصل کرلیا کروں کہ وہ مجھے اور میرے بال بچوں کو کافی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زرہیں بنانا سکھائیں اور پھر اپنی رحمت سے لوہے کو ان کیلئے بالکل نرم کردیا۔ سب سے پہلے زرہیں آپ نے ہی بنائی ہیں۔ ایک زرہ بناکر فروخت فرماتے اور اس کی قیمت کے تین حصے کرلیتے ایک اپنے کھانے پینے وغیرہ کیلئے ایک صدقے کیلئے ایک رکھ چھوڑنے کیلئے تاکہ دوسری زرہ بنانے تک اللہ کے بندوں کو دیتے رہیں۔

حضرت داؤد کو جو نغمہ دیا گیا تھا وہ تو محض بےنظیر تھا اللہ کی کتاب زبور پڑھنے کو بیٹھتے۔ آواز نکلتے ہی چرند پرند صبر و سکون کے ساتھ محویت کے عالم میں آپ کی آواز سے متاثر ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔ سارے باجے شیاطین نے نغمہ داؤدی سے نکالے ہیں۔ آپ کی بےمثل خوش آوازی کی یہ چڑاؤنی جیسی نقلیں ہیں۔

وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۱۱)

 تم سب نیک کام کرو یقین مانو کہ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں

 اپنی نعمتوں کو بیان فرما کر حکم دیتا ہے کہ اب تمہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کرتے رہو۔ میرے فرمان کے خلاف نہ کرو۔ یہ بہت بری بات ہے کہ جس کے اتنے بڑے اور بےپایاں احسان ہوں۔ اس کی فرمانبرداری ترک کردی جائے۔ میں تمہارے اعمال کا نگران ہوں۔ تمہارا کوئی عمل چھوٹا بڑا نیک بد مجھ سے پوشیدہ نہیں۔

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ

اور ہم نے سلیمان کے کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی

حضرت داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کرکے پھر آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کیلئے ہوا کو تابع فرمان بنادیا۔ مہینے بھر کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا۔

مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑایا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچادیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کابل پہنچ گیا۔

وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ

اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا

تانبے کو بطور پانی کرکے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلاوقت لے لیا کریں۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے۔

سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا۔

 جنات کو ان کی ماتحتی میں کردیا جو وہ چاہتے اپنے سامنے ان سے کام لیتے۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان کی تعمیل سے جی چراتا فوراً آگ سے جلا دیا جاتا۔

 ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنات کی تین قسمیں ہیں

-  ایک تو پردار ہے۔

-  دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں

-  تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ۔

یہ حدیث بہت غریب ہے۔

وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ

اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ماتحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے

وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ (۱۲)

اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔‏

ابن نعم سے روایت ہے:

جنات کی تین قسمیں ہیں

-  ایک کیلئے تو عذاب ثواب ہے

-  ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں

-  ایک سانپ کتے ہیں۔

 انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں۔

-  ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔

- اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔

-  اور تیسری قسم انسانی صورت میں شیطانی دل رکھنے والے۔

حضرت حسن فرماتے ہیں:

 جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی۔ عذاب و ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایماندار ولی اللہ ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں،

يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ

جو کچھ سلیمان چاہتے وہ جنات تیار کر دیتے مثلاً قلعے اور اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں

مَحَارِيبَ کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو گھر کے بہترین حصے کو مجلس کی صدارت کی جگہ کو۔

 بقول مجاہد ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں۔

 ضحاک فرماتے ہیں مسجدوں کو۔

 قتادہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو۔

 ابن زید کہتے ہیں گھروں کو۔

 تَمَاثِيلَ تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں۔ بقول قتادہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں۔

جَوَاب جمع ہے جابیہ کی۔ جابیہ اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہو۔ یہ مثل تالاب کے تھیں

بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بہت بڑی فوج کیلئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہوسکے اور ان کے سامنے لایا جاسکے۔ اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پن کے ادھر سے ادھر نہیں کی جاسکتی تھیں۔

اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ

اے داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو،

ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو۔

 شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے

افادتکم النعماء منی ثلاثہ        یدی ولسانی الضمیر المحجیا

اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے، زبان سے اور دل سے۔

حضرت عبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے:

 نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کیلئے کرے، شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے۔

 محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور نیک عمل ہے۔ آل داؤد دونوں طرح کا شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی۔

ثابت بنانی فرماتے ہیں :

حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا۔

 بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز تھی۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے۔

 اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بےروزہ

ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے۔

ابن ماجہ میں ہے:

 حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا کہ پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو۔ رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے۔

 ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر حضرت داؤد علیہ السلام کی ایک مطول حدیث مروی ہے۔

 اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے:

 حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہوگا؟

شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے

 جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کرلی جبکہ تونے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔

وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (۱۳)

 میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔‏

پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں۔

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ

پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کی کیفیت بیان ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ جو جنات ان کے فرمان کے تحت کام کاج میں مصروف تھے ان پر ان کی موت کیسے نامعلوم رہی وہ انتقال کے بعد بھی لکڑی کے ٹیکے پر کھڑے ہی رہے اور یہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے سر جھکائے اپنے سخت سخت کاموں میں مشغول رہے۔

مجاہد وغیرہ فرماتے ہی تقریباً سال بھر اسی طرح گزر گیا۔

فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ (۱۴)

پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔

جس لکڑی کے سہارے آپ کھڑے تھے جب اسے دیمک چاٹ گئی اور وہ کھوکھلی ہوگئی تو آپ گرپڑے۔ اب جنات اور انسانوں کو آپ کی موت کا پتہ چلا۔ تب تو نہ صرف انسانوں بلکہ خود جنات کو بھی یقین ہوگیا کہ ان میں سے کوئی بھی غیب داں نہیں۔

 ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے (لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں) کہ:

 حضرت سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے۔

وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے۔

 ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے؟

 اس نے کہا ضروب۔

 پوچھا تو کس لئے ہے؟

 کہا اس گھر کو اجاڑنے کیلئے

 تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے۔

 اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہوگیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہوگیا۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھاگئی اور اب حضرت سلیمان گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے۔

 لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے۔

بعض صحابہ سے مروی ہے:

حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال دو دو سال یا کم و بیش مدت کیلئے مسجد قدس میں اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا۔ آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے وہ بتاتا آپ اسی کام میں اسے لاتے بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا نام ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے

 کہا اس مسجد کے اجاڑنے کیلئے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہوگی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کیلئے ہے۔ چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگا دیا مسجد کی بیچ کی جگہ میں کھڑے ہو کر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کردی۔ وہیں انتقال ہوگیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا۔

 یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو ایک بہت بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جاکر وہاں سے نکل آؤں تو میری طاقت کو مانو گے یا نہیں؟ چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے حضرت سلیمان کی آواز نہ آئی۔ دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ حضرت سلیمان کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مرجاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال سا گزرا اس نے پھر اور جرأت کی اور مسجد میں چلا گیا دیکھتا کہ وہاں جانے کے بعد وہ نہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کہ وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرما چکے ہیں شیاطین سب کے سب اپنی نوکری بجا لاتے رہے کہ ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کریں اور اللہ کے رسول آ جائیں تو ہمیں سزا دیں۔

 اب آکر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول کو زندہ نہ پایا۔ آپ کو مسجد سے نکال لائے۔

 مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کیلئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے انتقال کو پورا سال گزر چکا۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہوگیا کہ جنات جو بنتے تھے کہ ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے۔ اس وقت سے جنات گھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لا دیا کرتے ہیں گویا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

 کہا یہ بھی تھا کہ اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے واللہ اعلم الغیب۔

حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے:

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتا دینا

حضرت ملک الموت نے یہی کیا تو آپ نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا۔

 حضرت ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبض کرکے گئے۔

پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر ادھر سے دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھاچکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ کی موت کا یقین ہوگیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔

اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے۔

لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ

قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں (قدرت الٰہی کی) نشانی تھی

قوم سبایمن میں رہتی تھی۔ تبع بھی ان میں سے ہی تھے۔ بلقیس بھی انہی میں سے تھیں۔ یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے۔ چین آرام سے زندگی گزار رہے تھے۔ اللہ کے رسول ان کے پاس آئے انہیں شکر کرنے کی تلقین کی۔ رب کی وحدانیت کی طرف بلایا اس کی عبادت کا طریقہ سمجھایا۔ کچھ زمانے تک وہ یونہی رہے لیکن پھر جبکہ انہوں نے سرتابی اور روگردانی کی احکام اللہ بےپرواہی سے ٹال دیئے تو ان پر زور کا سیلاب آیا اور تمام ملک، باغات اور کھیتیاں وغیرہ تاخت و تاراج ہو گئیں۔

جس کی تفصیل یہ ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سباکسی عورت کا نام ہے۔ یا مرد کا یا جگہ کا؟

تو آپ نے فرمایا یہ ایک مرد تھا جس کے دس لڑکے تھے جن میں سے چھ تو یمن میں جا بسے تھے اور چار شام میں۔

مذحج، کندہ، ازد، اشعری ، اغار، حمیریہ یہ چھ قبیلے یمن میں۔ نجم، جذام، عاملہ اور غسان یہ چار قبیلے شام میں۔ (مسند احمد)

فردہ بن مسیک فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنی قوم میں سے ماننے والوں اور آگے بڑھنے والوں کو لے کر نہ ماننے اور پیچھے ہٹنے والوں سے لڑوں؟

 آپ نے فرمایا ہاں۔

جب میں جانے لگا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا دیکھو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا نہ مانیں تب جہاد کی تیاری کرنا۔

 میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سباکس کا نام ہے؟

 تو آپ کا جواب تقریباً وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔

 اس میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ انمار میں سے بجیلہ اور شعم بھی ہیں۔

 ایک اور مطول روایت میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت فردہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاہلیت کے زمانے میں قوم سبا کی عزت تھی مجھے اب ان کے ارتداد کا خوف ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے جہاد کروں۔ آپ نے فرمایا ان کے بارے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ پس یہ آیت اتری۔

 لیکن اس میں غرابت ہے اس سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ، حالانکہ سورت مکیہ ہے

 محمد بن اسحاق سباکا نسب نامہ اس طرح بیان کرتے ہیں عبدشمس بن العرب بن قحطان اسے سبا اس لئے کہتے ہیں کہ اس نے سب سے پہلے عرب میں دشمن کو قید کرنے کا رواج ڈالا۔ اس وجہ سے اسے رائش بھی کہتے ہیں۔ مال کو ریش اور ریاش بھی عربی میں کہتے ہیں۔

یہ بھی مذکور ہے:

 اس بادشاہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی آپ کی پیشن گوئی کی تھی کہ ملک کا مالک ہمارے بعد ایک نبی ہو گا جو حرم کی عزت کرے گا۔ اس کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے، جن کے سامنے دنیا کے بادشاہ سرنگوں ہوجائیں گے پھر ہم میں بھی بادشاہت آئے گی اور بنو قحطان کے ایک نبی بھی ہوں گے اس نبی کا نام احمد ہو گا (صلی اللہ علیہ وسلم) کاش کے میں بھی ان کی نبوت کے زمانے کو پالیتا تو ہر طرح کی خدمت کو غنیمت سمجھتا۔ لوگو جب بھی اللہ کے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں تو تم پر فرض ہے کہ ان کا ساتھ دو اور ان کے مددگار بن جاؤ اور جو بھی آپ سے ملے اس پر میری جانب سے فرض ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے۔ (اکیل ہمدانی)

قحطان کے بارے میں تین قول ہیں ایک یہ کہ وہ ارم بن سام بن نوح کی نسل میں سے ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ عابر یعنی حضرت ہود علیہ السلام کی نسل میں سے ہے۔ تیسرا یہ کہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی نسل سے ہے۔ اس سب کو تفصیل کے ساتھ حافظ عبدالبررحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الابناہ میں ذکر کیا ہے۔

بعض روایتوں میں جو آیا ہے کہ سباعرب میں سے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے جن کی نسل سے عرب ہوئے۔ ان کا نسل ابراہیمی میں سے ہونا مشہور نہیں۔ واللہ اعلم۔

صحیح بخاری میں ہے:

 قبیلہ اسلم جب تیروں سے نشانہ بازی کر رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نکلے تو آپ نے فرمایا اے اولاد اسماعیل تیر اندازی کئے جاؤ تمہارے والد بھی پورے تیر انداز تھے۔

 اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سبا کا سلسلہ نسب خلیل الرحمٰن علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔

 اسلم انصار کا ایک قبیلہ تھا اور انصار سارے کے سارے غسان میں سے ہیں اور یہ سب یمنی تھے، سبا کی اولاد ہیں۔ یہ لوگ مدینے میں اس وقت آئے جب سیلاب سے ان کا وطن تباہ ہو گیا۔ ایک جماعت یہں آ کر بسی تھی دوسری شام چلی گئی۔ انہیں غسانی اس لئے کہتے ہیں کہ اس نام کی پانی والی ایک جگہ پر یہ ٹھہرے تھے۔

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مثال کے قریب ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک پانی والی جگہ یا اس کنویں کا نام غسان تھا۔

 یہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی دس اولادیں تھیں اس سے مراد صلبی اولادیں نہیں کیونکہ بعض بعض دو دوتین تین نسلوں بعد کے بھی ہیں۔ جیسے کہ کتب انساب میں موجود ہے۔ جو شام اور یمن میں جا کر آباد ہوئے یہ بھی سیلاب کے آنے کے بعد کا ذکر ہے۔ بعض وہیں رہے بعض ادھر ادھر چلے گئے۔

 دیوار کا قصہ یہ ہے:

 ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے۔ جہاں سے نہریں اور چشمے بہ بہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے ان کے قدیمی بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوا دیا تھا جس دیوار کی وجہ سے پانی ادھر ادھر ہو گیا تھا اور بصورت دریا جاری رہا کرتا تھا جس کے دونوں جانب باغات اور کھیتیاں لگا دی تھی۔ پانی کی کثرت اور زمین کی عمدگی کی وجہ سے یہ خطہ بہت ہی زرخیز اور ہرا بھرا رہا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کوئی عورت اپنے سر پر جھلی رکھ کر چلتی تھی۔ کچھ دور جانے تک پھلوں سے وہ جھلی بالکل بھر جاتی تھی۔ درختوں سے پھل خود بخود جو جھڑتے تھے وہ اس قدر کثرت سے ہوتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی حاجت نہیں پڑتی تھی۔ یہ دیوار مارب میں تھی صنعاء سے تین مراحل پر تھی اور سد مارب کے نام سے مشہور تھی۔ آب و ہوا کی عمدگی ، صحت، مزاج اور اعتدال عنایت الہیہ سے اس طرح تھا کہ ان کے ہاں مکھی، مچھر اور زہریلے جانور بھی نہیں ہوتے تھے یہ اس لئے تھا کہ وہ لوگ اللہ کی توحید کو مانیں اور دل و جان اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کریں۔

جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ

ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے

یہ تھی وہ نشانی قدرت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان آباد بستی اور بستی کے دونوں طرف ہرے بھرے پھل دار باغات اور سرسبز کھیتیاں

كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ (۱۵)

(ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور شکر ادا کرو یہ عمدہ شہر اور وہ بخشنے والا رب ہے

اور ان سے جناب باری نے فرما دیا تھا کہ اپنے رب کی دی ہوئی روزیاں کھاؤ پیؤ اور اس کے شکر میں لگے رہو، لیکن انہوں نے اللہ کی توحید کو اور اس کی نعمتوں کے شکر کو بھلا دیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے۔

جیسے کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر دی تھی :

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ ۔۔۔فَهُمْ لاَ يَهْتَدُونَ  (۲۷:۲۲،۲۴)

میں تمہارے پاس سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے جس کے پاس تمام چیزیں موجود ہیں عظیم الشان تخت سلطنت پر وہ متمکن ہے۔

رانی اور رعایا سب سورج پرست ہیں۔ شیطان نے ان کو گمراہ کر کھا ہے۔ بےراہ ہو رہے ہیں۔

فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ

لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کا پانی) بھیج دیا

مروی ہے کہ بارہ یا تیرہ پیغمبر ان کے پاس آئے تھے۔ بالآخر شامت اعمال رنگ لائی جو دیوار انہوں نے بنا رکھی تھی وہ چوہوں نے اندر سے کھوکھلی کر دی اور بارش کے زمانے میں وہ ٹوٹ گئ پانی کی ریل پیل ہو گئی ان دریاؤں کے، چشموں کے، بارش کے نالوں کے، سب پانی آ گئے ان کی بستیاں ان کے محلات ان کے باغات اور ان کی کھیتیاں سب تباہ و برباد ہو گئیں۔ ہاتھ ملتے رہ گئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔

وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ (۱۶)

اور ہم انکے ہرے بھرے باغوں کے بدلےدو (ایسے) باغ دیئے جو بدمزہ میوؤں والے اور جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے۔  

پھر تو وہ تباہی آئی کہ اس زمین پر کوئی پھلدار درخت جمتا ہی نہ تھا۔ پیلو، جھاؤ، کیکر، ببول اور ایسے ہی بےمیوہ بدمزہ بےکار درخت اگتے تھے۔ ہاں البتہ کچھ بیریوں کے درخت اگ آئے تھے جو نسبتاً اور درختوں سے کارآمد تھے۔ لیکن وہ بھی بہت زیادہ خاردار اور بہت کم پھل دار تھے۔

ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِمَا كَفَرُوا ۖ وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ (۱۷)

ہم نے ان کی ناشکری کا بدلہ انہیں دیا۔ ہم (ایسی) سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں کو ہی دیتے ہیں۔‏

یہ تھا ان کے کفر و شرک کی سرکشی اور تکبر کا بدلہ کہ نعمتیں کھو بیٹھے اور زخموں میں مبتلا ہوگئے کافروں کو یہی اور اس جیسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

حضرت ابو خیرہ فرماتے ہیں:

 گناہوں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آ جائے روزگار میں تنگی واقع ہو لذتوں میں سختی آ جائے یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہو گیا۔

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً

ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی چند بستیاں اور (آباد) رکھی تھیں جو سر راہ ظاہر تھیں

وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ (۱۸)

اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر تھیں ان میں راتوں اور دنوں کو بھی امن و امان چلتے پھرتے رہو

ان پر جو نعمتیں تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ قریب قریب آبادیاں تھیں۔ کسی مسافر کو اپنے سفر میں توشہ یا پانی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ تھی۔ ہر ہر منزل پر پختہ مزے دار تازے میوے خوشگوار میٹھا پانی موجود ہر رات کو کسی بستی میں گزار لیں اور راحت و آرام امن و امان سے جائیں آئیں کہتے ہیں کہ یہ بستیاں صنعا کے قرب و جوار میں تھیں،

فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا

لیکن انہوں نے پھر کہا اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کر دے

بَاعِدْ کی دوسری قرأت بَعِدہ ۔

اس راحت و آرام سے وہ پھول گئے

وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ

چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا اسلئے ہم نے انہیں (گزشتہ) افسانوں کی صورت میں کر دیا اور انکے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیئے

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (۱۹)

بلاشبہ ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے اس (ماجرے) میں بہت سی عبرتیں ہیں۔‏

 اور جس طرح بنو اسرائیل نے من سلویٰ کے بدلے لہسن پیاز وغیرہ طلب کیا تھا انہوں نے بھی دور دراز کے سفر طے کرنے کی چاہت کی تاکہ درمیان میں جنگل بھی آئیں غیر آباد جگہیں بھی آئیں کھانے پینے کا لطف بھی آئے۔

 قوم موسیٰ کی اس طلب نے ان پر ذلت و مسکنت ڈالی۔ اسی طرح انہیں بھی فراخی روزی کے بعد ہلاکت ملی۔ بھوک اور خوف میں پڑے۔ اطمینان اور امن غارت ہوا۔ انہوں نے کفر کر کے خود اپنا بگاڑا اب ان کی کہانیاں رہ گئیں۔ لوگوں میں ان کے افسانے رہ گئے۔ تتر بتر ہوگئے۔ یہاں تک کہ جو قوم تین تیرہ ہو جائے تو عرب میں انہیں سبائیوں کی مثل سناتے ہیں۔

 عکرمہ ان کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:

 ان میں ایک کاہنہ اور ایک کاہن تھا جن کے پاس جنات ادھر ادھر کی خبریں لایا کرتے تھے اس کاہن کو کہیں پتہ چل گیا کہ اس بستی کی ویرانی کا زمانہ قریب آ گیا ہے اور یہاں کے لوگ ہلاک ہونے والے ہیں تھا یہ بڑا مالدار خصوصاً جائیداد بہت ساری تھی اس نے سوچا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور ان حویلیوں اور مکانات اور باغات کی نسبت کیا انتظام کرنا چاہئے آخر ایک بات اس کی سمجھ میں آ گئی اس کے سسرال کے لوگ بہت سارے تھے اور وہ قبیلہ بھی جری ہونے کے علاوہ مالدار تھا۔ اس نے اپنے لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا سنو کل لوگ میرے پاس جمع ہو جائیں گے میں تجھے کسی کام کو کہوں گا تو انکار کر دینا میں تجھے برا بھلا کہوں گا تو بھی مجھے میری گالیوں کا جواب دینا میں اٹھ کر تجھے تھپڑ ماروں گا تو بھی اس کے جواب میں مجھے تھپڑ مارنا

 اس نے کہا ابا جی مجھ سے یہ کیسے ہو سکے گا؟

 کاہن نے کہا تم نہیں سمجھتے ایک ایسا ہی اہم معاملہ درپیش ہے اور تمہیں میرا حکم مان لینا چاہئے۔

 اس نے اقرار کیا دوسرے دن جبکہ اس کے پاس اس کے ملنے جلنے والے سب جمع ہو گئے اس نے اپنے اس لڑکے سے کسی کام کو کہا اس نے صاف انکار کر دیا اس نے اسے گالیاں دیں تو اس نے بھی سامنے گالیاں دیں۔ یہ غصے میں اٹھا اور اسے مارا لڑکے نے بھی پلٹ کر اسے پیٹا یہ اور غضبناک ہوا اور کہنے لگا چھری لاؤ میں تو اسے ذبح کروں گا تمام لوگ گھبرا گئے ہر چند سمجھایا لیکن یہ یہی کہتا رہا کہ میں تو اسے ذبح کروں گا لوگ دوڑے بھاگے گئے اور لڑکے کے ننھیال والوں کو خبر کی وہ سب آگئے

 اول تو منت سماجت کی منوانا چاہا لیکن یہ کب مانتا تھا انہوں نے کہا آپ اسے کوئی اور سزا دیجئے اس کے بدلے ہمیں جو جی چاہے سزا دیجئے لیکن اس نے کہا میں تو اسے لٹکا کر باقاعدہ اپنے ہاتھ سے ذبح کروں گا انہوں نے کہا ایسا آپ نہیں کر سکتے اس سے پہلے ہم آپ کو مار ڈالیں گے۔ اس نے کہا اچھا جب یہاں تک بات پہنچ گئی ہے تو میں ایسے شہر میں نہیں رہنا چاہتا جہاں میرے اور میری اولاد کے درمیان اور لوگ پڑیں مجھ سے میرے مکانات جائیدادیں اور زمینیں خرید لو میں یہاں سے کہیں اور چلا جاتا ہوں چنانچہ اس نے سب کچھ بیچ ڈالا اور قیمت نقد وصول کرلی

جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنی قوم کو خبر کر دی سنو عذاب اللہ کا آ رہا ہے زوال کا وقت قریب پہنچ چکا ہے اب تم میں سے جو محنت کر کے لمبا سفر کر کے نئے گھروں کا آرزو مند ہو وہ تو عمان چلا جائے اور جو کھانے پینے کا شوقین ہو وہ بصرہ چلا جائے اور جو مزیدار کھجوریں باغات میں بیٹھ کر آزادی سے کھانا چاہتا ہو وہ مدینے چلا جائے۔

قوم کو اس کی باتوں کا یقین تھا جسے جو جگہ اور جو چیز پسند آئی وہ اسی طرف منہ اٹھائے بھاگا۔ بعض عمان کی طرف بعض بصرہ کی طرف۔ بعض مدینے کی طرف۔ اس طرف تین قبیلے چلے تھے اوس اور خزرج اور بنو عثمان جب یہ لوگ بطن مر میں پہنچے تو بنو عثمان نے کہا ہمیں تو یہ جگہ بہت پسند ہے اب ہم آگے نہیں جائیں گے۔ چنانچہ یہ یہیں بس گئے اور اسی وجہ سے انہیں خزاعہ کہا گیا۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے۔ اوس و خزرج برابر مدینے پہنچے اور یہاں آ کر قیام کیا۔

 یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے۔ جس کاہن کا اس میں ذکر ہے اس کا نام عمرہ بن عامر ہے یہ یمن کا ایک سردار تھا اور سبا کے بڑے لوگوں میں سے تھا اور ان کا کاہن تھا۔

 سیرۃ ابن اسحاق میں ہے:

سب سے پہلے یہی یمن سے نکلا تھا اس لئے کہ سد مارب کو کھوکھلا کرتے ہوئے اس نے چوہوں کو دیکھ لیا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ اب یمن کی خیر نہیں یہ دیوار گری اور سیلاب سب کچھ تہہ و بالا کرے گا تو اس نے اپنے سب سے چھوٹے لڑکے کو وہ مکر سکھایا جس کا ذکر اوپر گزرا اس وقت اس نے غصے میں کہا کہ میں ایسے شہر میں رہنا پسند نہیں کرتا میں اپنی جائیدادیں اور زمینیں اسی وقت بیچتا ہوں لوگوں نے کہا عمرو کے اس غصے کو غنیمت جانو چنانچہ سستا مہنگا سب کچھ بیچ ڈالا اور فارغ ہو کر چل پڑا

 قبیلہ اسد بھی اس کے ساتھ ہو لیا راستے میں عکہ ان سے لڑے برابر برابر کی لڑائی رہی۔ جس کا ذکر عباس بن مرد اس اسلمی رضی اللہ عنہ کے شعروں میں بھی ہے۔ پھر یہ یہاں سے چل کر مختلف شہروں میں پہنچ گئے۔ آل جفتہ بن عمرو بن عامر شام میں گئے۔ اوس و خزرج مدینے میں، خزاعہ مر میں از مراۃ سراۃ میں، ازدعمان عمان میں۔ یہاں سیلاب آیا جس نے مارب کے بند کو توڑ دیا۔

 سدی نے اس قصے میں بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے مقابلے کے لئے اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ بھتیجے کو کہا تھا۔

بعض اہل علم کا بیان ہے کہ اس کی عورت جس کا نام طریقہ تھا اس نے اپنی کہانت سے یہ بات معلوم کر کے سب کو بتائی تھی

 اور روایت میں ہے:

 عمان میں غسانی اور ازد بھی ہلاک کر دیئے گئے۔ میٹھے اور ٹھنڈے پانی کی ریل پیل پھلوں اور کھیتوں کی بیشمار روزی کے باوجود سیل عرم سے یہ حالت ہو گئی کہ ایک ایک لقمے کو اور ایک ایک بوند پانی کو ترس گئے

 یہ پکڑ اور عذاب یہ تنگی اور سزا جو انہیں پہنچی اس سے ہرصابر وشاکر عبرت حاصل کر سکتا ہے کہ اللہ کی نافرمانیاں کس طرح انسان کو گھیر لیتی ہیں عافیت کو ہٹا کر آفت کو لے آتی ہیں۔ مصیبتوں پر صبر نعمتوں پر شکر کرنے والے اس میں دلائل قدرت پائیں گے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے مؤمن کے لئے تعجب ناک فیصلہ کیا ہے اگر اسے راحت ملے اور یہ شکر کرے تو اجر پائے اور اگر اسے مصیبت پہنچے اور صبر کرے تو اجر پائے۔ غرض مؤمن کو ہر حالت پر اجر و ثواب ملتا ہے اس کا ہر کام نیک ہے۔ یہاں تک کہ محبت کے ساتھ جو لقمہ اٹھا کر یہ اپنی بیوی کے منہ میں دے اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے (مسند احمد)

بخاری و مسلم میں ہے:

 آپ ﷺفرماتے ہیں:

 تعجب ہے کہ مؤمن کے لئے اللہ تعالیٰ کی ہر قضا بھلائی کے لئے ہی ہوتی ہے۔ اگر اسے راحت اور خوشی پہنچتی ہے تو شکر کر کے بھلائی حاصل کرتا ہے اور اگر برائی اور غم پہنچتا ہے تو یہ صبر کرتا ہے اور بدلہ حاصل کرتا ہے۔ یہ نعمت تو صرف مؤمن کو ہی حاصل ہے کہ جس کی ہر حالت بہتری اور بھلائی والی ہے۔

 حضرت مطرف فرماتے ہیں:

 صبر و شکرانے والا بندہ کتنا ہی اچھا ہے کہ جب اسے نعمت ملے تو شکر کرے اور جب زحمت پہنچے تو صبر کرے۔

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ

اور شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا

سبا کے قصے کے بیان کے بعد شیطان کے اور مریدوں کا عام طور پر ذکر فرماتا ہے کہ وہ ہدایت کے بدلے ضلالت بھلائی کے بدلے برائی لے لیتے ہیں۔ ابلیس نے راندہ درگاہ ہو کر جو کہا تھا کہ

أَرَءَيْتَكَ هَـذَا الَّذِى كَرَّمْتَ عَلَىَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ لأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إَلاَّ قَلِيلاً  (۱۷:۶۲)

میں ان کی اولاد کو ہر طرح برباد کرنے کی کوشش کروں گا اور تھوڑی سی جماعت کے سوا باقی سب لوگوں کو تیری سیدھی راہ سے بھٹکا دوں گا۔

فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۲۰)

یہ لوگ سب کے سب اسکے تابعدار بن گئے سوائے مؤمنوں کی ایک جماعت کے۔‏

اس نے یہ کر دکھایا اور اولاد آدم کو اپنے پنجے میں پھانس لیا۔

جب حضرت آدم و حوا اپنی خطا کی وجہ سے جنت سے اتار دیئے گئے اور ابلیس لعین بھی ان کے ساتھ اترا اس وقت وہ بہت خوش تھا اور جی میں اترا رہا تھا کہ جب انہیں میں نے بہکا لیا تو ان کی اولاد کو تباہ کر دینا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

 اس خبیث کا قول تھا کہ میں ابن آدم کو سبز باغ دکھاتا رہوں گا غفلت میں رکھوں گا۔ طرح طرح سے دھوکے دوں گا اور اپنے جال میں پھنسائے رکھوں گا۔

 جس کے جواب میں جناب باری جل جلالہ نے فرمایا تھا :

مجھے بھی اپنی عزت کی قسم موت کے غرغرے سے پہلے جب کبھی وہ توبہ کرے گا میں فوراً قبول کرلوں گا۔ وہ مجھے جب پکارے گا میں اس کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا۔ مجھ سے جب کبھی جو کچھ مانگے گا میں اسے دوں گا۔ مجھ سے جب وہ بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دوں گا۔ (ابن ابی حاتم)

وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ۗ

شیطان کا ان پر کوئی زور نہ تھا مگر اسلئے کہ ہم ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ظاہر کر دیں ان لوگوں میں سے جو اس سے شک میں ہیں

اس کا کوئی غلبہ، حجت، زبردستی، مارپیٹ انسان پر نہ تھی۔ صرف دھوکہ، فریب اور مکر بازی تھی جس میں یہ سب پھنس گئے۔ اس میں حکمت الہٰی یہ تھی کہ مؤمن و کافر ظاہر ہو جائیں۔ حجت اللہ ختم ہو جائے آخرت کو ماننے والے شیطان کی نہیں مانیں گے۔ اس کے منکر رحمان کی اتباع نہیں کریں گے۔

وَرَبُّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ (۲۱)

 اور آپ کا رب (ہر) ہرچیز پر نگہبان ہے۔‏

اللہ ہرچیز پر نگہبان ہے۔مؤمنوں کی جماعت اس کی حفاظت کا سہارا لیتی ہے اس لئے ابلیس ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور کافروں کی جماعت خود اللہ کو چھوڑ دیتی ہے اس لئے ان پر سے اللہ کی نگہبانی ہٹ جاتی ہے اور وہ شیطان کے ہر فریب کا شکار بن جاتے ہیں۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ

کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو

بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اکیلا ہے، واحد ہے، احد ہے، فرد ہے، صمد ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بےنظیر، لاشریک اور بےمثیل ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھی نہیں، مشیر نہیں، وزیر نہیں، مددگار و پیشی بان نہیں۔

لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ

نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے

پھر ضد کرنے والا اور خلاف کہنے والا کہاں؟

جن جن کو پکارا کرتے و پکار کر دیکھ لو معلوم ہو جائے گا کہ ایک ذرے کے بھی مختار نہیں۔ محض بےبس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں، نہ زمینیوں میں ان کی کچھ چلے نہ آسمانوں میں

 جیسے اور آیت میں ہے

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ  (۳۵:۱۳)

 جنہیں تم اسکے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔

وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (۲۲)

نہ ان کا ان میں کوئی حصہ نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے

اور یہی نہیں کہ انہیں خود اختیاری حکومت نہ ہو نہ سہی شرکت کے طور پر ہی ہو نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میں مدد لیتا ہے۔ بلکہ یہ سب کے سب فقیر محتاج ہیں اس کے در کے غلام اور اس کے بندے ہیں،

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ

شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہو جائے

 اس کی عظمت و کبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرأت نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش بغیر اس کی رضامندی کے بغیر کر سکے جیسے فرمان ہے:

مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ (۲:۲۵۵)

کون ہےجو  اس کے سامنے کسی کی سفارش بغیر اس کی رضامندی کے بغیر کر سکے

اور آیت میں ہے:

وَكَمْ مِّن مَّلَكٍ فِى السَّمَـوَتِ لاَ تُغْنِى شَفَـعَتُهُمْ شَيْئاً إِلاَّ مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَى  (۵۳:۲۶)

آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لئے لب ہلا نہیں سکتے مگر جس کے لئے اللہ اپنی رضامندی سے اجازت دے دے۔

ایک اور جگہ فرمان ہے:

وَلاَ يَشْفَعُونَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ  (۲۱:۲۸)

وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جن کے لئے اللہ کی رضامندی ہو وہ تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں۔

 تمام اولاد آدم کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لئے تشریف لے آئیں گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اور مخلوق کے فیصلے کرے اس وقت کی نسبت آپ فرماتے ہیں:

 میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا اللہ جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہو گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھایئے آپ بات کیجئے آپ کی بات سنی جائے گی آپ مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔

حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ

یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟

قَالُوا الْحَقَّ ۖ

جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا

وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (۲۳)

اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔‏

 رب کی عظمت کا ایک اور مقام بیان ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے اور آسمانوں کے مقرب فرشتے اسے سنتے ہیں تو ہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں اور غشی والے کی طرح ہو جاتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے۔

 تو اب آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا؟

پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم پہنچا دیتے ہیں بلا کم و کاست ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں۔

ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے:

 جب سکرات کا وقت آتا ہے۔ اس وقت مشرک یہ کہتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن بھی جب اپنی غفلت سے چونکیں گے اور ہوش و حواس قائم ہو جائیں گے اس وقت یہ کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟

 جواب ملے گا کہ حق فرمایا، حق فرمایا

 اور جس چیز سے دنیا میں بےفکر تھے آج اس کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ تو دلوں سے گھبراہٹ دور کئے جانے کے یہ معنی ہوئے کہ جب آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اس وقت سب شک و تکذیب الگ ہو جائیں گے۔ شیطانی وساوس دور ہو جائیں گے اس وقت رب کے وعدوں کی حقانیت تسلیم کریں گے اور اس کی بلندی اور بڑائی کے قائل ہوں گے۔ پس نہ تو موت کے وقت کا اقرار نفع دے نہ قیامت کے میدان کا اقرار فائدہ پہنچائے۔

لیکن امام ابن جریر کے نزدیک پہلی تفسیر ہی راحج ہے یعنی مراد اس سے فرشتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے اور اس کی تائید احادیث و آثار سے بھی ہوتی ہے۔

 صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے:

جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ آسمان میں کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں اور رب کا کلام ایسا واقع ہوتا ہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھر پر بجائی جاتی ہو جب ہیبت کم ہو جاتی ہے۔ تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا؟

 جواب ملتا ہے کہ جو فرمایا حق ہے اور وہ اعلی و کبیر ہے۔

 بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو جنات فرشتوں کی باتیں سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں اور جو تہہ بہ تہہ ایک دوسروں کے اوپر ہیں وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں اوپر والا نیچے والے کو وہ اپنے سے نیچے والے کو سنا دیتا ہے اور وہ کاہنوں کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ ان کے پیچھے فوراً ان کے جلانے کو آگ کا شعلہ لپکتا ہے لیکن کبھی کبھی تو وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہنچا دتا ہے اور کبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلا دیا جاتا ہے۔ کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتا ہے۔ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی

مسند میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردستی روشنی ہو گئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا خیال ان ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت کیا تھا؟

 انہوں نے کہا ہم اس موقعہ پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا یا مرا۔

 زہری سے سوال ہوا کہ کیا جاہلیت کے زمانے میں بھی ستارے جھڑتے تھے؟

کہا ہاں لیکن کم۔ آپﷺ کی بعثت کے زمانے سے ان میں بہت زیادتی ہو گئی۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سنو انہیں کسی کی موت و حیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کسی امر کا آسمانوں میں فیصلہ کرتا ہے تو حاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ساتویں آسمان والے پھر چھٹے آسمان والے یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا تک پہنچتی ہے۔ پھر عرش کے آس پاس کے فرشتے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں بتاتے ہیں پھر ہر نیچے والا اوپر والے سے دریافت کرتا ہے اور وہ اسے بتاتا ہے یہاں تک کہ آسمان اول والوں کو خبر پہنچتی ہے۔

کبھی اچک لے جانے والے جنات اسے سن لیتے ہیں تو ان پر یہ ستارے جھڑتے ہیں تاہم جو بات اللہ کو پہنچانی منظور ہوتی ہے اسے وہ لے اڑتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت کچھ باطل اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شہرت دیتے ہیں۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی امر کی وحی کرتا ہے تو آسمان مارے خوف کے کپکپا اٹھتے ہیں اور فرشتے ہیبت زدہ ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں اور اللہ کافرمان سنتے ہیں پھر ان کی زبانی اور فرشتے سنتے ہیں اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ اللہ نے حق فرمایا وہ بلندی اور بڑائی والا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا امین فرشتہ جس کی طرف ہو اسے پہنچا دیتا ہے۔

حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے :

یہ اس وحی کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبیوں کے نہ ہونے کے زمانے میں بندہ رہ کر پھر ابتداء ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی وحی کے بھی اس آیت کے تحت میں داخل ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن آیت اس کو اور سب کو شامل ہے۔

قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ

پوچھئے کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے؟

قُلِ اللَّهُ ۖ

 (خود) جواب دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ۔

اللہ تعالیٰ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ صرف وہی خالق و رازق ہے اور صرف وہی الوہیت والا ہے۔ جیسے ان لوگوں کو اس کا اقرار ہے کہ آسمان سے بارشیں برسانے والا اور زمینوں سے اناج اگانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ایسے ہی انہیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ عبادت کے لائق بھی فقط وہی ہے۔

وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۲۴)

 (سنو) ہم یا تم۔ یا تو یقیناً ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں؟

پھر فرماتا ہے کہ جب ہم تم میں اتنا بڑا اختلاف ہے تو لامحالہ ایک ہدایت پر اور دوسرا ضلالت پر ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ دونوں فریق ہدایت پر ہوں یا دونوں ضلالت پر ہوں۔ ہم موحد ہیں اور توحید کے دلائل کھلم کھلا ہیں اور واضح ہم بیان کر چکے ہیں اور تم شرک پر ہو جس کی کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں۔ پس یقیناً ہم ہدایت پر اور یقیناً تم ضلالت پر ہو۔

 اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں سے ہی کہا تھا کہ ہم فریقین میں سے ایک ضرور سچا ہے۔ کیونکہ اس قدر تضاد و تباین کے بعد دونوں کا سچا ہونا تو عقلاً محال ہے۔

 اس آیت کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ ہم ہی ہدات پر اور تم ضلالت پر ہو ، ہمارا تمہارا بالکل کوئی تعلق نہیں۔

قُلْ لَا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۲۵)

کہہ دیجئے! ہمارے کئے ہوئے گناہوں کی بابت تم سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا نہ تمہارے اعمال کی باز پرس ہم سے کی جائے گی۔‏

ہم تم سے اور تمہارے اعمال سے بری الذمہ ہیں۔ ہاں جس راہ ہم چل رہے ہیں اسی راہ پر تم بھی آ جاؤ تو بیشک تم ہمارے ہو اور ہم تمہارے ہیں ورنہ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں

 اور ایک آیت میں بھی ہے:

وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِىءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ  (۱۰:۴۱)

اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے ساتھ ہے اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ ، تم میرے اعمال سے چڑتے ہو اور میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں۔

سورہ الکافرون ، میں بھی اسی بےتعلقی اور برأت کا ذکر ہے،

قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ (۲۵)

انہیں خبر دے دیجئے کہ سب کو ہمارا رب جمع کر کے پھر ہم میں سے سچے فیصلے کر دے گا وہ فیصلے چکانے والا ہے‏

رب العالمین تمام عالم کو میدان قیامت میں اکٹھا کر کے سچے فیصلے کر دے گا۔ نیکوں کو ان کی جزا اور بدوں کو ان کی سزا دے گا۔ اس دن تمہیں ہماری حقانیت و صداقت معلوم ہو جائے گی۔ جیسے ارشاد ہے:

وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ ـ ۔۔۔ فَأُوْلَـئِكَ فِى الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ  (۳۰:۱۴،۱۶)

قیامت کے دن سب جدا جدا ہو جائیں گے۔ ایماندار جنت کے پاک باغوں میں خوش وقت و فرحان ہوں گے

اور ہماری آیتوں اور آخرت کے دن کو جھٹلانے والے، کفر کرنے والے، دوزخ کے گڑھوں میں حیران و پریشان ہوں گے۔

 وہ حاکم و عادل ہے، حقیقت حال کا پورا عالم ہے،

قُلْ أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُمْ بِهِ شُرَكَاءَ ۖ كَلَّا ۚ

کہہ دیجئے! اچھا مجھے بھی تو انہیں دکھا دو جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہرا کر اس کے ساتھ ملا رہے ہو، ایسا ہرگز نہیں

تم اپنے ان معبودوں کو ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ۔ لیکن کہاں سے ثبوت دے سکو گے۔ جبکہ میرا رب لانظیر، بےشریک اور عدیم المثال ہے، وہ اکیلا ہے، وہ ذی عزت ہے جس نے سب کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور ہر ایک پر غالب آ گیا ہے۔

بَلْ هُوَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۲۷)

بلکہ وہی اللہ ہے غالب با حکمت۔‏

حکیم ہے اپنے اقوال و افعال میں۔ اس طرح شریعت اور تقدیر میں بھی برکتوں والا بلندیوں والا پاک منزہ اور مشرکوں کی تمام تہمتوں سے الگ ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا

ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے

اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھے تمام کائنات کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ جیسے اور جگہ ہے:

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ (۷:۱۵۸)

اعلان کر دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں

 اور آیت میں ہے:

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (۲۵:۱)

بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان کو ہوشیار کر دے۔

وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (۲۸)

ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بےعلم ہے

‏ یہ بھی فرمایا کہ اطاعت گزاروں کو بشارت جنت کی دے اور نافرمانوں کو خبر جہنم کی ۔ لیکن اکثر لوگ اپنی جہالت سے نبی کی نبوت کو نہیں مانتے جیسے فرمایا :

وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ (۱۲:۱۰۳)

آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے

 ایک اور جگہ ارشاد ہوا :

وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ (۶:۱۱۶)

اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے

 یعنی اگر بڑی جماعت کی بات مانے گا تو وہ خود تجھے راہ راست سے ہٹا دیں گے۔

 پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام لوگوں کی طرف تھی۔ عرب عجم سب کی طرف سے اللہ کو زیادہ پیارا وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تابع فرمان ہو۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور نبیوں پر غرض سب پر فضیلت دی ہے۔

 لوگوں نے اس کی دلیل دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو قرآن فرماتا ہے کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ وہ اس میں کھلم کھلا تبلیغ کر دے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے عام لوگوں کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا۔

بخاری مسلم میں فرمان رسالت مآب ہے :

 مجھے پانچ صفتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔

-  مہینہ بھر کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے۔

- میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے میری اُمت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے

- مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں کیا گیا تھا۔ میرے لئے غنیمت حلال کر دی گئی۔

-  مجھے شفاعت دی گئی۔

- ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا

 اور حدیث میں ہے:

 سیاہ و سرخ سب کی طرف میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یعنی جن وانس عرب و عجم کی طرف،

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۲۹)

پوچھتے ہیں کہ وہ وعدہ ہے کب؟ سچے ہو تو بتا دو۔

پھر کافروں کا قیامت کو محال ماننا بیان ہو رہا ہے کہ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی؟

 جیسے اور جگہ ہے:

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ (۴۲:۱۸)

بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور با ایمان اس سے کپکپا رہے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں۔

قُلْ لَكُمْ مِيعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ (۳۰)

جواب دیجئے کہ وعدے کا دن ٹھیک معین ہے جس سے ایک ساعت نہ تم پیچھے ہٹ سکتے ہو نہ آگے بڑھ سکتے ہو ۔‏

 جواب دیتا ہے کہ تمہارے لئے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیر و تاخیر، کمی و زیادتی ناممکن ہے۔

جیسے فرمایا:

إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَآءَ لاَ يُؤَخَّرُ (۷۱:۴)

وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں۔

اور فرمایا:

وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلاَّ لاًّجَلٍ مَّعْدُودٍـ يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِىٌّ وَسَعِيدٌ  (۱۱:۱۰۴،۱۰۵)

تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهَذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ

اور کافروں نے کہا ہم ہرگز نہ تو اس قرآن کو مانیں نہ اس سے پہلے کی کتابوں کو!

کافروں کی سرکشی اور باطل کی ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ قرآن کی حقانیت کی ہزارہا دلیلیں بھی دیکھ لیں لیکن نہیں مانیں گے۔ بلکہ اس سے اگلی کتاب پر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ الْقَوْلَ

اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھتا جبکہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام لگا رہے ہونگے

انہیں اپنے اس قول کا مزہ اس وقت آئے گا جب اللہ کے سامنے جہنم کے کنارے کھڑے چھوٹے بڑوں کو، بڑے چھوٹوں کو الزام دیں گے۔ ہر ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرائے گا۔

يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ (۳۱)

کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مؤمنوں میں سے ہوتے ۔‏

تابعدار اپنے سرداروں سے کہیں گے کہ تم ہمیں نہ روکتے تو ہم ضرور ایمان لائے ہوئے ہوتے،

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَى بَعْدَ إِذْ جَاءَكُمْ ۖ

یہ بڑے لوگ ان کمزورں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟

ان کے بزرگ انہیں جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں روکا تھا؟ ہم نے ایک بات کہی تم جانتے تھے کہ یہ سب بےدلیل ہے دوسری جانب سے دلیلیوں کی برستی ہوئی بارش تمہاری آنکھوں کے سامنے تھی پھر تم نے اس کی پیروی چھوڑ کر ہماری کیوں مان لی؟

یہ تو تمہاری اپنی بےعقلی تھی، تم خود شہوت پرست تھے، تمہارے اپنے دل اللہ کی باتوں سے بھاگتے تھے، رسولوں کی تابعداری خود تمہاری طبیعتوں پر شاق گزرتی تھی۔

بَلْ كُنْتُمْ مُجْرِمِينَ (۳۲)

 (نہیں) بلکہ تم (خود) ہی مجرم تھے ۔‏

سارا قصور تمہارا اپنا ہی ہے ہمیں کیا الزام دے رہے ہو؟

وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَنْ نَكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ

(اس کے جواب میں) یہ کمزور لوگ ان متکبروں سے کہیں گے، (نہیں نہیں)

بلکہ دن رات مکرو فریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا ہمارا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا

اپنے بزرگوں کی مان لینے والے یہ بےدلیل انہیں پھر جواب دیں گے کہ تمہاری دن رات کی دھوکے بازیاں، جعل سازیاں، فریب کاریاں ہمیں اطمینان دلاتیں کہ ہمارے افعال اور عقائد ٹھیک ہیں، ہم سے بار بار شرک و کفر کے نہ چھوڑنے، پرانے دین کے نہ بدلنے، باپ دادوں کی روش پر قائم رہنے کو کہنا، ہماری کمر تھپکنا ۔ ہماے ایمان سے رک جانے کا یہی سبب ہوا۔ تم ہی آ آ کر ہمیں عقلی ڈھکو سلے سنا کر اسلام سے روگرداں کرتے تھے۔

وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ

اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل میں پشیمان ہو رہے ہونگے اور کافروں کی گردنوں میں ہم طوق ڈال دیں گے

دونوں الزام بھی دیں گے۔ برأت بھی کریں گے۔ لیکن دل میں اپنے کئے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ ان سب کے ہاتھوں کو گردن سے ملا کر طوق و زنجیر سے جکڑ دیا جائے گا۔

هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۳۳)

انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔

 اب ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ گمراہ کرنے والوں کو بھی اور گمراہ ہونے والوں کو بھی۔ ہر ایک کو پورا پورا عذاب ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جہنمی جب ہنکا کر جہنم کے پاس پہنچائے جائیں گے تو جہنم کے ایک شعلے کی لپیٹ سے سارے جسم کا گوشت جھلس کر پیروں پر آ پڑے گا۔ (ابن ابی حاتم)

حسن بن یحییٰ خشنی فرماتے ہیں کہ جہنم کے ہر قید خانے، ہر غار، ہر زنجیر، ہر قید پر جہنمی کا نام لکھا ہوا ہے

جب حضرت سلیمان دارانی کے سامنے یہ بیان ہوا تو آپ بہت روئے اور فرمانے لگے ہائے ہائے پھر کیا حال ہو گا اس کا جس پر یہ سب عذاب جمع ہو جائیں۔ پیروں میں بیڑیاں ہوں، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوں، گردن میں طوق ہوں پھر جہنم کے غار میں دھکیل دیا جائے۔ اللہ تو بچانا پروردگار تو ہمیں سلامت رکھنا۔ اللھم سلم اللھم سلم

وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (۳۴)

اور ہم نے جس بستی میں جو بھی آگاہ کرنے والا بھیجاوہاں کے خوشحال لوگوں نے یہی کیا کہ جس چیز کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں ۔‏

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور اگلے پیغمبروں کی سی سیرت رکھنے کو فرماتا ہے۔

 فرماتا ہے کہ جس بستی میں جو رسول گیا اس کا مقابلہ ہوا۔ بڑے لوگوں نے کفر کیا، ہاں غربا نے تابعداری کی جیسے کہ قوم نوح نے اپنی نبی سے کہا تھا

أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الاٌّرْذَلُونَ  (۲۶:۱۱۰)

ہم تجھ پر کیسے ایمان لائیں تیرے ماننے والے تو سب نیچے درجے کے لوگ ہیں۔

یہی مضمون دوسری آیت میں ہے۔

وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلاَّ الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِىَ الرَّأْى  (۱۱:۲۷)

قوم صالح کے متکبر لوگ ضعیفوں سے کہتے ہیں:

أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَـلِحاً مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِ قَالُواْ إِنَّا بِمَآ أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ ـ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِى ءَامَنتُمْ بِهِ كَـفِرُونَ  (۷:۷۵،۷۶)

کیا تمہیں حضرت صالح کے نبی ہونے کا یقین ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہم تو مؤمن ہیں۔ تو متکبرین نے صاف کہا کہ ہم نہیں مانتے۔

اور آیت میں ہے:

وَكَذلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُولواْ أَهَـؤُلاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَآ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّـكِرِينَ  (۶:۵۳)

اسی طرح ہم نے ایک کو دو سرے سے فتنے میں ڈالا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم سب میں سے احسان کیا۔ کیا اللہ شکر گزاروں کو جاننے والا نہیں؟

 اور فرمایا:

وَكَذلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَـبِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا (۶:۱۲۳)

ہر بستی میں وہاں کے بڑے لوگ مجرم اور مکار ہوتے ہیں

 اور فرمان ہے:

وَإِذَآ أَرَدْنَآ أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا  (۱۷:۱۶)

جب کسی بستی کی ہلاکت کا ہم ارادہ کرتے ہیں تو اس کے سرکش لوگوں کو کچھ احکام دیتے ہیں وہ نہیں مانتے پھر ہم انہیں ہلاک کر دیتے ہیں۔

پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ہم نے جس بستی میں کوئی نبی اور رسول بھیجا وہاں کے جاہ و حشمت شان و شوکت والے رئیسوں، امیروں، سرداروں اور بڑے لوگوں نے جھٹ اپنے کفر کا اعلان کر دیا۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 ابو رزین فرماتے ہیں کہ دو شخص آپس میں شریک تھے ایک تو سمندر پار چلا گیا، ایک وہیں رہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس نے اپنے ساتھی سے لکھ کر دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟

 اس نے جواب میں لکھا کہ گرے پڑے لوگوں نے اس کی بات مانی ہے۔ شریف قریشیوں نے اس کی اطاعت نہیں کی۔

 اس خط کو پڑھ کر وہ اپنی تجارت چھوڑ چھاڑ کر سفر کر کے اپنے شریک کے پاس پہنچا۔ یہ پڑھا لکھا آدمی تھا، کتابوں کا علم اسے حاصل تھا۔ اس سے پوچھا کہ بتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟

معلوم کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس چیز کی طرف بلاتے ہیں؟

 آپ ﷺنے اسلام کے ارکان اس کے سامنے بیان فرمائے۔ وہ اسے سنتے ہی ایمان لے آیا۔

 آپﷺ نے فرمایا تمہیں اس کی تصدیق کیونکر ہو گئی؟

اس نے کہا اس بات سے کہ تمام انبیاء کے ابتدائی ماننے والے ہمیشہ ضعیف مسکین لوگ ہی ہوتے ہیں۔

 اس پر یہ آیتیں اتریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیج کر ان سے کہلوایا کہ تمہاری بات کی سچائی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔

 اسی طرح ہرقل نے کہا تھا جب کہ اس نے ابوسفیان سے ان کی جاہلیت کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دریافت کیا تھا کہ کیا شریف لوگوں نے ان کی تابعداری کی ہے یا ضعیفوں نے؟ تو ابوسفیان نے جواب دیا کہ ضعیفوں نے۔ اس پر ہرقل نے کہا تھا کہ ہر رسول کی اولاً تابعداری کرنے والے یہی ضعیف لوگ ہوتے ہیں،

وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (۳۵)

اور کہا ہم مال اولاد میں بہت بڑے ہوئے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم عذاب دیئے جائیں

پھر فرمایا یہ خوش حال لوگ ومال و اولاد کی کثرت پر ہی فخر کرتے ہیں اور اسے اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ پسندیدہ ہیں اللہ کے ۔ اگر اللہ کی خاص عنایت و مہربانی ان پر نہ ہوتی تو انہیں یہ نعمتیں نہ دیتا اور جب یہاں رب مہربان ہے تو آخرت میں بھی وہ مہربان ہی رہے گا۔ قرآن نے ہر جگہ اس کا رد کیا ہے ایک جگہ فرمایا:

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ ـ  نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ (۲۳:۵۵،۵۶)

کیا ان کا خیال ہے کہ مال و اولادا کی اکثریت ان کے لئے بہتر ہے؟ نہیں بلکہ برائی ہے لیکن یہ بےشعور ہیں۔

 ایک اور آیت میں ہے:

فَلاَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَلاَ أَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَـفِرُونَ (۹:۵۵)

ان کی مال و اولاد تجھے دھوکے میں نہ ڈالے اس سے انہیں دنیا میں بھی سزا ہوگی اور مرتے دم تک یہ کفر پر ہی رہیں گے

اور آیات میں ہے:

ذَرْنِى وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيداً ـ ۔۔۔عَنِيداً ـ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً (۷۴:۱۱،۱۷)

اور اس شخص کو چھوڑ دے جسے بہت سے فرزند دے رکھے ہیں اور ہر طرح کا عیش اس کے لئے مہیا کر دیا ہے۔ تاہم اسے طمع ہے کہ میں اور زیادہ دوں۔

ایسا نہیں یہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ اسے میں دوزخ کے پہاڑوں پر چڑھاؤں گا۔

 اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہوا ہے جس کے دو باغ تھے، مال والا پھلوں والا اولاد والا تھا۔ لیکن کسی چیز نے کوئی فائدہ نہ دیا عذاب الہٰی سے سب چیزیں دنیا میں ہی تباہ اور خاک سیاہ ہو گئیں۔

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (۳۶)

کہہ دیجئے! کہ میرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‏

اللہ جس کی روزی کشادہ کرنا چاہے، کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی روزی تنگ کرنا چاہے، تنگ کر دیتا ہے۔ دنیا میں تو وہ اپنے دوستوں دشمنوں سب کو دیتا ہے۔ غنی یا فقیر ہونا اس کی رضامندی اور ناراضگی کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس میں اورحکمتیں ہوتی ہیں۔ جنہیں اکثر لوگ جان نہیں سکتے،

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى

اور تمہارا مال اور اولاد ایسے نہیں کہ تمہیں ہمارے پاس (مرتبوں) قریب کر دیں

مال و اولاد کو ہماری عنایت کی دلیل بنانا غلطی ہے۔ یہ کوئی ہمارے پاس مرتبہ بڑھانے والی چیز نہیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔ (مسلم)

إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ (۳۷)

ہاں جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں انکے لئے انکے اعمال کا دوہرا اجر ہے اور وہ نڈر و بےخوف ہو کر بالا خانوں میں رہیں گے۔‏

ہاں اس کے پاس درجات دلانے والی چیز ایمان اور نیک اعمال ہیں۔ ان کی نیکیوں کے بدلے انہیں بہت بڑھا چڑھا کر دیئے جائیں گے۔ ایک ایک نیکی دس دس گنا بلکہ سات سات سو گنا کر کے دی جائے گی۔ جنت کی بلند ترین منزلوں میں ہر ڈر خوف سے، غم سے پر امن ہوں گے۔ کوئی دکھ درد نہ ہو گا۔ ایذاء اور صدمہ نہ ہو گا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے۔

 ایک اعرابی نے کہا یہ بالا خانے کس کے لئے ہیں؟

آپ نے فرمایا جو نرم کلامی کرے، کھانا کھلائے، بکثرت روزے رکھے اور لوگوں کی نیند کے وقت تہجد پڑھے۔ (ابن ابی حاتم)

وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ (۳۸)

اور جو لوگ ہماری آیتوں کے مقابلے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں یہی ہیں جو عذاب میں پکڑ کر حاضر رکھے جائیں گے۔‏

جو لوگ اللہ کی راہ سے اوروں کو روکتے ہیں ، رسولوں کی تابعداری سے لوگوں کو باز رکھتے ہیں، اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہیں کرتے ، وہ جہنم کی سزا میں حاضر کئے جائیں گے اور برا بدلہ پائیں گے۔

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ

کہہ دیجیئے! کہ میرا رب اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دیتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنی حکمت کاملہ کے مطابق جسے چاہے بہت ساری دنیا دیتا ہے اور جسے چاہے بہت کم دیتا ہے کوئی سکھ چین میں ہے کوئی دکھ درد میں مبتلا ہے۔ رب کی حکمتوں کو کوئی نہیں جان سکتا اس کی مصلحتیں وہی خوب جانتا ہے۔

جیسے فرمایا:

انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلاٌّخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَـتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً  (۱۷:۲۱)

تو دیکھ لے کہ ہم نے کس طرح ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے اور البتہ آخرت درجوں اور فضیلتوں میں بہت بڑی ہے۔

 یعنی جس طرح فقر و غنا کے ساتھ درجوں کی اونچ نیچ یہاں ہے۔ اسی طرح آخرت میں بھی اعمال کے مطابق درجات و درکات ہوں گے۔ نیک لوگ تو جنتوں کے بلند و بالا خانوں میں اور بد لوگ جہنم کے نیچے کے طبقے کے جیل خانوں میں

 دنیا میں سب سے بہتر شخص رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ ہے جو سچا مسلمان ہو اور بقدر کفایت روزی پاتا ہو اور اللہ کی طرف سے قناعت بھی دیا گیا ہو۔ (مسلم)

وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ  (۳۹)

تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اسکا (پورا پورا) بدلہ دے گااور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔

اللہ کے حکم یا اس کی اباحت کے ماتحت تم جو کچھ خرچ کرو گے اس کا بدلہ وہ تمہیں دونوں جہان میں دے گا۔

 صحیح حدیث میں ہے:

 ہر صبح ایک فرشتہ دعا کرتا ہے کہ اللہ بخیل کے مال کو تلف اور برباد کر دوسرا دعا کرتا ہے اللہ خرچ کرنے والے کو نیک بدلہ دے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 بلال خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے تنگی کا خیال بھی نہ کر۔

 ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 تمہارے اس زمانے کے بعد ایسا زمانہ آ رہا ہے جو کاٹ کھانےو الا ہو گا۔ مال ہو گا لیکن مالدار نے گویا اپنے مال پر دانت گاڑے ہوئے ہوں گے کہ کہیں خرچ نہ ہو جائے۔

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت وَمَا أَنْفَقْتُمْ کی تلاوت فرمائی

 اور حدیث میں ہے:

 بدترین لوگ وہ ہیں جو بےبس اور مضطر لوگوں کی چیزیں کم داموں خریدتے پھریں۔ یاد رکھو ایسی بیع حرام ہے، مضطر کی بیع حرام ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے رسوا کرے۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کر ورنہ اس کی ہلاکت کو تو نہ بڑھا  (ابو یعلی موصلی)

یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور ضعیف بھی ہے۔

 حضرت مجاہد فرماتے ہیں:

 کہیں اس آیت کا غلط مطلب نہ لے لینا۔ اپنے مال کو خرچ کرنے میں میانہ روی کرنا۔ روزیاں بٹ چکی ہیں، رزق مقسوم ہے۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ (۴۰)

اور ان سب کو اللہ اس دن جمع کر کے فرشتوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے

مشرکین کو شرمندہ لاجواب اور بےعذر کرنے کیلئے ان کے سامنے فرشتوں سے سوال ہو گا۔ جن کی مصنوعی شکلیں بنا کر یہ مشرک دنیا میں پوجتے رہے کہ وہ انہیں اللہ سے ملا دیں۔ سوال ہو گا کہ کیا تم نے انہیں اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا؟

 جیسے سورہ فرقان میں ہے:

أَءَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِى هَـؤُلاَءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ  (۲۵:۱۷)

کیا تم نے انہیں گمراہ کیا تھا؟ یہ خود ہی بہکے ہوئے تھے؟

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہی سوال ہو گا :

أَءَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَـنَكَ مَا يَكُونُ لِى أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّ  (۵:۱۱۶)

کیا تم لوگوں سے کہہ آئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری اور میری ماں کی عبادت کرنا؟

آپ جواب دیں گے کہ اللہ تیری ذات پاک ہے جو کہنا مجھے سزا وار نہ تھا، اسے میں کیسے کہہ دیتا؟

قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ ۖ

وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ

بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ (۴۱)

بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے‘ ان میں کے اکثر کا انہی پر ایمان تھا۔

اسی طرح فرشتے بھی اپنی برأت ظاہر کریں گے اور کہیں گے تو اس سے بہت بلند اور پاک ہے تیرا کوئی شریک ہو۔ ہم تو خود تیرے بندے تھے ہم ان سے بیزار رہے اور اب بھی ان سے الگ ہیں۔ یہ شیاطین کی پرستش کرتے تھے۔ شیطانوں نے ہی ان کے لئے بتوں کی پوجا کو مزین کر رکھا تھا اور انہیں گمراہ کر دیا تھا ان میں سے اکثر کا شیطان پر ہی اعتقاد تھا۔

 جیسے فرمان باری ہے:

إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا ـ لَّعَنَهُ اللَّهُ (۴:۱۱۷،۱۱۸)

یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عورتوں کی پرستش کرتے ہیں اور سرکش شیطان کی عبادت کرتے ہیں۔ جس پر اللہ کی پھٹکار ہے،

فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا

پس آج تم میں کوئی بھی کسی کے لیے (بھی کسی قسم کے) نفع نقصان کا مالک نہ ہو گا

پس جن جن سے تم مشرکو! لو(امید) لگائے ہوئے تھے، ان میں سے ایک بھی آج تمہیں کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا۔ اس شدت و کرب کے وقت یہ سارے جھوٹے معبود تم سے یک سو ہو جائیں گے کیونکہ انہیں کسی کے کسی طرح کے نفع و ضرر کا اختیار تھا ہی نہیں۔

وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (۴۲)

اور ہم ظالموں سے کہہ دیں گے کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلاتے رہے

 آج ہم خود مشرکوں سے فرما دیں گے کہ لو جس عذاب جہنم کو جھٹلا رہے تھے آج اس کا مزہ چکھو۔

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ

اور جب انکے سامنے ہماری صاف صاف آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں

 کہ یہ ایسا شخص ہے جو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روک دینا چاہتا ہے (اس کے سوا کوئی بات نہیں)‘

وَقَالُوا مَا هَذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرًى ۚ

اور کہتے ہیں کہ گھڑا ہوا جھوٹ ہے

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (۴۳)

اور حق انکے پاس آ چکا پھر بھی کافر یہی کہتے رہے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

کافروں کی وہ شرارت بیان ہو رہی ہے جس کے باعث وہ اللہ کے عذابوں کے مستحق ہوئے ہیں کہ اللہ کا کلام تازہ بتازہ اس کے افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنتے ہیں، قبول کرنا، ماننا اس کے مطابق عمل کرنا تو ایک طرف، کہتے ہیں کہ دیکھو یہ شخص تمہیں تمہارے پرانے اچھے اور سچے دین سے روک رہا ہے اور اپنے باطل خیالات کی طرف تمہیں بلا رہا ہے یہ قرآن تو اس کا خود تراشیدہ ہے آپ ہی گھڑ لیتا ہے اور یہ تو جادو ہے اور اس کا جادو ہونا کچھ ڈھکا چھپا نہیں، بالکل ظاہر ہے۔

وَمَا آتَيْنَاهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَهَا ۖ وَمَا أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِنْ نَذِيرٍ (۴۴)

اور ان (مکہ والوں) کو نہ تو ہم نے کتابیں دے رکھی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں نہ ان کے پاس آپ سے پہلے کوئی آگاہ کرنے والا آیا۔

پھر فرماتا ہے کہ ان عربوں کی طرف نہ تو اس سے پہلے کوئی کتاب بھیجی گئی ہے نہ آپ سے پہلے ان میں کوئی رسول آیا ہے۔ اس لئے انہیں مدتوں سے تمنا تھی کہ اگر اللہ کا رسول ہم میں آتا اگر کتاب اللہ ہم میں اترتی تو ہم سب سے زیادہ مطیع اور پابند ہو جاتے۔ لیکن جب اللہ نے ان کی یہ دیرینہ آرزو پوری کی تو جھٹلانے اور انکار کرنے لگے،

وَكَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَيْنَاهُمْ

اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی ہماری باتوں کو جھٹلایا تھا اور انہیں ہم نے جو دے رکھا تھا یہ تو اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے

ان سے اگلی اُمتوں کے نتیجے ان کے سامنے ہیں۔ وہ قوت و طاقت، مال و متاع، اسباب دنیوی ان لوگوں سے بہت زیادہ رکھتے تھے۔ یہ تو ابھی ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے لیکن میرے عذاب کے بعد نہ مال کام آئے، نہ اولاد اور کنبے قبیل کام آئے۔ نہ قوت و طاقت نے کوئی فائدہ دیا۔ برباد کر دیئے گئے

 جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ مَكَّنَـهُمْ فِيمَآ إِن مَّكَّنَّـكُمْ فِيهِ ۔۔۔ وَحَاقَ بِهم مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (۴۶:۲۶)

ہم نے انہیں قوت و طاقت دے رکھی تھی۔ آنکھیں اور کان بھی رکھتے تھے، دل بھی تھے

لیکن میری آیتوں کے انکار پر جب عذاب آیا اس وقت کسی چیز نے کچھ فائدہ نہ دیا اور جس کے ساتھ مذاق اڑاتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا۔

جیسے فرمایا:

أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى الاٌّرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَانُواْ أَكْـثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً  (۴۲:۸۲)

کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام نہیں دیکھتے جو ان سے تعداد میں زیادہ طاقت میں بڑھے ہوئے تھے۔

فَكَذَّبُوا رُسُلِي ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ (۴۵)

پس انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا‘ (پھر دیکھ کہ) میرا عذاب کیسا (سخت) تھا۔

مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے کے باعث پیس دیئے گئے، جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے۔ تم غور کر لو! دیکھ لو کہ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کی نصرت کی اور کس طرح جھٹلانے والوں پر اپنا عذاب اتارا؟

قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۖ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ۚ

کہہ دیجیئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں

 کہ تم اللہ کے واسطے (ضد چھوڑ کر) دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی‘ تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں‘

حکم ہوتا ہے کہ یہ کافر جو تجھے مجنوں بتا رہے ہیں، ان سے کہہ کہ ایک کام تو کرو خلوص کے ساتھ تعصب اور ضد کو چھوڑ کر ذرا سی دیر سوچو تو آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرو کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجنوں ہیں؟

اور ایمانداری سے ایک دوسرے کو جواب دو۔ ہر شخص تنہا تنہا بھی غور کرے اور دوسروں سے بھی پوچھے لیکن یہ شرط ہے کہ ضد اور ہٹ کو دماغ سے نکال کر تعصب اور ہٹ دھرمی چھڑ کر غور کرے۔ تمہیں خود معلوم ہو جائے گا، تمہارے دل سے آواز اٹھے گی کہ حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنون نہیں۔

إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (۴۶)

وہ تمہیں ایک بڑے (سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے۔

بلکہ وہ تم سب کے خیر خواہ ہیں درد مند ہیں۔ ایک آنے والے خطرے سے جس سے تم بےخبر ہو وہ تمہیں آگاہ کر رہے ہیں۔

 بعض لوگوں نے اس آیت سے تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے کا مطلب سمجھا ہے اور اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں لیکن وہ حدیث ضعیف ہے۔

 اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مجھے تین چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی یہ میں فخر کے طور پر نہیں کہ رہا ہوں ۔

- میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا مجھ سے پہلے کسی کے لئے وہ حلال نہیں ہوا وہ مال غنیمت کو جمع کر کے جلا دیتے تھے

-  اور میں ہر سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ہر نبی صرف اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا۔

-  میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی چیز بنا دی گئی ہے۔ تاکہ میں اس کی مٹی سے تیمم کرلوں اور جہاں بھی ہوں اور نماز کا وقت آ جائے نماز ادا کرلوں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے سامنے با ادب کھڑے ہو جایا کرو دو دو اور ایک ایک

-  اور ایک مہینہ کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے۔

یہ حدیث سندا ضعیف ہے اور بہت ممکن ہے کہ اس میں آیت کا ذکر اور اسے جماعت سے یا الگ نماز پڑھ لینے کے معنی میں لے لینا یہ راوی کا اپنا قول ہو اور اس طرح بیان کر دیا گیا ہو کہ بہ ظاہر وہ الفاظ حدیث کے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کی حدیثیں بہ سند صحیح بہت سے مروی ہیں اور کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ،واللہ اعلم۔

آپ لوگوں کو اس عذاب سے ڈرانے والے ہیں جو ان کے آگے ہے اور جس سے یہ بالکل بےخبر بےفکری سے بیٹھے ہوئے ہیں۔

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور عرب کے دستور کے مطابق یا صباحاہ کہہ کر بلند آواز کی جو علامت تھی کہ کوئی شخص کسی اہم بات کے لئے بلا رہا ہے۔ عادت کے مطابق اسے سنتے ہی لوگ جمع ہوگئے۔

 آپ ﷺنے فرمایا اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن تمہاری طرف چڑھائی کر کے چلا آرہا ہے اور عجب نہیں کہ صبح شام ہی تم پر حملہ کر دے تو کیا تم مھے سچا سمجھو گے؟

 سب نے بیک زبان جواب دیا کہ ہاں بیشک ہم آپ کو سچا جانیں گے۔

 آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہارے آگے ہے۔

 یہ سن کر ابو لہب ملعون نے کہا تیرے ہاتھ ٹوٹیں کیا اسی کے لئے تو نے ہم سب کو جمع کیا تھا؟ اس پر سورہ تبت یدا ، اتری۔

مسند احمد میں ہے :

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے اور ہمارے پاس آ کر تین مرتبہ آواز دی۔ فرمایا لوگو! میری اور اپنی مثال جانتے ہو؟

 انہوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا علم ہے۔

 آپ نے فرمایا میری اور تمہاری مثال اس قوم جیسی ہے جن پر دشمن حملہ کرنے والا تھا۔ انہوں نے اپنا آدمی بھیجا کہ جا کر دیکھے اور دشمن کی نقل و حرکت سے انہیں مطلع کرے۔ اس نے جب دیکھا کہ دشمن ان کی طرف چلا آ رہا ہے اور قریب پہنچ چکا ہے تو وہ لپکتا ہوا قوم کی طرف بڑھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اطلاع پہنچانے سے پہلے ہی دشمن حملہ نہ کر دے۔ اس لئے اس نے راستے میں سے ہی اپنا کپڑا ہلانا شروع کیا کہ ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا، ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا، تین مرتبہ یہی کہا

 ایک اور حدیث میں ہے:

 میں اور قیامت ایک ساتھ ہی بھیجے گئے قریب تھا کہ قیامت مجھ سے پہلے ہی آ جاتی۔

قُلْ مَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (۴۷)

کہہ دیجیئے! کہ جو بدلہ تم سے مانگوں وہ تمہارے لیے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ وہ ہر چیز سے باخبر (اور مطلع) ہے۔

حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے۔

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (۴۸)

کہہ دیجیئے! کہ میرا رب حق (سچی وحی) نازل فرماتا ہے وہ ہر غیب کا جاننے والا ہے۔

یہ جو فرمایا اسی طرح کی یہ  آیت ہے :

يُلْقِى الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ  (۴۰:۱۵)

اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے حضرت جبرائیل کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے۔

جو حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے ۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں،

قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ (۴۹)

کہہ دیجیئے! کہ حق آ چکا باطل نہ تو پہلے کچھ کر سکا ہے اور نہ کر سکے گا۔

اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آ چکی۔ باطل پراگندہ بودا ہو کر برباد ہو گیا۔

 جیسے فرمان ہے:

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَـطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ  (۲۱:۱۸)

ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہو جاتا ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے:

وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَـطِلُ إِنَّ الْبَـطِلَ كَانَ زَهُوقًا  (۱۷:۸۱)

حق آ گیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا۔

باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہو گیا۔

 بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کر سکے، نہ مردے کو زندہ کر سکے، نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے۔

 بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں۔ واللہ اعلم،

قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَى نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ۚ

کہہ دیجیئے! کہ اگر میں بہک جاؤں تو میرے بہکنے (کا وبال) مجھ پر ہی ہےاور اگر میں راہ ہدایت پر ہوں تو بہ سبب اس وحی کے جو میرا پروردگار مجھے کرتا ہے

یہ جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں ہے۔ وہی سراسر حق ہے اور ہدایت و بیان و رشد ہے۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہے۔

إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ (۵۰)

وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے ‏

 وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے۔

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے۔

وَلَوْ تَرَى إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ (۵۱)

اور اگر آپ (وہ وقت) ملاحظہ کریں جبکہ یہ کفار گھبرائے پھریں گے اور پھر نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ ہوگی (۱)

اور قریب کی جگہ سے گرفتار کر لئے جائیں گے۔‏

اللہ تبارک و تعالیٰ فرما رہا ہے اے نبی کاش کہ آپ ان کافروں کی قیامت کے دن کی گھبراہٹ دیکھتے۔ کہ ہر چند عذاب سے چھٹکارا چاہیں گے۔ لیکن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں پائیں گے۔ نہ بھاگ کر، نہ چھپ کر، نہ کسی کی حمایت سے ، نہ کسی کی پناہ سے۔ بلکہ فوراً ہی قریب سے پکڑ لئے جائیں گے۔ ادھر قبروں سے نکلے ادھر پھانس لئے گئے۔ ادھر کھڑے ہوئے ادھر گرفتار کر لئے گئے۔

یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ قتل و اسیر ہوئے۔

لیکن صحیح یہی ہے کہ مراد قیامت کے دن کے عذاب ہیں۔

وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (۵۲)

اس وقت کہیں گے کہ ہم اس قرآن پر ایمان لائے لیکن اس قدر دور جگہ سے (مطلوبہ چیز) کیسے ہاتھ آسکتی ہے۔‏

قیامت کے دن کہیں گے کہ ہم ایمان قبول کرتے ہیں اللہ پر، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔

جیسے اور آیت میں ہے:

وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً إِنَّا مُوقِنُونَ  (۳۲:۱۲)

کاش کے تو دیکھتا جبکہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں کھڑے ہوں گے اور شرمندگی سے کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ نے دیکھ سن لیا، ہمیں یقین آ گیا۔ اب تو ہمیں پھر سے دنیا میں بھیج دے تو ہم دل سے مانیں گے۔

وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ ۖ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (۵۳)

اس سے پہلے تو انہوں نے اس سے کفر کیا تھا، اور دور دراز سے بن دیکھے بھٹکتے رہے ۔‏

لیکن کوئی شخص جس طرح بہت دور کی چیز کو لینے کے لئے دور سے ہی ہاتھ بڑھائے اور اس کے ہاتھ نہیں آ سکتی۔

 اسی طرح یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ آخرت میں وہ کام کرتے ہیں جو دنیا میں کرنا چاہیے تھا۔ تو آخرت میں ایمان لانا بےسود ہے۔ اب نہ دنیا میں لوٹائے جائیں نہ اس وقت کی گریہ و زاری، توبہ و فریاد، ایمان و اسلام کچھ کام آئے گا۔

وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِمْ مِنْ قَبْلُ ۚ

ان کی چاہتوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا جیسے کہ اس سے پہلے بھی ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا

اس سے پہلے دنیا میں تو منکر رہے ۔ نہ اللہ کو مانا نہ رسول پر ایمان لائے نہ قیامت کے قائل ہوئے یونہی جیسے کوئی بن دیکھے اندازے سے ہی نشانے پر تیر بازی کر رہا ہو اسی طرح اللہ کی باتوں کو اپنے گمان سے ہی رد کرتے رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہہ دیا کبھی شاعر بتا دیا۔ کبھی جادوگر کہا اور کبھی مجنون۔

إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُرِيبٍ (۵۴)

وہ بھی (انہی کی طرح) شک و تردد میں پڑے ہوئے تھے۔

صرف اٹکل پچو کے ساتھ قیامت کو جھٹلاتے رہے اور بےدلیل اداروں کی عبادت کرتے رہے، جنت دوزخ کا مذاق اڑاتے رہے، اب ایمان اور ان میں حجاب آ گیا۔ توبہ میں اور ان میں پردہ پڑ گیا۔ دنیا ان سے چھوٹ گئی۔ یہ دنیا سے الگ ہوگئے۔

ابن ابی حاتم میں یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر نقل کیا ہے جسے ہم پورا ہی نقل کرتے ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ بنو اسرائیل میں ایک فاتح شخص تھا جس کے پاس مال بہت تھا۔ جب وہ مر گیا اور اس کا لڑکا اس کا وارث ہوا تو بری طرح نافرمانیوں میں مال لٹانے لگا۔ اس کے چچاؤں نے اسے ملامت کی اور سمجھایا اس نے غصے میں آ کر سب چیزیں بیچ کر روپیہ لے کر عین شجاجہ کے پاس آ کر ایک محل تعمیر کرا کر یہاں رہنے لگا۔ ایک روز زور کی آندھی اٹھی جس میں ایک بہت خوبصورت خوشبو دار عورت اس کے پاس آ گری۔

 اس نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟

 اس نے کہا بنی اسرائیلی ہوں کہا یہ محل اور مال آپ کا ہے؟

 اس نے کہا ہاں۔

پوچھا آپ کی بیوی بھی ہے؟

کہا نہیں۔

کہا پھر تم اپنی زندگی کا لطف کیا اٹھاتے ہو؟

اب اس نے پوچھا کہ کیا تمہارا خاوند ہے؟

 اس نے کا نہیں۔

 کہا پھر مجھے قبول کرو

 اس نے جواب دیا میں یہاں سے میل بھر دور رہتی ہوں کل تم یہاں سے اپنے ساتھ دن بھر کا کھانا پینا لے کر چلو اور میرے ہاں آؤ۔ راستے میں کچھ عجائبات دیکھو تو گھبرانا نہیں۔

 اس نے قبول کیا اور دوسرے دن توشہ لے کر چلا۔ میل بھر دور جا کر ایک نہایت عالی شان محل دیکھا دستک دینے سے ایک خوبصورت نوجوان شخص آیا پوچھا آپ کون ہیں؟

 جواب دیا کہ میں بنی اسرائیلی ہوں

 کہا کیسے آئے ہیں؟

 کہا اس مکان کی مالکہ نے بلوایا ہے

 پوچھا راستے میں کچھ ہولناک چیزیں بھی دیکھیں

 جواب دیا ہاں اور اگر مجھے یہ کہا ہوا نہ ہوتا کہ گھبرانا مت تو میں ہول و دہشت سے ہلاک ہو گیا ہوتا۔ میں چلا ایک چوڑے راستے پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک کتیا منہ پھاڑے بیٹھی ہوئی ہے میں گھبرا کر دوڑا تو دیکھا کہ مجھ سے آگے آگے وہ ہے اور اس کے پلے (بچے) اس کے پیٹ میں ہیں اور بھونک رہے ہیں۔

 اس نوجوان نے کہا تو اسے نہیں پائے گا یہ تو آخر زمانے میں ہونے والی ایک بات کی مثال تجھے دکھائی گئی ہے کہ ایک نوجوان بوڑھے بڑوں کی مجلس میں بیٹھے گا اور ان سے اپنے راز کی پوشیدہ باتیں کرے گا۔

میں اور آگے بڑھا تو دیکھا ایک سو بکریاں ہیں جن کے تھن دودھ سے پر ہیں ایک بچہ ہے جو دودھ پی رہا ہے جب دودھ ختم ہو جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اور کچھ باقی نہیں رہا تو وہ منہ کھول دیتا ہے گویا اور مانگ رہا ہے۔

 اس نوجوان دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا یہ مثال تجھے بتائی گئی ہے ان بادشاہوں کی جو آخر زمانے میں آئیں گے لوگوں سے سونا چاندی چھینیں گے یہاں تک کہ سمجھ لیں گے کہ اب کسی کے پاس کچھ نہیں بچا تو بھی وہ ظلم و زیادتی کر کے منہ پھیلائے رہیں گے۔

 اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو میں نے ایک درخت نہایت ترو تازہ خوش رنگ اور خوش وضع دیکھا میں نے اس کی ایک ٹہنی توڑنی چاہی تو دوسرے درخت سے آواز آئی کہ اے بندہ الہٰی! میری ڈالی توڑ جا پھر تو ہر ایک درخت سے یہی آواز آنے لگی دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا اس میں اشارہ ہے کہ آخر زمانے میں مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت ہو جائے گی یہاں تک کہ جب ایک مرد کی طرف سے کسی عورت کو پیغام جائے گا تو دس بیس عورتیں اسے اپنی طرف بلانے لگیں گی۔

 اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک دریا کے کنارے ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کو پانی بھر بھر کر دے رہا ہے پھر اپنی مشک میں ڈالتا ہے لیکن اس میں ایک قطرہ بھی نہیں ٹھہرتا۔

 دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخر زمانے میں ایسے علماء اور واعظ ہوں گے جو لوگوں کو علم سکھائیں گے۔ بھلی باتیں بتائیں گے۔ لیکن خود عامل نہیں ہوں گئے۔ بلکہ خود گناہوں میں مبتلا رہے گے

پھر جو میں آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک بکری کو بعض لوگوں نے تو اس کے پاؤں پکڑ رکھے ہیں، بعض نے دم تھام رکھی ہے، بعض نے سینگ پکڑ رکھے ہیں، بعض اس پر سوار ہیں اور بعض اس کا دودھ دھو رہے ہیں۔

اس نے کہا یہ مثال ہے دنیا کی جو اس کے پیر تھامے ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جو دنیا سے گر گئے جنہیں یہ نہ ملی جس نے سینگ تھام رکھے ہیں یہ وہ ہے جو اپنا گزارہ کر لیتا ہے لیکن تنگی ترشی سے دم پکڑنے والے وہ ہیں جن سے دنیا بھاگ چکی ہے۔ سوار وہ ہیں جو از خود تارک دنیا میں ہوگئے ہیں۔ ہاں دنیا سے صحیح فائدہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہیں تم نے اس بکری کا دودھ نکالتے ہوئے دیکھا۔ انہیں خوشی ہو یہ مستحق مبارک باد ہیں۔

 اس نے کہا میں اور آگے چلا تو دیکھا کہ ایک شخص ایک کنویں میں سے پانی کھینچ رہا ہے اور ایک حوض میں ڈال رہا ہے جس حوض میں سے پانی پھر کنوئیں میں چلا جاتا ہے۔

 اس نے کہا یہ وہ شخص ہے جو نیک عمل کرتا ہے لیکن قبول نہیں ہوتے۔

 اس نے کہا پھر میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شخص نے دانے زمین میں بوئے اسی وقت کھیتی تیار ہو گئی اور بہت اچھے نفیس گیہوں نکل آئے۔

 کہا یہ وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔

 اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شخص چت لیٹا پڑا ہے۔ مجھ سے کہنے لگا بھائی میرا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دو، واللہ جب سے پیدا ہوا ہوں، بیٹھا ہی نہیں۔ میرے ہاتھ پکڑتے ہی وہ کھڑا ہو کر تیز دوڑا یہاں تک کہ میری نظروں سے پوشیدہ ہو گیا۔

 اس دربان نے کہا یہ تیری عمر تھی جو جاچکی اور ختم ہو گئی میں ملک الموت ہوں اور جس عورت سے تو ملنے آیا ہے اس کی صورت میں بھی میں ہی تھا اللہ کے حکم سے تیرے پاس آیا تھا کہ تیری روح اس جگہ قبض کروں پھر تجھے جہنم رسید کروں۔

 اس کے بارے میں یہ آیت وَحِيلَ بَيْنَهُمْ نازل ہوئی۔

 یہ اثر غریب ہے اور اس کی صحت میں بھی نظر ہے۔

 آیت کا مطلب ظاہر ہے کہ کافروں کی جب موت آتی ہے ان کی روح حیات دنیا کی لذتوں میں اٹکی رہتی ہے۔ لیکن موت مہلت نہیں دیتی اور ان کی خواہش اور ان کے درمیان وہ حائل ہو جاتا ہے ۔ جیسے اس مغرور و مفتون شخص کا حال ہوا کہ گیا تو عورت ڈھونڈھنے کو اور ملاقات ہوئی ملک الموت سے۔ امید پوری ہونے سے پہلے روح پرواز کر گئی۔

 پھر فرماتا ہے ان سے پہلے کی اُمتوں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا وہ بھی موت کے وقت زندگی اور ایمان کی آرزو کرتے رہے۔ جو محض بےسود تھی۔

جیسے فرمان عالی شان ہے:

فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا ۔۔۔وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ (۴۰:۸۴،۸۵)

جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جس جس کو ہم شریک اللہ بناتے تھے ان سب سے ہم انکار کرتے ہیں

لیکن اس وقت ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا ان سے پہلوؤں میں بھی یہی طریقہ جاری رہا کفار نفع سے محروم ہی ہیں۔

 یہاں فرمایا کہ دنیا میں تو زندگی بھر شک شبہ میں اور تردد میں ہی رہے۔ اسی وجہ سے عذاب کے دیکھنے کے بعد کا ایمان بےکار رہا۔

 حضرت قتادہ کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے لائق ہے آپ فرماتے ہیں :

 شبہات اور شکوک سے بچو۔ اس پر جس کی موت آئی وہ قیامت کے دن بھی اسی پر اٹھایا جائے گا اور جو یقین پر مرا ہے اسے یقین پر ہی اٹھایا جائے گا۔

***********



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

hit counters