Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Mudaththir

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (۱)

اے کپڑا اوڑھنے والے ‏

ابتدائے وحی

حضرت جابر ؓسے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔

 یحییٰ بن ابوکثیر فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کونسی آیتیں نازل ہوئیں؟

 تو فرمایا آیت  يَا أَيُّهَا يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ

میں نے کہا لوگ تو آیت اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ بتاتے ہیں

 فرمایا میں نے حضرت جابرؓ سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا

 اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں حضرت جابرؓ نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 میں غار حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا ۔ میں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اوريَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُکی آیتیں اتریں (بخاری)

صحیح بخاری مسلم میں ہے :

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورہ مدثر کی وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ تک کی آیتیں اتریں،

 ابو سلمہ فرماتے ہیں الرُّجْزَ سے مراد بت ہیں۔

پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی،

یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام جبکہ غار میں سورہ اقراء کی آیتیں عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ تک پڑھا گئے تھے،

پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورہ مدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی اس سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں

اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں،

طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے :

 ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا بتاؤ تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو؟

 تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے، بعض نے کہا شاعر ہے بعض نے کہا شاعر نہیں ہے،بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چنانچہ اس پر اجماع ہو گیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ تک اتریں۔

قُمْ فَأَنْذِرْ (۲)

کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے ۔‏

پھر فرمایا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہو جاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے، جہنم سے، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈرا ۔ ان کو آگاہ کر دو ان سے غفلت کو دور کر دو، پہلی وحی سے نبوۃ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ رسول بنائے گئے

وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (۳)

اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔‏

وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (۴)

اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر ‏

اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت ، بدعہدی، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے :

بحمد للہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں،

عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو، اعمال کی اصلاح کر لو،

یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ دراصل آپ نہ تو کاہن ہیں نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ پرواہ بھی نہ کریں،

عربی محاورے میں جو معصیت آلود، بد عہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت مآب، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں، شاعر کہتا ہے۔

اذا المر الم یدنس من اللوم      عرضہ فکل ردا یرتدیہ جمیل

انسان جبکہ سیاہ کاریوں سے الگ ہے  تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے

اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپڑوں کو معصیت آلود نہ کرو۔ کپڑے پاک صاف رکھو، میلوں کو دھو ڈالا کرو، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو۔

دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی ۔ ساتھ ہی دل بھی پاک ہو

 دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امراء القیس کے شعر میں ہے

 اور حضرت سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو،

محمد بن کعب قرظی اور حسن سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو۔

وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (۵)

ناپاکی کو چھوڑ دے ‏

گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو،

جیسے اور جگہ فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ (۳۳:۱)

اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو،

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام سے فرمایا تھا اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو۔

وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (۶)

اور احسان کرکے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر ‏

اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو،

یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلب خیر میں غفلت نہ برتو

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو،

یہ چار قول ہوئے، لیکن اول اولیٰ ہے ۔واللہ اعلم  

وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (۷)

اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر۔‏

پھر فرماتا ہے ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضامندی کی خاطر صبر و ضبط کر، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ۔

فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ (۸)

پس جبکہ صور میں پھونک ماری جائے گی۔‏

النَّاقُورِ سے مراد صور ہے،

 مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 میں کیسے راحت سے رہوں؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے،

اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے؟

 فرمایا کہو حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا

پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے

فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ (۹)

وہ دن بڑا سخت دن ہوگا۔‏

عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ (۱۰)

جو کافروں پر آسان نہ ہوگا۔ ‏

کہ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہو گا جو کسی طرح آسان نہ ہو گا، جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے :

يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَذَا يَوْمٌ عَسِرٌ (۵۴:۸)

یہ آج کا دن تو بیحد گراں بار اور سخت مشکل کا دن ہے،

حضرت زرارہ بن اوفی رحمتہ اللہ علیہ جو بصرے کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گر پڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہو چکی تھی،

 اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔

جہنم کی ایک وادی، صعود اور ولید بن مغیرہ

 جس خبیث شخص نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا اور قرآن کو انسانی قول کہا اس کی سزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے،

ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا (۱۱)

مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے

پہلے جو نعمتیں اس پر انعام ہوئی ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ تن تنہا خالی ہاتھ دنیا میں آیا تھا

وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَمْدُودًا (۱۲)

اور اسے بہت سا مال دے رکھا تھا۔‏

مال اولاد دیا اور کچھ اس کے پاس نہ تھا پھر اللہ نے اسے مالدار بنا دیا، ہزاروں لاکھوں دینار زر زمین وغیرہ عنایت فرمائی

وَبَنِينَ شُهُودًا (۱۳)

اور حاضر باش فرزند بھی ‏

اور باعتبار بعض اقوال کے تیرہ اور بعض اور اقوال کے دس لڑکے دیئے جو سب کے سب اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے نوکر چاکر لونڈی غلام کام کاج کرتے رہتے اور یہ مزے سے اپنی زندگی اپنی اولاد کے ساتھ گزارتا،

وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيدًا (۱۴)

اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے ‏

غرض دھن دولت لونڈی غلام بال بچے آرام آسائش ہر طرح کی مہیا تھی،

ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ (۱۵)

پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔

پھر بھی خواہش نفس پوری نہیں ہوتی تھی اور چاہتا تھا کہ اللہ اور بڑھا دے،

كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا (۱۶)

نہیں نہیں وہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے۔‏

حالانکہ ایسا اب نہ ہو گا، یہ ہمارے احکامات کے علم کے بعد بھی کفر اور سرکشی کرتا ہے

سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا (۱۷)

عنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا ‏

اسے صَعُود پر چڑھایا جائے گا،

مسند احمد کی حدیث میں ہے :

ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر گرایا جائے گا چالیس سال تک اندر ہی اندر جاتا رہے گا لیکن پھر بھی تہہ تک نہ پہنچے گا

 اور صَعُود جہنم کے ایک ناری پہاڑ کا نام ہے جس پر کافر کو چڑھایا جائے گا ستر سال تک تو چڑھتا ہی رہے گا پھر وہاں سے نیچے گرا دیا جائے گا ستر سال تک نیچے لڑھکتا رہے گا اور اسی ابدی سزا میں گرفتار رہے گا،

یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب کہتے ہیں، ساتھ ہی یہ حدیث منکر ہے،

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 صَعُود جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو آگ کا ہے اسے مجبور کیا جائے گا اس پر چڑھے ہاتھ رکھتے ہی رکھتے ہی راکھ ہو جائے گا اور اٹھاتے ہی بدستور ویسا ہی ہو جائے گا اسی طرح پاؤں بھی،

 حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں جہنم کی ایک چٹان کا نام ہے جس پر کافر اپنے منہ کے بل گھسیٹتا جائے گا،

 سدیؒ کہتے ہیں یہ پتھر بڑا پھسلنا ہے،

مجاہد ؒکہتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم اسے مشقت والا عذاب دیں گے،

 قتادہ ؒفرماتے ہیں ایسا عذاب جس میں اور جس سے کبھی بھی راحت نہ ہو،

 امام جریرؒ اسی کو پسند فرماتے ہیں۔

إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ (۱۸)

اس نے غور کرکے تجویز کی ‏

فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (۱۹)

اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز) سوچی؟‏

پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اس تکلیف دہ عذاب سے اس لئے قریب کر دیا کہ وہ ایمان سے بہت دور تھا وہ سوچ سوچ کر خود ساختہ دنیا میں رہتا تھا کہ وہ قرآن کی مانند کہے اور بات بنائے

ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (۲۰)

وہ پھر غارت ہو کس طرح اندازہ کیا ۔‏

پھر اس پر افسوس کیا جاتا ہے اور محاورہ عرب کے مطابق اس کی ہلاکت کے کلمے کہے جاتے ہیں کہ یہ غارت کر دیا جائے

ثُمَّ نَظَرَ (۲۱)

اس نے پھر دیکھا

ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ (۲۲)

پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا ‏

ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ (۲۳)

پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا ‏

کتنا بد کلام، بری سوچ، کتنی بےحیائی سے جھوٹ بات گھڑ لی، اور بار بار غور و فکر کے بعد پیشانی پر بل ڈال کر، منہ بگاڑ کر، حق سے ہٹ کر بھلائی سے منہ موڑ کر اطاعت اللہ سے منہ پھیر کر، دل کڑا کر کے کہہ دیا کہ

فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ (۲۴)

اور کہنے لگا یہ تو صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے ‏

إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (۲۵)

سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں۔‏

یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے لوگوں کا جادو کا منتر نقل کر لیا کرتے ہیں اور اسی کو سنا رہے ہیں یہ کلام اللہ کا نہیں بلکہ انسانی قول ہے اور جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے،

 اس ملعون کا نام ولید بن مغیرہ مخزومی تھا، قریش کا سردار تھا،

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واقعہ یہ ہے :

 ایک مرتبہ یہ ولید پلید حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ کچھ قرآن سنائیں حضرت صدیق اکبرؓ نے چند آیتیں پڑھ سنائیں جو اس کے دل میں گھر کر گئیں جب یہاں سے نکلا اور کفار قریش کے مجمع میں پہنچا تو کہنے لگا

 لوگو! تعجب کی بات ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم نہ تو وہ شعر ہے نہ جادو کا منتر ہے نہ مجنونانہ بڑ ہے بلکہ واللہ وہ تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں،

قریشیوں نے یہ سن کر سر پکڑ لیا اور کہنے لگے اگر یہ مسلمان ہو گیا تو بس پھر قریش میں سے ایک بھی بغیر اسلام لائے باقی نہ رہے گا،

 ابوجہل کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا گھبراؤ نہیں دیکھو میں ایک ترکیب سے اسے اسلام سے پھیر دوں گا یہ کہتے ہی اپنے ذہن میں ایک ترکیب سوچ کر یہ ولید کے گھر پہنچا اور کہنے لگا آپ کی قوم نے آپ کے لئے چندہ کر کے بہت سا مال جمع کر لیا ہے اور وہ آپ کو صدقہ میں دینے والے ہیں،

اس نے کہا واہ کیا مزے کی بات ہے مجھے ان کے چندوں اور صدقوں کی کیا ضرورت ہے دنیا جانتی ہے کہ ان سب میں مجھ سے زیادہ مال و اولاد والا کوئی نہیں

ابوجہل نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگوں میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ جو ابوبکر کے پاس آتے جاتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان سے کچھ حاصل وصول ہو،

ولید کہنے لگا اوہو میرے خاندان میں میری نسبت یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مجھے مطلق معلوم نہ تھا اچھا اب قسم اللہ کی نہ میں ابوبکر کے پاس جاؤں نہ عمر کے پاس نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یعنی  ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا (۱۱)۔۔۔  لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ(۲۸)

حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے کہا تھا:

 قرآن کے بارے میں بہت کچھ غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ شعر تو نہیں اس میں حلاوت ہے، اس میں چمک ہے، یہ غالب ہے مغلوب نہیں لیکن ہے یقیناً جادو ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔

ابن جریر میں ہے :

 ولید حضور علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور قرآن سن کر اس کا دل نرم پڑ گیا تھا اور پورا اثر ہو چکا تھا جب ابوجہل کو یہ معلوم ہوا تو دوڑا بھاگا آیا اور اس ڈر سے کہ کہیں یہ کھلم کھلا مسلمان نہ ہو جائے اس بھڑکانے کے لئے جھوٹ موٹ کہنے لگا کہ چچا آپ کی قوم آپ کے لئے مال جمع کرنا چاہتی ہے

 پوچھا کیوں؟

 کہا اس لئے کہ آپ کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کا جانا چھڑوائیں کیونکہ آپ وہاں مال حاصل کرنے کی غرض سے ہی جاتے آتے ہیں

اس نے غصہ میں آ کر کہا میری قوم کو معلوم نہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں؟

 ابوجہل نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت تو لوگوں کا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مال حاصل کرنے کی غرض سے آپ اسی کے ہوگئے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے دلوں سے اٹھ جائے تو آپ اس کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہیں تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ آپ اس کے مخالف ہیں اور آپ کو اس سے کوئی طمع نہیں،

اس نے کہا بھئی بات تو یہ ہے کہ اس نے جو قرآن مجھے سنایا ہے قسم ہے اللہ کی نہ وہ شعر ہے نہ قصیدہ ہے اور نہ رجز ہے، نہ جنات کا قول اور نہ ان کے اشعار ہیں۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ جنات اور انسان کا کلام مجھے خوب یاد ہے میں خود نامی شاعر ہوں کلام کے حسن و قبح سے خوب واقف ہوں لیکن اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام اس میں سے کچھ بھی نہیں اللہ جانتا ہے اس میں عجب حلاوت مٹھاس لذت شیفتگی اور دلیری ہے وہ تمام کلاموں کا سردار ہے اس کے سامنے اور کوئی کلام جچتا نہیں وہ سب پر چھا جاتا ہے اس میں کشش بلندی اور جذب ہے

 اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس کلام کی نسبت کیا کہوں؟

 ابوجہل نے کہا سنو جب تک تم اسے برائی کے ساتھ یاد نہ کرو گے تمہاری قوم کے خیالات تمہاری نسبت صاف نہیں ہوں گے،

 اس نے کہا اچھا تو مجھے مہلت دو میں سوچ کر اس کی نسبت کوئی ایسا کلمہ کہدوں گا چنانچہ سوچ سوچ کر قومی حمیت اور ناک رکھنے کی خاطر اس نے کہدیا کہ یہ تو جادو ہے جسے وہ نقل کرتا ہے

 اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یعنی  ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا (۱۱)۔۔۔  لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ(۲۸)

سدی کہتے ہیں:

 دارالندوہ میں بیٹھ کر ان سب لوگوں نے مشورہ کیا کہ موسم حج پر چاروں طرف سے لوگ آئیں گے تو بتاؤ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کہیں؟

 کوئی ایسی تجویز کرو کہ سب بہ یک زبان وہی بات کہیں تاکہ عرب بھر میں اور پھر ہر جگہ بھی وہی مشہور ہو جائے

 تو اب کسی نے شاعر کہا کسی نے جادوگر کہا کسی نے کاہن اور نجومی کہا کسی نے مجنون اور دیوانہ کہا

 ولید بیٹھا سوچتا رہا اور غور و فکر کر کے دیکھ بھال کر تیوری چڑھا اور منہ بنا کر کہنے لگا جادوگروں کا قول ہے جسے یہ نقل کر رہا ہے،

سَأُصْلِيهِ سَقَرَ (۲۶)

میں عنقریب اس دوزخ میں ڈالوں گا۔‏

اب اس کی سزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں انہیں جہنم کی آگ میں غرق کر دونگا

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ (۲۷)

اور تجھے کیا خبر کہ دوزخ کیا چیز ہے ۔‏

لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ (۲۸)

نہ وہ باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے ‏

جو زبردست خوفناک عذاب کی آگ ہے جو گوشت پوست کو رگ پٹھوں کو کھا جاتی ہے پھر یہ سب تازہ پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر زندہ کئے جاتے ہیں نہ موت آئے نہ راحت والی زندگی لے،

لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ (۲۹)

کھال کو جھلسا دیتی ہے۔‏

کھال ادھیڑ دینے والی وہ آگ ہے ایک ہی لپک میں جسم کو رات سے زیادہ سیاہ کر دیتی وہ جسم و جلد کو بھون بھلس دیتی ہے،

عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (۳۰)

اور اس میں انیس (فرشتے مقرر) ہیں ۔‏

انیس انیس داروغے اس پر مقرر ہیں جو نہ تھکیں نہ رحم کریں ،

حضرت برار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 چند یہودیوں نے صحابہ سے پوچھا کہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کیا ہے؟

 انہوں نےکہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کارسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔

پھرکسی شخص نےآ کرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا اسی وقت آیت عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ نازل ہوئی آپ نے صحابہ کو سنا دی

 اور کہا ذرا انہیں میرے پاس تو لاؤ میں بھی ان سے پوچھوں کہ جنت کی مٹی کیا ہے؟ سنو وہ سفید میدہ کی طرح ہے،

 پھر یہودی آپ کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کتنی ہے

آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو دفعہ جھکائیں دوسری دفعہ میں انگوٹھا روک لیا یعنی انیس ۔

پھر فرمایا تم بتلاؤ کے جنت کی مٹی کیا ہے؟

 انہوں نے ابن سلام سے کہا آپ ہی کہئے

ابن سلام نے کہا گویا وہ سفید روٹی ہے

 آپ نے فرمایا یاد رکھو یہ سفید روٹی وہ جو خالص میدے کی ہو (ابن ابی حاتم)

مسند بزار میں ہے :

 جس شخص نے حضور ﷺکو صحابہ کے لاجواب ہونے کی خبر دی تھی اس نے آ کر کہا تھا کہا آج تو آپ کے اصحاب ہار گئے

پوچھا کیسے؟

 اس نے کہا ان سے جواب نہ بن پڑا اور کہنا پڑا کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں

آپ ﷺنے فرمایا بھلا وہ ہارے ہوئے کیسے کہے جا سکتے ہیں؟ جن سے جو بات پوچھی جاتی ہے اگر وہ نہیں جاتے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ کر جواب دیں گے۔

 ان یہودیوں کو دشمنان الٰہی کو ذرا میرے پاس تو لاؤ ہاں انہوں نے اپنے نبی سے اللہ کو دیکھنے کا سوال کیا تھا اور ان پر عذاب بھیجا گیا تھا۔

اب یہود بلوائے گئے جواب دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پر یہ بڑے چکرائے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ

ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عذاب دینے پر اور جہنم کی نگہبانی پر ہم نے فرشتے ہی مقرر کئے ہیں جو سخت بےرحم اور سخت کلامی کرنے والے ہیں

 اس میں مشرکین قریش کی تردید ہے

 انہیں جس وقت جہنم کے داروغوں کی گنتی بتلائی گئی تو ابوجہل نے کہا اے قریشیوں یہ اگر انیس ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سو نوے ہم مل کر انہی ہرا دیں گے اس پر کہا جاتا ہے کہ وہ فرشتے ہیں انسان نہیں انہیں نہ تم ہرا سکو نہ تھکا سکو،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابوالاشدین جس کا نام کلدہ بن اسید بن خلف تھا اس نے اس گنتی کو سن کر کہا کہ قریشیو تم سب مل کر ان میں سے دو کو روک لینا باقی سترہ کو میں کافی ہوں،

یہ بڑا مغرور شخص تھا اور ساتھ ہی بڑا قوی تھا یہ گائے کے چمڑے پر کھڑا ہو جاتا پھر دس طاقتور شخص مل کر اسے اس کے پیروں تلے سے نکالنا چاہتے کھال کے ٹکڑے اڑ جاتے لیکن اس کے قدم جنبش بھی نہ کھاتے،

 یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا تھا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں اگر آپ نے مجھے گرا دیا تو میں آپ کی نبوت کو مان لوں گا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کشتی کی اور کئی بار گرایا لیکن اسے ایمان لانا نصیب نہ ہوا،

امام ابن اسحاق نے کشتی والا واقعہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب کا بتایا ہے،

میں کہتا ہوں ان دونوں میں کچھ تفاوت نہیں (ممکن ہے اس سے اور اس سے دونوں سے کشتی ہوئی ہو)۔ واللہ اعلم

وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا

اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے

لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ

تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں اور اہل کتاب اور مسلمان شک نہ کریں

پھر فرمایا کہ اس گنتی کا ذکر تھا ہی امتحان کے لئے ،

- ایک طرف کافروں کا کفر کھل گیا،

-  دوسری جانب اہل کتاب کا یقین کامل ہو گیا، کہ اس رسول کی رسالت حق ہے کیونکہ خود ان کی کتاب میں بھی یہی گنتی ہے،

- تیسری طرف ایماندار اپنے ایمان میں مزید توانا ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کی اور ایمان بڑھایا، اہل کتاب اور مسلمانوں کو کوئی شک شبہ نہ رہا

وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا ۚ

اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟

بیمار دل اور منافق چیخ اٹھے کہ بھلا بتاؤ کہ اسے یہاں ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟

كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ

اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی ہی باتیں بہت سے لوگوں کے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے شبہ والے دل اور ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں

وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ

تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا

اللہ کے یہ سب کام حکمت سے اور اسرار سے ہیں، تیرے رب کے لشکروں کی گنتی اور ان کی صحیح تعداد اور ان کی کثرت کا کسی کو علم نہیں وہی خوب جانتا ہے یہ نہ سمجھ لینا کہ بس انیس ہی ہیں،

جیسے یونانی فلسفیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے سمجھ لیا کہ اس سے مراد عقول عشرہ اور نفوس تسعہ ہیں حالانکہ یہ مجرد ان کا دعویٰ ہے جس پر دلیل قائم کرنے سے وہ بالکل عاجز ہیں افسوس کہ آیت کے اول پر تو ان کی نظریں ہیں لیکن آخری حصہ کے ساتھ وہ کفر کر رہے ہیں جہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر صرف انیس کے کیا معنی؟

بخاری و مسلم کی معراج والی حدیث میں ثابت ہو چکا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کا صوف بیان کرتے ہوئے فرمایا :

 وہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے روز دوسرے ستر ہزار فرشتے اسی طرح ہمیشہ تک لیکن فرشتوں کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی،

مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہے ہیں اور انہیں چرچرانے کا حق ہے۔ ایک انگلی ٹکانے کی جگہ ایسی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو۔ اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تم بہت کم ہنستے، بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت نہ پاسکتے بلکہ فریاد و زاری کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے۔

 اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے بےساختہ یہ نکل جاتا کاش کہ میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا،

یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور حضرت ابوذر سے موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے،

طبرانی میں ہے:

 ساتوں آسمانوں میں قدم رکھنے کی بالشت بھر یا ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام کی یا رکوع کی یا سجدے کی حالت میں نہ ہو پھر بھی یہ سب کل قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہئے تھی اس قدر ہم سے ادا نہیں ہو سکتی، البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا،

 امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب الصلوٰۃ میں ہے :

 حضور علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ سے سوال کیا کہ کیا جو میں سن رہا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟

 انہوں نے جواب میں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دیتا، آپ نے فرمایا :

آسمانوں کا چرچر بولنا میں سن رہا ہوں اور وہ اس چرچراہٹ پر ملامت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر اس قدر فرشتے ہیں کہ ایک بالشت بھر جگہ خالی نہیں کہیں کوئی رکوع میں ہے اور کہیں کوئی سجدے میں،

 دوسری روایت میں ہے:

 آسمان دنیا میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں سجدے میں یا قیام میں کوئی فرشتہ نہ ہو،

اسی لئے فرشتوں کا یہ قول قرآن کریم میں موجود ہے۔

وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ (۳۷:۱۶۴،۱۶۶)

ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے اور ہم تو (بندگی الٰہی میں) صف بستہ کھڑے ہیں اور اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں

اس حدیث کا مرفوع ہونا بہت ہی غریب ہے،

دوسری روایت میں یہ قول حضرت ابن مسعودؓ کا بیان کیا گیا ہے،

 ایک اور سند سے یہ روایت حضرت ابن علاء بن سعد سے بھی مرفوعاً مروی ہے یہ صحابی فتح مکہ میں اور اس کے بعد کے جہادوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لیکن سنداً یہ بھی غریب ہے

وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ (۳۱)

یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پندونصیحت ہے۔‏

پھر فرماتا ہے یہ آگ جس کا وصف تم سن چکے یہ لوگوں کے لئے سراسر باعث عبرت و نصیحت ہے۔

كَلَّا وَالْقَمَرِ (۳۲)

قسم ہے چاند کی‏

وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ (۳۳)

اور رات جب وہ پیچھے ہٹے۔‏

وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ (۳۴)

اور صبح کی جب وہ روشن ہو جائے،‏

پھر چاند کی رات کے جانے کی صبح کے روشن ہونے کی قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ

إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ (۳۵)

کہ (یقیناً وہ جہنم) بڑی چیزوں میں سے ایک ہے

وہ آگ ایک زبردست اور بہت بڑی چیز ہے،

نَذِيرًا لِلْبَشَرِ (۳۶)

بنی آدم کو ڈرانے والی۔‏

لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ (۳۷)

(یعنی) اسے جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہئے۔‏

جو اس ڈراوے کو قبول کر کے حق کی راہ لگنا چاہے لگ جائے۔ جو چاہے اس کے باوجود حق کو پیٹھ ہی دکھاتا رہے، اس سے دور بھاگتا رہے، یا اسے رد کرتا رہے۔

كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ (۳۸)

ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے

إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ (۳۹)

مگر دائیں ہاتھ والے

فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ (۴۰)

اہل جنت بالاخانوں میں بیٹھے وہ سوال کرتے ہونگے گے۔‏

عَنِ الْمُجْرِمِينَ (۴۱)

جہنمیوں سے‏

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ (۴۲)

تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔‏

جنتیوں اور دوزخیوں میں گفتگو

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال میں قیامت کے دن جکڑا بندھا ہو گا لیکن جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ آیا وہ جنت کے بالا خانوں میں چین سے بیٹھ ہوئے جہنمیوں کو بدترین عذابوں میں دیکھ کر ان سے پوچھیں گے کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے؟ وہ جواب دیں گے کہ

قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (۴۳)

وہ جواب دیں گے ہم نمازی نہ تھے۔‏

وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ (۴۴)

نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔

ہم نے نہ تو رب کی عبادت کی نہ مخلوق کے ساتھ احسان کیا

وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ (۴۵)

اور ہم بحث کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے ‏

وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ (۴۶)

اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔‏

حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (۴۷)

یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔‏

بغیر علم کے جو زبان پر آیا بکتے رہے جہاں کسی کو اعتراض کرتے سنا ہم بھی ساتھ ہوگئے اور باتیں بنانے لگ گئے اور قیامت کے دن کی تکذیب ہی کرتے رہے یہاں تک کہ موت آ گئی،

يَقِين کے معنی موت کے اس آیت میں بھی ہیں :

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (۱۵:۹۹)

اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے ۔‏

 اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی نسبت حدیث میں بھی يَقِين کا لفظ آیا ہے،

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ (۴۸)

پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی ‏

اب اللہ مالک الملک فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی کی سفارش اور شفاعت نفع نہ دے گی اس لئے کہ شفاعت وہاں نافع ہو جاتی ہے جہاں محل شفاعت ہو لیکن جن کا دم ہی کفر پر نکلا ہو ان کے لئے شفاعت کہاں؟

وہ ہمیشہ کے لئے (ہاویہ) میں گئے۔

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ (۴۹)

انہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔‏

كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ (۵۰)

گویا کہ وہ بہکے ہوئے گدھے ہیں۔‏

فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ (۵۱)

جو شیر سے بھاگے ہوں۔

پھر فرمایا کیا بات ہے کہ کونسی وجہ ہے کہ یہ کافر تیری نصیحت اور دعوت سے منہ پھیر رہے ہیں اور قرآن و حدیث سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھے شکاری شیر سے،

فارسی زبان میں جسے شیر کہتے ہیں اسے عربی میں اسد کہتے ہیں اور حبشی زبان میں قسورہ کہتے ہیں اور نبطی زبان میں رویا۔

بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَى صُحُفًا مُنَشَّرَةً (۵۲)

بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں ‏

كَلَّا ۖ

ہرگز ایسا نہیں (ہو سکتا)

پھر فرماتا ہے یہ مشرکین تو چاہتے ہیں کہ ان میں کے ہر شخص پر علیحدہ علیحدہ کتاب اترے جیسے اور جگہ ان کا مقولہ ہے آیت

وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ  (۶:۱۲۳)

جب انکے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ وہ نہ دیئے جائیں جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے

اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ رسالت کے قابل کون ہے؟

 اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم بغیر عمل کے چھٹکارا دیئے جائیں،

بَلْ لَا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ (۵۳)

بلکہ یہ قیامت سے بےخوف ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دراصل وجہ یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں کیونکہ انہیں اس کا یقین نہیں اس پر ایمان نہیں بلکہ اسے جھٹلاتے ہیں تو پھر ڈرتے کیوں؟

كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ (۵۴)

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے

فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ (۵۵)

اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔‏

پھر فرمایا سچی بات تو یہ ہے کہ یہ قرآن محض نصیحت و موعظت ہے جو چاہے عبرت حاصل کر لے اور نصیحت پکڑ لے،

وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ

اور وہ اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے

تمہاری چاہتیں اللہ کی چاہت کی تابع ہیں۔جیسے فرمان ہے :

وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ (۷۶:۳۰)

اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے

هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ (۵۶)

وہ اسی لائق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس لائق بھی کہ وہ بخشے۔‏

پھر فرمایا اسی کی ذات اس قابل ہے کہ اس سے خوف کھایا جائے اور وہی ایسا ہے کہ ہر رجوع کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے،

مسند احمد میں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا :

تمہارا رب فرماتا ہے میں اس کا حقدار ہوں کہ مجھے سے ڈرا جائے اور میرے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہرایا جائے جو میرے ساتھ شریک بنانے سے بچ گیا تو وہ میری بخشش کا مستحق ہو گیا،

ابن ماجہ اور نسائی اور ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے

اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں، سہیل اس کا راوی قوی نہیں

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter