Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ma'arij

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ (۱)

ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔‏

بِعَذَابٍ میں جو ب ہے وہ بتا رہی ہے کہ یہاں فعل کی تضمین ہے گویا کہ فعل مقدر ہے یعنی یہ کافر عذاب کے واقع ہونے کی طلب میں جلدی کر رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے :

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ (۲۲:۴۷)

اور عذاب کو آپ سے جلدی طلب کر رہے اللہ ہرگز اپنا وعدہ نہیں ٹالے گا۔

یعنی اس کا عذاب یقیناً اپنے وقت مقررہ پر آ کر ہی رہے گا،

 نسائی میں حضرت ابن عباسؓ سے وارد ہے کہ کافروں نے اللہ کا عذاب مانگا جو ان پر یقیناً آنے والا ہے، یعنی آخرت میں

 ان کی اس طلب کے الفاظ بھی دوسری جگہ قرآن میں منقول ہیں کہتے ہیں:

وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ  (۸:۳۲)

اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ

 اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہےتو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔‏

لِلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ (۲)

کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ عذاب کافروں کے لئے تیار ہے اور ان پر آپڑنے والا ہے جب آ جائے گا تو کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ اسے ہٹا سکے۔

مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ (۳)

اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے ‏

معارج کے معنی

ابن عباسؓ کی تفسیر کے مطابق درجوں والا، یعنی بلندیوں اور بزرگیوں والا

اور حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں مراد معارج سے آسمان کی سیڑھیاں ہیں،

قتادہ ؒکہتے ہیں فضل و کرم اور نعمت و رحم والا، یعنی یہ عذاب اس اللہ کی طرف سے ہے جو ان صفتوں والا ہے،

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ

جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں

اس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں،

الرُّوح کی تفسیر میں حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ یہ قسم کی مخلوق ہے انسان تو نہیں لیکن انسانوں سے بالکل مشابہ ہے،

 میں کہتا ہوں ممکن ہے اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہوں اور یہ عطف ہو عام پر خاص کا

 اور ممکن ہے کہ اس سے مراد بنی آدم کی روحیں ہوں، اس لئے کہ وہ بھی قبض ہونے کے بعد آسمان کی طرف چڑھتی ہیں، جیسے کہ حضرت براء والی لمبی حدیث میں ہے :

 جب فرشتے پاک روح نکالتے ہیں تو اسے لے کر ایک آسمان سے دوسرے پر چڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں،

 گو اس کے بعض راویوں میں کلام ہے لیکن یہ حدیث مشہور ہے اور اس کی شہادت میں حضرت ابوہریرہ والی حدیث بھی ہے جیسے کہ پہلے بروایت امام احمد ترمذی اور ابن ماجہ گزر چکی ہے جسکی سند کے راوی ایک جماعت کی شرط پر ہیں،

 پہلی حدیث بھی مسند احمد ابو داؤد و نسائی اور ابن ماجہ میں ہے،

فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (۴)

ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے‏

پھر فرمایا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے

 اس میں چار قول ہیں

- ایک تو یہ کہ اس سے مراد وہ دوری ہے جو اسفل السافلین سے عرش معلیٰ تک ہے اور اسی طرح عرش کے نیچے سے اوپر تک کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے اور عرش معلی سرخ یاقوت کا ہے، جیسے کہ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "صفتہ العرش" میں ذکر کیا ہے،

 ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

 اس کے حکم کی انتہاء نیچے کی زمین سے آسمانوں کے اوپر تک کی پچاس ہزار سال کی ہے اور ایک دن ایک ہزار سال کا ہے یعنی آسمان سے زمین تک اور زمین سے آسمان تک ایک دن میں جو ایک ہزار سال کے برابر ہے، اس لئے کہ آسمان و زمین کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے

یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت مجاہدؒ کے قول سے مروی ہے حضرت ابن عباس کے قول سے نہیں،

 حضرت ابن عباس سے ابن ابی حاتم میں روایت ہے:

 ہر زمین کی موٹائی پانچ سو سال کے فاصلہ کی ہے اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانچ سو سال کی دوری ہے تو سات ہزار سال یہ ہو گئے، اسی طرح آسمان، تو چودہ ہزار سال یہ ہوئی اور ساتویں آسمان سے عرش عظیم تک چھتیس ہزار سال کا فاصلہ ہے یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے،

- دوسرا قول یہ ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے تب سے لے کر قیامت تک کہ اس کی بقاء کی آخر تک مدت پچاس ہزار سال کی ہے، چنانچہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ دنیا کی کل عمر پچاس ہزار سال کی ہے، اور یہی ایک دن ہے جو اس آیت میں مراد لیا گیا ہے،

حضرت عکرمہؑ فرماتے ہیں دنیا کی پوری مدت یہی ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ کس قدر گزر گئی اور کتنی باقی ہے سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے

- تیسرا قول یہ ہے کہ یہ دن وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں فاصلے کا ہے ، حضرت محمد بن کعب یہی فرماتے ہیں لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے،

- چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے حضرت ابن عباس سے یہ بہ سند صحیح مروی ہے، حضرت عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں ،

 ابن عباس کا قول ہے کہ قیامت کے دن کو اللہ تعالیٰ کافروں پر پچاس ہزار سال کا کر دے گا،

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا یہ دن تو بہت ہی بڑا ہے،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ مؤمن پر اس قدر ہلکا ہو جائے گا کہ دنیا کی ایک فرض نماز کی ادائیگی میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے بھی کم ہو گا،

 یہ حدیث ابن جریر میں بھی ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں، واللہ اعلم

مسند کی ایک اور حدیث میں ہے:

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گزرا لوگوں نے کہا حضرت یہ اپنے قبیلے میں سب سے بڑا مالدار ہے آپ نے اسے بلوایا اور فرمایا کیا واقع میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو؟

 اس نے کہا ہاں میرے پاس رنگ برنگ سینکڑوں اونٹ قسم قسم کے غلام اعلیٰ اعلیٰ درجہ کے گھوڑے وغیرہ ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے پاؤں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ عامری کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت یہ کیوں؟

آپ فرمایا سنو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے :

 جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان تمام جانوروں کو خوب موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندے ہوئے چلو چنانچہ ایک ایک کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گزر جائے گا تو اول والا لوٹ کر آ جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا، اسی طرح گائے گھوڑے بکری وغیرہ یہی سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے کوئی ان میں بےسینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہوگا،

عامری نے پوچھا اے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایئے اونٹوں میں اللہ کا حق کیا ہے؟

 فرمایامسکنیوں کو سواری کے لئے تحفتًہ دینا غرباء کے ساتھ سلوک کرنا دودھ پینے کے لئے جانور دینا ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ کے لئے ہوا نہیں مانگا ہوا بےقیمت دینا،

یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی دوسری سند سے مذکور ہے،

مسند کی ایک حدیث میں ہے:

 جو سونے چاندی کے خزانے والا اس کا حق ادا نہ کرے اس کا سونا چاندی کی تختیوں کی صورت میں بنایا جائے گا اور جہنم کی آگ میں تپا کر اس کی پیشانی کروٹ اور پیٹھ داغی جائے گی یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے فیصلے کر لے اس دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے پچاس ہزار سال کی ہو گی پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا،

پھر آگے بکریوں اور اونٹوں کا بیان ہے جیسے اوپر گزرا،اور یہ بھی بیان ہے کہ گھوڑے تین قسم کے لوگوں کے لئے ہیں۔

- ایک تو اجر دلانے والے،

- دوسری قسم کے پردہ پوشی کرنے والے،

- تیسری قسم کے بوجھ ڈھونے والے۔

یہ حدیث پوری پوری صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔

 ان روایتوں کے پورا بیان کرنے کی اور ان کی سندوں اور الفاظ کے تمام تر نقل کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتاب الزکوٰۃ ہے، یہاں ان کے وارد کرنے سے ہماری غرض صرف ان الفاظ سے ہے کہ یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ وہ دن کیا ہے، جس کی مقدار ایک ہزار سال کی ہے؟

آپ نےفرمایا وہ کونسا پچاس ہزار سال کا دن ہو گا ؟

 اس نے کہا حضرت میں تو خود دریافت کرنے آیا ہوں؟

آپ نے فرمایا سنو یہ دو دن ہیں جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو ان کی حقیقت کا بخوبی علم ہے میں تو باوجود نہ جاننے کے کتاب اللہ میں کچھ کہنا مکروہ جانتا ہوں۔

فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا (۵)

پس تو اچھی طرح صبر کر۔‏

پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنی قوم کو جھٹلانے پر اور عذاب کے مانگنے کی جلدی پر جسے وہ اپنے نزدیک نہ آنے والا جانتے ہیں صبر و تحمل کرو، جیسے اور جگہ ہے:

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ (۴۲:۱۸)

اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں وہ تو اس سے ڈر رہے ہیں انہیں اسکے حق ہونے کا پورا علم ہے

یعنی بے ایمان تو قیامت کے جلد آنے کی تمنائیں کرتے ہیں اور ایمان دار اس کے آنے کو حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔

 اسی لئے یہاں بھی فرمایا

إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا (۶)

بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں۔‏

وَنَرَاهُ قَرِيبًا (۷)

اور ہم اسے قریب دیکھتے ہیں ‏

یہ تو اسے دور جان رہے ہیں بلکہ محال اور واقع نہ ہونے والا مانتے ہیں لیکن ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں،

یعنی مؤمن تو اس کا آنا حق جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب آیا ہی چاہتی ہے، نہ جانے کب قیامت قائم ہو جائے اور کب عذاب آ پڑیں، کیونکہ اس کے صحیح وقت کو تو سوائے اللہ کے اور کوئی جانتا ہی نہیں،

پس ہر وہ چیز جس کے آنے اور ہونے میں کوئی شک نہ ہو اس کا آنا قریب ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ہو پڑنے کا ہر وقت کھٹکا ہی رہتا ہے۔

يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ (۸)

جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہو جائے گا۔‏

وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ (۹)

اور پہاڑ مثل رنگین اون کے ہوجائیں گے ‏

عذاب کے طالب عذاب دیئے جائیں گے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس عذاب کو یہ طلب کر رہے ہیں وہ عذاب ان طلب کرنے والے کافروں پر اس دن آئے گا جس دن آسمان مثل مہل کے ہو جائے، یعنی زیتون کی تلچھٹ جیسا ہو جائے، اور پہاڑ ایسے ہو جائیں جیسے دھنی ہوئی اون،

 یہی فرمان اور جگہ ہے:

وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ (۱۰۱:۵)

اور پہاڑ دھنے ہوئے رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔‏

وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا (۱۰)

اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔‏

يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ

(حالانکہ) ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے۔

پھر فرماتا ہے کوئی قریبی رشتہ دار کسی اپنے قریبی رشتہ دار سے پوچھ گچھ بھی نہ کرے گا حالانکہ ایک دوسرے کو بری حالت میں دیکھ رہے ہوں گے لیکن خود ایسے مشغول ہوں گے کہ دوسرے کا حال پوچھنے کا بھی ہوش نہیں سب آپا دھاپی میں پڑے ہیں،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں ایک دوسرے کو دیکھے گا پہچانے لگا لیکن پھر بھاگ کھڑا ہو گا، جیسے اور جگہ ہے:

لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (۸۰:۳۷)

ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر دامن گیر ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی ۔‏

یعنی ہر ایک ایسے مشغلے میں لگا ہوا ہو گا جو دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ ہی نہ دے گا۔ ایک اور جگہ فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ (۳۱:۳۳)

لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو

جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گااور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا یاد رکھو اللہ کا وعدہ سچا ہے

اور جگہ ارشاد ہے:

لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى (۳۵:۱۸)

کوئی کسی کا بوجھ نہ بٹائے گا، گو قرابت دار ہوں

اور جگہ فرمان ہے:

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (۲۳:۱۰۱)

پس جب صور پھونک دیا جائیگا اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ

یعنی صور پھونکتے ہی سب آپس کے رشتے ناتے اور پوچھ گچھ ختم ہو جائے گی اور جگہ فرمان ہے:

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (۸۰:۳۴،۳۷)

اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سےان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکردامن گیر ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی ۔‏

یعنی اس دن انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، بیوی اور فرزند سے بھاگتا پھرے گا۔ ہر شخص اپنی پریشانیوں کی وجہ سے دوسرے سے غافل ہو گا،

يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ (۱۱)

گنہگار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو  ‏

یہ وہ دن ہو گا کہ اس دن ہر گنہگار دل سے چاہے گا کہ اپنی اولاد کو اپنے فدیہ میں دے کر جہنم کے آج کے عذاب سے چھوٹ جائے

وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ (۱۲)

اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو۔‏

وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ (۱۳)

اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا۔‏

وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ (۱۴)

اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دلا دے ‏

اور اپنی بیوی، بھائی، اپنے رشتے کنبے، اپنے خاندان اور قبیلے کو بلکہ چاہے گا کہ تمام روئے زمین کے لوگوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے لیکن اسے آزاد کر دیا جائے ۔

آہ ! کیا ہی دل گداز منظر ہے کہ انسان اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو ، اپنی شاخوں، اپنی جڑوں سبکو آج فدا کرنے پر تیار ہے تاکہ خود بچ جائے۔

فَصِيلَتِهِ کے معنی مال کے بھی کئے گئے ہیں ،

كَلَّا ۖ

مگر یہ ہرگز نہ ہوگا،

غرض تمام تر محبوب ہستیوں کو اپنی طرف سے بھینٹ میں دینے پر دل سے رضامند ہو گا، لیکن کوئی چیز کام نہ آئے گی کوئی بدلہ اور فدیہ نہ کھپے گا، کوئی عوض اور معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا

إِنَّهَا لَظَى (۱۵)

یقیناً وہ شعلے والی (آگ) ہے ‏

نَزَّاعَةً لِلشَّوَى (۱۶)

جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لانے والی ہے ‏

بلکہ اس آگ کے عذاب میں ڈالا جائے گا جو اونچے اونچے اور تیز تیز شعلے پھینکنے والی اور سخت بھڑکنے والی ہے جو سر کی کھال تک جھلسا کر کھینچ لاتی ہے، بدن کی کھال دور کر دیتی ہے اور کھوپڑی پلپلی کر دیتی ہے، ہڈیوں کو گوشت سے الگ کر دیتی ہے، رگ پٹھے کھنچنے لگتے ہیں، ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگتے ہیں، پنڈلیاں کٹی جاتی ہیں چہرہ بگڑ جاتا ہے، ہر ایک عضو بدل جاتا ہے، چیخ پکار کرتا رہتا ہے، ہڈیوں کا چُورا کرتی رہتی ہے، کھالیں جلائی جاتی ہے۔

تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّى (۱۷)

وہ ہر شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منہ موڑتا ہے۔‏

یہ آگ اپنی فصیح زبان اور اونچی آواز سے اپنے والوں کو جنہوں نے دنیا میں بدکاریاں اور اللہ کی نافرمانیاں کی تھیں پکارتی ہے پھر جس طرح پرند جانور دانہ چگتا ہے اسی طرح میدان محشر میں سے ایسے بدلوگوں کو ایک ایک کر کے دیکھ بھال کر چن لیتی ہے،

اب ان کی بد اعمالیاں بیان ہو رہی ہیں کہ

وَجَمَعَ فَأَوْعَى (۱۸)

اور جمع کرکے سنبھال رکھتا ہے

یہ دل سے جھٹلانے والے اور بدن سے عمل چھوڑ دینے والے تھے، یہ مال کو جمع کرنے والے اور سربند کر کے رکھ چھوڑنے والے تھے، اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام میں بھی مال خرچ کرنے سے بھاگتے تھے بلکہ زکوٰۃ تک ادا نہ کرتے تھے،

حدیث شریف میں ہے :

سمیٹ سمیٹ کر سینت سینت کر نہ رکھ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے روک لے گا،

حضرت عبداللہ بن حکیم تو اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کبھی تھیلی کا منہ ہی نہ باندھتے تھے،

 امام حسن بصری فرماتے ہیں:

 اے ابن آدم اللہ تعالیٰ کی وعید سن رہا ہے پھر مال سمیٹتا جا رہا ہے؟

حضرت قتادہ فرماتے ہیں:

 مال کو جمع کرنے میں حلال حرام کا پاس نہ رکھتا تھا اور فرمان اللہ ہوتے ہوئے بھی خرچ کی ہمت نہیں کرتا تھا۔

إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا (۱۹)

بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے ‏

إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا (۲۰)

جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے۔‏

وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا (۲۱)

اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔‏

یہاں انسانی جبلت کی کمزوری بیان ہو رہی ہے کہ یہ بڑا ہی بےصبرا ہے، مصیبت کے وقت تو مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے باؤلا سا ہو جاتا ہے، گویا دل اڑ گیا اور گویا اب کوئی آس باقی نہیں رہی، اور راحت کے وقت بخیل کنجوس بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ڈکار جاتا ہے،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 بدترین چیز انسان میں بیحد بخیلی اور اعلیٰ درجہ کی نامردی ہے (ابو داؤد)

إِلَّا الْمُصَلِّينَ (۲۲)

مگر وہ نمازی۔‏

الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (۲۳)

جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرنے والے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں اس مذموم خصلت سے وہ لوگ دور ہیں جن پر خاص فضل الٰہی ہے اور جنہیں توفیق خیر ازل سے مل چکی ہے، جن کی صفتیں یہ ہیں کہ وہ پورے نمازی ہیں وقتوں کی نگہبانی کرنے واجبات نماز کو اچھی طرح بجا لانے سکون اطمینان اور خشوع خضوع سے پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے والے۔

جیسے فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (۲۳:۱،۲)

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں

ٹھہرے ہوئے بےحرکت کے پانی کو بھی عرب ماء دائم کہتے ہیں

 اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں اطمینان واجب ہے، جو شخص اپنے رکوع سجدے پوری طرح ٹھہر کر بااطمینان ادا نہیں کرتا وہ اپنی نماز پر دائم نہیں کیونکہ نہ وہ سکون کرتا ہے نہ اطمینان بلکہ کوئے کی طرح ٹھونگیں مار لیتا ہے اس کی نماز اسے نجات نہیں دلوائے گی،

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر نیک عمل پر مداومت اور ہمیشگی کرنا ہے جیسے کہ نبی علیہ صلوات اللہ کا فرمان ہے:

 اللہ کو سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جس پر مداومت کی جائے گو کم ہو،

خود حضور علیہ السلام کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جس کام کو کرتے اس پر ہمیشگی کرتے،

حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا کہ حضرت دانیال پیغمبر نے اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :

 وہ ایسی نماز پڑھے گی کہ اگر قوم نوح ایسی نماز پڑھتی تو ڈوبتی نہیں اور قوم عاد کی اگر ایسی نماز ہوتی تو ان پر بےبرکتی کی ہوائیں نہ بھیجی جاتیں اور اگر قوم ثمود کی نماز ایسی ہوتی تو انہیں چیخ سے ہلاک نہ کیا جاتا،

پس اے لوگو! نماز کو اچھی طرح پابندی سے پڑھا کرو مؤمن کا یہ زیور اور اس کا بہترین خلق ہے،

وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ (۲۴)

اور جن کے مالوں میں مقررہ حصہ ہے ‏

لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (۲۵)

مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی۔ ‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کے مالوں میں حاجت مندوں کا بھی مقررہ حصہ ہے

 سائل اور محروم کی پوری تفسیر سورہ ذاریات میں گزر چکی ہے۔

وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ (۲۶)

اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔

وَالَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ (۲۷)

اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ ‏

یہ لوگ حساب اور جزا کے دن پر بھی یقین کامل اور پورا ایمان رکھتے ہیں اسی وجہ سے وہ اعمال کرتے ہیں جن سے ثواب پائیں اور عذاب سے چھوٹیں،

پھر ان کی صفت بیان ہوتی ہے کہ

إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ (۲۸)

بیشک ان کے رب کا عذاب بےخوف ہونے کی چیز نہیں۔

وہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے اور خوف کھانے والے ہیں، جس عذاب سے کوئی عقل مند انسان بےخوف نہیں رہ سکتا ہاں جسے اللہ امن دے

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (۲۹)

اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی (حرام سے) حفاظت کرتے ہیں۔‏

اور یہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو حرام کاری سے روکتے ہیں جہاں اللہ کی اجازت نہیں اس جگہ سے بچاتے ہیں،

إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (۳۰)

ہاں ان کی بیویاں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں

ہاں اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی لونڈیوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہیں سو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں،

فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (۳۱)

اب جو کوئی اس کے علاوہ (راہ) ڈھونڈے گا تو ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہونگے۔‏

لیکن جو شخص ان کے علاوہ اور جگہ یا اور طرح اپنی شہوت رانی کرلے وہ یقیناً حدود اللہ سے تجاوز کرنے والا ہے،

ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر قد افلح المومنون میں گزر چکی ہے یہاں دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (۳۲)

جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں۔ ‏

یہ لوگ امانت کے ادا کرنے والے وعدوں اور وعیدوں قول اور قرار کو پورا کرنے والے اور اچھی طرح نباہنے والے ہیں، نہ خیانت کریں نہ بد عہدی اور وعدہ شکنی کریں ۔

یہ کل صفتیں مؤمنوں کی ہیں اور ان کا خلاف کرنے والا منافق ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے :

منافق کی تین خصلتیں ہیں

- جب کبھی بات کرے جھوٹ بولے،

- جب کبھی جھگڑے گالیاں بولے

- جب امانت اسکے پاس رکھی جائےخیانت کرے

وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ (۳۳)

اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں۔ ‏

یہ اپنی شہادتوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہیں یعنی نہ اس میں کمی کریں نہ زیادتی نہ شہادت دینے سے بھاگیں نہ اسے چھپائیں، جو چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے۔

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (۳۴)

جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‏

پھر فرمایا وہ اپنی نماز کی پوری چوکسی کرتے ہیں یعنی وقت پر ارکان اور واجبات اور مستجات کو پوری طرح بجا لا کر نماز پڑھتے ہیں،

یہاں یہ بات خاص توجہ کے لائق ہے کہ ان جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے شروع وصف میں بھی نماز کی ادائیگی کا بیان کیا اور ختم بھی اسی پر کیا پس معلوم ہوا کہ نماز امر دین میں عظیم الشان کام ہے اور سب سے زیادہ شرافت اور فضیلت والی چیز بھی یہی ہے اس کا ادا کرنا سخت ضروری ہے اور اس کا بندوبست نہایت ہی تاکید والا ہے۔

 سورہ قد افلح المومنون میں بھی ٹھیک اسی طرح بیان ہوا ہے اور وہاں ان اوصاف کے بعد بیان فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وارث فردوس ہیں

اور یہاں فرمایا

أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ (۳۵)

یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہونگے۔‏

یہی لوگ جنتی ہیں اور قسم قسم کی لذتوں اور خوشبوؤں سے عزت و اقبال کے ساتھ مسرور و محفوظ ہیں۔a

مرکز نور و ہدایت سے مفرور انسان

اللہ تعالیٰ عزوجل ان کافروں پر انکار کر رہا ہے جو حضور علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں تھے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دیکھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت لے کر آئے وہ ان کے سامنے تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے معجزے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے پھر باوجود ان تمام باتوں کے وہ بھاگ رہے تھے اور ٹولیاں ٹولیاں ہو کر دائیں بائیں کترا جاتے تھے،

جیسے اور جگہ فرمایا :

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ (۷۴:۴۹،۵۱)

انہیں کیا ہوگیا ہےکہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں گویا کہ وہ بہکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں

یعنی یہ نصیحت سے منہ پھیر کر ان گدھوں کی طرح جو شیر سے بھاگ رہے ہوں کیوں بھاگ رہے ہیں؟

یہاں بھی اسی طرح فرما رہا ہے کہ

فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ (۳۶)

پس کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تیری طرف دوڑتے آتے ہیں۔‏

عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ (۳۷)

دائیں اور بائیں سے گروہ کے گروہ ‏

ان کفار کو کیا ہو گیا ہے یہ نفرت کر کے کیوں تیرے پاس سے بھاگے جا رہے ہیں؟

 کیوں دائیں بائیں سرکتے جاتے ہیں؟

 اور کیا وجہ ہے کہ متفرق طور پر اختلاف کے ساتھ ادھر ادھر ہو رہے ہیں،

حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے خواہش نفس پر عمل کرنے والوں کے حق میں یہی فرمایا ہے :

 وہ کتاب اللہ کے مخالف ہوتے ہیں اور آپس میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ہاں کتاب اللہ کی مخالفت میں سب متفق ہوتے ہیں،

حضرت ابن عباسؓ سے بروایت عوفی مروی ہے :

 وہ ٹولیاں ہو کر بےپرواہی کے ساتھ تیرے دائیں بائیں ہو کر تجھے مذاق سے گھورتے ہیں،

 حضرت حسنؒ فرماتے ہیں یعنی دائیں بائیں الگ ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص نے کیا کہا؟

حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں دائیں بائیں ٹولیاں ٹولیاں ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں نہ کتاب اللہ کی چاہت ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رغبت ہے،

 ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس آئے اور وہ متفرق طور پر حلقے حلقے تھے تو فرمایا:

 میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورتوں میں کیسے دیکھ رہا ہوں؟ (احمد)

ابن جریر میں اور سند سے بھی مروی ہے۔

أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ (۳۸)

کیا ان میں سے ہر ایک کی توقع یہ ہے کہ وہ نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا؟‏

کافروں کی چاہت

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ کیا ان کی چاہت ہے کہ جنت نعیم میں داخل کئے جائیں؟

كَلَّا ۖ

(ایسا) ہرگز نہ ہوگا

ایسا نہ ہو گا یعنی جب ان کی یہ حالت ہے کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دائیں بائیں کترا جاتے ہیں پھر ان کی یہ چاہت پوری نہیں ہو سکتی بلکہ یہ جہنمی گروہ ہے،

 اب جس چیز کو یہ محال جانتے تھے اس کا بہترین ثبوت ان ہی کی معلومات اور اقرار سے بیان ہو رہا ہے کہ

إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِمَّا يَعْلَمُونَ (۳۹)

ہم نے انہیں اس (چیز) سے پیدا کیا ہے جسے وہ جانتے ہیں ‏

جس نے تمہیں ضعیف پانی سے پیدا کیا ہے جیسے کہ خود تمہیں بھی معلوم ہے پھر کیا وہ تمہیں دوبارہ نہیں پیدا کر سکتا؟

جیسے اور جگہ ہے:

أَلَمْ نَخْلُقْكُمْ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (۷:۲۰)

کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے (منی سے) پیدا نہیں کیا۔‏

جیسے اور جگہ فرمان ہے:

فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ

إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرٌ يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ (۸۶:۵،۱۰)

انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے،

یقینا ًوہ اللہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے جس دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی اور کوئی طاقت نہ ہو گی نہ مددگار،

پس یہاں بھی فرماتا ہے

فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (۴۰)

پس مجھے قسم ہے مشرقوں اور مغربوں کے رب کی (کہ) ہم یقیناً قادر ہیں‏

مجھے قسم ہے اس کی جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور مشرق و مغرب متعین کی اور ستاروں کے چھپنے اور ظاہر ہونے کی جگہیں مقرر کر دیں، مطلب یہ ہے کہ اے کافرو! جیسا تمہارا گمان ہے ویسا معاملہ نہیں کہ نہ حساب کتاب ہو نہ حشر نشر ہو بلکہ یہ سب یقیناً ہونے والی چیزیں ہیں۔ اسی لئے قسم سے پہلے ان کے باطل خیال کی تکذیب کی اور اسے اس طرح ثابت کیا کہ اپنی قدرت کاملہ کے مختلف نمونے ان کے سامنے پیش کئے، مثلاً آسمان و زمین کی ابتدائی پیدائش اور حیوانات، جمادات اور مختلف قسم کی مخلوق کی موجودگی

 جیسے اور جگہ ہے:

لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (۴۰:۵۷)

آسمان و زمین کی پیدائش یقیناً انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے، لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں

 مطلب یہ ہے کہ جب بڑی بڑی چیزوں کو پیدا کرنے پر اللہ قادر ہے تو چھوٹی چیزوں کی پیدائش پر کیوں قادر نہ ہو گا؟

جیسے اور جگہ ہے:

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى ۚ بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۴۶:۳۳)

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش میں نہ تھکا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟

بیشک وہ قادر ہے اور ایک اس پر کیا ہر ایک چیز پر اسے قدرت حاصل ہے،

 اور جگہ ارشاد ہے:

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۳۶:۸۱،۸۲)

یعنی کیا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا، ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں؟

ہاں ہے اور وہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے، وہ جس چیز کا ارداہ کرے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے،

یہاں ارشاد ہو رہا ہے کہ

عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ خَيْرًا مِنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ (۴۱)

اس پر ان کے عوض ان سے اچھے لوگ لے آئیں گے اور ہم عاجز نہیں ہیں

مشرق اور مغرب کے پروردگار کی قسم ہم ان کے ان جسموں کو جیسے یہ آپ ہیں اس سے بھی بہتر صورت میں بدل ڈالنے پر پورے پورے قادر ہیں کوئی چیز کوئی شخص اور کوئی کام ہمیں عاجز اور درماندہ نہیں کر سکتا،

جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ (۷۵:۳،۴)

کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کر دیں

یعنی کیا کسی شخص کا یہ گمان ہے کہ ہم اسکی ہڈیاں جمع نہ کر سکیں گے؟ غلط گمان ہے بلکہ ہم تو اس کی پور پور جمع کر کے ٹھیک ٹھاک بنا دینگے

 اور فرمایا:

نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ  (۵۶:۶۰،۶۱)

ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کر دی ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تم جیسوں کو بدل ڈالیں اور تمہیں اس نئی پیدائش میں پیدا کریں جسے تم جانتے بھی نہیں،

پس ایک مطلب تو آیت مندرجہ بالا کا یہ ہے،

 دوسرا مطلب امام ابن جریر نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ہم قادر ہیں اس امر پر کہ تمہارے بدلے ایسے لوگ پیدا کر دیں جو ہمارے مطیع و فرمانبردار ہوں اور ہماری نافرمانیوں سے رکے رہنے والے ہوں،

جیسے اور جگہ فرمان ہے:

وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (۴۷:۳۸)

یعنی اگر تم نے منہ موڑا تو اللہ تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا اور وہ تم جیسی نہ ہو گی،

 لیکن پہلا مطلب دوسری آیتوں کی صاف دلالت کی وجہ سے زیادہ ظاہر ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ (۴۲)

پس تو انہیں جھگڑتا کھیلتا چھوڑ دے یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے جا ملیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ ‏

يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ (۴۳)

جس دن یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے، گویا کہ وہ کسی جگہ کی طرف تیز تیز جا رہے ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کے جھٹلانے ، کفر کرنے، سرکشی میں بڑھنے ہی میں چھوڑ دو جس کا وبال ان پر اس دن آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہو چکا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا اور یہ میدان محشر کی طرف جہاں انہیں حساب کے لئے کھڑا کیا جائے گا اس طرح لپکتے ہوئے جائیں گے جس طرح دنیا میں کسی بت یا علم، تھان اور چلے کو چھونے اور ڈنڈوت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے جاتے ہیں،

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۚ

ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہونگیں ان پر ذلت چھا رہی ہوگی

مارے شرم و ندامت کے نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی اور چہروں پر پھٹکار برس رہی ہو گی،

 یہ ہے دنیا میں اللہ کی اطاعت سے سرکشی کرنے کا نتیجہ!

ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ (۴۴)

یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا

اور یہ ہے وہ دن جس کے ہونے کو آج محال جانتے ہیں اور ہنسی مذاق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، شریعت اور کلام الٰہی کی حقارت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت کیوں قائم نہیں ہوتی؟ ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا؟  

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter