Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Naziat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا(۱)‏

ڈوب کر سختی سے کھنچنے والوں کی قسم

وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا(۲)‏

بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم

اس سے مراد فرشتے ہیں جو بعض لوگوں کی روحوں کو سختی سے گھسیٹتے ہیں اور بعض روحوں کو بہت آسانی سے نکالتے ہیں جیسے کسی کے بند کھول دیئے جائیں ، کفار کی روحیں کھینچی جاتی ہیں پھر بند کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم میں ڈبو دیئے جاتے ہیں، یہ ذکر موت کے وقت کا ہے،

بعض کہتے ہیں وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا سے مراد موت ہے،

بعض کہتے ہیں، دونوں پہلی آیتوں سے مطلب ستارے ہیں،

بعض کہتے ہیں مراد سخت لڑائی کرنے والے ہیں،

 لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، یعنی روح نکالنے والے فرشتے،

وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا(۳)‏

اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم

اسی طرح تیسری آیت کی نسبت بھی یہ تینوں تفسیریں مروی ہیں یعنی فرشتے موت اور ستارے۔

حضرت عطاء فرماتے ہیں مراد کشتیاں ہیں،

 اسی طرح سابقات کی تفسیر میں بھی تینوں قول ہیں،

فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا(۴)‏

پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم

معنی یہ ہیں کہ ایمان اور تصدیق کی طرف آگے بڑھنے والے،

عطا فرماتے ہیں مجاہدین کے گھوڑے مراد ہیں،

فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا (۵)‏

پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم

پھر حکم اللہ کی تعمیل تدبیر سے کرنے والے اس سے مراد بھی فرشتے ہیں، جیسے حضرت علی ؓ کا قول ہے، آسمان سے زمین کی طرف اللہ عز و جل کے حکم سے تدبیر کرتے ہیں،

 امام ابن جریر نے ان اقوال میں کوئی فیصلہ نہیں کیا،

يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ (۶)‏

جس دن کاپنے والی کانپے گی ‏

تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ  (۷)‏

اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی (پیچھے پیچھے) آئے گی

کانپنے والی کے کانپنے اور اس کے پیچھے آنے والی کے پیچھے آنے سے مراد دونوں نفخہ ہیں، پہلے نفخہ کا بیان اس آیت میں بھی ہے :

يَوۡمَ تَرۡجُفُ ٱلۡأَرۡضُ وَٱلۡجِبَالُ (۷۳:۱۴)

جس دن زمین اور پہاڑ کپکپا جائیں گے،

 دوسرے نفخہ کا بیان اس آیت میں ہے

وَحُمِلَتِ ٱلۡأَرۡضُ وَٱلۡجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً۬ وَٲحِدَةً۬ (۶۹:۱۴)

اور زمین اور پہاڑ اٹھا لئے جائیں گے،

پھر دونوں ایک ہی دفعہ چور چور کر دیئے جائیں گے،

 مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 کاپنے والی آئے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے آنے والی ہو گی یعنی موت اپنے ساتھ اپنی آفتوں کو لئے ہوئے آئے گی،

 ایک شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اپنے وظیفہ کا تمام وقت آپ پر درود پڑھنے میں گزاروں تو؟

آپ نے فرمایا پھر تو اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت کے تمام غم و رنج سے بچا لے گا۔

 ترمذی میں ہے:

 دو تہائی رات گزرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرماتے لوگو اللہ کو یاد کرو کپکانے والی آ رہی ہے پھر اس کے پیچھے ہی اور آ رہی ہے، موت اپنے ساتھ کی تمام آفات کو لئے ہوئے چلی آ رہی ہے،

قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ (۸)‏

(بہت سے) دل اس دن دھڑ کتے ہونگے

أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ (۹)‏

جس کی نگاہیں نیچی ہونگی

اس دن بہت سے دل ڈر رہے ہوں گے، ایسے لوگوں کی نگاہیں ذلت و حقارت کے ساتھ پست ہوں گی کیونکہ وہ اپنے گناہوں اور اللہ کے عذاب کا معائنہ کر چکے ہیں،

يَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ (۱۰)‏

کہتے ہیں کہ کیا پہلی کی سی حالت کی طرف لوٹائے جائیں گے

مشرکین جو روز قیامت کے منکر تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا قبروں میں جانے کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے؟ وہ آج اپنی اس زندگی کو رسوائی اور برائی کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے،

حَافِرَة کہتے ہیں قبروں کو بھی ، یعنی قبروں میں چلے جانے کے بعد جسم کے ریزے ریزے ہو جانے کے بعد، جسم اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے اور کھوکھلی ہو جانے کے بعد بھی کیا ہم زندہ کئے جائیں گے؟

پھر تو یہ دوبار کی زندگی خسارے اور گھاٹے والی ہو گی، کفار قریش کا یہ مقولہ تھا،

حَافِرَة کے معنی موت کے بعد کی زندگی کے بھی مروی ہیں اور جہنم کا نام بھی ہے

اس کے نام بہت سے ہیں جیسے جحیم ، سقر، جہنم، ہاویہ، حافرہ، لظی، حطمہ وغیرہ

أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا نَخِرَةً (۱۱)‏

کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیدہ ہڈیاں ہو جائیں گے

قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ (۱۲)‏

کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان دہ ہے

فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ (۱۳)‏

(معلوم ہونا چاہیئے) وہ تو صرف ایک (خوفناک) ڈانٹ ہے۔‏

فَإِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ (۱۴)‏

کہ (جس کے ظاہر ہوتے ہی) وہ ایک دم میدان میں جمع ہو جائیں گے

اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس چیز کو یہ بڑی بھاری، ان ہونی اور ناممکن سمجھے ہوئے ہیں وہ ہماری قدرت کاملہ کے ماتحت ایک ادنیٰ سی بات ہے، ادھر ایک آواز دی ادھر سب زندہ ہو کر ایک میدان میں جمع ہو گئے، یعنی اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو حکم دے گا وہ صور پھونک دیں گے بس ان کے صور پھونکتے ہی تمام اگلے پچھلے جی اٹھیں گے اور اللہ کے سامنے ایک ہی میدان میں کھڑے ہو جائیں گے،

جیسے اور جگہ ہے :

يَوۡمَ يَدۡعُوكُمۡ فَتَسۡتَجِيبُونَ بِحَمۡدِهِۦ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثۡتُمۡ إِلَّا قَلِيلاً۬  (۱۷:۵۲)

جس دن وہ تمہیں پکارے گا اور تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور جان لو گے کہ بہت ہی کم ٹھہرے

 اور جگہ فرمایا:

وَمَآ أَمۡرُنَآ إِلَّا وَٲحِدَةٌ۬ كَلَمۡحِۭ بِٱلۡبَصَرِ (۵۴:۵۰)

ہمارا حکم بس ایسا ایک بارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا

 اور جگہ ہے :

وَمَآ أَمۡرُ ٱلسَّاعَةِ إِلَّا كَلَمۡحِ ٱلۡبَصَرِ أَوۡ هُوَ أَقۡرَبُ‌ (۱۶:۷۷)

امر قیامت مثل آنکھ جھپکنے کے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ،

یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ صرف ایک آواز ہی کی دیر ہے اس دن پروردگار سخت غضبناک ہو گا، یہ آواز بھی غصہ کے ساتھ ہو گی، یہ آخری نفخہ ہے جس کے پھونکے جانے کے بعد ہی تمام لوگ زمین کے اوپر آ جائیں گے، حالانکہ اس سے پہلے نیچے تھے،

 سَاهِرَہ روئے زمین کو کہتے ہیں اور سیدھے صاف میدان کو بھی کہتے ہیں،

ثوری کہتے ہیں مراد اس سے شام کی زمین ہے،

عثمان بن ابوالعالیہ کا قول ہے مراد بیت المقدس کی زمین ہے۔

 وہب بن منبہ کہتے ہیں بیت المقدس کے ایک طرف یہ ایک پہاڑ ہے،

قتادہ کہتے ہیں جہنم کو بھی سَاهِرَہ کہتے ہیں۔

 لیکن یہ اقوال سب کے سب غریب ہیں، ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی روئے زمین کے سب لوگ زمین پر جمع ہو جائیں گے، جو سفید ہو گی اور بالکل صاف اور خالی ہو گی جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے

 اور جگہ ہے:

يَوۡمَ تُبَدَّلُ ٱلۡأَرۡضُ غَيۡرَ ٱلۡأَرۡضِ وَٱلسَّمَـٰوَٲتُ‌ۖ وَبَرَزُواْ لِلَّهِ ٱلۡوَٲحِدِ ٱلۡقَهَّارِ  (۱۴:۴۸)

جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہو گی اور آسمان بھی بدل جائیں گا اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے روبرو ہو جائے گی

 اور جگہ ہے:

وَيَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡجِبَالِ۔ فَقُلۡ يَنسِفُهَا رَبِّى نَسۡفً۬ا فَيَذَرُهَا قَاعً۬ا صَفۡصَفً۬ا۔ لَّا تَرَىٰ فِيہَا عِوَجً۬ا وَلَآ أَمۡتً۬ا  (۲۰:۱۰۵،۱۰۷)

لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے پوچھتے ہیں

تو کہہ دے کہ انہیں میرا رب ٹکڑے ٹکڑے کر دیگا اور زمین بالکل ہموار میدان بن جائے گی جس میں کوئی موڑ توڑ ہو گا، نہ اونچی نیچی جگہ

 اور جگہ ہے

وَيَوۡمَ نُسَيِّرُ ٱلۡجِبَالَ وَتَرَى ٱلۡأَرۡضَ بَارِزَةً۬ (۱۸:۴۷)

ہم پہاڑوں کو چلنے والا کر دیں گے اور زمین صاف ظاہر ہو جائے گی،

 غرض ایک بالکل نئی زمین ہو گی جس پر نہ کبھی کوئی خطا ہوئی نہ قتل و گناہ۔

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى (۱۵)‏

موسیٰ(علیہ السلام) کی خبر تمہیں پہنچی ہے؟‏

اللہ تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا اور معجزات سے ان کی تائید کی، لیکن باوجود اس کے فرعون اپنی سرکشی اور اپنے کفر سے باز نہ آیا بالآخر اللہ کا عذاب اترا اور برباد ہو گیا، اسی طرح اے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مخالفین کا بھی حشر ہو گا۔ اسی لئے اس واقعہ کے خاتمہ پر فریاد ڈر والوں کے لئے اس میں عبرت ہے ،

پس فرماتا ہے کہ تجھے خبر بھی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام کو اس کے رب نے آواز دی جبکہ وہ ایک مقدس میدان میں تھے جس کا نام طویٰ ہے۔

اس کا تفصیل سے بیان سورہ طہ میں گزر چکا ہے،

إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (۱۶)‏

جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا

اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (۱۷)‏

یہ کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے

فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى (۱۸)‏

اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے

یعنی کیا ایسا راستہ اور طریقہ تو پسند کرتا ہے جس سے تیری اصلاح ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اور مطیع ہوجا۔

وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى (۱۹)‏

اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے

آواز دے کر فرمایا کہ فرعون نے سرکشی تکبر، تجبر اور تمرد اختیار کر رکھا ہے تم اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا یہ پیغام دو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ میری بات مان کر اس راہ پر چلے جو پاکیزگی کی راہ ہے، میری سن میری مان، سلامتی کے ساتھ پاکیزگی حاصل کر لے گا، میں تجھے اللہ کی عبادت کے وہ طریقے بتاؤں گا جس سے تیرا دل نرم اور روشن ہو جائے اس میں خشوع و خضوع پیدا ہو اور دل کی سختی اور بدبختی دور ہو۔

فَأَرَاهُ الْآيَةَ الْكُبْرَى (۲۰)‏

پس اسے بڑی نشانی دکھائی ‏

فَكَذَّبَ وَعَصَى (۲۱)‏

تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔‏

ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَى (۲۲)‏

پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے

حضرت موسیٰ فرعون کے پاس پہنچے اللہ کا فرمان پہنچایا، حجت ختم کی دلائل بیان کئے یہاں تک کہ اپنی سچائی کے ثبوت میں معجزات بھی دکھائے لیکن وہ برابر حق کی تکذیب کرتا رہا اور حضرت موسیٰ کی باتوں کی نافرمانی پر جما رہا چونکہ دل میں کفر جا گزیں ہو چکا تھا اس سے طبیعت نہ ہٹی اور حق واضح ہو جانے کے باوجود ایمان و تسلیم نصیب نہ ہوئی، یہ اور بات ہے کہ دل سے جانتا تھا کہ یہ حق برحق نبی ہیں اور ان کی تعلیم بھی برحق ہے لیکن دل کی معرفت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے دل کی معرفت پر عمل کرنے کا نام ایمان ہے کہ حق کا تابع فرمان بن جائے اور اللہ رسول کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے جھک جائے۔

فَحَشَرَ فَنَادَى (۲۳)‏

پھر سب کو جمع کر کے پکارا۔‏

فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (۲۴)‏

تم سب کا رب میں ہی ہوں۔‏

پھر اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور خلاف حق کوشش کرنے لگا جادو گروں کو جمع کر کے ان کے ہاتھوں حضرت موسیٰ کو نیچا دکھانا چاہا۔ اپنی قوم کو جمع کیا اور اس میں منادی کی کہ تم سب میں بلند و بالا میں ہی ہوں، اس سے چالیس سال پہلے وہ کہہ چکا تھا کہ  مَا عَلِمۡتُ لَڪُم مِّنۡ إِلَـٰهٍ غَيۡرِى (۲۸:۳۸) یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا معبود کوئی اور بھی ہو، اب تو اس کی طغیانی حد سے بڑھ گئی اور صاف کہہ دیا کہ میں ہی رب ہوں، بلندیوں والا اور سب پر غالب میں ہی ہوں،

فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَى (۲۵)‏

تو (سب سے بلند و بالا) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کر لیا

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَى (۲۶)‏

بیشک اس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو ڈرے

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بھی اس سے وہ اتنقام لیا جو اس جیسے تمام سرکشوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ سبب عبرت بن جائے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جس کے بدترین عذاب تو ابھی باقی ہیں،

 جیسے فرمایا :

وَجَعَلۡنَـٰهُمۡ أَٮِٕمَّةً۬ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلنَّارِ‌ۖ وَيَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ لَا يُنصَرُونَ (۲۸:۴۱)

ہم نے انہیں جہنم کی طرف بلانے والے پیش رو بنائے قیامت کے دن یہ مدد نہ کئے جائیں گے،

پس صحیح تر معنی آیت کے یہی ہیں کہ آخرت اور اولیٰ سے مراد دنیا اور آخرت ہے

، بعض نے کہا ہے اول آخر سے مراد اس کے دونوں قول ہیں یعنی پہلے یہ کہنا کہ میرے علم میں میرے سوا تمہارا کوئی اللہ نہیں، پھر یہ کہنا کہ تمہارا سب کا بلند رب میں ہوں،

 بعض کہتے ہیں مراد کفر و نافرمانی ہے،

 لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، اس میں ان لوگوں کے لئے عبرت و نصیحت ہے جو نصیحت حاصل کریں اور باز آ جائیں۔

أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ

کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟

جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے منکر تھے، انہیں پروردگار دلیلیں دیتا ہے کہ تمہاری پیدائش سے تو بہت زیادہ مشکل پیدائش آسمانوں کی ہے جیسے اور جگہ ہے :

لَخَلۡقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ أَڪۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ ٱلنَّاسِ (۴۰:۵۷)

زمین و آسمان کی پیدائش انسانوں کی پیدائش سے زیادہ بھاری ہے

 اور جگہ ہے :

أَوَلَيۡسَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضَ بِقَـٰدِرٍ عَلَىٰٓ أَن يَخۡلُقَ مِثۡلَهُم‌ۚ بَلَىٰ وَهُوَ ٱلۡخَلَّـٰقُ ٱلۡعَلِيمُ  (۳۶:۸۱)

کیا جس نے زمین و آسمان پیدا کر دیا ہے ان جیسے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا؟

ضرور وہ قادر ہے اور وہ ہی بڑا پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے،

بَنَاهَا (۲۷)‏

اللہ نے اسے بنایا۔‏

آسمان کو اس نے بنایا

رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا (۲۸)‏

اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔

 یعنی بلند و بالا خوب چوڑا اور کشادہ اور بالکل برابر بنایا پھر اندھیری راتوں میں خوب چمکنے والے ستارے اس میں جڑ دیئے،

وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا (۲۹)‏

اسکی رات کو تاریک بنایا اسکے دن کو روشن بنایا۔‏

رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور دن کو روشن اور نور والا بنایا

وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا (۳۰)‏

اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔‏

أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (۳۱)‏

اس میں سے پانی اور چارہ نکالا۔‏

اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا یعنی پانی اور چارہ نکالا۔

 سورہ حم سجدہ میں یہ بیان گزر چکا ہے کہ زمین کی پیدائش تو آسمان سے پہلے ہے ہاں اس کی برکات کا اظہار آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوا جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے،

ابن عباس ؓاور بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں، اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے

وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا (۳۲)‏

اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑھ دیا۔‏

اور پہاڑوں کو اس نے خوب مضبوط گاڑ دیا ہے وہ حکمتوں والا صحیح علم والا ہے اور ساتھ ہی اپنی مخلوق پر بیحد مہربان ہے،

 مسند احمد میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا وہ ہلنے لگی پروردگار نے پہاڑوں کو پیدا کر کے زمین پر گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی

 فرشتوں کو اس سے سخت تر تعجب ہوا اور پوچھنے لگے اللہ تیری مخلوق میں ان پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت چیز کوئی اور ہے؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں لوہا،

 پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت ؟

 فرمایا آگ،

پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت؟

 فرمایا ہاں پانی،

پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت؟

 فرمایا ہوا،

 پوچھا پروردگار کیا تیری مخلوق میں اس سے بھاری کوئی اور چیز ہے؟

 فرمایا ہاں ابن آدم وہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ سے جو خرچ کرتا ہے اس کی خبر پائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی،

 ابن جریر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو وہ کانپنے لگی اور کہنے لگی تو آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کرنے والا ہے جو اپنی گندگی مجھ پر ڈالیں گے اور میری پیٹھ پر تیری نافرمانیاں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ گاڑ کر زمین کو ٹھہرا دیا بہت سے پہاڑ تم دیکھ رہے ہو اور بہت سے تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہیں، زمین کا پہاڑوں کے بعد سکون حاصل کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے اونٹ کو ذبح کرتے ہی اس کا گوشت تھرکتا رہتا ہے پھر کچھ دیر بعد ٹھہر جاتا ہے۔

مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (۳۳)‏

یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہیں۔‏

پھر فرماتا ہے کہ یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہے، یعنی زمین سے چشموں اور نہروں کا جاری کرنا زمین کے پوشیدہ خزانوں کو ظاہر کرنا کھیتیاں اور درخت اگانا پہاڑوں کا گاڑنا تاکہ زمین سے پورا پورا فائدہ تم اٹھا سکو ،

یہ سب باتیں انسانوں کے فائدے کیلئے ہیں اور ان کے جانوروں کے فائدے کے لئے پھر وہ جانور بھی انہی کے فائدے کے لئے ہیں کہ بعض کا گوشت کھاتے ہیں بعض پر سواریاں لیتے ہیں اور اپنی عمر اس دنیا میں سکھ چین سے بسر کر رہے ہیں۔

فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَى(۳۴)‏

پس جب وہ بڑی آفت (قیامت) آ جائے گی۔‏

الطَّامَّةُ الْكُبْرَى سے مراد قیامت کا دن ہے اس لئے کہ وہ ہولناک اور بڑے ہنگامے والا دن ہو گا،

جیسے اور جگہ ہے :

وَٱلسَّاعَةُ أَدۡهَىٰ وَأَمَرُّ  (۵۴:۴۶)

قیامت بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے،

يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَى (۳۵)‏

جس دن کے انسان اپنے کئے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا۔‏

اس دن ابن آدم اپنے بھلے برے اعمال کو یاد کرے گا اور کافی نصیحت حاصل کر لے گا، جیسے اور جگہ ہے :

يَوۡمَٮِٕذٍ۬ يَتَذَڪَّرُ ٱلۡإِنسَـٰنُ وَأَنَّىٰ لَهُ ٱلذِّكۡرَىٰ (۸۹:۲۳)

اس دن آدمی نصیحت حاصل کر لے گا لیکن آج کی نصیحت اسے کچھ فائدہ نہ دے گی،

وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِمَنْ يَرَى (۳۶)‏

اور ہر دیکھنے والے کے سامنے جہنم ظاہر کی جائے گی۔‏

فَأَمَّا مَنْ طَغَى (۳۷)‏

تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی)

وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (۳۸)‏

اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی۔‏

فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى(۳۹)‏

(اسکا) ٹھکانا جہنم ہی ہے۔‏

لوگوں کے سامنے جہنم لائی جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے اس دن سرکشی کرنے والوں اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے والوں کو ٹھکانا جہنم ہو گا، ان کی خوراک زقوم ہو گا اور ان کا پانی حمیم ہو گا،

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (۴۰)‏

ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔‏

فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (۴۱)‏

تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔‏

ہاں ہمارے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہنے والوں، اپنے آپ کو نفسانی خواہشوں سے بچاتے رہنے والوں خوف اللہ دل میں رکھنے والوں اور برائیوں سے باز رہنے والوں کا ٹھکانا جنت ہے اور وہاں کی تمام نعمتوں کے حصہ دار صرف یہی ہیں،

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا (۴۲)‏

لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں

پھر فرمایا کہ قیامت کے بارے میں تم سے سوال ہو رہے ہیں

فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا (۴۳)‏

آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق؟

تم کہہ دو کہ نہ مجھے اس کا علم ہے نہ مخلوق میں سے کسی اور کو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی۔

إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا (۴۴)‏

اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے۔‏

اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہیں وہ زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے، حالانکہ دراصل اس کا علم سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں،

حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی جس وقت انسانی صورت میں آپ کے پاس آئے اور کچھ سوالات کئے جن کے جوابات آپ نے دیئے پھر یہی قیامت کے دن کے تعیین کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا :

جس سے پوچھتے ہو، نہ وہ اسے جانتا ہے نہ خود پوچھنے والے کو اس کا علم ہے،

إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا (۴۵)‏

آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں

پھر فرمایا کہ اے نبی تم تو صرف لوگوں کے ڈرانے والے ہو اور اس سے نفع انہیں کو پہنچے گا جو اس خوفناک دن کا ڈر رکھتے ہیں اور تیاری کر لیں گے اور اس دن کے خطرے سے بچ جائیں گے، باقی جو لوگ ہیں وہ آپ کے فرمان سے عبرت حاصل نہیں کریں گے بلکہ مخالفت کریں گے اور اس دن بدترین نقصان اور مہلک عذابوں میں گرفتار ہوں گے،

كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا (۴۶)‏

جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں) رہے ہیں

لوگ جب اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں جمع ہوں گے، اس وقت اپنی دنیا کی زندگی انہیں بہت ہی تھوڑی نظر آئے گی اور ایسا معلوم ہو گا کہ صرف صبح کا یا صرف شام کا کچھ حصہ دنیا میں گزارا ہے،

ظہر سے لے کر آفتاب کے غروب ہونے کے وقت کو عشیہ کہتے ہیں اور سورج نکلنے سے لے کر آدھے دن تک کے وقت کو ضحیٰ کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ آخرت کو دیکھ کر دنیا کی لمبی عمر بھی اتنی کم محسوس ہونے لگی۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter