Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Shura

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حم (۱)

حم

عسق (۲)

عسق

كَذَلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۳)

اسی طرح تیری طرف اور تجھ سے اگلوں کی طرف وحی بھیجتا رہا (١) اللہ تعالیٰ جو زبردست ہے اور حکمت والا ہے‏

یعنی جس طرح یہ قرآن تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسی طرح تجھ سے پہلے انبیاء پر آسمانی کتابیں نازل کی گئیں

 وحی اللہ کا کلام ہے جو فرشتے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے پاس بھیجتا رہا ہے ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ نے فرمایا:

کبھی تو یہ میرے پاس گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے اور یہ مجھ پر سب سے سخت ہوتی ہے، جب یہ ختم ہو جاتی ہے تو مجھے یاد ہوچکی ہوتی ہے اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے میں یاد کر لیتا ہوں۔

 حضرت عائشہ فرماتی ہیں، میں نے سخت سردی میں مشاہدہ کیا کہ جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو آپ پسینے میں شرابور ہوتے اور آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے ہوتے۔ صحیح بخاری

لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (۴)

آسمانوں کی (تمام) چیزیں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے وہ برتر اور عظیم الشان ہے۔‏

تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ ۚ

قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں

اللہ کی عظمت و جلال کی وجہ سے۔

وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ ۗ

اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لئے استغفار کر رہے ہیں

یہ مضمون سورہ مؤمن کی آیت۔٧ میں بھی بیان ہوا ہے۔

أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (۵)

خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی معاف فرمانے والا ہے

اپنے دوستوں اور اہل اطاعت کے لئے یا تمام ہی بندوں کے لئے، کیونکہ کفار اور نافرمانوں کی فوراً گرفت نہ کرنا بلکہ انہیں ایک وقت معین تک مہلت دینا، یہ بھی اس کی رحمت و مغفرت ہی کی قسم سے ہے۔

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (۶)

اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسروں کو کارساز بنا لیا ہے اللہ تعالیٰ ان پر نگران (١) ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں (٢)‏

۱۔ یعنی ان کے عملوں کو محفوظ کر رہا ہے تاکہ اس پر ان کو جزا دے۔

 ۲۔  یعنی آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ان کو ہدایت کے راستے پر لگا دیں یا ان کے گناہوں پر ان کا مؤاخذہ فرمائیں، بلکہ یہ کام ہمارے ہیں، آپ کا مصرف پیغام (پہنچا دینا) ہے۔

وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ

اس طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے (١) تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کر دیں

 اور جمع ہونے کے دن (٢) جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔

۱۔ یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔

أُمَّ الْقُرَى مکے کا نام ہے۔ اسے ’بستیوں کی ماں‘ اس لیے کہا گیا کہ یہ عرب کی قدیم ترین بستی ہے۔ گویا یہ تمام بستیوں کی ماں ہے جنہوں نے اسی سے جنم لیا ہے۔ مراد اہل مکہ ۔ہیں۔

وَمَنْ حَوْلَهَا  میں اس کے شرق و غرب کے تمام علاقے شامل ہیں۔

 ان سب کو ڈرائیں کہ اگر وہ کفر و شرک سے تائب نہ ہوئے تو عذاب الہٰی کے مستحق قرار پائیں گے۔

۲۔ قیامت والے دن کو جمع ہونے والا دن اس لئے کہا کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہونگیں علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مؤمن و کافر سب جمع ہونگے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا سے بہرہ ور ہونگے۔

فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ (۷)

 ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔‏

جو اللہ کے حکموں کو بجا لایا ہو گا اور اس کی منہیات و محرمات سے دور ہو گا وہ جنت میں اور اس کی نافرمانی اور محرمات کا ارتکاب کرنے والا جہنم میں ہو گا۔ یہی دو گروہ ہوں گے۔ تیسرا گروہ نہیں ہو گا۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُمْ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۸)

اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا (١) لیکن جسے چاہتا اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے

اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں۔‏

اس صورت میں قیامت والے دن صرف ایک ہی گروہ ہوتا یعنی اہل ایمان اور اہل جنت کا لیکن اللہ کی حکمت و مشیت نے اس جبر کو پسند نہیں کیا بلکہ انسانوں کو آزمانے کے لئے اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، جس نے آزادی کا صحیح استعمال کیا، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگیا، اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا، اس نے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اللہ کی دی ہوئی آزادی اور اختیار کو اللہ ہی کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ چنانچہ ایسے ظالموں کا قیامت والے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔

أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۖ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۹)

کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز بنا لئے ہیں

 (حقیقتاً تو) اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہی ہرچیز کا قادر ہے

جب یہ بات ہے تو پھر اللہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو ولی اور کار ساز مانا جائے نہ کہ ان کو جن کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور جو سننے اور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع نقصان پہنچانے کی صلاحیت۔

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ

اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے

اس اختلاف سے مراد دین کا اختلاف ہے

 جس طرح یہودیت، عیسائیت اور اسلام وغیرہ میں آپس میں اختلاف ہیں اور ہر مذہب کا پیروکار دعویٰ کرتا ہے اس کا دین سچا ہے اور حق کا راستہ پہنچاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرآن موجود ہے۔

لیکن دنیا میں لوگ اس کلام الٰہی کو اپنا اور ثالث ماننے کے لئے تیار نہیں۔ بالآخر پھر قیامت کا دن ہی رہ جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا اور سچوں کو جنت میں اور دوسروں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔

ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (۱۰)

یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں۔‏

فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ

وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے

جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ

اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس کے جوڑے بنا دیئے ہیں (١) اور چوپایوں کے جوڑے بنائے ہیں(۲) تمہیں وہ اس میں پھیلا رہا ہے (۳)

۱۔ یعنی یہ اس کا احسان ہے کہ تمہاری جنس سے ہی اس نے تمہارے جوڑے بنائے ورنہ اگر تمہاری بیویاں انسانوں کی بجائے کسی اور مخلوق سے بنائی جاتیں تو تمہیں یہ سکون حاصل نہ ہوتا جو اپنی ہم جنس اور ہم شکل بیوی سے ملتا ہے۔

۲۔ یعنی یہی جوڑے بنائے۔ (مذکر و مؤنث) کا سلسلہ ہم نے چوپایوں مین بھی رکھا ہے‘ چوپایوں سے مراد وہی نر اور مادہ آٹھ جانور ہیں جن کا ذکر سورۃ الانعام میں کیا گیا ہے۔

آمِنِينَ  کے معنی پھیلانے یا پیدا کرنے کے ہیں یعنی وہ تمہیں کثرث سے پھیلا رہا ہے۔

 یا نسلاً بعد نسل پیدا کر رہا ہے۔ انسانی نسل کو بھی اور چوپائے کی نسل کو بھی۔

 فِيهِ کا مطلب ہے اس پیدائش میں اس طریقے پر وہ تمہیں ابتدا سے پیدا کرتا آ رہا ہے یا ’رحم میں‘ یا ’پیٹ میں‘ مراد ہے۔ یا بمعنی به ہے یعنی تمہارا جوڑا بنانے کے سبب سے تمہیں پیدا کرتا یا پھیلاتا ہے کیوکہ یہ زوجیت ہی نسل کےا سبب ہے۔ فتح القدیر و ابن کثیر

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (۱۱)

اس جیسی کوئی چیز نہیں (۱) وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‏

نہ ذات میں نہ صفات میں، پس وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے، واحد اور بےنیاز۔

لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۱۲)

آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ہیں جس کی چاہے روزی کشادہ کردے اور تنگ کردے، یقیناً وہ ہرچیز کو جاننے والا ہے۔

مَقَالِيدُ خزانے یا چابیاں۔

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ۖ

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا

شَرَعَ کے معنی ہیں ’بیان کیا‘ واضح کیا اور مقرر کیا ۔

لَكُمْ تمہارے لیے۔ یہ امت محمدیہ سے خطاب ہے۔

 مطلب ہے کہ تمہارے لیے وہی دین مقرر یا بیان کیا ہے جس کی وصیت اس سے قبل تمام انبیا کو کی جاتی رہی ہے۔ اس ضمن میں چند جلیل القدر انبیا کے نام ذکر فرمائے۔

أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ

کہ اس دین کو قائم رکھنا(۱)  اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا (۲)

۱۔ الدِّينِ سے مراد  ’اللہ پر ایمان‘ توحید اطاعت رسول اور شریعت الٰہیہ کو ماننا ہے۔ تمام انبیا کا یہی دین تھا جس کی وہ دعوت اپنی اپنی قوم کو دیتے رہے۔ اگرچہ ہر نبی کی شریعت اور منہج میں بعض جزوی اختلافات ہوتے تھے جیسا کہ فرمایا:

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا  (۵:۴۸)

لیکن مذکورہ اصول سب کے درمیان مشترکہ تھے۔ اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

 ہم انبیا کی جماعت علاقی بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے۔ صحیح بخاری

اور یہ ایک دین وہی توحید و اطاعت رسول ہے‘ یعنی ان کا تعلق ان فروعی مسائل سے نہیں ہے جن میں دلائل باہم مختلف یا متعارض ہوتے ہیں یا جن میں کبھی فہم کا تباین اور تفاوت ہوتا ہے۔ کیونکہ ان میں اجتہاد یا اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اس لیے یہ مختلف ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں تاہم توحید و اطاعت فروعی نہیں اصولی مسئلہ ہے جس پر کفرو ایمان کا دار و مدار ہے۔

۲۔ صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت (یا اس کے رسول کی اطاعت جو دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے)، اس کی عبادت و اطاعت سے گریزاں ان میں دوسروں کو شریک کرنا، انتشار انگیزی، جس سے ' پھوٹ ڈالنا ' کہہ کر منع کیا گیا ہے۔

كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ ا

جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے

اور وہی توحید اور اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔

للَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (۱۳)

اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے (۱) اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے ۔‏(۲)

۱۔  یعنی جس کی ہدایت کا مستحق سمجھتا ہے، اسے ہدایت کے لئے چن لیتا ہے

۲۔  یعنی اپنے دین اپنانے کی اور عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرنے کی توفیق اس شخص کو عطا کر دیتا ہے جو اس کی اطاعت و عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے۔

وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ

ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی باہمی ضد بحث سے

یعنی انہوں نے اختلاف اور تفرق کا راستہ علم یعنی ہدایت آ جانے اور اتمام حجت کے بعد اختیار کیا‘ جب کہ اختلاف کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ لیکن محض بغض و عناد‘ ضد اور حسد کی وجہ سے ایسا کیا۔

 اس سے بعض نے یہود اور بعض نے قریش مکہ مراد لیے ہیں۔

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ

اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت تک کے لئے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا

یعنی اگر ان کی بابت عقوبیت میں تاخیر کا فیصلہ پہلے سے نہ ہوتا تو فوراً عذاب بھیج کر ان کو ہلاک کر دیا جاتا۔

وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (۱۴)

اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں

اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جو اپنے سے ماقبل کے یہود و نصاریٰ کے بعد کتاب یعنی تورات و انجیل کے وارث بنائے گئے۔

یا مراد عرب ہیں‘ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا قرآن نازل فرمایا اور انہیں قرآن کا وارث بنایا۔

پہلے مفہوم کے اعتبار سے الْكِتَابَ سے تورات و انجیل اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اس سے مراد قرآن کریم ہے۔

فَلِذَلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ

پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں

یعنی اس تفرق اور شک کی وجہ سے، جس کا ذکر پہلے ہوا، آپ ان کو توحید کی دعوت دیں اور اس پر جمے رہیں۔

وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ

اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں

یعنی انہوں نے اپنی خواہش سے جو چیزیں گڑ لی ہیں‘ مثلاً بتوں کی عبادت وغیرہ‘ اس میں ان کی خواہش کے پیچھے مت چلیں۔

وَقُلْ آمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ

اور کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں یعنی جب بھی تم اپنا کوئی معاملہ میرے پاس لاؤ گے تو اللہ کے احکام کے مطابق اس کا عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔

اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ

ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ہم تم میں کوئی کٹ حجتی نہیں

یعنی کوئی جھگڑا نہیں‘ اس لیے کہ حق ظاہر اور واضح ہو چکا ہے۔

اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (۱۵)

اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔‏

وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ (۱۶)

اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اسکے بعد کہ (مخلوق) انہیں مان چکی (١) ان کی خواہ مخواہ کی حجت اللہ کے نزدیک باطل ہے

اور ان پر غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔‏

یعنی یہ مشرکین مسلمانوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں، جنہوں نے اللہ اور رسول کی بات مان لی، تاکہ انہیں پھر راہ ہدایت سے ہٹا دیں۔

 یا مراد یہود انصاریٰ ہیں جو مسلمانوں سے جھگڑتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے اور ہمارا نبی بھی تمہارے نبی سے پہلے ہوا ہے، اس لئے ہم تم سے بہتر ہیں۔

دَاحِضَةٌ کے معنی کمزور‘ باطلؒ جس کو ثبات نہیں۔

اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ۗ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ (۱۷)

اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے اور ترازو بھی (اتاری ہے) (١) آپ کو کیا خبر شاید قیامت قریب ہی ہو۔‏

الْكِتَابَ سے مراد جنس ہے یعنی تمام پیغمبروں پر جتنی کتابیں نازل ہوئیں، وہ سب حق اور سچی تھیں یا بطور خاص قرآن مجید مراد ہے اور اس کی صداقت کو واضح کیا جا رہا ہے۔

وَالْمِيزَانَ سے مراد عدل و انصاف ہے۔

عدل کو ترازو سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ دہ برابری اور انصاف کا آلہ ہے۔ اس کے ذریعے سے ہی لوگوں کے درمیان برابری ممکن ہے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیات بھی ہیں:

‏لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ (۵۷:۲۵)

یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور انصاف نازل فرمایا تا کہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔

وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ ـ أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ ـ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ ـ (۵۵:۷،۸،۹)

اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی تا کہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو۔ انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ

اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے

یعنی استہزاد کے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کو آنا ہی کہاں سے ہے؟

اس لئے کہتے ہیں کہ قیامت جلدی آئے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ۗ

اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں وہ تو اس سے ڈر رہے ہیں (٢)‏انہیں اس کے حق ہونے کا پورا علم ہے

اس لئے کہ ایک تو ان کو اس کے وقوع کا پورا یقین ہے۔ دوسرے ان کو خوف ہے کہ اس روز بے لاگ حساب ہو گا‘ کہیں وہ بھی مؤخذہ الہٰی کی زد میں نہ آ جائیں۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے:

وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ (المؤمنون ۶۰)

أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (۱۸)

 یاد رکھو جو لوگ قیامت کے معاملہ میں لڑ جھگڑ رہے ہیں وہ دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں

يُمَارُونَ کے معنی لڑنا جھگڑنا ہیں یا بمعنی ریب و شک۔

اس لئے کہ وہ ان دلائل پر غور و فکر ہی نہیں کرتے جو ایمان لانے کے موجب بن سکتے ہیں حالانکہ یہ دلائل روز و شب ان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان کی نظروں سے گزرتے ہیں اور ان کی عقل و فہم میں آسکتے ہیں۔ اس لئے وہ حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔

اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (۱۹)

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی لطف کرنے والا ہے، جسے چاہتا ہے کشادہ روزی دیتا ہے اور وہ بڑی طاقت، بڑے غلبے والا ہے۔‏

مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ

جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے

حَرْثِ کے معنی تخم ریزی کے ہیں۔ یہاں یہ بہ طریق استعارہ المال کے ثمرات و فوائد پر بولا گیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جو شخص دنیا میں اپنے اعمال و محنت کے ذریعے سے آخرت کے اجر و ثواب کا طالب ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی کھیتی میں اضافہ فرمائے گا کہ ایک ایک نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک بھی عطا فرمائے گا۔

وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ (۲۰)

اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے (۱) ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں (۲)

۱۔ یعنی طالب دنیا کو دنیا تو ملتی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنے اللہ کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہوتی ہے۔

۲۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۸ میں بھی بیان ہوا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ دنیا تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اتنی ضرور دیتا ہے جتنے اس نے لکھ دی ہے‘ کیونکہ وہ سب کی روزی کا ذمہ لئے ہوئے ہے‘ طالب دنیا کو بھی اور طالب آخرت کو بھی۔تا ہم جو طالب آخرت ہو گا یعنی آخرت کے لیے کسب و محنت کرے گا تو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا فرمائے گا‘ جب کہ طالب دنیا کے لیے آخرت میں سوائے جہنم کے عذاب کے کچھ نہیں ہو گا۔

اب یہ انسان کو خود سوچ لینا چاہیے کہ اس کا فائدہ طالب دنیا بننے میں ہے یا طالب آخرت بننے میں۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ ۚ

کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں

وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۲۱)

اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً (ان) ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ ۗ

آپ دیکھیں گے کہ یہ ظالم اپنے اعمال سے ڈر رہے ہونگے (١) جن کے وبال ان پر واقع ہونے والے ہیں (٢)

۱۔ یعنی قیامت والے دن۔

۲۔  حالانکہ ڈرنا بےفائدہ ہوگا کیونکہ اپنے کئے کی سزا تو انہیں بہرحال بھگتنی ہوگی۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ ۖ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے وہ بہشتوں کے باغات میں ہوں گے

وہ جو خواہش کریں اپنے رب کے پاس موجود پائیں گے

ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (۲۲)

یہی ہے بڑا فضل۔‏

ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ

یہی وہ ہے جس کی بشارت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دے رہا ہے جو ایمان لائے اور (سنت کے مطابق) نیک عمل کئے

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى ۗ

 تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی

قبائل قریش اور نبی ﷺ کے درمیان رشتے داری کا تعلق تھا‘

آیت کا مطلب بالکل واضح ہے کہ میں وعظ و نصیحت اور تبلیغ و دعوت کی کوئی اجرت تم سے نہیں مانگتا‘ البتہ ایک چیز کا سوال ضرور ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو رشتے داری ہے‘ اس کا لحاظ کرو‘ تم میری دعوت کو نہیں مانتے تو نہ مانو‘ تمہاری مرضی۔ لیکن مجھے نقصان پہنچانے سے تو باز رہو‘ تم میرے دست و بازو نہیں بن سکتے تو رشتہ داری و قرابت کے ناطے مجھے ایذا تو نہ پہنچاؤ اور میرے راستے کا روڑہ تو نہ بنو کہ میں فریضئہ رسالت ادا کر سکوں۔

وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ

جو شخص کوئی نیکی کرے ہم اس کے لئے اس کی نیکی میں اور نیکی بڑھا دیں گے

یعنی اجر و ثواب میں اضافہ کریں گے یا نیکی کے بعد اس کا بدلہ مزید نیکی کی توفیق کی صورت میں دیں گے جس طرح بدی کا بدلہ مزید بدیوں کا ارتکاب ہے۔

إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ (۲۳)

بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا (اور) بہت قدردان ہے۔‏

اس لئے وہ پردہ پوشی فرماتا اور معاف کر دیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اجر دیتا ہے۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ

کیا یہ کہتے ہیں کہ (پیغمبر نے) اللہ پر جھوٹ باندھا ہے،

فَإِنْ يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَى قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ

 اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے (١) اور اللہ تعالیٰ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے (٢) اور سچ کو ثابت رکھتا ہے۔

۱۔ یعنی اس الزام میں اگر صداقت ہوتی تو ہم آپ کے دل پر مہر لگا دیتے، جس سے وہی محو ہو جاتا جس کے گھڑنے کا انتساب آپ کی طرف کیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کو اس کی سخت ترین سزا دیتے۔

۲۔  یہ قرآن بھی اگر باطل ہوتا (جیسا کہ مکذبین کا دعویٰ ہے) تو یقینا ًاللہ تعالیٰ اس کو بھی مٹا ڈالتا، جیسا کہ اس کی عادت ہے۔

إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (۲۴)

 وہ سینے کی باتوں کو جاننے والا ہے۔‏

وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (۲۵)

وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے (١) اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو (سب) جانتا ہے۔‏

حَرْثِ کا مطلب ہے، معصیت پر ندامت کا اظہار اور آئندہ اس کو نہ کرنے کا عزم

 محض زبان سے توبہ کر لینا یا اس گناہ اور معصیت کے کام کو تو نہ چھوڑنا اور توبہ کا اظہار کئے جانا، توبہ نہیں ہے۔ یہ استہزاء اور مذاق ہے۔ تاہم خالص اور سچی توبہ اللہ تعالیٰ یقینا ًقبول فرماتا ہے۔

وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ

ایمان والوں اور نیکوکار لوگوں کی سنتا ہے (١) اور انہیں اپنے فضل سے اور بڑھا کر دیتا ہے

یعنی ان کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی خواہشیں اور آرزوئیں پوری فرماتا ہے۔ بشرطیکہ دعا کے آداب و شرائط کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہو،

 اور حدیث میں آتا ہے:

 اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری معہ کھانے پینے کے سامان کے، صحرا، بیابان میں گم ہو جائے اور وہ نا امید ہو کر کسی درخت کے نیچے لیٹ جائے کہ اچانک اسے اپنی سواری مل جائے اور فرط مسرت میں اس کے منہ سے نکل جائے، اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب یعنی شدت فرحت میں غلطی کر ۔ صحیح مسلم

وَالْكَافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ (۲۶)

 اور کفار کے لئے سخت عذاب ہے۔‏

وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ ۚ

اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد (١) برپا کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا نازل فرماتا ہے،

یعنی اللہ ہر شخص کی حاجت و ضرورت سے زیادہ یکساں طور پر وسائل رزق عطا فرما دیتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئی کسی کی ماتحتی قبول نہ کرتا، ہر شخص شرو فساد اور دشمنی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتا، جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔

إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ (۲۷)

 وہ اپنے بندوں سے پورا خبردار ہے اور خوب دیکھنے والا ہے۔‏

وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ (۲۸)

اور وہی ہے جو لوگوں کے نا امید ہو جانے کے بعد بارش برساتا ہے(١)‏ اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے وہی ہے کارساز اور قابل حمد و ثنا (۲)‏

۱۔ جو انواع رزق کی پیداوار میں سب سے زیادہ مفید اور اہم ہے۔

 یہ بارش جب نا امیدی کے بعد ہوتی ہے تو اس نعمت کا صحیح احساس بھی اسی وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس طرح کرنے میں حکمت بھی یہی ہے کہ بندے اللہ کی نعمتوں کی قدر کریں اور اس کا شکر بجا لائیں۔

۲۔ کار ساز ہے، اپنے نیک بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، انہیں منافع سے نوازتا ہے اور شرور اور مہلکات سے ان کی حفاطت فرماتا ہے۔ اپنے ان انعامات بےپایاں اور احسانات فراواں پر قابل حمد و ثنا ہے۔

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ ۚ وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ (۲۹)

اور اسکی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور ان میں جانداروں کا پھیلانا وہ اس پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے انہیں جمع کر دے

یعنی روئے زمین پر پھیلے ہوئے، جن و انس تمام جاندار حیوانات شامل ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک ہی میدان میں جمع فرما دے گا۔

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ (۳۰)

تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے

گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں، جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کے بعد آخرت میں اس پر مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔

حدیث میں آتا ہے :

مؤمن کو جو بھی تکلیف اور ہم و حزن پہنچتا ہے حتیٰ کہ اس کے پیر میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ صحیح بخاری

وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ۖ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۳۱)

اور تم ہمیں زمین میں عاجز کرنے والے نہیں ہو (١) تمہارے لئے سوائے اللہ تعالیٰ کے نہ کوئی کارساز نہ مدد گار۔‏

یعنی تم بھاگ کر کسی ایسی جگہ نہیں جاسکتے کہ جہاں تم ہماری گرفت میں نہ آسکو یا جو مصیبت ہم تم پر نازل کرنا چاہیں، اس سے تم بچ جاؤ۔

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ (۳۲)

اور دریا میں چلنے والی پہاڑوں جیسی کشتیاں اس کی نشانیوں میں سے ہیں

سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے تو سمندروں میں ہی کھڑے رہیں۔

إِنْ يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (۳۳)

اگر وہ چاہے تو ہوا بند کر دے اور یہ کشتیاں سمندروں پر رکی رہ جائیں۔ یقیناً اس میں ہر صبر کرنے والے شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں۔‏

أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوا وَيَعْفُ عَنْ كَثِيرٍ (۳۴)

یا انہیں ان کے کرتوتوں کے باعث تباہ کر دے (١) وہ تو بہت سی خطاؤں سے درگزر فرمایا کرتا ہے ۔‏(٢)

۱۔ یعنی سمندر کو حکم دے اور اس کی موجوں میں طغیانی آجائے اور یہ ان میں ڈوب جائیں۔

۲۔  ورنہ سمندر میں سفر کرنے والا کوئی بھی سلامتی کے ساتھ واپس نہ آسکے۔

وَيَعْلَمَ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِنَا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ (۳۵)

اور تاکہ جو لوگ ہماری نشانیوں میں جھگڑتے ہیں (١) وہ معلوم کرلیں کہ ان کے لئے کوئی چھٹکارہ نہیں (١)‏

۱۔ یعنی اس کا انکار کرتے تھے۔

۲۔ یعنی اللہ کے عذاب سے وہ کہیں بھاگ کر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔

فَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ

تو تمہیں جو کچھ دیا گیا وہ زندگانی دنیا کا کچھ یونہی سا اسباب ہے

یعنی معمولی اور حقیر ہے، چاہے قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو، اس لئے اس سے دھوکے میں مبتلا نہ ہونا کہ یہ عارضی اور فانی ہے۔

وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۳۶)

اور اللہ کے پاس جو ہے وہ اس سے بدرجہ بہتر اور پائیدار ہے، وہ ان کے لئے ہے جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔‏

یعنی نیکیوں کا جو اجر و ثواب اللہ کے ہاں ملے گا وہ متاع دنیا سے کہیں بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی، کیونکہ اس کو زوال اور فنا نہیں،

مطلب ہے دنیا کو آخرت پر ترجیح مت دو، ایسا کرو گے تو پچھتاؤ گے۔

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (۳۷)

اور کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں  

یعنی لوگوں سے عفو و درگزر کرنا ان کے مزاج و طبیعت کا حصہ ہے نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے:

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا، ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا توڑا جانا آپ کے لئے ناقابل برداشت تھا۔

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ

اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں (١) اور نماز کی پابندی کرتے ہیں (٢)

۱۔ یعنی اس کے حکم کی اطاعت، اس کے رسول کا اتباع اور اسکے حکم کو نہ ماننے سے پرہیز کرتے ہیں

۲۔  نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادت میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔

وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (۳۸)

اور ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے(١)  اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہمارے نام پر) دیتے ہیں۔‏

شُورَى یعنی اہل ایمان ہر اہم کام باہمی مشاورت سے کرتےہیں‘ اپنی ہی رائے کو حرف آخر نہیں سجھتے خود نبی ﷺ کو بھی اللہ نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے مشورہ کرو ۔ (آل عمران ۱۵۹) چنانچہ آپ جنگی معاملات اور دیگر اہم کاموں میں مشاورت کا اہتمام فرماتے تھے۔ جس  سےمسلمانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی اور معاملے کے مختلف گوشے واضح ہو جاتے۔

وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ (۳۹)

اور جب ان پر ظلم (و زیادتی) ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں۔‏

یعنی بدلہ لینے سے وہ عاجز نہیں ہیں‘ اگر بدلہ لینا چاہیں تو لے سکتے ہین‘ تاہم قدرت کے باوجود وہ معافی کو ترجیح دیتے ہیں

 جیسے نبی ﷺ نے فتح مکہ والے دن اپنے خون کے پیاسوں کے لیے عفو عام کا اعلان فرما دیا‘ حدیبیہ میں آپ نے ان ۸۰ آدمیوں کو معاف کر دیا‘ جنہوں نے آپ کے خلاف سازش تیار کی تھی‘ لبید بن عاصم یہودی سے بدلہ نہیں لیا جس نے آپ پر جادو کیا تھا‘ اس یہودیہ عورت کو آپ نے کچھ نہیں کہا جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا تھا‘ جس کی تکلیف آپ دم واپسیں تک محسوس فرماتے رہے۔ ابن کثیر

وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے (١) اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے،

یہ (قصاص(بدلہ لینے) کی اجازت ہے۔ برائی کا بدلہ اگرچہ برائی نہیں ہے لیکن مشکلات کی وجہ سے اسے بھی برائی ہی کہا گیا ہے۔

إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (۴۰)

 (فی الواقع) اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‏

وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ (۴۱)

اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر (الزام) کا کوئی راستہ نہیں۔‏

إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۴۲)

یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں،

یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (۴۳)

اور جو شخص صبر کرلے اور معاف کر دے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے (ایک کام) ہے۔‏

وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ وَلِيٍّ مِنْ بَعْدِهِ ۗ

اور جسے اللہ تعالیٰ بہکا دے اس کا اس کے بعد کوئی چارہ ساز نہیں،

وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَى مَرَدٍّ مِنْ سَبِيلٍ

اور تو دیکھے گا کہ ظالم لوگ عذاب کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے کہ کیا واپس جانے کی کوئی راہ ہے۔‏

وَتَرَاهُمْ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا خَاشِعِينَ مِنَ الذُّلِّ يَنْظُرُونَ مِنْ طَرْفٍ خَفِيٍّ ۗ

اور تو انہیں دیکھے گا کہ وہ (جہنم کے) سامنے لا کھڑے کئے جائیں گے مارے ذلت کے جھکے جا رہے ہونگے اور کن آنکھوں سے دیکھ رہے ہونگے،

وَقَالَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ

 ایمان دار صاف کہیں گے کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈال دیا۔

أَلَا إِنَّ الظَّالِمِينَ فِي عَذَابٍ مُقِيمٍ (یاد رکھو کہ یقیناً ظالم لوگ دائمی عذاب میں ہیں ۔۴۵)

یعنی دنیا میں یہ کافر ہمیں بیوقوف اور دنیاوی خسارے کا حامل سمجھتے تھے، جب کہ ہم دنیا میں صرف آخرت کو ترجیح دیتے تھے اور دنیا کے خساروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ آج دیکھ لو حقیقی خسارے سے کون دو چار ہے۔ وہ جنہوں نے دنیا کے عارضی خسارے کو نظر انداز کیے رکھا اور آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں یا وہ جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا تھا اور آج ایسے عذاب میں گرفتار ہیں جس سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔

وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ أَوْلِيَاءَ يَنْصُرُونَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۗ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ سَبِيلٍ (۴۶)

ان کے کوئی مددگار نہیں جو اللہ سے الگ ان کی امداد کر سکیں اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے کوئی راستہ نہیں۔‏

اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۚ

اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے ،

یعنی جس کو روکنے اور ٹالنے کی کوئی طاقت نہیں رکھے گا۔

مَا لَكُمْ مِنْ مَلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَكِيرٍ (۴۷)

 تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی (٢)۔‏

یعنی تمہارے لئے کوئی ایسی جگہ نہیں ہوگی، کہ جس میں تم چھپ کر انجان بن جاؤ اور پہنچانے نہ جاسکو یا نظر میں نہ آسکو ۔

جیسے فرمایا:

اس دن انسان کہے گا، کہیں بھاگنے کی جگہ ہے، ہرگز نہیں، کوئی راہ فرار نہیں ہوگی، اس دن تیرے رب کے پاس ہی ٹھکانا ہوگا ۔ سورہ القیامۃ ۱۰،۱۱،۱۲

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ

اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا، آپ کے ذمہ تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے

وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ

ہم جب کبھی انسان کو اپنی مہربانی کا مزہ چکھاتے (١) ہیں تو وہ اس پر اترا جاتا ہے (٢)

۱۔ یعنی وسائل رزق کی فروانی، صحت و عافیت، اولاد کی کثرت، جاہ و منصب وغیرہ۔

۲۔  یعنی تکبر اور غرور کا اظہار کرتا ہے، ورنہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونا یا اس کا اظہار ہونا، ناپسندیدہ امر نہیں، لیکن وہ تحدیث نعمت اور شکر کے طور پر نہ کہ فخر و ریا اور تکبر کے طور پر۔

وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنْسَانَ كَفُورٌ (۴۸)

اور اگر انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت (١) پہنچتی ہے تو بیشک بڑا ہی ناشکرا ہے۔‏

مال کی کمی، بیماری، اولاد سے محرومی وغیرہ۔

یعنی فوراً نعمتوں کو بھی بھول جاتا ہے اور نعمتیں دینے والے کو بھی۔

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (۴۹)

آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔

‏ یعنی کائنات میں صرف اللہ ہی کی مشیت اور اس کی تدبیر چلتی ہے‘ وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے‘ جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ کوئی دوسرا اس میں دخل اندازی کرنے کی قدرت و اختیار نہیں رکھتا۔

أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (۵۰)

یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔‏

یعنی جس کو چاہتا ہے مذکر اور مؤنث دونوں دیتا ہے۔

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ

ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے

 یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے،

اس آیت میں وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں:

-  پہلی یہ کہ دل میں کسی بات کا ڈال دینا یا خواب میں بتلا دینا اور یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

-  دوسری، پردے کے پیچھے سے کلام کرنا، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور پر کیا گیا،

-  تیسری، فرشتے کے ذریعے اپنی وحی بھیجنا، جیسے جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آتے اور پیغمبروں کو سناتے رہے۔

إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (۵۱)

 بیشک وہ برتر حکمت والا ہے۔‏

وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا ۚ

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے،

رُوح سے مراد قرآن ہے۔ یعنی جس طرح آپ سے پہلے اور رسولوں پر ہم وحی کرتے رہے، اسطرح ہم نے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے

قرآن کو رُوح اس لئے تعبیر کیا ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔

مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ

آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے (۱) لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں

كِتَاب سے مراد قرآن ہے، یعنی نبوت پہلے قرآن کا بھی کوئی علم آپ کو نہیں تھا اور اسی طرح ایمان کی ان تفصیلات سے بھی بےخبر تھے جو شریعت میں مطلوب ہیں۔

یعنی قرآن کو نور بنایا‘ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے ہم جسے چاہتے ہیں‘ ہدایت سے نوازتے ہیں۔

وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۵۲)

بیشک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔‏

صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ

اس اللہ کی راہ (١) جس کی ملکیت میں آسمانوں اور زمین کی ہرچیز ہے۔

یہ صراط مستقیم، اسلام ہے۔ اس کی اضافت اللہ نے اپنی طرف فرمائی ہے جس سے اس راستے کی عظمت و شان واضح ہوتی ہے اور اس کے واحد راہ نجات ہونے کی طرف اشارہ بھی۔

أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ (۵۳)

 آگاہ رہو سب کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتے ہیں

یعنی قیامت والے دن تمام معاملات کا فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوگا، اس میں سخت وعید ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter