Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Zukhruf

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حم (۱)

حم

وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (۲)

قسم ہے اس واضح کتاب کی۔‏

إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۳)

ہم نے اسکو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو

جو دنیا کی فصیح ترین زبان ہے، دوسرے، اس کے اولین مخاطب بھی عرب تھے، انہی کی زبان میں قرآن اتارا تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے سمجھ سکیں۔

وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ (۴)

یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت (١) والی ہے۔‏

اس میں قرآن کریم کی اس عظمت اور شرف کا بیان ہے جو ملاء اعلیٰ میں اسے حاصل ہے تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف و عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور اس سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لئے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے

 أُمِّ الْكِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے۔

أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ (۵)

کیا ہم اس نصیحت کو تم سے اس بنا پر ہٹا لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو .

اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں مثلاً

١۔ تم چونکہ گناہوں میں بہت بڑھ چکے ہو اور ان پر مصر ہو، اس لئے کہ یہ گمان کرتے ہو کہ ہم وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے؟

 ٢۔ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کرلیں گے

 ٣۔ یا تمہیں ہلاک کر دیں گے اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں نہ منع کریں،

 ٤۔ چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو۔ اس لیے ہم انزال قرآن کا سلسلہ ہی بند کر دیں۔

پہلے مفہوم کو امام طبری نے اور آخری مفہوم کو امام ابن کثیر نے زیادہ پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اللہ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے خیر اور ذکر حکیم (قرآن) کی طرف دعوت دینے کا سلسلہ موقوف نہیں فرمایا‘ اگرچہ وہ اعراض و انکار میں حد سے تجاوز کر رہے تھے‘ تا کہ جس کے لیے ہدایت مقدر ہے فہ اس کے ذریعے سے ہدایت اپنا لے اور جن کے لیے شقاوت لکھی جا چکی ہے ان پر حجت قائم ہو جائے۔

وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِنْ نَبِيٍّ فِي الْأَوَّلِينَ (۶)

اور ہم نے اگلے لوگوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجے۔‏

وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۷)

جو نبی ان کے پاس آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔‏

فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ (۸)

پس ہم نے ان سے زیادہ زورآوروں (١) کو تباہ کر ڈالا اور اگلوں کی مثال گزر چکی ہے۔‏(۲)

۱۔ یعنی اہل مکہ سے زیادہ زور آور تھے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً

وہ ان سے تعداد اور قوت میں کہیں زیادہ تھے ۔ (۳۹:۸۲)

۲۔ یعنی قرآن مجید میں ان قوموں کا تذکرہ یا وصف متعدد مرتبہ گزر چکا ہے‘ اس میں اہل مکہ کے لیے تہدید ہے کہ پچھلی قومیں رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ اگر یہ بھی تکذیب رسالت پر مصر رہے تو ان کی مثل یہ بھی ہلاک کر دیے جائیں گے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (۹)

اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ

انہیں غالب و دانا (اللہ) ہی نے پیدا کیا ہے۔‏(١)

لیکن اس اعتراف کے باوجود انہی مخلوقات میں سے بہت سوں کو ان نادانوں نے اللہ کا شریک ٹھہرا لیا ہے۔ اس میں ان کے جرم کی ثناعت و قباحت کھ بھی بیان ہے اور ان کی سفاہت و جہالت کا اظہار بھی۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۰)

وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش (بچھونا) (١) بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے کر دیئے تاکہ تم راہ پا لیا کرو ۔‏(٢)

۱۔ ایسا بچھونا، جس میں ثبات و قرار ہے، تم اس پر چلتے ہو، کھڑے ہوتے اور سوتے ہو اور جہاں چاہتے ہو، پھرتے ہو اس نے اس کو پہاڑوں کے ذریعے سے جما دیا تاکہ اس میں حرکت و جنبش نہ ہو۔

۲۔ یعنی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لئے راستے بنا دیئے تاکہ کاروباری، تجارتی اور دیگر مقاصد کے لئے تم آجا سکو۔

وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَلِكَ تُخْرَجُونَ (۱۱)

اسی نے آسمان سے ایک اندازے (١) کے مطابق پانی نازل فرمایا، پس ہم نے اس مردہ شہر کو زندہ کر دیا۔ اسی طرح تم نکالے جاؤ گے (٢)‏

۱۔ جس سے تمہاری ضرورت پوری ہو سکے، کیونکہ قدرت حاجت سے کم بارش ہوتی وہ تمہارے لئے مفید ثابت نہ ہوتی اور زیادہ ہوتی تو وہ طوفان بن جاتی، جس سے تمہارے ڈوبنے اور ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا۔

 ۲۔  یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین شاداب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن تمہیں بھی زندہ کر کے قبروں سے نکال لیا جائے گا۔

وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ (۱۲)

جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے کشتیاں بنائیں اور چوپائے جانور (پیدا کیے) جن پر تم سوار ہوتے ہو۔‏

یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا‘ نر اور مادہ‘ نباتات‘ کھیتیاں‘ پھل‘ پھل اور حیوانات سب میں نر اور مادہ کا سلسلہ ہے‘

بعض کہتے ہیں اس سے مراد ایک دوسرے کی مخالف چیزیں ہیں جیسے روشنی اور اندھیرا‘ مرض اور صحت‘ انصاف اور ظلم‘ خیر اور شر‘ ایمان اور کفر‘ نرمی اور سختی وغیرہ۔

بعض کہتے ہیں أَزْوَاجَ ‘ اصناف کے معنی میں ہے۔ تمام انواع و اقسام کا خالق اللہ ہے۔

لِتَسْتَوُوا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ

تاکہ تم ان کی پیٹھ پر جم کر سوار ہوا کرو (١) پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو

إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (۱۳)

جب اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے اس کی جس نے ہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی (۲) طاقت نہ تھی۔‏

۱۔ لِتَسْتَوُوا یعنی جم کر بیٹھ جاؤ یا چڑھ جاؤ۔

ظُهُورِهِ میں ضمیر واحد باعتبار جنس کے لیے ہے‘

۲۔ یعنی اگر ان جانوروں کو ہمارے تابع اور ہمارے بس میں نہ کرتا تو ہم انہیں اپنے قابو میں رکھ کر ان کی سواری، بار برداری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (۱۴)

اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‏

نبی کریم ﷺ یب سواری پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے اور  سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ  تک آیت پڑھتے۔ علاوہ ازیں خیر و عافیت کی دعا مانگتے۔  

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ (۱۵)

اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو جز ٹھہرا (١) دیا یقیناً انسان کھلا ناشکرا ہے۔‏

عِبَادِهِ سے مراد فرشتے اور جُزْءًا سے مراد بیٹیاں یعنی فرشتے، جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ یوں وہ مخلوق کو اللہ کا شریک اور اس کا جزء مانتے تھے۔ حالانکہ وہ ان چیزوں سے پاک ہے۔

بعض نے جُزْءًا سے یہاں نذر و نیاز کے طور پر نکالے جانے والے وہ جانور مراد لیے ہیں جن کا ایک حصہ مشرکین اللہ کے نام پر اور ایک حصہ بتوں کے نام پر نکالا کرتے تھے جس کا ذکر سورۃ الانعام‘ ۱۳۶ میں ہے۔

أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُمْ بِالْبَنِينَ (۱۶)

کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں تو خود رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا۔‏

اس میں ان کی جہالت اور سفاہت کا بیان ہے جو انہوں نے اللہ کے لیے اولاد بھی ٹھہرائی ہوئی ہے جسے یہ خود ناپسند کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی اولاد ہوتی تو کیا ایسا ہی ہوتا تا کہ خود تو اس کی لڑکیاں ہوتیں اور تمہیں وہ لڑکوں سے نوازتا۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (۱۷)

(حالانکہ) ان میں سے کسی کو جب اس چیز کی خبر دی جائے جس کی مثال اس نے (اللہ) رحمٰن کے لئے بیان کی ہے

 تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غمگین ہو جاتا ہے۔‏

أَوَمَنْ يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ (۱۸)

کیا (اللہ کی اولاد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کر سکیں؟‏

يُنَشَّأُ ‘ بمعنی تربیت اور نشو ونما۔

عورتوں کی دو صفات کا تذکرہ بطور خاص یہاں کیا گیا ہے۔ ان کی تربیت اور نشوونما زیورات اور زینت میں ہوتی ہے‘ یعنی شعور کی آنکھیں کھولتے ہی ان کی توجہ حسن افزا اور جمال افروز چیزوں کی طرف ہو جاتی ہے۔

مقصد اس وضاحت سے یہ ہے کہ جن کی حالت یہ ہے‘ وہ تو اپنے ذاتی معاملات کے درست کرنے کی بھی استعداد و صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ادر کسی سے بحث و تکرار ہو تو وہ اپنی بات بھی صحیح طریقے سے (فطری حجاب کی وجہ سے) واضح نہیں کر سکتیں نہ فریق مخالف کے دلائل کا توڑ ہی کر سکتی ہیں۔

یہ عورت کی وہ دو فطری کمزوریاں ہیں جن کی بنا پر مرد حضرات عورتوں پر ایک گونہ فضیلت رکھتے ہیں۔

سیاق سے بھی مرد کی یہ برتری واضح ہے‘ کیونکہ گفتگو اسی ضمن میں یعنی مرد و عورت کے درمیان جو فطری تفاوت ہے‘ جس کی بنا پر بچی کے مقابلے میں بچے کی ولادت کو زیادہ پسند کیا جاتا تھا‘ ہو رہی ہے،

وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا ۚ

اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔

أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ

کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟

سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ (۱۹)

ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی ۔‏

یعنی جزا کے لئے۔ کیونکہ فرشتوں کے اللہ کی بیٹیاں ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوگی۔

وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ ۗ مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (۲۰)

اور کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے انہیں اس کی کچھ خبر نہیں (١) یہ صرف اٹکل پچو (جھوٹ باتیں) کہتے ہیں۔‏

یعنی اپنے طور پر اللہ کی مشیت کا سہارا، یہ ان کی ایک بڑی دلیل ہے کیونکہ ظاہراً یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اس بات سے بےخبر ہیں کہ اس کی مشیت، اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ ہر کام یقینا ًاس کی مشیت ہی سے ہوتا ہے لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے جن کا اس نے حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس کام سے جو انسان اللہ کی مشیت سے کرتا ہے، انسان چوری، بدکاری، ظلم اور بڑے بڑے گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو یہ گناہ کرنے کی قدرت ہی نہ دے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لے، اور اس کے قدموں کو روک دے اس کی نظر سلب کرلے۔ لیکن یہ جبر کی صورتیں ہیں جب کہ اس نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اسے آزمایا جائے، تاہم یہ اختیار اللہ دنیا میں اس سے واپس نہیں لے گا، البتہ اس کی سزا قیامت والے دن دے گا۔

أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ (۲۱)

کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی (اور) کتاب دی ہے جسے یہ مضبوط تھامے ہوئے ہیں۔‏

یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب، جس میں ان کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کا اختیار دیا ہے جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے؟

یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے آباو اجداد کی پیروی کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔

بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ (۲۲)

(نہیں نہیں) بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک مذہب پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل کر راہ یافتہ ہیں۔‏

وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ (۲۳)

اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ

ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راہ پر اور) ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں۔‏

قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ ۖ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (۲۴)

(نبی نے) کہا بھی کہ اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر (مقصود تک پہنچانے والا) طریقہ لے کر آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے منکر ہیں جسے دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ۔‏

یعنی اپنے آبا کی تقلید میں اتنے پختہ تھے کہ پیغمبر کی وضاحت اور دلیل بھی انہیں اس سے نہیں پھیر سکی۔ یہ آیت اندھی تقلید کے بطلان اور اس کی قباحت پر بہت بڑی دلیل ہے ۔

(تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر، للشوکافی)

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (۲۵)

پس ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لے جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟‏

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ (۲۶)

اور جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔‏

إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (۲۷)

بجز اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے ہدایت بھی کرے گا

یعنی جس نے مجھے پیدا کیا وہ مجھے اپنے دین کی سمجھ بھی دے اور اس پر ثابت قدم بھی رکھے گا، میں صرف اسی کی عبادت کروں گا۔

وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۲۸)

اور (ابراہیم علیہ السلام) اسی کو اپنی اولاد میں بھی باقی رہنے والی بات (١) قائم کرے گا تاکہ لوگ (شرک سے) باز آتے رہیں ۔‏(۲)

۱۔ یعنی اس کا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی وصیت اپنی اولاد کو کر گئے جیسے فرمایا ' یعنی اللہ نے اس کلمہ کو ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد میں باقی رکھا اور وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔

 ۲۔  یعنی اولاد ابراہیم میں یہ موحدین اس لئے پیدا کئے تاکہ ان کی توحید کے وعظ سے لوگ شرک سے باز آتے رہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا جو خالص توحید پر مبنی تھا نہ کہ شرک پر۔

بَلْ مَتَّعْتُ هَؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ

بلکہ میں نے ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادوں کو سامان (اور اسباب) دیا،

یہاں سے پھر ان نعمتوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں اور نعمتوں کے بعد عذاب میں جلدی نہیں کی بلکہ انہیں پوری مہلت دی، جس سے وہ دھوکے میں مبتلا ہوگئے اور خواہش کے بندے بن گئے۔

حَتَّى جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُولٌ مُبِينٌ (۲۹)

 یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف صاف سنانے والا رسول آگیا ،

حق سے قرآن اور رسول سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔

 مُبِیْن رسول کی صفت ہے، کھول کر بیان کرنے والا بیان کی رسالت واضح اور ظاہر ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ (۳۰)

اور حق کے پہنچتے ہی یہ بول پڑے کہ یہ جادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں ۔

قرآن کو جادو قرار دے کر اس کا انکار کر دیا اور اگلے الفاظ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر و تنقیص کی۔

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (۳۱)

اور کہنے لگے، یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا

دونوں بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہے اور بڑے آدمی سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک مکے کا ولید بن مغیرہ اور طائف کا عروہ بن ثقفی ہے۔

أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ

کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟

رحمت‘ نعمت کے معنی میں ہے‘ اور یہاں سب سے بڑی نعمت نبوت مراد ہے۔

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ

ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے؟

استفہام انکار کے لیے ہے۔

یعنی یہ کام ان کا نہیں ہے کہ رب کی نعمتیں بالخصوص نعمت نبوت یہ اپنی مرضی سے تقسیم کریں‘ بلکہ یہ صرف رب کا کام ہے کیوں کہ وہی ہر بات کا علم اور ہر شخص کے حالات سے پوری واقفیت رکھتا ہے‘ وہی بہتر سمجھتا ہے کہ انسانوں میں سے نبوت کا تاج کس کے سر پر رکھنا ہے اور اپنی وحی و رسالت سے کس کو نوازنا ہے۔

یعنی مال و دولت‘ جاہ و منصب اور عقل و فہم میں ہم نے یہ فرق و تفاوت اس لیے رکھا ہے تا کہ زیادہ مال والا‘ کم مال والے سے‘ اونچے منصب والا چھوٹے منصب داروں سے‘ اور عقل و فہم میں حظ و افر رکھنے والا‘ اپنے سے کم تر عقل و شعور رکھنے والے سے کام لے سکے۔

 اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ سے کائنات کا نظام بحسن و خوبی چل رہا ہے۔ ورنہ اگر سب مال میں‘ منصب میں‘ علم و فہم میں‘ عقل و شعور میں اور دیگر اسباب دنیا میں برابر ہوتے تو کوئی کسی کا کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا‘ اسی طرح کم تر اور حقیر سمجھے جانے والے کام بھی کوئی نہ کرتا۔ یہ احتیاج انسانی ہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرق و تفاوت کے اندر رکھ دی ہے جس کی وجہ سے ہر انسان دوسرے انسان بلکہ انسانوں کا محتاج ہے‘ تمام حاجات و ضروریات انسانی‘ کوئی ایک شخص‘چاہے وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو ‘ دیگر انسانوں کی مدد حاصل کیے بغیر خود فراہم کر ہی نہیں سکتا۔

وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (۳۲)

جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے

اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔

وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ (۳۳)

اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہوجائیں (١) گے

 تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنا دیتے۔ اور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے۔‏

یعنی دنیا کے مال و اسباب میں رغبت کرنے کی وجہ سے طالب دنیا ہی ہوجائیں گے اور رضائے الٰہی اور آخرت کی طلب سب فراموش کر دیں گے۔

وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ (۳۴)

اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا لگا کر بیٹھتے۔‏

وَزُخْرُفًا ۚ

اور سونے کے بھی

یعنی بعض چیزیں چاندی کی اور بعض سونے کی‘ کیونکہ تنوع میں حسن زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال ہماری نظر میں اتنا بے وقعت ہے کہ اگر مذکورہ خطرہ نہ ہوتا تو اللہ کے سب منکروں کو خوب دولت دی جاتی لیکن اس میں خطرہ یہی تھا کہ پھر سب لوگ ہی دنیا کے پرستار نہ بن جائیں۔دنیا کی حقارت اس حدیث سے بھی واضع ہے جس میں فرمایا گیا ہے:

اگر دنیا کی اللہ کے ہاں اتنے حیثیت بھی ہوتی جتنی ایک مچھر کے پر کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس دنیا سے ایک گھونٹ پانی بھی پینے کو نہ دیتا۔

وَإِنْ كُلُّ ذَلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ (۳۵)

ا ور یہ سب کچھ یونہی سا دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیزگاروں کے لئے (ہی) ہے ۔‏

جو شرک و معاصی سے اجتناب اور اللہ کی اطاعت کرتے رہے، ان کے لئے آخرت اور جنت کی نعمتیں ہیں جن کو زوال و فنا نہیں۔

وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ (۳۶)

اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے (١) ہم اس پر شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے (٢)۔‏

۱۔ عَشَا یَعْشُوْ کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہو جائے۔

۲۔  وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے۔

وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ (۳۷)

اور وہ انہیں راہ سے روکتے ہیں اور یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں ۔‏

یعنی وہ شیطان ان کے حق کے راستے کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں اور اس سے انہیں روکتے ہیں اور انہیں برابرسمجھاتے رہتے ہیں کہ تم حق پر ہو، حتٰی کہ وہ واقعی اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں یا کافر شیطانوں کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں اور ان کی اطاعت کرتے رہتے ہیں۔  (فتح القدیر)

حَتَّى إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ (۳۸)

یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا کہے گا کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی (تو) بڑا برا ساتھی ہے

مراد مشرق اور مغرب کی دوری ہے،

فَبِئْسَ الْقَرِينُ اے شیطان تو برا ساتھی ہے۔ یہ کافر قیامت والے دن کہے گا لیکن اس دن اس اعتراف کا کیا فائدہ؟

وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ (۳۹)

اور جب کہ تم ظالم ٹھہر چکے تو تمہیں آج ہرگز تم سب کا عذاب میں شریک ہونا کوئی نفع نہ دے گا۔‏

أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ وَمَنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۴۰)

کیا پس تو بہرے کو سنا سکتا ہے یا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے اور اسے جو کھلی گمراہی میں ہو ۔‏

یعنی جس کے لئے شقاوت ابدی لکھ دی گئی، وہ وعظ و  نصیحت کے اعتبار سے بہرہ اور اندھا ہے ‘ تیری دعوت و تبلیغ سے وہ راہ راست پر نہیں آسکتا۔ یہ استفہام انکاری ہے۔ جس طرح بہرہ سننے سے‘ نابینا دیکھنے سے محروم ہے‘ اسی طرح کھلی گمراہی  میں مبتلا حق کی طرف آنے سے محروم ہے۔ یہ نبی ﷺ کو تسلی ہے تا کہ ایسے لوگوں کے کفر سے آپ زیادہ تشویش محسوس نہ کریں۔

فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ (۴۱)

پس اگر ہم تجھے یہاں سے لے جائیں (١) تو بھی ہم ان سے بدلہ لینے والے ہیں ۔‏(٢)

۱۔ یعنی تجھے موت آجائے، قبل اس کے کہ ان پر عذاب آئے، یا تجھے مکے سے نکال لے جائیں۔

 ۲۔  دنیا میں اگر ہماری مشیت طلب کرنے والی ہوئی، بصورت دیگر عذاب آخروی سے تو وہ کسی صورت نہیں بچ سکتے۔

أَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنَاهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ (۴۲)

یا جو کچھ ان سے وعدہ کیا ہے (١) وہ تجھے دکھا دیں ہم ان پر بھی قدرت رکھتے ہیں ۔‏(٢)

۱۔ یعنی تیری موت سے قبل ہی،

 یا مکے میں ہی تیرے رہتے ہوئے عذاب بھیج دیں۔

۲۔  یعنی ہم جب چاہیں ان پر عذاب نازل کر سکتے ہیں، کیونکہ ہم ان پر قادر ہیں۔ چنانچہ آپ کی زندگی میں ہی بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست اور ذلت سے دو چار ہوئے۔

فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۴۳)

پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوط تھامے رہیں (١) بیشک آپ راہ راست پر ہیں۔‏

یعنی قرآن کریم کو، چاہے کوئی بھی اسے جھٹلاتا رہے۔

وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ (۴۴)

اور یقیناً (خود) آپ کے لئے اور آپ کی (١) قوم کے لئے نصیحت ہے اور عنقریب تم لوگ پوچھے جاؤ گے۔‏

اس تخصیص کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے لیے نصیحت نہیں۔ بلکہ اولین مخاطب چونکہ قریش تھے‘ اس لیے ان کا ذکر فرمایا‘ ورنہ قرآن تو پورے جہان کے لیے نصیحت ہے۔

وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (۶۸:۵۲)

وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (۲۶:۲۱۴)

یعنی یہ قرآن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف و عزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل و برتری پا سکتے ہیں اس لئے ہم کو چاہیے کہ اس کو اپنائیں اور اس پر سب سے زیادہ عمل کریں۔

بعض نے یہاں ذکر بمعنی شرف لیا ہے۔ یعنے یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف و عزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی شبان میں اترا‘ اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں‘ اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل و برتری پا سکتے ہیں‘ اس لیے ان کو چاہئے کہ اس کو اپنائیں اور اس کے مقتضا پر سب سے زیادہ عمل کریں۔

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا

اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا

پیغمبروں سے یہ سوال یا تو اسرا و معراج کے موقعے پر‘ بیت المقدس یا آسمان پر کیا گیا‘ یہاں انبیا علیہم السلام سے نبی کریم ﷺ کی ملاقاتیں ہوئیں۔ یا کا لفظ محذوف ہے۔ یعنی ان کے پیروکاروں (اہل کتاب‘ یہود و نصاریٰ) سے پوچھو‘ کیونکہ وہ ان کی تعلیمات سے آگاہ ہیں اور ان پر نازل شدہ کتابیں ان کے پاس موجود ہیں۔

أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ (۴۵)

کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے

جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اللہ نے کسی بھی نبی کو یہ حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس ہر نبی کو دعوت توحید کا حکم دیا گیا۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۴۶)

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا

تو (موسیٰ علیہ السلام نے جاکر) کہا کہ میں تمام جہانوں کے رب کا رسول ہوں۔‏

قریش مکہ نے کہا تھا کہ اگر اللہ کسی کو اپنا نبی بنا کر بھیجتا ہی تو مکے اور طائف کے کسی ایسے شخص کو بھیجتا جو صاحب مال و جاہ ہوتا۔ جیسے فرعون نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں کہا تھا کہ ’’ میں موسیٰ سے بہتر ہوں اور یہ مجھ سے کمتر ہے‘ یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا‘‘ جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

 غالباً اسی مشابہت احوال کی وجہ سے یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا‘ انہوں نے صبر اور عزم سے کام لیا‘ اسی طرح آپ بھی کفار مکہ کی ایذاؤں اور ناروا رویوں سے دل برداشتہ نہ ہوں‘ صبر اور حوصلہ سے کام لیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی طرح بالآخر فتح و کامرانی آپ ہی کی ہے اور یہ اہل مکہ فرعون ہی کی طرح ناکام و نامراد ہوں گے۔

فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِآيَاتِنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَضْحَكُونَ (۴۷)

پس جب وہ ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے تو وہ بےساختہ ان پر ہنسنے لگے ۔‏

یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دعوت توحید دی تو انہوں نے ان کے رسول ہونے کی دلیل طلب کی، جس پر انہوں نے وہ دلائل و معجزات پیش کئے جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے تھے، جنہیں دیکھ کر انہوں نے مذاق کیا اور کہا یہ کون سی چیزیں ہیں۔ یہ تو جادو کے ذریعے ہم بھی پیش کر سکتے ہیں۔

وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا ۖ وَأَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۴۸)

اور ہم نے انہیں جو نشانی دکھاتے تھے وہ دوسری سے بڑھی چڑھی ہوتی تھی (١) اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاکہ وہ باز آ جائیں (٢)۔‏

۱۔ ان نشانیوں سے وہ نشانیاں مراد ہیں جو طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون وغیرہ کی شکل میں یکے بعد دیگرے انہیں دکھائیں گئیں، جن کا تذکرہ سورہ اعراف، آیات۔١٣٣،١٣٥ میں گزر چکا ہے۔ بعد میں آنے والی ہر نشانی پہلی نشانی سے بڑی چڑھی ہوتی، جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت واضح سے واضح تر ہو جاتی۔

۲۔  مقصد ان نشانیوں یا عذاب سے یہ ہوتا تھا کہ شاید وہ تکذیب سے باز آجائیں۔

وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ

اور انہوں نے کہا اے جادو گر! (١)  ہمارے لئے اپنے رب سے (۲) اس کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے (۳)

۱۔ کہتے ہیں اس زمانے میں جادو مذموم چیز نہیں تھی اور عام فاضل شخص کو جادوگر کے لفظ سے ہی بطور تعظیم خطاب کیا جاتا تھا۔

 علاوہ ازیں معجزات اور نشانیوں کے بارے میں بھی ان کا خیال تھا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کے فن جادوگری کا کمال ہے۔ اس لیے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کے لفظ سے مخاطب کیا۔

۲۔ 'اپنے رب سے ' کے الفاظ اپنی مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیونکہ مشرکوں میں مختلف رب اور اللہ ہوتے تھے، موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے یہ کام کروا لو!

۳۔  یعنی ہمارے ایمان لانے پر عذاب ٹالنے کا وعدہ۔

إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ (۴۹)

یقین مان کہ ہم راہ پر لگ جائیں گے

اگر عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اور سورہ اعراف میں بھی گزرا۔

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ (۵۰)

پھر جب ہم نے وہ عذاب ان سے ہٹا لیا انہوں نے اسی وقت اپنا قول و اقرار توڑ دیا۔‏

وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي ۖ

اور فرعوں نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور کہا

 اے میری قوم! کیا مصر کا ملک میرا نہیں؟ اور میرے (محلوں کے) نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسی کئی نشانیاں پیش کر دیں جو ایک سے بڑھ کر ایک تھیں تو فرعون کو خطرہ لا حق ہوا کہ کہیں میری قوم موسیٰ کی طرف مائل نہ ہو جائے۔ چنانچہ اس نے اپنی ہزیمت کے داغ کو چھپانے اور قوم کو مسلسل دھوکے اور فریب میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ نئی چال چلی کہ اپنے اختیار و اقتدار کے حوالے سے موسیٰ علیہ السلام کی بے توقیری اور کمتری کو نمایاں کیا جائے تا کہ قوم میری سلطنت و سطوت سے ہی مرعوب رہے۔

اس سے مراد دریائے نیل یا اس کی بعض شاخیں ہیں جو اس کے محل کے نیچے سے گزرتی تھیں۔

أَفَلَا تُبْصِرُونَ (۵۱)

کیا تم دیکھتے نہیں؟‏

أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ (۵۲)

بلکہ میں بہتر ہوں بہ نسبت اس کے جو بےتوقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا ۔‏

یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکنت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سورہ طہ میں گزرا۔

فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ (۵۳)

اچھا اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں آپڑے (١) یا اس کے ساتھ پر باندھ کر فرشتے ہی آجاتے (٢)‏

۱۔ اس دور میں مصر اور فارس کے بادشاہ اپنی امتیازی شان اور خصوصی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لئے سونے کے کڑے پہنتے تھے۔ اسی طرح قبیلوں کے سردار کے ہاتھوں میں بھی سونے کے کڑے اور گلے میں سونے کے طوق اور زنجیریں ڈال دی جاتی ہیں۔ اسی اعتبار سے فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ اگر اس کی حیثیت اور امتیازی شان ہوتی تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے ہونے چاہیے تھے۔

۲۔  جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا رسول ہے یا بادشاہوں کی طرح اس کی شان کو نمایاں کرنے کے لئے اس کے ساتھ ہوتے۔zxxh

فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ

اس نے اپنی قوم کو بہلایا پھسلایا اور انہوں نے اسی کی مان لی

اس نے اپنی قوم کی عقل کو ہلکا سمجھا‘ یا کر دیا اور انہیں اپنی جہالت و ضلالت پر قائم رہنے کی تاکید کی‘ اور قوم اس کے پیچھے لگ گئی۔

إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (۵۴)

یقیناً یہ سارے ہی نافرمان لوگ تھے۔‏

فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ (۵۵)

پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا۔‏

فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ (۵۶)

پس ہم نے انہیں گیا گزرا کر دیا اور پچھلوں کے لئے مثال بنا دی

یعنی ان کو بعد میں آنے والوں کے لئے نصیحت اور مثال بنا دیا۔ کہ وہ اس طرح کفر و ظلم اور علو و فساد نہ کریں جس طرح فرعون نے کیا تاکہ وہ اس جیسے عبرت ناک حشر سے محفوظ رہیں۔

وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (۵۷)

اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے۔‏

وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ (۵۸)

اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو

شرک کی تردید اور جھوٹے معبودوں کی بےوقعتی کی وضاحت کے لئے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم جائیں گے تو اس سے مراد وہ پتھر کی مورتیاں ہوتی ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے نہ کہ وہ نیک لوگ جو اپنی زندگیوں میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے انہیں بھی معبود سمجھنا شروع کر دیا ان کی بابت قرآن کریم نے ہی واضح کر دیا ہے کہ یہ جہنم سے دور رہیں گے۔

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ( ۲۱:۱۰۱)

کیونکہ اس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا۔ اسی لیے قرآن نے اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے‘ وہ لفظ جما ہے جو غیر عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہے

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (۲۱:۹۸)

اس سے انبیا علیہم السلام اور وہ صالحین نکل گئے‘ جن کو لوگوں نے اپنے طور پر معبود بنا رکھا ہو گا۔ یہ تو ممکن ہے کہ دیگر مورتیوں کے ساتھ ان کی شکلوں کی بنائی ہوئی مورتیاں بھی اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دے لیکن یہ شخصیات تو بہر حال جہنم سے دور ہی رہیں گی۔ لیکن مشرکین نبی ﷺ کی زبان مبارک سے حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر خیر سن کر یہ کٹ حجتی اور مجادلہ کرتے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام قابل مدح ہیں دراں حالیکہ عیسائیوں نے انہیں معبود بنایا ہوا ہے‘ تو پھر ہمارے معبود کیوں برے؟ کیا وہ بھی بہتر نہیں؟ یا اگر ہمارے معبود جہنم میں جائیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام بھی پھر جہنم میں جائیں گے۔

اللہ نے یہاں فرمایا‘ ان کا خوشی سے چلانا‘ ان کا جدل محض ہے۔

 جدل کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جھگڑنے والا جانتا ہے کہ اس کے پاس دلیل کوئی نہیں ہے لیکن محض اپنی بات کی پچ میں بحث و تکرار سے گریز نہیں کرتا۔

إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ (۵۹)

عیسٰی (علیہ السلام) بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لئے نشان قدرت بنایا ۔‏

ایک اس اعتبار سے کہ بغیر باپ کے ان کی ولادت ہوئی، دوسرے، خود انہیں جو معجزات دیئے گئے، احیائے موت وغیرہ، اس لحاظ سے بھی۔

وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ (۶۰)

اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کر دیتے جو زمین میں جانشینی کرتے ۔‏

یعنی تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کر دیتے، جو تمہاری ہی طرح ایک دوسرے کی جانشینی کرتے،

مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کا آسمان پر رہنا ایسا شرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یہ تو ہماری مشیت ہے اور قضا ہے کہ فرشتوں کو آسمان اور انسانوں کو زمین پر آباد کیا، ہم چاہیں تو فرشتوں کو زمین پر بھی آباد کر سکتے ہیں۔

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (۶۱)

اور یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) قیام کی نشانی ہے (١) پس تم (قیامت) کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔‏

عِلْمٌ بمعنی علامت ہے۔

 اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جیسا کہ، صحیح متواتر احادیث سے ثابت ہے۔

یہ نزول اس بات کی علامت ہوگا کہ اب قیامت قریب ہے اس لئے بعض نے اسے عین اور لام کے زبر کے ساتھ (عَلَم) پڑھا ہے، جس کے معنی نشانی اور علامت کے۔

اور بعض کے نزدیک انہیں قیامت کی نشانی قرار دینا‘ ان کی معجزانہ ولادت کی بنیاد پر ہے۔ یعنی جس طرح اللہ نے ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ ان کی یہ پیدائش اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرما دے گا‘ اس لیے قدرت الہٰی کو دیکھتے ہوئے وقوع قیامت میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔

وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۶۲)

اور شیطان تمہیں روک نہ دے یقیناً وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔‏

وَلَمَّا جَاءَ عِيسَى بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ

اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) معجزے لائے تو کہا

 کہ میں تمہارے پاس حکمت والا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ جن بعض چیزوں میں تم مختلف ہو، انہیں واضح کردوں

اس کے لئے دیکھئے آل عمران، آیت۔٥ کا حاشیہ۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۶۳)

پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔‏

إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (۶۴)

میرا اور تمہارا رب فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے پس تم سب اس کی عبادت کرو۔ راہ راست (یہی) ہے۔‏

فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ ۖ

پھر (بنی اسرائیل) کی جماعتوں نے آپس میں اختلاف کیا

اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں،

 یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں نقص نکالا اور انہیں نعوذ باللہ ولد الزنا قرار دیا،

جب کہ عیسائیوں نے غلو سے کام لے کر انہیں معبود بنا لیا۔

یا مراد عیسائیوں ہی کے مختلف فرقے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں، ایک انہیں ابن اللہ، دوسرا اللہ اور ثالث ثلاثہ کہتا اور ایک فرقہ مسلمانوں ہی کی طرح انہیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرتا ہے۔

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ (۶۵)

پس ظالموں کے لئے خرابی ہے دکھ والے دن کی آفت سے۔‏

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۶۶)

یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آپڑے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔‏

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (۶۷)

اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔‏

کیونکہ کافروں کی دوستی‘ کفر و فسق کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے اور یہی کفر و فسق ان کے عذاب کا باعث ہوں گے‘ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے اور ایک دوسرے کے دشمن ہ جائیں گے۔ اس کے برعکس اہل ایمان و تقویٰ کی باہمی محبت‘ چونکہ دین اور رضائے الہٰی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہی دین و ایمان خیر و ثواب کا باعث ہے۔ ان سے ان کی دوستی میں کوئی انقطاع نہیں ہو گا۔ وہ اسی طرح برقرار رہے گی جس طرح دنیا میں تھی۔

يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ (۶۸)

میرے بندو! آج تم پر کوئی خوف (و ہراس) ہے اور نہ تم (بد دل اور) غمزدہ ہوگے ۔‏

یہ قیامت والے دن ان متقین کو کہا جائے گا جو دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی اس کی فضیلت ہے۔ بلکہ اللہ کے لئے بغض اور اللہ کے لئے محبت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔

الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ (۶۹)

اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور تھے بھی وہ (فرماں بردار) مسلمان۔‏

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ (۷۰)

تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ

أَزْوَاجُكُمْ سے بعض نے مؤمن بیویاں، بعض نے مؤمن ساتھی اور بعض نے جنت میں ملنے والی حورعین بیویاں مراد لی ہیں۔

 یہ سارے ہی مفہوم صحیح ہیں کیونکہ جنت میں یہ سب کچھ ہی ہوگا۔

 تُحْبَرُونَ حَبْر سے ماخوذ ہے یعنی وہ فرحت و مسرت جو انہیں جنت کی نعمت و عزت کی وجہ سے ہوگی۔

يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ

ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا

صِحَافٍ رکابی۔  مطلب ہے اہل جنت کو جو کھانے ملیں گے، وہ سونے کی رکابیوں میں ہوں گے۔  (فتح القدیر)

وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ۖ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۷۱)

ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔

یعنی جس طرح  ایک وارث‘ میراث کا مالک ہوتا ہے‘ اسی طرح جنت بھی ایک میراث ہے جس کے وارث وہ ہونگے جنہوں نے دنیا میں ایمان اور عمل صالح کی زندگی گزاردی ہو گی۔

وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۷۲)

یہی وہ بہشت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔‏

لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِنْهَا تَأْكُلُونَ (۷۳)

یہاں تمہارے لئے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے۔‏

إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ (۷۴)

بیشک گنہگار لوگ عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔‏

لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (۷۵)

یہ عذاب کبھی بھی ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اسی میں مایوس پڑے رہیں گے

یعنی نجات سے مایوس۔

وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ (۷۶)

اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی ظالم تھے۔‏

وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۖ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ (۷۷)

اور پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! (١) تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے (٢) وہ کہے گا کہ تمہیں تو (ہمیشہ) رہنا ہے ۔‏(٣)

۱۔ مالک، داروغہ جہنم کا نام ہے۔

۲۔  یعنی ہمیں موت ہی دے دے تاکہ عذاب سے جان چھوٹ جائے۔

۳۔  یعنی وہاں موت کہاں؟ لیکن یہ عذاب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی، تاہم اس کے بغیر بھی چارہ نہیں ہوگا۔

لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ (۷۸)

ہم تو تمہارے پاس حق لے آئے ہیں لیکن تم میں اکثر لوگ حق (١) سے نفرت رکھنے والے تھے۔‏

یہ اللہ کا ارشاد ہے یا فرشتوں کا ہی قول بطور نیابت الٰہی ہے۔ جیسے کوئی افسر مجاز ' ہم ' کا استعمال حکومت کے مفہوم میں کرتا ہے۔

 اکثر سے مراد کل ہے یعنی سارے ہی جہنمی،

یا پھر اکثر سے مراد رؤسا اور لیڈر ہیں۔ باقی جہنمی ان کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اس میں شامل ہونگے۔

حق سے مراد، اللہ کا وہ دین اور پیغام ہے جو وہ پیغمبروں کے ذریعے سے ارسال کرتا رہا۔

آخری حق قرآن اور دین اسلام ہے۔

أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ (۷۹)

کیا انہوں نے کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو یقین مانو کہ ہم بھی پختہ کام کرنے والے ہیں

یعنی ان جہنمیوں نے حق کو ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ یہ اس کے خلاف منظم تدبیریں اور سازشیں کرتے رہے۔ جس کے مقابلے میں پھر ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اور ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہوسکتی ہے؟

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ ۚ

کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سن سکتے (یقیناً ہم برابر سن رہے ہیں)

یعنی جو پوشیدہ باتیں وہ اپنے نفسوں میں چھپائے پھرتے ہیں یا خلوت میں آہستگی سے کرتے ہیں یا آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم وہ نہیں سنتے؟

بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ (۸۰)

بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔

یعنی یقیناً سنتے ہیں۔

 علاوہ ازیں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے الگ ان کی ساری باتیں نوٹ کرتے ہیں۔

قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ (۸۱)

آپ کہہ دیجئے! اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا ۔

کیونکہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہوں اگر واقعی اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ان کی عبادت کرنے والا ہوتا۔

مطلب مشرکین کے عقیدے  کا ابطال اور رد ہے جو اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں۔

سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (۸۲)

آسمان زمین اور عرش کا رب جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں اس (سے) بہت پاک ہے۔

‏یہ  اللہ کا کلام ہے جس میں اس نے اپنی تنزیہ و تقدیس بیان کی ہے‘

یا رسول ﷺ کا کلام ہے اور آپ ﷺ نے بھی اللہ کے حکم سے اللہ کی ان چیزوں سے تنزیہ و تقدیس بیان کی جن کا انتساب مشرکین اللہ کی طرف کرتے تھے۔

فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ (۸۳)

اب آپ انہیں اس بحث مباحثہ اور کھیل کود میں چھوڑ دیجئے (١) یہاں تک کہ انہیں اس دن سابقہ پڑ جائے جن کا یہ وعدہ دیئے جاتے ہیں(٢)

۱۔ یعنی اگر یہ ہدایت کا راستہ نہیں اپناتے تو اب انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں اور دنیا کے کھیل کود میں لگا رہنے دیں۔

۲۔  ان کی آنکھیں اس دن کھلیں گی جب ان کے اس رویے کا انجام ان کے سامنے آئے گا۔

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (۸۴)

وہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے (١) اور وہ بڑی حکمت والا اور پورے علم والا ہے۔‏

یہ نہیں ہے کہ آسمانوں کا معبود کوئی اور بلکہ جس طرح ان دونوں کا خالق ایک ہی معبود بھی ایک ہی ہے۔ اس کے ہم معنی آیت یہ ہے:

وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ۖيَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ

آسمان و زمین میں وہی اللہ ہے‘ وہ تمہاری پوشیدہ اور جہری باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو‘ وہ بھی اس کے علم میں ہے۔ (۶:۳۰)

وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۸۵)

اور وہ بہت برکتوں والا ہے جسکے پاس آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی بادشاہت ہے(١)   اور قیامت کا علم بھی اس کے پاس ہے (۲)

اور اسی کی جانب تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔‏(۳)

۱۔ ایسی ذات کو‘ جس کے پاس سارے اختیارات اور زمین و آسمان کی بادشاہت ہو‘ اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ؟

۲۔ جس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔

 ۳۔  جہاں وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا و سزا دے گا۔

وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (۸۶)

جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے (١) ہاں (مستحق شفاعت وہ ہیں) جو حق بات کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو ۔‏(٢)

۱۔ یعنی دنیا میں جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے ان معبودوں کو شفاعت کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہوگا۔

۲۔  حق بات سے مراد کلمہ توحید لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ اقرار بھی علم و بصیرت کی بنیاد ہو، محض رسمی اور تقلیدی نہ ہو یعنی زبان سے کلمہ توحید ادا کرنے والے کو پتہ ہو کہ اس میں صرف ایک اللہ کا اثبات اور دیگر تمام معبودوں کی نفی ہے‘ پھر اس کے مطابق اس کا عمل ہو۔ ایسے لوگوں کے حق میں اہل شفاعت کی شفاعت مفید ہو گی۔

 یا مطلب ہے کہ شفاعت کرنے کا حق صرف ایسے لوگوں کو ملے گا جو حق کا اقرار کرنے والے ہوں گے‘ یعنی انبیا و صالحین اور فرشتے نہ کہ معبودان باطل کو‘ جنہیں مشرکین اپنا شفاعت کنندہ خیال کرتے ہیں۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ (۸۷)

اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً جواب دیں گے اللہ نے، پھر یہ کہاں الٹے جاتے ہیں۔‏

وَقِيلِهِ يَا رَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَا يُؤْمِنُونَ (۸۸)

اور ان کا (پیغمبر کا اکثر) یہ کہنا (١) کہ اے میرے رب! یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔‏

اللہ کے پاس ہی قیامت اور اپنے پیغمبر کے شکوہ کا علم ہے۔

فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۸۹)

پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں۔ (اچھا بھائی) سلام! (١) انہیں عنقریب (خود ہی) معلوم ہو جائے گا۔‏

یعنی دین کے معاملے میں میری اور تمہاری راہ الگ الگ ہے، تم اگر باز نہیں آتے تو اپنا عمل کئے جاؤ، میں اپنا کام کئے جا رہا ہوں، عنقریب معلوم ہو جائے گا سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter