Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Tur

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالطُّورِ (۱)‏

قسم ہے طور کی  

طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ ہم کلام ہوئے۔ اسے طور سینا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کے اس شرف کی بنا پر اس کی قسم کھائی۔

وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ (۲)‏

اور لکھی ہوئی کتاب کی

مَسْطُورٍ کے معنی ہیں مکتوب، لکھی ہوئی چیز۔

 اس کا مصداق مختلف بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن مجید، لوح محفوظ، تمام کتب منزلہ یا انسانی اعمال نامے جو فرشتے لکھتے ہیں۔

فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ (۳)‏

جو جھلی کے کھلے ہوئے ورق میں ہے۔

یہ متعلق ہے مَسْطُورٍ کے۔

 رَقِ وہ باریک چمڑا جس پر لکھا جاتا تھا۔ منشور بمعنی مبسوط پھیلا یا کھلا ہوا۔

وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ (۴)‏

وہ آباد گھر کی .

یہ بیت معمور، ساتویں آسمان پر وہ عبادت خانہ ہے جس میں فرشتے عبادت کرتے ہیں، یہ عبادت خانہ فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ روزانہ اس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کے لئے آتے ہیں جن کی پھر دوبارہ قیامت تک باری نہیں آتی۔ جیسا کہ احادیث معراج میں بیان کیا گیا۔

بعض بیت معمور سے خانہ کعبہ مراد لیتے ہیں۔ جو عبادت کے لیے آنے والے انسانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے معمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے کے ہیں۔

وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ (۵)‏

اور اونچی چھت کی

اس سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لئے بمنزلہ چھت کے ہے۔

قرآن نے دوسرے مقام پر اسے ' محفوظ چھت ' کہا ہے،

بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لئے چھت ہے۔ وجعلنا السماء سقفا محفوظا۔

 بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔

وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ (۶)‏

اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی  

 الْمَسْجُورِ  کے معنی ہیں بھڑکے ہوئے۔

 

 بعض کہتے ہیں، اس سے وہ پانی مراد ہے جو زیر عرش ہے جس سے قیامت والے دن بارش نازل ہوگی، اس سے مردہ جسم زندہ ہوجائیں گے۔

بعض کہتے ہیں اس سے مراد سمندر ہیں ان میں قیامت والے دن آگ بھڑک اٹھے گی۔ جیسے فرمایا:

واذا البحار سجرت

اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے

 امام شوکانی نے اسی مفہوم کو اولی قرار دیا ہے اور بعض نے مسجور کے معنی مملوء بھرے ہوئے کے لیے ہیں یعنی فی الحال سمندروں میں آگ تو نہیں ہے البتہ وہ پانی سے بھرے ہوئے ہیں امام طبری نے اس قول کو اختیار کیا ہے اس کے اور بھی کئی معنی بیان کیے گئے ہیں۔تفسیر ابن کثیر

إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ (۷)‏

بیشک آپ کے رب کا عذاب ہو کر رہنے والا ہے۔‏

مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ  (۸)‏

اسے کوئی روکنے والا نہیں۔

یہ مذکورہ قسموں کا جواب ہے یعنی یہ تمام چیزیں جو اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی مظہر ہیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کا وہ عذاب بھی یقینا ًواقع ہو کر رہے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے اسے کوئی ٹالنے پر قادر نہیں ہوگا۔

يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا (۹)‏

جس دن آسمان تھرتھرانے لگے گا  

مَوْرًا کے معنی ہیں حرکت و اضطراب،

قیامت والے دن آسمان کے نظم میں جو اختلال اور ستارے و سیاروں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جو اضطراب واقع ہوگا، اس کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ مذکورہ عذاب کے لئے ظرف ہے۔ یعنی عذاب اس روز واقع ہوگا جب آسمان تھر تھرائے گا اور پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر روئی کے گالوں اور ریت کے ذروں کی طرح اڑ جائیں گے۔

وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا (۱۰)‏

اور پہاڑ چلنے پھرنے لگیں گے۔‏

فَوَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ (۱۱)

اس دن جھٹلانے والوں کی (پوری) خرابی ہے۔‏

الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ خَوۡضٍ یَّلۡعَبُوۡنَ  (۱۲)

جو اپنی بیہودہ گوئی میں اچھل کود رہے ہیں  

یعنی اپنے کفر و باطل میں مصروف اور حق کی تکذیب استہزاء میں لگے ہوئے ہیں۔

یَوۡمَ یُدَعُّوۡنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا   (۱۳)

جس دن وہ دھکے دے (١) کر آتش جہنم کی طرف لائے جائیں گے۔‏

الدَّعُّ کے معنی ہیں نہایت سختی کے ساتھ دھکیلنا۔

ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ  (۱۴)

یہی وہ آتش دوزخ ہے جسے تم جھوٹ بتلاتے تھے ۔‏

یہ جہنم پر مقرر فرشتے انہیں کہیں گے۔

اَفَسِحۡرٌ ہٰذَاۤ اَمۡ اَنۡتُمۡ لَا تُبۡصِرُوۡنَ  (۱۵)

(اب بتاؤ) کیا یہ جادو ہے؟ (۱) یا تم دیکھتے نہیں (۲)‏

۱۔ جس طرح تم دنیا میں پیغمبروں کو جادوگر کہا کرتے تھے، بتلاؤ! کیا یہ بھی کوئی جادو کا کرتب ہے؟

۲۔ یا جس طرح تم دنیا میں حق کے دیکھنے سے اندھے تھے یہ عذاب بھی تمہیں نظر نہیں آرہا ہے؟

یہ تقریع وتوبیخ کے لیے انہیں کہا جائے گا ورنہ ہرچیز ان کے مشاہدے میں آچکی ہوگی۔

اِصۡلَوۡہَا فَاصۡبِرُوۡۤا اَوۡ لَا تَصۡبِرُوۡا ۚ سَوَآءٌ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ  (۱۶)

جاؤ دوزخ میں اب تمہارا صبر کرنا اور نہ کرنا تمہارے لئے یکساں ہے۔ تمہیں فقط تمہارے کئے کا بدل دیا جائے گا۔‏

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیۡمٍ  (۱۷)

یقیناً پرہیزگار لوگ جنتوں میں اور نعمتوں میں ہیں  

اہل کفر و اہل شقاوت کے بعد اہل ایمان و اہل سعادت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

فٰکِہِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمۡ رَبُّہُمۡ ۚ وَ وَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ  (۱۸)

جو انہیں ان کے رب نے دے رکھی ہیں اس پر خوش خوش ہیں (١) اور ان کے پروردگار نے انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لیا ہے۔‏

یعنی جنت کے گھر، لباس، کھانے، سواریاں، حسین جمیل بیویاں (حورعین) اور دیگر نعمتیں، ان سب پر وہ خوش ہونگے، کیونکہ یہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بڑھ کر ہوں گی۔ اور ما لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر کا مصداق۔

کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا ہَنِیۡٓـًٔۢا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ  (۱۹)

تم مزے سے کھاتے پیتے رہو ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے ۔‏

دوسرے مقام پر فرمایا :

کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا ھَنِیئًا بِمَا اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَاْلِیَۃِ

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بہت ضروری ہیں۔

مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ ۖ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ (۲۰)

برابر بچھے ہوئے شاندار تختے پر تکیے لگائے ہوئے (١) اور ہم نے ان کے نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی (حوروں) سے کرا دیئے ہیں۔‏

مَصْفُوفَةٍ ، ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے، گویا ایک صف میں ہیں۔بعض نے مفہوم بیان کیا ہے، کہ چہرے ایک دوسرے کے سامنے ہونگے۔ جیسے میدان جنگ میں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوتی ہیں اس مفہوم کو قرآن میں دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےـ

علی سرر متقابلین

ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر فروکش ہوں گے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ

اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے

اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے   

یعنی جن کے باپ اپنے اخلاص و تقوٰی اور عمل و کردار کی بنیاد پر جنت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کرکے، ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کرکے ان کی اولاد والے کمتر درجوں میں انہیں لے آئے یعنی اہل ایمان پر دو گونہ احسان فرمائے گا۔

 ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملا دے گا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، بشرطیکہ دونوں ایماندار ہوں

 دوسرا یہ کہ کم درجے والوں کو اٹھا کر اونچے درجوں پر فائز فرما دے گا۔

ورنہ دونوں کے ملاپ کا یہ طریقہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے کلاس والوں کو بی کلاس دے دے، یہ بات چونکہ اس کے فضل واحسان سے فروتر ہوگی اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ بی کلاس والوں کا اے کلاس عطا فرمائے گا۔ یہ تو اللہ کا وہ احسان ہے جو اولاد پر آبا کے عملوں کی برکت سے ہوگا اور حدیث میں آتا ہے :

 اولاد کی دعا واستغفار سے آبا کے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک شخص کے جب جنت میں درجے بلند ہوتے ہیں تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔  (مسند احمد)

اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے:

 جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ (صحیح مسلم)

كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ  (۲۱)

ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے  

رَهِينٌ بمعنی مرھون (گروی شدہ چیز) ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہوگا۔

یہ عام ہے۔ مؤمن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور مطلب ہے کہ جو جیسا اچھا یا برا عمل کرے گا۔ اس کے مطابق اچھی یا بری جزاء پائے گا۔

یا اس سے مراد صرف کافر ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے،

جیسے دوسرے مقام پر فرمایا :

إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ ۔ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ

ہر شخص اپنے اعمال میں گرفتار ہو گا۔ سوائے اصحاب الیمین (اہل ایمان) کے۔(المدثر ۳۸ـ۳۹)

وَأَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ (۲۲)

ہم نے ان کے لئے میوے اور مرغوب گوشت کی ریل پیل کر دیں گے  

زِدْنَاہُمْ، یعنی خوب دیں گے

يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ (۲۳)

(خوش طبعی کے ساتھ) ایک دوسرے سے جام (شراب) چھینا جھپٹی کریں گے (۱) جس شراب کے سرور میں تو بیہودہ گوئی ہوگی نہ گناہ (۲)‏

 ۱۔ یتنازعون یتعاطون ویتناولون ایک دوسرے سے لیں گے۔

 یا پھر وہ معنی ہیں جو فاضل مترجم نے کیے ہیں،

 کاس اس پیالے اور جام کو کہتے ہیں جو شراب یا کسی اور مشروب سے بھرا ہوا ہو خالی برتن کو کاس نہیں کہتے۔

۲۔ اس شراب میں دنیا کی شراب کی تاثیر نہیں ہوگی اسے پی کر نہ کوئی بہکے گا اور نہ اتنا مدہوش ہوگا۔

وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ (۲۴)

اور ان کے ارد گرد ان کے نو عمر غلام پھر رہے ہونگے، گویا موتی تھے جو ڈھکے رکھے تھے .

یعنی جنتیوں کی خدمت کے لئے انہیں نو عمر خادم بھی دیئے جائیں گے جو ان کی خدمت کے لئے پھر رہے ہونگے اور حسن و جمال اور صفائی و رعنائی میں وہ ایسے ہونگے جیسے موتی، جسے ڈھک کر رکھا گیا ہو، تاکہ ہاتھ لگنے سے اس کی چمک دمک ماند نہ پڑ ے۔

وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (۲۵)

اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے  

ایک دوسرے سے دنیا کے حالات پوچھیں گے کہ دنیا میں وہ کن حالات میں زندگی گزارتے اور ایمان و عمل کے تقاضے کس طرح پورے کرتے رہے۔

قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (۲۶)

کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے۔

یعنی اللہ کے عذاب سے۔ اس لئے اس عذاب سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے رہے، اس لئے کہ انسان کو جس چیز کا ڈر ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لئے وہ تگ و دو کرتا ہے۔

فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ (۲۷)

پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز و تند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچا لیا ۔

سَمُوم لو، جھلس ڈالنے والی گرم ہوا کو کہتے ہیں،

جہنم کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔

إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ (۲۸)

ہم اس سے پہلے ہی اس کی عبادت کیا کرتے تھے بیشک وہ محسن اور مہربان ہے۔  

یعنی صرف اسی ایک کی عبادت کرتے تھے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے،

یا یہ مطلب ہے کہ اس سے عذاب جہنم سے بچنے کے لیے دعا کرتے تھے۔

فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ (۲۹)

تو آپ سمجھاتے رہیں کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ تو کاہن ہیں نہ دیوانہ ۔

اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ وعظ و تبلیغ اور نصیحت کا کام کرتے رہیں اور یہ آپ کی بابت جو کچھ کہتے رہتے ہیں، ان کی طرف کان نہ دھریں، اس لئے کہ آپ اللہ کے فضل سے کاہن ہیں نہ دیوانہ (جیسا کہ یہ کہتے ہیں) بلکہ آپ پر باقاعدہ ہماری طرف سے وحی آتی ہے جو کہ کاہن پر نہیں آتی آپ جو کلام لوگوں کو سناتے ہیں وہ دانش و بصیرت کا آئینہ دار ہوتا ہے ایک دیوانے سے اس طرح گفتگو کیوں کر ممکن ہے۔

أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ (۳۰)

کیا کافر یوں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ہم اس پر زمانے کے حوادث (یعنی موت) کا انتظار کر رہے ہیں ۔‏

 رَیْب کے معنی ہیں حوادث، موت کے ناموں سے ایک نام۔

مطلب ہے قریش مکہ اس انتظار میں ہیں کہ زمانے کے حوادث سے شاید اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو موت آجائے اور ہمیں چین نصیب ہو جائے، جو اس کی دعوت توحید نے ہم سے چھین لیا ہے۔

قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ (۳۱)

کہہ دیجئے! تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں ۔

یعنی دیکھو! موت پہلے کسے آتی ہے؟ اور ہلاکت کس کا مقدر ہے۔

أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُمْ بِهَذَا أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ (۳۲)

کیا ان کی عقلیں انہیں یہی سکھاتی ہیں (۱) یا یہ لوگ ہی سرکش ہیں (۲)‏

۱۔ یعنی یہ تیرے بارے میں جو اناپ شناپ جھوٹ اور غلط سلط باتیں کرتے رہتے ہیں، کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سجھاتی ہیں۔

۲۔  نہیں بلکہ یہ سرکش اور گمراہ لوگ ہیں، اور یہی سرکشی اور گمراہی انہیں ان باتوں پر بڑھکاتی ہے۔

أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَلْ لَا يُؤْمِنُونَ (۳۳)

کیا یہ کہتے ہیں اس نبی نے (قرآن) خود گھڑ لیا ہے، واقع یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ (۱)‏

یعنی قرآن گھڑنے کے الزام پر ان کو آمادہ کرنے والا بھی ان کا کفر ہی ہے۔

فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (۳۴)

اچھا اگر یہ سچے ہیں تو بھلا اس جیسی ایک (ہی) بات یہ (بھی) تو لے آئیں  

یعنی اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا ہے تو پھر یہ بھی اس جیسی کتاب بنا کر پیش کر دیں جو نظم، اعجاز، حسن بیان، حقائق کے مسائل میں اس کامقابلہ کر سکیں۔

أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (۳۵)

کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ (١) یا خود پیدا کرنے والے ہیں۔ (۲)‏

۱۔ یعنی اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کسی بات کا حکم دے یا کسی بات سے منع کرے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے تو ظاہر ہے اس کا انہیں پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے، وہ انہیں پیدا کر کے یوں کس طرح چھوڑ دے گا۔

۲۔  یعنی یہ خود بھی اپنے خالق نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے خالق ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔

أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَلْ لَا يُوقِنُونَ (۳۷)

کیا انہوں نے ہی آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے، بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ۔

بلکہ اللہ کے وعدوں اور وعیدوں کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔

أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ  (۳۷)

یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ (۱) یا (ان خزانوں کے) یہ دروغہ ہیں۔ (۲)‏

۱۔ کہ یہ جس کو چاہیں روزی دیں جس کو چاہیں نہ دیں یا جس کو چاہیں نبوت سے نوازیں۔

۲۔  مصیطر یا مسیطر سَطْرً سے ہے، لکھنے والا، جو محافظ و نگران ہو، وہ چونکہ ساری تفیصلات لکھتا ہے، اس لئے یہ محافظ اور نگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کیا اللہ کے خزانوں یا اس کی رحمتوں پر ان کا تسلط ہے کہ جس کو چاہیں دیں یا نہ دیں۔

أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۳۸)

یا کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر سنتے ہیں؟ (١) (اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا کوئی روشن دلیل پیش کرے‏

یعنی کیا ان کا دعویٰ ہے کہ سیڑھی کے ذریعے سے یہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آسمانوں پر جاکر ملائکہ کی باتیں یا ان کی طرف جو وحی کی جاتی ہے، وہ سن آئے ہیں۔

أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ (۳۹)

کیا اللہ کے تو سب لڑکیاں ہیں اور تمہارے ہاں لڑکے ہیں؟‏

أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ (۴۰)

کیا تو ان سے کوئی اجرت طلب کرتا ہے کہ یہ اس کے تاوان سے بو جھل ہو رہے ہیں ۔‏

یعنی اس کی ادائیگی ان کے لئے مشکل ہو۔

أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ (۴۱)

کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں؟

کہ ضرور ان سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مر جائیں گے اور ان کو موت اس کے بعد آئیگی۔

أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ (۴۲)

کیا یہ لوگ کوئی فریب کرنا چاہتے ہیں؟ (١) تو یقین کرلیں کہ فریب خوردہ کافر ہی ہیں۔ (۲)‏

۱۔ یعنی ہمارے پیغمبر کے ساتھ، جس سے اس کی ہلاکت واقع ہو جائے۔

۲أ  یعنی کید ومکر ان پر ہی الٹ پڑے گا اور سارا نقصان انہیں کو ہوگا جیسے فرمایا:

ولا یحیق المکر السیء الا باھلہ

چنانچہ بدر میں یہ کافر مارے گئے اور بھی بہت سی جگہوں پر ذلت ورسوائی سے دوچار ہوئے۔

أَمْ لَهُمْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (۴۳)

کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ (ہرگز نہیں) اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔‏

وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ (۴۴)

اگر یہ لوگ آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتا ہوا دیکھ لیں تب بھی کہہ دیں کہ یہ تہ بہ تہ بادل ہے ۔

مطلب ہے کہ اپنے کفر و عناد سے پھر بھی باز نہ آئیں گے، بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ ایک پر ایک بادل چڑھا آرہا ہے، جیسا کہ بعض موقعوں پر ایسا ہوتا ہے۔

فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ (۴۵)

تو انہیں چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں اس دن سے سابقہ پڑے جس میں یہ بےہوش کر دیئے جائیں گے۔‏

يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۴۶)

جس دن انہیں ان کا مکر کچھ کام نہ دے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔‏

وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۴۷)

بیشک ظالموں کے لئے اس کے علاوہ اور عذاب بھی ہیں (١) لیکن ان لوگوں میں سے اکثر بےعلم ہیں (۲)‏

۱۔ یعنی دنیا میں، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ  لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ۔ (الم السجدہ۲۱)

۲۔ اس بات سے کہ دنیا کے یہ عذاب اور مصائب، اس لئے ہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کریں یہ نکتہ چونکہ نہیں سمجھتے اس لئے گناہوں سے تائب نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔

جس طرح ایک حدیث میں فرمایا :

 منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہو جاتا ہے تو اسکی مثال اونٹ کی سی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا۔ اور کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا؟ (ابوداؤد کتاب الجنائز نمبر۳۰۸۹)

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ (۴۸)

تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے، بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔

صبح کو جب تو اٹھے (۱) اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کر۔‏

اس کھڑے ہونے سے کونسا کھڑا ہونا مراد ہے؟

بعض کہتے ہیں جب نماز کے لئے کھڑے ہوں جیسے آغاز نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ پڑھی جاتی ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس میں کھڑے ہوں جیسے حدیث میں آتا ہے:

 جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو یہ اسکی مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔

سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت أستغفرک واتوب الیک ۔

وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ (۴۹)

اور رات کو بھی اس کی تسبیح پڑھ اور ستاروں کے ڈوبتے وقت بھی  

اس سے مراد قیام اللیل۔ یعنی نماز تہجد، جو عمر بھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter