Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Abasa

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


تبلیغ دین میں فقیر و غنی سب برابر

بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دنیا اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑ گئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں

عَبَسَ وَتَوَلَّى  (۱)

وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔‏

أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى (۲)

(صرفٖ اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا ‏

وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى (۳)

تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا

أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى (۴)

یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی۔‏

کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں ،

 بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہو جائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہو جائے،

أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى (۵)

جو بےپروائی کرتا ہے

فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى (۶)

اس کی طرف تو پوری توجہ کرتا۔‏

وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى (۷)

حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں۔‏

وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى (۸)

جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے

وَهُوَ يَخْشَى (۹)

اور وہ ڈر (بھی) رہا ہے ‏

فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى (۱۰)

تو اس سے بےرخی برتتا ہے ‏

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ان کو راہ راست پر لا کھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے؟ وہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ مانیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں،

یہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بےپرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں؟

مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام ، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے،

 حضرت ابن ام مکتوم ؓکے آنے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے (مسند ابو یعلی)

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم ؓکو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے،

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :

 بلال رات رہتے ہوئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں آیت عَبَسَ وَتَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى اتری تھی،

یہ بھی مؤ ذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے (ابن ابی حاتم)

 ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبداللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے، واللہ اعلم

كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (۱۱)

یہ ٹھیک نہیں قرآن تو نصیحت کی چیز ہے۔‏

إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ یعنی یہ نصیحت ہے اس سے مراد یا تو یہ سورت ہے یا یہ مساوات کہ تبلیغ دین میں سب یکساں ہیں مراد ہے،

فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ (۱۲)

جو چاہے اس سے نصیحت لے ‏

سدی کہتے ہیں مراد اس سے قرآن ہے، جو شخص چاہے اسے یاد کر لے یعنی اللہ کو یاد کرے اور اپنے تمام کاموں میں اس کے فرمان کو مقدم رکھے، یا یہ مطلب ہے کہ وحی الٰہی کو یاد کر لے،

فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ (۱۳)

(یہ تو) پر عظمت آسمانی کتب میں سے (ہے)

مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ (۱۴)

جو بلند بالا اور پاک صاف ہے۔‏

بِأَيْدِي سَفَرَةٍ (۱۵)

ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے ‏

كِرَامٍ بَرَرَةٍ (۱۶)

جو بزرگ اور پاکباز ہیں ‏

یہ سورت اور یہ وعظ و نصیحت بلکہ سارے کا سارا قرآن مؤ قر معزز اور معتبر صحیفوں میں ہے جو بلند قدر اور اعلیٰ مرتبہ والے ہیں جو میل کچیل اور کمی زیادتی سے محفوظ اور پاک صاف ہیں، جو فرشتوں کے پاس ہاتھوں میں ہیں

 اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ ہاتھوں میں ہے۔

 حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد قاری ہیں۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں،

سفیر اسے کہتے ہیں کہ جو صلح اور بھلائی کے لیے لوگوں میں کوشش کرتا پھرے، عرب شاعر کے شعر میں بھی یہی معنی پائے جاتے ہیں،

 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتے ہیں جو فرشتے اللہ کی جانب سے وحی وغیرہ لے کر آتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں میں صلح کرانے والے سفیر ہوتے ہیں، وہ ظاہر باطن میں پاک ہیں، وجیہ خوش رو شریف اور بزرگ ظاہر میں، اخلاق و افعال کے پاکیزہ باطن میں ۔

یہاں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن کے پڑھنے والوں کو اعمال و اخلاق اچھے رکھنے چاہئیں،

 مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو قرآن کو پڑھے اور اس کی مہارت حاصل کرے وہ بزرگ لکھنے والے فرشتوں کیساتھ ہو گا اور جو باوجود مشقت کبھی پڑھے اسے دوہرا اجر ملے گا۔

ریڑھ کی ہڈی اور تخلیق ثانی

جو لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے انکاری تھے ان کی یہاں مذمت بیان ہو رہی ہے ،

قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (۱۷)

اللہ کی مار انسان پر کیسا ناشکرا ہے۔‏

ابن عباس فرماتے ہیں یعنی انسان پر لعنت ہو یہ کتنا بڑا ناشکر گزار ہے

 اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ عموماً تمام انسان جھٹلانے والے ہیں بلا دلیل محض اپنے خیال سے ایک چیز کو ناممکن جان کر باوجود علمی سرمایہ کی کمی کے جھٹ سے اللہ کی باتوں کی تکذیب کر دیتے ہیں

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے اس جھٹلانے پر کونسی چیز آمادہ کرتی ہے؟

اس کے بعد اس کی اصلیت جتائی جاتی ہے کہ

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (۱۸)

اسے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا۔‏

وہ خیال کرے کہ کس قدر حقیر اور ذلیل چیز سے اللہ نے اسے بنایا ہے کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا؟

مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (۱۹)

(اسے) ایک نطفہ سےپھر اندازہ پر رکھا اس کو۔‏

اس نے انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا پھر اس کی تقدیر مقدر کی یعنی عمر روزی عمل اور نیک و بد ہونا لکھا۔

ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (۲۰)

پھر اس کے لئے راستہ آسان کیا ‏

پھر اس کے لیے ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کر دیا

 اور یہ بھی معنی ہیں کہ ہم نے اپنے دین کا راستہ آسان کر دیا یعنی واضح اور ظاہر کر دیا جیسے اور جگہ ہے:

إِنَّا هَدَيْنَـهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِراً وَإِمَّا كَفُوراً (۷۶:۳)

ہم نے اسے راہ دکھائی پھر یا تو وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا ،

حسن اور ابن زید اسی کو راجح بتاتے ہیں واللہ اعلم۔

ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ  (۲۱)

پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔‏

اس کی پیدائش کے بعد پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں لے گیا۔

عرب کا محاورہ ہے کہ وہ جب کسی کو دفن کریں تو کہتے ہیں۔ قبرتُ الرَّجُلَاور کہتے ہیں اَقبَرُہُ اللہ اسی طرح کے اور بھی محاورے ہیں مطلب یہ ہے کہ اب اللہ نے اسے قبر والا بنا دیا۔

ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ (۲۲)

پھر جب چاہے گا اسے زندہ کر دے گا۔‏

پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر دے گا،

اسی زندگی کو بعثت بھی کہتے ہیں اور نشور بھی ، جیسے اور جگہ ہے :

وَمِنْ ءَايَـتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَآ أَنتُمْ بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ (۳۰:۲۰)

اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر تم انسان بن کر اٹھ بیٹھے

اور جگہ ہے

وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا (۲:۲۵۹)

ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے بٹھاتے ہیں ، پھر کس طرح انہیں گوشت چڑھاتے ہیں

ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

 انسان کے تمام اعضاء وغیرہ کو مٹی کھا جاتی ہے مگر ریڑ ھ کی ہڈی کو نہیں کھاتی ،

 لوگوں نے کہا وہ کیا ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رائی کے دانے کے برابر ہے اسی سے پھر تمھاری پیدائش ہو گی۔

یہ حدیث بغیر سوال و جواب کی زیادتی کے بخاری مسلم میں بھی ہے :

 ابن آدم گل سڑ جاتا ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کہ اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے پھر ترکیب دیا جائے گا ۔

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ (۲۳)

ہرگز نہیں اب تک اللہ کے حکم کی بجا آوری نہیں کی۔‏

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح یہ نا شکرا اور بےقدر انسان کہتا ہے کہ اس نے اپنی جان و مال میں اللہ کا جو حق تھا وہ ادا کر دیا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ بلکہ ابھی تو اس نے فرائض اللہ سے بھی سبکدوشی حاصل نہیں کی ۔

 حضرت مجاہد کا فرمان ہے کہ کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی پوری ادائیگی نہیں ہو سکتی۔

حسن بصری سے بھی ایسے ہی معنی مروی ہیں

متقدمین میں سے میں نے تو اس کے سوا کوئی اور کلام نہیں پایا، ہاں مجھے اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ فرمان باری کا یہ مطلب ہے:

 پھر جب چاہے دوبارہ پیدا کرے گا، اب تک اس کے فیصلے کے مطابق وقت نہیں آیا۔

 یعنی ابھی ابھی وہ ایسا نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت مقررہ ختم ہو اور بنی آدم کی تقدیر پوری ہو ، ان کی قسمت میں اس دنیا میں آنا اور یہاں برا بھلا کرنا وغیرہ جو مقدر ہو چکا ہے ۔ وہ سب اللہ کے اندازے کے مطابق پورا ہو چکے اس وقت وہ خلاق کل دوبارہ زندہ کرے گا اور جیسے کہ پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب دوسری دفعہ پھر پیدا کر دے گا،

 ابن ابی حاتم میں حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:

 حضرت عزیز علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ قبریں زمین کا پیٹ ہیں اور زمین مخلوق کی ماں ہے جب کہ کل مخلوق پیدا ہو چکے گی پھر قبروں میں پہنچ جائے گی اور قبریں سب بھر جائیں گی اس وقت دنیا کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور جو بھی زمین پر ہوں گے سب مر جائیں گے ۔ اور زمین میں جو کچھ ہے اسے زمین اگل دے گی اور قبروں میں جو مردے ہیں سب باہر نکال دئیے جائیں گے

یہ قول ہم اپنی اس تفسیر کی دلیل میں پیش کر سکتے ہیں ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ،

فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَى طَعَامِهِ (۲۴)

انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے کو دیکھے

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میرے اس احسان کو دیکھیں کہ میں نے انہیں کھانا دیا

اس میں بھی دلیل ہے موت کے بعد جی اٹھنے کی کہ جس طرح خشک غیر آباد زمین سے ہم نے تر و تازہ درخت اگائے اور ان سے اناج وغیرہ پیدا کر کے تمہارے لیے کھانا مہیا کیا اسی طرح گلی سڑی کھوکھلی اور چورا چورا ہڈیوں کو بھی ہم ایک روز زندہ کر دیں گے اور انہیں گوشت پوست پہنا کر دوبارہ تمہیں زندہ کر دیں گے ،

أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (۲۵)

کہ ہم نے خوب پانی برسایا۔‏

ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا (۲۶)

پھر پھاڑا زمین کو اچھی طرح۔‏

فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا (۲۷)

پھر اس میں اناج اگائے۔‏

پھر اسے ہم نے زمین میں پہنچا کر ٹھہرا دیا وہ بیج میں پہنچا اور زمین میں پڑے ہوئے دانوں میں سرایت کی جس سے وہ دانے اُگے درخت پھوٹا اونچا ہوا اور کھیتیاں لہلہانے لگیں ، کہیں اناج پیدا ہوا کہیں انگور اور کہیں ترکاریاں۔

 حَب کہتے ہیں کہ ہر دانے کو،

وَعِنَبًا وَقَضْبًا (۲۸)

اور انگور اور ترکاری۔‏

عِنَب کہتے ہیں انگور کو اور قَضْب کہتے ہیں اس سبز چارے کو جیسے جانور کھاتے ہیں

وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا (۲۹)

اور زیتون اور کھجور۔‏

اور زیتون پیدا کیا جو روٹی کے ساتھ سالن کا کام دیتا ہے جلایا جاتا ہے تیل نکالا جاتا ہے اور کھجوروں کے درخت پیدا کئے جو گدرائی ہوئی بھی کھائی جاتی ہے ، تر بھی کھائی جاتی ہے اور خشک بھی کھائی جاتی ہیں اور پکی بھی اور اس کا شیرہ اور سرکہ بھی بنایا جاتا ہے

وَحَدَائِقَ غُلْبًا (۳۰)

اور گنجان باغات۔‏

اور باغات پیدا کئے۔

 غُلْبًا کے معنی کھجوروں کے بڑے بڑے میوہ دار درخت ہیں ۔

 حدائق کہتے ہیں ہر اس باغ کو جو گھنا اور خوب بھرا ہوا اور گہرے سائے والا اور بڑے درختوں والا ہو،

موٹی گردن والے آدمی کو بھی عرب اغلب کہتے ہیں ،

وَفَاكِهَةً وَأَبًّا (۳۱)

اور میوہ اور (گھاس) چارہ (بھی اگایا)۔‏

اور میوے پیدا کئے اور اب کہتے ہیں زمین کی اس سبزی کو جیسے جانور کھاتے ہیں اور انسان اسے نہیں کھاتے ، جیسے گھاس پات وغیرہ، اب جانور کے لیے ایسا ہی ہے جیسا انسان کے لیے

فَاكِهَةً یعنی پھل ، میوہ۔

عطاء کا قول ہے کہ زمین پر جو کچھ اگتا ہے اسے " أَب " کہتے ہیں۔

ضحاک فرماتے ہیں سوائے میوؤں کے باقی سب أَب ہے ۔

 ابو السائب فرماتے ہیں أَب آدمی کے کھانے میں بھی آتا ہے اور جانور کے کھانے میں بھی ،

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس بابت سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں:

 کونسا آسمان مجھے اپنے تلے سایہ دے گا اور کونسی زمین مجھے اپنی پیٹھ پر اٹھائے گی ، اگر میں کتاب اللہ میں وہ کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو

 لیکن یہ اثر منقطع ہے ، ابراہیم تیمی نے حضرت صدیق کو نہیں پایا، ہاں البتہ صحیح سند سے

 ابن جریر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سورہ عبس پڑھی اور یہاں تک پہنچ کر کہا کہ فَاكِهَةً کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ اب کیا چیز ہے ؟

 پھر خود ہی فرمایا اس تکلیف کو چھوڑ، اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی شکل و صورت اور اس کی تعین معلوم نہیں ورنہ اتنا تو صرف آیت کے پڑھنے سے ہی صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ زمین سے اُگنے والی ایک چیز ہے کیونکہ پہلے یہ لفظ موجود ہے ،

 فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا،

مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (۳۲)

تمہارے استعمال و فائدہ کے لئے اور تمہارے چوپایوں کے لئے۔‏

پھر فرمایا ہے تمہاری زندگی کے قائم رکھنے ، تمھیں فائدہ پہنچانے اور تمھارے جانووں کے لیے ہے کہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہےگا اور تم اس سے فیض یاب ہوتے رہو گے۔

فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ  (۳۳)

پس جب کان بہرے کر دینے والی (قیامت) آ جائے گی ‏

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ الصَّاخَّةُ  قیامت کا نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نفخہ کی آواز اور ان کا شور و غل کانوں کے پردے پھاڑ دےگا۔

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (۳۴)

اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے۔‏

وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (۳۵)

اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔‏

وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (۳۶)

اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے‏

اس دن انسان اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا لیکن بھاگتا پھرے گا کوئی کسی کے کام نہ آئےگا،

میاں بیوی کو دیکھ کر کہے گا کہ بتا تیرے ساتھ میں نے دنیا میں کیسا کچھ سلوک کیا

وہ کہے گی کہ بیشک آپ نے میرے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا بہت پیار محبت سے رکھا

یہ کہے گا کہ آج مجھے ضرورت ہے صرف ایک نیکی دے دو تاکہ اس آفت سے چھوٹ جاؤں،تو وہ جواب دے گی کہ سوال تھوڑی سی چیز کا ہی ہے مگر کیا کروں یہی ضرورت مجھے درپیش ہے اور اسی کا خوف مجھے لگ رہا ہے میں تو نیکی نہیں دے سکتی،

بیٹا باپ سے ملے گا یہی کہے گا اور یہی جواب پائے گا،

لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (۳۷)

ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی ۔‏

صحیح حدیث میں شفاعت کا بیان فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

 اولولعزم پیغمبروں سے لوگ شفاعت کی طلب کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ نفسی نفسی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ صلوات اللہ بھی یہی فرمائیں گے کہ آج میں اللہ کے سوائے اپنی جان کے اور کسی کے لیے کچھ نہ کہوں گا میں تو آج اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کیلئے بھی کچھ نہ کہوں گا جن کے بطن سے میں پیدا ہوا ہوں ،

الغرض دوست دوست سے رشتہ دار رشتہ دار سے منہ چھپاتا پھرے گا۔ ہر ایک آپادھاپی میں لگا ہو گا، کسی کو دوسرے کا ہوش نہ ہو گا،

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں

 تم ننگے پیروں ننگے بدن اور بےختنہ اللہ کے ہاں جمع کیے جاؤ گے

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ایک دوسروں کی شرمگاہوں پر نظریں پڑیں گی

فرمایا اس روز گھبراہٹ کا حیرت انگیز ہنگامہ ہر شخص کو مشغول کیے ہوئے ہو گا، بھلا کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کا موقعہ اس دن کہاں؟

 (ابن ابی حاتم)

بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی  لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ

دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیوی صاحبہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں

اور روایت میں ہے :

 ایک دن حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں میں ایک بات پوچھتی ہوں ذرا بتا دیجئے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں جانتا ہوں تو ضرور بتاؤں گا

 پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا حشر کس طرح ہو گا،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ننگے پیروں اور ننگے بدن

 تھوڑی دیر کے بعد پوچھا کیا عورتیں بھی اسی حالت میں ہوں گی؟

 فرمایا ہاں۔

یہ سن کر ام المومنین افسوس کرنے لگیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ اس آیت کو سن لو پھر تمہیں اس کا کوئی رنج و غم نہ رہے گا کہ کپڑے پہنے یا نہیں؟

 پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ آیت کونسی ہے

فرمایا لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ (۳۸)

اس دن بہت سے چہرے روشن ہونگے۔‏

ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ (۳۹)

(جو) ہنستے ہوئے اور ہشاش بشاش ہوں گے

وہاں لوگوں کے دو گروہ ہوں گے بعض تو وہ ہوں گے جن کے چہرے خوشی سے چمک رہے ہوں گے دل خوشی سےمطمئن ہوں گے منہ خوبصورت اور نورانی ہوں گے یہ تو جتنی جماعت ہے

وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ (۴۰)

اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔‏

تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (۴۱)

جن پر سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی ‏

أُولَئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (۴۲)

وہ یہی کافر بدکردار لوگ ہوں گے

حدیث میں ہے :

 ان کا پسینہ مثل لگا کے ہو رہا ہو گا پھر گرد و غبار پڑا ہوا ہو گا جن کے دلوں میں کفر تھا اور اعمال میں بدکاری تھی

جیسے اور جگہ ہے

وَلاَ يَلِدُواْ إِلاَّ فَاجِراً كَفَّاراً (۷۱:۲۷)

ان کفار کی اولاد بھی بدکار کافر ہی ہو گی۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter