Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Dhariyat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا (۱)

قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر ۔‏

خلیفۃ المسلمین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفے کے منبر پر چڑھ کر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ قرآن کریم کی جس آیت کی بابت اور جس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت تم کوئی سوال کرنا چاہتے ہو کر لو ۔ اس پر ابن الکواء نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ الذَّارِيَاتِ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا  ہوا،

فرمایا ابر۔

 کہا الْجَارِيَات سے ؟

 فرمایا کشتیاں ،

کہا الْمُقَسِّمَات سے ؟

فرمایا فرشتے

 اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے ۔

بزار میں ہے :

تمیمی(صبیغ)  امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور کہا بتاؤ الذَّارِيَاتِ سے کیا مراد ہے ؟

 فرمایا ہوا ۔ اور اسے اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ مطلب نہ کہتا ۔

 پوچھا الْمُقَسِّمَات سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا فرشتے اور اسے بھی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے ۔

 پوچھا الْجَارِيَات سے کیا مطلب ہے ؟

 فرمایا کشتیاں ۔ یہ بھی میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔

پھر حکم دیا کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں چنانچہ اسے درے مارے گئے اور ایک مکان میں رکھا گیا جب زخم اچھے ہوگئے تو بلوا کر پھر کوڑے پٹوائے ، اور سوار کرا کر حضرت ابو موسیٰ کو لکھ بھیجا کہ یہ کسی مجلس میں نہ بیٹھنے پائے کچھ دنوں بعد یہ حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر انہیں یقین دلایا کہ اب میرے خیالات کی پوری اصلاح ہو چکی اب میرے دل میں بد عقیدگی نہیں رہی جو پہلے تھی۔

چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے جناب امیر المؤمنین کی خدمت میں اس کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ واقعی ٹھیک ہو گیا ہے ۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے فرمان پہنچا کہ پھر انہیں مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے ۔

 امام ابوبکر بزار فرماتے ہیں اس کے دو راویوں میں کلام ہے پس یہ حدیث ضعیف ہے ۔

 ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے یعنی حضرت عمر ؓکا اپنا فرمان ہے مرفوع حدیث نہیں ۔

 امیر المؤمنین نے اسے جو پٹوایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بد عقیدگی آپ پر ظاہر ہو چکی تھی اور اس کے یہ سوالات ازروئے انکار اور مخالفت کے تھے واللہ اعلم ۔

 صبیغ کے باپ کا نام عسل تھا اور اس کا یہ قصہ مشہور ہے جسے پورا پورا حافظ ابن عساکر لائے ہیں ۔

 یہی تفسیر حضرت ابن عباسؓ حضرت ابن عمرؓ حضرت مجاہد ؒحضرت صعید بن جبیرؒ حضرت حسن ؒحضرت قتادہ ؒحضرت سدیؒ سے مروی ہے ۔

 امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے ان آیتوں کی تفسیر میں اور کوئی قول وارد ہی نہیں کیا

فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (۲)

پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو۔‏

الْحَامِلَات سے مراد ابر ہونے کا محاورہ اس شعر میں بھی پایا جاتا ہے ۔

واسلمت نفسی لمن اسلمت لہ المزن تحمل عذباز لالا

میں اپنے آپ کو اس اللہ کا تابع فرمان کرتا ہوں جس کے تابع فرمان وہ بادل ہیں جو صاف شفاف میٹھے اور ہلکے پانی کو اٹھا کر لے جاتے ہیں

فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا (۳)

پھر چلنے والی نرمی سے

الْجَارِيَات سے مراد بعض نے ستارے لئے ہیں جو آسمان پر چلتے پھرتے رہتے ہیں یہ معنی لینے میں یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہو گی ۔

 اولا ًہوا پھر بادل پھر ستارے پھر فرشتے ۔ جو کبھی اللہ کا حکم لے کر اترتے ہیں کبھی کوئی سپرد کردہ کام بجا لانے کے لئے تشریف لاتے ہیں ۔

فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا (۴)

پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں ۔‏

چونکہ یہ سب قسمیں اس بات پر ہیں کہ قیامت ضرور آنی ہے اور لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس لئے ان کے بعد ہی فرمایا کہ

إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ (۵)

یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کئے جاتے ہیں (سب) سچے ہیں‏

وَإِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ (۶)

اور بیشک انصاف ہونے والا ہے۔‏

تمہیں جو وعدہ دیا جاتا ہے وہ سچا ہے اور حساب کتاب جزا سزا ضرور واقع ہونے والی ہے ۔

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ (۷)

قسم ہے راہوں والے آسمان کی  

پھر آسمان کی قسم کھائی جو خوبصورتی رونق حسن اور برابری والا ہے

بہت سے سلف نے یہی معنی الْحُبُك کے بیان کئے ہیں

 ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 تمہارے پیچھے کذاب بہکانے والا ہے اس کے سر کے بال پیچھے کی طرف سے حُبُك حُبُك ہیں یعنی گھونگر والے ۔

 ابو صالح ؒفرماتے ہیں حُبُك سے مراد شدت والا

خصیفؒ کہتے ہیں مراد خوش منظر ہے۔

 حسن بصرؒی فرماتے ہیں اس کی خوبصورتی اس کے ستارے ہیں

 حضرت عبداللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں اس سے مراد ساتواں آسمان ہے ممکن ہے آپ کا مطلب یہ ہو کہ قائم رہنے والے ستارے اس آسمان میں ہیں اکثر علماء ہیئت کا بیان ہے کہ یہ آٹھویں آسمان میں ہیں جو ساتویں کے اوپر ہے واللہ اعلم

ان تمام اقوال کا ماحصل ایک ہی ہے یعنی حسن و رونق والا آسمان ۔ اس کی بلندی ، صفائی ، پاکیزگی ، بناوٹ کی عمدگی ، اس کی مضبوطی ، اس کی چوڑائی اور کشادگی ، اس کا ستاروں کا جگمگانا، جن میں سے بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ٹھہرے ہوئے ہیں اس کا سورج اور چاند جیسے سیاروں سے مزین ہونا یہ سب اس کی خوبصورتی اور عمدگی کی چیزیں ہیں

إِنَّكُمْ لَفِي قَوْلٍ مُخْتَلِفٍ (۸)

یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو  

پھر فرماتا ہے اے مشرکو تم اپنے ہی اقوال میں مختلف اور مضطرب ہو تم کسی صحیح نتیجے پر اب تک خود اپنے طور پر بھی نہیں پہنچے ہو ۔ کسی رائے پر تمہارا اجتماع نہیں ،

 حضرت قتادؒہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے بعض تو قرآن کو سچا جانتے تھے بعض اس کی تکذیب کرتے تھے ۔

يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ (۹)

اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہو۔‏

پھر فرماتا ہے یہ حالت اسی کی ہوتی ہے جو خود گمراہ ہو ۔ وہ اپنے ایسے باطل اقوال کی وجہ سے بہک اور بھٹک جاتا ہے صحیح سمجھ اور سچا علم اس سے فوت ہو جاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے:

فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ ۔ مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ بِفَـتِنِينَ ۔ إِلاَّ مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ (۳۷:۱۶۱،۱۶۳)

تم لوگ مع اپنے معبودان باطل کے سوائے جہنمی لوگوں کے کسی کو بہکا نہیں سکتے

حضرت ابن عباسؓ اور سدیؒ فرماتے ہیں اس سے گمراہ وہی ہوتا ہے جو خود بہکا ہوا ہو ۔

حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں اس سے دور وہی ہوتا ہے جو بھلائیوں سے دور ڈال دیا گیا ہے

 حضرت امام حسن ؒبصری فرماتے ہیں قرآن سے وہی ہٹتا ہے جو اسے پہلے ہی سے جھٹلانے پر کم کس لئے ہو

قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ (۱۰)

بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے۔‏

پھر فرماتا ہے کہ بےسند باتیں کہنے والے ہلاک ہوں یعنی جھوٹی باتیں بنانے والے جنہیں یقین نہ تھا جو کہتے تھے کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں

حضرت معاذؓ بھی اپنے خطبے میں یہی فرماتے تھے ، یہ دھوکے والے اور بدگمان لوگ ہیں

الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ (۱۱)

جو غفلت میں ہیں اور بھولے ہوئے ہیں۔‏

يَسْأَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ (۱۲)

پوچھتے ہیں کہ یوم جزا کب ہوگا؟‏

پھر فرمایا جو لوگ اپنے کفر و شک میں غافل اور بےپرواہ ہیں ۔ یہ لوگ ازروئے انکار پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب آئے گا؟

يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (۱۳)

ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے  

ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ (۱۴)

اپنی فتنہ پردازی کا مزہ چکھو یہی ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے۔‏

اللہ فرماتا ہے اس دن تو یہ آگ میں تپائے جائیں گے جس طرح سونا تپایا جاتا ہے یہ اس میں جلیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا مزہ چکھو۔ اپنے کرتوت کے بدلے برداشت کرو ۔

پھر ان کی اور زیادہ حقارت کے لئے ان سے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی جلدی مچا رہے تھے کہ کب آئے گا کب آئے گا ، واللہ اعلم ۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (۱۵)

بیشک تقویٰ والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہونگے۔‏

آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ (۱۶)

ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا اسے لے رہے ہونگے وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے۔‏

پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے دن جنتوں میں اور نہروں میں ہوں گے بخلاف ان بد کرداروں کے جو عذاب و سزا ، طوق و زنجیر، سختی اور مار پیٹ میں ہوں گے ۔ جو فرائض الہٰی ان کے پاس آئے تھے یہ ان کے عامل تھے اور ان سے پہلے بھی وہ اخلاص سے کام کرنے والے تھے ۔

 لیکن اس تفسیر میں ذرا تامل ہے دو وجہ سے

- اول تو یہ کہ یہ تفسیر حضرت ابن عباسؓ کی کہی جاتی ہے لیکن سند صحیح سے ان تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کی یہ سند بالکل ضعیف ہے

- دوسرے یہ کہ آخِذِينَ کا لفظ حال ہے اگلے جملے سے تو یہ مطلب ہوا کہ متقی لوگ جنت میں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں حاصل کر رہے ہوں گے اس سے پہلے وہ بھلائی کے کام کرنے والے تھے یعنی دنیا میں

 جیسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اور آیتوں میں فرمایا :

كُلُواْ وَاشْرَبُواْ هَنِيئَاً بِمَآ أَسْلَفْتُمْ فِى الاٌّيَّامِ الْخَالِيَةِ (۶۹:۲۴)

دار دنیا میں تم نے جو نیکیاں کی تھیں ان کے بدلے اب تم یہاں شوق سے پاکیزہ و پسندیدہ کھاتے پیتے رہو۔

كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (۱۷)

وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے  

پھر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے عمل کے اخلاص یعنی ان کے احسان کی تفصیل بیان فرما رہا ہے کہ یہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے ۔

 بعض مفسرین کہتے ہیں یہاں مَا نافیہ ہے تو بقول حضرت ابن عباسؓ وغیرہ یہ مطلب ہو گا کہ ان پر کوئی رات ایسی نہ گزرتی تھی جس کا کچھ حصہ یاد الہٰی میں نہ گزارتے ہوں خواہ اول وقت میں کچھ نوافل پڑھ لیں خواہ درمیان میں ۔ یعنی کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی وقت نماز عموماً ہر رات پڑھ ہی لیا کرتے تھے ساری رات سوتے سوتے نہیں گزارتے تھے ۔

 حضرت ابو العالیہؒ وغیرہ فرماتے ہیں یہ لوگ مغرب عشاء کے درمیان کچھ نوافل پڑھ لیا کرتے تھے ۔

 امام ابو جعفر باقر ؒفرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے نہیں سوتے تھے ۔

 بعض مفسرین کا قول ہے کہ مَا یہاں موصولہ ہے یعنی ان کی نیند رات کی کم تھی کچھ سوتے تھے کچھ جاگتے تھے اور اگر دل لگ گیا تو صبح ہو جاتی تھی اور پھر پچھلی رات کو جناب باری میں گڑ گڑا کر توبہ استغفار کرتے تھے

حضرت احنف بن قیسؒ اس آیت کا یہ مطلب بیان کر کے پھر فرماتے تھے افسوس مجھ میں یہ بات نہیں آپ کے شاگرد حسن بصریؒ کا قول ہے کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے جنتیوں کے جو اعمال اور جو صفات بیان ہوئے ہیں ۔ میں جب کبھی اپنے اعمال و صفات کو ان کے مقابلے میں رکھتا ہوں تو بہت کچھ فاصلہ پاتا ہوں ۔ لیکن الحمد للہ جہنمیوں کے عقائد کے بالمقابل جب میں اپنے عقائد کو لاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ تو بالکل ہی خیر سے خالی تھے وہ کتاب اللہ کے منکر ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ، وہ موت کے بعد کی زندگی کے منکر، پس ہماری تو حالت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کی بتائی ہے (خلطوا عملا صالحا واخر سیا ) یعنی نیکیاں بدیاں ملی جلی ۔

حضرت زید بن اسلمؒ سے قبیلہ بنو تمیم کے ایک شخص نے کہا اے ابو سلمہ یہ صفت تو ہم میں نہیں پائی جاتی کہ ہم رات کو بہت کم سوتے ہوں بلکہ ہم تو بہت کم وقت عبادت اللہ میں گزارتے ہیں تو آپ نے فرمایا:

 وہ شخص بھی بہت ہی خوش نصیب ہے جو نیند آئے تو سو جائے اور جاگے تو اللہ سے ڈرتا رہے ،

حضرت عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں جب شروع شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تشریف لائے تو لوگ آپ کی زیارت کے لئے ٹوٹ پڑے اور اس مجمع میں میں بھی تھا واللہ آپ کے مبارک چہرہ پر نظر پڑتے ہی اتنا تو میں نے یقین کر لیا کہ یہ نورانی چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلی بات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے کان میں پڑی یہ تھی کہ آپ نے یہ فرمایا :

اے لوگو کھانا کھلاتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور سلام کیا کرو اور راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں نماز ادا کرو تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کے اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہے

 یہ سن کر حضرت موسیٰ اشعریؓ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لئے ہیں ؟

فرمایا ان کے لئے جو نرم کلام کریں اور دوسروں کو کھلاتے پلاتے رہیں اور جب لوگ سوتے ہوں یہ نمازیں پڑھتے رہیں ۔

 حضرت زہریؒ اور حضرت حسنؒ فرماتے ہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ رات کا اکثر حصہ تہجد گزاری میں نکالتے ہیں

حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ رات کا بہت کم حصہ وہ سوتے ہیں

حضرت ضحاکؒ كَانُوا قَلِيلًا کو اس سے پہلے کے جملے کے ساتھ ملاتے ہیں اور مِنَ اللَّيْلِ سے ابتداء بتاتے ہیں لیکن اس قول میں بہت دوری اور تکلف ہے ۔

وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (۱۸)

اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔  

پھر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے سحر کے وقت وہ استغفار کرتے ہیں

مجاہدؒ فرماتے ہیں یعنی نماز پڑھتے ہیں اور مفسرین فرماتے ہیں راتوں کو قیام کرتے ہیں اور صبح کے ہونے کے وقت اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں جیسے اور جگہ فرمان باری ہے :

وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالاٌّسْحَارِ  (۳:۱۷)

سحر کے وقت یہ لوگ استغفار کرنے لگ جاتے ہیں ۔

 اگر یہ استغفار نماز میں ہی ہو تو بھی بہت اچھا ہے

صحاح وغیرہ میں صحابہ کی ایک جماعت کی کئی روایتوں سے ثابت ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے

-  کوئی گنہگار ہے جو توبہ کرے اور میں اس کی توبہ قبول کروں

-  کوئی استغفار کرنے والا ہے جو استغفار کرے اور میں اسے بخشوں

- کوئی مانگنے والا ہے جو مانگے اور میں اسے دوں ،

فجر کے طلوع ہونے تک یہی فرماتا ہے ۔

 اکثر مفسرین نے فرمایا کہ نبی اللہ حضرت یعقوبؑ نے اپنے لڑکوں سے جو فرمایا تھا:

سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ (۱۲:۹۸)

میں اب عنقریب تمہارے لئے استغفار کروں گا

اس سے بھی مطلب یہی تھا کہ سحر کا وقت جب آئے گا تب استغفار کروں گا ۔

وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (۱۹)

اور ان کے مال میں مانگنے والوں اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا  

پھر ان کا یہ وصف بیان کیا جاتا ہے کہ جہاں یہ نمازی ہیں اور حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حق بھی نہیں بھولتے زکوٰۃ دیتے ہیں سلوک احسان اور صلہ رحمی کرتے ہیں ان کے مال میں ایک مقررہ حصہ مانگنے والوں اور ان حقداروں کا ہے جو سوال سے بچتے ہیں ۔

 ابو داؤد وغیرہ میں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

سائل کا حق ہے گو وہ گھوڑ سوار ہو

الْمَحْرُوم وہ ہے جس کا کوئی حصہ بیت المال میں نہ ہو خود اس کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو صنعت و حرفت یاد نہ ہو جس سے روزی کما سکے ۔

 اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:

 اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ کچھ سلسلہ کمانے کا کر رکھا ہے لیکن اتنا نہیں پاتے کہ انہیں کافی ہو جائے ،

حضرت ضحاکؒ فرماتے ہیں وہ شخص جو مالدار تھا لیکن مال تباہ ہو گیا چنانچہ یمامہ میں جب پانی کی طغیانی آئی اور ایک شخص کا تمام مال اسباب بہا لے گئی تو ایک صحابی نے فرمایا یہ محروم ہے

 اور بزرگ مفسرین فرماتے ہیں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود کسی سے سوال نہیں کرتا ۔

 ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو گھومتے پھرتے ہیں اور جنہیں ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں تم دے دیا کرتے ہو بلکہ حقیقتًا وہ لوگ بھی مسکین ہیں جو اتنا نہیں پاتے کہ انہیں حاجت نہ رہے اپنا حال قال ایسا رکھتے ہیں کہ کسی پر ان کی حاجت و افلاس ظاہر ہو اور کوئی انہیں صدقہ دے (بخاری و مسلم )

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مکے شریف جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کتا پاس آکر کھڑا ہو گیا آپ نے ذبح کردہ بکری کا ایک شانہ کاٹ کر اس کی طرف ڈال دیا اور فرمایا لوگ کہتے ہیں یہ بھی محروم میں سے ہے ۔

 حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں میں تو عاجز آگیا لیکن محروم معنی معلوم نہ کر سکا ۔

 امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں محروم وہ ہے جس کے پاس مال نہ رہا ہو خواہ وجہ کچھ بھی ہو ۔ یعنی حاصل ہی نہ کر سکا کمانے کھانے کا سلیقہ ہی نہ ہو یا کام ہی ناچلتا ہو یا کسی آفت کے باعث جمع شدہ مال ضائع ہو گیا ہو وغیرہ ۔

 ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر کافروں کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا اللہ نے انہیں غلبہ دیا اور مال غنیمت بھی ملا پھر کچھ لوگ آپ کے پاس وہ بھی آگئے جو غنیمت حاصل ہونے کے وقت موجود نہ تھے پس یہ آیت اتری ۔

 اس کا اقتضاء تو یہ ہے کہ یہ مدنی ہو لیکن دراصل ایسا نہیں بلکہ یہ آیت مکی ہے ۔

وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (۲۰)

اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

پھر فرماتا ہے یقین رکھنے والوں کے لئے زمین میں بھی بہت سے نشانات قدرت موجود ہیں جو خالق کی عظمت و عزت ہیبت وجلالت پر دلالت کرتے ہیں دیکھو کہ کس طرح اس میں حیوانات اور نباتات کو پھیلا دیا ہے اور کس طرح اس میں پہاڑوں ، میدانوں ، سمندروں اور دریاؤں کو رواں کیا ہے ۔

پھر انسان پر نظر ڈالو ان کی زبانوں کے اختلاف کو ان کے رنگ و روپ کے اختلاف کو ان کے ارادوں اور قوتوں کے اختلاف ہو ان کی عقل و فہم کے اختلاف کو ان کی حرکات و سکنات کو ان کی نیکی بدی کو دیکھو ان کی بناوٹ پر غور کرو کہ ہر عضو کیسی مناسب جگہ ہے ۔

اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا

وَفِي أَنْفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (۲۱)

اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔‏

خود تمہارے وجود میں ہی اس کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔

 کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟

 حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں:

 جو شخص اپنی پیدائش میں غور کرے گا اپنے جوڑوں کی ترکیب پر نظر ڈالے گا وہ یقین کر لے گا کہ بیشک اسے اللہ نے ہی پیدا کیا اور اپنی عبادت کے لئے ہی بنایا ہے ۔

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (۲۲)

اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے ۔‏

پھر فرماتا ہے آسمان میں تمہاری روزی ہے یعنی بارش اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یعنی جنت ،

حضرت واصل احدبؒ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا افسوس میرا رزق تو آسمانوں میں ہے اور میں اسے زمین میں تلاش کر رہا ہوں ؟

یہ کہہ کر بستی چھوڑی اجاڑ جنگل میں چلے گئے ۔ تین دن تک تو انہیں کچھ بھی نہ ملا لیکن تیسرے دن دیکھتے ہیں کہ تر کھجوروں کا ایک خوشہ ان کے پاس رکھا ہوا ہے ۔ ان کے بھائی ساتھ ہی تھے دونوں بھائی آخری دم تک اسی طرح جنگلوں میں رہے ۔

فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ (۲۳)

آسمانوں اور زمین کے پروردگار کی قسم! کہ یہ بالکل برحق ہے ایسا ہی جیسے کہ تم باتیں کرتے ہو۔‏

 پھر اللہ کریم خود اپنی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ میرے جو وعدے ہیں مثلاً قیامت کے دن دوبارہ جلانے کا جزا سزا کا یہ یقینا ًسراسر سچے اور قطعًا بےشبہ ہو کر رہنے والے ہیں ، جیسے تمہاری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں شک نہیں ہوتا اسی طرح تمہیں ان میں بھی کوئی شک ہرگز ہرگز نہ کرنا چاہیے ۔

حضرت معاذؓ جب کوئی بات کہتے تو فرماتے یہ بالکل حق ہے جیسے کہ تیرا یہاں ہونا حق ہے ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ انہیں برباد کرے جو اللہ کی قسم کو بھی نہ مانیں

 یہ حدیث مرسل ہے یعنی تابعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ صحابی کا نام نہیں لیتے ۔

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ (۲۴)

کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے ؟‏

یہ واقعہ سورہ ہود اور سورہ حجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے

 حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ (۲۵)

وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں ۔

انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہؒ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے ۔

 اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے:

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَآ أَوْ رُدُّوهَآ (۴:۸۶)

جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی ۔

پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا

حضرت ابراہیمؑ چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لئے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سے ہیں ۔

یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے ۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا

فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ (۲۶)

پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) لائے۔‏

فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (۲۷)

اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں۔  

حضرت ابراہیمؑ اب ان کے لئے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور انکے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟

اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کئے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے ۔

 تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا ۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟

جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے

فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ

پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوف زدہ ہوگئے انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے:

فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُواْ لاَ تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ  وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ.. (۱۱:۷۰،۷۱)

آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہوگئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لئے آئے ہیں آپکی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہوگئے ۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے؟فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟خصوصاً تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے

وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ (۲۸)

اور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی۔‏

یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔

فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ (۲۹)

پس ان کی بیوی آگے بڑھی اور حیرت میں آکر اپنے منہ پر مار کر کہا کہ میں تو بڑھیا ہوں اور ساتھ ہی بانجھ۔‏

پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہوگئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟

قَالُوا كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (۳۰)

انہوں نے کہا ہاں تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے، بیشک وہ حکیم و علیم ہے ۔‏

اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں ۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے ۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہو گا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے ۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ (۳۱)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے  

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب ان نووارد مہمانوں سے حضرت ابراہیم کا تعارف ہوا اور دہشت جاتی رہی ۔ بلکہ ان کی زبانی ایک بہت بڑی خوشخبری بھی سن چکے اور اپنی بردباری اللہ ترسی اور دردمندی کی وجہ سے اللہ کی جناب میں قوم لوط کی سفارش بھی کر چکے اور اللہ کے ہاں کے حتمی وعدے کا اعلان بھی سن چکے ،

 اس کے بعد جو ہوا اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے ان فرشتوں سے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ کس مقصد سے آئے ہیں ؟

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ (۳۲)

انہوں نے جواب دیا کہ ہم گناہگار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں  

لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِينٍ (۳۳)

تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں۔  

مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ (۳۴)

جو تیرے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں ان حد سے گزر جانے والوں کے لئے۔  

انہوں نے جواب دیا کہ قوم لوط کے گنہگاروں کو تاخت تاراج کرنے کے لئے ہمیں بھیجا گیا ہے ہم ان پر سنگ باری اور پتھراؤ نہ کریں گے ان پتھروں کو ان پر برسائیں گے جن پر اللہ کے حکم سے پہلے ہی ان کے نام لکھے جاچکے ہیں اور ہر ایک گنہگار کے لئے الگ الگ پتھر مقرر کر دئیے گئے ہیں

 سورہ عنکبوت میں گزر چکا ہے کہ یہ سن کر حضرت خلیل الرحمٰن نے فرمایا کہ وہاں تو حضرت لوط ہیں پھر وہ بستی کی بستی کیسے غارت کر دی جائے گی؟

فرشتوں نے کہا اس کا علم ہمیں بھی ہے ہمیں حکم مل چکا ہے کہ ہم انہیں اور ان کے ساتھ کے گھرانے کے تمام ایمان داروں کو بچا لیں ہاں ان کی بیوی نہیں بچ سکتی وہ بھی مجرموں کے ساتھ اپنے جرم کے بدلے ہلاک کر دی جائے گی ،

فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۳۵)

پس جتنے ایمان دار وہاں تھے ہم نے انہیں نکال لیا  

فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۳۶)

اور ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا  

اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہے کہ اس بستی میں جتنے بھی مؤمن تھے سب کو بچا دیا گیا کہ وہاں سوائے ایک گھر کے اور گھر مسلمان تھا ہی نہیں ۔

یہ دونوں آیتیں دلیل ہیں ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ ایمان و مذہب بھی یہی ہے کہ ایک ہی چیز ہے جسے ایمان بھی کہا جاتا ہے اور اسلام بھی

لیکن یہ استدلال ضعیف ہے اس لئے کہ یہ لوگ مؤمن تھے اور یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہر مؤمن مسلمان ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان مؤمن نہیں ہوتا پس حال کی خصوصیت کی وجہ سے انہیں مؤمن مسلم کہا گیا ہے اس سے عام طور پر یہ بات نہیں ہوتا کہ ہر مسلم مؤمن ہے۔

(حضرت امام بخاری اور دیگر محدثین کا مذہب ہے کہ جب اسلام حقیقی اور سچا اسلام ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اس صورت میں ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ہاں جب اسلام حقیقی طور پر نہ ہو تو بیشک اسلام ایمان میں فرق ہے صحیح بخاری شریف کتاب الایمان ملاحظہ ہو ۔ مترجم)

وَتَرَكْنَا فِيهَا آيَةً لِلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (۳۷)

اور ہم نے ان کے لئے جو دردناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی  

پھر فرماتا ہے کہ ان کی آباد و شاد بستیوں کو عذاب سے برباد کر کے انہیں سڑے ہوئے بدبودار کھنڈر بنا دینے میں مؤمنوں کے لئے عبرت کے پورے سامان ہیں جو عذاب الہٰی سے ڈر رکھتے ہیں وہ ان نمونہ کو دیکھ کر اور اس زبردست نشان کو ملاحظہ کر کے پوری عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔

وَفِي مُوسَى إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَى فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۳۸)

موسیٰ (علیہ السلام کے قصے) میں (بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے) کہ ہم نے فرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا۔‏

فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ وَقَالَ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (۳۹)

پس اس نے اپنے بل بوتے پر منہ موڑا اور کہنے لگا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔‏

فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَ مُلِيمٌ (۴۰)

بالآخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو اپنے عذاب میں پکڑ کر دریا میں ڈال دیا وہ تھا ملامت کے قابل ۔‏

ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح قوم لوط کے انجام کو دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کر سکتے ہیں اسی قسم کا فرعونیوں کا واقعہ ہے ہم نے ان کی طرف اپنے کلیم پیغمبر حضرت موسیٰ کو روشن دلیلیں اور واضح برہان دے کر بھیجا لیکن ان کے سردار فرعون نے جو تکبر کا مجسمہ تھا حق کے ماننے سے عناد کیا اور ہمارے فرمان کو بےپرواہی سے ٹال دیا اس دشمن الہٰی نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر اپنے راج لشکر کے بل بوتے پر رب کے فرمان کی عزت نہ کی اور اپنے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر حضرت موسیٰ کی ایذاء رسانی پر اتر آیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ یا تو جادوگر ہے یا دیوانہ ہے پس اس ملامتی کافر ، فاجر ، معاند متکبر شخص کو ہم نے اس کے لاؤ لشکر سمیت دریا برد کر دیا ۔

وَفِي عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ (۴۱)

اسی طرح عادیوں میں بھی (ہماری طرف سے تنبیہ ہے) جب کہ ہم نے ان پر خیر و برکت سے خالی آندھی بھیجی۔‏

مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ (۴۲)

وہ جس چیز پر گرتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح (چورا چورا) کر دیتی تھی۔

اسی طرح عادیوں کے سراسر عبرتناک واقعات بھی تمہارے گوش گزار ہو چکے ہیں جن کی سیاہ کاریوں کے وبال میں ان پر بےبرکت ہوائیں بھیجی گئیں جن ہواؤں نے سب کے حلیے بگاڑ دئیے ایک لپٹ جس چیز کو لگ گئی وہ گلی سڑی ہڈی کی طرح ہو گئی

ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ہوا دوسری زمین میں مسخر ہے جب اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو ہلاک کرنا چاہا تو ہوا کے داروغہ کو حکم دیا کہ ان کی تباہی کے لئے ہوائیں چلا دو فرشتے نے کہا کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا وزن کر دوں جتنا بیل کا نتھنا ہوتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا نہیں اگر اتنا وزن کر دیا تو زمین کو اور اس کائنات کو الٹ دے گی بلکہ اتنا وزن کرو جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے

 یہ تھیں وہ ہوائیں جو کہ جہاں جہاں سے گزر گئیں تمام چیزوں کو تہہ وبالا کرتی گئیں

اس حدیث کا فرمان رسول ہونا تو منکر ہے سمجھ سے زیادہ قریب بات یہی ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو کا قول ہے یرموک کی لڑائی میں انہیں دو بورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے ممکن ہے انہی میں سے یہ بات آپ نے بیان فرمائی ہو واللہ اعلم ۔

یہ ہوائیں جنوبی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میری مدد مشرقی ہواؤں سے کی گئی ہے اور عادی مغربی ہواؤں سے ہلاک ہوئے ہیں ۔

وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّى حِينٍ (۴۳)

اور ثمود (کے قصے) میں بھی (عبرت) ہے جب ان سے کہا گیا کہ تم کچھ دنوں تک فائدہ اٹھالو  

ٹھیک اسی طرح ثمودیوں کے حالات پر اور ان کے انجام پر غور کرو کہ ان سے کہہ دیا گیا کہ ایک وقت مقررہ تک تو تم فائدہ اٹھاؤ

جیسے اور جگہ فرمایا ہے:

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَـهُمْ فَاسْتَحَبُّواْ الْعَمَى عَلَى الْهُدَى فَأَخَذَتْهُمْ صَـعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ  (۴۱:۱۷)

رہے قوم ثمود، سو ہم نے ان کی بھی راہبری کی پھر بھی انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی جس بنا پر انہیں (سراپا) ذلت کے عذاب، کی کڑک نے ان کے کرتوتوں کے باعث پکڑ لیا۔

فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ وَهُمْ يَنْظُرُونَ (۴۴)

لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی جس پر ان کے دیکھتے دیکھتے (تیز تند) کڑاکے نے ہلاک کر دیا۔‏

فَمَا اسْتَطَاعُوا مِنْ قِيَامٍ وَمَا كَانُوا مُنْتَصِرِينَ (۴۵)

پس نہ تو کھڑے ہو سکے اور نہ بدلہ لے سکے

ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے ہدایت پر ضلالت کو پسند کیا جس کے باعث ذلت کے عذاب کی ہولناک چیخ نے ان کے پتے پانی کر دئیے اور کلیجے پھاڑ دئیے یہ صرف ان کی سرکشی سرتابی نافرمانی اور سیاہ کاری کا بدلہ تھا ۔ ان پر ان کے دیکھتے دیکھتے عذاب الہٰی آگیا تین دن تک تو یہ انتظار میں رہے عذاب کے آثار دیکھتے رہے آخر چوتھے دن صبح ہی صبح رب کا عذاب دفعتاً آپڑا حواس باختہ ہوگئے کوئی تدبیر نہ بن پڑی اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ کھڑے ہو کر بھاگنے کی کوشش تو کرتے یا کسی اور طرح اپنے بچاؤ کی کچھ تو فکر کر سکتے

وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (۴۶)

اور نوح ؑ کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وہ بھی بڑے نافرمان تھے۔

 اسی طرح ان سے پہلے قوم نوح بھی ہمارے عذاب چکھ چکی ہے اپنی بدکاری اور کھلی نافرمانی کا خمیازہ وہ بھی بھگت چکی ہے

یہ تمام مفصل واقعات فرعونیوں ، عادیوں ، ثمودیوں اور قوم نوح کے اس سے پہلے کی سورتوں کی تفسیر میں کئی بار بیان ہو چکے ۔

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (۴۷)

آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں

زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرما رہا ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی قوت سے پیدا کیا ہے اسے محفوظ اور بلند چھت بنا دیا ہے

حضرت ابن عباسؓ ، مجاہدؓ ، قتادہؓ ثوری ؒاور بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے کہ ہم نے آسمانوں کو اپنی قوت سے بنایا ہے اور ہم کشادگی والے ہیں اس کے کنارے ہم نے کشادہ کئے ہیں اور بےستون اسے کھڑا کر دیا ہے اور قائم رکھا ہے

وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ (۴۸)

اور زمین کو ہم نے فرش بنا دیا پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں۔‏

زمین کو ہم نے اپنی مخلوقات کے لئے بچھونا بنا دیا ہے اور بہت ہی اچھا بچھونا ہے

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (۴۹)

ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو

تمام مخلوق کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے جیسے آسمان زمین ، دن رات ، خشکی تری ، اجالا اندھیرا، ایمان کفر، موت حیات، بدی نیکی ، جنت دوزخ، یہاں تک کہ حیوانات اور نباتات کے بھی جوڑے ہیں یہ اس لئے کہ تمہیں نصیحت حاصل ہو

فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (۵۰)

پس تم اللہ کی طرف دوڑ بھاگ (یعنی رجوع) کرو یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں۔‏

وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ ۖ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (۵۱)

اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہراؤ بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں۔  

 تم جان لو کہ ان کا سب کا خالق اللہ ہی ہے اور وہ لاشریک اور یکتا ہے پس تم اس کی طرف دوڑو اپنی توجہ کا مرکز صرف اسی کو بناؤ اپنے تمام تر کاموں میں اسی کی ذات پر اعتماد کرو

میں  تو تم سب کو صاف صاف آگاہ کر دینے والا ہوں خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا میرے کھلم کھلا خوف دلانے کا لحاظ رکھنا ۔

كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (۵۲)

اس طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔‏

أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ (۵۳)

کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں  

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کفار جو آپ کو کہتے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ان سے پہلے کا کافروں نے بھی اپنے اپنے زمانہ کے رسولوں سے یہی کہا ہے ، کافروں کا یہ قول سلسلہ بہ سلسلہ یونہی چلا آیا ہے جیسے آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کر کے جاتا ہو سچ تو یہ ہے کہ سرکشی اور سرتابی میں یہ سب یکساں ہیں اس لئے جو بات پہلے والوں کے منہ سے نکلی وہی ان کی زبان سے نکلتی ہے کیونکہ سخت دلی میں سب ایک سے ہیں۔

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ (۵۴)

نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں تو آپ ان سے منہ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں۔‏

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (۵۵)

اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمانداروں کو نفع دے گی۔  

پس آپ چشم پوشی کیجئے یہ مجنون کہیں جادوگر کہیں آپ صبر و ضبط سے سن لیں ہاں نصیحت کی تبلیغ نہ چھوڑئیے اللہ کی باتیں پہچانتے چلے جائیے ۔ جن دلوں میں ایمان کی قبولیت کا مادہ ہے وہ ایک نہ ایک روز راہ پر لگ جائیں گے ۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (۵۶)

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔  

پھر اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا فرمان ہے کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو کسی اپنی ضرورت کے لئے نہیں پیدا کیا بلکہ صرف اس لئے کہ میں انہیں ان کے نفع کے لئے اپنی عبادت کا حکم دوں وہ خوشی ناخوشی میرے معبود برحق ہونے کا اقرار کریں مجھے پہچانیں

حضرت سدیؒ فرماتے ہیں بعض عبادتیں نفع دیتی ہیں اور بعض عبادتیں بالکل نفع نہیں پہنچاتیں جیسے قرآن میں ایک جگہ ہے :

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ  (۲۹:۶۱)

اگر تو ان سے دریافت کرے کہ کہ آسمان و زمین کا خالق اور سورج اور چاند کو کام پر لگانے والا کون  ہے ؟ تو ان کا  جواب یہی ہوگا  کہ اللہ تعالیٰ

 تو گو یہ بھی عبادت ہے مگر مشرکوں کو کام نہ آئے گی غرض عابد سب ہیں خواہ عبادت ان کے لئے نافع ہو یا نہ ہو ، اور حضرت ضحاک ؒفرماتے ہیں اس سے مراد مسلمان انسان اور ایمان والے جنات ہیں

مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ (۵۷)

نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ مجھے کھلائیں  

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (۵۸)

اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔‏

مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں پڑھایا ہے:

إِنِّى أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ

یہ حدیث ابو داؤد ترمذی اور نسائی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔

غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بندگی کیلئے پیدا کیا ہے اب اس کی عبادت یکسوئی کے ساتھ جو بجا لائے گا کسی کو اس کا شریک نہ کرے گا وہ اسے پوری پوری جزا عنایت فرمائے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا وہ بدترین سزائیں بھگتے گا اللہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ کل مخلوق ہر حال اور ہر وقت میں اس کی پوری محتاج ہے بلکہ محض بےدست و پا اور سراسر فقیر ہے خالق رزاق اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے ،

 مسند احمد میں حدیث قدسی ہے :

 اے ابن آدم میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ تونگری اور بےنیازی سے پر کر دونگا اور تیری فقیری روک دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری کو ہرگز بند نہ کروں گا

 ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث شریف ہے ، امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں

حضرت حبہ اور حضرت سواء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے یا کوئی دیوار بنا رہے تھے یا کسی چیز کو درست کر رہے تھے ہم بھی اسی کام میں لگ گئے جب کام ختم ہوا تو آپ نے ہمیں دعا دی اور فرمایا :

سر ہل جانے تک روزی سے مایوس نہ ہونا دیکھو انسان جب پیدا ہوتا ہے ایک سرخ بوٹی ہوتا ہے بدن پر ایک چھلکا بھی نہیں ہوتا پھر اللہ تعالیٰ اسے سب کچھ دیتا ہے (مسند احمد)

بعض آسمانی کتابوں میں ہے:

 اے ابن آدم !

میں نے تجھے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے تو اس سے غفلت نہ کر تیرے رزق کا میں ضامن ہوں تو اس میں بےجا تکلیف نہ کر مجھے ڈھونڈ تاکہ مجھے پا لے جب تو نے مجھے پا لیا تو یقین مان کہ تو نے سب کچھ پا لیا

 اور اگر میں تجھے نہ ملا تو سمجھ لے کہ تمام بھلائیاں تو کھو چکا سن تمام چیزوں سے زیادہ محبت تیرے دل میں میری ہونی چاہیے ۔

فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ

پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا

فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ (۵۹)

لہذا وہ مجھ سے جلدی طلب نہ کریں

پھر فرماتا ہے یہ کافر میرے عذاب کو جلدی کیوں مانگ رہے ہیں ؟

 وہ عذاب تو انہیں اپنے وقت پر پہنچ کر ہی رہیں گے جیسے ان سے پہلے کا کافروں کو پہنچے

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوعَدُونَ (۶۰)

پس خرابی ہے منکروں کو ان کے اس دن کی جس کا وعدہ دیئے جاتے ہیں۔‏

قیامت کے دن جس دن کا ان سے وعدہ ہے انہیں بڑی خرابی ہو گی

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter