Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Qiyamah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں

یہ کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے لا کا کلمہ نفی کی تائید کے لئے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہو گی قسم کھائی جا رہی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ  (۱)

میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ۔‏

وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (۲)

اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو ۔‏

قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی،

حضرت حسن تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے،

حضرت قتادہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے،

حسن اور اعرج کی قرأت لا قسم بیوم القیامتہ ہے اس سے بھی حضرت حسن کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں،

لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ حضرت قتادہ کا فرمان ہے، ابن عباس اور سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے۔

یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے،نفس لوامہ کی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مؤمن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہدیا؟

یہ کیوں کھا لیا؟

یہ خیال دل میں کیوں آیا؟

ہاں فاسق فاجر غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے،

 یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو ، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا،

امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے۔

أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ (۳)

کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں ۔‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے،

بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ (۴)

ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کر دیں ۔‏

یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے۔

ابن عباس ؓوغیرہ فرماتے ہیں یعنی ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں،

 امام ابن جریر فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے،

آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ قَادِرِينَ حال ہے نَجْمَعَ سے

 یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں۔

 ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں۔

بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ (۵)

بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آگے آگے نافرمانیاں کرتا جائے ‏

پھر فرمایا کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے، امیدیں باندھے ہوئے ہے، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کرتولوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے،

 اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں جو یوم حساب کا منکر ہے، ابن زید بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہو گی،

يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ (۶)

پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا ‏

اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے، جیسے اور جگہ ہے:

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

قُلْ لَكُمْ مِيعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ (۳۴:۲۹،۳۰)

کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی؟

ان سے کہدے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے۔

یہاں بھی فرماتا ہے کہ

فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ (۷)

پس جس وقت کہ نگاہ پتھرا جائے گی ۔‏

جب آنکھیں پتھرا جائیں گی، جیسے اور جگہ ہے:

لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ (۱۴:۴۳)

پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے،

 بَرِقَ کی دوسری قرأت بَرَقَ بھی ہے، معنی قریب قریب ہیں

وَخَسَفَ الْقَمَرُ (۸)

اور چاند بےنور ہو جائے گا ‏

وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (۹)

اور سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں گے ۔‏

اور سورج چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بےنور کر کے لپیٹ لیا جائے گا،

جیسے فرمایا :

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ (۸۱:۱،۲)

جب سورج لپیٹ میں آ جائے گا اور جب ستارے بےنور ہو جائیں گے

حضرت ابن مسعود کی قرأت میں وَجُمِعَ بَيْنَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ہے،

يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ (۱۰)

اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ۔‏

انسان جب یہ پریشانی شدت ہول گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟

 اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا

كَلَّا لَا وَزَرَ (۱۱)

نہیں نہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ۔‏

إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ (۱۲)

آج تیرے پروردگار کی طرف ہی قرار گاہ ہے ‏

کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں،

جیسے اور جگہ ہے:

مَا لَكُمْ مِنْ مَلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَكِيرٍ (۲:۴۷)

آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بےپہچان بن جاؤ،

يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (۱۳)

آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاہ کیا جائے گا ‏

آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا، جیسے فرمان ہے:

وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (۱۸:۴۹)

جو کیا تھا، موجود پا لیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا۔

بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (۱۴)

بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے ۔‏

وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ (۱۴)

اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے ۔‏

انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے، جیسے فرمان ہے:

اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا  (۱۷:۱۴)

لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔‏

 اس کے کان آنکھ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے ،

 کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے:

 اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا؟

قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا بےکار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا۔

 اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے۔ اہل یمن پردے کو عذر کہتے ہیں،

لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں:

 جیسے اور جگہ ہے:

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ  (۶:۲۳)

پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے ‏

اور جگہ ہے:

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ ۖ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ (۵۸:۱۸)

جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں (اللہ تعالیٰ) کے سامنے بھی قسمیں کھانے لگیں گےاور سمجھیں گے کہ وہ بھی کسی (دلیل) پرہیں

 قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں ، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہو گا،

جیسے اور جگہ فرماتا ہے:

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ (۴۰:۵۲)

ظالموں کو اس دن ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی

فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ (۱۶:۲۸)

اس وقت وہ جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے

وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (۶:۲۳)

قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے

یہ تو اپنے شرک کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کر دیں گے لیکن بےسود ہو گا۔

حفظ قرآن، تلاوت و تفسیر کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ

یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (۱۶)

(اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔‏

جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے، پس

- پہلی حالت یاد کرانا،

-  دوسری تلاوت کرانا،

-  تیسری تفسیر، مضمون اور توضیح مطلب کرانا

تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی،

جیسے اور جگہ ہے:

وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (۲۰:۱۱۴)

تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کی جائے، ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (۱۷)

اسکا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے

اللہ فرماتا ہے اسے تیرے سینے میں جمع کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے

فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (۱۸)

ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ‏

ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (۱۹)

پھر اس کا واضح کر دینا ہمارا ذمہ ہے۔‏

جب ہم اسے پڑھیں یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو تو سن لے جب وہ پڑھ چکے تب تو پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہو گا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے،

 مسند میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے چنانچہ حضرت ابن عباسؓ راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے اس پر یہ آیت اتری کہ

اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے،

بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے،

بخاری شریف میں یہ بھی ہے :

پھر جب وحی اترتی آپ نظریں نیچی کر لیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ پڑھتے،

 ابن ابی حاتم میں بھی بہ روایت ابن عباسؓ یہ حدیث مروی ہے اور بہت سے مفسرین سلف صالحین نے یہی فرمایا ہے

یہ بھی مروی ہے :

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو میں بھول جاؤں اس پر یہ آیتیں اتریں،

حضرت ابن عباس اور عطیہ عوفی فرماتے ہیں اس کا بیان ہم پر ہے یعنی حلال حرام کا واضح کرنا

 حضرت قتادہ کا قول بھی یہی ہے۔

كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ  (۲۰)

نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی (دنیا) کی محبت رکھتے ہو۔‏

وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ (۲۱)

اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو ‏

پھر فرمان ہوتا ہے کہ ان کافروں کو قیامت کے انکار، اللہ کی پاک کتاب کو نہ ماننے اور اللہ کے عظیم الشان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز حب دنیا اور غفلت آخرت ہے، حالانکہ آخرت کا دن بڑی اہمیت والا دن ہے،

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (۲۲)

اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے۔‏

إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (۲۳)

اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے

اس دن بہت سے لوگ تو وہ ہوں گے جن کے چہرے ہشاش بشاش ترو تازہ خوش و خرم ہوں گے اور اپنے رب کے دیدار سے مشرف ہو رہے ہوں گے، جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے :

 عنقریب تم اپنے رب کو صاف صاف کھلم کھلا اپنے سامنے دیکھو گے،

 بہت سی صحیح احادیث سے متواتر سندوں سے جو ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں وارد کی ہیں ثابت ہو چکا ہے کہ ایمان والے اپنے رب کے دیدار سے قیامت کے دن مشرف ہوں گے ان احادیث کو نہ تو کوئی ہٹا سکے نہ ان کا کوئی انکار کر سکے۔

 صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :

 لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟

 آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند کو جبکہ آسمان صاف بے ابر ہو دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت یا رکاوٹ ہوتی ہے؟

 انہوں نے کہا نہیں

آپ نے فرمایا اسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے،

بخاری و مسلم میں ہے حضرت جریر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کو دیکھا اورفرمایا :

تم اسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے، جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی نماز (یعنی صبح کی نماز) اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز(یعنی عصر کی نماز) میں کسی طرح کی سستی نہ کرو،

 حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہی دونوں متبرک کتابوں میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 دو جنتیں سونے کی ہیں وہاں کے برتن اور ہرچیز سونے کی ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں اور ان کے برتن اور ہرچیز چاندی ہی کی ہے سوائے کبریائی کی چادروں کے اور کوئی آڑ نہیں۔

یہ جنت عدن کا ذکر ہے،

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے :

 جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کچھ چاہتے ہو کہ بڑھا دوں؟

وہ کہیں گے الٰہی تو نے ہمارے چہرے سفید نورانی کر دیئے ، ہمیں جنت میں پہنچا دیا جہنم سے بچا لیا اب ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟

 اسی وقت حجاب ہٹا دیئے جائیں گے اور ان اہل جنت کی نگاہیں جمال باری سے منور ہوں گی اس میں انہیں جو سرور و لذت حاصل ہو گی وہ کسی چیز میں نہ حاصل ہو گی سب سے زیادہ محبوب انہیں دیدار باری ہو گا

 اسی کو اس آیت میں لفظ  زِيَادَةٌ سے تعبیر کیا گیا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:

لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ (۱۰:۲۶)

جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی

یعنی احسان کرنے والوں کو جنت بھی ملے گی اور دیدار رب بھی،

صحیح مسلم کی حضرت جابر والی روایت میں ہے :

 اللہ تعالیٰ مومنوں پر قیامت کے میدان میں مسکراتا ہوا تجلی فرمائے گا،

پس معلوم ہوا کہ ایماندار قیامت کے عرصات میں اور جنتوں میں دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے،

 مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

سب سے ہلکے درجہ کا جنتی اپنے ملک اور اپنی ملکیت کو دو ہزار سال دیکھتا رہے گا دور اور نزدیک کی چیزیں یکساں نگاہ میں ہوں گی ہر طرف اور ہر جگہ اسی کی بیویاں اور خادم نظر آئیں گے

 اور اعلیٰ درجہ کے جنتی ایک ایک دن میں دو دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ چہرے کو دیکھیں گے،

ترمذی شریف میں بھی یہ حدیث ہے،

یہ حدیث بروایت حضرت ابن عمر مرفوعًا بھی مروی ہے،

 ہمیں ڈر ہے کہ اگر اس قسم کی تمام حدیثیں اور روایتیں اور ان کی سندیں اور ان کے مختلف الفاظ یہاں جمع کریں گے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا بہت ہی صحیح اور حسن حدیثیں بہت سی مسند اور سنن کی کتابوں میں مروی ہیں جن میں اکثر ہماری اس تفسیر میں متفرق مقامات پر آبھی گئی ہیں، ہاں توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے،

 اللہ کا شکر ہے کہ اس مسئلہ میں یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار مؤمنوں کو قیامت کے دن ہونے میں صحابہ تابعین اور سلف امت کا اتفاق اور اجماع ہے ائمہ اسلام اور ہداۃ انام سب اس پر متفق ہیں،

جو لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھناہے انکےپاس اس آیت کا کیا جواب ہے جہاں بدکاروں کی نسبت فرمایا گیا ہے:

كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ (۸۳:۱۵)

ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے

 یعنی فاجر قیامت کے دن اپنے پروردگار سے پردے میں کر دیئے جائیں گے،

حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ فاجروں کے دیدار الٰہی سے محروم رہنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ ابرار یعنی نیک کار لوگ دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے اور متواتر احادیث سے ثابت ہو چکا ہے اور اسی پر اس آیت کی روانگی الفاظ صاف دلالت کرتی ہے کہ ایمان دار دیدار باری سے محظوظ ہوں گے،

حضرت حسن فرماتے ہیں یہ چہرے حسن و خوبی والے ہوں گے کیونکہ دیدار رب پر ان کی نگاہیں پڑتی ہوں گی پھر بھلا یہ منور و حسین کیوں نہ ہوں

وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ (۲۴)

اور کتنے چہرے اس دن (بد رونق) اور اداس ہونگے ‏

تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ (۲۵)

سمجھتے ہونگے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا معاملہ کیا جائے گا ‏

اور بہت سے منہ اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے بدشکل ہو رہے ہوں گے بےرونق اور اداس ہوں گے، انہیں یقین ہو گا کہ ہم پر اب کوئی ہلاکت اور اللہ کی پکڑ آئی، ابھی ہمیں جہنم میں جانے کا حکم ہوا،جیسے اور جگہ ہے:

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ (۳:۱۰۶)

جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ

یعنی اس دن بعض چہرے گورے چٹے خوبصورت اور حسین ہوں گے اور بعض کالے منہ والے ہوں گے

اور جگہ ہے:

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (۸۸:۲،۴)

اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہونگے (اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے اور دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔‏

یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے خوف زدہ دہشت اور ڈر والے بد رونق اور ذلیل ہوں گے جو عمل کرتے رہے تکلیف اٹھاتے رہے لیکن آج بھڑکتی ہوئی آگ میں جا گھسے

پھر فرمایا:

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاعِمَةٌ لِسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ (۸۸:۸،۱۰)

بعض چہرے ان دن نعمتوں والے خوش و خرم چمکیلے اور شادان و فرحان بھی ہوں گے، جو اپنے گزشتہ اعمال سے خوش ہوں گے اور بلند و بالا جنتوں میں اقامت رکھتے ہوں گے،

 اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔

كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (۲۶)

نہیں نہیں جب روح ہنسلی تک پہنچے گی۔‏

جب ہماری روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے

یہاں موت کا اور سکرات کی کیفیت کا بیان ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت حق پر ثابت قدم رکھے۔

كَلَّا کو اگر یہاں ڈانٹ کے معنی میں لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ

 "اے ابن آدم تو جو میری خبروں کو جھٹلاتا ہے یہ درست نہیں بلکہ ان کے مقدمات تو تو روزمرہ کھلم کھلا دیکھ رہا ہے"

اور اگر اس لفظ کو حقا کے معنی میں لیں تو مطلب اور زیادہ ظاہر ہے

 یعنی یہ بات یقینی ہے کہ جب تیری روح تیرے جسم سے نکلنے لگے اور تیرے نرخرے تک پہنچ جائے

 تَرَاقِيَ جمع ہے ترقوۃ کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو سینے پر اور مونڈھوں کے درمیان میں ہیں جسے ہانس کی ہڈی کہتے ہیں،

جیسے اور جگہ فرمایا ہے:

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ

فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۵۶:۸۳،۸۷)

پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے‏ اور تم اس وقت آنکھوں سے دیکھتے رہو ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے۔‏

پس اگر تم کسی کے زیر فرمان نہیں‏ اور اس قول میں سچے ہو تو (ذرا) اس روح کو تو لوٹاؤ ۔‏

یعنی جبکہ روح حلق تک پہنچ جائے اور تم دیکھ رہے ہو اور ہم تم سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے پس اگر تم حکم الٰہی کے ماتحت نہیں ہو اور اپنے اس قول میں سچے ہو تو اس روح کو کیوں نہیں لوٹا لاتے؟

 اس مقام پر اس حدیث پر بھی نظر ڈال لی جائے جو بشر بن حجاج کی روایت سے سورہ یٰسین کی تفسیر میں گزر چکی ہے،

وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ (۲۷)

اور کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟‏

وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ (۲۸)

اور جان لیا اس نے کہ یہ وقت جدائی ہے

تَرَاقِيَ جان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو حلقوم کے قریب ہیں اس وقت ہائی دہائی ہوتی ہے کہ کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کرے یعنی کسی طبیب وغیرہ کے ذریعہ شفا ہو سکتی ہے؟

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے یعنی اس روح کو لے کر کون چڑھے گا رحمت کے فرشتے یا عذاب کے؟

وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (۲۹)

اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی ‏

اور پنڈلی سے پنڈلی کے رگڑا کھانے کا ایک مطلب تو حضرت ابن عباسؓ وغیرہ سے یہ مروی ہے :

 دنیا اور آخرت اس پر جمع ہو جاتی ہے دنیا کا آخری دن ہوتا ہے اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے جس سے سختی اور سخت ہو جاتی ہے مگر جس پر رب رحیم کا رحم و کرم ہو،

 دوسرا مطلب حضرت عکرمہ ؒسے یہ مروی ہے :

 ایک بہت بڑا امیر دوسرے بہت بڑے امیر سے مل جاتا ہے بلا پر بلا آجاتی ہے،

تیسرا مطلب حضرت حسن بصریؒ وغیرہ سے مروی ہے:

 خود مرنے والے کی بےقراری، شدت درد سے پاؤں پر پاؤں کا چڑھ جانا مراد ہے ۔ پہلے تو ان پیروں پر چلتا پھرتا تھا اب ان میں جان کہاں؟

 اور یہ بھی مروی ہے کہ کفن کے وقت پنڈلی سے پنڈلی کا مل جانا مراد ہے،

چوتھا مطلب حضرت ضحاکؒ سے یہ بھی مروی ہے :

 دو کام دو طرف جمع ہو جاتے ہیں ادھر تو لوگ اس کے جسم کو نہلا دھلا کر سپرد خاک کرنے کو تیار ہیں ادھر فرشتے اس کی روح لے جانے میں مشغول ہیں اگر نیک ہے تو عمدہ تیاری اور دھوم کے ساتھ اگر بد ہے تو نہایت ہی برائی اور بدتر حالت کے ساتھ

إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ (۳۰)

آج تیرے پروردگار کی طرف چلنا ہے۔‏

اب لوٹنے، قرار پانے، رہنے سہنے، پہنچ جانے کھچ کر اور چل کر پہنچنے کی جگہ اللہ ہی کی طرف ہے روح آسمان کی طرف چڑھائی جاتی ہے

پھر وہاں سے حکم ہوتا ہے کہ اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ میں نے ان سب کو اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹا کر لے جاؤں گا اور پھر اسی سے انہیں دوبارہ نکالوں گا، جیسے کہ حضرات براء کی مطول حدیث میں آیا ہے،

 یہی مضمون اور جگہ بیان ہوا ہے:

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ

أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ (۶:۶۱،۶۲)

اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اسکی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جائیں گے

خوب سن لو فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وہ بہت جلد حساب لے گا۔‏

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى (۳۱)

اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی ۔‏

پھر اس کافر انسان کا حال بیان ہو رہا ہے جو اپنے دل اور عقیدے سے حق کا جھٹلانے والا اور اپنے بدن اور عمل سے حق سے روگردانی کرنے والا تھا جس کا ظاہر باطن برباد ہو چکا تھا اور کوئی بھلائی اس میں باقی نہیں رہی تھی، نہ وہ اللہ کی باتوں کی دل سے تصدیق کرتا تھا نہ جسم سے عبادت اللہ بجا لاتا تھا یہاں تک کہ نماز کا بھی چور تھا،

وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (۳۲)

بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی ۔‏

ہاں جھٹلانے اور منہ مروڑنے میں بےباک تھا

ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى (۳۳)

پھر اپنے گھر والوں کے پاس اتراتا ہوا گیا

اور اپنے اس ناکارہ عمل پر اتراتا اور پھولتا ہوا بےہمتی اور بدعملی کے ساتھ اپنے والوں میں جا ملتا تھا،

جیسے اور جگہ ہے:

وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ (۸۳:۳۱)

اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے

یعنی جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں تو خوب باتیں بناتے ہوئے مزے کرتے ہوئے خوش خوش جاتے ہیں

 اور جگہ ہے:

إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ بَلَى إِنَّ رَبَّهُ كَانَ بِهِ بَصِيرًا  (۸۴:۱۳،۱۵)

یہ شخص اپنے متعلقین میں (دنیا میں) خوش تھا اس کا خیال تھا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر ہی نہ جائے گا۔‏ کیوں نہیں حالانکہ اس کا رب اسے بخوبی دیکھ رہا تھا

یعنی یہ اپنے گھرانے والوں میں شادمان تھا اور سمجھ رہا تھا کہ اللہ کی طرف اسے لوٹنا ہی نہیں۔ اس کا یہ خیال محض غلط تھا اس کے رب کی نگاہیں اس پر تھیں،

پھر اسے اللہ تبارک و تعالیٰ دھمکاتا ہے اور ڈر سناتا ہے اور فرماتا ہے

أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى (۳۴)

افسوس ہے تجھ پر حسرت ہے تجھ پر۔‏

ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى (۳۵)

وائے ہے اور خرابی ہے تیرے لئے ‏

خرابی ہو تجھے اللہ کے ساتھ کفر کر کے پھر اتراتا ہے۔ جیسے اور جگہ ہے :

ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ(۴۴:۴۹)

(اس سے کہا جائے گا) چکھتا جا تو تو بڑا ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا

یعنی قیامت کے دن کافر سے بطور ڈانٹ اور حقارت کے کہا جائے گا کہ لے اب مزہ چکھ تو تو بڑی عزت اور بزرگی والا تھا

اور فرمان ہے :

كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُمْ مُجْرِمُونَ (۷۷:۴۶)

کچھ کھا پی لو آخر تو بدکار گنہگار ہو

 اور جگہ ہے:

فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ (۳۹:۱۵)

جاؤ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو

غرض یہ ہے کہ ان تمام جگہوں میں یہ احکام بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہیں۔

حضرت سعید بن جبیر سے جب یہ آیت أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى، کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ابوجہل کو فرمایا تھا پھر قرآن میں بھی یہی الفاظ نازل ہوئے،

 حضرت ابن عباس سے بھی اسی کے قریب قریب نسائی میں موجود ہے،

 ابن ابی حاتم میں حضرت قتادہ کی روایت ہے :

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اس دشمن رب نے کہا کہ کیا تو مجھے دھمکاتا ہے؟ اللہ کی قسم تو اور تیرا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے والوں میں سب سے زیادہ ذی عزت میں ہوں۔

أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى (۳۶)

انسان یہ سمجھتا ہے کے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا ‏

کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟

 اسے کوئی حکم اور کسی چیز کی ممانعت نہ کی جائے گی؟

 ایسا ہرگز نہیں بلکہ دنیا میں اسے حکم و ممانعت اور آخرت میں اپنے اپنے اعمال کے بموجب جزاء و سزا ضرور ملے گی،

مقصود یہاں پر قیامت کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد ہے، اسی لئے دلیل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ

أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى (۳۷)

کیا وہ ایک گاڑھے پانی کا قطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟‏

ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى (۳۸)

پھر لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنا دیا ‏

انسان دراصل نطفہ کی شکل میں بےجان و بےبنیاد تھا پانی کا ذلیل قطرہ تھا جو پیٹھ سے رحم میں آیا پھر خون کی پھٹکی بنی ، پھر گوشت کا لوتھڑا ہوا،

فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى (۳۹)

پھر اس سے جوڑے یعنی نر مادہ بنائے۔‏

پھر اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت دے کر روح پھونکی اور سالم اعضاء والا انسان بنا کر مرد یا عورت کی صورت میں پیدا کیا۔

أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى (۴۰)

کیا (اللہ تعالیٰ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زندہ کر دے ‏

کیا اللہ جس نے نطفہ ضعیف کو ایسا صحیح القامت قوی انسان بنا دیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اسے فنا کر کے پھر دوبارہ پیدا کر دے؟

 یقیناً پہلی مرتبہ کا پیدا کرنے والا دوبارہ بنانے پر بہت زیادہ اور بطور اولیٰ قادر ہے، یا کم از کم اتنا ہی جتنا پہلی مرتبہ تھا۔ جیسے فرمایا:

وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ  (۳۰:۲۷)

اس نے ابتدا پیدا کیا وہی پھر لوٹائے گا اور وہ اس پر بہت زیادہ آسان ہے۔

اس آیت کے مطلب میں بھی دو قول ہیں، لیکن پہلا قول ہی زیادہ مشہور ہے جیسے کہ سورہ روم کی تفسیر میں اس کا بیان اور تقریر گزر چکی واللہ اعلم،

ابن ابی حاتم میں ہے :

 ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی چھت پر بہ آواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس سورت کی آخری آیت کی تلاوت کی تو فرمایا:

سبحانک اللھم قبلی اے اللہ تو پاک ہے اور بیشک قادر ہے،

 لوگوں نے اس کہنے کا باعث پوچھا تو فرمایا

 لوگوں نے اس کہنے کا باعث پوچھا تو فرمایا

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا یہی جواب دیتے ہوئے سنا ہے

 ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے، لیکن دونوں کتابوں میں اس صحابی کا نام نہیں گو یہ نام نہ ہونا مضر نہیں،

ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جو شخص تم میں سے سورہ والتین کی آخری آیت أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ پڑھے وہ بلا وانا علی ذالک من الشاھدین کہے یعنی ہاں اور میں بھی اس پر گواہ ہوں

 اور جو شخص سورہ قیامت کی آخری آیت أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى پڑھے تو وہ کہے بلیٰ

 اور جو سورہ والمرسلات کی آخری آیت فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ پڑھے وہ امنا باللہ کہے

امنا باللہ

یہ حدیث مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے،

 ابن جریر میں حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری آیت کے بعد فرماتے سبحانک وبلیٰ

حضرت ابن عباس سے اس آیت کے جواب میں یہ کہنا ابن ابی حاتم میں مروی ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter