Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ma'un

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


أَرَءَيْتَ ٱلَّذِى يُكَذِّبُ بِٱلدِّينِ (۱)

کیا تو نے دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے ۔‏

فَذَٰلِكَ ٱلَّذِى يَدُعُّ ٱلْيَتِيمَ (۲)

یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ (۳)

اور مسکین کو کھلانے کے لئے ترغیب نہیں دیتا

نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے اس کا حق مارتا ہے اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا جیسے اور جگہ ہے

كَلاَّ بَل لاَّ تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ وَلاَ تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (۸۹:۱۷،۱۸)

جو برائی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمھارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو

 یعنی اس فقیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ (۴)

ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔‏

ٱلَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (۵)

جو اپنی نماز سے غافل ہیں

فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے وَيْل ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں

 یہی معنی حضرت ابن عباسؓ نے کئے ہیں

 اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابوالضحٰی کہتے ہیں

حضرت عطاء بن دینار فرماتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں عَن صَلَاتِهِمْہے فِیْ صَلَاتِهِمْ نہیں یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا

 اسی طرح یہ لفظ شامل ہے ایسے نمازی کو بھی جو

- ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے

- یا عموماً آخری وقت پڑھے

- یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے

- یا خشو و خضو اور تدبر و غور وفکر نہ کرے

لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ وَيْل والاہے اور نفاق عملی کا حصہ دار ہے

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے

 یہاں مراد عصر کی نماز ہے جو صلوٰۃ  وسطی ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشو و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکساں ہے

انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے

إِنَّ الْمُنَـفِقِينَ يُخَـدِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلَوةِ قَامُواْ كُسَالَى يُرَآءُونَ النَّاسَ وَلاَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلاَّ قَلِيلاً (۴:۱۴۲)

منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاوے کے لیے نماز گز ارتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں

ٱلَّذِينَ هُمْ يُرَآءُونَ (۶)

جو ریاکاری کرتے ہیں۔

یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں

طبرانی کی حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل

- اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے

- اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے

- اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے

- اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے

 مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کرےگا اور اسے ذلیل و حقیر کرےگا

 ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہو گئی اس پر اسے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلی موصلی کی یہ حدیث ہے :

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آ جاتا ہے تو ذرا مجھے بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے آپ نے فرمایا:

 تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا

حضرت ابن المبارک فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسناد غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے

 ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو

 اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہیں

- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں

- دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں

- یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے

ایک موقوف روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے

 امام بیہقی بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع توضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہےامام حاکم کا قول بھی یہی ہے

وَيَمْنَعُونَ ٱلْمَاعُونَ (۷)

اور برتنے کی چیز روکتے ہیں

پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کم قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کر دیں پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں

حضرت علی ؓسے مَاعُون کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور حضرت ابن عمر ؓسے بھی اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی

 امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے

 حضرت زید بن اسلمؒ فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے

 ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مَاعُون ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ ۔

دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے

 نسائی کی حدیث میں ہے:

 ہر نیک چیز صدقہ ہے

 ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مَاعُون سے تعبیر کرتے تھے

غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کر دینا مثلاً چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال پھائوڑا پتیلی دیگچی وغیرہ

علی نمیری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا:

 مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور ماعون کا انکار نہ کرے

 میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مَاعُون کیا ؟

 فرمایا پتھر لوہا اور اسی جیسی اور چیزیں

 واللہ اعلم

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter