Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Taghabun

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


اللہ کی تسبیح

مسبحات کی سورتوں میں سب سے آخری سورت یہی ہے،

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ

تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں

مخلوقات کی تسبیح الٰہی کا بیان کئی دفعہ ہو چکا ہے،ملک و حمد والا اللہ ہی ہے

لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ۖ

اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے

ہرچیز پر اس کی حکومت، ہر کام میں اور ہرچیز کا اندازہ مقرر کرنے میں وہ تعریف کا مستحق،

وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  (۱)

اور وہ ہر ہرچیز پر قادر ہے۔‏

جس چیز کا ارادہ کرے اس کو پورا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے نہ کوئی اس کا مزاحم بن سکے نہ اسے کوئی روک سکے وہ اگر نہ چاہے تو کچھ بھی نہ ہو،

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَمِنْكُمْ مُؤْمِنٌ ۚ

اسی نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایماندار ہیں

وہی تمام مخلوق کا خالق ہے اس کے ارادے سے بعض انسان کافر ہوئے بعض مؤمن، وہ بخوبی جانتا ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے اور مستحق ضلالت کون ہے؟

وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ  (۲)

اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ  خوب دیکھ رہا ہے۔

وہ اپنے بندوں کے اعمال پر شاہد ہے اور ہر ایک عمل کا پورا پورا بدلے دے گا،

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ

اسی نے آسمانوں کو اور زمین کو عدل و حکمت سے پیدا کیا

اس نے عدل و حکمت کے ساتھ آسمان و زمین کی پیدائش کی ہے،

وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ۖ

اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں

اسی نے تمہیں پاکیزہ اور خوبصورت شکلیں دے رکھی ہیں، جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ  (۸۲:۶،۸)

اے انسان تجھے تیرے رب کریم سے کس چیز نے غافل کر دیا، اسی نے تجھے پیدا کیا پھر درست کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا

اور جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دی

اور جگہ ارشاد ہے:

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ  (۴۰:۶۴)

اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار گاہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں بہترین صورتیں دیں اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو عنایت فرمائیں،

وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ  (۳)

اور اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔‏

آخر سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے،

يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ۚ

وہ آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ظاہر کرو وہ (سب کو) جانتا ہے

آسمان و زمین اور ہر نفس اور کل کائنات کا علم اسے حاصل ہے

وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ  (۴)

اللہ تو سینوں کی باتوں تک کو جاننے والا ہے ۔‏

یہاں تک کہ دل کے ارادوں اور پوشیدہ باتوں سے بھی وہ واقف ہے۔

أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ  (۵)

کیا تمہارے پاس اس سے پہلے کے کافروں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا؟اور جن کے لئے دردناک عذاب ہے ‏

یہاں گزشتہ کافروں کے کفر اور ان کی بری سزا اور بدترین بدلے کا ذکر ہو رہا ہے کہ کیا تمہیں تم سے پہلے منکروں کا حال معلوم نہیں کہ رسولوں کی مخالفت اور حق کی تکذیب کیا رنگ لائی؟

دنیا اور آخرت میں برباد ہوگئے یہاں بھی اپنے بد افعال کا خمیازہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے جو نہایت الم انگیز ہے۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا

یہ اس لئے کہ انکے پاس انکے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کریگا

اس کی وجہ سوا اس کے کچھ بھی نہیں کہ دلائل و براہین اور روشن نشان کے ساتھ جو انبیاء اللہ ان کے پاس آئے انہوں نے انہیں نہ مانا اور اپنے نزدیک اسے محال جانا کہ انسان پیغمبر ہو، اور انہی جیسے ایک آدم زاد کے ہاتھ پر انہیں ہدایت دی جائے

فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوْا ۚ

پس انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا

پس انکار کر بیٹھے اور عمل چھوڑ دیا،

وَاسْتَغْنَى اللَّهُ ۚ

اور اللہ نے بےنیازی کی

اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے بےپرواہی برتی

وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ  (۶)

اور اللہ تو ہے بےنیاز سب خوبیوں والا۔ ‏

وہ تو غنی ہے ہی اور ساتھ ہی حمد و ثناء کے لائق بھی۔

زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا ۚ

ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوبارہ زندہ نہ کئے جائیں گے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار مشرکین ملحدین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے،

قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ

آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گےپھر جو تم نے کیا اس کی خبر دیئے جاؤ گے

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ ہاں اٹھو گے پھر تمہارے تمام چھوٹے بڑے چھپے کھلے اعمال کا اظہار تم پر کیا جائے گا،

وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ  (۷)

اور اللہ پر یہ بلکہ آسان ہے ۔‏

سنو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا تمہیں بدلے دینا وغیرہ تمام کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہیں،

یہ تیسری آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم کھا کر قیامت کی حقانیت کے بیان کرنے کو فرمایا ہے، پہلی آیت تو سورہ یونس میں ہے:

وَيَسْتَنْبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ  (۱۰:۵۳)

یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ حق ہے؟ تو کہہ میرے رب کی قسم وہ حق ہے اور تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے،

دوسری آیت سورہ سبا میں ہے:

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ  (۳۴:۳)

کافر کہتے ہیں ہم پر قیامت نہ آئے گی تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم یقینا اور بالضرور آئے گی،

 اور تیسری آیت یہی ہے ۔

فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا ۚ

سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کے نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ پر، رسول اللہ پر، نور منزل یعنی قرآن کریم پر ایمان لاؤ

وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ  (۸)

اور اللہ تعالیٰ  تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے۔‏

تمہارا کوئی خفیہ عمل بھی اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں۔

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ

جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا

قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو جمع کرے گا اور اسی لئے اس کا نام يَوْمِ الْجَمْع ہے،

جیسے اور جگہ ہے :

ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ  (۱۱:۱۰۳)

یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے

اور جگہ ہے:

قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ  (۵۶:۴۹،۵۰)

آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلےضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت۔‏

یعنی قیامت والے دن تمام اولین اور آخرین جمع کئے جائیں کے،

ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ

وہی دن ہے ہار جیت کا

ابن عباس فرماتے ہیں:

 يَيَوْمُ التَّغَابُنِ قیامت کا ایک نام ہے، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اہل جنت اہل دوزخ کو نقصان میں ڈالیں گے

حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں اس سے زیادہ التَّغَابُنِ کیا ہو گا کہ ان کے سامنے انہیں جنت میں اور ان کے سامنے انہیں جہنم میں لے جائیں گے۔گویا اسی کی تفسیر اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ

وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ

اور جو شخص اللہ پر ایمان لا کر نیک عمل کرے اللہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا

ایماندار، نیک اعمال والوں کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے

وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ

اور اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے

اور بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت میں انہیں داخل کیا جائے گا

ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ  (۹)

یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‏

اور وہ  پوری کامیابی کو پہنچ جائے گا

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی (سب) جہنمی ہیں (جو) جہنم میں ہمیشہ رہیں گے،

اور کفر و تکذیب کرنے والے جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں ہمیشہ جلنے کا عذاب پاتے رہیں گے

وَبِئْسَ الْمَصِيرُ  (۱۰)

وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔‏

 بھلا اس سے برا ٹھکانا اور کیا ہو سکتا ہے؟

مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ

کوئی مصیبت اللہ کے بغیر نہیں پہنچ سکتی

جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا،

سورہ حدید میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے کہ

مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا  (۵۷:۲۲)

نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے

وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ  (۱۱)

جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہےاور اللہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔‏

اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی، پھر صبر و تحمل سے کام لے، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے رضا بہ قضا کے سوا لب نہ ہلائے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓؓ کا بیان ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا،

حضرت علقمہ کے سامنے یہ آیت پڑھی جاتی ہے اور آپ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں:

 اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کر لے،

یہ بھی مطلب ہے کہ وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے۔

متفق علیہ حدیث میں ہے :

 مؤمن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لئے بہترین ہوتی ہے

- نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع

- اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لینا ہے،

یہ دو طرفہ بھلائی مؤمن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں،

مسند احمد میں ہے:

 ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟

 آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا۔

 اس نے کہا حضرت میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں

آپ نے فرمایا جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے۔

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۚ

لوگو اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو۔

پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے کہ امور شرعی میں ان اطاعتوں سے سرمو تجاوز نہ کرو جس کا حکم ملے بجا لاؤ، جس سے روکا جائے رک جاؤ،

فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ  (۱۲)

پس اگر تم اعراض کرو تو ہمارے رسول کے ذمے صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔‏

اگر تم اس کے ماننے سے اعراض کرتے تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بوجھ نہیں، ان کے ذمہ صرف تبلیغ تھی جو وہ کر چکے اب عمل نہ کرنے کی سزا تمہیں اٹھانا پڑے گی۔

پھر فرمان ہے کہ

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۚ

اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں

اللہ تعالیٰ واحد و صمد ہے اس کے سوا کسی کی ذات کسی طرح کی عبادت کے لائق نہیں،

یہ خبر معنی میں طلب کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید مانو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو،

وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ  (۱۳)

اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر توکل رکھنا چاہیئے۔ ‏

پھر فرماتا ہے چونکہ توکل اور بھروسے کے لائق بھی وہی ہے تم اسی پر بھروسہ رکھو۔

 جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا  (۷۳:۹)

مشرق و مغرب کا پروردگار جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اسی کو اپنا کارساز بنا لے۔‏

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ

‏ اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا

ارشاد ہوتا ہے کہ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے ، جس سے پہلے تنبیہ ہو چکی ہے کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ  (۶۳:۹)

اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔‏

یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہو، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشوں کے پورا کرنے پر مقدم رکھو، بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

بعض اہل مکہ اسلام قبول کر چکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا پھر جب اسلام کا خوب افشا ہو گیا تب یہ لوگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کر لیا ہے اب جی میں آیا کہ اپنے ہاں بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ

وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ  (۱۴)

اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ  بخشنے والا مہربان ہے ۔‏

یعنی اب درگزر کرو آئندہ کے لئے ہوشیار رہو،

إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ

تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں

اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گزار کون ہیں؟

وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ  (۱۵)

اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے ‏

اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہئے اس پر نگاہیں رکھو

جیسے اور جگہ فرمان ہے :

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ

ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ   (۳:۱۴)

بطور آزمائش کے لوگوں کے لئے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر، شائستہ گھوڑے، مویشی، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے

مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

مسند احمد میں ہے:

 ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ لبے لانبے کرتے پہنے آ گئے دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ، رنگ کے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے

 اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کر سکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا۔

 مسند میں ہے:

 حضرت اشعت بن قیس فرماتے ہیں کندہ قبیلے کے وفد میں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تمہاری کچھ اولاد بھی ہے میں نے کہا ہاں اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا

آپ نے فرمایا خبردار ایسا نہ کہو ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے،

 پھر فرمایا ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں،

 بزاز میں ہے:

 اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل ونامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے،

 طبرانی میں ہے:

 تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لئے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تیرے لئے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کر دیا تو قطعاً جنتی ہو گیا۔

 پھر فرمایا شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے جو تیری پیٹھ سے نکلا پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے جو تیری ملکیت میں ہے پھر دشمنی کرتا ہے۔

پھر فرماتا ہے

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ

پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو

اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو،

بخاری و مسلم میں ہے:

 جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ جس سے میں روک دوں رک جاؤ،

بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورہ آل عمران کی آیت  (۳:۱۴)   کی ناسخ یہ آیت ہے،یعنی پہلے فرمایا تھا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ  (۳:۱۰۲)

اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے

لیکن اب فرما دیا کہ اپنی طاقت کے مطابق چنانچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہو جاتی تھیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ دوسری آیت اتار کر تخفیف کر دی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے،

وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا

اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ

پھر فرماتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو نہ آگے بڑھو نہ پیچھے سرکو نہ امر کو چھوڑو نہ نہی کے خلاف کرو،

وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ ۗ

اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہتر ہے

جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو فقیروں ، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے،

وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  (۱۶)

جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے۔‏

اس کی تفسیر سورہ حشر کی اس آیت میں گزر چکی ہے۔

إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ

اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو گے) تو وہ اسے بڑھاتا جائے گااور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا

جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اسکا بدلہ دیگا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے

 بخاری مسلم کی حدیث میں ہے :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے نہ مفلس نہ نادہندہ،

 پس فرماتا ہے وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا، جیسے سورہ بقرہ میں بھی فرمایا ہے کہ

فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً  (۲:۲۴۵)

پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا

وَيَغْفِرْ لَكُمْ ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف کر دے گا،

وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ  (۱۷)

اللہ بڑا قدردان اور بڑا برد بار ہے ۔‏

اللہ بڑا قدر دان ہے، تھوڑی سی نیک کا بہت بڑا اجر دیتا ہے، وہ بردبار ہے درگزر کرتا ہے بخش دیتا ہے گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ  (۱۸)

وہ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے زبردست حکمت والا (ہے)۔‏

چھپے کھلے کا عالم وہ غالب اور باحکمت ہے، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی مرتبہ اس سے پہلے گزر چکی ہے،

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter