Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah QafTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ (١) ق! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے اس کا جواب قسم محذوف ہے لَتُبْعَثنَّ (تم ضرور قیامت والے دن اٹھائے جاؤ گے) بعض کہتے ہیں اس کا جواب ما بعد کا مضمون کلام ہے جس میں نبوت اور معاد کا اثبات ہے ۔ (فتح القدیر و ابن کثیر) بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ (۲) بلکہ انہیں تعجب معلوم ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے حالانکہ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے، ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا جس میں اسے مبعوث کیا جاتا تھا۔ اسی حساب سے قریش مکہ کو ڈرانے کے لئے قریش ہی میں سے ایک شخص کو نبوت کے لئے چن لیا گیا۔ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ (۳) کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے۔ پھر یہ واپسی دور (از عقل) ہے حالانکہ عقلی طور پر اس میں بھی کوئی استحالہ نہیں ہے۔ آگے اس کی کچھ وضاحت ہے قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ (۴) زمین جو کچھ ان میں سے گھٹاتی ہے وہ ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے ۔ یعنی زمین انسان کے گوشت، ہڈی اور بال وغیرہ بوسیدہ کر کے کھا جاتی ہے یعنی اسے ریزہ ریزہ کر دیتی ہے وہ نہ صرف ہمارے علم میں ہے بلکہ لوح محفوظ میں بھی درج ہے اس لئے ان تمام اجزا کو جمع کر کے انہیں دوبارہ زندہ کر دینا ہمارے لئے قطعًا مشکل امر نہیں ہے۔ بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ (۵) بلکہ انہوں نے سچی بات کو جھوٹ کہا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ چکی پس وہ الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں ۔ یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہوگیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں، کبھی اسے جادوگر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی غیب کی خبریں بتانے والا۔ أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ (۶) کیا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں دیکھا؟ کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا (١) ہے اور زینت دی (٢) ہے اس میں کوئی شگاف نہیں۔ (۳) ۱۔ یعنی بغیر ستون کے، جن کا اسے کوئی سہارا ہو۔ ۲۔ یعنی ستاروں سے مزین کیا۔ ۳۔ اسی طرح کوئی فرق وتفاوت بھی نہیں ہے۔ جیسے دوسرے مقام (سورۃ الملک ۳۔۴)پر فرمایا : الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖمَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ ۖفَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (۷) اور زمین کو ہم نے بچھا دیا ہے اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دیں ہیں اور بعض نے زوج کے معنی جوڑا کیا ہے یعنی ہر قسم کی نباتات اور اشیا کو جوڑا جوڑا (نر مادہ) بنایا ہے بَهِيجٍ کے معنی خوش منظر شاداب اور حسین تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ (۸) تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔ یعنی آسمان و زمین کی تخلیق اور دیگر اشیا کا مشاہدہ اور ان کی معرفت ہر اس شخص کے لئے بصیرت و دانائی اور عبرت و نصیحت کا باعث ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ (۹) اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کئے۔ کٹنے والے غلے سے مراد وہ کھیتیاں مراد ہیں جن سے گندم مکڑی جوار باجرہ دالیں اور چاول وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ (۱۰) اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں۔ بَاسِقَاتٍ کے معنی طوالاً شاھقات، بلند وبالا طَلْعٌ کھجور کا وہ گدرا گدرا پھل، جو پہلے پہل نکلتا ہے۔ نَضِيدٌ کے معنی تہ بہ تہ۔ باغات میں کھجور کا پھل بھی آ جاتا ہے۔ لیکن اسے الگ سے بطور خاص ذکر کیا، جس سے کھجور کی وہ اہمیت واضح ہے جو اسے عرب میں حاصل ہے۔ رِزْقًا لِلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَلِكَ الْخُرُوجُ (۱۱) بندوں کی روزی کے لئے اور ہم نے پانی سے مردہ شہر کو زندہ کر دیا۔ اسی طرح (قبروں سے) نکلنا یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین کو شاداب کر دیتے ہیں، اسی طرح قیامت والے دن ہم قبروں سے انسانوں کو زندہ کر کے نکال لیں گے۔ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ (۱۲) ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں (١) نے اور ثمود نے۔ أَصْحَابُ الرَّسِّ کی تعیین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے جس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورہ بروج میں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر، سورہ الفرقان آیت۔٣٨ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ (۱۳) اور عاد نے اور فرعون نے اور برادران لوط نے۔ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ اور ایکہ (١) والوں نے اور تبع کی قوم (٢) نے بھی تکذیب کی تھی۔ ۱۔ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ کے لئے دیکھئے سورۃ الشعراء آیت ١٧٦ کا حاشیہ۔ ۲۔ قَوْمُ تُبَّعٍ کے لئے دیکھئے سورۃ الدخان، آیت ٣٧ کا حاشیہ۔ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ (۱۴) سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا (۱) پس میرا وعدہ عذاب ان پر صادق آگیا۔ یعنی ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی طرف سے تکذیب پر غمگین نہ، اس لیے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے یہی معاملہ کیا دوسرے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ پچھلی قوموں نے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا انجام کیا ہوا؟ کیا تم بھی اپنے لیے یہی انجام چاہتے ہو اگر یہ انجام پسند نہیں کرتے تو تکذیب کا راستہ چھوڑو اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ (۱۵) کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے تھک گئے؟ (۱) بلکہ یہ لوگ نئی پیدائش کی طرف سے شک میں ہیں (۲) ۱۔ کہ قیامت والے دن دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ پیدا کرنا ہمارے لیے مشکل نہیں تھا تو دوبارہ زندہ کرنا تو پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ( سورۃ الروم ۲۷) وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ (سورۃ یٰسین ۷۸، ۷۹) اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم مجھے یہ کہہ کر ایذا پہنچاتا ہے کہ اللہ مجھے ہرگز دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے جس طرح اس نے پہلی مرتبہ مجھے پیدا کیا۔ حالانکہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے۔ یعنی اگر مشکل ہے پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری (صحیح البخاری) ۲۔ یعنی یہ اللہ کی قدرت ہے کہ منکر نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں قیامت کے وقوع اور اس میں دوبارہ زندگی کے بارے میں ہی شک ہے۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں۔ وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے۔ یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (۱۶) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ ۔ (فتح لقدیر) إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (۱۷) جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (۱۸) (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔ رَقِیْب محافظ، نگران اور انسان کے قول اور عمل کا انتظار کرنے والا عَتِیْد حاضر اور تیار۔ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ (۱۹) اور موت کی بےہوشی حق لے کر پہنچی یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا تَحِیْدُ، تَمِیْلُ عَنْہُ وَتَفِرُّتو اس موت سے بدکتا اور بھاگتا تھا۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ (۲۰) اور صور پھونک دیا جائے گا۔ وعدہ عذاب کا دن یہی ہے۔ وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيد (۲۱) اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا (١) سَائِق(ہانکنے والا) اور شَھید (گواہ) کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام طبری کے نزدیک دو فرشتے ہیں۔ ایک انسان کو محشر تک ہانک کر لانے والا اور دوسرا گواہی دینے والا۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (۲۲) یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔ وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ (۲۳) اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا یہ حاضر ہے جو کہ میرے پاس تھا ۔ یعنی فرشتہ انسان کا سارا ریکارڈ سامنے رکھ دے گا اور کہے گا کہ یہ تیری فرد عمل ہے کو جو میرے پاس تھی۔ أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ (۲۴) ڈال دو جہنم میں ہر کافر سرکش کو۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ (۲۵) جو نیک کام سے روکنے والا حد سے گزر جانے والا اور شک کرنے والا تھا۔ الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ (۲۶) جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنا لیا تھا پس اسے سخت عذاب میں ڈال دو۔ اللہ تعالیٰ اس فرد عمل کی روشنی میں انصاف اور فیصلہ فرمائے گا۔ القیا سے الشدید تک اللہ کا قول ہے ۔ قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (۲۷) اس کا ہم نشین (شیطان) کہے گا اے ہمارے رب! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا اس لئے اس نے فوراً میری بات مان لی، اگر یہ تیرا مخلص بندہ ہوتا تو میرے بہکاوے میں ہی نہ آتا۔ یہاں قَرِينُهُ سے مراد شیطان ہے ۔ قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ (۲۸) حق تعالیٰ فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (وعدہ عذاب) بھیج چکا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کافروں اور ان کے ہم نشین شیطانوں کو کہے گا کہ یہاں موقف حساب یا عدالت انصاف میں لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے، میں نے پہلے ہی رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے وعیدوں سے تم کو آگاہ کر دیا تھا۔ مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (۲۹) میرے ہاں بات بد لتی نہیں (١) نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا ہوں۔(۲) ۱۔ یعنی جو وعدے میں نے کئے تھے، ان کے خلاف نہیں ہوگا بلکہ ہر صورت میں پورے ہو نگے اور اسی اصول کے مطابق تمہارے لئے عذاب کا فیصلہ میری طرف سے ہوا ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ۲۔ کہ بغیر جرم کے جو انہوں نے نہ کیا ہو اور بغیر گناہ کے جس کا صدور ان سے نہ ہوا ہو‘ میں ان کو عذاب دے دوں؟ ظلام یہاں ظالم کے معنی میں ہے۔ یا محاورۃً بولا گیا ہے‘ جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اپنے غلاموں پر بڑا ظلم کرتا ہے‘ فلاں شخص بڑا ظالم ہے مقصد‘ مبالغے کا نہیں بلکہ صرف اس کی طرف سے ظلم کیے جانے کا اظہار ہوتا ہے۔ یا مقصود نفی میں مبالغہ ہے۔ یعنی میں بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ (۳۰) جس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کیا تو بھر چکی؟ وہ جواب دے گی کیا کچھ اور زیادہ بھی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا۔ (سورۃ الم السجدہ ۱۳) اس وعدے کا جب ایفا ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کافر جن و انس کو جہنم میں ڈال دے گا، تو جہنم سے پوچھے گا کہ تو بھر گئی ہے یا نہیں؟ وہ جواب دے گی، کیا کچھ اور بھی ہے؟ یعنی اگرچہ بھر گئی ہوں لیکن یا اللہ تیرے دشمنوں کے لئے میرے دامن اب بھی گنجائش ہے۔ وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ (۳۱) اور جنت پر ہیز گاروں کے لئے بالکل قریب کر دی جائے گی ذرا بھی دور نہ ہوگی۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قیامت جس روز جنت قریب کر دی جائے گے دور نہیں ہے کیونکہ وہ لامحالہ واقع ہو کر رہے گی اور کل ما ہوات فھو قریب اور جو بھی آنے والی چیز ہے وہ قریب ہی ہے دور نہیں۔ (ابن کثیر) هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (۳۲) یہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو رجوع کرنے والا اور پابندی کرنے والا ہو یعنی اہل ایمان جب جنت کا اور اس کی نعمتوں کا قریب سے مشاہدہ کریں گے تو کہا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا وعدہ ہر اواب اور حفیظ سے کیا گیا تھا۔ أَوَّابٍ ، بہت رجوع کرنے والا یعنی اللہ کی طرف کثرت سے توبہ استغفار اور تسبیح و ذکر الٰہی کرنے والا خلوت میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے توبہ کرنے والا، یا اللہ کے حقوق اور اس کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا یا اللہ کے اوامر نواہی کو یاد رکھنے والا گیا تھا۔ فتح القدیر مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ (۳۳) جو رحمٰن کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور توجہ والا دل لایا ہو مُنِیْبِ، اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کا اطاعت گزار دل۔ یا بمعی سَلیمِ، شرک و مصیت کی نجاستوں سے پاک دل۔ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ (۳۴) تم اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ (۳۵) یہ وہاں جو چاہیں انہیں ملے گا (بلکہ) ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے۔ اس سے مراد رب تعالیٰ کا دیدار ہے جو اہل جنت کو نصیب ہوگا۔ للذین احسنو الحسنی وزیادۃ۔سورہ یونس وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ (۳۶) اور اس سے پہلے بھی ہم بہت سی امتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے طاقت میں زیادہ تھیں وہ شہروں میں ڈھونڈھتے ہی (١) رہ گئے، کہ کوئی بھا گنے کا ٹھکانا ہے۔ فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ(شہروں میں چلے پھرے) کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اہل مکہ سے زیادہ تجارت و کاروبار کے لئے مختلف شہروں میں پھرتے تھے۔ لیکن ہمارا عذاب آیا تو انہیں کہیں پناہ اور راہ فرار نہ ملی۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ (۳۷) اس میں ہر صاحب دل کے لئے عبرت ہے اور اس کے لئے جو دل (١) متوجہ ہو کر کان لگائے (٢) اور وہ حاضر ہو (٣) ۱۔ یعنی دل بیدار، جو غور و فکر کر کے حقائق کا ادراک کر لے۔ ۲۔ یعنی توجہ سے وہ وحی الٰہی سنے جس میں گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ۳۔ یعنی قلب اور دماغ کے لحاظ سے حاضر ہو۔ اس لئے کہ جو بات ہی کو نہ سمجھے، وہ موجود ہوتے ہوئے بھی ایسے ہے جیسے نہیں۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ (۳۸) یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کر دیا اور ہمیں تھکان نے چھوا تک نہیں۔ فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (۳۹) پس یہ جو کچھ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کریں اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے بھی یعنی صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کرو یا عصر اور فجر کی نماز پڑھنے کی تاکید ہے۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ (۴۰) اور رات کے کسی وقت بھی تسبیح کریں (١) اور نماز کے بعد بھی (٢) یعنی رات کے کچھ حصے میں بھی اللہ کی تسبیح کریں یا رات کی نماز (تہجد) پڑھیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ' رات کو اٹھ کر نماز پڑھیں جو آپ کے لئے مزید ثواب کا باعث ہے۔( ٤٠۔٢ )یعنی اللہ کی تسبیح کریں بعض نے اس سے تسبیحات مراد لی ہے، جن کے پڑھنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے بعد فرمائی ہے مثلاً ٣٣ مرتبہ سُبْحَان اللہ ٣٣ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰلہِ اور٣٤ مرتبہ اَللّٰہ اَکْبَرْ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ (۴۱) اور سن رکھیں (١) کہ جس دن ایک پکارنے (۲) والا قریب ہی جگہ سے پکارے گا (۳) ۱۔ یعنی قیامت کے جو احوال وحی کے ذریعے سے بیان کئے جا رہے ہیں، انہیں توجہ سے سنیں۔ ۲۔ یہ پکارنے والا اسرافیل فرشتہ ہوگا یا جبرائیل اور یہ ندا وہ ہوگی جس سے لوگ میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ یعنی نفخہ ثانیہ ۔ ۳۔ اس سے بعض نے صخرہ بیت المقدس مراد لیا ہے، کہتے ہیں یہ آسمان کے قریب ترین جگہ ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص یہ آوازیں اس طرح سنے گا جیسے اس کے قریب سے ہی آواز آ رہی ہے ۔ (فتح القدیر) يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ (۴۲) جس روز اس تند تیز چیخ کو یقین کے ساتھ سن لیں گے یہ دن ہوگا نکلنے کا یعنی یہ چیخ یعنی نفخہ قیامت یقینا ًہوگا جس میں یہ دنیا میں شک کرتے تھے۔ اور یہی دن قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کا ہوگا۔ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ (۴۳) ہم ہی جلاتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں (١) اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ (۲) ۱۔ یعنی دنیا میں موت سے ہمکنار کرنا اور آخرت میں زندہ کر دینا، یہ ہمارا ہی کام ہے، اس میں کوئی ہمارا شریک نہیں ہے۔ ۲۔ وہاں ہم ہر شخص کو اس کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ (۴۴) جس دن زمین پھٹ جائے گی اور یہ دوڑتے ہوئے (١) (نکل پڑیں گے) یہ جمع کر لینا ہم پر بہت ہی آسان ہے۔ یعنی اس آواز دینے والے کی طرف دوڑیں گے، جس نے آواز دی ہوگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انا اول من تشق عنہ الارض جب زمین پھٹے گی تو سب سے پہلے زندہ ہو کر نکلنے والا میں ہوں گا۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۖ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ایمان لانے پر مجبور کریں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، وہ کرتے رہیں۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ (۴۵) تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید (ڈراوے کے وعدوں) سے ڈرتے ہیں ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ذکر سے وہی نصیحت حاصل کرے گا جو اللہ سے اور اس کی سزا کی دھمکیوں سے ڈرتا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہوگا اسی لئے حضرت قتادہ یہ دعا فرماتے: اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے کر جو تیری وعیدوں سے ڈرتے اور تیرے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اے احسان کرنے والے رحم فرما نے والے۔ *********** |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |