Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al NasAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (۱) آپ کہہ دیجئے! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں۔ مَلِكِ النَّاسِ (۲) لوگوں کے مالک کی إِلَهِ النَّاسِ (۳) لوگوں کے معبود کی (پناہ میں) ۔ اس میں اللہ تعالیٰ عزوجل کی تین صفتیں بیان ہوئی ہیں، - پالنے اور پرورش کرنے کی، - مالک اور شہنشاہ ہونے کی ، - معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برترصفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے۔ برائیوں اور بدکاریوں کوخوب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں ،لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجھے صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی کہتا ہے۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (۴) وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔ شیطان وسوسہ ڈالتے ہیں بخاری مسلم کی حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی ایک واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے: حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں تھے تو ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی پہنچانے کے لئےساتھ چلے، راستے میں دوانصاری صحابی مل گئے جوآپ کو بی بی صاحبہ کے ساتھ دیکھ کر جلدی چل دیئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا سنو!میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ہیں انہوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: انسان کے خون کے جاری ہونے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے، مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے، حافظ ابویعلی موصلی رحمتہ اللہ نے ایک حدیث وارد کی ہے جس میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب تو اس کا ہاتھ ہٹ جاتا ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے، یہی وسواس الخناس ہے، یہ حدیث غریب ہے۔ مسند احمد میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم بِسْمِ اللَّه کہو تو وہ گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کے برابر ہو جاتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے، مسند احمد میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہوتا ہے اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے جانور کو بہلاتا ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا: تم خود اسے دیکھتے ہو نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہوا اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو اور لگام والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: شیطان ابن آدم کے دل پر چنگل مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا، سلیمان فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے : شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ بھی مروی ہے : شیطان برائی سکھاتا ہے جہاں انسان نے اسکی مان لی پھر ہٹ جاتا ہے، الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (۵) جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ لفظ النَّاسِ جو انسان کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے برجال من الجن کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ ناس میں داخل کر لینے میں کوئی قباحت نہیں، غرض یہ ہے کہ شیطان جنات کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (۶) (خواہ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ کا ایک مطلب تو یہ ہے : - جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی - اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسواس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان جیسے اور جگہ ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (۶:۱۱۲) اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے کی باتیں بنا سنوار کر ڈالتے رہتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا نماز بھی پڑھی؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت ادا کر لو۔ میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا۔ آپؐ نے فرمایا اے ابوذر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسی چیز ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا بہترین چیز ہے ، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے، میں نے پوچھا روزہ؟ فرمایا کافی ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے۔ میں نے پھر پوچھا صدقہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا جائے گا۔ میں نے پھر عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سے چھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک کرنا، میں نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپؐ نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول کتنے ہوئے؟ فرمایا تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت اور کبھی فرمایا تین سو پندرہ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی آیت کونسی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم الخ، یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابو حاتم بن حبان کی صحیح ابن حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ ،یہ حدیث بہت بڑی ہے، فا اللہ اعلم، مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے : ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے دل میں تو ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی زیادہ برا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی کے لئے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے۔ *********** |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |