Tafsir Ibn Kathir (English)

Surah Al Tin

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

اردو اور عربی فونٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (1)

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔‏

وَطُورِ سِينِينَ (2)

اور طور سینین کی

یہ وہی کوہ طور ہے جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا تھا

وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (3)

اور اس امن والے شہر کی

اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جس میں قتال کی اجازت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جو اس میں داخل ہو جائے، اسے بھی امن حاصل ہوتا ہے۔

 بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دراصل تین مقامات کی قسم ہے جن میں سے ہر ایک جگہ میں جلیل القدر پیغمبر مبعوث ہوئے،

-        انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں پر اس کی پیداوار ہوئی اور وہ ہے بیت المقدس، جہاں حضرت عیسیٰ پیغمبر بن کر آئے،

-         سنین پر حضرت موسیٰ کو نبوت ملی،

-          اور شہر مکہ میں سیدالرسل حضرت محمد کی بعثت ہوئی۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4)

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا

یہ جواب قسم ہے،

 اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس طرح پیدا کیا کہ اس کا منہ نیچے کو جھکا ہوا ہے

صرف انسان کو دراز قد، سیدھا بنایا ہے جو اپنے ہاتھوں سے کھاتا پیتا ہے، پھر اس کے اعضا کو نہایت تناسب کے ساتھ بنایا، ان میں جانوروں کی طرح بےڈھنگا پن نہیں ہے۔

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5)

پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا۔

یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آ جاتا ہے اور انسان کی عقل اور ذہن بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔

 بعض نے اس سے کردار کا وہ سفلہ پن لیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان انتہائی پست اور سانپ بچھو سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے

بعض نے اس سے ذلت ورسوائی کا وہ عذاب مراد لیا ہے جو جہنم میں کافروں کے لیے ہے،

گویا انسان اللہ اور رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کے اسفل السافلین میں ڈال لیتا ہے۔

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (6)

لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کئے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔‏

فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ (7)

پس تجھے اب روز جزا کے جھٹلانے پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے

یہ انسان سے خطاب ہے کہ اللہ نے تجھے بہترین صورت میں پیدا کیا اور وہ تجھے اور اس کے برعکس ذلت میں گرانے کی قدرت رکھتا ہے۔

 اس کا مطلب ہے کہ اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اس کے بعد بھی تو قیامت اور جزا کا انکار کرتا ہے۔

أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ (8)

کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم نہیں ہے۔

جو کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس کے عدل ہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ قیامت برپا کرے اور ان کی داد رسی کرے جن پر دنیا میں ظلم ہوا۔

*********

Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Mar 2019

hit counter